ہمارے پاس شادمانی سے پکارنے کی وجہ ہے
”وہ خوشی اور شادمانی حاصل کرینگے اور غمواندوہ کافور ہو جائینگے۔“—یسعیاہ ۳۵:۱۰۔
۱. آجکل کن لوگوں کے پاس شادمان ہونے کی خاص وجہ ہے؟
غالباً آپ مشاہدہ کر چکے ہیں کہ آجکل بہت کم لوگوں کے پاس حقیقی شادمانی ہے۔ تاہم، سچے مسیحیوں کے طور پر، یہوؔواہ کے گواہوں کے پاس شادمانی ہے۔ اور اُسی شادمانی کو حاصل کرنے کا امکان اُن دیگر لاکھوں غیربپتسمہ یافتہ جوان اور بوڑھے لوگوں کے سامنے ہے جو گواہوں کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ آپ اس وقت اس رسالے میں یہ الفاظ پڑھ رہے ہیں ظاہر کرتی ہے کہ یہ شادمانی پہلے ہی آپ کی ہو چکی ہے یا آپ کی پہنچ میں ہے۔
۲. ایک مسیحی کی شادمانی لوگوں کی اکثریت کی عمومی حالت سے کیسے فرق ہے؟
۲ لوگوں کی اکثریت محسوس کرتی ہے کہ اُن کی زندگی میں کسی چیز کی کمی ہے۔ آپ کی بابت کیا ہے؟ مانا کہ آپ کے پاس شاید ہر وہ مادّی چیز نہ ہو جسے آپ استعمال کر سکتے ہیں، یقینی طور پر ہر وہ چیز جو آجکل امیر اور بااثر لوگ رکھتے ہیں۔ اور شاید آپ اچھی صحت اور زیادہ قوت حاصل کرنا پسند کریں۔ تاہم، بِلاخوف یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب شادمانی کی بات آتی ہے تو آپ زمین کے کروڑہا لوگوں کی نسبت زیادہ امیر اور صحتمند ہیں۔ وہ کیسے؟
۳. کونسے معنیخیز الفاظ ہماری توجہ کے مستحق ہیں اور کیوں؟
۳ یسوؔع کے الفاظ کو یاد کریں: ”مَیں نے یہ باتیں اس لئے تم سے کہی ہیں کہ میری خوشی تم میں ہو اور تمہاری خوشی پوری ہو جائے۔“ (یوحنا ۱۵:۱۱) ”تمہاری خوشی پوری ہو جائے۔“ کیا ہی خوبصورت بیان! مسیحی طرزِزندگی کا گہرا مطالعہ ہماری خوشی کے برآنے کی بہت سی وجوہات کو آشکارا کرے گا۔ لیکن اس وقت، یسعیاہ ۳۵:۱۰ کے معنیخیز الفاظ پر غور کریں۔ یہ اس لئے معنیخیز ہیں کیونکہ اُن کا آجکل ہمارے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ ہم پڑھتے ہیں: ”جن کو خداوند نے مخلصی بخشی لوٹیں گے اور صیوؔن میں گاتے ہوئے آئیں گے اور ابدی سرور اُن کے سروں پر ہوگا۔ وہ خوشی اور شادمانی حاصل کریں گے اور غمواندوہ کافور ہو جائیں گے۔“
۴. یسعیاہ ۳۵:۱۰ میں کس قسم کی شادمانی کا ذکر کِیا گیا ہے، اور ہمیں کیوں اس پر توجہ دینی چاہئے؟
۴ ”ابدی سرور۔“ جزوِجملہ ”ابدی“ اُس کا صحیح ترجمہ ہے جو یسعیاؔہ نے عبرانی میں لکھا۔ لیکن جیسےکہ دیگر صحائف ظاہر کرتے ہیں، اس آیت میں مفہوم ”دائمی“ کا ہے۔ (زبور ۴۵:۶؛ ۹۰:۲؛ یسعیاہ ۴۰:۲۸) لہٰذا ایسی حالتوں کے تحت شادمانی غیرمختتم ہوگی جو اجازت دیں گی—جیہاں، ابدی شادمانی کے لئے—جائز وجہ فراہم کریں گی۔ کیا یہ خوشکُن دکھائی نہیں دیتا؟ تاہم، شاید یہ آیت آپ کو کسی تخیلاتی حالت پر ایک تبصرے کی طرح معلوم ہو، جو آپ کو یہ محسوس کرنے پر مجبور کر دیتی ہے: ’دراصل مَیں اس میں شامل نہیں ہوں کیونکہ مجھے تو روزمرّہ کے مسائل اور پریشانیاں گھیرے ہوئے ہیں۔‘ لیکن حقائق اس کے برعکس ثابت کرتے ہیں۔ یسعیاہ ۳۵:۱۰ کا نبوّتی وعدہ آجکل آپ کے لئے معنیخیز ہے۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ کیسے، آئیے سیاقوسباق کے ہر حصے پر غور کرتے ہوئے، اس دلکش یسعیاہ ۳۵ باب کا جائزہ لیں۔ یقین رکھیں کہ جوکچھ ہم معلوم کریں گے آپ اُس سے مستفید ہونگے۔
لوگ جنہیں شادمان ہونے کی ضرورت تھی
۵. یسعیاہ ۳۵ باب میں پائی جانے والی پیشینگوئی کس نبوّتی حالت کو پیش کرتی ہے؟
۵ مدد کے طور پر، آیئے اس دلکش پیشینگوئی کے، پسمنظر، تاریخی ماحول کا جائزہ لیں۔ عبرانی نبی یسعیاؔہ نے اسے تقریباً ۷۳۲ ق.س.ع. کے لگبھگ تحریر کِیا۔ یہ بابلی افواج کے یرؔوشلیم کو تباہوبرباد کرنے سے پہلے کے عشروں میں ہوا تھا۔ جیسےکہ یسعیاہ ۳۴:۱، ۲ ظاہر کرتی ہیں کہ خدا پیشینگوئی کر چکا تھا کہ وہ ایسی قوموں پر قہر نازل کرنے والا تھا جیسےکہ اؔدوم، جس کا ذکر یسعیاہ ۳۴:۶ میں کِیا گیا ہے۔ بدیہی طور پر ایسا کرنے کے لئے اُس نے قدیم بابلیوں کو استعمال کِیا۔ اسی طرح سے، خدا نے بابلیوں کے ہاتھوں یہوؔداہ کو بھی تباہوبرباد کرا دیا کیونکہ یہودی بیوفا تھے۔ انجام؟ خدا کے لوگوں کو اسیر بنا لیا گیا اور اُن کا آبائی وطن ۷۰ سال تک اُجاڑ پڑا رہا۔—۲-تواریخ ۳۶:۱۵-۲۱۔
۶. جوکچھ ادومیوں پر واقع ہونے والا تھا اور جوکچھ یہودیوں پر واقع ہونے والا تھا اس کے درمیان کیا فرق ہے؟
۶ تاہم، ادومیوں اور یہودیوں کے درمیان نمایاں فرق ہے۔ ادومیوں پر الہٰی سزا کبھی ختم نہ ہونے والی تھی؛ وقت آنے پر، ایک اُمت کے طور پر اُن کا نامونشان مٹ گیا۔ جیہاں، آپ ابھی بھی اُس علاقے کے کھنڈرات کی سیاحت کر سکتے ہیں جہاں ادومی آباد تھے، جیسےکہ مشہورِزمانہ پاترؔہ کے کھنڈرات۔ لیکن آج، کوئی بھی ایسی قوم یا اُمت نہیں جس کی شناخت بطور ’ادومیوں‘ کے ہو سکے۔ دوسری طرف، مُلک کو ہمیشہ کے لئے غمانگیز بناتے ہوئے کیا بابلیوں کے ہاتھوں یہوؔداہ کی تباہی کو ابد تک قائم رہنا تھا؟
۷. بابلؔ میں اسیر یہودیوں نے یسعیاہ ۳۵ باب کے لئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا ہوگا؟
۷ یہاں یسعیاہ ۳۵ باب کی شاندار پیشینگوئی ہیجانخیز مطلب رکھتی ہے۔ اسے بحالی کی پیشینگوئی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اسکی پہلی تکمیل اُس وقت ہوئی جب یہودی ۵۳۷ ق.س.ع. میں اپنے آبائی وطن کو واپس لوٹے تھے۔ اسرائیلی جو بابلؔ میں اسیر تھے اُنہیں اپنے آبائی وطن واپس جانے کی آزادی دے دی گئی۔ (عزرا ۱:۱-۱۱) تاہم، اِس کے واقع ہونے تک بابلؔ میں اسیر یہودیوں نے اس الہٰی پیشینگوئی پر غور کِیا ہوگا شاید یہ سوچتے ہوئے کہ وہ اپنے قومی آبائی مُلک یہوؔداہ میں کیسی حالتوں کا سامنا کریں گے۔ اور اُن کی اپنی حالت کیسی ہوگی؟ جوابات کا براہِراست اس بات سے تعلق ہے کہ ہمارے پاس کیوں واقعی شادمانی سے پکارنے کی وجہ ہے۔ آئیے دیکھیں۔
۸. بابلؔ سے واپسی پر یہودی کیسی حالتیں پائینگے؟ (مقابلہ کریں حزقیایل ۱۹:۳-۶؛ ہوسیع ۱۳:۸۔)
۸ یقینی طور پر یہودیوں کو اُس وقت بھی حالت اُمیدافزا دکھائی نہیں دی ہوگی جب اُنہوں نے سنا ہوگا کہ وہ اپنے آبائی وطن واپس جا سکتے ہیں۔ اُن کا وطن سات عشروں سے یعنی ایک طویل مدت سے اُجاڑ پڑا ہوا تھا۔ مُلک پر کیا بیتی ہوگی؟ زرخیز کھیت، تاکستان، یا پھلدار باغ بیابان بن گئے ہونگے۔ سرسبزوشاداب باغات یا رقبے بنجر علاقے یا صحرا کی صورت اختیار کر گئے ہونگے۔ (یسعیاہ ۲۴:۱، ۴؛ ۳۳:۹؛ حزقیایل ۶:۱۴) اُن جنگلی جانوروں کا بھی تصور کریں جو بکثرت ہونگے۔ ان میں شیرببر اور چیتے جیسے گوشتخور جانور بھی شامل ہونگے۔ (۱-سلاطین ۱۳:۲۴-۲۸؛ ۲-سلاطین ۱۷:۲۵، ۲۶؛ غزلالغزلات ۴:۸) اُن ریچھوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا جو مرد، عورت، یا بچے کو پھاڑ کھانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ (۱-سموئیل ۱۷:۳۴-۳۷؛ ۲-سلاطین ۲:۲۴؛ امثال ۱۷:۱۲) اور ہمیں اُفعی اور دیگر زہریلے سانپوں یا بچھوؤں کا ذکر کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ (پیدایش ۴۹:۱۷؛ استثنا ۳۲:۳۳؛ ایوب ۲۰:۱۶؛ زبور ۵۸:۴؛ ۱۴۰:۳؛ لوقا ۱۰:۱۹) اگر آپ ۵۳۷ ق.س.ع. میں بابلؔ سے واپس لوٹنے والے یہودیوں کے ساتھ ہوتے تو غالباً آپ ایسے علاقے میں چلنے پھرنے سے ہچکچاتے۔ جب وہ وہاں پہنچے تو یہ کوئی فردوس نہیں تھا۔
۹. کس بنیاد پر واپس لوٹنے والوں کے پاس اُمید اور بھروسے کی وجہ موجود تھی؟
۹ تاہم، یہوؔواہ خود اپنے پرستاروں کو واپس وطن پہنچانے کا سبب بنا، اور وہ بربادشُدہ حالت کو یکسر بدل ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کیا آپ خالق کی بابت یہ یقین نہیں رکھتے ہیں؟ (ایوب ۴۲:۲؛ یرمیاہ ۳۲:۱۷، ۲۱، ۲۷، ۳۷، ۴۱) لہٰذا واپس لوٹنے والے یہودیوں اور اُن کے وطن کے لئے—وہ کیا کریگا—اُس نے کیا کِیا تھا؟ دورِحاضر میں یہ خدا کے لوگوں پر اور آپ کی—موجودہ اور آئندہ حالت پر کیسے اثرانداز ہوگا؟ آئیے سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ ماضی میں اُسوقت کیا واقع ہوا تھا۔
تبدیلشُدہ حالت پر شادمان
۱۰. یسعیاہ ۳۵:۱، ۲ نے کس تبدیلی کی پیشگوئی کی تھی؟
۱۰ جب خوؔرس نے یہودیوں کو اُس دہشتناک مُلک میں واپس جانے کی اجازت دی تو کیا واقع ہوا ہوگا؟ یسعیاہ ۳۵:۱، ۲ کی اس ہیجانخیز پیشینگوئی کو پڑھیں: ”بیابان اور ویرانہ شادمان ہونگے اور دشت خوشی کریگا اور نرگس کی مانند شگفتہ ہوگا۔ اُس میں کثرت سے کلیاں نکلیں گی۔ وہ شادمانی سے گا کر خوشی کرے گا۔ لبناؔن کی شوکت اور کرؔمل اور شاؔرون کی زینت اُسے دی جائے گی۔ وہ خداوند کا جلال اور ہمارے خدا کی حشمت دیکھینگے۔“
۱۱. مُلک کی بابت کن معلومات پر یسعیاؔہ نے لکھا تھا؟
۱۱ بائبل وقتوں میں، لبناؔن، کرؔمل اور شاؔرون اپنی شاداب خوبصورتی کیلئے مشہور تھے۔ (۱-تواریخ ۵:۱۶؛ ۲۷:۲۹؛ ۲-تواریخ ۲۶:۱۰؛ غزلالغزلات ۲:۱؛ ۴:۱۵؛ ہوسیع ۱۴:۵-۷) تبدیلشُدہ مُلک جس طرح کا ہوگا اُسے بیان کرنے کے لئے یسعیاؔہ نے ان مثالوں کو استعمال کِیا۔ لیکن کیا یہ اثر محض زمین پر ہی ہونا تھا؟ ہرگز نہیں!
۱۲. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ یسعیاہ ۳۵ باب کی پیشینگوئی لوگوں پر مرکوز ہے؟
۱۲ یسعیاہ ۳۵:۲ مُلک کی بابت بیان کرتا ہے کہ وہ ”شادمانی سے گا کر خوشی کرے گا۔“ ہم جانتے ہیں کہ زمین اور نباتات حقیقت میں ”شادمانی سے گا“ نہیں رہے تھے۔ تاہم، زرخیز اور بارور ہونے کے لئے اُن کی تبدیلی لوگوں کے لئے ایسا محسوس کرنے کا سبب بن سکتی تھی۔ (احبار ۲۳:۳۷-۴۰؛ استثنا ۱۶:۱۵؛ زبور ۱۲۶:۵، ۶؛ یسعیاہ ۱۶:۱۰؛ یرمیاہ ۲۵:۳۰؛ ۴۸:۳۳) خود مُلک میں حقیقی تبدیلیاں دراصل لوگوں میں تبدیلیوں کی مطابقت میں ہونگی کیونکہ لوگ ہی اس پیشینگوئی کا مرکز ہیں۔ لہٰذا، ہمارے پاس واپس لوٹنے والے یہودیوں میں تبدیلیوں، بالخصوص اُن کی شادمانی پر مرکوز یسعیاؔہ کے الفاظ کو سمجھنے کی وجہ ہے۔
۱۳، ۱۴. یسعیاہ ۳۵:۳، ۴ نے لوگوں میں کس تبدیلی کی پیشگوئی کی تھی؟
۱۳ اس لئے، یہ دیکھنے کے لئے کہ کیسے یہودیوں کی آزادی اور بابلؔ سے واپسی کے بعد یہ پایۂتکمیل کو پہنچی، آیئے ہم اس ہیجانخیز پیشینگوئی کا مزید جائزہ لیں۔ ۳ اور ۴ آیات میں، یسعیاؔہ اُن واپس لوٹنے والوں میں دیگر تبدیلیوں کی بابت بیان کرتا ہے: ”کمزور ہاتھوں کو زور اور ناتوان گھٹنوں کو توانائی دو۔ اُنکو جو کچدِلے ہیں کہو ہمت باندھو مت ڈرو۔ دیکھو تمہارا خدا سزا اور جزا لئے آتا ہے۔ ہاں خدا ہی آئے گا اور تُم کو بچائے گا۔“
۱۴ کیا یہ سوچنا تقویتبخش نہیں ہے کہ ہمارا خدا جو زمین کی شکستہ حالت کو بدل سکتا ہے، اپنے پرستاروں میں اتنی زیادہ دلچسپی رکھتا ہے؟ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسیر یہودی مستقبل کی بابت کمزور، بےحوصلہ یا پریشان محسوس کریں۔ (عبرانیوں ۱۲:۱۲) اُن اسیر یہودیوں کی حالت کی بابت سوچیں۔ اُس اُمید کے بغیر جو وہ مستقبل کی بابت خدا کی پیشینگوئیوں سے حاصل کر سکتے تھے، اُن کے لئے پُراُمید ہونا بہت مشکل رہا ہوگا۔ گویا ایسے تھا کہ وہ ایک کال کوٹھڑی میں چلنے پھرنے اور یہوؔواہ کی خدمت میں سرگرم ہونے کے لئے آزاد نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے اُنہیں ایسا محسوس ہوا ہو کہ گویا سامنے روشنی کی کوئی کرن نہیں تھی۔—مقابلہ کریں استثنا ۲۸:۲۹؛ یسعیاہ ۵۹:۱۰۔
۱۵، ۱۶. (ا) جوکچھ یہوؔواہ نے واپس لوٹنے والوں کے لئے کِیا ہم اُس سے کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟ (ب) واپس لوٹنے والوں نے معجزانہ طور پر جسمانی شفاؤں کی توقع کیوں نہیں کی ہوگی، لیکن یسعیاہ ۳۵:۵، ۶ کی مطابقت میں خدا نے کیا کِیا؟
۱۵ تاہم، جب یہوؔواہ نے اُنہیں گھر واپس لوٹنے کے لئے خوؔرس سے آزادی دلوائی تو حالت کسطرح بدل گئی! اس بات کا کوئی بائبلی ثبوت نہیں ہے کہ خدا نے وہاں معجزانہ طور پر واپس لوٹنے والے یہودیوں میں سے کسی کی اندھی آنکھوں کو وا کِیا، کسی کے بہرے کانوں کو قوتِ سماعت عطا کی، یا کسی اپاہج یا ہاتھ پیر سے محروم کو شفا دی۔ تاہم، اُس نے اس سے بھی بڑھکر شاندار کام کِیا۔ اُس نے اُنہیں اُن کے عزیز وطن کے نور اور آزادی میں بحال کِیا۔
۱۶ اس کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ واپس لوٹنے والوں نے یہوؔواہ سے ایسی معجزانہ جسمانی شفائیں دینے کی توقع کی تھی۔ اُنہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ خدا نے اضحاؔق، سمسوؔن، یا عیلیؔ کے لئے بھی ایسا نہیں کِیا تھا۔ (پیدایش ۲۷:۱؛ قضاۃ ۱۶:۲۱، ۲۶-۳۰؛ ۱-سموئیل ۳:۲-۸؛ ۴:۱۵) لیکن اگر وہ علامتی طور پر اپنی حالت کی الہٰی تبدیلی کی توقع کر رہے تھے تو اُنہیں مایوس نہیں کِیا گیا تھا۔ علامتی مفہوم میں، ۵ اور ۶ آیات نے بیشک حقیقی تکمیل پائی تھی۔ یسعیاؔہ نے دُرست طور پر پیشینگوئی کی: ”اُس وقت اندھوں کی آنکھیں وا کی جائینگی اور بہروں کے کان کھولے جائینگے۔ تب لنگڑے ہرن کی مانند چوکڑیاں بھرینگے اور گونگے کی زبان گائیگی۔“
مُلک کو فردوس کی مانند بنانا
۱۷. یہوؔواہ بظاہر کونسی جسمانی تبدیلیاں لایا؟
۱۷ یقینی طور پر واپس لوٹنے والوں کے پاس ایسی حالتوں کے لئے شادمانی سے پکارنے کی وجہ تھی جیسےکہ یسعیاؔہ بیان کرتا ہے: ”کیونکہ بیابان میں پانی اور دشت میں ندیاں پھوٹ نکلیں گی۔ بلکہ سراب تالاب ہو جائیگا اور پیاسی زمین چشمہ بن جائیگی۔ گیدڑوں کی ماندوں میں جہاں وہ پڑے تھے نَے اور نل کا ٹھکانا ہوگا۔“ (یسعیاہ ۳۵:۶ب، ۷) اگرچہ آج ہم اُس سارے علاقے میں ایسی حالت نہیں دیکھ سکتے، شہادت ظاہر کرتی ہے کہ یہوؔداہ کا علاقہ کبھی ”راعیانہ فردوس“ تھا۔a
۱۸. واپس لوٹنے والے یہودیوں نے خدا کی برکات کے لئے غالباً کیسا ردِعمل دکھایا ہوگا؟
۱۸ جہانتک شادمانی کی وجوہات کا تعلق ہے، ذرا سوچیں کہ یہودیوں کے بقیہ نے موعودہ مُلک میں واپس لوٹتے وقت کیسا محسوس کِیا ہوگا! وہ گیدڑ اور دیگر جنگلی جانوروں سے آبادشُدہ ویران مُلک کو حاصل کرنے اور اُسے بدل دینے کی حالت میں تھے۔ کیا آپ نے بحالی کا ایسا کام کرنے میں شادمانی حاصل نہ کی ہوتی، بالخصوص اگر آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ خدا آپ کی کوششوں کو برکت دے رہا ہے؟
۱۹. کس مفہوم میں بابلی اسیری سے واپسی مشروط تھی؟
۱۹ تاہم، ایسا نہیں تھا کہ بابلؔ میں اسیر ہر ایک یہودی تبدیلی کے اس شادمان کام میں شریک ہونے کے لئے واپس آ سکتا تھا یا آیا تھا۔ خدا نے شرائط عائد کیں۔ بابلی مُلحدانہ مذہبی رسومات سے نجس کسی شخص کو واپس آنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ (دانیایل ۵:۱، ۴، ۲۲، ۲۳؛ یسعیاہ ۵۲:۱۱) نہ ہی کوئی ایسا شخص واپس آ سکتا تھا جس نے حماقت سے غیردانشمندانہ روش اختیار کر رکھی تھی۔ ایسے تمام اشخاص کو نااہل قرار دے دِیا گیا تھا۔ دوسری جانب، وہ جو خدا کے معیاروں پر پورے اُترے، جنہیں اُس نے نسبتی مفہوم میں پاکصاف خیال کِیا، واپس یہوؔداہ جا سکتے تھے۔ وہ گویا مُقدس راہ میں سے گزر کر جا سکتے تھے۔ یسعیاؔہ نے ۸ آیت میں اسے واضح کِیا: ”وہاں ایک شاہراہ اور گزرگاہ ہوگی جو مُقدس راہ کہلائیگی جس سے کوئی ناپاک گزر نہ کریگا۔ لیکن یہ مسافروں کے لئے ہوگی۔ احمق بھی اُس میں گمراہ نہ ہونگے۔“
۲۰. جب وہ واپس لوٹتے ہیں تو یہودیوں کو کس چیز سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی، کس نتیجے کے ساتھ؟
۲۰ واپس لوٹنے والے یہودیوں کو حیوانخصلت انسانوں یا لٹیروں کے گروہوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیوں؟ اِس لئے کہ یہوؔواہ اُس راہ پر ازسرِنو خریدے ہوئے اپنے لوگوں کے ساتھ ایسا واقع ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ لہٰذا وہ پُراُمید طور پر مسرور اور خوشآئند امکانات کے ساتھ سفر کر سکتے تھے۔ غور کریں کہ اس پیشینگوئی کا اختتام کرتے وقت یسعیاؔہ اسے کیسے بیان کرتا ہے: ”وہاں شیرببر نہ ہوگا اور نہ کوئی درندہ اُس پر چڑھیگا نہ وہاں پایا جائیگا۔ لیکن جنکا فدیہ دیا گیا وہاں سیر کرینگے۔ اور جنکو خداوند نے مخلصی بخشی لوٹیں گے اور صیوؔن میں گاتے ہوئے آئیں گے اور ابدی سرور اُن کے سروں پر ہوگا۔ وہ خوشی اور شادمانی حاصل کریں گے اور غمواندوہ کافور ہو جائیں گے۔“—یسعیاہ ۳۵:۹، ۱۰۔
۲۱. ہمیں آجکل یسعیاہ ۳۵ باب کی اُس تکمیل کو کیسا خیال کرنا چاہئے جو پہلے ہی وقوعپذیر ہو چکی ہے؟
۲۱ یہاں ہمیں کتنا خوبصورت نبوّتی منظر دکھائی دیتا ہے! تاہم، ہمیں اسے محض ماضی کی تاریخ ہی خیال نہیں کرنا چاہئے، گویا کہ کوئی انوکھا بیان ہو جسکا ہماری حالت یا ہمارے مستقبل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس پیشینگوئی کو آجکل خدا کے لوگوں کے درمیان حیرانکُن تکمیل حاصل ہے، لہٰذا یہ ہم میں سے ہر ایک پر اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ ہمیں شادمانی سے پکارنے کی قابلِاعتماد وجہ فراہم کرتی ہے۔ اب اور مستقبل میں آپ کی زندگی سے متعلق ان پہلوؤں پر اگلے مضمون میں بحث کی گئی ہے۔
[فٹنوٹ]
a یو.این. فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی نمائندگی کرنے والے ایگرونومسٹ (زمین اور فصل کی دیکھبھال کے ماہر) والٹرؔ سی. لاڈرملک نے علاقے کے اپنے مطالعے سے نتیجہ اخذ کِیا: ”یہ مُلک کبھی راعیانہ فردوس تھا۔“ اُس نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ”رومی زمانے سے لیکر،“ آبوہوا میں کوئی نمایاں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور ’ریگستان‘ جس نے کبھی سرسبزوشاداب مُلک کی جگہ لے لی تھی وہ قدرت کا نہیں بلکہ انسان کا کام تھا۔“ (۸ ۰۲/۱۵ w۹۶)
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ یسعیاہ ۳۵ باب کی پہلی تکمیل کب ہوئی؟
▫ پیشینگوئی کی ابتدائی تکمیل کا کیا انجام ہوا؟
▫ یہوؔواہ نے یسعیاہ ۳۵:۵، ۶ کی تکمیل کیسے کی؟
▫ واپس لوٹنے والے یہودیوں نے مُلک اور اپنی حالت کی بابت کن تبدیلیوں کا تجربہ کِیا؟
[تصویر]
اُس علاقے میں پاترؔہ کے کھنڈرات جہاں کبھی ادومی رہتے تھے
[تصویر کا حوالہ]
Garo Nalbandian
[تصویریں]
جب یہودی اسیری میں تھے تو یہوؔداہ ریچھوں اور شیرببر جیسے خونخوار جانوروں کی کثرت کے باعث بڑی حد تک دشت کی مانند بن گیا تھا
[تصویروں کے حوالہجات]
Garo Nalbandian
ریچھ اور شیرببر: Safari-Zoo of Ramat-Gan, Tel Aviv