آپ خدا سے عزت پانا چاہتے ہیں یا انسان سے؟
”جو دل سے فروتن ہے عزت حاصل کرے گا۔“ —امثا ۲۹:۲۳۔
۱، ۲. (الف) امثال ۲۹:۲۳ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ عزت کِیا گیا ہے، اُس کا اصل مطلب کیا ہے؟ (ب) ہم اِس مضمون میں کن سوالوں پر غور کریں گے؟
جب آپ لفظ عزت سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ کیا آپ اُس عزت کے بارے میں سوچتے ہیں جو کسی دولتمند، دانشمند یا ایک کامیاب شخص کو دی جاتی ہے؟ امثال ۲۹:۲۳ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ عزت کِیا گیا ہے، اُس کا اصل مطلب ہے، وزنی۔ پُرانے زمانے میں سکے قیمتی دھاتوں سے بنائے جاتے تھے۔ ایک سکہ جتنا زیادہ وزنی ہوتا تھا، اُس کی قیمت بھی اُتنی ہی زیادہ ہوتی تھی۔ اِسی لئے جو عبرانی الفاظ وزن کے معنی پیش کرتے تھے، وہ قیمتی، شاندار یا قابلِقدر کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگے۔
۲ انسان تو اکثر کسی شخص کے مرتبے، شہرت یا اختیار سے متاثر ہو کر اُس کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن یہوواہ خدا کس طرح کے لوگوں کو عزت بخشتا ہے؟ اِس سلسلے میں امثال ۲۲:۴ میں لکھا ہے: ”دولت اور عزتوحیات [یہوواہ] کے خوف اور فروتنی کا اجر ہیں۔“ اِس کے علاوہ شاگرد یعقوب نے لکھا: ”[یہوواہ] کے سامنے فروتنی کرو۔ وہ تمہیں سربلند کرے گا۔“ (یعقو ۴:۱۰) یہوواہ خدا ہمیں عزت کیسے بخشتا ہے؟ ہم یہوواہ خدا سے عزت حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہو سکتے ہیں؟ ہم یہوواہ خدا سے عزت پانے میں دوسروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
۳-۵. یہوواہ خدا ہمیں عزت کیسے بخشتا ہے؟
۳ زبور نویس کو پورا بھروسا تھا کہ یہوواہ خدا اُسے عزت اور جلال بخشے گا۔ (زبور ۷۳:۲۳، ۲۴ کو پڑھیں۔) یہوواہ خدا نے اپنے فروتن خادموں کو عزت کیسے بخشی ہے؟ اُس نے اُنہیں اپنی مرضی اور مقصد کے بارے میں علم عطا کِیا ہے۔ (۱-کر ۲:۷) اِس کے علاوہ اُس نے اپنے فرمانبردار بندوں کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ وہ اُس کی قربت میں رہیں۔—یعقو ۴:۸۔
۴ یہوواہ خدا نے اپنے بندوں کو ایک قیمتی خزانہ بھی دیا ہے۔ یہ خزانہ بادشاہت کی خوشخبری پھیلانے کا اعزاز ہے۔ (۲-کر ۴:۱، ۷) جب ہم بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں تو ہم خدا کی تمجید کرتے ہیں اور دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔ اِس صورت میں یہوواہ خدا ہمیں عزت بخشتا ہے۔ اُس نے وعدہ کِیا ہے: ”جو میری عزت کرتے ہیں مَیں اُن کی عزت کروں گا۔“ (۱-سمو ۲:۳۰) یہوواہ خدا اُن مسیحیوں کی عزت کرتا ہے جو اُس کی بادشاہت کی خوشخبری سناتے ہیں۔ ایسے مسیحی کلیسیا کے ارکان کی نظر میں بھی نیکنام ٹھہرتے ہیں۔—امثا ۱۱:۱۶؛ ۲۲:۱۔
۵ ’یہوواہ کی آس رکھنے اور اُس کی راہ پر چلنے‘ والے مسیحیوں کا مستقبل کیسا ہوگا؟ اُن سے وعدہ کِیا گیا ہے کہ خدا ’اُنہیں سرفراز کرکے زمین کا وارث بنائے گا اور جب شریر کاٹ ڈالے جائیں گے تو وہ دیکھیں گے۔‘ (زبور ۳۷:۳۴) وہ اُس وقت کے منتظر ہیں جب اُنہیں ہمیشہ تک زندہ رہنے کا شاندار اعزاز حاصل ہو گا۔—زبور ۳۷:۲۹۔
”مَیں آدمیوں سے عزت نہیں چاہتا“
۶، ۷. بہت سے لوگ یسوع مسیح پر ایمان کیوں نہیں لانا چاہتے تھے؟
۶ ہم خدا سے عزت حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہو سکتے ہیں؟ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہم اِس بات کی حد سے زیادہ فکر کرتے ہیں کہ دُنیا کے لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ غور کریں کہ یوحنا رسول نے یسوع مسیح کے زمانے کے کچھ بااختیار اشخاص کے بارے میں کیا کہا۔ اُنہوں نے لکھا: ”سرداروں میں سے بھی بہتیرے [یسوع مسیح] پر ایمان لائے مگر فریسیوں کے سبب سے اقرار نہ کرتے تھے تا ایسا نہ ہو کہ عبادتخانہ سے خارج کئے جائیں۔ کیونکہ وہ خدا سے عزت حاصل کرنے کی نسبت انسان سے عزت حاصل کرنا زیادہ چاہتے تھے۔“ (یوح ۱۲:۴۲، ۴۳) اگر اِن سرداروں نے اِس بات کی فکر نہ کی ہوتی کہ فریسی اُن کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو اُنہیں کتنا فائدہ ہوتا۔
۷ یسوع مسیح پہلے بتا چکے تھے کہ بہت سے لوگ کیوں اُن پر ایمان نہیں لائیں گے۔ (یوحنا ۵:۳۹-۴۴ کو پڑھیں۔) بنیاسرائیل کو کئی صدیوں سے مسیح کے آنے کا انتظار تھا۔ جب یسوع نے تعلیم دینا شروع کی تو شاید کچھ اشخاص نے دانیایل نبی کی پیشینگوئی سے یہ اندازہ لگا لیا ہو کہ مسیح کے آنے کا وقت آ گیا ہے۔ اِس سے پہلے یوحنا بپتسمہ دینے والے کو مُنادی کرتے دیکھ کر لوگ کہنے لگے تھے کہ ”آیا وہ مسیح ہے یا نہیں۔“ (لو ۳:۱۵) اب مسیح آ چُکا تھا جس کا اُنہیں انتظار تھا اور وہ لوگوں کو تعلیم دے رہا تھا۔ لیکن شریعت کے عالموں نے اُسے قبول نہ کِیا۔ اِس کی وجہ پر روشنی ڈالتے ہوئے یسوع مسیح نے اُن عالموں سے پوچھا: ’تُم کیوں کر ایمان لا سکتے ہو؟ تُم ایک دوسرے سے عزت پانا چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدایِواحد کی طرف سے ملتی ہے اُسے حاصل کرنا نہیں چاہتے۔‘
۸، ۹. روشنی کی مثال دے کر سمجھائیں کہ ہم خدا سے عزت پانے کی بجائے انسانوں سے عزت پانے کی طرف مائل کیسے ہو سکتے ہیں۔
۸ ہم خدا سے عزت پانے کی بجائے انسانوں سے عزت پانے کی طرف مائل کیسے ہو سکتے ہیں؟ اِس بات کو سمجھنے کے لئے ذرا عزت اور جلال کا موازنہ روشنی سے کریں۔ ہماری کائنات روشن ستاروں سے بھری پڑی ہے۔ شاید آپ کو کوئی ایسا لمحہ یاد ہو جب رات کے وقت آپ نے ستاروں بھرے آسمان کو دیکھا تھا اور آپ اُن کی خوبصورتی میں کھو گئے تھے۔ ”ستاروں کا جلال“ اور شان بیان سے باہر ہے۔ (۱-کر ۱۵:۴۰، ۴۱) لیکن جب ہم روشنیوں سے چکاچوند کسی شہر کے بازار میں کھڑے ہو کر اُوپر دیکھتے ہیں تو آسمان کیسا نظر آتا ہے؟ شہر کی روشنیوں میں ہم ستاروں کی روشنی کو اچھی طرح دیکھ نہیں پاتے۔ کیا اِس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کی سڑکوں اور عمارتوں سے آنے والی روشنی ستاروں کی روشنی سے زیادہ تیز اور خوبصورت ہوتی ہے؟ جینہیں۔ وجہ یہ ہے کہ شہر کی روشنیاں ہمارے نزدیک ہوتی ہیں اور ہماری نظر پوری طرح ستاروں تک نہیں پہنچتی۔ آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کو دیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مصنوعی روشنی سے دُور کسی مقام پر جائیں۔
۹ اِسی طرح اگر ہمارے نزدیک انسانوں سے عزت حاصل کرنا زیادہ اہم ہے تو ہم خدا سے ملنے والی عزت کے فائدوں کو دیکھ نہیں پاتے۔ بہت سے لوگ اِس ڈر سے بادشاہت کا پیغام قبول نہیں کرتے کہ اُن کے رشتہدار یا واقفکار کیا کہیں گے۔ کیا انسانوں سے عزت پانے کی خواہش یہوواہ خدا کے خادموں میں بھی جنم لے سکتی ہے؟ فرض کریں کہ ایک جوان بھائی کو ایسے علاقے میں مُنادی کا کام کرنے کے لئے کہا جاتا ہے جہاں کافی لوگ اُسے جانتے تو ہیں مگر یہوواہ کے گواہ کے طور پر نہیں۔ کیا اُسے ایسے علاقے میں مُنادی کرنے سے گھبرانا چاہئے؟ یا شاید کوئی بہن یا بھائی خدا کی خدمت زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتا ہے مگر دوسرے اُس کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ کیا اُسے ایسے لوگوں کی باتوں میں آنا چاہئے جو خدا کی خدمت کرنا اہم نہیں سمجھتے؟ یا شاید کسی مسیحی سے کوئی سنگین گُناہ ہو گیا ہے۔ کیا اُسے یہ سوچ کر اپنا گُناہ چھپانا چاہئے کہ کلیسیا میں اُس کی بدنامی نہ ہو یا اُس کے گھر والوں کو دُکھ نہ پہنچے؟ اگر وہ چاہتا ہے کہ یہوواہ خدا کے ساتھ اُس کی دوستی پر کوئی آنچ نہ آئے تو وہ ”کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے“ گا اور اُن سے مدد لے گا۔—یعقوب ۵:۱۴-۱۶ کو پڑھیں۔
۱۰. (الف) اگر ہمیں حد سے زیادہ فکر رہتی ہے کہ دوسرے ہمارے متعلق کیا سوچتے ہیں تو اِس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟ (ب) اگر ہم فروتنی سے کام لیتے ہیں تو ہم کیا یقین رکھ سکتے ہیں؟
۱۰ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک پُختہ مسیحی بننے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ایک بھائی اکثر ہماری اصلاح کرتا ہے۔ ہم اُس کی اصلاح قبول کرکے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم غرور سے کام لیتے ہیں، اپنی ناک بچانے کی فکر میں رہتے ہیں اور اپنے کاموں کے لئے جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اُس کی اصلاح کو نظرانداز کرنے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ یا شاید آپ کو اور کسی دوسرے بھائی یا بہن کو کوئی کام سونپا گیا ہے۔ ایسی صورت میں کیا آپ کو یہ فکر رہتی ہے کہ یہ کام کرنے کے لئے جو مشورے آپ دیتے ہیں اور جو محنت آپ کرتے ہیں، اُس کے لئے داد کہیں آپ کے ساتھی کو نہ مل جائے؟ اگر آپ اِن دونوں میں سے کسی بھی صورتحال سے گزر رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ ”جو دل سے فروتن ہے عزت حاصل کرے گا۔“—امثا ۲۹:۲۳۔
۱۱. جب ہمیں داد ملتی ہے تو ہمیں کیسا محسوس کرنا چاہئے اور کیوں؟
۱۱ جو بھائی بزرگ ہیں اور جو بھائی بزرگ بننے کی کوشش کر رہے ہیں، اُنہیں انسانوں سے داد حاصل کرنے کی نیت سے خدمت نہیں کرنی چاہئے۔ (۱-تیم ۳:۱؛ ۱-تھس ۲:۶) جب کوئی اچھا کام کرنے کی وجہ سے کسی بھائی کی تعریف ہوتی ہے تو اُسے کیسا ردِعمل ظاہر کرنا چاہئے؟ بِلاشُبہ وہ بادشاہ ساؤ ل کی طرح ”اپنے لئے یادگار کھڑی“ نہیں کرے گا۔ (۱-سمو ۱۵:۱۲) لیکن کیا وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ اُس نے جو بھی کِیا، وہ سب یہوواہ خدا کی مدد سے کِیا ہے اور آئندہ بھی اُسے جو کامیابی ملے گی، وہ صرف یہوواہ خدا کی برکت کا نتیجہ ہوگی؟ (۱-پطر ۴:۱۱) اپنی تعریف سُن کر ہم جیسا محسوس کرتے ہیں، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کس سے عزت پانا چاہتے ہیں، خدا سے یا انسان سے؟—امثا ۲۷:۲۱۔
’تُم اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو‘
۱۲. بعض یہودیوں نے یسوع مسیح کی باتوں پر دھیان کیوں نہیں دیا تھا؟
۱۲ ہم اپنی غلط خواہشوں کی وجہ سے بھی خدا سے عزت پانے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی غلط خواہشوں کی وجہ سے بائبل کی تعلیمات پر بالکل کان نہ دھرے۔ (یوحنا ۸:۴۳-۴۷ کو پڑھیں۔) یسوع مسیح نے بعض یہودیوں سے کہا تھا کہ ’تُم میری باتیں اِس لئے نہیں سنتے کیونکہ تُم اپنے باپ اِبلیس کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔‘
۱۳، ۱۴. (الف) تحقیق کے مطابق ہمارا دماغ انسانی آوازوں کے سلسلے میں کیا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟ (ب) ہم اکثر کس کی بات سننے کا انتخاب کرتے ہیں؟
۱۳ ہم اکثر اُنہی باتوں پر دھیان دیتے ہیں جو ہماری پسند کی ہوتی ہیں۔ (۲-پطر ۳:۵) یہ قابلِغور بات ہے کہ جب ہم کسی کام میں مصروف ہوتے ہیں تو ہمارا دماغ اِردگِرد کی آوازوں کو خودبخود نظرانداز کر دیتا ہے۔ اِس وقت آپ جس کام میں مصروف ہیں، اُسے تھوڑی دیر کے لئے روک دیں اور غور کریں کہ اب آپ کونسی مختلف آوازیں سُن رہے ہیں۔ کچھ لمحے پہلے شاید آپ اِن میں سے بعض آوازیں نہیں سُن رہے تھے۔ اگرچہ ہمارا دماغ بہت سی آوازیں سننے کی صلاحیت رکھتا ہے پھر بھی یہ ایک وقت میں ایک کام پر دھیان دینے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ انسانی آوازوں کے سلسلے میں دماغ کی یہ صلاحیت کام نہیں کرتی۔ جب ہم دو انسانوں کی آواز سنتے ہیں تو ہمارا دماغ اِن میں سے کسی ایک کو خودبخود نظرانداز نہیں کرتا۔ ایسی صورت میں ہمیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ ہم کس کی بات سنیں گے۔ ہم اُسی شخص کی بات پر دھیان دیں گے جس کی بات ہم سننا چاہتے ہیں۔ یہودی اپنے باپ اِبلیس کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے تھے اِس لئے اُنہوں نے یسوع مسیح کی بات پر دھیان نہیں دیا تھا۔
۱۴ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ حکمت اور حماقت دونوں ہمیں اپنی طرف بلاتی ہیں۔ (امثا ۹:۱-۵، ۱۳-۱۷) فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کس کی آواز سنیں گے۔ ہمارے انتخاب کا انحصار اِس بات پر ہے کہ ہم کس کی مرضی پر چلنا چاہتے ہیں، خدا کی یا شیطان کی۔ یسوع مسیح کی بھیڑیں اُن کی آواز سنتی ہیں اور اُن کے پیچھے چلتی ہیں۔ (یوح ۱۰:۱۶، ۲۷) وہ ”حقانی“ ہیں یعنی سچائی سے محبت رکھتی ہیں۔ (یوح ۱۸:۳۷) وہ ”غیروں کی آواز نہیں پہچانتیں۔“ (یوح ۱۰:۵) اِن بھیڑوں یعنی عاجز مسیحیوں کو خدا سے عزت ملتی ہے۔—امثا ۳:۱۳، ۱۶؛ ۸:۱، ۱۸۔
”وہ تمہارے لئے عزت کا باعث ہیں“
۱۵. پولس رسول کی مصیبتیں مسیحیوں کے لئے ”عزت کا باعث“ کیسے ثابت ہوئیں؟
۱۵ ہم خدا سے عزت حاصل کرنے میں اپنے بہنبھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم مشکلات کے باوجود خدا کے وفادار رہنے سے اُن کے لئے ایک اچھی مثال قائم کریں۔ پولس رسول نے افسس کی کلیسیا کو لکھا: ”مَیں درخواست کرتا ہوں کہ تُم میری اُن مصیبتوں کے سبب سے جو تمہاری خاطر سہتا ہوں ہمت نہ ہارو کیونکہ وہ تمہارے لئے عزت کا باعث ہیں۔“ (افس ۳:۱۳) پولس رسول کی مصیبتیں افسس کے مسیحیوں کے لئے ”عزت کا باعث“ کیسے ثابت ہوئیں؟ پولس رسول نے مشکلات کے باوجود اُن کی خدمت کرنا جاری رکھا۔ یوں اُنہوں نے افسس کے مسیحیوں کو سکھایا کہ جو ذمہداریاں اور شرف ایک مسیحی کو بخشے جاتے ہیں، وہ نہایت بیشقیمت اور اہم ہیں۔ اگر پولس رسول مصیبتوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تو اُن کے مسیحی بہنبھائیوں کو لگتا کہ خدا کے ساتھ دوستی کرنے، اُس کی خدمت کرنے اور آسمان پر جانے کی اُمید رکھنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پولس رسول کی برداشت اور وفاداری نے ثابت کِیا کہ مسیح کے شاگرد بننا اِتنا بڑا اعزاز ہے کہ اِس کے لئے جو بھی قربانی دی جائے، کم ہے۔
۱۶. شہر لسترہ میں پولس رسول کو کونسی مصیبت سے گزرنا پڑا؟
۱۶ غور کریں کہ پولس رسول کے جوش اور برداشت کا دوسروں پر کیا اثر ہوا تھا۔ اعمال ۱۴:۱۹، ۲۰ میں لکھا ہے: ”بعض یہودی اؔنطاکیہ اور اِکنیمؔ سے آئے اور لوگوں کو اپنی طرف کرکے پولسؔ کو سنگسار کِیا اور اُس کو مُردہ سمجھ کر شہر [لسترہ] کے باہر گھسیٹ لے گئے۔ مگر جب شاگرد اُس کے گِرداگِرد آ کھڑے ہوئے تو وہ اُٹھ کر شہر میں آیا اور دوسرے دن برؔنباس کے ساتھ دؔربے کو چلا گیا۔“ ذرا سوچیں کہ پولس رسول کے لئے یہ سفر کتنا تکلیفدہ رہا ہوگا۔ اُنہیں اِتنی بُری طرح سنگسار کِیا گیا تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ وہ مر گئے ہیں۔ لیکن اِس واقعے کے اگلے ہی دن اُنہوں نے پیدل ۱۰۰ کلو میٹر (۶۰ میل) کا سفر کِیا۔
۱۷، ۱۸. (الف) تیمتھیس اُن مصیبتوں کے بارے میں غالباً کیسے جانتے تھے جو شہر لسترہ میں پولس رسول پر آئی تھیں؟ (ب) پولس رسول کے صبر اور برداشت کا تیمتھیس پر کیا اثر ہوا؟
۱۷ کیا تیمتھیس اُن ’شاگردوں‘ میں شامل تھے جو پولس رسول کی مدد کو پہنچے تھے؟ اعمال کی کتاب میں اِس کا ذکر نہیں کِیا گیا۔ مگر ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ غور کریں کہ پولس رسول نے تیمتھیس کے نام اپنے دوسرے خط میں لکھا: ”تُو میری تعلیم، چالچلن . . . سے خوب واقف ہے۔ . . . تجھے معلوم ہے کہ مجھے کس طرح ستایا گیا اور میں نے کیاکیا دُکھ اُٹھائے یعنی وہ دُکھ جو اؔنطاکیہ، اِکنیمؔ اور لسترؔہ میں مجھ پر آ پڑے تھے۔ مگر خداوند نے مجھے اُن سب سے رہائی بخشی۔“ تیمتھیس نہ صرف یہ جانتے تھے کہ پولس رسول کو لسترہ میں سنگسار کِیا گیا تھا بلکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہودیوں نے اُنہیں انطاکیہ سے نکال دیا تھا اور اِکنیم میں اُنہیں سنگسار کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔—۲-تیم ۳:۱۰، ۱۱، نیو اُردو بائبل ورشن؛ اعما ۱۳:۵۰؛ ۱۴:۵، ۱۹۔
۱۸ تیمتھیس اِس بات سے خوب واقف تھے کہ پولس رسول نے کیسیکیسی مصیبتیں سہی تھیں۔ اِس بات کا تیمتھیس کے ذہن پر بہت گہرا اثر ہوا تھا۔ جب پولس رسول، لسترہ گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ تیمتھیس کلیسیا میں بڑی لگن سے کام کر رہے ہیں اور ”لسترؔہ اور اِکنیمؔ کے بھائیوں میں نیکنام“ ہیں۔ (اعما ۱۶:۱، ۲) وقت کے ساتھساتھ تیمتھیس بھاری ذمہداریاں اُٹھانے کے لائق بن گئے۔—فل ۲:۱۹، ۲۰؛ ۱-تیم ۱:۳۔
۱۹. جب ہم مشکلات کے باوجود خدا کے وفادار رہتے ہیں تو اِس کا دوسرے مسیحیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟
۱۹ جب ہم مشکلات کے باوجود خدا کے وفادار رہتے ہیں تو اِس کا دوسرے مسیحیوں پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان ہماری مثال سے سیکھیں گے اور بڑے ہو کر پوری لگن سے خدا کی خدمت کریں گے۔ نوجوان صرف یہی نہیں دیکھتے کہ ہم مُنادی کے کام میں لوگوں سے کیسے بات کرتے ہیں بلکہ وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم زندگی میں آنے والی مشکلات سے کیسے نپٹتے ہیں۔ پولس رسول نے کہا کہ اُنہوں نے مصیبتیں اِس لئے سہیں تاکہ وہ ”ابدی جلال سمیت“ نجات حاصل کرنے میں دوسروں کی مدد کر سکیں۔—۲-تیم ۲:۱۰۔
۲۰. ہمیں خدا سے عزت حاصل کرنے کی کوشش کیوں جاری رکھنی چاہئے؟
۲۰ ہم نے بہت سی ایسی وجوہات پر غور کِیا ہے جن کی بِنا پر ہمیں ’خدایِواحد کی طرف سے عزت‘ حاصل کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے۔ (یوح ۵:۴۴؛ ۷:۱۸) مثال کے طور پر یہوواہ خدا ”جلال . . . کے طالب“ لوگوں کو ”ہمیشہ کی زندگی دے گا۔“ (رومیوں ۲:۶، ۷ کو پڑھیں۔) اِس کے علاوہ جب ہم ”نیکوکاری میں ثابتقدم“ رہتے ہیں تو دوسروں کو بھی خدا کے وفادار رہنے کی ترغیب ملتی ہے اور یوں وہ بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم کسی بھی وجہ سے خدا سے عزت پانے میں ناکام نہیں ہوں گے۔