یہوواہ، ایک ایسا خدا جو ”معاف کرنے کو تیار“ ہے
”تُو یارب [”یہوواہ،“ اینڈبلیو]! نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے۔“—زبور ۸۶:۵۔
۱. بادشاہ داؤد کونسا بھاری بوجھ اُٹھائے ہوئے تھا اور اُس نے اپنے پریشان دل کیلئے کیسے تسلی حاصل کی؟
قدیم اسرائیل کا بادشاہ داؤد جانتا تھا کہ خطاکار ضمیر کا بوجھ کسقدر بھاری ہو سکتا ہے۔ اُس نے تحریر کِیا: ”میری بدی میرے سر سے گزر گئی اور وہ بڑے بوجھ کی مانند میرے لئے نہایت بھاری ہے۔ مَیں نحیف اور نہایت کچلا ہوا ہوں اور دل کی بےچینی کے سبب سے کراہتا رہا۔“ (زبور ۳۸:۴، ۸) تاہم، داؤد نے اپنے پریشان دل کیلئے اطمینان پا لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگرچہ یہوواہ گناہ سے نفرت کرتا ہے مگر وہ گنہگار سے نفرت نہیں کرتا—بشرطیکہ وہ شخص حقیقی طور پر تائب ہے اور اپنی گنہگارانہ روش کو ترک کر دیتا ہے۔ (زبور ۳۲:۵؛ ۱۰۳:۳) تائب اشخاص پر رحم کرنے کیلئے یہوواہ کی آمادگی پر مکمل ایمان کیساتھ، داؤد نے کہا: ”تُو یارب [”یہوواہ،“ اینڈبلیو]! نیک اور معاف کرنے کو تیار ہے۔“—زبور ۸۶:۵۔
۲، ۳. (ا) جب ہم گناہ کرتے ہیں تو نتیجے میں ہم کس بوجھ کا شکار ہو سکتے ہیں اور یہ کیوں مفید ہے؟ (ب) جُرم کے باعث ”تباہ“ ہو جانے میں کیا خطرہ ہے؟ (پ) معاف کرنے کے لئے یہوواہ کی رضامندی کی بابت بائبل ہمیں کیا یقیندہانی کراتی ہے؟
۲ جب ہم گناہ کرتے ہیں تو اسکے نتیجے میں شاید ہمیں بھی تکلیفدہ ضمیر کے کچل دینے والے بوجھ کو اُٹھانا پڑے۔ یہ احساسِپشیمانی نہ صرف فطری بلکہ مفید بھی ہے۔ یہ ہمیں اپنی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے مثبت اقدام اُٹھانے کی تحریک دے سکتا ہے۔ تاہم، بعض مسیحی خطا کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔ اُنکا خود کو ملامت کرنے والا دل اصرار کر سکتا ہے کہ اِس سے قطعنظر کہ وہ کسقدر تائب ہیں، خدا اُنہیں کبھی بھی پوری طرح معاف نہیں کریگا۔ ”یہ انتہائی تکلیفدہ احساس ہوتا ہے جب آپ یہ سوچتے ہیں کہ شاید یہوواہ اب آپ سے محبت نہیں کرتا،“ ایک بہن نے اپنی غلطی کو یاد کرتے ہوئے بیان کِیا۔ وہ تائب ہونے اور کلیسیائی بزرگوں کی طرف سے مفید مشورت قبول کرنے کے بعد بھی یہی محسوس کرتی رہی کہ وہ یہوواہ کی معافی کے لائق نہیں۔ وہ وضاحت کرتی ہے: ”ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب مَیں یہوواہ سے معافی کیلئے درخواست نہیں کرتی۔“ اگر ہم جُرم کے باعث ”تباہ“ ہو جاتے ہیں تو شیطان ہمارا حوصلہ پست کرنے، یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے کہ ہم یہوواہ کی خدمت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۲:۵-۷، ۱۱۔
۳ لیکن یہوواہ معاملات کو اس نظر سے ہرگز نہیں دیکھتا! اُسکا کلام ہمیں یقین دلاتا ہے کہ جب ہم حقیقی دلی توبہ ظاہر کرتے ہیں تو یہوواہ آمادہ بلکہ معاف کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ (امثال ۲۸:۱۳) لہٰذا اگر کبھی خدا کی طرف سے معافی آپ کو ناقابلِحصول دکھائی دی ہو تو شاید اِس بات کی بہتر سمجھ حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیوں اور کیسے معاف کرتا ہے۔
یہوواہ کیوں ”معاف کرنے کو تیار“ ہے؟
۴. یہوواہ ہماری سرشت کی بابت کیا یاد رکھتا ہے نیز اس کا ہمارے ساتھ اُس کے برتاؤ پر کیا اثر پڑتا ہے؟
۴ ہم پڑھتے ہیں: ”جیسے پورب پچّھم سے دُور ہے ویسے ہی اُس نے ہماری خطائیں ہم سے دُور کر دیں۔ جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] اُن پر جو اُس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔“ یہوواہ کیوں رحم دکھانے کا میلان رکھتا ہے؟ اگلی آیت جواب دیتی ہے: ”وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ (زبور ۱۰۳:۱۲-۱۴) جیہاں، یہوواہ یہ نہیں بھولتا کہ ہم خاکی مخلوق ہیں اور ناکاملیت کے باعث ہم میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ یہ اصطلاح کہ ”وہ ہماری سرشت“ سے واقف ہے، ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بائبل یہوواہ کو کمہار سے اور ہمیں اُس کے بنائے ہوئے برتنوں سے تشبِیہ دیتی ہے۔a (یرمیاہ ۱۸:۲-۶) ایک کمہار اپنے مٹی کے برتنوں کی بنیادی ساخت کا خیال رکھتے ہوئے اُنہیں مضبوطی مگر نرمی سے ہاتھ لگاتا ہے۔ لہٰذا یہوواہ، عظیم کمہار، بھی ہماری گنہگارانہ ساخت کی خامی کے مطابق ہمارے ساتھ اپنے برتاؤ میں اعتدال پیدا کرتا ہے۔—مقابلہ کریں ۲-کرنتھیوں ۴:۷۔
۵. رومیوں کی کتاب ہمارے فانی جسم پر گناہ کی مضبوط گرفت کو کیسے بیان کرتی ہے؟
۵ یہوواہ سمجھتا ہے کہ گناہ کتنا طاقتور ہے۔ صحائف گناہ کو اثرآفریں قوت کے طور پر بیان کرتے ہیں جس نے انسان کو اپنی مُہلک گرفت میں جکڑ رکھا ہے۔ گناہ کی یہ گرفت کتنی مضبوط ہے؟ رومیوں کی کتاب میں الہامیافتہ رسول پولس اِسکی وضاحت بڑے صاف الفاظ میں کرتا ہے: جیسےکہ سپاہی اپنے سپہسالار کے تحت ہوتے ہیں ہم ”گناہ کے تحت“ ہیں (رومیوں ۳:۹)؛ اِس نے نوعِانسان پر بادشاہ کی طرح ”بادشاہی“ کی ہے (رومیوں ۵:۲۱)؛ یہ ہم میں ”بسا ہوا“ ہے (رومیوں ۷:۱۷، ۲۰)؛ دراصل ہماری روش کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے، اِسکی ”شریعت“ ہم میں مسلسل کام کرتی ہے۔ (رومیوں ۷:۲۳، ۲۵) کیا ہی مشکل لڑائی، ہمیں اپنے فانی جسم پر گناہ کی طاقتور گرفت کی مزاحمت کرنا ہے!—رومیوں ۷:۲۱، ۲۴۔
۶. یہوواہ اُنہیں کیسا خیال کرتا ہے جو پشیمان دل کیساتھ اُسکے رحم کے طالب ہوتے ہیں؟
۶ لہٰذا، ہمارے دل خواہ اُسکی کتنی ہی فرمانبرداری کرنا چاہیں، ہمارا رحیم خدا جانتا ہے کہ ہمارے لئے کامل فرمانبرداری ممکن نہیں۔ (۱-سلاطین ۸:۴۶) وہ پُرمحبت طور پر ہمیں یقین دلاتا ہے کہ جب ہم پشیمان دل کیساتھ اُسکے پدرانہ رحم کے طالب ہوتے ہیں تو وہ معاف کریگا۔ زبورنویس داؤد نے کہا: ”شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اَے خدا تُو شکستہ اور خستہ دل کو حقیر نہ جانیگا۔“ (زبور ۵۱:۱۷) یہوواہ خطا کے باعث شکستہ اور خستہ دل کو کبھی بھی نہ تو رد کریگا نہ ہی اُس سے مُنہ موڑیگا۔ یہ کتنی عمدگی سے یہوواہ کے معاف کرنے کیلئے تیار ہونے کو بیان کرتا ہے!
۷. ہم خدا کے رحم سے ناجائز فائدہ کیوں نہیں اُٹھا سکتے؟
۷ کیا اِسکا یہ مطلب ہے کہ ہم اپنی گنہگارانہ ساخت کو گناہ کرنے کا عذر بناتے ہوئے خدا کے رحم کا ناجائز فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! یہوواہ صرف جذبات سے تحریک نہیں پاتا۔ اُس کے رحم کی حدود ہیں۔ وہ اُنہیں کبھی معاف نہیں کریگا جو توبہ کے بغیر سختدلی کیساتھ جانبوجھ کر نفرتانگیز گناہ کرتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۶-۳۱) دوسری طرف، جب وہ کسی ”شکستہ اور خستہ“ دل کو دیکھتا ہے تو وہ ”معاف کرنے کو تیار“ ہوتا ہے۔ (امثال ۱۷:۳) آئیے الہٰی معافی کی کاملیت کو بیان کرنے کیلئے بائبل میں استعمال ہونے والے معنیخیز اندازِبیان میں سے کچھ پر غور کریں۔
یہوواہ کس حد تک معاف کرتا ہے؟
۸. درحقیقت، جب یہوواہ ہمارے گناہ معاف کرتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے اور اس کا ہم پر کیا اثر ہونا چاہئے؟
۸ تائب بادشاہ داؤد نے کہا: ”مَیں نے تیرے حضور اپنے گناہ کو مان لیا اور اپنی بدکاری کو نہ چھپایا۔ مَیں نے کہا کہ مَیں خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے حضور اپنی خطاؤں کا اقرار کرونگا اور تُو نے میرے گناہ کی بدی کو معاف کِیا۔“ (زبور ۳۲:۵) اس اصطلاح ”معاف کِیا“ کا ایک عبرانی لفظ سے ترجمہ کِیا گیا ہے جسکا بنیادی مطلب ”اُٹھانا“ ”برداشت کرنا، لے جانا“ ہے۔ یہاں پر اسکا استعمال ’جُرم، گناہ، خطا کو دُور کر دینے‘ کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ پس یہوواہ نے گویا داؤد کے گناہ اُٹھا لئے اور اُنہیں دور لے گیا۔ (مقابلہ کریں احبار ۱۶:۲۰-۲۲۔) اِس نے بِلاشُبہ جُرم کے احساسات کو کم کر دیا ہوگا جنہیں داؤد اُٹھائے ہوئے تھا۔ (مقابلہ کریں زبور ۳۲:۳۔) ہم بھی خدا پر پورا بھروسہ رکھ سکتے ہیں جو ایسے لوگوں کے گناہ معاف کرتا ہے جو یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کی بِنا پر اُسکی معافی کے طالب ہوتے ہیں۔ (متی ۲۰:۲۸؛ مقابلہ کریں یسعیاہ ۵۳:۱۲۔) لہٰذا یہوواہ جنکے گناہ اُٹھا کر دُور لے جاتا ہے اُنہیں ماضی کے گناہوں کیلئے احساسِجُرم کا بوجھ اُٹھائے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۹. یسوع کے ان الفاظ کا کیا مطلب ہے: ”ہمارے قرض ہمیں معاف کر“؟
۹ یسوع نے یہ واضح کرنے کے لئے کہ یہوواہ کیسے معاف کرتا ہے قرضخواہوں اور قرضداروں کے تعلق کا حوالہ دیا۔ مثال کے طور پر یسوع نے ہمیں یہ دُعا کرنے کی تاکید کی: ”ہمارے قرض ہمیں معاف کر۔“ (متی ۶:۱۲) لہٰذا یسوع نے ”گناہوں“ کو ”قرض“ سے تشبِیہ دی۔ (لوقا ۱۱:۴) جب ہم گناہ کرتے ہیں تو ہم یہوواہ کے ”قرضدار“ بن جاتے ہیں۔ یونانی فعل جس کا ترجمہ ”معاف“ کرنا کِیا گیا ہے اُسکا مطلب ”قرض کو بھول جانا، چھوڑ دینا، اُسکا تقاضا نہ کرنا“ ہو سکتا ہے۔ اِس مفہوم میں، جب یہوواہ معاف کرتا ہے تو وہ اُس قرض کو منسوخ کر دیتا ہے جو بصورتِدیگر ہمارے ذمے رہیگا۔ لہٰذا تائب گنہگار تسلی پا سکتے ہیں۔ یہوواہ کبھی بھی اُس قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کریگا جو اُس نے منسوخ کر دیا ہے!—زبور ۳۲:۱، ۲؛ مقابلہ کریں متی ۱۸:۲۳-۳۵۔
۱۰، ۱۱. (ا) اعمال ۳:۱۹ کے جزوِجملہ ’مٹائے جائیں‘ میں کیا خیال پیش کِیا گیا ہے؟ (ب) یہوواہ کی معافی کی کاملیت کی وضاحت کیسے کی گئی ہے؟
۱۰ اعمال ۳:۱۹ میں خدا کی معافی کو بیان کرنے کیلئے بائبل ایک اَور واضح تشبِیہ استعمال کرتی ہے: ”پس توبہ کرو اور رجوع لاؤ تاکہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں۔“ یہ جزوِجملہ ’مٹائے جائیں‘ یونانی فعل کا ترجمہ ہے جو استعارہً استعمال کِیا جائے تو اِسکا مطلب ”پونچھ دینا، مٹانا، منسوخ کرنا، یا تباہ کرنا“ ہو سکتا ہے۔ بعض علماء کے مطابق، اس میں دستی تحریر کو مٹانے کا خیال پیش کِیا گیا ہے۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ قدیم وقتوں میں عام طور پر جو سیاہی استعمال کی جاتی تھی وہ کاربن، گوند اور پانی کے آمیزے پر مشتمل ہوتی تھی۔ ایسی سیاہی سے کام کرنے کے فوراً بعد کوئی شخص گیلے سپنج کیساتھ اِسے پونچھ سکتا تھا۔
۱۱ اس میں یہوواہ کی معافی کی کاملیت کا خوبصورت عکس پایا جاتا ہے۔ جب وہ ہمارے گناہ معاف کر دیتا ہے تو یہ گویا اُنہیں سپنج کے ذریعے پونچھ دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ مستقبل میں اِن گناہوں کو ہمارے خلاف قائم رکھیگا کیونکہ بائبل یہوواہ کے رحم کی بابت کچھ اَور بھی آشکارا کرتی ہے جو واقعی حیرانکُن ہے: جب وہ معاف کرتا ہے تو بھول بھی جاتا ہے!
”مَیں . . . اُنکے گناہ کو یاد نہ کرونگا“
۱۲. جب بائبل یہ کہتی ہے کہ یہوواہ ہمارے گُناہوں کو بھول جاتا ہے تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ وہ اُنہیں یاد کرنے کے قابل نہیں ہے اور آپ یہ جواب کیوں دیتے ہیں؟
۱۲ یرمیاہ نبی کے ذریعے، یہوواہ نے نئے عہد میں شامل لوگوں کی بابت فرمایا: ”مَیں اُنکی بدکرداری کو بخش دونگا اور اُنکے گناہ کو یاد نہ کرونگا۔“ (یرمیاہ ۳۱:۳۴) کیا اِسکا یہ مطلب ہے کہ جب یہوواہ گناہوں کو بخش دیتا ہے تو پھر وہ اُنہیں یاد کرنے کے قابل نہیں رہتا؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ بائبل داؤد سمیت ایسے بہت سے افراد کی بابت بتاتی ہے جنکے گناہ یہوواہ نے بخش دئے تھے۔ (۲-سموئیل ۱۱:۱-۱۷؛ ۱۲:۱-۱۳) بِلاشُبہ یہوواہ اُنکے گناہوں سے آج بھی واقف ہے جیسےکہ ہم بھی ہیں۔ اُنکے گناہوں نیز اُنکے تائب ہونے اور خدا سے معافی حاصل کرنے کا ریکارڈ ہمارے فائدے کیلئے محفوظ کر لیا گیا ہے۔ (رومیوں ۱۵:۴) پس اِسکا کیا مطلب ہے جب بائبل کہتی ہے کہ یہوواہ جنکو معاف کر دیتا ہے اُنکے گناہ ”یاد“ نہیں رکھتا؟
۱۳. (ا) جس عبرانی فعل کا ترجمہ ”یاد کرونگا“ کِیا گیا ہے اُسکے معنی میں کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) جب یہوواہ کہتا ہے، ”مَیں اُن کے گناہ کو یاد نہ کرونگا،“ تو وہ ہمیں کس چیز کی یقیندہانی کرا رہا ہے؟
۱۳ یہاں جس عبرانی فعل کا ترجمہ ”یاد . . . کرونگا“ کِیا گیا ہے اُسکا مطلب صرف ماضی کو یاد کرنے سے زیادہ کا مفہوم دیتا ہے۔ تھیولاجیکل ورڈبُک آف دی اولڈ ٹسٹامنٹ کے مطابق، اِس میں ”مناسب کارروائی کرنے کے اضافی معنی“ شامل ہیں۔ لہٰذا اِس مفہوم میں، گناہ کو ”یاد“ کرنے کا مطلب گنہگاروں کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔ جب ہوسیع نبی نے سرکش اسرائیلیوں کی بابت کہا کہ ”وہ [یہوواہ] اُنکی بدکرداری کو یاد کریگا“ تو نبی کا مطلب تھا کہ یہوواہ اُن میں توبہ کی کمی کے باعث اُنکے خلاف کارروائی کریگا۔ لہٰذا، باقی کی آیت کہتی ہے: ”وہ . . . اُنکے گناہوں کی سزا دیگا۔“ (ہوسیع ۹:۹) اِسکے برعکس، جب یہوواہ فرماتا ہے، ”مَیں . . . اُنکے گناہ کو یاد نہ کرونگا،“ تو وہ ہمیں یقیندہانی کراتا ہے کہ جب ایک مرتبہ وہ تائب گنہگار کو معاف کر دیتا ہے تو پھر وہ اُن گناہوں کیلئے اُسکے خلاف مستقبل میں کبھی کارروائی نہیں کریگا۔ (حزقیایل ۱۸:۲۱، ۲۲) لہٰذا وہ اِس مفہوم میں بھول جاتا ہے کہ وہ ہم پر بار بار الزام لگانے یا سزا دینے کیلئے ہمارے گناہوں کو بار بار سامنے نہیں لاتا۔ پس یہوواہ ہمارے لئے ایک بےمثال نمونہ قائم کرتا ہے تاکہ ہم دوسروں کیساتھ اپنے برتاؤ میں اُسکی نقل کریں۔ جب اختلافات جنم لیتے ہیں تو ماضی کی اُن رنجشوں کو نہ دہرانا بہتر ہوگا جنہیں آپ پہلے معاف کرنے پر آمادہ تھے۔
نتائج کی بابت کیا ہے؟
۱۴. معافی کا یہ مطلب کیوں نہیں کہ تائب گنہگار اپنی غلط روش کے تمام نتائج سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے؟
۱۴ کیا معاف کرنے کیلئے یہوواہ کے تیار ہونے کا یہ مطلب ہے کہ تائب گنہگار کو اُسکی غلط روش کے تمام نتائج سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ہم گناہ کی سزا سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتے۔ پولس نے تحریر کِیا: ”آدمی جو کچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔“ (گلتیوں ۶:۷) ممکن ہے کہ ہمیں اپنے اعمال اور مسائل کے کچھ نتائج کا سامنا کرنا پڑے، مگر معاف کر دینے کے بعد، یہوواہ ہمیں کسی مصیبت میں نہیں پڑنے دیتا۔ جب مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو ایک مسیحی کو یہ نہیں محسوس کرنا چاہئے کہ ’شاید یہوواہ مجھے ماضی کے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔‘ (مقابلہ کریں یعقوب ۱:۱۳۔) اسکی دوسری جانب، یہوواہ ہمیں ہمارے تمام غلط کاموں کے اثرات سے بھی نہیں بچاتا۔ طلاق، ناخواستہحمل، جنسی طور پر لگنے والی بیماریاں، اعتماد یا احترام کا فقدان—یہ سب گناہ کے افسوسناک نتائج ہو سکتے ہیں اور یہوواہ ہمیں ان سے محفوظ نہیں رکھیگا۔ یاد کریں کہ اگرچہ اُس نے داؤد کو بتسبع اور اورِیّاہ کے سلسلے میں اُسکے گناہوں کو معاف کر دیا توبھی یہوواہ نے داؤد کو بعدازاں ظاہر ہونے والے تباہکُن نتائج سے محفوظ نہیں رکھا تھا۔—۲-سموئیل ۱۲:۹-۱۴۔
۱۵، ۱۶. احبار ۶:۱-۷ میں درج شرع متاثرہ اور قصوروار دونوں کو کسطرح فائدہ پہنچاتی تھی؟
۱۵ ہمارے گناہوں کے دیگر نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر احبار ۶ باب کی سرگزشت پر غور کریں۔ یہاں موسوی شریعت ایک ایسی حالت کا ذکر کرتی ہے جہاں ایک شخص ڈاکہزنی، جبر یا دھوکے سے، ایک ساتھی اسرائیلی کی چیزیں ضبط کرنے سے سنگین گناہ کا مُرتکب ہوتا ہے۔ اسکے بعد گنہگار اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ مُجرم ہے، حتیٰکہ بڑی بےباکی سے جھوٹی قسم اُٹھانے کو بھی تیار ہوتا ہے۔ اب یہ ایک شخص کا دوسرے پر الزام لگانے کا معاملہ ہے۔ تاہم، بعدازاں، قصوروار کا ضمیر اُسے پریشان کرتا ہے اور وہ اپنے گناہ کا اقرار کر لیتا ہے۔ خدا سے معافی حاصل کرنے کیلئے اُسے مزید تین کام کرنے کی ضرورت ہے: جوکچھ اُس نے چرایا ہے وہ واپس کرے، متاثرہ شخص کو ۲۰ فیصد جرمانہ ادا کرے اور خطا کی قربانی کے طور پر ایک برّہ گذراننے۔ اسکے بعد، شریعت حکم دیتی ہے: ”کاہن اُسکے لئے خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے حضور کفارہ دے تو . . . اُسے معافی ملیگی۔“—احبار ۶:۱-۷؛ مقابلہ کریں متی ۵:۲۳، ۲۴۔
۱۶ یہ شرع خدا کی طرف سے ایک رحمانہ بندوبست تھا۔ اس سے متاثرہ شخص کو جس کا مال واپس کر دیا جاتا تھا فائدہ پہنچتا تھا اور بِلاشُبہ قصوروار کے بالآخر اپنے گناہ کا اعتراف کر لینے پر اُسے بہت اطمینان حاصل ہوتا تھا۔ تاہم، شرع اُس شخص کو بھی فائدہ پہنچاتی تھی جسکے ضمیر نے انجامکار اُسے اپنے جُرم کو تسلیم کرنے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے کی تحریک دی تھی۔ سچ ہے کہ اگر اُس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہوتا تو خدا کی طرف سے اُس کیلئے معافی کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔
۱۷. جب دوسروں کو ہمارے گُناہوں سے دُکھ پہنچتا ہے تو یہوواہ ہم سے کیا کرنے کی توقع کرتا ہے؟
۱۷ اگرچہ ہم موسوی شریعت کے تابع نہیں توبھی یہ ہمیں معافی سے متعلق اُسکے نقطۂنظر سمیت یہوواہ کے خیالات کی بابت گراںبہا بصیرت بخشتی ہے۔ (کلسیوں ۲:۱۳، ۱۴) جب دوسرے لوگ ہمارے گُناہوں کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں یا اُنہیں دُکھ پہنچتا ہے تو یہوواہ اس بات سے خوش ہوتا ہے جب ہم ’غلطی کو درست‘ کرنے کیلئے اپنی حتیالمقدور کوشش کرتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۷:۱۱) اس میں اپنے گناہ کو تسلیم کرنا، اپنے جُرم کا اعتراف کرنا اور متاثرہ شخص سے معافی مانگنا شامل ہے۔ اسکے بعد ہم یسوع کی قربانی کی بنیاد پر یہوواہ کے حضور درخواست کر سکتے ہیں اور ایک پاک ضمیر کے اطمینان اور خدا کی طرف سے معافی حاصل کرنے کی یقیندہانی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔—عبرانیوں ۱۰:۲۱، ۲۲۔
۱۸. یہوواہ کی معافی کیساتھ کیسی تنبیہ آ سکتی ہے؟
۱۸ ایک شفیق ماں یا باپ کی طرح، ہو سکتا ہے کہ یہوواہ کسی حد تک تنبیہ کیساتھ معافی دے۔ (امثال ۳:۱۱، ۱۲) ایک تائب مسیحی کو ایک بزرگ، خدمتگزار خادم یا ایک پائنیر کے طور پر شاید اپنے شرف سے دستبردار ہونا پڑے۔ کچھ وقت کیلئے اُن استحقاقات سے محروم ہونا جو اُس کیلئے بیشقیمت تھے نہایت تکلیفدہ ہو سکتا ہے۔ تاہم، ایسی تنبیہ کا یہ مطلب نہیں کہ وہ یہوواہ کی کرمفرمائی سے محروم ہو گیا ہے یا یہ کہ یہوواہ نے اُسے معاف نہیں کِیا ہے۔ مزیدبرآں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ کی طرف سے تنبیہ ہمارے لئے اُسکی محبت کا ثبوت ہے۔ اسے قبول کرنے اور اسکا اطلاق کرنے ہی میں ہمارا فائدہ ہے اور یہ ہمیشہ کی زندگی کا باعث بن سکتا ہے۔—عبرانیوں ۱۲:۵-۱۱۔
۱۹، ۲۰. (ا) اگر آپ سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تو آپ کو کیوں یہ محسوس نہیں کرنا چاہئے کہ آپ یہوواہ کا رحم حاصل نہیں کر سکتے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس چیز پر باتچیت کی جائے گی؟
۱۹ یہ جاننا کسقدر فرحتبخش ہے کہ ہم ایسے خدا کی خدمت کرتے ہیں جو ”معاف کرنے کو تیار“ ہے! یہوواہ ہمارے گُناہوں اور خطاؤں کے علاوہ چیزوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ (زبور ۱۳۰:۳، ۴) وہ جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے آپکا دل شکستہ اور خستہ ہو گیا ہے تو یہ نتیجہ اخذ نہ کریں کہ آپ یہوواہ کا رحم حاصل نہیں کر سکتے۔ اُن غلطیوں کے باوجود جو آپ سے سرزد ہوئی ہیں، اگر آپ نے واقعی توبہ کر لی ہے، غلطی کو درست کرنے کیلئے اقدام اُٹھائے ہیں اور یسوع کے بہائے ہوئے خون کی بنیاد پر یہوواہ سے معافی کیلئے سنجیدگی سے دُعا کی ہے تو آپ بھرپور اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ ۱-یوحنا ۱:۹ کے الفاظ کا اطلاق آپ پر ہوتا ہے: ”اگر اپنے گُناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گُناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔“
۲۰ بائبل ہماری حوصلہافزائی کرتی ہے کہ ایک دوسرے کیساتھ اپنے تعلقات میں یہوواہ کے معاف کرنے کی نقل کریں۔ تاہم، جب دوسرے ہمارے خلاف گناہ کرتے ہیں تو ہم سے کس حد تک معاف کرنے اور بھول جانے کی توقع کی جاتی ہے؟ اِس پر اگلے مضمون میں باتچیت کی جائیگی۔
[فٹنوٹ]
a دلچسپی کی بات ہے کہ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”ہماری سرشت“ کِیا گیا ہے، وہ کمہار کے بنائے ہوئے مٹی کے برتنوں کیلئے استعمال کِیا گیا ہے۔—یسعیاہ ۲۹:۱۶۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻یہوواہ ”معاف کرنے کو تیار“ کیوں ہے؟
◻بائبل یہوواہ کی معافی کی کاملیت کو کیسے بیان کرتی ہے؟
◻جب یہوواہ معاف کرتا ہے تو کس مفہوم میں وہ بھول جاتا ہے؟
◻جب دوسروں کو ہمارے گناہوں کی وجہ سے دکھ پہنچتا ہے تو یہوواہ ہم سے کیا کرنے کی توقع کرتا ہے؟
[صفحہ 25 پر تصویر]
جب دوسروں کو ہمارے گناہوں کی وجہ سے دکھ پہنچتا ہے تو یہوواہ ہم سے تلافی کرنے کی توقع کرتا ہے