ہر چیز کا ایک وقت ہے
خدا کا کلام بیان کرتا ہے: ”ہر چیز کا ایک موقع اور ہر کام کا جو آسمان کے نیچے ہوتا ہے ایک وقت ہے۔“ یہ الفاظ قدیم زمانے کے دانشمند بادشاہ سلیمان نے تحریر کئے تھے۔ اُس نے مزید کہا کہ پیدا ہونے کا ایک وقت ہے اور مرنے کا ایک وقت ہے، ڈھانے کا ایک وقت ہے اور تعمیر کرنے کا ایک وقت ہے، محبت کا ایک وقت ہے اور عداوت کا ایک وقت ہے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد آخر میں اُس نے کہا: ”کام کرنے والے کو اُس سے جس میں وہ محنت کرتا ہے کیا حاصل ہوتا ہے؟“—واعظ ۳:۱-۹۔
اِن الفاظ کو پڑھ کر بعض لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہر کام کا وقت پہلے سے مقرر ہوتا ہے۔ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاک کلام قسمت یا تقدیر پر ایمان رکھنے کی حمایت کرتا ہے۔ کیا واقعی خدا کا کلام اِس نظریے کی حمایت کرتا ہے کہ ہماری زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس کا پہلے سے تعیّن ہو چکا ہے؟ چونکہ ”ہر ایک صحیفہ . . . خدا کے الہام سے ہے“ اِس لئے جو کچھ ہم بائبل کے ایک حصے میں پڑھتے ہیں اُسے دوسرے حصوں سے بھی مطابقت رکھنی چاہئے۔ پس آئیں دیکھیں کہ خدا کے کلام کے دیگر حصے تقدیر کے بارے میں کیا بیان کرتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
وقت اور حادثہ
واعظ کی کتاب میں بادشاہ سلیمان مزید لکھتا ہے: ”پھر مَیں نے توجہ کی اور دیکھا کہ دُنیا میں نہ تو دوڑ میں تیزرفتار کو سبقت ہے نہ جنگ میں زورآور کو فتح اور نہ روٹی دانشمند کو ملتی ہے نہ دولت عقلمندوں کو اور نہ عزت اہلِخرد کو۔“ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ”اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔“—واعظ ۹:۱۱۔
اِن آیات میں بادشاہ سلیمان یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ زندگی میں ہر بات پہلے سے مقرر ہو چکی ہے۔ بلکہ وہ یہ بیان کر رہا تھا کہ انسان جو بھی کام کرتا ہے اُس کے انجام کے بارے میں پہلے سے نہیں بتا سکتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ”اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔“ اکثر جب کسی شخص کے ساتھ کچھ بُرا ہوتا ہے تو اِس کی وجہ محض یہ ہوتی ہے کہ وہ اتفاقاً اُس جگہ پر موجود تھا جہاں واقعہ پیش آیا۔
ذرا اِن الفاظ پر غور کریں: ”نہ تو دوڑ میں تیزرفتار کو سبقت ہے۔“ شاید آپ کو عورتوں کی وہ ۳،۰۰۰ میٹر لمبی ریس یاد ہو جو ۱۹۸۴ میں امریکہ میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں ہوئی۔ اِس ریس میں شامل عورتوں میں سے دو سونے کا تمغہ جیتنے کے لئے بڑی پُراُمید تھیں۔ اِن میں سے ایک کا تعلق برطانیہ سے جبکہ دوسری کا تعلق امریکہ سے تھا۔ آدھا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ دونوں آپس میں ٹکرا گئیں۔ ایک گِر گئی اور ریس سے باہر ہو گئی جبکہ دوسری اتنی بےحوصلہ ہو گئی کہ ساتویں نمبر پر آئی۔
کیا یہ سب کچھ اُن کی قسمت میں لکھا تھا؟ بعض شاید اِس کا جواب ہاں میں دیں۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ محض ایک حادثہ تھا جس کے بارے میں پہلے سے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اِس حادثے کی وجہ سے وہ دونوں ریس ہار گئیں۔ کیا اُن کا آپس میں ٹکرانا اُن کی تقدیر میں لکھا تھا؟ بعض شاید کہیں جیہاں۔ مگر تبصرہنگاروں کے مطابق یہ حادثہ اُن کے درمیان شدید مقابلے کی وجہ سے پیش آیا۔ وہ دونوں ایکدوسرے کو ہرانے کی کوشش میں تھیں اور اپنی برتری ثابت کرنا چاہتی تھیں۔ جیسا کہ بائبل بیان کرتی ہے کہ ”اُن سب کے لئے وقت اور حادثہ ہے۔“ خواہ ایک شخص کسی کام کو کرنے کی کتنی ہی تیاری کیوں نہ کر لے بعض ایسے عناصر اُس کے کام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں جن کی وہ توقع بھی نہیں کرتا اور جن کا قسمت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
توپھر خدا کے کلام میں درج اِن الفاظ کا کیا مطلب ہے کہ ”ہر چیز کا ایک موقع اور ہر کام کا . . . ایک وقت ہے“؟ کیا ہم کچھ ایسا کر سکتے ہیں جس سے اِس بات کا تعیّن ہو کہ ہمارا مستقبل اچھا ہوگا یا بُرا؟
ہر کام کے لئے بہترین وقت
جب بادشاہ سلیمان نے کہا کہ ”ہر چیز کا ایک موقع اور ہر کام کا . . . ایک وقت ہے“ تو وہ کسی شخص کی قسمت یا اُس کی زندگی میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بات نہیں کر رہا تھا۔ دراصل وہ خدا کے مقصد کے متعلق بیان کر رہا تھا کہ یہ انسانوں پر کیسے اثرانداز ہوگا۔ ہم یہ کیسے جانتے ہیں؟ ہم واعظ ۳ باب کی اگلی آیات کی مدد سے یہ جاننے کے قابل ہوتے ہیں۔ بہت سے کاموں کا ذکر کرنے کے بعد جن کا ”ایک وقت“ ہے بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”مَیں نے اُس سخت دُکھ کو دیکھا جو خدا نے بنیآدم کو دیا ہے کہ وہ مشقت میں مبتلا رہیں۔ اُس نے ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا۔“—واعظ ۳:۱۰، ۱۱۔
خدا نے انسان کو کرنے کے لئے بہت سے کام دئے ہیں جن میں سے چند کا ذکر سلیمان نے کِیا۔ خدا نے ہمیں یہ آزادی بھی دی ہے کہ ہم اِن کاموں میں سے جس کا چاہیں انتخاب کریں۔ تاہم، ہر کام کے لئے ایک مناسب وقت ہے تاکہ اِس کام سے اچھے نتائج نکلیں۔ مثال کے طور پر، واعظ ۳:۲ میں درج سلیمان کے اِن الفاظ پر غور کریں کہ ”درخت لگانے کا ایک وقت ہے اور لگائے ہوئے کو اُکھاڑنے کا ایک وقت ہے۔“ کسان جانتے ہیں کہ ہر فصل کو لگانے کا ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر کسان اِس بات کو نظرانداز کر کے غلط وقت یا موسم میں فصل لگاتا ہے تو کیا ہوگا؟ اِس فصل پر سخت محنت کرنے کے باوجود اگر یہ اچھی نہیں ہوتی تو کیا اُسے قسمت کو الزام دینا چاہئے؟ ہرگز نہیں! حقیقت تو یہ ہے کہ اُس نے صحیح وقت پر فصل نہیں لگائی تھی۔ اگر کسان صحیح موسم میں فصل لگاتا تو اُسے اچھے نتائج حاصل ہو سکتے تھے۔
لہٰذا، خدا نے کسی شخص کی قسمت یا زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات کے نتائج کا پہلے سے تعیّن نہیں کِیا۔ بلکہ خدا نے انسانوں کے لئے اُصول قائم کئے تاکہ وہ اُس کے مقصد کے مطابق کام کریں۔ اگر انسان اپنے کاموں کے اچھے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں خدا کے مقصد کو سمجھنا اور اُس کے مطابق مناسب وقت پر کام کرنا چاہئے۔ جس بات کا پہلے سے تعیّن کِیا گیا ہے وہ کسی انسان کی قسمت نہیں بلکہ خدا کا مقصد ہے۔ یسعیاہ نبی کی معرفت یہوواہ خدا نے فرمایا: ”میرا کلام جو میرے مُنہ سے نکلتا ہے . . . بےانجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کرے گا اور اُس کام میں جس کے لئے مَیں نے اُسے بھیجا مؤثر ہوگا۔“—یسعیاہ ۵۵:۱۱۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین اور انسانوں کے مستقبل کے سلسلے میں خدا کا ”کلام“ یعنی اُس کا مقصد کیا ہے جسے وہ ”پورا کرے گا“؟
خدا کے وقت کو سمجھیں
بادشاہ سلیمان خدا کے مقصد کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ ”[خدا] نے ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا۔“ اِس کے بعد وہ مزید کہتا ہے: ”اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے اِس لئے کہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔“—واعظ ۳:۱۱۔
اِس آیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دل میں کبھی نہ کبھی یہ جاننے کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے اور کیا زندگی کا انجام موت ہے۔ انسانی تاریخ کے دوران لوگ اِس بات کو قبول نہیں کر پائیں ہیں کہ زندگی کا مقصد محض اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سخت محنت کرنا اور پھر مر جانا ہے۔ ہم انسان اشرفالمخلوقات ہیں اِس لئے ہم نہ صرف موجودہ زندگی بلکہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ ”اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے۔“
اِس خواہش کی تسکین کے لئے لوگ یہ یقین رکھتے ہیں کہ موت کے بعد بھی زندگی ختم نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، بعض یہ کہتے ہیں کہ ہمارے اندر کوئی ایسی چیز ہے جو مرنے کے بعد زندہ رہتی ہے۔ دیگر یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا وجود کبھی نہیں مٹتا بلکہ مرنے کے بعد ہر بار ہمارا ایک نیا جنم ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ، کئی لوگ یہ مانتے ہیں کہ ہماری زندگی میں جوکچھ بھی ہوتا ہے وہ ہماری قسمت میں لکھا ہوتا ہے یا پھر خدا کی طرف سے مقرر ہوتا ہے اور ہم اِسے بدل نہیں سکتے۔ افسوس کی بات ہے کہ اِن نظریات میں سے کوئی بھی ہمیشہ تک زندہ رہنے کے سلسلے میں ٹھوس بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ بائبل کے مطابق اِس کی وجہ یہ ہے کہ ”انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔“
اگرچہ صدیوں سے بیشتر فلاسفروں نے زندگی کے مقصد اور مستقبل کو جاننے کی بہت کوشش کی ہے لیکن وہ اِس کے بارے میں جاننے میں ناکام رہے ہیں۔ چونکہ خدا نے ہمارے دل میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش ڈالی ہے لہٰذا اِسے پورا کرنے کے لئے ہمیں یہوواہ خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ اِس سلسلے میں خدا کا کلام بیان کرتا ہے: ”تُو اپنی مٹھی کھولتا ہے اور ہر جاندار کی خواہش پوری کرتا ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۶) خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے سے نہ صرف ہم زندگی اور موت کے بارے میں سچائی جان جاتے ہیں بلکہ زمین اور انسانوں کے بارے میں خدا کے ابدی مقصد سے بھی واقف ہو جاتے ہیں۔—افسیوں ۳:۱۱۔
[صفحہ ۵ پر عبارت]
”نہ تو دوڑ میں تیزرفتار کو سبقت ہے۔“—واعظ ۹:۱۱۔
[صفحہ ۶ پر عبارت]
اگر کسان صحیح وقت پر فصل نہیں لگاتا تو کیا اُسے قسمت کو الزام دینا چاہئے؟
[صفحہ ۷ پر عبارت]
ہم زندگی اور موت کے بارے میں جاننے کی خواہش اِس لئے رکھتے ہیں کیونکہ خدا نے ”ابدیت کو بھی [ہمارے] دل میں جاگزین کِیا ہے“