یہوواہ—نیکی کی افضل مثال
”ربالافواج کی ستایش کرو کیونکہ [یہوواہ] بھلا ہے۔“ —یرمیاہ ۳۳:۱۱۔
۱. ہم خدا کی نیکی کیلئے اس کی ستائش کرنے کی تحریک کیوں پاتے ہیں؟
یہوواہ خدا کامل مفہوم میں بھلا ہے۔ زکریاہ نبی نے پُرزور انداز میں بیان کِیا کہ ”اس کی نیکی عظیم ہے!“ (زکریاہ ۹:۱۷، اینڈبلیو) واقعی، خدا نے ہمارے لطف کی خاطر زمین کو تیار کرنے کے لئے جو کچھ بھی کِیا ہے اس سے نیکی ظاہر ہوتی ہے۔ (پیدایش ۱:۳۱) خدا نے کائنات کو خلق کرتے وقت جن پیچیدہ قوانین کا آغاز کِیا ہم انہیں کبھی نہیں سمجھ سکیں گے۔ (واعظ ۳:۱۱؛ ۸:۱۷) تاہم اس سلسلے میں ہم جتنا جانتے ہیں اُس سے ہمیں خدا کی نیکی کے لئے اس کی ستائش کرنے کی تحریک ملتی ہے۔
۲. آپ نیکی کی تعریف کیسے کرینگے؟
۲ نیکی کیا ہے؟ اس سے مُراد اخلاقی فضیلت یا اچھائی ہے۔ تاہم، یہ ہر طرح کی بُرائی سے مبرا ہونے سے بڑھ کر ہے۔ نیکی روح کا ایک پھل ہونے کے باعث ایک مفید صفت ہے۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) ہم دوسروں کے لئے مفید اور اچھے کام کرنے سے نیکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس نظامالعمل کے بعض حلقوں میں جسے نیکی خیال کِیا جاتا ہے اسے دیگر حلقوں میں بدی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم، اگر ہم نے امن اور خوشحالی کا تجربہ کرنا ہے تو نیکی کا ایک معیار ہونا چاہئے۔ کون بجا طور پر یہ معیار قائم کر سکتا ہے؟
۳. نیکی کے معیار کی بابت پیدایش ۲:۱۶، ۱۷ کیا ظاہر کرتی ہیں؟
۳ خدا نیکی کا معیار قائم کرتا ہے۔ یہوواہ نے انسانی تاریخ کے شروع ہی میں پہلے انسان کو حکم دیا: ”تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروکٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیکوبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“ (پیدایش ۲:۱۶، ۱۷) جیہاں، انسانوں کو نیکوبد کی پہچان کیلئے اپنے خالق پر تکیہ کرنے کی ضرورت تھی۔
نیکی کا غیرمستحق اظہار
۴. خدا نے آدم کے گناہ کے بعد نسلِانسانی کیلئے کیا کِیا؟
۴ جب آدم نے گناہ کِیا اور نیکی کا معیار قائم کرنے کے خدائی حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو نسلِانسانی کی ابدی اور کامل خوشحالی کا امکان خطرے میں پڑ گیا۔ (پیدایش ۳:۱-۶) تاہم، گناہ اور موت کی میراث پانے والوں کے طور پر آدم کی اولاد پیدا ہونے سے پیشتر خدا نے کامل نسل کے آنے کی پیشینگوئی کی۔ درحقیقت ’پُرانے سانپ،‘ شیطان ابلیس سے مخاطب ہوتے ہوئے یہوواہ نے بیان کِیا: ”مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُسکی ایڑی پر کاٹیگا۔“ (مکاشفہ ۱۲:۹؛ پیدایش ۳:۱۵) یہوواہ کا مقصد گنہگار نسلِانسانی کی مخلصی تھا۔ یہوواہ نے نیکی کے غیرمستحق اظہار میں ان لوگوں کیلئے نجات کا بندوبست کِیا جو اس کے عزیز بیٹے کے فدیے کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں۔—متی ۲۰:۲۸؛ رومیوں ۵:۸، ۱۲۔
۵. اگرچہ ہم نے بُرے دلی خیالات کا ورثہ پایا ہے توبھی ہم کسی حد تک نیکی کیوں کر سکتے ہیں؟
۵ بیشک، ہم نے آدم کے گناہ کی وجہ سے بُرے دلی خیالات ورثے میں پائے ہیں۔ (پیدایش ۸:۲۱) تاہم، خوشی کی بات یہ ہے کہ یہوواہ کسی حد تک نیکی کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اس کے بیشقیمت پاک نوشتوں سے سیکھی ہوئی باتوں پر قائم رہنا ’نجات کیلئے دانائی بخشنے‘ اور ’ہر ایک نیک کام کیلئے تیار رہنے‘ کے علاوہ، ہمیں اس کی نظر میں نیکی کو عمل میں لانے کے قابل بھی بناتا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۴-۱۷) صحیفائی ہدایت سے فائدہ اُٹھانے اور بھلائی کا مظاہرہ کرنے کیلئے ہمارا رجحان زبورنویس جیسا ہونا چاہئے جس نے اپنے گیت میں اس کا اظہار یوں کِیا: ”تُو [یہوواہ] بھلا ہے اور بھلائی کرتا ہے۔ مجھے اپنے آئین سکھا۔“—زبور ۱۱۹:۶۸۔
یہوواہ کی نیکی کی بڑائی کرنا
۶. جب داؤد بادشاہ یروشلیم میں عہد کا صندوق لیکر آیا تو لاویوں نے اپنے گیت میں کس چیز کا اظہار کِیا؟
۶ قدیم اسرائیل کے بادشاہ داؤد نے خدا کی نیکی کو تسلیم کِیا اور اس کی راہنمائی کا طالب ہوا۔ داؤد نے کہا: ”[یہوواہ] نیک اور راست ہے۔ اسلئے وہ گنہگاروں کو راہِحق کی تعلیم دیگا۔“ (زبور ۲۵:۸) اسرائیلیوں کو دی جانے والی الہٰی ہدایت میں دس اہم قوانین—دس احکام—شامل تھے جنہیں پتھر کی دو لوحوں پر لکھ کر عہد کے پاک صندوق میں رکھا گیا تھا۔ جب داؤد اسرائیل کے دارالحکومت یروشلیم میں عہد کا صندوق لیکر آیا تو لاویوں نے ایک گیت گایا جس کے بول کچھ یوں تھے: ”[یہوواہ] کا شکر کرو اسلئےکہ وہ نیک ہے۔ کیونکہ اُسکی شفقت ابدی ہے۔“ (۱-تواریخ ۱۶:۳۴، ۳۷-۴۱) لاوی گویوں کے مُنہ سے ایسی حمدوستائش سننا کسقدر خوشی کا باعث ہوا ہوگا!
۷. عہد کے صندوق کو پاکترین مقام میں لانے اور سلیمان کی مخصوصیت کی دُعا کے بعد کیا واقع ہوا؟
۷ داؤد کے بیٹے سلیمان کے ذریعے تعمیرکردہ ہیکل کی مخصوصیت کے موقع پر بھی ایسے ہی ستائشی الفاظ پر زور دیا گیا تھا۔ عہد کے صندوق کو نئی تعمیرشُدہ ہیکل کے پاکترین مقام میں رکھنے کے بعد لاوی یہوواہ کی حمد کرنے لگے: ”وہ بھلا ہے کیونکہ اُس کی رحمت ابدی ہے۔“ اس موقع پر ہیکل معجزانہ طور پر ابر سے بھر گئی جو دراصل یہوواہ کی پُرجلال موجودگی کی علامت تھا۔ (۲-تواریخ ۵:۱۳، ۱۴) سلیمان کی مخصوصیت کی دُعا کے بعد، ”آسمان پر سے آگ اُتری اور سوختنی قربانی اور ذبیحوں کو بھسم کر دیا۔“ یہ منظر دیکھ کر ”سب بنیاسرائیل . . . نے وہیں فرش پر مُنہ کے بل زمین تک جھک کر سجدہ کِیا اور [یہوواہ] کا شکر ادا کِیا کہ وہ بھلا ہے کیونکہ اُس کی رحمت ابدی ہے۔“ (۲-تواریخ ۷:۱-۳) چودہ روز کی اس تقریب کے بعد، اسرائیلی ”اُس نیکی کے سبب سے جو [یہوواہ] نے داؔؤد اور سلیماؔن اور اپنی قوم اؔسرائیل سے کی تھی خوش اور شادمان ہو کر اپنے ڈیروں“ کو لوٹ گئے۔—۲-تواریخ ۷:۱۰۔
۸، ۹. (ا) اگرچہ اسرائیلیوں نے یہوواہ کی نیکی کی ستائش کی توبھی انہوں نے انجامکار کونسی روش اختیار کر لی؟ (ب) یرمیاہ کی معرفت یروشلیم کی بابت قبلازوقت کیا بیان کِیا گیا تھا اور یہ پیشینگوئی کیسے پوری ہوئی؟
۸ افسوس کی بات ہے کہ اسرائیلیوں نے خدا کی ستائش کے گیتوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چھوڑ دی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہوداہ کے لوگ ’محض ہونٹوں سے یہوواہ کی تعظیم‘ کرتے تھے۔ (یسعیاہ ۲۹:۱۳) نیکی کے خدائی معیاروں پر عمل کرنے کی بجائے انہوں نے بدی کرنا شروع کر دی۔ ان کی بدی میں کیا کچھ شامل تھا؟ وہ بُتپرستی، بداخلاقی، غریبوں پر ظلموستم اور دیگر کئی سنگین گناہوں کے مجرم بن گئے! نتیجتاً، یروشلیم تباہ ہو گیا اور ۶۰۷ ق.س.ع. میں یہوداہ کے باشندے بابلی اسیری میں چلے گئے۔
۹ لہٰذا خدا نے اپنے لوگوں کو تادیب کی۔ تاہم، یرمیاہ نبی کی معرفت اس نے پیشینگوئی کی کہ یروشلیم میں یہ آوازیں سنائی دیں گی: ”ربالافواج کی ستایش کرو کیونکہ [یہوواہ] بھلا ہے اور اُس کی شفقت ابدی ہے۔“ (یرمیاہ ۳۳:۱۰، ۱۱) اور ایسا ہی ہوا۔ ستر سالہ تباہی کے بعد ۵۳۷ ق.س.ع. میں ایک یہودی بقیہ یروشلیم لوٹ آیا۔ (یرمیاہ ۲۵:۱۱؛ دانیایل ۹:۱، ۲) وہ کوہِموریاہ کے مقام پر ہیکل میں ازسرِنو مذبح تعمیر کرکے قربانیاں گزراننے لگے۔ ہیکل کی بنیادیں ان کی واپسی کے دوسرے برس ڈالی گئیں۔ یہ کیا ہی خوشکُن وقت تھا! عزرا نے کہا: ”جب معمار [یہوواہ] کی ہیکل کی بنیاد ڈالنے لگے تو اُنہوں نے کاہنوں کو اپنے اپنے پیراہن پہنے اور نرسنگے لئے ہوئے اور آؔسف کی نسل کے لاویوں کو جھانجھ لئے ہوئے کھڑا کِیا کہ شاہِاؔسرائیل داؔؤد کی ترتیب کے مطابق [یہوواہ] کی حمد کریں۔ سو وہ باہم نوبتبہنوبت [یہوواہ] کی ستایش اور شکرگذاری میں گاگا کر کہنے لگے کہ وہ بھلا ہے کیونکہ اُس کی رحمت ہمیشہ اؔسرائیل پر ہے۔“—عزرا ۳:۱-۱۱۔
۱۰. زبور ۱۱۸ کس اہم اظہار کیساتھ شروع اور ختم ہوتا ہے؟
۱۰ یہوواہ کی نیکی کے سلسلے میں ستائش کا ایسا ہی اظہار کئی زبوروں میں بھی ملتا ہے۔ ان میں زبور ۱۱۸ ہے جسے اسرائیلی گھرانے فسح کی تقریب کو ختم کرتے وقت گاتے تھے۔ یہ زبور ان الفاظ کیساتھ شروع اور ختم ہوتا ہے: ”[یہوواہ] کا شکر کرو کیونکہ وہ بھلا ہے اور اُسکی شفقت ابدی ہے۔“ (زبور ۱۱۸:۱، ۲۹) شاید یہی ستائش کے وہ آخری الفاظ تھے جو یسوع مسیح نے ۳۳ س.ع. میں اپنی موت سے پہلے کی رات اپنے وفادار رسولوں کیساتھ ملکر گائے تھے۔—متی ۲۶:۳۰۔
”مَیں تیری مِنت کرتا ہوں مجھے اپنا جلال دکھا“
۱۱، ۱۲. جب موسیٰ نے خدا کی پُرجلال جھلک دیکھی تو اسے کونسا اعلان سنائی دیا؟
۱۱ یہوواہ کی نیکی اور شفقت کے درمیان تعلق کو عزرا کے وقت سے بھی صدیوں پہلے ظاہر کر دیا گیا تھا۔ جب اسرائیلیوں نے بیابان میں سونے کے بچھڑے کی پرستش کی اور بدی کرنے والوں کو سزا دی گئی تو اس کے کچھ ہی دیر بعد موسیٰ نے یہوواہ سے مِنت کی: ”مَیں تیری مِنت کرتا ہوں مجھے اپنا جلال دکھا دے۔“ اس بات کو پہچانتے ہوئے کہ موسیٰ اس کے چہرے کو دیکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا یہوواہ نے کہا: ”مَیں اپنی ساری نیکی تیرے سامنے ظاہر کرونگا۔“—خروج ۳۳:۱۳-۲۰۔
۱۲ یہوواہ کی نیکی کوہِسینا پر اگلے ہی دن موسیٰ کے سامنے ظاہر ہوئی۔ اس وقت موسیٰ نے خدا کی پُرجلال جھلک دیکھی اور یہ آواز سنی: ”[یہوواہ] [یہوواہ] خدایِرحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا۔ گناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کریگا بلکہ باپدادا کے گناہ کی سزا اُنکے بیٹوں اور پوتوں کو تیسری اور چوتھی پُشت تک دیتا ہے۔“ (خروج ۳۴:۶، ۷) اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کی نیکی کا تعلق اس کی شفقت اور اسکی شخصیت کے دیگر پہلوؤں سے ہے۔ ان پہلوؤں پر غور کرنا نیکی ظاہر کرنے میں ہماری مدد کریگا۔ آئیے سب سے پہلے اس خوبی پر غور کریں جس کا ذکر خدا کی نیکی کے اس شاندار اعلان میں دو بار ملتا ہے۔
’شفقت میں غنی خدا‘
۱۳. خدا کی نیکی کے اعلان میں کس خوبی کا ذکر دو مرتبہ آتا ہے اور یہ کیوں موزوں ہے؟
۱۳ ”[یہوواہ] خدا . . . شفقت . . . میں غنی۔ ہزاروں پر فضل کرنے والا“ ہے۔ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”شفقت“ کِیا گیا ہے اس کا مطلب ”وفادارانہ محبت“ بھی ہے۔ یہی وہ خوبی ہے جو موسیٰ کے سامنے خدا کے اعلان میں دو مرتبہ بیان کی گئی ہے۔ یہ کتنی موزوں بات ہے کہ یہوواہ کی نمایاں خوبی محبت ہے! (۱-یوحنا ۴:۸) یہوواہ کے حضور ستائش کا مشہور اظہار، ”وہ بھلا ہے کیونکہ اُسکی شفقت ابدی ہے،“ اس خوبی کو نمایاں کرتا ہے۔
۱۴. خاص طور پر کون خدا کی نیکی اور شفقت کا تجربہ کرتے ہیں؟
۱۴ یہوواہ کی نیکی کا ایک اظہار یہ ہے کہ وہ ”شفقت . . . میں غنی“ ہے۔ یہ بات اپنے مخصوصشُدہ وفادار خادموں کے سلسلے میں اس کی پُرشفقت دیکھبھال سے خاص طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ (۱-پطرس ۵:۶، ۷) یہوواہ کے گواہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ وہ واقعی اپنے محبت رکھنے اور خدمت کرنے والوں کے لئے ’شفقت دکھاتا‘ ہے۔ (خروج ۲۰:۶) یہوواہ کے بیٹے کو رد کر دینے کی وجہ سے پیدائشی اسرائیلی قوم اُس کی شفقت یا وفادارانہ محبت سے مستفید نہ ہو سکی۔ لیکن تمام قوموں میں سے آنے والے وفادار مسیحی ابد تک خدا کی نیکی اور وفادارانہ محبت کا تجربہ کریں گے۔—یوحنا ۳:۳۶۔
یہوواہ—رحیم اور مہربان
۱۵. (ا) کوہِسینا پر موسیٰ نے جو اعلان سنا وہ کس اظہار سے شروع ہوتا ہے؟ (ب) رحم میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۵ کوہِسینا پر موسیٰ نے جو اعلان سنا وہ اس اظہار سے شروع ہوا تھا: ”[یہوواہ] [یہوواہ] خدایِ رحیم اور مہربان۔“ جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”رحیم“ کِیا گیا ہے وہ ”انتڑیوں“ کا حوالہ بھی دے سکتا ہے اور ”رحم“ سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا، رحم میں باطنی مشفقانہ احساسات شامل ہیں۔ لیکن رحم میں حقیقی ترس سے زیادہ کچھ شامل ہے۔ اس سے ہمیں دوسروں کی تکلیف کم کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنے کی تحریک ملنی چاہئے۔ مثال کے طور پر، شفیق مسیحی بزرگ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں موزوں صورتحال میں ساتھی ایمانداروں کے لئے ’خوشی سے رحم دکھاتے‘ ہوئے رحیم بننے کی ضرورت ہے۔—رومیوں ۱۲:۸؛ یعقوب ۲:۱۳؛ یہوداہ ۲۲، ۲۳۔
۱۶. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یہوواہ مہربان ہے؟
۱۶ خدا کی نیکی اس کی مہربانی سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک مہربان شخص ”نمایاں طور پر دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتا“ اور ’ادنیٰ انسانوں کے لئے بالخصوص مشفقانہ ہمدردی ظاہر کرتا ہے۔‘ یہوواہ اپنے وفادار خادموں کے ساتھ اپنے تعلقات میں مہربانی کی عمدہ مثال قائم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، خدا نے فرشتگان کے ذریعے مہربانی سے عمررسیدہ نبی دانیایل کو طاقت بخشی اور کنواری مریم کو اس شرف سے مطلع کِیا کہ وہ یسوع کو جنم دیگی۔ (دانیایل ۱۰:۱۹؛ لوقا ۱:۲۶-۳۸) یہوواہ کے لوگوں کے طور پر، ہم شکرگزار ہیں کہ یہوواہ بائبل صفحات کے ذریعے ہم سے مہربانہ استدعا کرتا ہے۔ ہم اس کی نیکی کے اس اظہار کے لئے اس کی ستائش کرتے اور دوسروں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روحانی لیاقتیں رکھنے والے بھی کسی ساتھی مسیحی کو ”حلممزاجی سے بحال“ کرتے وقت نرمی اور مہربانی سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔—گلتیوں ۶:۱۔
قہر کرنے میں دھیما خدا
۱۷. یہوواہ کے ”قہر کرنے میں دھیما“ ہونے کیلئے ہم کیوں شکرگزار ہیں؟
۱۷ ”خدا . . . قہر کرنے میں دھیما“ ہے۔ یہ الفاظ ہماری توجہ یہوواہ کی نیکی کے ایک اَور پہلو پر دلاتے ہیں۔ یہوواہ صبر کیساتھ ہماری کمزوریوں کی برداشت کرتا اور ہمیں سنگین کمزوریوں پر غالب آنے اور روحانی ترقی کرنے کیلئے وقت دیتا ہے۔ (عبرانیوں ۵:۱۲–۶:۳؛ یعقوب ۵:۱۴، ۱۵) خدا کا صبر ان اشخاص کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے جو ابھی تک اس کے پرستار نہیں بنے۔ ان کے پاس ابھی بھی بادشاہتی پیغام قبول کرنے اور توبہ کرنے کا وقت ہے۔ (رومیوں ۲:۴) یہوواہ اگرچہ صابر ہے توبھی بعضاوقات اس کی نیکی اسے اپنا قہر ظاہر کرنے کی تحریک دیتی ہے جیساکہ اس نے اس کا اظہار کوہِسینا پر اسرائیلیوں کے سونے کے بچھڑے کی پرستش کرنے کے وقت کِیا تھا۔ بہت جلد شیطانی نظام کے خاتمے پر خدا کا قہر اِس سے کہیں بڑے پیمانے پر نازل ہوگا۔—حزقیایل ۳۸:۱۹، ۲۱-۲۳۔
۱۸. وفا کے سلسلے میں یہوواہ اور انسانی لیڈروں کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے؟
۱۸ ”[یہوواہ] خدا . . . وفا میں غنی“ ہے۔ یہوواہ انسانی لیڈروں سے کتنا فرق ہے جو بڑے بڑے وعدے تو کرتے ہیں مگر اُنہیں پورا نہیں کر پاتے! اس کے برعکس، یہوواہ کے پرستار اس کے الہامی کلام میں کہی گئی ہر بات پر اعتماد رکھ سکتے ہیں۔ چونکہ خدا وفا میں غنی ہے اس لئے ہم ہمیشہ اس کے وعدوں پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔ ہمارا آسمانی باپ اپنی نیکی کے باعث روحانی سچائی کو بکثرت فراہم کرنے سے قابلِاعتماد طور پر ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے۔—زبور ۴۳:۳؛ زبور ۶۵:۲۔
۱۹. یہوواہ نے تائب گنہگاروں کیلئے کونسی شاندار نیکی ظاہر کی ہے؟
۱۹ ”[یہوواہ] خدا . . . گناہ اور تقصیر اور خطا کا بخشنے والا“ ہے۔ اپنی نیکی میں یہوواہ تائب گنہگاروں کو معاف کرنے کے لئے تیار ہے۔ واقعی، ہم نہایت شکرگزار ہیں کہ ہمارے آسمانی باپ نے یسوع کی قربانی کے وسیلے سے معافی کا بندوبست کِیا ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۱، ۲) ہم واقعی خوش ہیں کہ فدیے پر ایمان لانے والے سب لوگ نہ صرف یہوواہ کے ساتھ خاص رشتے سے بلکہ موعودہ نئی دُنیا میں غیرمختتم زندگی کی اُمید سے استفادہ کرنے کے قابل ہیں۔ یہ نسلِانسانی کے ساتھ نیکی کرنے کے لئے یہوواہ کی حمد کرنے کی کیا ہی غیرمعمولی وجوہات ہیں!—۲-پطرس ۳:۱۳۔
۲۰. ہمارے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خدا بدی سے چشمپوشی نہیں کرتا؟
۲۰ ”[یہوواہ] مجرم کو ہرگز بری نہیں کریگا۔“ درحقیقت یہ یہوواہ کی نیکی کی ستائش کرنے کی ایک اَور وجہ ہے۔ کیوں؟ اسلئےکہ نیکی کا ایک اہم پہلو ہے کہ یہ کسی بھی لحاظ سے بدی سے چشمپوشی نہیں کرتی ہے۔ مزیدبرآں، جب ”خداوند یسوؔع اپنے قوی فرشتوں کے ساتھ بھڑکتی ہوئی آگ میں آسمان سے ظاہر ہوگا“ تو ”جو خدا کو نہیں پہچانتے اور . . . خوشخبری کو نہیں مانتے“ ان سے بدلہ لیا جائیگا۔ وہ ”ابدی ہلاکت کی سزا پائینگے۔“ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۶-۹) یہوواہ کے بچنے والے پرستار بھرپور زندگی سے لطف اُٹھائیں گے اور انہیں ”نیکی کے دشمن،“ بیدین آدمی پھر کبھی نہیں ستائیں گے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۳۔
یہوواہ کی نیکی کی نقل کریں
۲۱. ہمیں نیکی کیوں کرنی چاہئے؟
۲۱ بِلاشُبہ ہمارے پاس یہوواہ کی نیکی کیلئے ستائش اور شکرگزاری کا اظہار کرنے کی بیشمار وجوہات ہیں۔ اس کے خادموں کے طور پر، کیا ہمیں اس خوبی کا مظاہرہ کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کرنی چاہئے؟ جیہاں، کیونکہ پولس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو تاکید کی تھی: ”عزیز فرزندوں کی طرح خدا کی مانند بنو۔“ (افسیوں ۵:۱) ہمارا آسمانی باپ مسلسل نیکی کرتا ہے اور ہمیں بھی کرنی چاہئے۔
۲۲. ہم اگلے مضمون میں کس بات پر غور کرینگے؟
۲۲ اگر ہم پورے دل سے یہوواہ کے لئے مخصوص ہیں تو بِلاشُبہ ہم اس کی نیکی کی نقل کرنا چاہیں گے۔ گنہگار آدم کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے نیکی کرنا آسان نہیں ہے۔ تاہم، اگلے مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ ہمارے لئے نیکی کرنا کیونکر ممکن ہے۔ ہم ایسے مختلف طریقوں پر بھی غور کریں گے جن سے ہم نیکی کی فائق مثال یہوواہ کی نقل کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنی بھی چاہئے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• نیکی کیا ہے؟
• کونسا صحیفائی اظہار خدا کی نیکی کو نمایاں کرتا ہے؟
• یہوواہ کی نیکی کے بعض اظہارات کیا ہیں؟
• ہمیں یہوواہ کی نیکی کے نمونے کی نقل کیوں کرنی چاہئے؟
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
یہوواہ نے اپنی قدیم اُمت کو تادیب کی کیونکہ انہوں نے اپنے ستائشی اظہارات کے مطابق زندگی بسر نہ کی
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
ایک وفادار بقیہ یروشلیم لوٹ آیا
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
موسیٰ نے خدا کی نیکی کا شاندار اعلان سنا
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
یہوواہ بائبل کے ذریعے جس طرح ہم سے استدعا کرتا ہے اُس سے اُسکی نیکی ظاہر ہوتی ہے