ساتواں باب
خدا نے بدکاروں کو اب تک ہلاک کیوں نہیں کِیا؟
۱، ۲. (ا) اگر یہوواہ خدا آدم اور حوا کو فوراً ہلاک کر دیتا تو اس کا ہمارے لئے کیا نتیجہ نکلتا؟ (ب) یہوواہ خدا نے ہمارے لئے کس بات کا بندوبست کِیا ہے؟
خدا کے خادم یعقوب نے کہا کہ ”میری زندگی کے ایّام تھوڑے اور دُکھ سے بھرے ہوئے رہے۔“ (پیدایش ۴۷:۹) اسی طرح ایوب نے بھی کہا کہ انسان ”تھوڑے دنوں کا ہے اور دُکھ سے بھرا ہے۔“ (ایوب ۱۴:۱) ان دونوں کی طرح شاید ہم نے بھی زندگی میں بہتیرے دُکھ دیکھے ہوں اور ہمیں بےانصافی اور پریشانیوں کا سامنا ہو۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ خدا بےانصاف ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ سچ ہے کہ شروع میں آدم اور حوا جن حالات میں رہتے تھے یہ بالکل بدل گئے ہیں۔ ہم عیبدار اور گنہگار ہیں اور ہم ایک فردوسی زمین پر زندگی کا لطف نہیں اُٹھا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدم اور حوا نے خدا کے خلاف بغاوت کی۔ لیکن ذرا سوچیں کہ اگر خدا اُنہیں فوراً ہلاک کر دیتا تو ہمارا کیا ہوتا؟ بِلاشُبہ زمین پر بیماری، دُکھ اور موت کا راج نہ ہوتا لیکن پھر زمین پر انسان بھی نہ ہوتے اور ہم میں سے کوئی بھی پیدا نہ ہوا ہوتا۔ چونکہ یہوواہ خدا رحیم ہے اس لئے اُس نے آدم اور حوا کو اولاد پیدا کرنے کی اجازت دی۔ یہ سچ ہے کہ گنہگار والدین کی اولاد ہونے کے ناتے ہم سب نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔ لیکن آدم نے گُناہ کرکے اپنی اولاد کے لئے جو کچھ گنوا دیا تھا خدا نے یہ سب کچھ یسوع مسیح کے ذریعے انسانوں کے لئے دوبارہ سے حاصل کرنے کا بندوبست کِیا ہے۔ لہٰذا انسان فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔—یوحنا ۱۰:۱۰؛ رومیوں ۵:۱۲۔
۲ واقعی یہ اُمید ہمارے لئے تسلیبخش ہے۔ ہم اُس وقت کے منتظر ہیں جب زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو جائے گی اور اس پر نہ بُرے لوگ رہیں گے اور نہ ہی دُکھ، تکلیف، بیماری اور موت کا نامونشان رہے گا۔ (امثال ۲:۲۱، ۲۲؛ مکاشفہ ۲۱:۴، ۵) خدا نے ہمیں آدم کے گُناہ کے اثرات سے نجات دلانے کا جو بندوبست کِیا ہے یہ ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن پاک صحائف میں ایک ایسے معاملے کے بارے میں بتایا گیا ہے جو خدا کی نظروں میں اس سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ آئیں ہم اس معاملے پر غور کرتے ہیں۔
اپنے عظیم نام کی خاطر
۳. خدا نے زمین اور انسان کے لئے جو مقصد ٹھہرایا تھا اس کا اُس کے نام سے کیا تعلق ہے؟
۳ خدا نے زمین اور انسان کے لئے جو مقصد ٹھہرایا تھا اسے پورا کرنا اُس کے نام کا سوال ہے۔ خدا کے نام ”یہوواہ“ کا مطلب یہی ہے کہ ”وہ جیسا چاہتا ہے ویسا ہی کرتا ہے۔“ اس نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کائنات کا حاکم اور سچائی کا خدا ہے جو ہر اُس بات کو پورا کرتا ہے جسے وہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چونکہ یہوواہ کائنات کا حاکمِاعلیٰ ہے اس لئے کائنات میں تب ہی امن اور سلامتی ہو سکتی ہے جب ہر شے اس نام کو تسلیم کرے گی اور خدا کی فرمانبردار رہے گی۔
۴. زمین کے بارے میں یہوواہ خدا کی مرضی کیا تھی؟
۴ آدم اور حوا کو خلق کرنے کے بعد یہوواہ خدا نے اُن کو کچھ ذمہداریاں سونپی تھیں۔ اُس کی مرضی کے مطابق اُنہیں پوری زمین کو فردوس میں تبدیل کرنا تھا۔ اس کے علاوہ خدا کی مرضی تھی کہ زمین آدم اور حوا کی اولاد سے آباد ہو۔ (پیدایش ۱:۲۸) کیا خدا نے آدم اور حوا کے گناہ کی وجہ سے اپنی مرضی کو پورا کرنے کا ارادہ ترک کر دیا؟ ذرا سوچیں کہ اگر یہوواہ خدا اُس مقصد کو پورا نہ کرے گا جو اُس نے زمین اور انسان کے لئے ٹھہرایا ہے تو اُس کی کتنی بدنامی ہوگی۔
۵. (ا) پیدایش ۲:۱۷ کے مطابق نیکوبد کی پہچان کے درخت سے کھانے کے بعد آدم اور حوا کو کب مرنا تھا؟ (ب) یہوواہ خدا نے پیدایش ۲:۱۷ میں درج بات پر پورا اُترنے کے ساتھ ساتھ زمین کے لئے اپنی مرضی کیسے پوری کی؟
۵ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو خبردار کِیا تھا کہ ”جس روز“ وہ نیکوبد کی پہچان کے درخت کا پھل کھاتے اُسی روز اُن کو مرنا تھا۔ (پیدایش ۲:۱۷) اور یہوواہ خدا اپنی بات کا پکا رہا کیونکہ اُس نے آدم اور حوا کو اُسی روز سزائےموت سنائی جس روز اُنہوں نے گُناہ کِیا۔ اُس روز سے وہ دونوں خدا کی نظروں میں مر چکے تھے۔ البتہ خدا نے شروع میں طے پایا تھا کہ زمین آدم اور حوا کی اولاد سے آباد ہوگی اس لئے اُس نے اُن کو ایک عرصے تک زندہ رہنے دیا تاکہ وہ اولاد پیدا کر سکیں۔ خدا کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابر ہے۔ اس لئے جب آدم ۹۳۰ سال کی عمر میں مرا تو وہ خدا کی نظروں میں ”ایک دن“ کے اندر اندر مرا۔ (۲-پطرس ۳:۸؛ پیدایش ۵:۳-۵) یوں یہوواہ نے پیدایش ۲:۱۷ میں جو کچھ کہا تھا وہ اس کا بھی پکا رہا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ زمین کے لئے اپنی مرضی کو پورا کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ البتہ ایسا کرنے کے لئے خدا نے ایک عرصے تک گنہگار انسانوں کو زمین پر جینے دیا ہے۔ ان میں سے کچھ نہایت بدکار ہیں۔
۶، ۷. (ا) خروج ۹:۱۵، ۱۶ کے مطابق یہوواہ خدا بدکار لوگوں کو ایک عرصے کے لئے جینے کیوں دیتا ہے؟ (ب) فرعون کے ساتھ جو کچھ واقع ہوا اس سے یہوواہ کی قوت کیسے ظاہر ہوئی اور اُس کے نام کی بڑائی کیسے ہوئی؟ (پ) جب یہ بدکار دُنیا تباہ ہوگی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
۶ یہوواہ خدا نے اپنے نبی موسیٰ کے زمانے میں مصر کے حاکم سے جو بات کہی تھی اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُس نے بدکار لوگوں کو کیوں جینے دیا۔ جب فرعون نے بنی اسرائیل کو مصر چھوڑنے کی اجازت نہ دی تو یہوواہ خدا نے اُسے فوراً ہلاک نہیں کِیا۔ بلکہ وہ مصر پر دس ایسی آفتیں لایا جن سے اُس کی قوت نمایاں ہوئی۔ ساتویں آفت لانے سے پہلے یہوواہ نے فرعون کو بتایا کہ اُس نے اُسے کیوں فوراً ہلاک نہیں کِیا۔ یہوواہ نے کہا: ”مَیں نے تجھے فیالحقیقت اِس لئے قائم رکھا ہے کہ اپنی قوت تجھے دکھاؤں تاکہ میرا نام ساری دُنیا میں مشہور ہو جائے۔“—خروج ۹:۱۵، ۱۶۔
۷ واقعی جب یہوواہ خدا نے بنی اسرائیل کو مصر کی غلامی سے نجات دلائی تو اُس کا نام پورے علاقے میں مشہور ہو گیا۔ (یشوع ۲:۱، ۹-۱۱) اور جبکہ یہ واقعہ آج سے تقریباً ۳،۵۰۰ سال پہلے ہوا تھا لیکن اس کی یاد آج بھی تازہ ہے۔ اس واقعے سے نہ صرف خدا کا نام ”یہوواہ“ مشہور ہوا بلکہ لوگ جان گئے کہ یہوواہ ہر حال میں اپنے وعدے پورے کرتا ہے اور اپنے خادموں کو نجات دیتا ہے۔ (یشوع ۲۳:۱۴) اس واقعے سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ خدا اتنی قوت رکھتا ہے کہ کوئی اُسے اپنے ارادے پورے کرنے سے روک نہیں سکتا۔ (یسعیاہ ۱۴:۲۴، ۲۷) اس لئے ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ جلد ہی یہوواہ خدا اپنے خادموں کو نجات دلانے کے لئے شیطان اور اُس کی بُری دُنیا کو تباہ کر دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک شاندار طریقے سے یہوواہ خدا کے نام کی بڑائی ہوگی اور اُس کی تمام مخلوق کو ہمیشہ تک فائدہ بھی رہے گا۔—حزقیایل ۳۸:۲۳؛ مکاشفہ ۱۹:۱، ۲۔
’واہ! خدا کی حکمت کیا ہی عمیق ہے!‘
۸. پولس رسول نے مسیحیوں کو کن باتوں پر غور کرنے کو کہا؟
۸ روم کی کلیسیا کے نام خط میں پولس رسول نے یہ سوال اُٹھایا: ”کیا خدا کے ہاں بےانصافی ہے؟“ پھر اُس نے خود ہی جواب دیا: ”ہرگز نہیں!“ اس کے بعد اُس نے اس بات پر زور دیا کہ خدا رحیم ہے اور مسیحیوں کو یاد دلایا کہ یہوواہ خدا نے فرعون کو فوراً کیوں نہیں ہلاک کِیا تھا۔ پولس رسول نے یہ بھی لکھا کہ انسان خدا کے ہاتھ میں ایسے ہی ہیں جیسے کمہار کے ہاتھ میں مٹی۔ اور پھر اُس نے کہا: ”پس کیا تعجب ہے اگر خدا اپنا غضب ظاہر کرنے اور اپنی قدرت آشکارا کرنے کے اِرادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلاکت کے لئے تیار ہوئے تھے نہایت تحمل سے پیش آیا۔ اور یہ اس لئے ہوا کہ اپنے جلال کی دولت رحم کے برتنوں کے ذریعہ سے آشکارا کرے جو اُس نے جلال کے لئے پہلے سے تیار کئے تھے۔ یعنی ہمارے ذریعہ سے جن کو اُس نے نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غیرقوموں میں سے بھی بلایا۔“—رومیوں ۹:۱۴-۲۴۔
۹. (ا) وہ ’غضب کے برتن‘ کون ہیں جنہیں خدا ”ہلاکت کے لئے تیار“ کر رہا ہے؟ (ب) یہوواہ خدا اپنے مخالفوں کے ساتھ تحمل سے کیوں پیش آیا، لیکن آخرکار اُن کا انجام کیا ہوگا؟
۹ باغِعدن میں ہونے والی بغاوت سے لے کر آج تک یہوواہ خدا اُن سب کو ”غضب کے برتنوں“ کے طور پر ”ہلاکت کے لئے تیار“ کر رہا ہے جو اُس کی مخالفت کرتے ہیں۔ تب سے یہوواہ بڑے تحمل سے کام لے رہا ہے۔ اس عرصے کے دوران بُرے لوگوں نے اُس کی توہین کی ہے، اُس کے خادموں کو اذیت پہنچائی ہے یہاں تک کہ اُس کے بیٹے کو بھی قتل کِیا ہے۔ یہوواہ خدا نے یہ سب کچھ ہونے دیا تاکہ تمام مخلوق پر ظاہر ہو جائے کہ اُس کے خلاف بغاوت کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ انسان خود پر حکومت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا نے یسوع کی قربانی کے ذریعے خلوصدل انسانوں کو نجات دلانے اور ’ابلیس کے کاموں کو مٹانے‘ کا بندوبست بھی کِیا ہے۔—۱-یوحنا ۳:۸؛ عبرانیوں ۲:۱۴، ۱۵۔
۱۰. یہوواہ خدا نے یسوع کی موت سے لے کر آج تک بُرے لوگوں کو کیوں جینے دیا ہے؟
۱۰ لیکن یہوواہ خدا نے یسوع کے جی اُٹھنے کے بعد بھی اِن ”غضب کے برتنوں“ کو کیوں جینے دیا؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اُس وقت سے خدا اُن لوگوں کو جمع کر رہا ہے جو یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کریں گے۔ ان لوگوں کی تعداد ۱،۴۴،۰۰۰ ہے اور یہی وہ ’رحم کے برتن‘ ہیں جن کا ذکر پولس رسول نے اپنے خط میں کِیا تھا۔ سب سے پہلے تو خدا نے یہودیوں میں سے خلوصدل لوگوں کو اپنے بیٹے کے ساتھ حکمرانی کرنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد اُس نے یہ دعوت غیریہودیوں کو بھی دی۔ یہوواہ نے ان میں سے کسی کو اپنی عبادت کرنے پر مجبور نہیں کِیا۔ لیکن جن جن لوگوں نے اُس کی راہنمائی کو دل سے قبول کِیا ان میں سے کچھ کو خدا نے اپنے بیٹے کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کرنے کا شرف عطا کِیا ہے۔ ان لوگوں کو جمع کرنے کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔—لوقا ۲۲:۲۹؛ مکاشفہ ۱۴:۱-۴۔
۱۱. (ا) خدا آجکل کن لوگوں کو جمع کر رہا ہے؟ (ب) جو لوگ مر چکے ہیں مستقبل میں اُنہیں کونسا موقع دیا جائے گا؟
۱۱ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر کون آباد ہوگا؟ چونکہ یہوواہ خدا صبر سے کام لے رہا ہے اس لئے تمام قوموں میں سے ایک ”بڑی بِھیڑ“ جمع کی جا رہی ہے۔ یہ وہ کروڑوں لوگ ہیں جو اس بُری دُنیا کی تباہی میں سے زندہ بچ نکلیں گے اور زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا لطف اُٹھائیں گے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۰؛ زبور ۳۷:۲۹؛ یوحنا ۱۰:۱۶) اس کے علاوہ یہوواہ خدا مقررہ وقت پر اَنگنت مُردوں کو زندہ کرے گا۔ اُنہیں بھی آسمانی بادشاہت کی رعایا کے طور پر فردوسی زمین پر رہنے کا موقع دیا جائے گا۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”راستبازوں اور ناراستوں دونوں کی قیامت ہوگی“ یعنی دونوں جی اُٹھیں گے۔—اعمال ۲۴:۱۵؛ یوحنا ۵:۲۸، ۲۹۔
۱۲. (ا) یہوواہ خدا نے بُرے لوگوں کو فوراً ہلاک نہیں کِیا۔ اس سے ہم کیا سیکھ پائے ہیں؟ (ب) یہوواہ خدا جس طرح سے اپنی حکمت کو استعمال میں لایا ہے، آپ اس کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۱۲ ”غضب کے برتنوں“ کو فوراً ہلاک نہ کرنے سے کیا خدا نے کوئی بےانصافی کی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایسا کرنے سے یہوواہ خدا نے خلوصدل لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہم سے کتنی محبت رکھتا ہے۔ اس پورے عرصے کے دوران انسان دیکھ پائے ہیں کہ خدا اپنے ارادوں کو کیسے پورا کرتا ہے۔ اس سے ہم خدا کی شخصیت کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھ پائے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم خدا کی حکمت اور رحم کا اندازہ لگا سکے ہیں اور یہ بھی جان گئے ہیں کہ وہ تحمل اور انصاف کرنے والا خدا ہے۔ خدا نے حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کِیا ہے کہ وہ ہی اس کائنات کا حاکم ہونے کا حق رکھتا ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ یہوواہ خدا کی حکومت ہم سب کے لئے بہترین رہے گی۔ ہم پولس رسول سے متفق ہیں جس نے کہا: ”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق [یعنی گہرا] ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!“—رومیوں ۱۱:۳۳۔
وفاداری ثابت کرنے کا موقع
۱۳. (ا) مشکلات کا سامنا کرتے وقت ہمیں کونسا موقع ملتا ہے؟ (ب) کس صحیفے کو یاد رکھنے سے ہم مشکلات کے بارے میں درست سوچ رکھ سکتے ہیں؟
۱۳ بہرحال خدا نے ابھی تک بدکاروں کو ختم نہیں کِیا ہے اور ہم سب میں آج تک گُناہ کا داغ پایا جاتا ہے۔ اس لئے خدا کے بہت سے خادموں کو پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ کیا ہمیں اس وجہ سے مایوس ہونا چاہئے؟ یا پھر کیا ہم ان مشکلات کو ایک ایسا موقع خیال کرتے ہیں جس سے ہم شیطان کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں؟ بِلاشُبہ ہم ان مشکلات کو ایسا ہی خیال کرتے ہیں۔ اگر ہم امثال ۲۷:۱۱ کو یاد رکھیں گے تو ایسی سوچ رکھنا ہمارے لئے زیادہ آسان ہو جائے گا۔ اس صحیفے میں لکھا ہے: ”اَے میرے بیٹے! دانا بن اور میرے دل کو شاد کر تاکہ مَیں اپنے ملامت کرنے والے کو جواب دے سکوں۔“ شیطان ہی خدا کی ملامت کر رہا ہے۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اگر انسان کو مالودولت کا نقصان اُٹھانا پڑے یا پھر اگر اُن کی صحت خراب ہو جائے تو وہ خدا کو قصوروار ٹھہرائیں گے اور اُس کی تکفیر بھی کریں گے۔ (ایوب ۱:۹-۱۱؛ ۲:۴، ۵) لیکن اگر ہم مشکلات کا سامنا کرتے وقت یہوواہ کے وفادار رہیں گے تو ہم شیطان کے اس دعوے کو جھوٹا ثابت کریں گے۔ اس طرح ہم یہوواہ خدا کے دل کو شاد کر سکیں گے۔
۱۴. یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے مشکلات اور آزمائشوں سے نپٹنے کے کونسے فائدے ہیں؟
۱۴ ہمیں یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے مشکلات اور آزمائشوں سے نپٹنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا کرنے سے ہم خود میں بہت سی خوبیاں پیدا کر پائیں گے۔ اس کی ایک مثال پر غور کریں۔ یوں تو یسوع زمین پر آنے سے پہلے بھی خدا کا فرمانبردار تھا لیکن آزمائشوں سے نپٹتے ہوئے اُس نے ایک خاص قسم کی ”فرمانبرداری سیکھی۔“ اسی طرح ہم بھی آزمائشوں کا سامنا کرتے وقت خود میں صبر کی خوبی پیدا کر سکتے ہیں اور اپنے ایمان پر قائم بھی رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم بہتر طور پر سمجھ جائیں گے کہ یہوواہ خدا اپنے خادموں کے ساتھ کیسے پیش آتا ہے اور ہمارے دل میں اُس کے لئے شکرگزاری بھی بڑھے گی۔—عبرانیوں ۵:۸، ۹؛ ۱۲:۱۱؛ یعقوب ۱:۲-۴۔
۱۵. جب ہم مشکلات اور آزمائشوں سے نپٹتے ہوئے صبر سے کام لیتے ہیں تو اس کا دوسروں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
۱۵ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ لوگ اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ یہوواہ کے خادم مشکلات سے کیسے نپٹتے ہیں۔ جب ہمیں اپنے ایمان کی خاطر آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے اور ہم صبر سے کام لیتے ہیں تو بعض لوگ اقرار کرتے ہیں کہ یہوواہ کے خادم ہی سچے مسیحی ہیں۔ اور جب وہ ہمارے ساتھ ملکر یہوواہ کی عبادت کرنے لگتے ہیں تو اُنہیں بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ (متی ۲۵:۳۴-۳۶، ۴۰، ۴۶) یہوواہ خدا اور یسوع مسیح چاہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ موقع دیا جائے۔
۱۶. آزمائشوں کو وفاداری ظاہر کرنے کا موقع خیال کرنے اور مسیحی اتحاد کا کیا تعلق ہے؟
۱۶ جب ہمیں مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا ہوتا ہے اور ہم ان کو یہوواہ خدا کے لئے اپنی وفاداری ظاہر کرنے اور اُس کی مرضی بجا لانے کا موقع خیال کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کے ساتھ متحد ہیں۔ ایک موقعے پر یسوع نے یوں دُعا کی: ”مَیں صرف اِن ہی کے لئے [یعنی اُن شاگردوں کے لئے جو اُس وقت اُس کے ساتھ تھے] درخواست نہیں کرتا بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِن کے کلام کے وسیلہ سے مجھ پر ایمان لائیں گے۔ تاکہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح اَے باپ! تُو مجھ میں ہے اور مَیں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں اور دُنیا ایمان لائے کہ تُو ہی نے مجھے بھیجا ہے۔“—یوحنا ۱۷:۲۰، ۲۱۔
۱۷. اگر ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہیں گے تو ہمیں کیا اَجر ملے گا؟
۱۷ اگر ہم یہوواہ خدا کے وفادار رہیں گے تو وہ ہمیں اِس کا اَجر ضرور دے گا۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے کہ ”ثابتقدم اور قائم رہو اور خداوند کے کام میں ہمیشہ افزایش کرتے رہو کیونکہ یہ جانتے ہو کہ تمہاری محنت خداوند میں بیفائدہ نہیں ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸) پاک صحائف میں یہ بھی لکھا ہے کہ ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اُس محبت کو بھول جائے جو تُم نے اُس کے نام کے واسطے اس طرح ظاہر کی کہ مُقدسوں کی خدمت کی اور کر رہے ہو۔“ (عبرانیوں ۶:۱۰) اس کے علاوہ یعقوب ۵:۱۱ میں یوں لکھا ہے: ”دیکھو صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔ تُم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور [یہوواہ] کی طرف سے جو اِس کا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے [یہوواہ] کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ ایوب کو اپنی وفاداری کا کیا اَجر ملا؟ ”[یہوواہ] نے اؔیوب کے آخری ایّام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی۔“ (ایوب ۴۲:۱۰-۱۶) جیہاں، یہوواہ خدا ”اپنے طالبوں کو اَجر دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶، کیتھولک ترجمہ) یقیناً ہمیں اپنی وفاداری کے لئے ایک فردوسی زمین پر ہمیشہ تک زندگی کا لطف اُٹھانے کا اَجر ملے گا۔
۱۸. کیا ہمیں خدا کی نئی دُنیا میں اُس دُکھ اور تکلیف کی یادیں ستائیں گی جو ہم آج سہہ رہے ہیں؟
۱۸ پچھلے ہزاروں سال کے دوران انسانوں نے جو کچھ سہا ہے خدا کی بادشاہت اس کے بُرے اثرات کو بالکل ہی مٹا دے گی۔ اُس وقت ہمیں اتنی برکتیں نصیب ہوں گی کہ ہمیں اُن تلخیوں کی یاد ہی نہ آئی گی جو ہم ابھی سہہ رہے ہیں۔ نئی دُنیا میں ہم جن کاموں میں مگن رہیں گے اور جن باتوں کے بارے میں سوچیں گے ان کی وجہ سے ہم آہستہ آہستہ اُن مصیبتوں، پریشانیوں اور دُکھوں کو بھول جائیں گے جن کا ہمیں آج سامنا ہے۔ یہوواہ خدا کا وعدہ ہے: ”دیکھو مَیں نئے آسمان [ایک آسمانی بادشاہت جو انسانوں پر حکومت کرے گی] اور نئی زمین [ایک ایسا معاشرہ جس کے تمام افراد دلوجان سے خدا کی عبادت کرتے ہیں] کو پیدا کرتا ہوں اور پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔ بلکہ تُم میری اِس نئی خلقت سے ابدی خوشی اور شادمانی کرو۔“ جیہاں، آنے والی نئی دُنیا کے تمام باشندے یہ کہیں گے کہ ”ساری زمین پر آراموآسایش ہے۔“—یسعیاہ ۱۴:۷؛ ۶۵:۱۷، ۱۸۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• حالانکہ خدا نے بدکاروں کو کچھ عرصے کے لئے جینے دیا ہے لیکن پھر بھی اُس نے اپنے عظیم نام کی بڑائی کیسے کی ہے؟
• ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ”غضب کے برتنوں“ کو فوراً ہلاک نہ کرنے سے یہوواہ خدا نے ہم پر رحم کِیا ہے؟
• ہمیں پریشانیوں اور مشکلات کو کونسی بات ثابت کرنے کا موقع خیال کرنا چاہئے؟
[صفحہ ۶۷ پر تصویر]
یہوواہ نے ”اؔیوب کے آخری ایّام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی“