خدا کے کلام سے اپنی راہ روشن کریں
”تیرا کلام . . . میری راہ کیلئے روشنی ہے۔“—زبور ۱۱۹:۱۰۵۔
۱، ۲. روحانی روشنی حاصل کرنے کیلئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
یہوواہ کا کلام اس اندھیرے دَور میں ہماری راہ کے لئے روشنی بن سکتا ہے۔ اس روحانی روشنی کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں خدا کے کلام کو پڑھنا اور اس میں بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم زبورنویس کی طرح دُعا کر سکیں گے کہ ”تیرا کلام میرے قدموں کیلئے چراغ اور میری راہ کیلئے روشنی ہے۔“—زبور ۱۱۹:۱۰۵۔
۲ زبور ۱۱۹ کے پہلے ۱۱ بندوں پر ہم پچھلے مضمون میں بات کر چکے ہیں۔ آئیے اب ہم زبور ۱۱۹:۸۹ تا ۱۷۶ پر غور کرکے دیکھتے ہیں کہ باقی ۱۱ بندوں میں معلومات کا کونسا خزانہ پایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم سکڑے راستے پر چلنے کے قابل ہونگے جو ہمیشہ کی زندگی تک لے جاتا ہے۔—متی ۷:۱۳، ۱۴۔
ہماری خوشنودی خدا کی شریعت میں ہے
۳. زبور ۱۱۹:۸۹، ۹۰ کے مطابق ہم یہوواہ کے کلام پر پورا یقین کیوں کر سکتے ہیں؟
۳ اگر یہوواہ کے کلام میں ہماری خوشنودی ہے تو ہم روحانی طور پر ضرور قائم رہیں گے۔ (زبور ۱۱۹:۸۹-۹۶) زبورنویس نے یوں گایا: ”اَے [یہوواہ]! تیرا کلام آسمان پر ابدتک قائم ہے۔ . . . تُو نے زمین کو قیام بخشا اور وہ قائم ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۸۹، ۹۰) یہوواہ خدا نے حکم کِیا ہے کہ ستارے اور سیارے ”آسمان کے قوانین“ کے مطابق گردش کرتے رہیں اور زمین ہمیشہ تک اپنی بنیاد پر قائم رہے اور بالکل ایسا ہی ہے۔ (ایوب ۳۸:۳۱-۳۳؛ زبور ۱۰۴:۵) یہ جان کر ہم ہر اُس بات پر پورا یقین کر سکتے ہیں جو یہوواہ کہتا ہے۔ اگر یہوواہ کسی بات کا حکم دیتا ہے تو وہ اسے اپنے مقصد کے مطابق ضرور ”پورا“ کرے گا۔—یسعیاہ ۵۵:۸-۱۱۔
۴. اذیت سہتے وقت خدا کے کلام کے لئے ہماری محبت ہمارے کام کیسے آ سکتی ہے؟
۴ زبورنویس نے کہا کہ ’میری خوشنودی خدا کی شریعت میں ہے۔‘ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ”اپنی مصیبت میں ہلاک ہو جاتا۔“ (زبور ۱۱۹:۹۲) کیا اُسے غیروں کے ہاتھ اذیت پہنچائی جا رہی تھی؟ نہیں، بلکہ اُس کے اپنے اسرائیلی بھائی اُس کی مصیبت کا باعث تھے۔ (احبار ۱۹:۱۷) اس کے باوجود زبورنویس روحانی طور پر قائم رہا کیونکہ اُسے یہوواہ کی شریعت سے لگن تھی۔ پولس رسول کو کُرنتھس کی کلیسیا میں بھی ”جھوٹے بھائیوں“ کی طرف سے خطرہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کلیسیا میں ایسے بھائی جو خود کو ’افضل رسول‘ سمجھتے تھے اُس پر جھوٹے الزام لگا رہے تھے۔ (۲-کرنتھیوں ۱۱:۵، ۱۲-۱۴، ۲۶) لیکن پولس روحانی طور پر مضبوط رہا کیونکہ اُسے خدا کے کلام سے محبت تھی۔ اگر ہمیں خدا کے کلام سے محبت ہوگی اور ہم اس پر عمل بھی کریں گے تو ہم اپنے روحانی بہنبھائیوں سے محبت رکھیں گے۔ (۱-یوحنا ۳:۱۵) اس کے علاوہ جب دُنیا ہمارے لئے اپنی نفرت ظاہر کرے گی تب بھی ہم خدا کے احکام کو نہیں بھولیں گے۔ ہم اپنے روحانی بہنبھائیوں کے ساتھ ملکر یہوواہ کے قوانین پر چلیں گے اور ہمیشہ کی زندگی کی اُمید باندھے رکھیں گے۔—زبور ۱۱۹:۹۳۔
۵. بادشاہ آسا یہوواہ کا طالب کیسے رہا؟
۵ ہم زبورنویس کی طرح یوں دُعا کر سکتے ہیں: ”مَیں تیرا ہی ہوں۔ مجھے بچا لے کیونکہ مَیں تیرے قوانین کا طالب رہا ہوں۔“ (زبور ۱۱۹:۹۴) یہوداہ کا بادشاہ آسا بھی یہوواہ کا طالب رہا۔ اُس نے اپنے ملک میں برگشتگی کو کچل دیا۔ اُس کے راج کے پندرھویں برس میں (۹۶۳ ق.س.ع.) یروشلیم کے تمام باشندوں نے جمع ہو کر ”[یہوواہ] کے طالب“ ہونے کا عہد باندھا۔ اس کے نتیجے میں ’یہوواہ اُن کو ملا اور اُس نے اُن کو چاروں طرف امان بخشی۔‘ (۲-تواریخ ۱۵:۱۰-۱۵) اسی طرح ایسے بہنبھائی جو کلیسیا سے دُور ہو گئے ہیں دوبارہ سے یہوواہ کے طالب ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ دوبارہ سے خدا کے خادموں کے ساتھ جمع ہو کر اُس کی عبادت کریں گے تو یہوواہ اُنہیں برکت دے گا اور اُن کی حفاظت بھی کرے گا۔
۶. ہم روحانی طور پر نقصان اُٹھانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
۶ خدا کے کلام پر غور کرنے سے ہم دانشمند اور سمجھدار بن جاتے ہیں۔ اس طرح ہم روحانی نقصان اُٹھانے سے بچ سکتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۹۷-۱۰۴) خدا کے فرمان ہمیں اپنے دُشمنوں سے زیادہ دانشمند بناتے ہیں۔ اُس کی ہدایت پر دھیان دینے سے ہم دانا بن جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم ’عمررسیدہ لوگوں سے زیادہ سمجھ رکھنے لگتے ہیں کیونکہ ہم خدا کے قوانین کو مانتے ہیں۔‘ (زبور ۱۱۹:۹۸-۱۰۰) اگر ’یہوواہ کی باتیں ہمارے مُنہ کو شہد سے بھی میٹھی معلوم ہوتی ہیں‘ تو ہمیں ”ہر جھوٹی راہ سے نفرت“ ہوگی اور ہم ان راہوں سے دُور رہیں گے۔ (زبور ۱۱۹:۱۰۳، ۱۰۴) ایسا کرنے سے ہم اس اخیر زمانے کے مغرور اور چڑچڑے لوگوں سے بچے رہیں گے جو خدا سے مُنہ موڑے ہوئے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
ہمارے قدموں کیلئے چراغ
۷، ۸. زبور ۱۱۹:۱۰۵ کے مطابق ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۷ خدا کا کلام ایک ایسی روشنی کی طرح ہے جو اس اندھیرے دَور میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۰۵-۱۱۲) ممسوح مسیحی اپنے ساتھیوں سمیت جو ’دوسری بھیڑوں‘ کی جماعت میں سے ہیں، وہ سب کے سب ملکر کہتے ہیں کہ ”تیرا کلام میرے قدموں کے لئے چراغ اور میری راہ کے لئے روشنی ہے۔“ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ زبور ۱۱۹:۱۰۵) جیہاں، اگر ہم خدا کے کلام کی روشنی میں چلیں گے تو ہم روحانی طور پر ٹھوکر نہیں کھائیں گے۔ (امثال ۶:۲۳) کیا ہم واقعی یہوواہ کے کلام کو اپنے قدموں کے لئے چراغ سمجھتے ہیں؟
۸ ہمیں زبورنویس کی طرح خدا کے فرمان پر قائم رہنے کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ زبورنویس نے کہا: ”مَیں نے قسم کھائی اور اس پر قائم ہوں کہ [یہوواہ کی] صداقت کے احکام پر عمل کروں گا۔“ (زبور ۱۱۹:۱۰۶) ایسے فیصلے پر قائم رہنے کے لئے ہمیں باقاعدگی سے بائبل کی پڑھائی کرنی چاہئے اور خدا کے خادموں کے ساتھ عبادت کے لئے جمع بھی ہونا چاہئے۔
۹، ۱۰. (ا) ایک ایسے شخص کی مثال دیجئے جو یہوواہ کے ’قوانین سے بھٹک‘ گیا تھا۔ (ب) یہوواہ کے قوانین پر قائم رہنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۹ زبورنویس خدا کے ”قوانین سے نہیں بھٹکا۔“ (زبور ۱۱۹:۱۱۰) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب ایک شخص یہوواہ کے لئے اپنی زندگی وقف کر لیتا ہے تو وہ کبھی اس راہ سے بھٹک نہیں سکتا۔ اس سلسلے میں بادشاہ سلیمان کی مثال لیجئے۔ شروع شروع میں وہ یہوواہ کے قوانین پر قائم رہا۔ لیکن بعد میں ”اجنبی عورتوں نے اُسے بھی گُناہ میں پھنسایا“ اور اُس نے دیویدیوتاؤں کی پوجا کرنا شروع کر دی۔—نحمیاہ ۱۳:۲۶؛ ۱-سلاطین ۱۱:۱-۶۔
۱۰ شیطان ایک ”صیاد“ یعنی شکاری کی مانند ہے جو ہمیں طرح طرح کے پھندوں سے پھنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ (زبور ۹۱:۳) مثال کے طور پر شاید ہم کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں جو ہمیں خدا کے کلام کی روشنی سے برگشتگی کی تاریکی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ یسوع نے تھواتیرہ کی کلیسیا میں ”اُس عورت اؔیزبل“ کی سختی سے ملامت کی۔ یہ شاید عورتوں کا ایک ایسا گروہ تھا جو کلیسیا کے افراد کو حرامکاری اور بُتوں کی پوجا کرنے پر اُکسا رہا تھا۔ یسوع کی طرح ہمیں بھی ایسی بیدینی سے نفرت ہونی چاہئے۔ (مکاشفہ ۲:۱۸-۲۲؛ یہوداہ ۳، ۴) اِس لئے آئیے ہم یہوواہ سے دُعا کریں کہ وہ ہمارے دلوں کو اپنے آئین ماننے پر لگائے رکھے۔ اس طرح ہم اُس کے نور میں رہ سکیں گے۔—زبور ۱۱۹:۱۱۱، ۱۱۲۔
خدا ہمیں سنبھالیگا
۱۱. زبور ۱۱۹:۱۱۹ کے مطابق یہوواہ شریروں کو کیسے خیال کرتا ہے؟
۱۱ اگر ہم خدا کے آئین پر قائم رہیں گے تو وہ ہمیں سنبھالے رکھے گا۔ (زبور ۱۱۹:۱۱۳-۱۲۰) یسوع ایسے مسیحیوں کی ملامت کرتا ہے جن کی محبت نیم گرم پڑ گئی ہے۔ اسی طرح ہم بھی ’دو دلا‘ لوگوں سے کنارہ کرتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۱۳؛ مکاشفہ ۳:۱۶) جب ہم یہوواہ کے کلام پر بھروسا رکھتے ہیں تو وہ ہمارے لئے ”چھپنے کی جگہ“ بن جاتا ہے اور ہماری حفاظت کرتا ہے۔ لیکن اُسے ایسے لوگوں سے نفرت ہے جو دغابازی کرکے اُس کے ”آئین سے بھٹک جاتے ہیں۔“ (زبور ۱۱۹:۱۱۴، ۱۱۷، ۱۱۸؛ امثال ۳:۳۲) یہوواہ ”شریروں کو میل کی طرح“ خیال کرتا ہے۔ وہ ان کو بالکل اسی طرح ردّ کرتا ہے جیسے سونے اور چاندی میں سے میل چھانٹی اور پھر پھینک دی جاتی ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۱۹؛ امثال ۱۷:۳) دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ خدا کے کلام کے لئے اپنی محبت میں قائم رہیں تاکہ یہوواہ ان شریروں کی طرح ہمیں کبھی ردّ نہ کرے۔
۱۲. ہمیں یہوواہ کے خوف میں کیوں رہنا چاہئے؟
۱۲ زبورنویس نے یہوواہ خدا سے کہا کہ ”میرا جسم تیرے خوف سے کانپتا ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۱۲۰) جیہاں، یہوواہ صرف ایسے لوگوں کو سنبھالتا ہے جو اُس کے احکام کی خلافورزی کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ایوب بھی خدا کو ناراض کرنے سے ڈرتا تھا اور اس لئے وہ بدی سے دُور رہا۔ (ایوب ۱:۱؛ ۲۳:۱۵) اسی طرح اگر ہمارے دل میں یہوواہ کا خوف ہے تو ہم ہر طرح کی اذیت سہنے کو تیار ہوں گے اور اُس کو ناراض بھی نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ خدا کے کلام پر قائم رہنے کے لئے ہمیں ایمان کے ساتھ دُعا بھی کرنی ہوگی۔—یعقوب ۵:۱۵۔
ایمان کیساتھ دُعا کریں
۱۳-۱۵. (ا) ہمیں کیوں یقین ہے کہ خدا ہماری فریادیں سنتا ہے؟ (ب) اگر ہم اپنے دِل کی اُلجھن کو الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے تو خدا کی رُوح ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟ (پ) مثالیں دے کر بتائیں کہ زبور ۱۱۹:۱۲۱-۱۲۸ کے الفاظ ہماری ’آہوں‘ کی جگہ ہماری دُعا کیسے بن سکتے ہیں۔
۱۳ ہم یہوواہ سے مدد کی فریاد کر سکتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۲۱-۱۲۸) زبورنویس کی طرح ہمیں بھی یقین ہے کہ وہ ہماری سنتا ہے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ ہم اُس کے فرمان ”سونے سے بلکہ کندن سے بھی زیادہ عزیز“ رکھتے ہیں اور اُس کے ”سب قوانین کو برحق“ یعنی سچ خیال کرتے ہیں۔—زبور ۱۱۹:۱۲۷، ۱۲۸۔
۱۴ یہوواہ ہماری فریادیں اس لئے بھی سنتا ہے کیونکہ ہم ایمان کے ساتھ دُعا کرتے ہیں اور اُس کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ (زبور ۶۵:۲) لیکن کبھیکبھار ہم اتنے پریشان ہوتے ہیں کہ دُعا کرتے وقت ہم اپنے دل کی اُلجھن کو الفاظ میں بیان نہیں کر پاتے۔ ایسی صورتحال میں ”روح خود ایسی آہیں بھربھر کر ہماری شفاعت کرتا ہے۔“ (رومیوں ۸:۲۶، ۲۷) اس کا مطلب ہے کہ خدا اپنے کلام میں پائے جانے والے خیالات کو ہماری دُعاؤں کے طور پر قبول کرتا ہے۔
۱۵ پاک صحائف میں بہت سی ایسی دُعائیں اور ایسے خیالات شامل ہیں جو ہماری ’آہوں‘ کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں زبور ۱۱۹:۱۲۱-۱۲۸ پر غور کریں۔ ان آیتوں میں جن باتوں کا ذکر کِیا گیا ہے شاید ہمیں بھی ان کا سامنا ہو۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ ہم پر ظلم ڈھایا جا رہا ہو۔ پھر ہم آیت ۱۲۱ تا ۱۲۳ کے الفاظ میں خدا سے مدد کی فریاد کر سکتے ہیں۔ کیا ہمیں کوئی بہت ہی اہم فیصلہ کرنا ہے؟ تب ہم خدا سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے آئین سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ (آیت ۱۲۴، ۱۲۵) زبورنویس کی طرح ہمیں بھی ’ہر جھوٹی راہ سے نفرت ہے۔‘ اس کے باوجود ہم خدا کے قوانین کو توڑنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہمیں خدا سے التجا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں اس آزمائش سے نپٹنے کی طاقت دے۔ (آیت ۱۲۶ تا ۱۲۸) اگر ہم روزانہ بائبل پڑھتے ہیں تو دُعا کرتے وقت ہمیں بہت سے ایسے صحیفے یاد آئیں گے جنہیں ہم اپنی فریادوں میں شامل کر سکتے ہیں۔
یہوواہ کی شہادتوں کو دل سے مانیں
۱۶، ۱۷. (ا) یہوواہ کی شہادتیں ہمارے لئے اتنی اہم کیوں ہیں اور ہمیں ان کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ (ب) ہمارے دُشمن ہمیں کیسا خیال کرتے ہیں؟ لیکن وہ کیوں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے؟
۱۶ اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہماری سنے تو ہمیں اُس کی شہادتوں کو دل سے ماننا ہوگا۔ (زبور ۱۱۹:۱۲۹-۱۳۶) اکثر اوقات ہم یہوواہ کی ہدایت اور اُس کے فرمان بھول جاتے ہیں۔ لیکن خدا کی شہادتیں اس سلسلے میں ہماری یاد کو تازہ رکھتی ہیں۔ اس کے علاوہ جب ہم خدا کے کلام کے بارے میں کوئی نئی بات سیکھتے ہیں تو ہم اس روحانی نور کو پا کر بہت خوش ہوتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۲۹، ۱۳۰) ہم اس بات سے بھی خوش ہیں کہ یہوواہ نے ہم پر ’اپنا چہرہ جلوہگر فرمایا ہے۔‘ لیکن جب لوگ خدا کی شریعت کو نہیں مانتے تو ہماری ”آنکھوں سے پانی کے چشمے جاری“ ہوتے ہیں۔—زبور ۱۱۹:۱۳۵، ۱۳۶؛ گنتی ۶:۲۵۔
۱۷ اگر ہم خدا کی شہادتوں پر کان لگائیں گے تو وہ ہم سے خوش رہے گا۔ (زبور ۱۱۹:۱۳۷-۱۴۴) یہوواہ نے اپنے خادموں پر اپنی شہادتیں ظاہر کی ہیں تاکہ وہ ان پر عمل کریں۔ (زبور ۱۱۹:۱۳۸) لیکن زبورنویس تو خدا کے قوانین پر عمل کر رہا تھا۔ پھر اُس نے کیوں کہا کہ ”مَیں ادنیٰ اور حقیر ہوں“؟ (زبور ۱۱۹:۱۴۱) دراصل وہ اپنے دُشمنوں کی بات کر رہا تھا جو اُس کو ایسا خیال کرتے تھے۔ اسی طرح شاید ہمارے دُشمن بھی ہمیں حقیر خیال کریں کیونکہ ہم یہوواہ کی شہادتوں کے مطابق چل رہے ہیں۔ لیکن وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ ہمیں یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہے۔
مطمئن اور محفوظ رہیں
۱۸، ۱۹. خدا کی شہادتوں کو ماننے کے کونسے فائدے ہیں؟
۱۸ خدا کی شہادتوں کو ماننے سے ہم اُس کے نزدیک رہ سکتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۴۵-۱۵۲) اس کے علاوہ یہوواہ کے آئین پر عمل کرنے سے ہم بِلاجھجھک دُعا کر سکتے ہیں اور وہ ہماری ضرور سنے گا۔ ہم صبحسویرے ”پَو پھٹنے سے پہلے“ ہی یہوواہ سے فریاد کر سکتے ہیں۔ واقعی یہ دُعا کرنے کا بہترین وقت ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۴۵-۱۴۷) خدا اس لئے بھی ہم سے دُور نہیں کیونکہ ہم بداخلاقی نہیں کرتے اور اُس کے کلام کو سچائی جان کر قبول کرتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۵۰، ۱۵۱؛ یوحنا ۱۷:۱۷) جس شخص کو یہوواہ کی قربت حاصل ہے یہوواہ اس بُرے دَور میں اُس کو سنبھالتا ہے اور اپنے روزِعظیم کی لڑائی میں اُس کی حفاظت بھی کرے گا۔—مکاشفہ ۷:۹، ۱۴؛ ۱۶:۱۳-۱۶۔
۱۹ ہم یہوواہ کے کلام کی پورے دل سے قدر کرتے ہیں۔ اس لئے وہ ہماری حفاظت کرنے کو تیار ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۵۳-۱۶۰) شریر لوگ یہوواہ کی ”شہادتوں سے کنارہ“ کرتے ہیں۔ ان کے برعکس ہم خدا کے قوانین کے لئے گہری محبت رکھتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اُس کی شفقت حاصل ہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۵۷-۱۵۹) اکثر جب ہمیں کسی آزمائش یا اذیت کا سامنا ہوتا ہے تو یہوواہ کی شہادتیں ہماری یاد تازہ کرتی ہیں اور ہم جان جاتے ہیں کہ یہوواہ اس صورتحال میں ہم سے کونسے ردِعمل کی توقع رکھتا ہے۔ یہوواہ اپنے احکام کے ذریعے ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان اپنے قدموں کی راہنمائی کرنے کے قابل نہیں ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ’خدا کے کلام کا خلاصہ سچائی ہے۔‘ اس لئے ہم خوشی سے اُس کی راہنمائی قبول کرتے ہیں۔—یرمیاہ ۱۰:۲۳؛ زبور ۱۱۹:۱۶۰۔
۲۰. یہوواہ کے خادم ”مطمئن“ کیوں ہیں؟
۲۰ ہم یہوواہ کی شریعت سے محبت رکھتے ہیں اور اس لئے ہم مطمئن بھی رہتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۶۱-۱۶۸) یہاں تک کہ اذیت سہتے وقت بھی ”خدا کا اطمینان“ ہمارے دلوں پر چھایا رہتا ہے۔ (فلپیوں ۴:۶، ۷) ہم خدا کے احکام کے لئے اتنے شکرگزار ہیں کہ ہم ”دن میں سات بار“ یعنی باربار اُس کی ستائش کرتے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۶۱-۱۶۴) زبورنویس نے گایا کہ ”تیری شریعت سے محبت رکھنے والے مطمئن ہیں۔ اُن کے لئے ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں۔“ (زبور ۱۱۹:۱۶۵) اگر ہم یہوواہ کی شریعت کو عزیز جان کر اُس پر عمل کریں گے تو ہم کسی کی حرکتوں یا باتوں کی وجہ سے ٹھوکر نہیں کھائیں گے۔
۲۱. جب مسیحی کلیسیا میں مسئلے کھڑے ہوتے ہیں تو ہمارا کیا ردِعمل ہونا چاہئے؟ بائبل میں سے مثالیں دے کر بیان کریں۔
۲۱ بائبل میں بہت سے ایسے اشخاص کا ذکر ہوا ہے جنہوں نے کٹھن حالات کا سامنا کرتے ہوئے بھی ٹھوکر نہیں کھائی۔ مثال کے طور پر گیس نے مسیحی کلیسیا میں دیترُفیس کی بُری روِش کو دیکھ کر ٹھوکر نہیں کھائی بلکہ وہ ’سچائی پر چلتا رہا۔‘ (۳-یوحنا ۱-۳، ۹، ۱۰) جب یوؤدیہ اور سنتخے میں ایک مسئلہ کھڑا ہوا تو پولس نے ان دو مسیحی بہنوں کو ’خداوند میں یکدل رہنے‘ کی نصیحت کی۔ کلیسیا کے بزرگوں نے بھی ان عورتوں کی مدد کی۔ نتیجتاً اُنہوں نے صلح کرکے یہوواہ کے لئے اپنی خدمت جاری رکھی۔ (فلپیوں ۴:۲، ۳) اس میں ہمارے لئے ایک اہم سبق ہے۔ اگر ہماری کلیسیا میں مسئلے کھڑے ہو بھی جائیں تو ہمیں ان کی وجہ سے ٹھوکر نہیں کھانی چاہئے۔ اس کی بجائے ہمیں یہوواہ کے قوانین پر عمل کرتے رہنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ’ہماری سب روشیں اُس کے سامنے ہیں۔‘ (زبور ۱۱۹:۱۶۸؛ امثال ۱۵:۳) ایسا ردِعمل دکھانے سے ہم ہمیشہ ”مطمئن“ رہ سکیں گے۔
۲۲. (ا) یہوواہ خدا کے احکام کی فرمانبرداری کرنے سے ہمیں کونسا شرف حاصل ہوگا؟ (ب) ہمیں ایسے اشخاص کو کیسا خیال کرنا چاہئے جو خدا کی راہ سے بھٹک گئے ہیں؟
۲۲ اگر ہم یہوواہ خدا کے احکام کی فرمانبرداری کریں گے تو ہمیں ہمیشہ تک اُس کی ستائش کرنے کا شرف حاصل ہوگا۔ (زبور ۱۱۹:۱۶۹-۱۷۶) خدا کے آئین کے مطابق چلنے سے ہم روحانی طور پر محفوظ رہیں گے اور ہمارے ’لب یہوواہ کی ستائش‘ کرتے رہیں گے۔ (زبور ۱۱۹:۱۶۹-۱۷۱، ۱۷۴) اس سے بڑا شرف بھلا کیا ہو سکتا ہے؟ زبورنویس بھی خدا کی ستائش کرنے کے لئے زندہ رہنا چاہتا تھا لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے ایک ”کھوئی ہوئی بھیڑ کی مانند بھٹک گیا“ تھا۔ (زبور ۱۱۹:۱۷۵، ۱۷۶) اسی طرح آج بھی ایسے اشخاص ہیں جو خدا کے لئے محبت تو رکھتے ہیں اور اُس کی ستائش بھی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ خدا کی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔ آئیں ہم انہیں کلیسیا میں واپس لانے کی بھرپور کوشش کریں تاکہ وہ یہوواہ کے لوگوں کے ساتھ ملکر اُس کی ستائش کر سکیں اور روحانی خطروں سے محفوظ رہ سکیں۔—عبرانیوں ۱۳:۱۵؛ ۱-پطرس ۵:۶، ۷۔
ہماری راہ کیلئے روشنی
۲۳، ۲۴. زبور ۱۱۹ پر غور کرنے سے آپ نے کیا سیکھا ہے؟
۲۳ زبور ۱۱۹ پر غور کرنے سے ہم نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مثال کے طور پر زبور ۱۱۹:۱ میں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ جو ”[یہوواہ] کی شریعت پر عمل کرتے ہیں“ سچی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ کیا یہ پڑھ کر یہوواہ پر ہمارا بھروسا بڑھ نہیں جاتا؟ زبورنویس ہمیں اس بات کی بھی یاد دلاتا ہے کہ ’خدا کے کلام کا خلاصہ سچائی ہے۔“ (زبور ۱۱۹:۱۶۰) کیا اس سے ہمارے دل میں خدا کے کلام کے لئے شکرگزاری کا احساس نہیں بڑھتا؟ جب ہم زبور ۱۱۹ پر غور کرتے ہیں تو ہم میں پاک صحائف کی پڑھائی کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ زبورنویس نے باربار خدا سے فریاد کی کہ ”مجھے اپنے آئین سکھا۔“ (زبور ۱۱۹:۱۲، ۶۸، ۱۳۵) وہ خدا سے التجا کرتا رہا کہ ”مجھے صحیح امتیاز اور دانش سکھا کیونکہ مَیں تیرے فرمان پر ایمان لایا ہوں۔“ (زبور ۱۱۹:۶۶) ہمیں بھی خدا سے اسی طرح التجا اور فریاد کرنی چاہئیں۔
۲۴ یہوواہ کے احکام کے بارے میں سیکھنے سے ہم اُس کے نزدیک آ سکتے ہیں۔ زبورنویس خود کو باربار خدا کا بندہ کہتا ہے۔ اُس نے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دیا تھا۔ اس لئے وہ یہوواہ سے کہہ سکتا تھا کہ ”مَیں تیرا ہی ہوں۔“ (زبور ۱۱۹:۱۷، ۶۵، ۹۴، ۱۲۲، ۱۲۵؛ رومیوں ۱۴:۸) ہمیں یہوواہ کے ایک گواہ کے طور پر اُس کی خدمت اور اُس کی ستائش کرنے کا شرف حاصل ہے۔ (زبور ۱۱۹:۷) کیا آپ خوشی سے خدا کی بادشاہت کی مُنادی کر رہے ہیں؟ کیا آپ ہمیشہ اُس کے کلام پر بھروسا کرتے ہیں اور اس کے کلام کی روشنی میں چل رہے ہیں؟ اگر آپ ایسا کر رہے ہیں تو پھر یہوواہ آپ کو ضرور سنبھالے رکھے گا اور آپ پر برکتوں کا مینہ برسائے گا۔
آپکا کیا جواب ہوگا؟
• ہمیں خدا کے کلام کیلئے محبت کیوں رکھنی چاہئے؟
• خدا ہمیں اپنے کلام کے ذریعے کیسے سنبھالے رکھتا ہے؟
• یہوواہ کی شہادتوں کو ماننے کے کونسے فائدے ہیں؟
• یہوواہ کے خادم مطمئن اور محفوظ کیوں ہیں؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
خدا کا کلام ایک چراغ کی طرح ہماری راہنمائی کرتا ہے
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
یہوواہ اپنے کلام سے محبت رکھنے والوں کو سونا اور چاندی سے چھانٹی ہوئی ”میل“ کی طرح خیال نہیں کرتا
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
روزانہ خدا کے کلام کی پڑھائی کرنے سے ہمیں دُعا کرتے وقت ایسے صحیفے یاد آئینگے جنکو ہم اپنی فریادوں میں شامل کر سکتے ہیں