یہوواہ کثرت سے معاف کرتا ہے
”شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو اور وہ خداوند کی طرف پھرے ... کیونکہ وہ کثرت سے معاف کریگا۔“—یسعیاہ ۵۵:۷۔
۱. یہوواہ سے معافی پانے والوں کو اب کونسی برکات سے نوازا گیا ہے؟
یہوواہ تائب خطاکاروں کو معاف کرتا ہے اور اب انہیں ایک روحانی فردوس میں ذہنی اطمینان سے لطفاندوز ہونے کے قابل بناتا ہے۔ یہ اسلئے ہے کیونکہ وہ ان تقاضوں پر پورا اترتے ہیں: ”جب تک خداوند مل سکتا ہے اسکے طالب ہو۔ جب تک وہ نزدیک ہے اسے پکارو۔ شریر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو اور وہ خداوند کی طرف پھرے اور وہ اس پر رحم کریگا اور ہمارے خدا کی طرف کیونکہ وہ کثرت سے معاف کریگا۔“—یسعیاہ ۵۵:۶، ۷۔
۲. (ا)جیسے کہ یسعیاہ ۵۵:۶، ۷ میں بیان کیا گیا ہے ”یہوواہ کے طالب ہونے“ اور ”اسکی طرف پھرنے“ سے، کیا مراد ہے؟ (ب) بابل میں یہودی جلاوطنوں کو کیوں یہوواہ کی طرف پھرنے کی ضرورت تھی اور ان میں سے بعض کیساتھ کیا واقع ہوا؟
۲ ”یہوواہ کے طالب“ ہونے اور قبولیت کیساتھ اس کو پکارنے کیلئے ایک شریر کو اپنی غلط راہ اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والے کسی بھی خیال کو ترک کرنا ہے۔ ”یہوواہ کیطرف پھرنے“ کی ضرورت یہ ظاہر کرتی ہے کہ خطاکار خدا کو چھوڑ چکا ہے جس کیساتھ وہ کبھی ایک قریبی رشتہ رکھتا تھا۔ یہوداہ کے باشندوں کا بھی یہی معاملہ تھا جنکی خدا کیساتھ بیوفائی بالآخر بابل میں جلاوطنی کا باعث بنی۔ یہودی جلاوطنوں کو غلط کاری سے توبہ کرتے ہوئے یہوواہ کی طرف پھرنے کی ضرورت تھی جو انکی بابلی غلامی اور پیشتر سے بتا دی گئی انکے آبائی وطن کی ۷۰سالہ ویرانی پر منتج ہوئی تھی۔ ۵۳۷ ق۔س۔ع۔ میں، وہ ملک حکومتی فرمان کی بدولت بابل سے رہائی پانے والے یہودیوں کے ایک خداترس بقیہ سے پھر آباد ہوا۔ (عزرا ۱:۱-۸، دانیایل ۹:۱-۴) اس بحالی کے اثرات اس قدر شاندار تھے کہ یہوداہ کے ملک کو عدنی فردوس کی مانند کہا گیا۔—حزقیایل ۳۶:۳۳-۳۶۔
۳. یہوداہ میں واپس آنے والے خداترس جلاوطنوں کی مانند روحانی اسرائیل کے بقیہ کو کیا تجربہ ہوا ہے؟
۳ روحانی اسرائیل کے بقیہ کو بھی ان خداترس یہودیوں کا سا تجربہ ہوا تھا جو بابلی جلاوطنی کے بعد یہوداہ کو واپس لوٹے۔ (گلتیوں ۶:۱۶) پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد روحانی اسرائیل کے بقیے نے اپنی راہ اور خیالوں میں کچھ تبدیلی کی۔ ۱۹۱۹ کے سال نے بڑے بابل، جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت، کے قلمرو میں خدا کی کامل مقبولیت سے انکی جلاوطنی کے خاتمہ کی نشاندہی کی۔ چونکہ انہوں نے انسان کے خوف اور خدا کی خدمت میں بےعملی والے گناہوں سے توبہ کر لی، اسلئے اس نے انہیں بڑے بابل سے آزاد کرایا، انہیں انکی درست روحانی حالت میں لایا اور انہیں پھر سے بادشاہتی پیغام کی منادی کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت سے لیکر اس کے پاک نام کے جلال کیلئے روحانی فردوس نے خدا کے لوگوں میں خوب ترقی کی ہے۔ (یسعیاہ ۵۵:۸-۱۳) تو پھر قدیم زمانے کے نمونے اور جدید زمانے کی اس کی تکمیل سے ہمارے پاس اس کی واضح شہادت ہے کہ الہٰی برکات معافی کا نتیجہ ہیں اور یہ کہ بلاشُبہ یہوواہ تائب لوگوں کو کثرت سے معاف کرتا ہے۔
۴. یہوواہ کے بعض خادموں پر کیا خوف طاری ہے؟
۴ اسلئے یہوواہ کے جدید زمانے کے خادم اس کی معافی پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ تو بھی، ان میں سے بعض ماضی کی غلطیوں کی وجہ سے دلشکستہ ہیں اور گناہ کے احساسات انہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو روحانی فردوس میں رہنے کے قابل نہیں سمجھتے۔ درحقیقت، بعض کو یہ خوف ہے کہ انہوں نے ناقابلمعافی گناہ کیا ہے اور یہوواہ انہیں کبھی معاف نہیں کریگا۔ کیا یہ اغلب ہے؟
بعض گناہ ناقابلمعافی
۵. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ بعض گناہ ناقابلمعافی ہیں؟
۵ بعض گناہ ناقابلمعافی ہوتے ہیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”آدمیوں کا ہر گناہ اور کفر تو معاف کیا جائیگا مگر جو کفر روح کے حق میں ہو وہ معاف نہ کیا جائیگا۔“ (متی ۱۲:۳۱) پس، تو پھر خدا کی پاک روح، یا سرگرم قوت کے خلاف کفر معاف نہیں کیا جائیگا۔ رسول پولس نے اسی قسم کے گناہ کا حوالہ دیا جب اس نے لکھا: ”کیونکہ جن لوگوں کے دل ایک بار روشن ہوگئے ... اگر وہ برگشتہ ہو جائیں تو انہیں توبہ کیلئے پھر نیا بنانا ناممکن ہے اسلئے کہ وہ خدا کے بیٹے کو اپنی طرف سے دوبارہ مصلوب کرکے علانیہ ذلیل کرتے ہیں۔“—عبرانیوں ۶:۴-۶۔
۶. کیا چیز اس بات کا تعیّن کرتی ہے کہ آیا ایک گناہ قابلمعافی ہے یا نہیں؟
۶ صرف خدا ہی یہ جانتا ہے کہ آیا کسی شخص نے ناقابلمعافی گناہ کیا ہے۔ تاہم، پولس نے اس معاملے پر روشنی ڈالی جب اس نے لکھا: ”کیونکہ حق کی پہچان حاصل کرنے کے بعد اگر ہم جانبوجھ کر گناہ کریں تو گناہوں کی کوئی اور قربانی باقی نہیں رہی۔ ہاں عدالت کا ایک ہولناک انتظار ... باقی ہے۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۶، ۲۷) ایک خودسر شخص جانبوجھ کر کام کرتا ہے، یا وہ ”ہٹدھرم اور اکثر بےراہرو خودسر“ ہوتا ہے۔ (ویبسٹرز نیو کالیجیٹ ڈکشنری) کوئی بھی شخص جو سچائی کو جاننے کے بعد بھی خودسری اور ضد سے گناہ کرتا رہتا ہے اس کو معاف نہیں کیا جاتا۔ پس، خاص بات بذاتخود گناہ نہیں کیونکہ یہ دل کی حالت ہے، جس میں کسی حد تک خودسری شامل ہوتی ہے جو اس کا تعیّن کرتی ہے کہ آیا گناہ قابلمعافی ہے یا نہیں۔ دوسری طرف، اس وقت حالت کیا ہوتی ہے جب ایک خطاکار مسیحی اپنی غلطکاری کی بابت بہت زیادہ پریشان ہوتا ہے؟ اس کی حد سے زیادہ فکرمندی ہی غالباً اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس نے درحقیقت ناقابلمعافی گناہ نہیں کیا ہے۔
انکے گناہ ناقابلمعافی تھے
۷. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع کے بعض مذہبی مخالفوں نے ناقابلمعافی گناہ کیا؟
۷ بعض یہودی راہنما جنہوں نے یسوع کی مخالفت کی، وہ قصداً اور یوں ناقابلمعافی گناہ کے مرتکب ہوئے۔ جب ان مذہبی راہنماؤں نے یسوع کے نیک کاموں اور معجزوں کو دیکھا تو اگرچہ انہوں نے یسوع کے وسیلے سے خدا کی پاک روح کو سرگرمعمل دیکھا تو بھی انہوں نے اس کو بعلزبول کی طاقت، یا شیطان یعنی ابلیس سے منسوب کیا۔ انہوں نے جانبوجھ کر خدا کی روح کے ناقابلانکار عمل کی بابت گناہ کیا۔ پس، انہوں نے ناقابلمعافی گناہ کیا، کیونکہ یسوع نے کہا: ”مگر جو کوئی روحالقدس کے برخلاف کوئی بات کہیگا وہ اسے معاف نہ کی جائیگی نہ اس عالم میں نہ آنے والے میں۔“—متی ۱۲:۲۲-۳۲۔
۸. یہوداہ اسکریوتی کا گناہ کیوں ناقابلمعافی تھا؟
۸ یہوداہ اسکریوتی کا گناہ بھی ناقابلمعافی تھا۔ اسکا یسوع کو پکڑوانا قصداً تھا ریاکاری اور بددیانتی کی روش کی دانستہ انتہا۔ مثال کے طور پر، جب یہوداہ نے مریم کو ایک قیمتی عطر یسوع کو لگاتے دیکھا تو وہ کہنے لگا: ”یہ عطر تین سو دینار میں بیچ کر غریبوں کو کیوں نہ دیا گیا؟“ رسول یوحنا مزید اضافہ کرتا ہے: ”[یہوداہ] نے یہ اسلئے نہ کہا کہ اسکو غریبوں کی فکر تھی بلکہ اسلئے کہ چور تھا اور چونکہ اسکے پاس انکی تھیلی رہتی تھی اس میں جو کچھ پڑتا وہ نکال لیتا تھا۔“ اس کے کچھ ہی دیر بعد، یہوداہ نے چاندی کے ۳۰ سکوں کے عوض یسوع کو پکڑوا دیا۔ (یوحنا ۱۲:۱-۶، متی ۲۶:۶-۱۶) سچ ہے کہ یہوداہ پشیمان ہوا اور خودکشی کر لی۔ (متی ۲۷:۱-۵) لیکن اسے معاف نہ کیا گیا کیونکہ اسکی سوچیسمجھی، مسلسل خودغرضانہ روش اور اسکے دغابازی کے فعل نے روحالقدس کیخلاف گناہ کی عکاسی کی۔ یسوع کا یہوداہ کو ”ہلاکت کا فرزند“ کہنا کتنا موزوں تھا!—یوحنا ۱۷:۱۲، مرقس ۳:۲۹، ۱۴:۲۱۔
انکے گناہ معاف کر دئے گئے
۹. خدا نے بتسبع کے سلسلے میں داؤد کے گناہوں کو کیوں بخش دیا؟
۹ قصداً گناہ ان غلطیوں کے بالکل برعکس نظر آتے ہیں جنہیں خدا معاف کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل کے بادشاہ داؤد کو لے لیں۔ اس نے اوریاہ کی بیوی، بتسبع کیساتھ زناکاری کی اور بعد میں یوآب کے ذریعے جنگ میں اوریاہ کو مروا دیا۔ (۲-سموئیل ۱۱:۱-۲۷) خدا نے داؤد پر کیوں رحم کیا؟ اولین طور پر تو بادشاہتی عہد کی وجہ سے لیکن داؤد کی اپنی رحم دلی اور اسکی حقیقی توبہ کی وجہ سے بھی۔—۱-سموئیل ۲۴:۴-۷، ۲-سموئیل ۷:۱۲، ۱۲:۱۳۔
۱۰. اگرچہ پطرس نے سنگین گناہ کیا تو بھی خدا نے کیوں اسے معاف کر دیا؟
۱۰ رسول پطرس پر بھی غور کریں۔ اس نے بار بار یسوع کا انکار کرنے سے سنگین گناہ کیا۔ خدا نے پطرس کو کیوں معاف کر دیا؟ یہوداہ اسکریوتی کے برعکس، پطرس خدا اور مسیح کی خدمت میں دیانتدار رہا تھا۔ رسول کا یہ گناہ جسمانی کمزوری کے سبب سے تھا اور وہ حقیقت میں تائب تھا اور ”زار زار رویا۔“—متی ۲۶:۶۹-۷۵۔
۱۱. آپ ”توبہ“ کی تشریح کیسے کرینگے اور اگر ایک شخص حقیقی طور پر تائب ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟
۱۱ مذکورہبالا مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ شخص بھی جو سنگین گناہ کرتا ہے یہوواہ خدا سے معافی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن معافی حاصل کرنے کے سلسلے میں کس قسم کے رویے کا تقاضا کیا جاتا ہے؟ اگر ایک خطاکار مسیحی کو خدا سے معافی حاصل کرنی ہے تو اس کیلئے سچی توبہ نہایت اہم ہے۔ توبہ کرنے کا مطلب ہے ”ماضی کی غلطکاریوں پر پشیمانی کے باعث گناہ سے باز آنا“ یا ایک شخص نے جو کچھ کیا یا کرنے کی کوشش کی اس کی خاطر پچھتاوا یا ندامت محسوس کرنا۔“ (ویبسٹرز تھرڈ نیو انٹرنیشنل ڈکشنری) ایک حقیقی توبہ کرنے والا شخص کسی بھی، رسوائی، شرمندگی یا مشکلات پر پشیمانی ظاہر کرے گا جو اس کا گناہ یہوواہ کے نام اور اسکی تنظیم پر لایا ہے۔ توبہ کے موافق کام کرنے سے تائب خطاکار اسکے مطابق پھل بھی پیدا کریگا۔ (متی ۳:۸، اعمال ۲۶:۲۰) مثلاً اگر اس نے کسی کو دھوکا دیا ہے تو وہ نقصان کو پورا کرنے کیلئے مناسب اقدام اٹھائیگا۔ (لوقا ۱۹:۸) ایسے تائب مسیحی کے پاس پر اعتماد ہونے کیلئے جائز صحیفائی وجوہات ہیں کہ یہوواہ کثرت سے معاف کریگا۔ یہ کیا ہیں؟
خدا کی معافی پر بھروسے کی وجوہات
۱۲. کس چیز کی بنا پر زبور ۲۵:۱۱ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک تائب شخص معافی کیلئے دعا کر سکتا ہے؟
۱۲ ایک تائب خطاکار یہوواہ کے نام کی بنا پر معافی کیلئے بھروسے کیساتھ دعا کر سکتا ہے۔ داؤد نے التجا کی: ”اے خداوند! اپنے نام کی خاطر میری بدکاری معاف کر دے کیونکہ وہ بڑی ہے۔“ (زبور ۲۵:۱۱) ایسی دعا کو، خطاکار کی طرف سے خدا کے نام پر لائی ہوئی کسی بھی رسوائی کے لئے توبہ کے ساتھ مل کر، مستقبل میں سنگین گناہ سے باز رکھنے کا کام دینا چاہئے۔
۱۳. الہٰی معافی کے سلسلے میں دعا کیا کردار ادا کرتی ہے؟
۱۳ یہوواہ خدا اپنے خطاکار لیکن تائب خادموں کی دلی دعاؤں کے جواب دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہوواہ نے داؤد کو عمداً نظرانداز نہیں کیا جس نے بتسبع کیساتھ اپنے گناہوں کے شرعظیم کو پہچان لینے کے بعد دل سے دعا کی۔ زبور ۵۱ میں داؤد کے الفاظ درحقیقت بہت سے ملتجیوں کے جذبات کا اظہار ہیں۔ اس نے منت کی: ”اے خدا! اپنی شفقت کے مطابق مجھ پر رحم کر۔ اپنی رحمت کی کثرت کے مطابق میری خطائیں مٹا دے۔ میری بدی کو مجھ سے دھو ڈال اور میرے گناہ سے مجھے پاک کر۔ شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اے خدا تو شکستہ اور خستہدل کو حقیر نہ جانیگا۔“—زبور ۵۱:۱، ۲، ۱۷۔
۱۴. صحائف کیسے اس بات کی یقیندہانی فراہم کرتے ہیں کہ خدا یسوع کی فدیے کی قربانی پر ایمان لانے والوں کو معاف کرتا ہے؟
۱۴ یسوع کی فدیے کی قربانی پر ایمان کا اظہار کرنے والوں کو خدا معاف کرتا ہے۔ پولس نے لکھا: ”ہم کو اس میں اسکے خون کے وسیلے سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی ... حاصل ہے۔“ (افسیوں ۱:۷) اسی مفہوم کیساتھ رسول یوحنا نے تحریر کیا: ”اے میرے بچو! یہ باتیں میں تمہیں اسلئے لکھتا ہوں کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع مسیح راستباز۔ اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دنیا کے گناہوں کا بھی۔“—۱-یوحنا ۲:۱، ۲۔
۱۵. خدا کے رحم سے لطفاندوز ہوتے رہنے کیلئے ایک تائب گنہگار کو کیا کرنا چاہیے؟
۱۵ یہوواہ کا رحم ایک تائب خطاکار کو اس اعتماد کی بنیاد فراہم کرتا ہے کہ اسے معاف کیا جا سکتا ہے۔ نحمیاہ نے کہا: ”تو وہ خدا ہے جو رحیموکریم معاف کرنے کو تیار اور قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے۔“ (نحمیاہ ۹:۱۷، مقابلہ کریں خروج ۳۴:۶، ۷۔) بلاشُبہ، الہٰی رحم سے لطفاندوز ہوتے رہنے کیلئے گنہگار کو خدا کے قوانین کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جیسے کہ زبور نویس نے کہا: ”تیری رحمت مجھے نصیب ہو تاکہ میں زندہ رہوں۔ کیونکہ تیری شریعت میری خوشنودی ہے۔ اے خداوند! تیری رحمت بڑی ہے۔ اپنے احکام کے مطابق مجھے زندہ کر۔“—زبور ۱۱۹:۷۷، ۱۵۶۔
۱۶. اس حقیقت میں کیا تسلی موجود ہے کہ یہوواہ ہماری گنہگارانہ حالت کا لحاظ رکھتا ہے؟
۱۶ یہ حقیقت بھی کہ یہوواہ ہماری گنہگارانہ حالت کا لحاظ رکھتا ہے ایک تائب خطاکار کو اس اعتماد کیساتھ دعا کرنے کیلئے تسلی اور وجہ فراہم کرتی ہے کہ خدا اسے معاف کردیگا۔ (زبور ۵۱:۵، رومیوں ۵:۱۲) زبورنویس داؤد نے تسلیبخش یقیندہانی کرائی جب اس نے کہا: ”اس [یہوواہ خدا] نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا۔ کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر اس کی شفقت ان پر ہے جو اس سے ڈرتے ہیں۔ جیسے پورب پچھّم سے دور ہے ویسے ہی اس نے ہماری خطائیں ہم سے دور کر دیں جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی خداوند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ترس کھاتا ہے۔ کیونکہ وہ ہماری سرشت سے واقف ہے۔ اسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“ (زبور ۱۰۳:۱۰-۱۴) جیہاں، ہمارا آسمانی باپ کسی بھی انسانی باپ یا ماں سے کہیں زیادہ رحیم اور ترس کھانے والا ہے۔
۱۷. ماضی میں خدا کیلئے کسی کی وفادارانہ خدمت کا ریکارڈ معافی کیساتھ کیا تعلق رکھتا ہے؟
۱۷ ایک تائب گنہگار اس اعتماد کیساتھ معافی کیلئے دعا کر سکتا ہے کہ یہوواہ اس کے ماضی کے وفادارانہ خدمتی ریکارڈ کو ہرگز نظرانداز نہیں کریگا۔ نحمیاہ اپنے گناہ کی معافی کیلئے التجا نہیں کر رہا تھا، لیکن اس نے یہ ضرور کہا: ”اے میرے خدا بھلائی کیلئے مجھے یاد کر۔“ (نحمیاہ ۱۳:۳۱) ایک تائب مسیحی ان الفاظ سے تسلی پا سکتا ہے: ”خدا بےانصاف نہیں جو تمہارے کام اور اس محبت کو بھول جائے جو تم نے اس کے نام کے واسطے ... ظاہر کی۔“—عبرانیوں ۶:۱۰۔
بزرگوں کی طرف سے مدد
۱۸. اس وقت کیا کیا جانا چاہیے اگر ایک مسیحی کے گناہ نے اسے روحانی طور پر بیمار کر دیا ہے؟
۱۸ اس وقت کیا ہو اگر ایک مسیحی خود کو روحانی فردوس میں رہنے کے لائق نہیں سمجھتا یا دعا کرنے کے قابل نہیں ہے کیونکہ اس کے گناہ نے اسے روحانی طور پر بیمار کر دیا ہے؟ ”تو [وہ] کلیسیا کے بزرگوں کو بلائے اور وہ خداوند کے نام سے اس کو تیل مل کر اسکے لئے دعا کریں،“ شاگرد یعقوب نے لکھا۔ ”جو دعا ایمان کیساتھ ہوگی اسکے باعث بیمار بچ جائیگا اور خداوند اسے اٹھا کھڑا کریگا اور اگر اس نے گناہ کئے ہوں تو انکی بھی معافی ہو جائیگی۔“ جیہاں، کلیسیائی بزرگ مؤثر طور پر ایک تائب ساتھی ایماندار کے ساتھ مل کر اور اس کے لئے اسے پھر سے اچھی روحانی صحت میں بحال کر دینے کی امید کے ساتھ دعا کر سکتے ہیں۔—یعقوب ۵:۱۴-۱۶۔
۱۹. اگر ایک شخص کو خارج کر دیا گیا ہے تو معافی حاصل کرنے اور بحال کئے جانے کیلئے اسے کیا کرنا چاہیے؟
۱۹ اگرچہ عدالتی کمیٹی ایک غیرتائب گنہگار کو خارج بھی کر دے تو بھی ضروری نہیں کہ اس نے ناقابلمعافی گناہ کیا ہے۔ تاہم، معاف کئے جانے اور بحال ہونے کے لئے، اسے ضرور فروتنی سے خدا کے قوانین کی فرمانبرداری کرنی چاہئے توبہ کے موافق پھل لانے چاہیں، اور بحال ہونے کے لئے بزرگوں سے درخواست کرنی چاہئے۔ قدیم کرنتھس کی کلیسیا میں سے ایک حرامکار کے خارج کر دئے جانے کے بعد، پولس نے لکھا: ”یہی سزا جو اس نے اکثروں کی طرف سے پائی ایسے شخص کے واسطے کافی ہے۔ پس، برعکس اسکے یہی بہتر ہے کہ اسکا قصور معاف کرو اور تسلی دو تاکہ وہ غم کی کثرت سے تباہ نہ ہو۔ اسلئے میں تم سے التماس کرتا ہوں کہ اسکے بارے میں محبت کا فتوی دو۔“—۲-کرنتھیوں ۲:۶-۸، ۱-کرنتھیوں ۵:۱-۱۳۔
خدا طاقت بخشتا ہے
۲۰، ۲۱. پریشانی کا تجربہ کرنے والے اس شخص کو شاید کیا چیز مدد دیگی جس نے تقریباً ممکنہ طور پر ناقابلمعافی گناہ کیا ہے؟
۲۰ اگر خراب صحت یا دباؤ جیسے عناصر اس پریشانی کا باعث ہیں کہ آپ نے ناقابلمعافی گناہ کیا ہے تو مناسب آرام اور نیند شاید مددگار ثابت ہو۔ تاہم، خاص طور پر آپ کو پطرس کے یہ الفاظ یاد رکھنے چاہیں: ”اپنی ساری فکر [خدا] پر ڈال دو کیونکہ اس کو تمہاری فکر ہے۔“ اور شیطان کو بھی بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ آپکو بےحوصلہ کرے کیونکہ پطرس نے اضافہ کیا: ”تم ہوشیار اور بیدار رہو۔ تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔ تم ایمان میں مضبوط ہو کر اور یہ جان کر اسکا مقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دنیا میں ہیں ایسے ہی دکھ اٹھا رہے ہیں۔ اب خدا جو ہر طرح کے فضل کا چشمہ ہے ... تمہارے تھوڑی مدت تک دکھ اٹھانے کے بعد آپ ہی تمہیں کامل اور قائم اور مضبوط کریگا۔“—۱-پطرس ۵:۶-۱۰۔
۲۱ پس اگر آپ نادم ہیں لیکن آپ کو یہ خوف ہے کہ آپ ناقابلمعافی گناہ کے مجرم ہیں تو یاد رکھیں کہ خدا کی راہیں دانش، انصاف اور محبت کی ہیں۔ اسلئے ایمان کیساتھ اس سے دعا کریں۔ اس روحانی خوراک کو حاصل کرتے رہیں جو وہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) ساتھی ایمانداروں کیساتھ رفاقت رکھیں اور باقاعدگی سے مسیحی خدمتگزاری میں حصہ لیں۔ یہ آپکے ایمان کو مضبوط کریگا اور آپ کو اس خوف سے آزاد کریگا کہ شاید خدا نے آپ کا گناہ معاف نہیں کیا ہے۔
۲۲. ہم اسکے بعد کس پر غور کرینگے؟
۲۲ روحانی فردوس میں رہنے والے اس علم سے تسلی پا سکتے ہیں کہ یہوواہ کثرت سے معاف کرتا ہے۔ تو بھی آجکل انکی زندگی مشکلات سے خالی نہیں۔ شاید وہ اسلئے پریشان ہیں کہ کوئی عزیز وفات پا گیا ہے یا ایک پیارا دوست سخت بیمار ہے۔ جیسے کہ ہم دیکھینگے کہ ان اور اسی طرح کے دیگر حالات میں یہوواہ مدد کرتا اور اپنی پاک روح کے ذریعے اپنے لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے۔ (۸ ۹/۱۵ W۹۲)
آپ کے جوابات کیا ہیں؟
▫ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ”یہوواہ کثرت سے معاف کرتا ہے“؟
▫ کس گناہ کی کوئی معافی نہیں ہے؟
▫ کن حالات کے تحت کسی کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں؟
▫ تائب خطاکار کیوں خدا کی معافی کا بھروسہ کر سکتے ہیں؟
▫ تائب خطاکاروں کیلئے کونسی مدد دستیاب ہے؟
[تصویر]
کیا آپ جانتے ہیں کہ کیوں داؤد اور پطرس کو تو معاف کیا گیا لیکن یہوداہ اسکریوتی کو نہیں کیا گیا؟
[تصویر]
ایک مسیحی کو روحانی طور پر مدد دینے کیلئے کلیسیائی بزرگوں کی مدد بہت کچھ کر سکتی ہے