یہوواہ خدا زبورنویس کی دلی دُعا پوری کرے گا
”تاکہ وہ جان لیں کہ تُو جس کا نام یہوواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“—زبور ۸۳:۱۸۔
۱، ۲. (ا) بہتیرے لوگوں کے ساتھ کس قسم کا واقعہ پیش آیا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کن سوالوں کا جواب دیں گے؟
کچھ سال پہلے ایک عورت کے پڑوس میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھی۔ چونکہ وہ کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتی تھی اس لئے وہ تسلی پانے کے لئے پادری کے پاس گئی۔ لیکن وہ اُس سے بات تک کرنے کو تیار نہ تھا۔ لہٰذا اُس عورت نے خدا سے یوں دُعا کی: ”اَے خدا، مَیں یہ نہیں جانتی کہ تُو کون ہے . . . لیکن مَیں یہ ضرور جانتی ہوں کہ تیرا وجود ہے۔ اَے خدا، خود کو مجھ پر ظاہر کر۔“ اِس کے تھوڑے ہی عرصے بعد یہوواہ کے گواہ اُس سے ملنے کے لئے آئے۔ اُنہوں نے اُسے بڑی تسلی دی۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے اُسے بائبل میں سے بہت کچھ سکھایا۔ جب اِس عورت نے سیکھا کہ خدا کا نام یہوواہ ہے تو وہ بہت خوش ہوئی۔ وہ کہتی ہے: ”مَیں بچپن سے سچے خدا کے بارے میں سیکھنا چاہتی تھی۔“
۲ بہتیرے لوگوں کے ساتھ کچھ اِسی قسم کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اکثر اُنہوں نے خدا کا نام پہلی بار تب دیکھا جب اُنہوں نے بائبل میں زبور ۸۳:۱۸ کو پڑھا تھا۔ اِس آیت میں لکھا ہے: ”تاکہ وہ جان لیں کہ تُو ہی جس کا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“ کیا آپ نے کبھی اِس کے بارے میں سوچا ہے کہ زبورنویس نے زبور ۸۳ کو کیوں لکھا تھا؟ وہ کونسے واقعات ہیں جن کی بِنا پر تمام لوگوں کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے؟ ہم زبور ۸۳سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں پر غور کریں گے۔a
یہوواہ کی قوم کے خلاف سازش
۳، ۴. (ا) زبور ۸۳ کو کس نے درج کِیا؟ (ب) اُس نے زبور ۸۳ میں کس سازش کی طرف اشارہ کِیا؟
۳ زبور ۸۳ کے تمہیدی فقرے کے مطابق یہ ”آسف کا مزمور“ ہے۔ ممکن ہے کہ اِس مزمور کو آسف کی نسل میں سے کسی نے لکھا تھا۔ آسف ایک لاوی اور نامور موسیقار تھا جو بادشاہ داؤد کے زمانے میں رہتا تھا۔ اِس زبور میں زبورنویس التجا کرتا ہے کہ یہوواہ خدا اپنے نام کی بڑائی کرے اور یہ ثابت کرے کہ وہ ہی کائنات میں حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے۔ زبور ۸۳ کو بادشاہ سلیمان کی موت کے کچھ عرصے بعد تحریر کِیا گیا ہوگا۔ ہم ایسا اس لئے کہہ سکتے ہیں کیونکہ داؤد اور سلیمان کی حکمرانی کے دوران اسرائیلیوں اور صوریوں کے آپس کے تعلقات اچھے تھے۔ لیکن جس زمانے میں زبور ۸۳ کو تحریر کِیا گیا اُس وقت صور کے باشندے بنیاسرائیل کے دُشمنوں کا ساتھ دے رہے تھے۔
۴ زبورنویس دس ایسی قوموں کا ذکر کرتا ہے جو خدا کی قوم کے خلاف سازش کر رہی تھیں۔ یہ تمام قومیں بنیاسرائیل کے علاقے کے اِردگِرد آباد تھیں۔ اِن قوموں کے نام یہ ہیں: ”اؔدوم کے اہلِخیمہ اور اسمٰعیلی موآؔب اور ہاؔجری۔ جبلؔ اور عموؔن اور عماؔلیق۔ فلستینؔ اور صوؔر کے باشندے۔ [اور] اؔسور۔“ (زبور ۸۳:۶-۸) زبور ۸۳ میں زبورنویس کس واقعہ کا ذکر کر رہا تھا؟ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اُس واقعے کا ذکر کر رہا تھا جب بادشاہ یہوسفط کے زمانے میں بنیعمون اور بنی موآب اور کوہِشعیر کے لوگوں نے متحد ہو کر بنیاسرائیل پر چڑھائی کی۔ (۲-توا ۲۰:۱-۲۶) دوسروں کا کہنا ہے کہ زبورنویس ایک خاص واقعے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ تاریخ کے دوران بنیاسرائیل کے خلاف ہونے والی تمام دُشمنیوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
۵. زبور ۸۳ مسیحیوں کے لئے حوصلے کا باعث کیوں ہے؟
۵ زبور ۸۳ میں درج زبورنویس کی دُعا خدا کے الہام سے لکھی گئی تھی۔ اِس زبور کو اُس وقت درج کِیا گیا تھا جب یہوواہ خدا کی قوم کو دُشمنوں کی طرف سے خطرہ لاحق تھا۔ خدا کے خادم آج بھی اِس زبور سے حوصلہ پا سکتے ہیں کیونکہ اُن کے دُشمن ہمیشہ سے اُن کا نامونشان مٹانے کی کوشش میں رہے ہیں۔ اور مستقبل میں بھی یہ ہمارے لئے حوصلے کا باعث ہوگا جب جوج یعنی شیطان اپنے لشکروں کے ساتھ اُن لوگوں کو ختم کرنے کی آخری کوشش کرے گا جو روح اور سچائی سے خدا کی عبادت کرتے ہیں۔—حزقیایل ۳۸:۲، ۸، ۹، ۱۶ کو پڑھیں۔
زبورنویس کو کس بات کی سب سے زیادہ فکر تھی؟
۶، ۷. (ا) زبورنویس اپنی دُعا کے آغاز میں کس بات کی درخواست کرتا ہے؟ (ب) زبورنویس کو کس بات کی سب سے زیادہ فکر تھی؟
۶ آئیں ہم زبورنویس کی دُعا پر غور کریں۔ اُس نے التجا کی: ”اَے خدا!خاموش نہ رہ۔ اَے خدا چپچاپ نہ ہو اور خاموشی اختیار نہ کر!کیونکہ دیکھ تیرے دُشمن اُودھم مچاتے ہیں اور تجھ سے عداوت رکھنے والوں نے سر اُٹھایا ہے۔ کیونکہ وہ تیرے لوگوں کے خلاف مکاری سے منصوبہ باندھتے ہیں۔ . . . کیونکہ اُنہوں نے ایکا کرکے آپس میں مشورہ کِیا ہے۔ وہ تیرے خلاف عہد باندھتے ہیں۔“—زبور ۸۳:۱-۳، ۵۔
۷ زبورنویس کو کس بات کی سب سے زیادہ فکر تھی؟ ظاہری بات ہے کہ اُسے اپنی اور اپنے خاندان کی فکر تھی۔ لیکن اُسے سب سے زیادہ فکر اِس بات کی تھی کہ یہوواہ خدا کے نام کی توہین کی جا رہی تھی اور اُس قوم کے خلاف سازش کی جا رہی تھی جو یہوواہ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ یہی وہ باتیں تھیں جن کے سلسلے میں اُس نے دُعا کی۔ اِس بُرے زمانے کے آخری دنوں میں ہمیں بھی چاہئے کہ ہم حد سے زیادہ اپنی فکر کرنے کی بجائے خدا کے نام کی فکر رکھیں۔—متی ۶:۹، ۱۰ کو پڑھیں۔
۸. قومیں بنیاسرائیل کے خلاف کیوں سازش کر رہی تھیں؟
۸ زبورنویس نے بتایا کہ بنیاسرائیل کے دُشمن کہہ رہے تھے: ”آؤ ہم اِن کو کاٹ ڈالیں کہ اِن کی قوم ہی نہ رہے اور اؔسرائیل کے نام کا پھر ذکر نہ ہو۔“ (زبور ۸۳:۴) واقعی یہ قومیں خدا کے خادموں سے بڑی نفرت کرتی تھیں۔ اُنہوں نے بنیاسرائیل کے خلاف اِس لئے بھی سازش کی کیونکہ وہ اسرائیل کے علاقے پر قبضہ جمانا چاہتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے: ”آؤ ہم خدا کی بستیوں پر قبضہ کر لیں۔“ (زبور ۸۳:۱۲) کیا خدا کے دُشمنوں نے ہمارے زمانے میں بھی ایسی سازش کی ہے؟ جیہاں۔
’تیرا مُقدس مکان‘
۹، ۱۰. (ا) قدیم زمانے میں خدا کا مُقدس مکان کیا تھا؟ (ب) ممسوح مسیحیوں اور یسوع کی ’اَور بھی بھیڑوں‘ کو کونسی برکات سے نوازا گیا ہے؟
۹ قدیم زمانے میں خدا نے بنیاسرائیل سے جس ملک کا وعدہ کِیاتھا، اُسے خدا کا مُقدس مکان کہا جاتا تھا۔ جب بنیاسرائیل مصر سے رہا ہوئے تھے تو اُنہوں نے ایک گیت میں یوں گایا تھا: ”اپنی رحمت سے تُو نے اُن لوگوں کی جن کو تُو نے خلاصی بخشی راہنمائی کی۔ اور اپنے زور سے تُو اُن کو اپنے مُقدس مکان کو لے چلا ہے۔“ (خر ۱۵:۱۳) بعد میں اِس ”مُقدس مکان“ میں ہیکل کو تعمیر کِیا گیا جس میں کاہن خدمت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ اِس میں دارالحکومت یروشلیم کو بھی تعمیر کِیا گیا جہاں داؤد کا شاہی سلسلہ یہوواہ خدا کے تخت پر بیٹھ کر حکمرانی کرتا تھا۔ (۱-توا ۲۹:۲۳) اِس وجہ سے یسوع مسیح نے یروشلیم کو ”بزرگ بادشاہ کا شہر“ کہا۔—متی ۵:۳۵۔
۱۰ سن ۳۳ عیسوی میں ایک نئی قوم وجود میں آئی جسے ”خدا کے اؔسرائیل“ کا لقب دیا گیا۔ (گل ۶:۱۶) یہ قوم یسوع کے مسحشُدہ بھائیوں پر مشتمل ہے۔ بنیاسرائیل یہوواہ کے نام کی گواہی دینے میں ناکام رہے اور اس لئے یہوواہ نے یہ شرف ”خدا کے اؔسرائیل“ کے سپرد کر دیا۔ (یسع ۴۳:۱۰؛ ۱-پطر ۲:۹) یہوواہ خدا نے اِن ممسوح مسیحیوں سے وہی وعدہ کِیا جو اُس نے بنیاسرائیل سے کِیا تھا یعنی ”مَیں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے۔“ (۲-کر ۶:۱۶؛ احبا ۲۶:۱۲) سن ۱۹۱۹ میں یہوواہ نے ”خدا کے اؔسرائیل“ کو برکت دی اور اُنہیں ایک خاص ”مُلک“ کی ملکیت عطا کی۔ یہ کوئی اصلی ملک نہ تھا بلکہ اِس کا اشارہ اِس کی طرف تھا کہ یہوواہ نے اُن کو خاص ذمہداریاں سونپی ہیں اور اُنہیں روحانی فردوس میں آباد کِیا ہے۔ (یسع ۶۶:۸) سن ۱۹۳۰ سے یسوع کی ’اَور بھی بھیڑوں‘ نے ممسوح مسیحیوں کا ساتھ دینا شروع کِیا۔ (یوح ۱۰:۱۶) اِن مسیحیوں کی روحانی خوشحالی اور خوشی ثابت کرتی ہے کہ یہوواہ خدا کی حکمرانی سب سے اعلیٰ ہے۔ (زبور ۹۱:۱، ۲ کو پڑھیں۔) یہ دیکھ کر یقیناً شیطان غصے سے بھڑک اُٹھتا ہے۔
۱۱. شیطان اور اُس کے حمایتیوں کی سب سے بڑی آرزو کیا ہے؟
۱۱ اخیر زمانے کے دوران شیطان نے اپنے حمایتیوں کو ممسوح مسیحیوں اور یسوع کی ’اَور بھی بھیڑوں‘ کے خلاف اُکسایا ہے۔ مثال کے طور پر اُنہیں مغربی یورپ میں نازی حکومت کے ہاتھوں اور مشرقی یورپ میں کمیونسٹ حکومت کے ہاتھوں اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے دُنیا کے بہت سے دوسرے ممالک میں بھی اذیت اُٹھائی اور آئندہ بھی اُن پر اذیت ڈھائی جائے گی۔ یہ خاص طور پر اُس وقت ہو گا جب جوج یعنی شیطان اُن پر اپنا آخری وار کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت بھی یہوواہ کے خادموں کے دُشمن اُن کی ملکیت اور اُن کا مال لُوٹ لیں جس طرح ماضی میں بھی ہو چکا ہے۔ شیطان کی سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ وہ اُن لوگوں کا نامونشان مٹا دے جو یہوواہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایسی گستاخی پر یہوواہ خدا کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ آئیں اس سلسلے میں زبورنویس کے الفاظ پر غور کریں۔
یہوواہ اپنے دُشمنوں کو ہمیشہ شکست دیتا ہے
۱۲-۱۴. زبورنویس نے کن دو فتوحات کا ذکر کِیا جو شہر مجدو کے قریب واقع ہوئیں؟
۱۲ زبورنویس کو اِس بات پر پورا بھروسہ تھا کہ یہوواہ خدا اُس کے دُشمنوں کو ناکام کرے گا۔ اُس نے ماضی کے دو ایسے واقعات کا ذکر کِیا جب بنیاسرائیل نے اپنے دُشمنوں پر فتح حاصل کی تھی۔ یہ دونوں فتوحات مجدو نامی شہر کے قریب واقع ہوئی تھیں۔ یہ شہر، مجدو کی وادی کے نزدیک واقعے ہے۔ اِس وادی میں قیسون کی ندی بہتی ہے۔ گرمی کے موسم میں اِس ندی کا پانی سُوکھ جاتا ہے۔ لیکن جاڑے کے موسم میں جب بارشیں ہوتی ہیں تو وادی میں سیلاب آ جاتا ہے۔ شاید اِسی وجہ سے اِس ندی کو بائبل میں ’مجدؔو کے چشمے‘ بھی کہا کِیا گیا ہے۔—قضا ۴:۱۳؛ ۵:۱۹۔
۱۳ مجدو کے شہر سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر [۱۰ میل] دُور مجدو کی وادی کے اُس پار کوہِمورہ واقع ہے۔ یہاں پر جدعون کے زمانے میں مِدیانی، عمالیقی اور اہلِمشرق خدا کی قوم سے لڑنے کے لئے جمع ہوئے۔ (قضا ۷:۱، ۱۲) جدعون کا لشکر صرف ۳۰۰ آدمیوں پر مشتمل تھا۔ لیکن یہوواہ خدا کی مدد سے اِس چھوٹے سے لشکر نے دُشمنوں کے بڑے لشکر پر فتح حاصل کرلی۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ یہوواہ خدا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جدعون کے لشکر نے دُشمنوں کے ڈیرے کو رات کے وقت گھیرے میں لے لیا۔ تمام سپاہیوں کے ہاتھ میں ایک ایک گھڑا تھا جس میں ایک جلتی ہوئی مشعل پوشیدہ تھی۔ جدعون کے اشارے پر سپاہیوں نے گھڑوں کو توڑ ڈالا جس کی وجہ سے اُن کی مشعلیں دکھائی دینے لگیں۔ اس کے ساتھساتھ وہ اپنے اپنے نرسنگے پھونکنے لگے اور چلانے لگے: ”یہوؔواہ کی اور جدعوؔن کی تلوار!“ اِس ہنگامے کی وجہ سے دُشمن گھبرا گئے اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔ جو اِس خونریزی سے بچ گئے وہ اپنی جان بچانے کے لئے دریایِیردن کے پار بھاگ نکلے۔ اتنے میں بنیاسرائیل میں سے اَور لوگ بھی جدعون کے سپاہیوں کے ساتھ جا ملے اور اُنہوں نے دُشمنوں کا پیچھا کِیا۔ آخرکار دُشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار جنگجو مارے گئے۔—قضا ۷:۱۹-۲۵؛ ۸:۱۰.
۱۴ کوہِمورہ سے تقریباً چھ کلومیٹر [چار میل] آگے جا کر کوہِتبور آتا ہے۔ یہاں برق نے ۱۰،۰۰۰ آدمیوں کو جمع کِیا تھا۔ اُنہیں حصور کے بادشاہ یابین کے لشکر کا سامنا تھا جس کا سپہسالارسیسرا تھا۔ اِس کنعانی لشکر کے ۹۰۰ رتھ تھے جن کے پہیوں پر لوہے کے لمبے لمبے پھلڑے لگے تھے۔ جب پہیے گھومتے تھے تو یہ پھلڑے بھی گھومتے تھے۔ برق کے لشکر کے پاس ایسے کوئی ہتھیار نہیں تھے۔ وہ کوہِتبور پر جمع تھے جبکہ سیسرا کا لشکر مجدو کی وادی میں جمع تھا۔ پھر ”[یہوواہ] نے سیسرؔا اور اُس کی تمام گاڑیوں پر دہشت ڈالی۔ اور باراقؔ کے آگے اُس کے تمام لشکر کو تلوار کی دھار سے قتل کِیا۔“ ہو سکتا ہے کہ اچانک بارش ہونے کی وجہ سے وادی میں قیسون کا پانی پھیل گیا ہو اور سیسرا کے رتھ دَلدل میں پھنس گئے ہوں۔ یوں سیسرا کا پورے کا پورا لشکر اسرائیلوں کے ہاتھوں مارا گیا۔—قضا ۴:۱۳-۱۶؛ ۵:۱۹-۲۱، کیتھولک ترجمہ۔
۱۵. (ا) زبورنویس نے یہوواہ خدا سے کس بات کی التجا کی؟ (ب) خدا کے روزِعظیم کی لڑائی کو جو نام دیا گیا ہے یہ ہمیں کس بات کی یاد دلاتا ہے؟
۱۵ زبورنویس نے یہوواہ خدا سے التجا کی کہ جس طرح اُس نے جدعون اور برق کے زمانے میں بنیاسرائیل کے دُشمنوں کو شکست دی اسی طرح وہ اب بھی اسرائیل کے دُشمنوں کو شکست دے۔ اُس نے یوں دُعا کی: ”تُو اُن سے ایسا کر جیسا مدؔیان سے اور جیسا وادیِقیسوؔن میں سیسرؔا اور یاؔبین سے کِیا تھا۔ جو عینؔدور میں ہلاک ہوئے۔ وہ گویا زمین کی کھاد ہو گئے۔“ (زبور ۸۳:۹، ۱۰) دلچسپی کی بات ہے کہ خدا کے روزِعظیم کی لڑائی کا نام ہرمجدون (یعنی کوہِمجدو) ہے۔ یہ نام اُن لڑائیوں کی یاد دلاتا ہے جو ماضی میں مجدو کے نزدیک لڑی گئی تھیں۔ بالکل جس طرح یہوواہ خدا نے اُن لڑائیوں میں اپنے دُشمنوں کو شکست دی اسی طرح وہ ہرمجدون کی لڑائی میں بھی شیطان کو شکست دے گا۔—مکا۱۶:۱۳-۱۶۔
یہوواہ کے عظیم نام کی بڑائی ہو
۱۶. مخالفین کے ”چہروں پر رسوائی“ کیوں طاری ہوئی ہے؟
۱۶ ”اخیر زمانہ“ کے دوران بھی یہوواہ خدا نے اُن لوگوں کی تمام کوششوں کو ناکام کِیا ہے جو اُس کے خادموں کا نامونشان مٹانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ (۲-تیم ۳:۱) اس سے اِن مخالفین کی رسوائی ہوئی ہے۔ زبور ۸۳:۱۶ میں لکھا ہے: ”اَے [یہوواہ]! اُنکے چہروں پر رسوائی طاری کر تاکہ وہ تیرے نام کے طالب ہوں۔“ ہر ایسے ملک میں جہاں مخالفین نے یہوواہ کے گواہوں کو اذیت پہنچائی ہے وہ منادی کے کام کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے ممالک میں یہوواہ کے گواہ مضبوطی سے اپنے ایمان پر قائم رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہاں کے خلوص دل لوگ ’خدا کے نام کے طالب ہوئے ہیں۔‘ بہت سے ایسے ممالک میں جہاں یہوواہ کے گواہوں کو ماضی میں سخت مخالفت کا سامنا تھا اب وہاں ہزاروں یہاں تک کہ لاکھوں یہوواہ کے گواہ خوشی سے خدا کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ واقعی یہ یہوواہ خدا کے لئے بڑی جیت ہے اور اُس کے دُشمنوں کے لئے شرم کی بات ہے۔—یرمیاہ ۱:۱۹ کو پڑھیں۔
۱۷. (ا) تمام انسانوں کو آئندہ کس صورتحال کا سامنا ہوگا؟ (ب) اُس وقت ہم کس دُعا کو یاد کریں گے؟
۱۷ یہ بات سچ ہے کہ ہمارے مخالفین ہمیں تباہ کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ لیکن ہم تمام قوموں کو بادشاہت کی خوشخبری سناتے رہیں گے یہاں تک کہ اپنے مخالفین کو بھی۔ (متی ۲۴:۱۴، ۲۱) مخالفین کو اب موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ توبہ کرکے نجات پائیں۔ البتہ ایسا کرنے کا بہت کم وقت باقی ہے۔ انسانوں کی نجات سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ یہوواہ خدا کا نام پاک ٹھہرایا جائے۔ (حزقیایل ۳۸:۲۳ کو پڑھیں۔) جب قومیں متحد ہو کر یہوواہ کے خادموں کا نامونشان مٹانے کی کوشش کریں گی تو ہم زبورنویس کی اِس دُعا کو یاد کریں گے: ”وہ ہمیشہ شرمندہ اور پریشان رہیں۔ بلکہ وہ رسوا ہو کر ہلاک ہو جائیں۔“—زبور ۸۳:۱۷۔
۱۸، ۱۹. (ا) یہوواہ خدا کی حکمرانی کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوگا؟ (ب) یہ جان کر کہ یہوواہ جلد ہی ثابت کرے گا کہ وہ ہی حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے، آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۱۸ جو لوگ یہوواہ خدا کی حکمرانی کی مخالفت کرنے پر تلے ہیں اِن کی بربادی بہت نزدیک ہے۔ خدا نے طے کِیا ہے کہ جو لوگ ”خوشخبری کو نہیں مانتے“ وہ ہرمجدون کی لڑائی میں ”ابدی ہلاکت کی سزا پائیں گے۔“ (۲-تھس ۱:۷-۹) اپنے دُشمنوں کو ہلاک کرنے سے اور اپنے خادموں کو نجات دلانے سے یہوواہ خدا ثابت کرے گا کہ وہ ہی سچا خدا ہے۔ نئی دُنیا میں یہوواہ خدا کی اِس فتح کو کبھی نہیں بھلایا جائے گا۔ اُس وقت جب ”راستبازوں اور ناراستوں“ کو زندہ کِیا جائے گا تو اُنہیں بھی یہوواہ خدا کی اِس جیت کے بارے میں بتایا جائے گا۔ (اعما ۲۴:۱۵) یہ لوگ نئی دُنیا میں اِس بات کا ثبوت پائیں گے کہ یہوواہ خدا کی حکمرانی کو قبول کرنا دانشمندی کی بات ہے۔ اور اِن میں سے جو لوگ حلیم ہوں گے وہ جلد اِس بات کو تسلیم کریں گے کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔
۱۹ یہوواہ خدا نے اپنے وفادار خادموں کے لئے کتنا ہی شاندار مستقبل ٹھہرایا ہے۔ یقیناً آپ کی بھی یہی دُعا ہے کہ یہوواہ خدا جلد ہی زبورنویس کی اِس دُعا کو قبول کر لے: ”[تیرے دُشمن] ہمیشہ شرمندہ اور پریشان رہیں۔ بلکہ وہ رسوا ہو کر ہلاک ہو جائیں۔ تاکہ وہ جان لیں کہ تُو ہی جس کا نام یہوؔواہ ہے تمام زمین پر بلندوبالا ہے۔“—زبور ۸۳:۱۷، ۱۸۔
[فٹنوٹ]
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ . . .
• جب زبور ۸۳ کو درج کِیا گیا تو بنیاسرائیل کس صورتحال کا سامنا کر رہے تھے؟
• زبورنویس کو کس بات کی سب سے زیادہ فکر تھی؟
• ہمارے زمانے میں شیطان کن لوگوں کی مخالفت کر رہا ہے؟
• مستقبل میں یہوواہ خدا زبور ۸۳:۱۸ میں درج دُعا کیسے پوری کرے گا؟
[صفحہ ۱۸ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
مجدو کے شہر کے نزدیک جو لڑائیاں ہوئیں اِن سے ہم مستقبل کے لئے کونسی اُمید باندھ سکتے ہیں؟
قیسون کی ندی
حروست
کوہِکرمل
یزرعیل کی وادی
مجدو
تعناک
کوہِجلبوعہ
حرود کا چشمہ
کوہِمورہ
عیندور
کوہِتبور
گلیل کی جھیل
دریایِیردن
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
زبورنویس نے زبور ۸۳ میں درج دُعا کیوں مانگی؟