راستبازوں کی راستی اُنکی راہنما ہے
”انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے۔ تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے،“ بائبل بیان کرتی ہے۔ (ایوب ۱۴:۱) ایسا لگتا ہے کہ دُکھ اور تکلیف انسانی وجود کا حصہ بن گئے ہیں۔ واقعی، روزمرّہ زندگی بھی پریشانیوں اور اضطراب سے پُر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ صبرآزما حالات میں کامیاب راہنمائی اور خدا کے حضور ایک راست حیثیت برقرار رکھنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
دولتمند شخص ایوب کی مثال پر غور کریں جو تقریباً ۳،۵۰۰ سال پہلے اس علاقے میں رہتا تھا جو اب عرب کہلاتا ہے۔ شیطان اس خداترس آدمی پر کیسی مصیبت لایا تھا! اُس کے تمام مالمویشی اور بچے بھی موت کا شکار ہو گئے تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد، شیطان نے ایوب کو تلوے سے چاند تک دردناک پھوڑوں سے دُکھ دیا۔ (ایوب ۱، ۲ ابواب) ایوب ان آفتوں کی وجہ نہیں جانتا تھا۔ تاہم، ”ایوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔“ (ایوب ۲:۱۰) اُس نے بیان کِیا، ”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کرونگا۔“ (ایوب ۲۷:۵) جیہاں، ایوب کی راستی نے آزمائشوں میں اُس کی راہنمائی کی۔
راستی کی تعریف اخلاقی پختگی یا مکملیت کے طور پر کی جاتی ہے اور اس میں خدا کی نظر میں کامل اور بےعیب ہونا شامل ہے۔ تاہم، اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ناکامل انسانوں کے اقوالوافعال کامل ہیں کیونکہ اُن کیلئے خدا کے معیاروں کو مکمل طور پر پورا کرنا ناممکن ہے۔ اسکی بجائے انسانی راستی یہوواہ اور اُسکی مرضی اور مقصد کیلئے مکمل اور مخلصانہ عقیدت ہے۔ ایسی خدائی عقیدت تمام حالات کے تحت ہمیشہ راستدل لوگوں کی راہنمائی اور نگہبانی کرتی ہے۔ بائبل کی کتاب امثال کے ۱۱ ویں باب کے پہلے حصے میں ظاہر کِیا گیا ہے کہ ہماری راستی کیسے زندگی کے مختلف حلقوں میں ہماری راہنمائی کر سکتی ہے اور ہمیں اسکے نتیجہ میں ملنے والی برکات کا یقین بھی دلایا گیا ہے۔ پس آئیے پوری توجہ کیساتھ اس میں درج بیان کا جائزہ لیں۔
راستی کاروبار میں دیانتداری پر منتج ہوتی ہے
قانونی اصطلاحوں کی بجائے شاعرانہ انداز میں دیانتداری کے اصول کو نمایاں کرتے ہوئے قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان بیان کرتا ہے: ”دغا کے ترازو سے [یہوواہ] کو نفرت ہے لیکن پورا باٹ اُسکی خوشی ہے۔“ (امثال ۱۱:۱) امثال کی کتاب کے اُن چار مواقع میں سے یہ پہلا ہے جہاں اس بات کو واضح کرنے کیلئے لفظ ترازو اور باٹ استعمال ہوئے ہیں کہ یہوواہ اپنے پرستاروں سے کاروباری معاملات میں دیانتداری کی توقع رکھتا ہے۔—امثال ۱۶:۱۱؛ ۲۰:۱۰، ۲۳۔
دغا کے ترازو—یا بددیانتی—کا سہارا لینے والے لوگوں کی خوشحالی دلفریب ہو سکتی ہے۔ تاہم کیا ہم واقعی نیکی اور بدی کی بابت خدا کے معیار ترک کرکے ناجائز کاروباری لیندین میں حصہ لینا چاہتے ہیں؟ اگر راستی ہماری راہنمائی کرتی ہے تو ہم ایسا نہیں چاہینگے۔ ہم بددیانتی سے دُور رہتے ہیں کیونکہ پورا باٹ، دیانتداری کی نمائندگی کرنے والا درست باٹ یہوواہ کو پسند ہے۔
”خاکساروں کیساتھ حکمت ہے“
بادشاہ سلیمان بیان جاری رکھتا ہے: ”تکبّر کے ہمراہ رسوائی آتی ہے لیکن خاکساروں کیساتھ حکمت ہے۔“ (امثال ۱۱:۲) تکبّر—خواہ اسکا اظہار غرور، نافرمانی یا حسد کی صورت میں ہو—رسوائی لاتا ہے۔ اسکے برعکس، فروتنی سے اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنا دانشمندی ہے۔ صحیفائی مثالیں اس مثل کی سچائی کو کتنے عمدہ طریقے سے واضح کرتی ہیں!
ایک حاسد لاوی قورح، ایک باغی گروہ کو یہوواہ کے مقررہ خادموں موسیٰ اور ہارون کے اختیار کے خلاف بھڑکاتا ہے۔ اس دیدہدلیری کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟ بعض باغیوں کو ’زمین اپنا مُنہ کھولکر نگل جاتی ہے‘ جبکہ قورح سمیت دوسرے آگ سے بھسم ہو جاتے ہیں۔ (گنتی ۱۶:۱-۳، ۱۶-۳۵؛ ۲۶:۱۰؛ استثنا ۱۱:۶) کتنی بڑی ذلت! عزہ پر بھی غور کریں جس نے خدا کے صندوق کو گِرنے سے بچانے کیلئے اپنی حدود کو پار کرتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اُسے تھام لیا تھا۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ (۲-سموئیل ۶:۳-۸) دیدہدلیری سے گریز کرنا ہمارے لئے کتنا اہم ہے!
ایک فروتن اور منکسرالمزاج شخص خطا کرنے پر بھی رسوا نہیں ہوتا۔ ایوب کئی طریقوں سے قابلِتقلید ہونے کے باوجود ناکامل تھا۔ اُسکی آزمائشوں نے اُسکی سوچ میں ایک بڑی خامی کو بےنقاب کِیا۔ ایوب نے اپنے اُوپر الزام لگانے والوں کے سامنے اپنا دفاع کرتے وقت کسی حد تک معقولیت کی کمی کا مظاہرہ کِیا۔ اُس نے یہ دلیل پیش کی کہ وہ خدا سے زیادہ راستباز ہے۔ (ایوب ۳۵:۲، ۳) یہوواہ نے ایوب کی سوچ کو کیسے درست کِیا؟
یہوواہ نے زمین، سمندر، ستاروں بھرے آسمان، بعض جانوروں اور دیگر شاندار تخلیقی عجائب کو ایوب کی توجہ میں لانے سے خدا کی عظمت کے مقابلہ میں انسان کی ادنیٰ حیثیت کی بابت سبق سکھایا۔ (ایوب، ۳۸-۴۱ ابواب) اپنی باتچیت میں یہوواہ نے ایوب پر آنے والی تکلیف کی کوئی وجہ بیان نہیں کی تھی۔ اُسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایوب ایک منکسرالمزاج شخص تھا۔ اُس نے اپنے اور خدا کے درمیان، اپنی ناکاملیت اور کمزوریوں کے مقابلہ میں یہوواہ کی راستی اور طاقت کے درمیان موجود واضح فرق کو فروتنی سے تسلیم کِیا۔ اُس نے کہا، ”مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں۔“ (ایوب ۴۲:۶) ایوب کی راستی نے اُسے رضامندی سے تنبیہ قبول کرنے کی تحریک دی۔ ہماری بابت کیا ہے؟ کیا ہم بھی راستی کی راہنمائی میں ضرورت پڑنے پر خوشی سے تنبیہ یا اصلاح قبول کرینگے؟
موسیٰ بھی منکسرالمزاج اور فروتن تھا۔ جب اُس پر دوسروں کے مسائل حل کرنے کا بوجھ بڑھا تو اُس کے سُسر یترو نے اس کا ایک عملی حل پیش کِیا: دوسرے لائق آدمیوں کو اس ذمہداری میں شریک کِیا جا سکتا تھا۔ موسیٰ نے دانشمندی سے اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تجویز قبول کر لی۔ (خروج ۱۸:۱۷-۲۶؛ گنتی ۱۲:۳) ایک فروتن شخص دوسروں کو اپنے اختیار میں شامل کرنے سے ہچکچاتا نہیں اور نہ ہی اُسے یہ خوف ہوتا ہے کہ دوسرے لائق اشخاص کو مناسب ذمہداریاں دینے سے وہ اپنا اختیار کھو بیٹھیگا۔ (گنتی ۱۱:۱۶، ۱۷، ۲۶-۲۹) اسکی بجائے، وہ روحانی ترقی کرنے میں دوسروں کی مدد کرنے سے خوشی حاصل کرتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۵) کیا ہمارے سلسلے میں بھی یہ بات سچ نہیں ہونی چاہئے؟
’کامل کی صداقت اُسکی راہنمائی کریگی‘
راستی ایک راستباز شخص کو خطرے اور آفت سے ہمیشہ محفوظ نہیں رکھتی، اِس بات کو تسلیم کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے: ”راستبازوں کی راستی اُنکی راہنما ہوگی لیکن دغابازوں کی کجروی اُنکو برباد کریگی۔“ (امثال ۱۱:۳) واقعی، راستی کٹھن حالات کے تحت بھی خدا کی نظر میں درست کام کرنے میں راستبازوں کی راہنمائی کرتی ہے اور انجامکار فائدہمند ثابت ہوتی ہے۔ ایوب اپنی راستی پر قائم رہا اور یہوواہ نے ”اؔیوب کے آخری ایّام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی۔“ (ایوب ۴۲:۱۲) دغاباز لوگ اپنے فائدہ کیلئے دوسروں کو نقصان پہنچا کر بظاہر کچھ عرصہ کیلئے خوشحالی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ تاہم جلد یا بدیر وہ خود اپنے جال میں پھنس کر تباہ ہو جاتے ہیں۔
”قہر کے دن مال کام نہیں آتا،“ دانشمند بادشاہ کہتا ہے، ”لیکن صداقت موت سے رہائی دیتی ہے۔“ (امثال ۱۱:۴) ذاتی مطالعے، دُعا، اجلاسوں پر حاضری اور میدانی خدمتگزاری—خدا کے لئے ہماری محبت اور عقیدت کو بڑھانے والی کارگزاریوں—کے لئے وقت نکالنے کی بجائے مادی حاصلات کے پیچھے دوڑنا کتنی بڑی حماقت ہے! بڑی سے بڑی دولت بھی آنے والی بڑی مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔ (متی ۲۴:۲۱) صرف راستبازوں کی راستی کام آئے گی۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) پس ہم صفنیاہ کی نصیحت پر دھیان دینے سے دانشمندی کا ثبوت دیں گے: ”اِس سے پہلے کہ تقدیرِالہٰی ظاہر ہو اور وہ دن بُھس کی مانند جاتا رہے اور [یہوواہ] کا قہرِشدید تم پر نازل ہو اور اُس کے غضب کا دن تم پر آپہنچے۔ اَے ملک کے سب حلیم لوگو جو [یہوواہ] کے احکام پر چلتے ہو اُس کے طالب ہو! راستبازی کو ڈھونڈو۔ فروتنی کی تلاش کرو۔“ (صفنیاہ ۲:۲، ۳) اس اثنا میں ہمیں ’اپنے مال سے یہوواہ کی تعظیم‘ کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔—امثال ۳:۹۔
راستی کے طالب ہونے کی اہمیت پر مزید زور دیتے ہوئے سلیمان کامل اور شریر کے انجام کا موازنہ کرتا ہے: ”کامل کی صداقت اُس کی راہنمائی کریگی لیکن شریر اپنی ہی شرارت سے گِر پڑیگا۔ راستبازوں کی صداقت اُنکو رہائی دیگی لیکن دغاباز اپنی ہی بدنیتی میں پھنس جائینگے۔ مرنے پر شریر کی توقع خاک میں مل جاتی ہے اور ظالموں کی اُمید نیست ہو جاتی ہے۔ صادق مصیبت سے رہائی پاتا ہے اور شریر اُس میں پڑ جاتا ہے۔“ (امثال ۱۱:۵-۸) کامل شخص کی راہیں اُسے ٹھوکر نہیں پہنچاتیں اور اُسکے کام اسکی تباہی کا باعث نہیں بنتے۔ اُسکی راہ سیدھی ہے۔ آخرکار، راستباز لوگ مصیبت سے چھڑائے جاتے ہیں۔ بدکار طاقتور دکھائی دے سکتے ہیں لیکن وہ ایسی رہائی کا تجربہ نہیں کرتے۔
”شہر خوش ہوتا ہے“
صادقوں کی راستی اور شریروں کی بدکاری دوسرے لوگوں پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ ”بےدین اپنی باتوں سے اپنے پڑوسی کو ہلاک کرتا ہے،“ اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے، ”لیکن صادق علم کے ذریعہ سے رہائی پائیگا۔“ (امثال ۱۱:۹) اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ تہمت، نقصاندہ فضولگوئی، بیہودہ گفتگو اور بیکار باتیں دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہیں؟ اسکے برعکس، ایک راستباز شخص کی باتچیت پاک، محتاط اور دوسروں کیلئے فکر ظاہر کرتی ہے۔ اُسکا علم اُسے رہائی بخشتا ہے اسلئےکہ وہ اپنی راستی کی وجہ سے ایسے منطقی دلائل پیش کرنے کے قابل ہوتا ہے جو اُس پر الزام لگانے والوں کے جھوٹ کو بےنقاب کر دیتے ہیں۔
”صادقوں کی خوشحالی سے شہر خوش ہوتا ہے،“ بادشاہ بیان جاری رکھتا ہے، ”اور شریروں کی ہلاکت پر خوشی کی للکار ہوتی ہے۔“ (امثال ۱۱:۱۰) راستبازوں سے سب محبت رکھتے ہیں اور وہ اپنے پڑوسیوں کی خوشی اور شادمانی کا باعث بنتے ہیں۔ ”شریروں“ کو دراصل کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ جب شریر مرتے ہیں تو لوگ عموماً ان کیلئے غم نہیں کرتے۔ یہوواہ کے ’شریروں کو زمین پر سے کاٹ ڈالنے اور دغابازوں کو اُکھاڑ پھینکنے‘ پر یقیناً کوئی افسوس نہیں کِیا جائیگا۔ (امثال ۲:۲۱، ۲۲) اسکی بجائے، انکو صفحۂہستی سے مٹا دئے جانے پر خوشی منائی جائیگی۔ تاہم ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ اس بات پر غور کرنا ہمارے لئے فائدہمند ہے کہ آیا ہمارا چالچلن دوسروں کی خوشی کا باعث بنتا ہے یا نہیں۔
”شہر سرفرازی پاتا ہے“
سلیمان معاشرے پر راستبازوں اور بدکاروں کے اثر کا موازنہ کرتے ہوئے مزید بیان کرتا ہے: ”راستبازوں کی دُعا سے شہر سرفرازی پاتا ہے لیکن شریروں کی باتوں سے برباد ہوتا ہے۔“—امثال ۱۱:۱۱۔
راستی کی روش پر چلنے والے لوگ امن اور خوشحالی کو فروغ دیتے ہیں جو معاشرے کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ یوں ایک شہر سرفراز یا خوشحال ہوتا ہے۔ تہمتآمیز، نقصاندہ اور جھوٹی باتیں کرنے والے ابتری، رنجش، نااتفاقی اور مصیبت پیدا کرتے ہیں۔ یہ بات بالخصوص اُس وقت سچ ہوتی ہے جب ایسے لوگ بااختیار ہوتے ہیں۔ ایسا شہر بدنظمی، فساد، اخلاقی اور غالباً معاشی تنزلی کا شکار ہوتا ہے۔
امثال ۱۱:۱۱ میں بیانکردہ اُصول کا اطلاق اپنی شہرنما کلیسیا میں ایک دوسرے کیساتھ رفاقت رکھنے والے یہوواہ کے لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ ایسی کلیسیا جس میں روحانی لوگوں—راستی سے راہنمائی حاصل کرنے والے صادق لوگوں—کا اثر زیادہ ہوتا ہے وہ یہوواہ کی تعظیم کرنے والی خوشحال، سرگرم اور مددگار لوگوں کی جماعت ہوتی ہے۔ یہوواہ ایسی کلیسیا کو برکت دیتا ہے اور یہ روحانی ترقی کرتی ہے۔ کبھیکبھار، کام انجام دینے کے طریقۂکار پر تنقید کرنے والے بعض ناخوش اور غیرمطمئن لوگ ”کڑوی جڑ“ کی مانند اپنا زہر ایسے لوگوں میں بھی پھیلاتے ہیں جو شروع میں غیرمتاثر تھے۔ (عبرانیوں ۱۲:۱۵) ایسے لوگ اکثر زیادہ اختیار اور عزت چاہتے ہیں۔ وہ کلیسیا کے اندر یا بزرگوں کے درمیان ناانصافی اور نسلیاتی تعصّب جیسی خامیوں کی افواہ پھیلاتے ہیں۔ واقعی، اُنکی باتیں کلیسیا کو منقسم کرتی ہیں۔ کیا ہمیں انکی باتوں کو نظرانداز کرکے کلیسیا میں امنواتحاد کو فروغ دینے والے روحانی اشخاص بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے؟
سلیمان مزید بیان کرتا ہے: ”اپنے پڑوسی کی تحقیر کرنے والا بےعقل ہے لیکن صاحبِفہم خاموش رہتا ہے۔ جو کوئی لُتراپن کرتا پھرتا ہے راز فاش کرتا ہے لیکن جس میں وفا کی روح ہے وہ رازدار ہے۔“—امثال ۱۱:۱۲، ۱۳۔
”بےعقل“ یا اچھی بصیرت کی کمی ظاہر کرنے والا شخص کسقدر نقصان پہنچا سکتا ہے! اُسکی بےلگام گفتگو تہمت یا بدگوئی کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ ذمہدار بزرگوں کو ایسے غیرصحتمندانہ اثر کی مزاحمت کرنی چاہئے۔ ”بےعقل“ شخص کے برعکس، ایک قابلِبصیرت شخص جانتا ہے کہ اُسے کب خاموشی اختیار کرنی چاہئے۔ راز فاش کرنے کی بجائے وہ رازداری برقرار رکھتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ ایک بےلگام زبان بڑی نقصاندہ ہو سکتی ہے، صاحبِفہم شخص ”وفا کی روح“ رکھتا ہے۔ وہ اپنے ساتھی ایمانداروں کیساتھ وفادار رہتے ہوئے انکے راز اپنے دل میں رکھتا ہے تاکہ انہیں نقصان نہ پہنچے۔ راستی برقرار رکھنے والے ایسے لوگ کلیسیا کیلئے کتنی بڑی برکت ہیں!
ہمیں راستی کی راہ پر گامزن رہنے میں مدد دینے کے لئے یہوواہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی راہنمائی میں تیارکردہ باافراط روحانی غذا فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) ہم اپنی شہرنما کلیسیا میں مسیحی بزرگوں کے ذریعے بھی ذاتی مدد حاصل کرتے ہیں۔ (افسیوں ۴:۱۱-۱۳) ہم واقعی ان کے لئے شکرگزار ہیں اسلئےکہ ”نیک صلاح کے بغیر لوگ تباہ ہوتے ہیں لیکن صلاحکاروں کی کثرت میں سلامتی ہے۔“ (امثال ۱۱:۱۴) ہمیں ہر حال میں ’راستی سے چلتے رہنے‘ کیلئے پُرعزم رہنا چاہئے۔—زبور ۲۶:۱۔
[صفحہ ۲۴ پر عبارت]
ایوب نے اپنی راستی سے راہنمائی حاصل کی اور یہوواہ نے اُسے برکت بخشی
[صفحہ ۲۵ پر تصویریں]
عزہ اپنی حد پار کرنے کے باعث ہلاک ہوا
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
تھیوکریٹک کارگزاریوں کو نظرانداز کرکے مادی حاصلات کیلئے جدوجہد کرنا کتنی بڑی حماقت ہے!