اپنے عظیم خالق کو یاد رکھ!
”اپنے خالق کو یاد کر جبکہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے۔“—واعظ ۱۲:۱۔
۱. خدا کے لئے مخصوص نوجوانوں کو اپنی جوانی اور طاقت کو کس طرح استعمال کرنا چاہئے؟
یہوواہ اپنے خادموں کو طاقت بخشتا ہے تاکہ وہ اُس کی مرضی بجا لائیں۔ (یسعیاہ ۴۰:۲۸-۳۱) اُن کی عمر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تاہم خدا کے لئے مخصوص نوجوان لوگوں کو بالخصوص اپنی جوانی اور قوت کو دانشمندانہ طریقے سے استعمال کرنا چاہئے۔ لہٰذا، وہ ”واعظ“ یعنی قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان کی مشورت پر دل لگاتے ہیں۔ اُس نے تاکید کی: ”اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر جبکہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے اور وہ برس نزدیک نہیں ہوئے جن میں تُو کہیگا کہ اِن سے مجھے کچھ خوشی نہیں۔“—واعظ ۱:۱؛ ۱۲:۱۔
۲. مخصوصشُدہ مسیحیوں کے بچوں کو کیا کرنا چاہئے؟
۲ سلیمان نے سب سے پہلے اسرائیل کے نوجوان مردوں اور عورتوں کو جوانی کے دنوں میں اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کی فہمائش کی تھی۔ وہ یہوواہ کے لئے مخصوص قوم میں پیدا ہوئے تھے۔ آجکل مخصوصشُدہ مسیحیوں کے بچوں کی بابت کیا ہے؟ یقیناً، اُنہیں بھی اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنا چاہئے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ اُس کے لئے جلال کا باعث ہونگے اور خود بھی اس سے مستفید ہونگے۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
ماضی کی عمدہ مثالیں
۳. یوسف، سموئیل اور داؤد نے کیسی مثالیں قائم کیں؟
۳ بائبل وقتوں کے کئی نوجوانوں نے اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کا عمدہ نمونہ قائم کِیا۔ یعقوب کے بیٹے یوسف نے کمعمری سے ہی اپنے خالق کو یاد رکھا تھا۔ جب فوطیفار کی بیوی نے یوسف کو اپنے ساتھ جنسی بداخلاقی کرنے پر اُکسانے کی کوشش کی تو اُس نے سختی سے انکار کر دیا اور کہا: ”بھلا مَیں کیوں اَیسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ (پیدایش ۳۹:۹) سموئیل لاوی نے نہ صرف اپنے بچپن میں بلکہ اپنی ساری زندگی اپنے خالق کو یاد رکھا۔ (۱-سموئیل ۱:۲۲-۲۸؛ ۲:۱۸؛ ۳:۱-۵) بیتلحم کے نوجوان داؤد نے بھی یقینی طور پر اپنے خالق کو یاد رکھا۔ فلستی دیوہیکل جولیت کا سامنا کرتے ہوئے اُس نے خدا پر مکمل بھروسے کا مظاہرہ کِیا اور کہا: ”تُو تلوار بھالا اور برچھی لئے ہوئے میرے پاس آتا ہے پر مَیں ربالافواج کے نام سے جو اؔسرائیل کے لشکروں کا خدا ہے جس کی تُو نے فضیحت کی ہے تیرے پاس آتا ہوں۔ اور آج ہی کے دن [یہوواہ] تجھکو میرے ہاتھ میں کر دے گا اور مَیں تجھ کو مار کر تیرا سر تجھ پر سے اُتار لونگا . . . تاکہ دُنیا جان لے کہ اِؔسرائیل میں ایک خدا ہے۔ اور یہ ساری جماعت جان لے کہ [یہوواہ] تلوار اور بھالے کے ذریعہ سے نہیں بچاتا اِسلئےکہ جنگ تو [یہوواہ] کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کر دے گا۔“ جلد ہی جولیت مارا گیا اور فلستی بھاگ کھڑے ہوئے۔—۱-سموئیل ۱۷:۴۵-۵۱۔
۴. (ا) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ ارام میں اسیر اسرائیلی لڑکی اور نوجوان بادشاہ یوسیاہ نے ہمارے عظیم خالق کو یاد رکھا تھا؟ (ب) یسوع نے ۱۲ سال کی عمر میں اپنے خالق کو کیسے یاد رکھا تھا؟
۴ ایک نوجوان اسیر اسرائیلی لڑکی نے بھی عظیم خالق کو یاد رکھا تھا۔ اُس نے ارامی لشکر کے سردار نعمان کی بیوی کو ایسی عمدہ گواہی دی جس سے تحریک پا کر اُس کا شوہر خدا کے نبی کے پاس گیا اور کوڑھ سے شفا پانے کے بعد یہوواہ کا پرستار بن گیا۔ (۲-سلاطین ۵:۱-۱۹) نوجوان بادشاہ یوسیاہ نے بھی دلیری کے ساتھ یہوواہ کی پاک پرستش کو فروغ دیا۔ (۲-سلاطین ۲۲:۱–۲۳:۲۵) مگر نوعمری میں اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کی سب سے عمدہ مثال یسوع ناصری کی ہے۔ غور کریں کہ جب وہ ۱۲ برس کا تھا تو کیا واقع ہوا۔ اُس کے والدین عیدِفسح منانے کے لئے اُسے یروشلیم لے کر گئے۔ واپسی پر، اُنہوں نے دیکھا کہ یسوع اُن کے ساتھ نہیں ہے؛ لہٰذا وہ اُسے تلاش کرنے کے لئے واپس گئے۔ تیسرے دن، اُنہوں نے اُسے ہیکل میں اُستادوں کے ساتھ صحیفائی سوالات پر گفتوشنید کرتے پایا۔ اپنی ماں کی پریشانی کو دیکھ کر یسوع نے اُس سے کہا: ”تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے؟ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ مجھے اپنے باپ کے ہاں ہونا ضرور ہے؟“ (لوقا ۲:۴۹) یسوع کے لئے ہیکل یعنی ’اپنے باپ کے گھر میں‘ روحانی اقدار کی بابت معلومات حاصل کرنا مفید تھا۔ آجکل، ہمارے عظیم خالق کی بابت صحیح علم حاصل کرنے کے لئے یہوواہ کے گواہوں کے کنگڈم ہال شاندار جگہیں ہیں۔
اب یہوواہ کو یاد رکھیں!
۵. آپ واعظ ۱۲:۱ میں درج واعظ کی باتوں کو اپنے الفاظ میں کیسے بیان کرینگے؟
۵ دلوجان سے یہوواہ کی پرستش کرنے والے لوگ جلدازجلد اُس کی خدمت کو اختیار کرنے اور پھر زندگیبھر اِسے جاری رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ تاہم، ایسے شخص کے لئے کیا امکانات ہیں جسکی جوانی اپنے خالق کو یاد نہ رکھنے کے باعث بیکار کاموں میں گزر گئی ہے؟ زیرِالہام واعظ بیان کرتا ہے: ”اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر جبکہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے اور وہ برس نزدیک نہیں ہوئے جن میں تُو کہیگا کہ اِن سے مجھے کچھ خوشی نہیں۔“—واعظ ۱۲:۱۔
۶. اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ عمررسیدہ شمعون اور حناہ نے اپنے عظیم خالق کو یاد رکھا تھا؟
۶ کوئی بھی شخص بڑھاپے کے ”بُرے [دنوں]“ سے خوش نہیں ہوتا۔ تاہم خدا کو یاد رکھنے والے عمررسیدہ لوگ مبارک ہیں۔ مثال کے طور پر، عمررسیدہ شمعون نے ہیکل میں شِیرخوار یسوع کو اپنی گود میں لیکر خدا کی حمد کرتے ہوئے کہا: ”اَے مالک اب تُو اپنے خادم کو اپنے قول کے موافق سلامتی سے رخصت کرتا ہے۔ کیونکہ میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے۔ جو تُو نے سب اُمتوں کے روبرو تیار کی ہے۔ تاکہ غیرقوموں کو روشنی دینے والا نور اور تیری اُمت اؔسرائیل کا جلال بنے۔“ (لوقا ۲:۲۵-۳۲) چوراسی سالہ حناہ نے بھی اپنے خالق کو یاد رکھا۔ وہ ہمیشہ ہیکل میں رہتی تھی اور جب شِیرخوار یسوع کو وہاں لایا گیا تھا تو وہ اُس وقت بھی وہاں موجود تھی۔ ”وہ اسی گھڑی وہاں آ کر خدا کا شکر کرنے لگی اور اُن سب سے جو یرؔوشلیم کے چھٹکارے کے منتظر تھے اُس کی بابت باتیں کرنے لگی۔“—لوقا ۲:۳۶-۳۸۔
۷. اُن لوگوں کے بارے میں کیا ہے جو خدا کی خدمت کرتے کرتے بوڑھے ہو گئے ہیں؟
۷ خدا کی خدمت کرتے ہوئے بوڑھے ہو جانے والے دورِحاضر کے یہوواہ کے گواہ بڑھاپے کی وجہ سے تکالیف اور معذوریوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔ تاہم، وہ کتنے مبارک ہیں اور ہم اُن کی وفادارانہ خدمت کی کتنی قدر کرتے ہیں! اُنہیں ”[یہوواہ] کی شادمانی“ حاصل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ نے زمین کے سلسلے میں اپنی ناقابلِتسخیر قوت کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور یسوع مسیح کو اپنے طاقتور آسمانی بادشاہ کے طور پر تختنشین کر دیا ہے۔ (نحمیاہ ۸:۱۰) اب وقت ہے کہ پیروجوان اس نصیحت پر دھیان دیں: ”اَے نوجوانو اور کنواریو! اَے بڈھو اور بچو! یہ سب [یہوواہ] کے نام کی حمد کریں۔ کیونکہ صرف اُسی کا نام ممتاز ہے۔ اُس کا جلال زمین اور آسمان سے بلند ہے۔“—زبور ۱۴۸:۱۲، ۱۳۔
۸، ۹. (ا) ”بُرے دن“ کن کیلئے بےاجر ثابت ہوتے ہیں اور ایسا کیوں ہوتا ہے؟ (ب) آپ واعظ ۱۲:۲ کی وضاحت کیسے کرینگے؟
۸ اپنے عظیم خالق اور اُسکے شاندار مقاصد سے بےبہرہ لوگوں کیلئے بڑھاپے کے ”بُرے دن“ بےاجر—شاید بہت ہی تکلیفدہ—ہوتے ہیں۔ اُن میں روحانی بصیرت کا فقدان ہوتا ہے جوکہ بڑھاپے کی آزمائشوں اور آسمان سے شیطان کے گِرائے جانے کے وقت سے لیکر نوعِانسان کو دِق کرنے والی افسوسناک حالتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتی ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۷-۱۲) لہٰذا، واعظ ہمیں اپنے خالق کو یاد رکھنے کی تاکید کرتا ہے ”جبکہ ہنوز سورج اور روشنی اور چاند اور ستارے تاریک نہیں ہوئے اور بادل بارش کے بعد پھر جمع نہیں ہوئے۔“ (واعظ ۱۲:۲) ان الفاظ کا مفہوم کیا ہے؟
۹ سلیمان جوانی کے ایّام کو فلسطین کے موسمِگرما سے تشبِیہ دیتا ہے جب صافوشفاف آسمان پر سورج، چاند اور ستارے اپنی پوری آبوتاب کے ساتھ روشن ہوتے ہیں۔ اس وقت ہر چیز بڑی صاف نظر آتی ہے۔ تاہم، بڑھاپے میں ایک شخص کے ایّام سرد اور برساتی موسمِسرما کی طرح ہوتے ہیں جس میں یکےبعددیگرے مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (ایوب ۱۴:۱) خالق کو جان کر بھی زندگی کے موسمِگرما میں اُس کی خدمت کرنے سے قاصر رہنا کتنی افسوس کی بات ہوگی! زندگی میں بڑھاپے کے موسمِسرما میں بالخصوص اُن لوگوں کے لئے تمام چیزیں تاریک ہو جاتی ہیں جو بیکار چیزوں کے حصول میں جوانی میں یہوواہ کی خدمت کرنے کے مواقع کھو چکے ہیں۔ تاہم، اپنی عمر سے قطعنظر، ہمیں موسیٰ نبی کے وفادار ساتھی کالب کی مانند ’پوری طرح یہوواہ کی پیروی‘ کرنی چاہئے۔—یشوع ۱۴:۶-۹۔
بڑھاپے کے اثرات
۱۰. (ا) ”گھر کے نگہبان“ سے کیا مُراد ہے؟ (ب) ”زورآور لوگ“ سے کیا مُراد ہے؟
۱۰ اس کے بعد سلیمان بیان کرتا ہے کہ ”جس روز گھر کے نگہبان تھرتھرانے لگیں اور زورآور لوگ کبڑے ہو جائیں اور پیسنے والیاں رُک جائیں اسلئےکہ وہ تھوڑی سی ہیں اور وہ جو کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں دھندلا جائیں“ تو یہ مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ (واعظ ۱۲:۳) ”گھر“ سے مُراد انسانی جسم ہے۔ (متی ۱۲:۴۳-۴۵؛ ۲-کرنتھیوں ۵:۱-۸) اس کے ”نگہبان“ بازو اور ہاتھ ہیں جو جسم کی حفاظت کرتے اور اس کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ بڑھاپے میں یہ اکثر کمزوری، پریشانی اور رعشے کی وجہ سے تھرتھراتے رہتے ہیں۔ ”زورآور لوگ“ یعنی ٹانگیں پھر پُختہ ستون نہیں رہتیں بلکہ کمزور اور ٹیڑھی ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے پاؤں اُٹھا کر چلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ تاہم، کیا آپ عمررسیدہ ساتھی ایمانداروں کو مسیحی اجلاسوں پر دیکھ کر خوش نہیں ہوتے؟
۱۱. علامتی مفہوم میں ”پیسنے والیاں“ اور ”وہ جو کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں“ کون ہیں؟
۱۱ ”پیسنے والیاں رُک جائیں اس لئےکہ وہ تھوڑی سی ہیں“—مگر کیسے؟ ممکن ہے کہ دانت خراب یا گِر گئے ہوں اور اب صرف تھوڑے ہی سے رہ گئے ہیں۔ سخت غذا کو چبانے کا عمل مشکل یا پھر بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ”جو کھڑکیوں سے جھانکتی ہیں“—دیکھنے کے لئے ضروری ذہنی صلاحیتوں سمیت آنکھیں—اگر بالکل بےنور نہیں تو دُھندلا ضرور جاتی ہیں۔
۱۲. (ا) ”گلی کے کواڑے“ کیسے بند ہو جاتے ہیں؟ (ب) عمررسیدہ بادشاہتی مُنادوں کی بابت آپکا کیا خیال ہے؟
۱۲ ”اور“ واعظ مزید بیان کرتا ہے، ”گلی کے کواڑے بند ہو جائیں۔ جب چکی کی آواز دھیمی ہو جائے اور انسان چڑیا کی آواز سے چونک اُٹھے اور نغمہ کی سب بیٹیاں ضعیف ہو جائیں۔“ (واعظ ۱۲:۴) خدا کی خدمت نہ کرنے والے عمررسیدہ لوگوں کے ”گھر“ یا جسم کے اظہار کے لئے مُنہ کے دونوں کواڑے—ہونٹ—زیادہ یا بالکل ہی نہیں کھلتے۔ عوامی زندگی کی ”گلی“ میں کچھ بھی نہیں کہا جاتا۔ تاہم، سرگرم عمررسیدہ بادشاہتی مُنادوں کی بابت کیا ہے؟ (ایوب ۴۱:۱۴) ممکن ہے کہ وہ منادی میں آہستہآہستہ چلتے ہوئے گھربہگھر جائیں اور بعض کو شاید گفتگو کرنے میں دقت بھی محسوس ہو، تاہم وہ یاہ کی حمد ضرور کرتے ہیں!—زبور ۱۱۳:۱۔
۱۳. واعظ عمررسیدہ لوگوں کے دیگر مسائل کو کیسے بیان کرتا ہے لیکن سنرسیدہ مسیحیوں کی بابت کیا بات سچ ہے؟
۱۳ دانتوں کے بغیر مسوڑھوں سے کھانا چبانے کی وجہ سے چکی کی آواز دھیمی ہو جاتی ہے۔ ایک عمررسیدہ شخص اپنے بستر پر نیند بھر کر نہیں سوتا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ بھی اُسے جگا دیتی ہے۔ وہ کوئی گیت گنگنا نہیں سکتا۔ ”نغمہ کی سب بیٹیاں“—شیریں سُر—”ضعیف“ ہو جاتی ہیں۔ بوڑھے لوگ دوسروں کے گائے ہوئے نغمے اور موسیقی بھی اچھی طرح نہیں سن پاتے۔ تاہم، عمررسیدہ ممسوح اشخاص اور اُن کے ساتھی، جن میں سے بعض زیادہ جوان بھی نہیں ہیں، مسیحی اجلاسوں پر باآوازِبلند خدا کی حمد کے گیت گاتے رہتے ہیں۔ ہم کتنے خوش ہیں کہ وہ کلیسیا میں ہمارے ساتھ ملکر یہوواہ کی تمجید کرتے ہیں!—زبور ۱۴۹:۱۔
۱۴. بوڑھے لوگوں کو کونسے اندیشے لاحق رہتے ہیں؟
۱۴ اُن عمررسیدہ لوگوں کی زندگی کتنی افسوسناک ہے، جنہوں نے خالق کو نظرانداز کر دیا ہے! واعظ بیان کرتا ہے: ”ہاں جب وہ چڑھائی سے بھی ڈر جائیں اور دہشت راہ میں ہو اور بادام کے پھول نکلیں اور ٹڈی ایک بوجھ معلوم ہو اور خواہش مٹ جائے کیونکہ انسان اپنے ابدی مکان میں چلا جائیگا اور ماتم کرنے والے گلی گلی پھرینگے۔“ (واعظ ۱۲:۵) بہتیرے بوڑھے لوگ اُونچی سیڑھیوں سے گِرنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ کسی اُونچی چیز کو دیکھنے سے بھی اُنہیں چکر آ جاتے ہیں۔ جب اُنہیں بھیڑبھاڑ والے بازاروں میں جانا پڑتا ہے تو وہ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں اُنہیں چوٹ نہ لگ جائے یا چور اُن پر حملہ نہ کر دیں۔
۱۵. ”بادام کے پھول“ کیسے نکلتے ہیں اور ٹڈی کیسے ’بمشکل چلتی‘ ہے؟
۱۵ ایک عمررسیدہ آدمی کے سلسلے میں ”بادام کے پھول“ نکلنے سے بدیہی طور پر یہ ظاہر کِیا گیا ہے کہ اُس کے بال پہلے خاکستری اور پھر بالکل سفید ہو جاتے ہیں۔ سفید بال بادام کے سفید پھولوں کی طرح گِرنے لگتے ہیں۔ جب وہ جھکی ہوئی کمر اور لٹکے ہوئے بازوؤں کے ساتھ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر ’بمشکل چلتا‘ ہے تو بالکل ٹڈی کی مانند لگتا ہے۔ پس، اگر ہم میں سے کوئی ذرا سا بھی ایسا دکھائی دے تو دوسروں پر یہ واضح کر دیں کہ ہم یہوواہ کی سرگرم، تیزرفتار ٹڈیوں کی فوج کا حصہ ہیں!—دیکھیں دی واچٹاور، مئی ۱۹۹۸، صفحات ۱۸-۲۲۔
۱۶. (ا) ’خواہش مٹ جانے‘ کا کیا مطلب ہے؟ (ب) انسان کا ”ابدی مکان“ کیا ہے اور موت کی کونسی علامات واضح ہو جاتی ہیں؟
۱۶ عمررسیدہ لوگوں کے مُنہ کا ذائقہ ختم ہو جاتا ہے، پس اگر آپ اُن کے سامنے چٹپٹے سے چٹپٹا کھانا ہی کیوں نہ رکھ دیں اُنہیں پھر بھی زیادہ بھوک نہیں لگتی۔ عرصۂدراز سے بھوک پیدا کرنے کے لئے چٹپٹی چیزوں کو استعمال کِیا جاتا ہے۔ لیکن جب عمررسیدہ شخص کی بھوک مٹ جاتی ہے تو ایسی چٹپٹی چیزیں بھی اُس کے اندر کھانے کی اشتہا پیدا نہیں کر سکتیں۔ یہ ساری باتیں دراصل ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ”اپنے ابدی مکان“ یعنی قبر میں جانے کے قریب ہے۔ اگر وہ اپنے خالق کو یاد رکھنے میں ناکام رہا ہے اور اُس نے ایسی بُری روش اختیار کی ہے کہ خدا اُسے قیامت میں یاد نہیں رکھتا تو قبر ہی اُس کا ابدی گھر ہوگی۔ تکلیف کے باعث عمررسیدہ شخص کے مُنہ کے کواڑوں سے نکلنے والی گریہوزاری سے موت کے آثار نمایاں ہوتے ہیں۔
۱۷. ”چاندی کی ڈوری“ کیسے کھلتی ہے اور ”سونے کی کٹوری“ کس کی نمائندگی کر سکتی ہے؟
۱۷ ہمیں تاکید کی گئی ہے کہ ”پیشتر اس سے کہ چاندی کی ڈوری کھولی جائے اور سونے کی کٹوری توڑی جائے اور گھڑا چشمہ پر پھوڑا جائے اور حوض کا چرخ ٹوٹ جائے“ ہم اپنے خالق کو یاد رکھیں۔ (واعظ ۱۲:۶) ”چاندی کی ڈوری“ سے مُراد ریڑھ کی ہڈی ہو سکتی ہے۔ جب دماغ کو تحریکی پیغامات پہنچانے والے اس حیرتانگیز ذریعے کو لاعلاج روگ لگ جاتا ہے تو پھر بچنا مشکل ہوتا ہے۔ ”سونے کی کٹوری“ سے مُراد کٹورینما کھوپڑی میں رکھا ہوا دماغ ہو سکتا ہے جس کے ساتھ ریڑھ کی ہڈی جڑی ہوتی ہے۔ ہمارا نہایت بیشقیمت دماغ جب کام کرنا بند کر دیتا ہے تو موت واقع ہو جاتی ہے۔
۱۸. علامتی مفہوم میں ”گھڑا چشمہ پر“ کیا ہے اور جب یہ ٹوٹ جاتا ہے تو کیا واقع ہوتا ہے؟
۱۸ ”گھڑا چشمہ پر“ سے مُراد دل ہے جو جسم سے مسلسل رواں رہنے والا خون حاصل کرتا اور پھر اُسے پورے جسم میں گردش کرنے کے لئے بھیجتا ہے۔ موت کے وقت دل چشمے پر پھوڑے ہوئے گھڑے کی مانند بن جاتا ہے کیونکہ اب یہ نہ تو جسم کی افزائش اور تازگی کے لئے درکار خون حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے جمع کرکے گردش کے لئے بھیج سکتا ہے۔ ’حوض کا ٹوٹا ہوا چرخ‘ بند ہو جاتا ہے جس سے زندگی کو قائمودائم رکھنے والے خون کی گردش رُک جاتی ہے۔ لہٰذا یہوواہ نے ۱۷ویں صدی کے طبیب ولیم ہاروی کی دورانِخون کی دریافت سے بھی طویل عرصہ پہلے سلیمان کو خون کی گردش کی بابت بتا دیا تھا۔
۱۹. موت کے وقت واعظ ۱۲:۷ کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟
۱۹ واعظ نے مزید کہا: ”خاک خاک سے جا ملے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی اور روح خدا کے پاس جس نے اُسے دیا تھا واپس جائے۔“ (واعظ ۱۲:۷) ”چرخ“ ٹوٹنے کے بعد انسانی بدن جسکی ابتدا ہی خاک سے ہوئی تھی پھر خاک میں مِل جاتا ہے۔ (پیدایش ۲:۷؛ ۳:۱۹) جان مر جاتی ہے کیونکہ خدا کی طرف سے عطاکردہ روح یا قوتِحیات واپس ہمارے خالق کے پاس چلی جاتی ہے اور اُسی کے پاس رہتی ہے۔—حزقیایل ۱۸:۴، ۲۰؛ یعقوب ۲:۲۶۔
یاد رکھنے والوں کے لئے کیسا مستقبل؟
۲۰. موسیٰ زبور ۹۰:۱۲ میں درج دُعا کی صورت میں کیا التجا کر رہا تھا؟
۲۰ سلیمان نے نہایت مؤثر طور پر یہ ظاہر کِیا کہ اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنا کتنا ضروری ہے۔ واقعی، جو لوگ یہوواہ کو یاد رکھتے اور پورے دل سے اُس کی مرضی بجا لاتے ہیں اُن کے لئے یہ نسبتاً قلیل اور مصائب سے پُر زندگی ہی سب کچھ نہیں ہے۔ خواہ وہ بوڑھے ہیں یا جوان وہ موسیٰ جیسا رُجحان رکھتے ہیں جس نے یوں دُعا کی: ”ہمکو اپنے دن گننا سکھا۔ ایسا کہ ہم دانا دل حاصل کریں۔“ خدا کے فروتن نبی کی یہ شدید خواہش تھی کہ یہوواہ اُسے اور اسرائیلی قوم کو پُرحکمت طریقے سے ’اپنے برسوں کے ایّام‘ گننا اور پھر اُنہیں خدا کے پسندیدہ طریقے سے بسر کرنا سکھائے۔—زبور ۹۰:۱۰، ۱۲۔
۲۱. اگر ہم یہوواہ کے جلال کی خاطر اپنے دن گننا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۲۱ مسیحی نوجوانوں کو خاص طور پر خالق کو یاد رکھنے کے سلسلے میں واعظ کی مشورت پر دھیان دینے کا عزم کرنا چاہئے۔ اُن کے پاس خدا کے حضور پاک خدمت انجام دینے کے کیا ہی شاندار مواقع ہیں! تاہم، اپنی عمر سے قطعنظر اگر ہم اس ”آخری زمانہ“ میں یہوواہ کو جلال دینے کے لئے اپنے دن گننا سیکھ جاتے ہیں تو پھر ہم اُنہیں ہمیشہ تک گننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ (دانیایل ۱۲:۴؛ یوحنا ۱۷:۳) ایسا کرنے کے لئے، بِلاشُبہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے عظیم خالق کو یاد رکھیں۔ نیز ہمیں یہوواہ کے حضور اپنا فرضِکُلی بھی ادا کرنا چاہئے۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻نوجوانوں کو اپنے خالق کو یاد رکھنے کی تاکید کیوں کی گئی ہے؟
◻اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کی بعض صحیفائی مثالیں کونسی ہیں؟
◻سلیمان نے بڑھاپے کے بعض کن اثرات پر روشنی ڈالی ہے؟
◻یہوواہ کو یاد رکھنے والوں کا مستقبل کیسا ہے؟
[صفحہ 15 پر تصویریں]
داؤد، اسیر اسرائیلی لڑکی، حناہ اور شمعون نے یہوواہ کو یاد رکھا
[صفحہ 16 پر تصویریں]
یہوواہ کے عمررسیدہ گواہ خوشی کے ساتھ اپنے عظیم خالق کے حضور پاک خدمت انجام دیتے ہیں