”مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے“
وہ ایک شاعر، ماہرِتعمیرات اور بادشاہ تھا۔ وہ زمین کے تمام بادشاہوں سے زیادہ مالدار تھا جس کی سالانہ آمدنی ۲۰۰ ملین ڈالر سے بھی زیادہ تھی۔ وہ اپنی حکمت کیلئے بھی مشہور تھا۔ اس سے ملکر ایک ملکہ اسقدر متاثر ہوئی کہ اُس نے بیان کِیا: ”مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبالمندی اُس شہرت سے جو مَیں نے سنی بہت زیادہ ہے۔“ (۱-سلاطین ۱۰:۴-۹) قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان ایسی ہی حیثیت کا مالک تھا۔
سلیمان کے پاس بادشاہ اور نبی ہونے کی وجہ سے بےپناہ دولت اور حکمت دونوں ہی تھیں۔ لہٰذا، وہ یہ فیصلہ کرنے کے قابل تھا کہ ان دونوں میں سے کونسی چیز درحقیقت لازمی ہے۔ اُس نے لکھا: ”مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ اِس کا حصول چاندی کے حصول سے اور اِس کا نفع کُندن سے بہتر ہے۔ وہ مرجان سے زیادہ بیشبہا ہے اور تیری مرغوب چیزوں میں بےنظیر۔“—امثال ۳:۱۳-۱۵۔
لیکن کچھ اس طرح کے سوال پیدا ہو جاتے ہیں کہ حکمت کہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے؟ یہ دولت سے زیادہ بیشبہا کیوں ہے؟ اِس کی پُرکشش خصوصیات کیا ہیں؟ سلیمان کی الہامی تحریروں میں سے امثال کی کتاب کا آٹھواں باب بڑے دلآویز طریقے سے اِن سوالوں کا جواب دیتا ہے۔ اِس باب میں حکمت کو ایسے پیش کِیا گیا ہے گویا وہ بول سکتی اور عمل بھی کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکمت خود اپنی دلکشی اور قدروقیمت کو بیان کرتی ہے۔
”وہ زور سے پکارتی ہے“
امثال کا آٹھواں باب اس سوال کے ساتھ شروع ہوتا ہے: ”کیا حکمت پکار نہیں رہی اور فہم آواز بلند نہیں کر رہا؟“a جیہاں، حکمت اور فہم مسلسل پکارتے رہتے ہیں مگر اُن کی دعوت اس بداخلاق عورت سے مختلف ہے جو اندھیری راہوں میں چھپ کر کسی اکیلے اور ناتجربہکار نوجوان کو اپنی دلفریب باتوں سے پھنساتی ہے۔ (امثال ۷:۱۲) ”وہ راہ کے کنارے کی اُونچی جگہوں کی چوٹیوں پر جہاں سڑکیں ملتی ہیں کھڑی ہوتی ہے۔ پھاٹکوں کے پاس شہر کے مدخل پر یعنی دروازوں کے مدخل پر وہ زور سے پکارتی ہے۔“ (امثال ۸:۱-۳) حکمت کی بلند اور صاف آواز پھاٹکوں، چوراہوں اور شہر کے مدخل جیسی عوامی جگہوں پر سنائی دیتی ہے۔ لوگ آسانی سے اس آواز کو سنکر اُس کیلئے جوابیعمل دکھا سکتے ہیں۔
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ خدا کے الہامی کلام، بائبل میں درج الہٰی حکمت زمین پر اُن سب لوگوں کیلئے دستیاب ہے جو اِسے حاصل کرنے کے خواہاں ہیں؟ دی ورلڈ بُک انسائیکلوپیڈیا بیان کرتا ہے کہ ”بائبل انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔“ یہ مزید بیان کرتا ہے: ”کسی بھی کتاب کی نسبت، بائبل سب سے زیادہ تقسیم ہوئی ہے۔ دوسری کسی بھی کتاب کے مقابلے میں بائبل کا ترجمہ سب سے زیادہ مرتبہ اور سب سے زیادہ زبانوں میں کِیا گیا ہے۔“ پوری بائبل یا اسکے کچھ حصے ۲،۱۰۰ سے زائد زبانوں یا بولیوں میں دستیاب ہیں جسکی وجہ سے ۹۰ فیصد سے زیادہ انسانی خاندانوں کے پاس انکی اپنی زبان میں بائبل کا کچھ حصہ موجود ہے۔
یہوواہ کے گواہ ہر جگہ بائبل کے پیغام کا پرچار کر رہے ہیں۔ وہ گرمجوشی سے ۲۳۵ ممالک میں خدا کی بادشاہتی خوشخبری کی منادی کرنے کے علاوہ لوگوں کو خدا کے کلام کی سچائیوں کی تعلیم دے رہے ہیں۔ انکے بائبل پر مبنی جریدے، مینارِنگہبانی ۱۴۰ زبانوں میں اور جاگو! ۸۳ زبانوں میں شائع ہوتے ہیں اور انکی انفرادی تقسیم ۲۰ ملین سے زیادہ ہے۔ حکمت واقعی کوچوں میں پکار رہی ہے!
”مَیں بنیآدم کو آواز دیتی ہوں“
مجسم حکمت اپنی بات یوں شروع کرتی ہے: ”اَے آدمیو! مَیں تمکو پکارتی ہوں اور بنی آدم کو آواز دیتی ہوں۔ اَے سادہ دلو! ہوشیاری سیکھو اور اَے احمقو! دانا دل بنو۔“—امثال ۸:۴، ۵۔
حکمت کی پکار تمام دُنیا کے لئے ہے۔ اُسکی دعوت تمام نسلِانسانی کیلئے ہے۔ ناتجربہکار لوگوں کو بھی ہوشیاری یا دانائی اور احمقوں کو سمجھ حاصل کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ واقعی، یہوواہ کے گواہ یقین رکھتے ہیں کہ بائبل تمام لوگوں کیلئے ایک کتاب ہے اسلئے وہ اسے پڑھنے اور اس میں موجود حکمت کو حاصل کرنے کے لئے بِلاامتیاز سب کی حوصلہافزائی کرتے ہیں۔
’میرا مُنہ سچائی کو بیان کرتا ہے‘
حکمت مزید استدعا کرتی ہے: ”سنو! کیونکہ مَیں لطیف باتیں کہونگی اور میرے لبوں سے راستی کی باتیں نکلینگی۔ اسلئے کہ میرا منہ سچائی کو بیان کریگا اور میرے ہونٹوں کو شرارت سے نفرت ہے۔ میرے منہ کی سب باتیں صداقت کی ہیں۔ اُن میں کچھ ٹیڑھا ترچھا نہیں ہے۔“ جیہاں، حکمت کی تعلیمات عمدہ اور راست، سچی اور صادق ہیں۔ ان میں کوئی فریب یا کھوٹ نہیں۔ ”سمجھنے والے کیلئے وہ سب صاف ہیں اور علم حاصل کرنے والوں کیلئے راست ہیں۔“—امثال ۸:۶-۹۔
موزوں طور پر، حکمت نصیحت کرتی ہے: ”چاندی کو نہیں بلکہ میری تربیت کو قبول کرو اور کُندن سے بڑھ کر علم کو۔“ یہ مشورت معقول ہے، ”کیونکہ حکمت مرجان سے افضل ہے اور سب مرغوب چیزوں میں بےنظیر۔“ (امثال ۸:۱۰، ۱۱) لیکن کیوں؟ کیا چیز حکمت کو مالودولت سے بیشقیمت بناتی ہے؟
’میرا پھل سونے سے بہتر ہے‘
حکمت پر کان لگانے والوں کیلئے اس کی بخششیں سونے، چاندی اور مرجان سے بھی زیادہ بیشبہا ہیں۔ اِن بخششوں کو بیان کرتے ہوئے حکمت کہتی ہے: ”مجھ حکمت نے ہوشیاری کو اپنا مسکن بنایا ہے اور علم اور تمیز کو پا لیتی ہوں۔ [یہوواہ] کا خوف بدی سے عداوت ہے۔ غرور اور گھمنڈ اور بُری راہ اور کجگو منہ سے مجھے نفرت ہے۔“—امثال ۸:۱۲، ۱۳۔
حکمت کو پا لینے والے لوگ ہوشیاری، علم اور تمیز سے معمور ہو جاتے ہیں۔ الہٰی حکمت پانے والا شخص خدا کی تعظیم اور اسکا مودبانہ احترام کرتا ہے کیونکہ ”[یہوواہ] کا خوف حکمت کا شروع ہے۔“ (امثال ۹:۱۰) لہٰذا وہ اُن چیزوں سے نفرت کرتا ہے جن سے یہوواہ کو نفرت ہے۔ وہ غرور، گھمنڈ، بُری روش اور کجگو مُنہ سے پاک ہوتا ہے۔ بُرائی سے نفرت اُسے طاقت کے غلط استعمال کے نقصاندہ اثرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ مسیحی کلیسیا میں ذمہدار عہدوں پر فائز اشخاص اور خاندان کے سرداروں کیلئے حکمت تلاش کرنا نہایت اہم ہے!
حکمت اپنا بیان جاری رکھتی ہے، ”مشورت اور حمایت میری ہیں۔ فہم مَیں ہی ہوں۔ مجھ میں قدرت ہے۔ میری بدولت بادشاہ سلطنت کرتے اور اُمرا انصاف کا فتویٰ دیتے ہیں۔ میری ہی بدولت حاکم حکومت کرتے ہیں اور سردار یعنی دُنیا کے سب قاضی بھی۔“ (امثال ۸:۱۴-۱۶) حکمت کے پھل بصیرت، سمجھ اور دلیری پر مشتمل ہیں جنکی حکمرانوں، اہلکاروں اور بادشاہوں کو بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ حکمت اعلیٰ عہدیداروں اور دوسروں کو مشورت دینے والوں کیلئے لازمی ہے۔
سچی حکمت سب کیلئے دستیاب ہے مگر سب اِسے حاصل نہیں کرتے۔ بعض تو اپنی دہلیز پر کھڑی حکمت سے بھی کنیکتراتے اور اسے رد کرتے ہیں۔ حکمت بیان کرتی ہے: ”جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں مَیں اُن سے محبت رکھتی ہوں اور جو مجھے دل سے ڈھونڈتے ہیں وہ مجھے پا لینگے۔“ (امثال ۸:۱۷) حکمت صرف اُنکو ملتی ہے جو خلوصدلی سے اُسکی تلاش کرتے ہیں۔
حکمت کی راہیں درست اور راست ہیں۔ یہ اپنے متلاشیوں کو اجر بخشتی ہے۔ حکمت کہتی ہے: ”دولتوعزت میرے ساتھ ہیں۔ بلکہ دائمی دولت اور صداقت بھی۔ میرا پھل سونے سے بلکہ کُندن سے بھی بہتر ہے اور میرا حاصل خالص چاندی سے۔ مَیں صداقت کی راہ پر انصاف کے راستوں میں چلتی ہوں۔ تاکہ مَیں اُنکو جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں مال کے وارث بناؤں اور اُنکے خزانوں کو بھر دوں۔“—امثال ۸:۱۸-۲۱۔
حکمت کی بخششوں میں دانائی، فہموفراست، فروتنی، بصیرت، عملی حکمت اور سمجھ جیسی عمدہ خوبیوں اور خصوصیات کے علاوہ عزتودولت بھی شامل ہے۔ ایک دانشمند شخص راست طریقوں سے دولت کمانے کے علاوہ روحانی ترقی بھی کر سکتا ہے۔ (۳-یوحنا ۲) حکمت ایک شخص کو عزت بھی بخشتی ہے۔ اسکے علاوہ، وہ اپنے حاصلات سے تسکین حاصل کرتا اور ذہنی سکون کیساتھ ساتھ خدا کے حضور ایک صاف ضمیر بھی رکھتا ہے۔ جیہاں، مبارک ہے وہ شخص جو حکمت کو پاتا ہے۔ واقعی حکمت کا پھل سونے بلکہ کُندن اور خالص چاندی سے بھی بہتر ہے۔
ہمارے لئے یہ مشورت واقعی نہایت برمحل ہے کیونکہ ہم ایک ایسی مادہپرست دُنیا میں رہتے ہیں جس میں ہر جائز اور ناجائز طریقے سے دولت حاصل کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے! دُعا ہے کہ ہم کبھی بھی حکمت کی قدروقیمت کو نظرانداز نہ کریں اور دولت کمانے کیلئے بددیانتی کے پھندے میں نہ پھنسیں۔ ہمیں محض دولت کے حصول کی خاطر اپنے مسیحی اجلاسوں، بائبل اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی فراہمکردہ مطبوعات کے ذاتی مطالعے جیسی حکمت بخشنے والی فراہمیوں سے غفلت نہیں برتنی چاہئے۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷۔
’مَیں ابتدا ہی سے مقرر ہوئی‘
امثال کے آٹھویں باب میں تجسیمحکمت کا مقصد محض ایک مجرد خوبی کے نمایاں پہلوؤں کی وضاحت کرنا نہیں ہے۔ یہ علامتی مفہوم میں یہوواہ کی سب سے اہم تخلیق کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ حکمت مزید بیان کرتی ہے: ”[یہوواہ] نے انتظامِعالم کے شروع میں اپنی قدیمی صنعتوں سے پہلے مجھے پیدا کِیا۔ مَیں ازل سے یعنی ابتدا ہی سے مقرر ہوئی۔ اِس سے پہلے کہ زمین تھی۔ مَیں اُس وقت پیدا ہوئی جب گہراؤ نہ تھے۔ جب پانی سے بھرے ہوئے چشمے بھی نہ تھے۔ مَیں پہاڑوں کے قائم کئے جانے سے پہلے اور ٹیلوں سے پہلے خلق ہوئی۔ جبکہ اُس نے ابھی نہ زمین کو بنایا تھا نہ میدانوں کو اور نہ زمین کی خاک کی ابتدا تھی۔—امثال ۸:۲۲-۲۶۔
تجسمِحکمت کی بابت مذکورہبالا بیان صحائف میں ”کلام“ کی بابت درج بیان سے موزوں مشابہت رکھتا ہے! ”ابتدا میں کلام تھا،“ یوحنا رسول نے لکھا، ”اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام [ایک] خدا تھا۔“ (یوحنا ۱:۱) تجسمِحکمت علامتی مفہوم میں قبلازانسانی زندگی خدا کے بیٹے یسوع مسیح کی نمائندگی کرتی ہے۔b
یسوع مسیح ”تمام مخلوقات سے پہلے مولود ہے۔ کیونکہ اُسی میں سب چیزیں پیدا کی گئیں آسمان کی ہوں یا زمین کی دیکھی ہوں یا اندیکھی۔“ (کلسیوں ۱:۱۵، ۱۶) تجسمِحکمت اپنا بیان جاری رکھتی ہے: ”جب اُس [یہوواہ] نے آسمان کو قائم کِیا مَیں وہیں تھی۔ جب اُس نے سمندر کی سطح پر دائرہ کھینچا۔ جب اُس نے اُوپر افلاک کو اُستوار کِیا اور گہراؤ کے سوتے مضبوط ہو گئے۔ جب اُس نے سمندر کی حد ٹھہرائی تاکہ پانی اُسکے حکم کو نہ توڑے۔ جب اُس نے زمین کی بنیاد کے نشان لگائے اُس وقت ماہر کاریگر کی مانند مَیں اُسکے پاس تھی اور مَیں ہر روز اُسکی خوشنودی تھی اور ہمیشہ اُسکے حضور شادمان رہتی تھی۔ آبادی کے لائق زمین سے شادمان تھی اور میری خوشنودی بنیآدم کی صحبت میں تھی۔“ (امثال ۸:۲۷-۳۱) یہوواہ کا پہلوٹھا بیٹا اپنے باپ، آسمان اور زمین کے لاثانی خالق کے ساتھ گرمجوشی سے کام کر رہا تھا۔ جب یہوواہ نے پہلے انسانی جوڑے کو خلق کِیا تو اُسکا بیٹا ماہر کاریگر کے طور پر اس کام میں شامل تھا۔ (پیدایش ۱:۲۶) بِلاشُبہ خدا کا بیٹا نسلِانسانی میں گہری دلچسپی اور شوق رکھتا ہے!
”مبارک ہے وہ آدمی جو میری سنتا ہے“
تجسمِحکمت کے طور پر، خدا کا بیٹا فرماتا ہے: ”اسلئے اَے بیٹو! میری سنو کیونکہ مبارک ہیں وہ جو میری راہوں پر چلتے ہیں۔ تربیت کی بات سنو اور دانا بنو اور اِسکو رد نہ کرو۔ مبارک ہے وہ آدمی جو میری سنتا ہے اور ہر روز میرے پھاٹکوں پر انتظار کرتا ہے اور میرے دروازوں کی چوکھٹوں پر ٹھہرا رہتا ہے۔ کیونکہ جو مجھ کو پاتا ہے زندگی پاتا ہے اور وہ [یہوواہ] کا مقبول ہوگا۔ لیکن جو مجھ سے بھٹک جاتا ہے اپنی ہی جان کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مجھ سے عداوت رکھنے والے سب موت سے محبت رکھتے ہیں۔“—امثال ۸:۳۲-۳۶۔
یسوع مسیح خدا کی حکمت کا تجسم ہے۔ اُس میں ”حکمت اور معرفت کے سب خزانے پوشیدہ ہیں۔“ (کلسیوں ۲:۳) لہٰذا، ہمیں پوری توجہ سے اُسکی بات پر کان لگانا اور اُسکے نقشِقدم پر چلنا چاہئے۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) اُسے رد کرنے کا مطلب اپنی جان کو نقصان پہنچانا اور موت کو گلے لگانا ہے کیونکہ ”کسی دوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں۔“ (اعمال ۴:۱۲) واقعی، ہمیں یسوع کو ایک ایسی ہستی کے طور پر قبول کرنا چاہئے جسے خدا نے ہماری نجات کیلئے فراہم کِیا ہے۔ (متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۳:۱۶) اسطرح، ہم اُس خوشی کا تجربہ کر سکیں گے جو ’زندگی اور یہوواہ کی مقبولیت حاصل کرنے‘ سے ملتی ہے۔
[فٹنوٹ]
a ”حکمت“ کیلئے استعمال ہونے والا عبرانی لفظ جنس کے اعتبار سے مؤنث ہے۔ لہٰذا، کچھ مترجمین حکمت کو اسی صورت میں پیش کرتے ہیں۔
b ”حکمت“ کیلئے جنس کے اعتبار سے مستعمل مؤنث عبرانی لفظ خدا کے بیٹے کی نمائندگی کے لئے حکمت کے استعمال کی نفی نہیں کرتا۔ ”خدا محبت ہے“ کے اظہار میں ”محبت“ کے لئے یونانی لفظ بھی مؤنث ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۸) تاہم، اِسے خدا کا حوالہ دینے کے لئے استعمال کِیا گیا ہے۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
ذمہدار اشخاص کیلئے حکمت لازمی ہے
[صفحہ ۲۷ پر تصویریں]
حکمت بخشنے والی فراہمیوں کو نظرانداز نہ کریں