یہوواہ ہمیں اپنے دن گننا سکھاتا ہے
”ہمکو اپنے دن گننا سکھا۔ ایسا کہ ہم دانا دل حاصل کریں۔“—زبور ۹۰:۱۲۔
۱. یہوواہ سے ’اپنے دن گننا‘ سکھانے کیلئے درخواست کرنا کیوں موزوں ہے؟
یہوواہ خدا ہمارا خالق اور زندگی دینے والا ہے۔ (زبور ۳۶:۹؛ مکاشفہ ۴:۱۱) لہٰذا اُسکے سوا کوئی بھی ہمیں دانشمندی سے اپنی زندگی گزارنے کا بہتر طریقہ نہیں سکھا سکتا۔ پس موزوں طور پر، زبورنویس نے خدا سے التجا کی: ”ہمکو اپنے دن گننا سکھا۔ ایسا کہ ہم دانا دل حاصل کریں۔“ (زبور ۹۰:۱۲) یہ درخواست زبور ۹۰ میں کی گئی ہے جو واقعی غوروفکر کا مستحق ہے۔ تاہم، آئیے سب سے پہلے اس الہامی گیت کا مختصراً جائزہ لیں۔
۲. (ا) زبور ۹۰ کا مصنف کون تھا اور یہ کب لکھا گیا تھا؟ (ب) زبور ۹۰ کو زندگی کی بابت ہمارے نقطۂنظر پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
۲ زبور ۹۰ کی بالائی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ”مردِخدا موسیٰ کی دُعا“ ہے۔ یہ زبور انسانی زندگی کی بےثباتی پر زور دیتا ہے اسلئے یہ مصری غلامی سے اسرائیلیوں کی آزادی کے بعد اور بیابان میں اُنکے ۴۰ سالہ سفر کے دوران لکھا گیا ہوگا جب ہزاروں اموات کی وجہ سے ایک بےایمان نسل ختم ہو گئی تھی۔ (گنتی ۳۲:۹-۱۳) بہرکیف، زبور ۹۰ ظاہر کرتا ہے کہ ناکامل انسانوں کی زندگی بڑی مختصر ہے۔ پس، واضح طور پر ہمیں اپنی گراںبہا زندگی کو دانشمندی سے استعمال کرنا چاہئے۔
۳. زبور ۹۰ کا لبِلباب کیا ہے؟
۳ زبور ۹۰ کی ۱ سے ۶ آیات میں یہوواہ کو ہماری ابدی پناہگاہ کہا گیا ہے۔ ہمیں ۷ تا ۱۲ آیات میں بتایا گیا ہے کہ اپنی قلیل زندگی اُسکی مرضی کے مطابق بسر کرنے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے۔ نیز ۱۳ سے ۱۷ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ ہم یہوواہ کا فضل اور اُسکی برکت حاصل کرنے کی پُرخلوص خواہش رکھتے ہیں۔ بیشک اس زبور میں یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہمارے ذاتی تجربات کی پیشینگوئی نہیں کی گئی۔ تاہم، ہمیں اس میں دُعا کی صورت میں بیانکردہ جذبات کا ذاتی اطلاق کرنا چاہئے۔ پس آئیے خدا کیلئے مخصوص اشخاص کے طور پر زبور ۹۰ کا گہرا مطالعہ کریں۔
یہوواہ—ہماری ”پناہگاہ“
۴-۶. یہوواہ کیسے ہمارے لئے ”پناہگاہ“ ثابت ہوا ہے؟
۴ زبورنویس ان الفاظ کے ساتھ اپنا بیان شروع کرتا ہے: ”یارب! پُشتدرپُشت تُو ہی ہماری پناہگاہ رہا ہے۔ اِس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے یا زمین اور دُنیا کو تُو نے بنایا۔ ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔“—زبور ۹۰:۱، ۲۔
۵ ہمارے لئے ”ازلی خدا“ یہوواہ روحانی تحفظ—”پناہگاہ“—ہے۔ (رومیوں ۱۶:۲۶) اُسکا ”دُعا کے سننے والے“ کے طور پر ہماری مدد کیلئے ہمیشہ تیار رہنا ہمیں احساسِتحفظ بخشتا ہے۔ (زبور ۶۵:۲) ہم اپنی تمامتر پریشانیاں اُسکے عزیز بیٹے کے وسیلہ سے اپنے آسمانی باپ پر ڈال سکتے ہیں اسلئے ’خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے ہمارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھتا ہے۔‘—فلپیوں ۴:۶، ۷؛ متی ۶:۹؛ یوحنا ۱۴:۶، ۱۴۔
۶ ہمیں روحانی تحفظ اسلئے حاصل ہے کہ علامتی مفہوم میں یہوواہ ہماری ”پناہگاہ“ ہے۔ وہ روحانی پناہگاہوں کے طور پر ’خلوت خانے‘ بھی فراہم کرتا ہے جو اُسکے لوگوں کی کلیسیاؤں کے مشابہ ہیں جہاں پُرمحبت چرواہے ہمارے احساسِتحفظ کو بڑھاتے ہیں۔ (یسعیاہ ۲۶:۲۰؛ ۳۲:۱، ۲؛ اعمال ۲۰:۲۸، ۲۹) علاوہازیں، ہم میں سے بعض لوگوں کا تعلق ایسے خاندانوں سے ہے جو عرصۂدراز سے خدا کی خدمت کر رہے ہیں اور جنہوں نے ذاتی تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ وہ ’پُشتدرپُشت ایک پناہگاہ ہے۔‘
۷. کس مفہوم میں پہاڑ ”پیدا ہوئے“ اور ’زمین بنائی‘ گئی؟
۷ یہوواہ پہاڑوں کے ’پیدا ہونے‘ یا ’زمین کے بننے‘ سے پہلے موجود تھا۔ انسانی نقطۂنظر سے زمین کو اسکی تمام خاصیتوں، کیمیائی عوامل اور پیچیدہ قدرتی نظاموں کیساتھ پیدا کرنے میں واقعی بہت کوشش درکار ہوگی۔ تاہم، یہ بیان کرنے سے کہ پہاڑ ”پیدا ہوئے“ اور ’زمین کو بنایا‘ گیا، زبورنویس تخلیقی کاموں میں یہوواہ کی محنت کیلئے گہرا احترام ظاہر کرتا ہے۔ کیا ہمیں بھی اسی طرح خالق کی دستکاری کیلئے احترام اور قدردانی ظاہر نہیں کرنی چاہئے؟
یہوواہ ہماری مدد کیلئے ہمیشہ تیار ہے
۸. اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ ”ازل سے ابد تک“ یہوواہ ہی خدا ہے؟
۸ زبورنویس نے گیت گایا، ”ازل سے ابد تک تُو ہی خدا ہے۔“ ”ازل سے ابد تک“ کی اصطلاح فانی چیزوں کا حوالہ تو دے سکتی ہے مگر انکے خاتمے کی کوئی مدت مُتعیّن نہیں ہوتی۔ (خروج ۳۱:۱۶، ۱۷؛ عبرانیوں ۹:۱۵) تاہم، زبور ۹۰:۲ کے علاوہ عبرانی صحائف میں دیگر جگہوں پر ”ازل سے ابد تک“ کی اصطلاح ”ابدیت“ کا مفہوم پیش کرتی ہے۔ (واعظ ۱:۴) ہمارے ذہن یہ نہیں سمجھ سکتے کہ خدا کیسے ہمیشہ سے موجود ہے۔ تاہم، یہوواہ کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے۔ (حبقوق ۱:۱۲) وہ ہمیشہ زندہ رہنے کی وجہ سے ہماری مدد کیلئے تیار رہتا ہے۔
۹. زبورنویس انسانی زندگی کے ہزار سال کو کس کے برابر ٹھہراتا ہے؟
۹ زبورنویس کو انسانی زندگی کے ہزار سال کو خالق کے نقطۂنظر سے ایک مختصر عرصے کے برابر ٹھہرانے کا الہام بخشا گیا۔ خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے اُس نے لکھا: ”تُو انسان کو پھر خاک میں ملا دیتا ہے اور فرماتا ہے اَے بنیآدم! لوٹ آؤ۔ کیونکہ تیری نظر میں ہزار برس ایسے ہیں جیسے کل کا دن جو گذر گیا اور جیسے رات کا ایک پہر۔“—زبور ۹۰:۳، ۴۔
۱۰. خدا انسان کو کیسے ’پھر خاک میں ملا دیتا ہے‘؟
۱۰ انسان فانی ہے اور خدا اُسے ’پھر خاک میں ملا دیتا ہے۔‘ باالفاظِدیگر، انسان ”خاک“ میں لوٹ جاتا یعنی نیست ہو جاتا ہے۔ درحقیقت یہوواہ کہتا ہے کہ ’اسی مٹی میں دوبارہ لوٹ جا جس سے تجھے بنایا گیا تھا۔‘ (پیدایش ۲:۷؛ ۳:۱۹) اس بات کا اطلاق طاقتور یا کمزور، امیر یا غریب سب پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی ناکامل انسان ’کسی طرح اپنے بھائی کا فدیہ نہیں دے سکتا۔ نہ خدا کو اُسکا معاوضہ دے سکتا ہے تاکہ وہ ابد تک جیتا رہے۔‘ (زبور ۴۹:۶-۹) تاہم، ہم کتنے شکرگزار ہیں کہ ’خدا نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہمیشہ کی زندگی پائے‘!—یوحنا ۳:۱۶؛ رومیوں ۶:۲۳۔
۱۱. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ہماری نظر میں طویل مدت یہوواہ کے لئے نہایت مختصر ہوتی ہے؟
۱۱ یہوواہ کے نقطۂنظر سے ۹۶۹ سالہ متوسلح بھی ایک دن زندہ نہیں رہا تھا۔ (پیدایش ۵:۲۷) خدا کے نزدیک ایک ہزار سال کل کے دن—۲۴ گھنٹوں—کے برابر ہے۔ زبورنویس یہ بھی بیان کرتا ہے کہ خدا کے نزدیک ایک ہزار سال رات کے وقت لشکرگاہ میں ایک پہرےدار کے چار گھنٹوں پر مشتمل پہرے کے برابر ہیں۔ (قضاۃ ۷:۱۹) پس، واضح طور پر ہماری نظر میں طویل مدت یہوواہ کیلئے نہایت مختصر ہوتی ہے۔
۱۲. خدا انسانوں کو کیسے ”بہا لے جاتا ہے“؟
۱۲ خدا کے ابدی وجود کے مقابلے میں موجودہ انسانی زندگی واقعی بڑی مختصر ہے۔ زبورنویس بیان کرتا ہے: ”تُو اُنکو گویا سیلاب سے بہا لے جاتا ہے۔ وہ نیند کی ایک جھپکی کی مانند ہیں۔ وہ صبح کو اُگنے والی گھاس کی مانند ہیں۔ وہ صبح کو لہلہاتی اور بڑھتی ہے۔ وہ شام کو کٹتی اور سوکھ جاتی ہے۔“ (زبور ۹۰:۵، ۶) موسیٰ نے ہزاروں اسرائیلیوں کو بیابان میں اس طرح مرتے دیکھا جیسے خدا اُنہیں سیلاب میں ’بہا لے گیا‘ ہو۔ زبور کے اس حصے کا ترجمہ یوں بھی کِیا گیا ہے: ”تُو انسانوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔“ (نیو انٹرنیشنل ورشن) علاوہازیں، ناکامل انسانوں کا مختصر سا دورِحیات ”نیند کی ایک جھپکی“—صرف ایک رات کی نیند—کے برابر ہے۔
۱۳. ہم ”گھاس کی مانند“ کیسے ہیں اور اس کا ہماری سوچ پر کیا اثر پڑنا چاہئے؟
۱۳ ہم اُس ’گھاس کی مانند ہیں جو صبح کو لہلہاتی ہے‘ مگر سورج کی شدید گرمی کے باعث شام تک سوکھ جاتی ہے۔ جیہاں، ہماری زندگی ایک ہی دن میں سوکھ جانے والی گھاس کی طرح بےثبات ہے۔ لہٰذا، ہمیں اس بیشقیمت خزانے کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے برعکس، ہمیں اس نظاماُلعمل میں اپنی زندگی کے باقی سال گزارنے کیلئے خدائی راہنمائی کے طالب ہونا چاہئے۔
یہوواہ ’اپنے دن گننے میں‘ ہماری مدد کرتا ہے
۱۴، ۱۵. اسرائیلیوں پر زبور ۹۰:۷-۹ کی کونسی تکمیل ہوئی تھی؟
۱۴ زبورنویس خدا سے مزید کہتا ہے: ”ہم تیرے قہر سے فنا ہو گئے اور تیرے غضب سے پریشان ہوئے۔ تُو نے ہماری بدکرداری کو اپنے سامنے رکھا اور ہمارے پوشیدہ گناہوں کو اپنے چہرہ کی روشنی میں۔ کیونکہ ہمارے تمام دن تیرے قہر میں گذرے۔ ہماری عمر خیال کی طرح جاتی رہتی ہے۔“—زبور ۹۰:۷-۹۔
۱۵ بےایمان اسرائیلی ’خدا کے قہر سے فنا ہو گئے۔‘ وہ ’اُسکے غضب سے پریشان ہوئے‘ یا ’اُسکے قہر سے خوفزدہ ہوئے۔‘ (نیو انٹرنیشنل ورشن) بعض الہٰی سزاؤں کے نتیجہ میں ”بیابان میں ڈھیر ہو گئے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۵) یہوواہ نے ’اُن کی بدکرداری کو اپنے سامنے رکھا۔‘ اُس نے نہ صرف اُنکے بےباک بُرے کاموں کیلئے اُنہیں جوابدہ ٹھہرایا بلکہ اُنکے ”پوشیدہ“ گناہ بھی ’اُسکے چہرے کی روشنی‘ میں تھے۔ (امثال ۱۵:۳) خدا کے قہر کا نشانہ بننے کی وجہ سے غیرتائب اسرائیلیوں کی زندگی ’خیال کی طرح جاتی رہی۔‘ پس، جہانتک ہمارے اپنے مختصر دورِحیات کا تعلق ہے تو یہ بھی سانس کی مانند ہے جو خاموشی کیساتھ ہمارے لبوں سے گزر جاتا ہے۔
۱۶. پوشیدگی میں گناہ کرنے والے لوگوں کو کیا کرنا چاہئے؟
۱۶ اگر ہم سے پوشیدگی میں گناہ ہو جاتا ہے تو ہم شاید اسے کچھ وقت کیلئے ساتھی انسانوں سے چھپا سکتے ہیں۔ تاہم، ہماری پوشیدہ بدکاری ’یہوواہ کے چہرے کی روشنی میں‘ ہوگی اور ہمارے کام اُس کیساتھ ہمارے رشتے کو نقصان پہنچائینگے۔ ہمیں یہوواہ کیساتھ دوبارہ رشتہ جوڑنے کیلئے دُعا میں اُس سے معافی مانگنے، اپنے گناہوں سے توبہ کرنے اور مسیحی بزرگوں کی طرف سے ملنے والی روحانی مدد کو شکرگزاری کیساتھ قبول کرنے کی ضرورت ہوگی۔ (امثال ۲۸:۱۳؛ یعقوب ۵:۱۴، ۱۵) ابدی زندگی کی اُمید کھو دینے کا خطرہ مول لیکر ’اپنی عمر خیال کی طرح‘ ختم کرنے کی بجائے اس روش پر چلنا کتنا اچھا ہوگا!
۱۷. عام طور پر انسانی دورِحیات کتنا ہوتا ہے اور ہماری زندگی کے سال کس چیز سے بھرے ہیں؟
۱۷ ناکامل انسانوں کے دورِحیات کی بابت زبورنویس بیان کرتا ہے: ”ہماری عمر کی میعاد ستر برس ہے۔ یا قوت ہو تو اَسی برس۔ توبھی اُنکی رونق محض مشقت اور غم ہے کیونکہ وہ جلد جاتی رہتی ہے اور ہم اُڑ جاتے ہیں۔“ (زبور ۹۰:۱۰) عام لوگوں کی زندگی تقریباً ۷۰ سال کی ہوتی ہے اور کالب نے ۸۵ سال کی عمر میں اپنی غیرمعمولی طاقت کا ذکر کِیا تھا۔ کچھ مثالیں اس سے مختلف بھی ہیں جیساکہ ہارون (۱۲۳)، موسیٰ (۱۲۰) اور یشوع (۱۱۰)۔ (گنتی ۳۳:۳۹؛ استثنا ۳۴:۷؛ یشوع ۱۴:۶، ۱۰، ۱۱؛ ۲۴:۲۹) تاہم، مصر سے نکلنے والی بےایمان نسل میں ۲۰ سال اور اُس سے زیادہ عمر والے اشخاص کا شمار کِیا گیا تھا جو ۴۰ سال کے اندر اندر ہلاک ہو گئے تھے۔ (گنتی ۱۴:۲۹-۳۴) آجکل، بہتیرے ممالک میں عام انسانی دورِحیات زبورنویس کی بیانکردہ مدت کے اندر اندر ہی رہتا ہے۔ ہماری زندگی کے سال ”مشقت اور غم“ سے بھرے ہیں۔ یہ تیزی کیساتھ گزر جاتے ہیں اور ”ہم اُڑ جاتے ہیں۔“—ایوب ۱۴:۱، ۲۔
۱۸، ۱۹. (ا) اس سے کیا مُراد ہے کہ ”ہمکو اپنے دن گننا سکھا۔ ایسا کہ ہم دانا دل حاصل کریں“؟ (ب) ہمیں حکمت کو عمل میں لانے سے کیا کرنے کی تحریک ملیگی؟
۱۸ اسکے بعد زبورنویس اپنے گیت میں بیان کرتا ہے: ”تیرے قہر کی شدت کو کون جانتا ہے اور تیرے خوف کے مطابق تیرے غضب کو؟ ہمکو اپنے دن گننا سکھا۔ ایسا کہ ہم دانا دل حاصل کریں۔“ (زبور ۹۰:۱۱، ۱۲) ہم میں سے کوئی بھی خدا کے قہر اور خوف کی شدت کو مکمل طور پر نہیں جانتا جس کی وجہ سے یہوواہ کیلئے ہمارا مؤدبانہ خوف بڑھنا چاہئے۔ درحقیقت اس سے ہمیں یہ درخواست کرنے کی تحریک ملنی چاہئے کہ ”ہمکو اپنے دن گننا سکھا۔ ایسا کہ ہم دانا دل حاصل“ کر سکیں۔
۱۹ زبورنویس کے الفاظ ایک دُعا ہیں کہ یہوواہ اپنے لوگوں کو دانشمندانہ طریقے سے اپنی زندگی کے باقی سالوں کی قدر کرنا اور اُنہیں خدائی مقبولیت میں بسر کرنا سکھائے۔ ستر سالہ زندگی میں ۲۵،۵۰۰ دن زندہ رہنے کی اُمید پائی جاتی ہے۔ تاہم، اپنی عمر سے قطعنظر ’ہم نہیں جانتے کہ کل کیا ہوگا۔ ہماری زندگی کا بخارات کا سا حال ہے۔ ابھی نظر آئے۔ ابھی غائب ہوگئے۔‘ (یعقوب ۴:۱۳-۱۵) چونکہ ’وقت اور حادثہ‘ ہم سب پر آتا ہے اسلئے ہم نہیں جانتے کہ ہمیں اَور کتنے برس زندہ رہنا ہے۔ لہٰذا، ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے، دوسروں کیساتھ مناسب طریقے سے پیش آنے اور ابھی سے بلکہ آج سے حتیالمقدور یہوواہ کی خدمت کرنے میں حکمت کیلئے دُعا کرنی چاہئے! (واعظ ۹:۱۱؛ یعقوب ۱:۵-۸) یہوواہ اپنے کلام، اپنی روح اور تنظیم کے ذریعے ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷؛ ۱-کرنتھیوں ۲:۱۰؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) حکمت کو عمل میں لانے سے ہمیں ’پہلے خدا کی بادشاہت کی تلاش کرنے‘ اور یہوواہ کی تمجید اور اُسکے دل کو شاد کرنے والے طریقے سے اپنے دن گزارنے کی تحریک ملتی ہے۔ (متی ۶:۲۵-۳۳؛ امثال ۲۷:۱۱) پورے دل سے اُسکی پرستش کرنے سے ہمارے تمام مسائل دُور تو نہیں ہونگے لیکن اسکے نتائج یقیناً نہایت پُرمسرت ہونگے۔
یہوواہ کی برکت ہمیں خوشی بخشتی ہے
۲۰. (ا) خدا کس طرح ’رحم فرماتا‘ ہے؟ (ب) اگر ہم سنگین گناہ سرزد ہو جانے پر حقیقی توبہ کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہوواہ ہمارے ساتھ کیسا سلوک کریگا؟
۲۰ اگر ہماری پوری زندگی خوشیوں سے بھری ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا! اس سلسلے میں موسیٰ التجا کرتا ہے: ”اَے [یہوواہ]! باز آ۔ کب تک؟ اور اپنے بندوں پر رحم فرما۔ صبح کو اپنی شفقت [یا باوفا محبت] سے ہمکو آسودہ کر تاکہ ہم عمربھر خوشوخرم رہیں۔“ (زبور ۹۰:۱۳، ۱۴) خدا غلطیاں نہیں کرتا۔ اس کے باوجود وہ ”رحم“ فرماتا اور آگاہی کی بدولت تائب گنہگار کے رُجحان اور چالچلن میں تبدیلی کی وجہ سے اپنے قہر اور سزا سے ’باز رہتا‘ ہے۔ (استثنا ۱۳:۱۷) لہٰذا، اگر ہم سے کوئی سنگین گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور ہم حقیقی معنوں میں تائب رُجحان ظاہر کرتے ہیں تو یہوواہ ’اپنی شفقت سے ہم پر رحم فرمائے گا‘ اور ہم ”آسودہ“ ہونگے۔ (زبور ۳۲:۱-۵) تاہم، ایک راست طرزِزندگی اپنانے سے ہم اپنے لئے خدا کی وفادارانہ محبت کو محسوس کریں گے اور ”عمربھر خوشوخرم“ رہ سکیں گے۔
۲۱. زبور ۹۰:۱۵، ۱۶ کے بیان کے مطابق موسیٰ غالباً کس بات کے لئے درخواست کر رہا تھا؟
۲۱ زبورنویس خلوصدلی سے دُعا کرتا ہے: ”جتنے دن تُو نے ہم کو دُکھ دیا اور جتنے برس ہم مصیبت میں رہے اُتنی ہی خوشی ہمکو عنایت کر۔ تیرا کام تیرے بندوں پر اور تیرا جلال اُن کی اولاد پر ظاہر ہو۔“ (زبور ۹۰:۱۵، ۱۶) ممکن ہے کہ موسیٰ خدا سے اسرائیلیوں کی خاطر اُن دُکھوں کے برابر خوشی کی درخواست کر رہا تھا جو اُنہوں نے مصیبت کے دنوں اور تکلیفدہ سالوں کے دوران برداشت کئے تھے۔ اُس نے درخواست کی کہ اسرائیلیوں کیلئے خدا کی برکت کے ”کام“ اُسکے خادموں پر ظاہر ہوں اور اُسکا جلال اُنکے بیٹوں یا نسل پر عیاں ہو۔ ہم بھی موزوں طور پر خدا کی موعودہ نئی دُنیا میں فرمانبردار نوعِانسان پر برکات کیلئے دُعا کر سکتے ہیں۔—۲-پطرس ۳:۱۳۔
۲۲. زبور ۹۰:۱۷ کے مطابق، ہم موزوں طور پر کس بات کیلئے دُعا کر سکتے ہیں؟
۲۲ زبور ۹۰ کا اختتام اس التجا کیساتھ ہوتا ہے: ”[یہوواہ] ہمارے خدا کا کرم ہم پر سایہ کرے۔ ہمارے ہاتھوں کے کام کو ہمارے لئے قیام بخش۔ ہاں ہمارے ہاتھوں کے کام کو قیام بخش دے۔“ (زبور ۹۰:۱۷) یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم موزوں طور پر خدا کی خدمت میں اپنی کاوشوں پر اُسکی برکت کیلئے دُعا کر سکتے ہیں۔ ممسوح مسیحیوں یا اُنکی ساتھی، ’دوسری بھیڑوں‘ کے طور پر ہم ’یہوواہ کے کرم‘ سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶) ہم واقعی بہت خوش ہیں کہ خدا نے دیگر طریقوں کے علاوہ بادشاہتی مُنادوں کے طور پر بھی ’ہمارے ہاتھوں کے کام کو قیام بخشا ہے!‘
اپنے دن گنتے رہیں
۲۳، ۲۴. ہم زبور ۹۰ پر غوروخوض کرنے سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
۲۳ زبور ۹۰ پر غوروخوض کرنے سے ”ہماری پناہگاہ“ یہوواہ پر ہمارا توکل بڑھنا چاہئے۔ قلیل دورِحیات کی بابت اِس میں درج باتوں پر غور کرنے سے ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہو جانا چاہئے کہ اپنے دن گننے کیلئے ہمیں الہٰی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ پس، اگر ہم ثابتقدمی سے خدائی حکمت کی تلاش کرتے اور اسے عمل میں لاتے ہیں تو ہم یقیناً یہوواہ کے فضل اور برکت کا تجربہ کرینگے۔
۲۴ یہوواہ ہمیں اپنے دن گننا سکھاتا رہیگا۔ نیز اگر ہم اُسکی ہدایت پر عمل کریں گے تو ہم ابد تک اپنے دن گنتے رہیں گے۔ (یوحنا ۱۷:۳) تاہم، اگر ہم واقعی ہمیشہ کی زندگی کے متمنی ہیں تو یہوواہ کو ہماری پناہ ہونا چاہئے۔ (یہوداہ ۲۰، ۲۱) ہم اگلے مضمون میں دیکھینگے کہ زبور ۹۱ کی تقویتبخش باتیں اس نکتے کی کتنی عمدہ وضاحت پیش کرتی ہیں۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• یہوواہ ہمارے لئے ”ایک پناہگاہ“ کیسے ثابت ہوا ہے؟
• ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمیشہ ہماری مدد کیلئے تیار رہتا ہے؟
• یہوواہ ’اپنے دن گننے‘ میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
• کونسی چیز ہمیں ”عمربھر خوشوخرم“ رکھ سکتی ہے؟
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
”اس سے پیشتر کہ پہاڑ پیدا ہوئے“ یہوواہ خدا موجود تھا
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
یہوواہ کے نقطۂنظر سے ۹۶۹ سالہ متوسلح ایک دن بھی زندہ نہیں رہا تھا
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
یہوواہ نے ’ہمارے ہاتھوں کے کام کو قیام بخشا ہے‘