-
بولنے کا صحیح وقت کون سا ہے؟مینارِنگہبانی (مطالعے کا ایڈیشن)—2020ء | مارچ
-
-
مطالعے کا مضمون نمبر 12
بولنے کا صحیح وقت کون سا ہے؟
”چپ رہنے کا ایک وقت ہے اور بولنے کا ایک وقت ہے۔“—واعظ 3:7۔
گیت نمبر 124: وفادار ہوں
مضمون پر ایک نظرa
1. ہم واعظ 3:7 سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
ہم میں سے کچھ کو زیادہ بولنا پسند ہے جبکہ کچھ کو کم۔ جیسے کہ اِس مضمون کی مرکزی آیت میں بتایا گیا ہے، بولنے کا ایک وقت ہے اور چپ رہنے کا ایک وقت ہے۔ (واعظ 3:7 کو پڑھیں۔) پھر بھی شاید ہم سوچیں کہ فلاں بہن یا بھائی کو تھوڑا زیادہ بولنا چاہیے اور فلاں کو تھوڑا کم بولنا چاہیے۔
2. یہ معیار قائم کرنے کا حق کس کو ہے کہ ہمیں کب اور کیسے بولنا چاہیے؟
2 بولنے کی صلاحیت یہوواہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ (خر 4:10، 11؛ مکا 4:11) اپنے کلام کے ذریعے وہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ ہم اِس نعمت کو صحیح طریقے سے کیسے اِستعمال کر سکتے ہیں۔ اِس مضمون میں ہم بائبل سے ایسی مثالوں پر غور کریں گے جن کی مدد سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمیں کب بولنا چاہیے اور کب چپ رہنا چاہیے۔ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ ہم دوسروں سے جو کچھ کہتے ہیں، اُس کے متعلق یہوواہ کیسا محسوس کرتا ہے۔ آئیں، پہلے یہ دیکھیں کہ ہمیں کب بولنا چاہیے۔
ہمیں کب بولنا چاہیے؟
3. رومیوں 10:14 کے مطابق ہمیں کب بولنا چاہیے؟
3 ہمیں جب بھی یہوواہ اور اُس کی بادشاہت کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملے، ہمیں ضرور بولنا چاہیے۔ (متی 24:14؛ رومیوں 10:14 کو پڑھیں۔) ایسا کرنے سے ہم یسوع مسیح کی مثال پر عمل کر رہے ہوں گے۔ یسوع مسیح کے زمین پر آنے کا ایک اہم مقصد دوسروں کو اپنے باپ کے بارے میں سچائی بتانا تھا۔ (یوح 18:37) لیکن یہ یاد رکھنا بھی بہت اہم ہے کہ ہم کیسے بات کرتے ہیں۔ اِس لیے جب ہم دوسروں کو یہوواہ کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہمیں ’نرممزاجی سے کام لینا اور گہرا احترام ظاہر‘ کرنا چاہیے۔ (1-پطر 3:15) اِس کے علاوہ ہمیں دوسروں کے احساسات کا لحاظ رکھنا چاہیے اور اُن کے عقیدوں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ یوں ہمارا بولنا بےاثر نہیں ہوگا بلکہ ہم دوسروں کو کچھ سکھا پائیں گے اور اپنا پیغام اُن کے دل تک پہنچا پائیں گے۔
4. امثال 9:9 کی روشنی میں بتائیں کہ ہمارے بولنے سے دوسروں کو کیسے فائدہ ہو سکتا ہے۔
4 اگر بزرگ دیکھتے ہیں کہ کسی بہن یا بھائی کو اِصلاح کی ضرورت ہے تو اُنہیں بولنا چاہیے۔ بےشک وہ ایسا کرنے کے لیے مناسب وقت کا اِنتخاب کریں گے تاکہ اُس بہن یا بھائی کو شرمندگی نہ ہو۔ اور شاید وہ تھوڑا اِنتظار کریں تاکہ اکیلے میں اُس سے بات کر سکیں۔ اِس کے علاوہ بزرگوں کی یہ بھی کوشش ہوگی کہ وہ اُس بہن یا بھائی سے بات کرتے وقت اُس کی عزت کا خیال رکھیں۔ لیکن اِن سب باتوں کے باوجود وہ اُسے پاک کلام سے ایسے اصول ضرور بتائیں گے جن کے ذریعے وہ دانشمندی سے کام لے سکتا ہے۔ (امثال 9:9 کو پڑھیں۔) لہٰذا ہمارے اندر اِتنی دلیری ہونی چاہیے کہ جب ہمارا بولنا ضروری ہو تو ہم بول سکیں۔ آئیں، اِس حوالے سے ایک بُری اور ایک اچھی مثال پر غور کریں۔ بُری مثال ایک آدمی کی ہے جسے اپنے بیٹوں کی اِصلاح کرنے کی ضرورت تھی اور اچھی مثال ایک عورت کی ہے جسے ایک ایسے شخص سے بات کرنی تھی جو بادشاہ بننے والا تھا۔
5. کاہنِاعظم عیلی کس موقعے پر ویسے نہیں بولے جیسے اُنہیں بولنا چاہیے تھا؟
5 کاہنِاعظم عیلی کے دو بیٹے تھے جن سے وہ بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن اُن کے بیٹوں کے دل میں یہوواہ کے لیے کوئی احترام نہیں تھا۔ وہ خیمۂاِجتماع میں کاہنوں کے طور پر خدمت کرتے تھے جو کہ بہت بڑی ذمےداری تھی۔ مگر وہ اپنے اِختیار کا غلط اِستعمال کرتے تھے، یہوواہ کے حضور چڑھائے گئے نذرانوں کی بےحُرمتی کرتے تھے اور بڑی دیدہدلیری سے حرامکاری کرتے تھے۔ (1-سمو 2:12-17، 22) شریعت کے مطابق عیلی کے بیٹوں کو موت کی سزا ملنی چاہیے تھی۔ لیکن عیلی نے اُنہیں بس معمولی سا جھڑکا اور خیمۂاِجتماع میں خدمت کرتے رہنے کی اِجازت دی۔ (اِست 21:18-21) عیلی اِس صورتحال سے جس طرح نمٹے، اُس پر یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ اُس نے عیلی سے کہا: ”کیوں تُو اپنے بیٹوں کی مجھ سے زیادہ عزت کرتا ہے؟“ پھر یہوواہ نے عیلی کے بیٹوں کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔—1-سمو 2:29، 34۔
6. عیلی کی مثال میں ہمارے لیے کون سا سبق پایا جاتا ہے؟
6 عیلی کی مثال میں ہمارے لیے ایک اہم سبق پایا جاتا ہے۔ اگر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے کسی دوست یا رشتےدار نے یہوواہ کا کوئی اصول توڑا ہے تو ہمیں بولنا چاہیے یعنی اُسے یہوواہ کے معیار یاد دِلانے چاہئیں۔پھر ہمیں اِس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ یہوواہ کی طرف سے مقررکردہ بھائیوں سے مدد حاصل کرے۔ (یعقو 5:14) ہمیں کبھی بھی عیلی کی طرح نہیں بننا چاہیے اور اپنے کسی دوست یا رشتےدار کو یہوواہ سے زیادہ عزت نہیں دینی چاہیے۔ سچ ہے کہ کسی ایسے شخص سے بات کرنے کے لیے جو غلط راستے پر نکل پڑا ہے، دلیری کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اِس کے بہت اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ صحیح وقت پر بولنے کے حوالے سے ابیجیل نامی ایک اِسرائیلی عورت کا ردِعمل عیلی کے ردِعمل سے کیسے فرق تھا۔
7. ابیجیل، داؤد سے بات کرنے کیوں گئیں؟
7 ابیجیل، نابال نامی ایک امیر زمیندار کی بیوی تھیں۔ جب داؤد اور اُن کے ساتھی بادشاہ ساؤل سے جان بچا کر بھاگ رہے تھے تو اُن کا کچھ وقت نابال کے چرواہوں کے ساتھ گزرا۔ اِس دوران اُنہوں نے نابال کی بھیڑ بکریوں کی لُٹیروں سے حفاظت کی۔ کیا نابال اُن کی اِس مدد کے لیے اُن کا شکرگزار ہوا؟ بالکل نہیں۔ جب داؤد نے اپنے آدمیوں کو نابال کے پاس کھانے پینے کی کچھ چیزیں لینے کے لیے بھیجا تو وہ شدید غصے میں آ گیا اور اُنہیں بُرا بھلا کہہ کر واپس بھیج دیا۔ (1-سمو 25:5-8، 10-12، 14) اِس پر داؤد نے نابال کے خاندان کے ایک ایک مرد کو جان سے مارنے کی ٹھان لی۔ (1-سمو 25:13، 22) اِس خونخرابے کو کیسے روکا جا سکتا تھا؟ ابیجیل سمجھ گئیں کہ یہ چپ رہنے کا نہیں بلکہ بولنے کا وقت ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے دلیری دِکھائی اور داؤد اور اُن کے 400 آدمیوں سے ملنے نکل پڑیں جو کہ بہت غصے میں اور ہتھیاروں سے لیس تھے۔ اور پھر اُنہوں نے داؤد سے بات کی۔
8. ہم ابیجیل کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
8 جب ابیجیل، داؤد سے ملیں تو وہ احترام اور دلیری سے بولیں اور ایسے بات کی کہ داؤد قائل ہو سکیں۔ حالانکہ یہ سارا مسئلہ ابیجیل کی وجہ سے کھڑا نہیں ہوا تھا لیکن پھر بھی اُنہوں نے داؤد سے معافی مانگی۔ اُنہوں نے داؤد کی خوبیوں کی تعریف کی اور یہوواہ کی مدد پر پورا بھروسا رکھا۔ (1-سمو 25:24، 26، 28، 33، 34) اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بہن یا بھائی سنگین غلطی کرنے کے خطرے میں ہے تو ابیجیل کی طرح ہمارے اندر بھی اِتنی دلیری ہونی چاہیے کہ ہم اُس سے بات کر سکیں۔ (زبور 141:5) ہمیں اُس شخص کے ساتھ احترام سے لیکن صاف لفظوں میں بات کرنی چاہیے۔ جب ہم شفقت سے اُس کی اِصلاح کریں گے تو ہم ظاہر کریں گے کہ ہم اُس کے سچے دوست ہیں۔—امثا 27:17۔
9، 10. دوسروں کی اِصلاح کرتے ہوئے بزرگوں کو کون سی بات یاد رکھنی چاہیے؟
9 خاص طور پر بزرگوں میں اِتنی دلیری ہونی چاہیے کہ اگر کلیسیا کا کوئی بھائی یا بہن سنگین غلطی کرے تو وہ اُس سے بات کر سکیں۔ (گل 6:1) بزرگ خاکساری سے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بھی عیبدار ہیں اور اُنہیں بھی اِصلاح کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ لیکن اِس وجہ سے بزرگوں کو اُن بہن بھائیوں کی اِصلاح کرنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے جنہیں اِس کی ضرورت ہو۔ (2-تیم 4:2؛ طط 1:9) جب اُنہیں کسی کی اِصلاح کرنی ہوتی ہے تو وہ صبر اور مہارت سے اُس شخص کو سمجھاتے ہیں۔ یوں وہ اپنی بولنے کی صلاحیت کو صحیح طرح سے اِستعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے اُس بہن یا بھائی سے محبت کرتے ہیں اور اِسی محبت کی بِنا پر وہ اُس کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ (امثا 13:24) لیکن اُن کی نظر میں سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہوواہ کے نام کی بڑائی ہو۔ اِس لیے وہ یہوواہ کے معیاروں کی حمایت کرتے ہیں اور کلیسیا کو بُرے اثر سے بچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔—اعما 20:28۔
10 اب تک ہم نے سیکھ لیا ہے کہ ہمیں کب بولنا چاہیے۔ لیکن کچھ صورتوں میں چپ رہنا بہتر ہوتا ہے۔ آئیں، دیکھیں کہ ہمیں کن صورتوں میں چپ رہنا چاہیے۔
ہمیں کب چپ رہنا چاہیے؟
11. یعقوب نے کون سی مثال اِستعمال کی اور یہ مثال چپ رہنے کے حوالے سے موزوں کیوں ہے؟
11 اپنی زبان کو قابو میں رکھنا مشکل ہو سکتا ہے۔ یسوع مسیح کے شاگرد یعقوب نے اِس بات کو سمجھانے کے لیے بڑی موزوں مثال دی۔ اُنہوں نے کہا: ”اگر کوئی بولتے وقت غلطی نہیں کرتا تو وہ کامل شخص ہے اور اپنے پورے جسم کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔ جب ہم گھوڑوں کو قابو کرنے کے لیے اُن کے مُنہ میں لگام ڈالتے ہیں تو ہم اُن کے جسم کو جہاں چاہے، لے جا سکتے ہیں۔“ (یعقو 3:2، 3) ایک گھوڑے کو قابو میں رکھنے کے لیے اُسے لگام ڈالی جاتی ہے۔ ایک گُھڑسوار گھوڑے کو صحیح سمت میں لے جانے یا اُسے روکنے کے لیے لگام کھینچتا ہے۔ لیکن اگر گُھڑسوار لگام کو کھینچ کر نہیں رکھتا تو گھوڑا بےقابو ہو سکتا ہے اور خود کو اور اپنے مالک کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتے تو اِس کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔ آئیں، اب کچھ ایسی صورتوں پر بات کریں جب ہمیں اپنی زبان کو لگام دینے اور چپ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
12. ہمیں کب اپنی زبان کو لگام دینا اور چپ رہنا چاہیے؟
12 جب کسی بھائی یا بہن کے پاس ایسی معلومات ہوتی ہیں جنہیں رازداری میں رکھا جانا چاہیے تو اُس وقت آپ کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ فرض کریں کہ آپ کسی بھائی یا بہن سے ملتے ہیں جو کسی ایسے ملک میں رہتا ہے جہاں ہمارے کام پر پابندی ہے۔ اُس وقت شاید آپ اُس سے پوچھنا چاہیں کہ اُس ملک میں ہمارا کام کیسے ہو رہا ہے۔ بےشک آپ غلط نیت سے ایسا نہیں کرنا چاہیں گے۔ ہم اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں اور اُن کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم اُن کے لیے دُعا کرتے وقت اُن کی مشکلات کا ذکر کریں۔ لیکن یہی وہ وقت ہوگا جب ہمیں اپنی زبان کو لگام دینا اور چپ رہنا چاہیے۔ اگر ہم کسی پر دباؤ ڈال کر خفیہ معلومات لینے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم اُس سے محبت نہیں کرتے۔ اِس کے علاوہ ہم اُن بہن بھائیوں کے لیے بھی محبت ظاہر نہیں کرتے جنہیں اُس پر بھروسا ہے کہ وہ یہ معلومات کسی اَور کو نہیں دے گا۔ بےشک ہم میں سے کوئی بھی اپنے اُن بہن بھائیوں کی مشکلات کو بڑھانا نہیں چاہتا جو ایسے ملکوں میں رہتے ہیں جہاں ہمارے کام پر پابندی ہے۔ اور جہاں تک ایسے ملکوں میں رہنے والے بہن بھائیوں کی بات ہے تو وہ خود بھی کبھی دوسروں کو نہیں بتاتے کہ وہ وہاں مُنادی کا کام، اِجلاس اور یہوواہ کی عبادت سے تعلق رکھنے والے دیگر کام کیسے کر رہے ہیں۔
13. امثال 11:13 میں درج اصول کی روشنی میں بتائیں کہ بزرگوں کو کیا کرنا چاہیے اور کیوں۔
13 بزرگوں کے لیے یہ بےحد ضروری ہے کہ وہ امثال 11:13 میں درج اصول پر عمل کریں اور معاملات کو رازداری میں رکھیں۔ (اِس آیت کو پڑھیں۔) ایسا کرنا خاص طور پر اُس بزرگ کے لیے مشکل ہو سکتا ہے جو شادیشُدہ ہے۔ ایک شادیشُدہ جوڑا اپنے رشتے کو مضبوط رکھنے کے لیے کُھل کر ایک دوسرے کو اپنے احساسات، خیالات اور فکروں کے بارے میں بتاتا ہے۔ لیکن ایک بزرگ جانتا ہے کہ اُسے اپنی بیوی کو دوسروں کے بارے میں وہ معلومات نہیں دینی چاہئیں جنہیں ”راز“ میں رکھا جانا چاہیے۔اگر ایک بزرگ دوسروں کے راز فاش کرتا ہے تو وہ اُن کا بھروسا کھو سکتا ہے اور اپنی نیکنامی خراب کر سکتا ہے۔ جن کے پاس کلیسیا میں اہم ذمےداریاں ہیں، اُنہیں ”دھوکےباز“ یا ”دو زبان“ نہیں ہونا چاہیے۔ (1-تیم 3:8؛ فٹنوٹ) اِس کا مطلب ہے کہ وہ دوسروں کا بھروسا نہیں توڑتے یا اُن کی باتوں کو اِدھر اُدھر نہیں پھیلاتے۔ جو بزرگ اپنی بیوی سے پیار کرتا ہے، وہ اُس کے ذہن پر ایسی معلومات کا بوجھ نہیں ڈالے گا جنہیں جاننے کی اُسے ضرورت نہیں ہے۔
14. ایک بزرگ کی بیوی اُس کی نیکنامی کو برقرار رکھنے میں اُس کی مدد کیسے کر سکتی ہے؟
14 ایک اچھی بیوی کلیسیا میں اپنے شوہر کی نیکنامی کو برقرار رکھنے میں اُس کی مدد کرتی ہے۔ وہ کیسے؟ وہ اُس پر یہ دباؤ نہیں ڈالتی کہ وہ اُسے کلیسیا کے اُن معاملات کے بارے میں بتائے جنہیں راز میں رکھا جانا چاہیے۔ جب ایک بیوی ایسا کرتی ہے تو وہ اپنے شوہر کی حمایت کر رہی ہوتی ہے۔ اِس کے علاوہ وہ اُن لوگوں کے لیے بھی احترام ظاہر کر رہی ہوتی ہے جنہوں نے اُس کے شوہر پر بھروسا کر کے اُسے اپنے کسی ذاتی معاملے کے بارے میں بتایا ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر وہ یہوواہ کو خوش کرتی ہے کیونکہ اِس سے کلیسیا کا امنواِتحاد برقرار رہتا ہے۔—روم 14:19۔
ہم جو کچھ کہتے ہیں، اُس کے متعلق یہوواہ کیسا محسوس کرتا ہے؟
15. یہوواہ نے ایوب کے تین دوستوں کے بارے میں کیسا محسوس کِیا اور کیوں؟
15 ہم ایوب کی کتاب سے سیکھتے ہیں کہ ہمیں کیسے اور کب بات کرنی چاہیے۔ جب ایوب پر ایک کے بعد ایک دل دہلا دینے والی مصیبتیں آئیں تو چار آدمی اُنہیں تسلی دینے اور اُن کی اِصلاح کرنے کے لیے آئے۔ وہ آدمی کافی دیر تک چپ بیٹھے رہے۔ اِن میں سے تین آدمیوں کے نام الیفز، بلدد اور ضوفر تھے۔ اِتنی دیر چپ رہنے کے بعد بھی اِن آدمیوں نے ایوب سے جو کچھ کہا، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے اِس دوران ایوب کو تسلی دینے کے حوالے سے کچھ نہیں سوچا۔ اِس کی بجائے وہ یہ ثابت کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ایوب نے کچھ غلط کِیا ہے۔ اُن کی کچھ باتیں تو صحیح تھیں لیکن اُنہوں نے ایوب اور یہوواہ خدا کے بارے میں زیادہتر باتیں ایسی کہیں جو جھوٹی یا دل دُکھانے والی تھیں۔ (ایو 32:1، 2) اُنہوں نے ایوب پر اِلزام لگایا کہ وہ ایک بُرے شخص ہیں۔ اِس پر یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ یہوواہ کو اُن تینوں پر شدید غصہ آیا۔ اُس نے اُنہیں ناسمجھ خیال کِیا اور اُن سے کہا کہ وہ ایوب سے درخواست کریں کہ وہ اُن تینوں کے لیے دُعا کریں۔—ایو 42:7-9۔
16. ہم الیفز، بلدد اور ضوفر کی بُری مثالوں سے کیا سیکھتے ہیں؟
16 ہم الیفز، بلدد اور ضوفر کی بُری مثالوں سے اہم باتیں سیکھتے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے بہن بھائیوں میں نقص نہیں نکالنے چاہئیں۔ (متی 7:1-5) اِس کی بجائے ہمیں کچھ کہنے سے پہلے اُن کی بات کو دھیان سے سننا چاہیے۔ پھر ہی ہم اُن کی صورتحال کو سمجھ پائیں گے۔ (1-پطر 3:8) دوسری بات یہ ہے کہ جب ہم بات کرتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہماری باتوں سے کسی کا دل نہ دُکھے اور ہم ہمیشہ سچی بات کریں۔ (اِفس 4:25) تیسری بات یہ ہے کہ ہم دوسروں سے جو کچھ بھی کہتے ہیں، یہوواہ اُس میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔
17. ہم اِلیہو کی مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
17 ایوب کو تسلی دینے کے لیے جو چوتھا شخص اُن کے پاس آیا، وہ ابراہام کا ایک رشتےدار اِلیہو تھا۔ اُنہوں نے ایوب اور اُن تینوں آدمیوں کی باتچیت سنی۔ بےشک اُنہوں نے اِس ساری باتچیت کو بڑے دھیان سے سنا ہوگا۔ اِسی لیے اُنہوں نے نرمی سے مگر صاف لفظوں میں ایوب کی اِصلاح کی جس کی مدد سے ایوب اپنی سوچ کو درست کر پائے۔ (ایو 33:1، 6؛ 35:2) اِلیہو کے لیے سب سے اہم بات یہوواہ کی بڑائی کرنا تھا، نہ کہ اپنی یا کسی اَور شخص کی۔ (ایو 32:21، 22؛ 37:23، 24) اِلیہو کی مثال سے ہم سیکھتے ہیں کہ چپ رہنے اور دوسروں کی بات سننے کا ایک وقت ہے۔ (یعقو 1:19) ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ جب ہم دوسروں کی اِصلاح کرتے ہیں تو ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم یہوواہ کی بڑائی کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ اپنی۔
18. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم بولنے کی نعمت کی قدر کرتے ہیں؟
18 بائبل کی اِس ہدایت پر عمل کرنے سے کہ ہمیں کب اور کیسے بات کرنی چاہیے، ہم اپنی بولنے کی صلاحیت کے لیے قدر ظاہر کر سکتے ہیں۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”باموقع باتیں روپہلی [چاندی کی] ٹوکریوں میں سونے کے سیب ہیں۔“ (امثا 25:11) جب ہم دوسروں کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہیں اور کچھ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں تو ہماری باتیں سونے کے سیبوں کی طرح قیمتی اور خوبصورت ہو سکتی ہیں۔ پھر چاہے ہم زیادہ بولیں یا کم، ہم اپنی باتوں سے دوسروں کا حوصلہ بڑھا سکیں گے۔ اِس کے ساتھ ساتھ یہوواہ بھی ہم پر فخر محسوس کرے گا۔ (امثا 23:15؛ اِفس 4:29) یہوواہ کی اِس نعمت کے لیے قدر ظاہر کرنے کا اِس سے بہتر طریقہ اَور کیا ہو سکتا ہے!
-