”ہر ایک ہوشیار آدمی دانائی سے کام کرتا ہے“
خدا کے کلام سے ہمیں جو راہنمائی ملتی ہے ’سونے سے بلکہ بہت کندن سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘ (زبور ۱۹:۷-۱۰) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ یہوواہ کی تعلیم ”حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث“ ہوتا ہے۔ (امثال ۱۳:۱۴) جب ہم خدا کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو ہماری زندگی زیادہ خوشحال ہو جاتی ہے اور ہم دیگر پھندوں سے بھی بچ سکتے ہیں۔ اسلئے خدا کے کلام سے علم حاصل کرکے اُس پر عمل کرنا ہمارے لئے بہت ہی اہم ہے۔
اسرائیل کے بادشاہ سلیمان امثال ۱۳:۱۵-۲۵ میں ہمیں بہت اچھی نصیحت دیتا ہے جس پر عمل کرنے سے ہمارا بھلا ہوگا اور ہماری عمر دراز ہوگی۔a بادشاہ سلیمان ہمیں کہاوتوں کے ذریعے سمجھاتا ہے کہ خدا کے کلام کی مدد سے ہم دوسروں کو کیسے پسند آ سکتے ہیں، ہم تبلیغی کام میں اپنے جوش کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں، جب ہماری تنبیہ ہوتی ہے تو ہمارا کیسا ردعمل ہونا چاہئے اور ہم اچھے دوستوں کو کیسے چن سکتے ہیں۔ بادشاہ سلیمان ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ بچوں کیلئے ورثہ چھوڑنا دانشمندی کی بات ہوتی ہے اور بچوں کی تربیت پیار کیساتھ کی جانی چاہئے۔
”فہم کی درستی مقبولیت بخشتی ہے“
سلیمان کہتا ہے: ”فہم کی درستی مقبولیت بخشتی ہے لیکن دغابازوں کی راہ کٹھن ہے۔“ (امثال ۱۳:۱۵) ایک حوالے کے مطابق عبرانی زبان میں ”فہم کی درستی“ سے مراد ہے ”ہوشیار ہونا، اچھے بُرے کی پہچان اور اچھے خیالات رکھنا۔“ جو لوگ اِن خوبیوں کے مالک ہوتے ہیں وہ جلد ہی مقبولیت حاصل کر لیتے ہیں۔
ذرا غور کریں کہ پولس رسول نے فہم کو کام میں لا کر اپنے مسیحی بھائی فلیمون سے کیسا برتاؤ کِیا تھا۔ فلیمون کا غلام اُنیسمس اسے چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد اُنیسمس مسیحی بن گیا۔ اسلئے پولس نے فلیمون سے درخواست کی کہ جب اُنیسمس اسکے پاس واپس لوٹ آئے تو فلیمون اسکے ساتھ اتنی ہی مہربانی سے پیش آئے جیسے وہ پولس کیساتھ پیش آتا۔ یہاں تک کہ اگر اُنیسمس اپنے آقا فلیمون کا قرضدار تھا تو پولس اسکے قرض چکانے کے لئے بھی تیار تھا۔ پولس اپنے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے فلیمون کو اُنیسمس کیساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم بھی دے سکتا تھا۔ لیکن پولس نے سوچسمجھ کر اور بڑی نرمی سے فلیمون سے یہ درخواست کی۔ اُسکو یقین تھا کہ ایسا کرنے سے فلیمون اُس کی بات مان جائے گا۔ ہمیں بھی اپنے مسیحی بہنبھائیوں سے ایسا ہی پیش آنا چاہئے۔—فلیمون ۸-۲۱۔
اس کے برعکس دغابازوں کی راہ ”کٹھن“ ہوتی ہے۔ ایک عالم کے مطابق ”کٹھن“ سے مُراد ”بُرے لوگوں کا سخت رویہ ہوتا ہے۔ . . . ایسے لوگ دوسروں کی اچھی صلاح کو نظرانداز کرتے ہیں اور اِسلئے اِنکے سامنے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں رہتا۔“
سلیمان نے آگے کہا: ”ہر ایک ہوشیار آدمی دانائی سے کام کرتا ہے پر احمق اپنی حماقت کو پھیلا دیتا ہے۔“ (امثال ۱۳:۱۶) یہاں ہوشیار آدمی سے مراد ایک دانا آدمی ہے جو سوچسمجھ کر قدم اُٹھتا ہے۔ جب ایسے شخص کی توہین یا نکتہچینی کی جاتی ہے تو وہ اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے۔ وہ خدا سے روحالقدس کیلئے بھی دعا کرتا ہے تاکہ وہ ایسی باتوں پر حد سے زیادہ پریشان نہ ہو۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) ایک دانا آدمی اپنے حالات کا شکار نہیں بنتا۔ وہ اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے اور اسلئے جھگڑوں میں نہیں پڑتا۔
دانشمند شخص کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے معاملے کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسے پتا ہے کہ دانشمند آدمی محض اندازہ لگا کر، جذبات سے کام لے کر یا دوسروں کی نقل کرکے فیصلہ نہیں کرتا۔ وہ وقت نکال کر صورتحال کی کھوج لگاتا ہے۔ پھر وہ خدا کے کلام میں ایسے اصول تلاش کرتا ہے جو اُس صورتحال میں اُسکی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ ایسے شخص کے قدم ہمیشہ اچھی راہوں پر رہینگے۔—امثال ۳:۵، ۶۔
”دیانتدار ایلچی صحتبخش ہے“
یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہمیں منادی کرنے کی ذمہداری سونپی گئی ہے۔ امثال کے اگلے الفاظ اس ذمہداری کو پورا کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں: ”شریر قاصد بلا میں گرفتار ہوتا ہے پر دیانتدار ایلچی صحتبخش ہے۔“—امثال ۱۳:۱۷۔
اِس آیت میں ایلچی یعنی پیغام لانے والے کی دیانتداری پر زور دیا جا رہا ہے۔ اگر ایلچی پیغام کو تبدیل کر دیتا ہے تو اُسکا کیا انجام ہوگا؟ اُسکو سخت سزا ملیگی۔ نبی الیشع کے لالچی خادم جیحازی نے نعمان کو جھوٹا پیغام پہنچایا۔ اس پر جیحازی کو کیا سزا ملی؟ جس کوڑھ سے نعمان نے شفا پائی تھی وہی کوڑھ جیحازی کو لگ گیا۔ (۲-سلاطین ۵:۲۰-۲۷) اگر ایلچی بےوفا بن کر پیغام کا اعلان نہیں کرتا تو اِس صورتحال میں اُسکا انجام کیا ہوگا؟ خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ ”اگر تُو شریر سے نہ کہے اور اُسے اُسکی روش سے آگاہ نہ کرے تو وہ شریر تو اپنی بدکرداری میں مریگا پر مَیں [یہوواہ] تجھ سے اُسکے خون کی بازپُرس کرونگا۔“—حزقیایل ۳۳:۸۔
وفادار ایلچی اپنے لئے اور اپنے سننے والوں کیلئے بھی برکت کا باعث ہوتا ہے۔ پولس رسول نے تیمتھیس کو یہ نصیحت دی تھی: ”ان باتوں پر قائم رہ کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث ہوگا۔“ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) جب لوگ بادشاہتی پیغام سنتے ہیں تو وہ نجات پا سکتے ہیں۔ بائبل کی سچائی ایسے لوگوں کے دلوں کو چھو لیتی ہے اور سچائی اُنکو آزاد کر دیتی ہے۔ (یوحنا ۸:۳۲) اگر لوگ وفادار ایلچی کی بات نہیں سننا چاہتے تو ایلچی پھر بھی ’اپنی جان بچا لیتا ہے۔‘ (حزقیایل ۳۳:۹) ہمیں منادی کرنے کی اپنی ذمہداری کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ (کرنتھیوں ۹:۱۶) ہمیں خدا کے ”کلام کی منادی“ کرنی چاہے نہ کہ اپنے خیالات کی۔ لوگوں میں مقبول ہونے کیلئے ہمیں خدا کے پیغام کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔—۲-تیمتھیس ۴:۲۔
”جو تنبیہ کا لحاظ رکھتا ہے عزت پائیگا“
ایک دانشمند شخص تنبیہ قبول کرتا ہے۔ امثال ۱۳:۱۸ میں لکھا ہے: ”تربیت کو رد کرنے والا کنگال اور رُسوا ہوگا پر وہ جو تنبیہ کا لحاظ رکھتا ہے عزت پائیگا۔“ اگر کوئی شخص ہماری تنبیہ کرتا ہے تو ہمیں اُسکا شکرگزار ہونا چاہئے۔ شاید ہمیں احساس ہی نہیں تھا کہ ہمیں صلاح کی ضرورت ہے۔ لیکن نصیحت پر عمل کرنے سے ہم دُکھ اور بُرے انجام سے بچ سکتے ہیں۔ نصیحت کو نظرانداز کرنے سے ہماری رسوائی ہوگی۔
جب کوئی ہماری تعریف کرتا ہے تو یہ ہمارے لئے حوصلہافزا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمیں نصیحت کو قبول کرنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ ذرا اُن خطوں پر توجہ دیں جو پولس رسول نے تیمتھیس کے نام لکھے تھے۔ اِن خطوں میں پولس رسول نے تیمتھیس کو نہ صرف شاباش دی بلکہ اُسکی نصیحت بھی کی۔ پولس نے کہا کہ اُسے ایمان اور ضمیر کا پکا ہونا چاہئے، کلیسیا کے افراد کیساتھ اُسکا برتاؤ اچھا ہونا چاہئے، اسے خدا کے لئے لگن پیدا کرنی چاہئے، مطمئن رہنا چاہئے، دوسروں کو تعلیم دینی چاہئے، برگشتگی سے دُور رہنا چاہئے اور منادی کے کام میں بڑھچڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ اسی طرح آج بھی کلیسیا کے نوجوانوں کو تجربہکار مسیحیوں سے مشورہ لینا اور انکی نصیحت قبول کرنی چاہئے۔
”داناؤں کیساتھ چل“
بادشاہ سلیمان لکھتا ہے: ”جب مراد بر آتی ہے تب جی بہت خوش ہوتا ہے پر بدی کو ترک کرنے سے احمق کو نفرت ہے۔“ (امثال ۱۳:۱۹) اِس آیت کے بارے میں ایک کتاب یوں بیان کرتی ہے: ”جب ایک شخص اپنی خواہش پوری کر لیتا ہے یا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے تو وہ دلی خوشی محسوس کرتا ہے۔ . . . اسلئے بُرے لوگوں کے نزدیک بدی کو ترک کرنا پاگلپن ہے۔ وہ بُری خواہشات رکھتے ہیں اور اِنہیں پورا کرنے کیلئے اُنہیں بُرے کام کرنے پڑتے ہیں۔“ اِسلئے یہ بہت اہم ہے کہ ہم ہمیشہ اچھی باتوں کی خواہش رکھیں۔
جن جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ ہم پر اثر کرتے ہیں۔ سلیمان نے سچ ہی کہا تھا جب اُس نے لکھا: ”وہ جو داناؤں کیساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائیگا۔“ (امثال ۱۳:۲۰) انٹرنیٹ، ٹیلیویژن اور کتابوں کے ذریعے بھی ہم دوسرے لوگوں کے خیالات جذب کرتے ہیں۔ اِسلئے ہمیں ہر قسم کی بُری صحبت سے کنارہ کرنا چاہئے۔
’نیک آدمی میراث چھوڑتا ہے‘
بادشاہ سلیمان آگے کہتا ہے: ”بدی گنہگاروں کا پیچھا کرتی ہے پر صادقوں کو نیک جزا ملیگی۔“ (امثال ۱۳:۲۱) اگر ہم نیک بننے کی کوشش کرتے ہیں تو یہوواہ ہم کو برکات سے نوازے گا کیونکہ اسے راست لوگوں کی پرواہ ہے۔ (زبور ۳۷:۲۵) لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ سب لوگ ”وقت اور حادثہ“ کا شکار ہوتے ہیں۔ (واعظ ۹:۱۱) اس صورت میں ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سلیمان کہتا ہے کہ ”نیک آدمی اپنے پوتوں کیلئے میراث چھوڑتا ہے۔“ (امثال ۱۳:۲۲ الف) ایسے والدین جو اپنے بچوں کو یہوواہ کے بارے میں سکھاتے اور انکو خدا کے قریب جانے میں مدد دیتے ہیں وہ اپنے بچوں کیلئے روحانی میراث چھوڑ جاتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچیں۔ اگر اُنکو اچانک کچھ ہو جائے تو اُنکے خاندان کی جسمانی ضروریات کون پورا کریگا؟ دانشمند والدین اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا پہلے سے ہی انتظام کرینگے۔ کچھ والدین اپنے بچوں کے حق میں زندگی کا بیمہ کراتے، وصیتنامہ درج کرتے یا پیسے جمع کرتے ہیں۔
بُرے لوگوں کی دولت کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ بادشاہ سلیمان کہتا ہے ”گنہگار کی دولت صادقوں کیلئے فراہم کی جاتی ہے۔“ (امثال ۱۳:۲۲ ب) جیہاں، صادقوں کو نہ صرف آج بلکہ مستقبل میں بھی فائدہ ہوگا جب یہوواہ خدا اپنا وعدہ پورا کرکے ’نئے آسمان اور نئی زمین لائیگا جن میں راستبازی بسی رہیگی۔‘ (۲-پطرس ۳:۱۳) اسطرح بُرے لوگوں کا وجود ختم کر دیا جائیگا اور ”حلیم ملک کے وارث ہونگے۔“—زبور ۳۷:۱۱۔
غریب لوگ کسطرح دانشمندی سے کام لے سکتے ہیں؟ امثال ۱۳:۲۳ میں لکھا ہے: ”گنہگار کی دولت صادقوں کیلئے فراہم کی جاتی ہے۔“ اسکا مطلب ہے کہ جنکے پاس تھوڑا ہوتا ہے وہ محنتمزدوری کرکے خدا کی برکت پائینگے۔ لیکن جہاں بےانصافی ہوتی ہے وہاں بڑی سے بڑی دولت بھی ہاتھ سے نکل سکتی ہے۔
”بروقت اُسکو تنبیہ کرتا ہے“
بچپن ہی سے ہر کسی کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سلیمان کہتا ہے: ”وہ جو اپنی چھڑی کو باز رکھتا ہے اپنے بیٹے سے کینہ رکھتا ہے پر وہ جو اُس سے محبت رکھتا ہے بروقت اُسکو تنبیہ کرتا ہے۔“—امثال ۱۳:۲۴۔
اس آیت میں چھڑی والدین کے اختیار کی علامت ہے۔ تربیت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچے کو سزا کے طور پر ماریں بلکہ یہ کہ آپ اپنے بچے کو اُسکی غلطی کا احساس دلائیں اور اسکی اصلاح کریں۔ کئی بچوں کو جب پیار سے ایک بات سمجھائی جاتی ہے تو وہ اسے مان لیتے ہیں۔ لیکن ایسے بھی بچے ہوتے ہیں جن سے زیادہ سختی سے پیش آنا پڑتا ہے۔ امثال ۱۷:۱۰ میں لکھا ہے: ”صاحبِفہم پر ایک جھڑکی احمق پر سو کوڑوں سے زیادہ اثر کرتی ہے۔“
دانشمند والدین اپنے بچوں کی تربیت پیار سے کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے بچوں پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ والدین جو اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اُنکی غلطیوں کو نظرانداز نہیں کرتے۔ ماںباپ کو اپنے بچوں میں غلط رُجحانات کو پہچان لینا چاہئے۔ اس سے پہلے کہ یہ رُجحانات عادت کی شکل اختیار کر لیں والدین کو اپنے بچوں کی مدد کرنی چاہئے۔ ایسے والدین پولس کی اس نصیحت پر چلتے ہیں: ”اَے اولاد والو! تُم اپنے فرزندوں کو غصہ نہ دلاؤ بلکہ [یہوواہ] کی طرف سے تربیت اور نصیحت دے دے کر انکی پرورش کرو۔“—افسیوں ۶:۴۔
ایسے والدین بھی ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے اور اُنکی تربیت نہیں کرتے ہیں۔ کیا بچے جوان ہو کر انکی قدر کرینگے؟ جینہیں! (امثال ۲۹:۲۱) بائبل بیان کرتی ہے: ”جو لڑکا بےتربیت چھوڑ دیا جاتا ہے اپنی ماں کو رسوا کریگا۔“ (امثال ۲۹:۱۵) اپنے اختیار کو استعمال نہ کرنے سے والدین لاپرواہی کا ثبوت دیتے ہیں۔ لیکن جب والدین اپنے اختیار کو استعمال میں لاتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کیلئے اپنا پیار ظاہر کرتے ہیں۔ بچوں کی تربیت نرمی سے لیکن جب ضرورت پڑے تو سختی سے بھی کرنی چاہئے۔
ایک نیک اور دانشمند شخص جو سمجھ سے کام لیتا ہے خدا کی برکت حاصل کریگا۔ بادشاہ سلیمان ہمیں یقین دِلاتا ہے کہ ”صادق کھا کر سیر ہو جاتا ہے پر شریر کا پیٹ نہیں بھرتا۔“ (امثال ۱۳:۲۵) یہوواہ کی راہنمائی خاندانی معاملوں میں، دوسروں کیساتھ ہمارے تعلقات کیلئے، منادی کے کام میں اور تربیت کے معاملے میں ہمارے لئے فائدہمند ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کے کلام میں پائی جانے والی ہدایت کو عمل میں لائینگے تو ہم خوشحال زندگی سے لطف اُٹھائینگے۔
[فٹنوٹ]
a امثال ۱۳:۱-۱۴ کی وضاحت مینارِنگہبانی ستمبر ۱۵، ۲۰۰۳، صفحہ ۲۱ تا ۲۵ میں کی گئی ہے۔
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
جب دانشمند شخص کی نکتہچینی کی جاتی ہے تو وہ اپنی زبان پر قابو رکھتا ہے
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
خدا کا ایلچی دیانتداری سے اپنی ذمہداری کو پورا کرتا ہے
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
ہمیں نصیحت کو قبول کرنے کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
والدین جو اپنے بچوں سے پیار کرتے ہیں اُنکی غلطیوں کو نظرانداز نہیں کرتے