خاتمے کے بعد برکتوں کا دَور
”سب میں خدا ہی سب کچھ ہو۔“—۱-کر ۱۵:۲۸۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
اِن آیتوں میں درج پیشینگوئیوں کی تکمیل آپ کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہے؟
میکاہ ۴:۴
۱. ”بڑی بِھیڑ“ کے پاس کونسی شاندار اُمید ہے؟
ذرا تصور کریں کہ ایک انصافپسند اور مہربان حکمران ایک ہزار سال کی حکومت میں اپنی رعایا کی بھلائی کے لئے کیا کچھ کر سکتا ہے۔ بڑی بِھیڑ کو یہ اُمید حاصل ہے کہ اُسے ایسی ہی حکومت میں بہت سی برکتیں ملیں گی۔ وہ ”بڑی مصیبت“ سے بچ نکلے گی جس میں بُری دُنیا تباہ ہو جائے گی۔—مکا ۷:۹، ۱۴۔
۲. چھ ہزار سال سے انسان کن مسائل کا سامنا کر رہے ہیں؟
۲ چھ ہزار سال کے دوران انسانوں نے ایک دوسرے پر حکومت کی ہے جس کے نتیجے میں اُنہیں بہت سی مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہزاروں سال پہلے بائبل میں بتایا گیا تھا کہ ”ایک شخص دوسرے پر حکومت کرکے اپنے اُوپر بلا لاتا ہے۔“ (واعظ ۸:۹) آجکل کیا ہو رہا ہے؟ بعض علاقوں میں جنگیں ہو رہی ہیں جبکہ بعض میں لوگ حکومت کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہمیں اَور بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جیسے کہ غربت، بیماری، ماحول کی آلودگی اور درجۂحرارت میں تبدیلی وغیرہ۔ بعض ماہرین اِس بات سے خبردار کر رہے ہیں کہ اگر ہم نے اِس صورتحال کو بدلنے کے لئے جلد کوئی قدم نہ اُٹھایا تو اِس کے بہت ہی تباہکن نتیجے نکلیں گے۔
۳. مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی میں کیا کچھ ہوگا؟
۳ بادشاہ یسوع مسیح اور اُن کے ایک لاکھ ۴۴ ہزار ساتھی ایک ہزار سال تک بادشاہی کریں گے۔ اِس بادشاہت کے دوران وہ اُس نقصان کو ٹھیک کر دیں گے جو انسانوں کو اور اِس زمین کو پہنچا ہے۔ اُس وقت خدا کا یہ وعدہ پورا ہوگا کہ ”مَیں نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا کرتا ہوں اور پہلی چیزوں کا پھر ذکر نہ ہوگا اور وہ خیال میں نہ آئیں گی۔“ (یسع ۶۵:۱۷) یہ جاننے کے لئے کہ ہمیں مستقبل میں کونسی شاندار برکتیں ملیں گی، آئیں، ہم پاک کلام میں درج پیشینگوئیوں پر غور کریں۔ یوں ہم اُن برکات کی ایک جھلک دیکھ سکیں گے جو فیالحال ”اَندیکھی“ ہیں۔—۲-کر ۴:۱۸۔
’وہ گھر بنائیں گے اور تاکستان لگائیں گے‘
۴. آجکل لوگوں کو رہائش کے سلسلے میں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
۴ کون نہیں چاہتا کہ اُس کا اپنا گھر ہو جس میں وہ اور اُس کا گھرانہ امن اور سلامتی سے رہے۔ لیکن آجکل بہت سے لوگوں کے پاس سر چھپانے کی مناسب جگہ نہیں ہے۔ بہت سے شہروں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں یا پھر بہت سے خاندانوں کو ایک ہی گھر میں رہنا پڑتا ہے۔ وہ ساری زندگی یہ خواب ہی دیکھتے رہ جاتے ہیں کہ کاش اُن کا بھی اپنا ایک گھر ہوتا۔
۵، ۶. (الف) یسعیاہ ۶۵:۲۱ اور میکاہ ۴:۴ میں درج پیشینگوئیاں کیسے پوری ہوں گی؟ (ب) اِن پیشینگوئیوں میں جن برکتوں کا ذکر کِیا گیا ہے، اُنہیں حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۵ جب خدا کی بادشاہت زمین پر حکمرانی کرے گی تو ہر انسان کے پاس اپنا گھر ہوگا۔ یسعیاہ نبی نے اِس سلسلے میں پیشینگوئی کی کہ ”وہ گھر بنائیں گے اور اُن میں بسیں گے۔ وہ تاکستان لگائیں گے اور اُن کے میوے کھائیں گے۔“ (یسع ۶۵:۲۱) یہ سچ ہے کہ آجکل بھی بہت سے لوگوں کے پاس اپنا گھر ہے۔ بعض تو بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہتے ہیں۔ لیکن اُنہیں شاید اِس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں وہ کسی مالی نقصان کی وجہ سے اپنا گھر نہ کھو بیٹھیں یا اُن کے گھر کوئی چور ڈاکو نہ گھس آئے۔ مگر خدا کی بادشاہت کے تحت رہنے والے لوگوں کو اِس طرح کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوگا۔ میکاہ نبی نے لکھا: ”ہر ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے بیٹھے گا اور اُن کو کوئی نہ ڈرائے گا۔“—میک ۴:۴۔
۶ اگر ہم ایسے شاندار ماحول میں رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ یہ سچ ہے کہ ہم سب کو رہنے کے لئے مناسب جگہ کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں ابھی اپنا شاندار گھر بنانے کے چکر میں قرضے تلے دبنے سے بچنا چاہئے۔ اِس کی بجائے کیا یہ عقلمندی کی بات نہیں کہ ہم اُس وقت کا انتظار کریں جب خدا کے وعدے کے مطابق ہر شخص اپنا ’گھر بنائے گا اور اُس میں بسے گا‘؟ یاد کریں کہ یسوع مسیح نے اپنے بارے میں کہا تھا کہ ”لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابنِآدم کے لئے سر دھرنے کی بھی جگہ نہیں۔“ (لو ۹:۵۸) یسوع مسیح کے پاس نہ صرف ایک شاندار گھر بنانے کا ہنر تھا بلکہ اُنہیں اپنا گھر حاصل کرنے کے موقعے بھی ملے تھے۔ لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا کیونکہ وہ کسی ایسے کام میں اُلجھنا نہیں چاہتے تھے جس سے اُن کا دھیان خدا کی خدمت سے ہٹ جائے۔ کیا ہم یسوع مسیح کی طرح سادہ زندگی گزار سکتے ہیں تاکہ ہم مالودولت اور فکروں کے جال میں نہ پھنسیں؟—متی ۶:۳۳، ۳۴۔
”بھیڑیا اور بّرہ اِکٹھے چریں گے“
۷. پیدایش ۱:۲۶ میں یہوواہ خدا نے انسانوں اور جانوروں کے بارے میں کیا کہا؟
۷ یہوواہ خدا نے ساری مخلوقات کے بعد انسانوں کو خلق کِیا۔ اُس نے اپنے ماہر کاریگر یعنی یسوع مسیح سے کہا: ”ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں اور چوپایوں اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں اختیار رکھیں۔“ (پید ۱:۲۶) یہوواہ خدا نے نہ صرف آدم اور حوا کو بلکہ اُن کی آنے والی نسلوں کو بھی جانوروں پر اختیار بخشا تھا۔
۸. سائنسدانوں نے جانوروں کے بارے میں کیا بات دریافت کی ہے؟
۸ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان تمام جانوروں پر اختیار رکھیں اور اُن کے ساتھ کسی خوف اور خطرے کے بغیر رہیں؟ بہت سے لوگ اپنے پالتو جانوروں سے پیار کرتے ہیں جیسے کہ کتّے اور بِلّیاں وغیرہ۔ لیکن کیا انسان جنگلی جانوروں کے ساتھ بھی پیار سے رہ سکتے ہیں؟ جو سائنسدان جنگلی جانوروں پر تحقیق کرنے کے لئے اُن کے ساتھ رہتے ہیں، اُنہوں نے یہ دیکھا ہے کہ جنگلی جانوروں میں بھی جذبات ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب جنگلی جانور خطرے میں ہوتے ہیں تو وہ یا تو ڈر جاتے ہیں یا پھر غصے میں آ جاتے ہیں۔ لیکن کیا وہ پیار اور محبت بھی ظاہر کر سکتے ہیں؟ جیہاں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جانور بڑے پیار اور نرمی سے اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔
۹. مستقبل میں جانور کس لحاظ سے فرق ہوں گے؟
۹ جب ہم بائبل میں پڑھتے ہیں کہ انسان اور جانور مل کر رہیں گے تو ہمیں حیران نہیں ہونا چاہئے۔ (یسعیاہ ۱۱:۶-۹؛ ۶۵:۲۵ کو پڑھیں۔) ایسا کیوں ہے؟ آپ کو یاد ہوگا کہ جب نوح اور اُن کے گھر والے طوفان کے بعد کشتی سے باہر نکلے تھے تو یہوواہ خدا نے اُن سے کہا تھا: ”زمین کے کُل جانداروں اور ہوا کے کُل پرندوں پر تمہاری دہشت اور تمہارا رُعب ہوگا۔“ یہوواہ خدا نے جانوروں میں انسانوں کا ڈر اِس لئے رکھا تاکہ جانوروں کی جان محفوظ رہے۔ (پید ۹:۲، ۳) لیکن یہوواہ خدا اِس ڈر کو ختم کر سکتا ہے تاکہ انسان اور جانور پھر سے ویسے ہی مل کر رہیں جیسے کہ شروع میں رہتے تھے۔ (ہوس ۲:۱۸) جو لوگ یہوواہ خدا کی بادشاہت کی رعایا بنیں گے، وہ ایسے ماحول سے خوب لطف اُٹھائیں گے۔
’وہ سب آنسو پونچھ دے گا‘
۱۰. عام طور پر ہم کیوں روتے ہیں؟
۱۰ بادشاہ سلیمان نے دیکھا کہ انسانوں کو بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اِس لئے اُنہوں نے بڑے غم سے کہا: ”دیکھ مظلوموں کے آنسو بہتے ہیں مگر اُن کو تسلی دینے والا کوئی نہیں۔“ (واعظ ۴:۱، کیتھولک ترجمہ) آجکل بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ ہم سب کسی نہ کسی وجہ سے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بعض اوقات ہماری آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہتے ہیں۔ لیکن اکثر ہم اُس وقت روتے ہیں جب ہمارا دل دُکھی ہوتا ہے۔
۱۱. بائبل میں درج کونسے واقعے کو پڑھ کر آپ کا دل بھر آتا ہے؟
۱۱ بائبل میں ایسے بہت سے واقعات درج ہیں جنہیں پڑھ کر ہمارا دل بھر آتا ہے۔ مثال کے طور پر جب سارہ نے ۱۲۷ برس کی عمر میں وفات پائی تو ابرہام نے ”ساؔرہ کے لئے ماتم اور نوحہ“ کِیا۔ (پید ۲۳:۱، ۲) نعومی اور اُن کی دو بیوہ بہوئیں بھی جُدا ہوتے وقت ”چلّا چلّا کر رونے لگیں۔“ جب نعومی نے اِس بات پر اصرار کِیا کہ وہ واپس چلی جائیں تو ”وہ پھر چلّا چلّا کر روئیں۔“ (روت ۱:۹، ۱۴) جب حزقیاہ بادشاہ بہت سخت بیمار تھے اور مرنے کے قریب تھے تو اُنہوں نے ’زار زار رو‘ کر خدا سے دُعا کی۔ یہوواہ خدا نے اُن کے آنسوؤں کو دیکھا اور اُنہیں شفا بخشی۔ (۲-سلا ۲۰:۱-۵) جب پطرس رسول نے یسوع مسیح کا انکار کِیا اور مُرغ کے بانگ دینے پر اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ ”زار زار“ روئے۔ اِس واقعے کو پڑھ کر کیا ہمارا دل نہیں بھر آتا؟—متی ۲۶:۷۵۔
۱۲. مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی میں ہمیں تسلی اور اطمینان کیسے حاصل ہوگا؟
۱۲ چونکہ انسانوں کو بہت سے دُکھ اور تکلیفیں سہنی پڑتی ہیں اِس لئے ہمیں تسلی اور اطمینان کی اشد ضرورت ہے۔ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران خدا اپنے بندوں کی ”آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا۔ اِس کے بعد نہ موت رہے گی اور نہ ماتم رہے گا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔“ (مکا ۲۱:۴) وہ وقت کتنا شاندار ہوگا جب ماتم اور دُکھدرد کا نامونشان مٹا دیا جائے گا، یہاں تک کہ انسان کے سب سے بڑے دُشمن یعنی موت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ سب کیسے ہوگا؟
مُردے زندہ کئے جائیں گے
۱۳. آدم کے گُناہ سے لے کر اب تک موت نے انسانوں کو کیسے اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھا ہے؟
۱۳ جب سے آدم نے گُناہ کِیا ہے تب سے موت نے انسانوں پر بادشاہی کی ہے۔ موت ایک ایسا دُشمن ہے جسے شکست دینا انسانوں کے بس کی بات نہیں۔ کوئی بھی انسان موت کے پنجے سے بچ نہیں سکتا۔ یہ انسانوں کے لئے انتہائی غم اور دُکھ کا باعث بنتی ہے۔ (روم ۵:۱۲، ۱۴) دراصل کروڑوں لوگ ”عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار“ رہتے ہیں۔—عبر ۲:۱۵۔
۱۴. موت کو نیست کرنے کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
۱۴ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا جب موت کو نیست کر دیا جائے گا۔ (۱-کر ۱۵:۲۶) اِس سے دو گروہوں کو فائدہ ہوگا۔ ”بڑی بِھیڑ“ جو اب زندہ ہے، وہ ہرمجِدّون سے بچ کر نئی دُنیا میں داخل ہوگی اور ہمیشہ تک زندہ رہے گی۔ اِس کے علاوہ کروڑوں لوگ جو موت کا شکار ہو چکے ہیں، اُنہیں زندہ کِیا جائے گا۔ جب مُردے زندہ ہوں گے اور بڑی بِھیڑ کے لوگ اُن کا استقبال کریں گے تو وہ کیا ہی خوشی اور جوش کا سماں ہوگا! بائبل میں کچھ ایسے لوگوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا گیا تھا۔ اِن واقعات کو پڑھنے سے ہم اُس وقت کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں جب ہم حقیقت میں اُس خوشی اور جوش کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔—مرقس ۵:۳۸-۴۲؛ لوقا ۷:۱۱-۱۷ کو پڑھیں۔
۱۵. جب آپ اپنے اُن عزیزوں کو زندہ ہوتے دیکھیں گے جو موت کی نیند سو چکے ہیں تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟
۱۵ جب یسوع مسیح نے مُردوں کو زندہ کِیا تھا تو ”لوگ بہت ہی حیران ہوئے“ اور ”خدا کی تمجید“ کرنے لگے۔ اگر آپ نے اپنی آنکھوں سے مُردوں کو زندہ ہوتے ہوئے دیکھا ہوتا تو شاید آپ بھی ایسا ہی محسوس کرتے۔ ہمارے جو عزیز مر چکے ہیں جب وہ زندہ ہوں گے تو اُنہیں مل کر ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہے گی۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”وہ وقت آتا ہے کہ جتنے قبروں میں ہیں اُس کی آواز سُن کر نکلیں گے۔“ (یوح ۵:۲۸، ۲۹) واقعی جب مسیح کی حکمرانی میں مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو یہ اُن حیرتانگیز واقعات میں سے ایک واقعہ ہوگا جو اب تک ’اَندیکھے‘ ہیں۔
”سب میں خدا ہی سب کچھ ہو“
۱۶. (الف) ہمیں دوسروں کے ساتھ اُن برکتوں کے بارے میں شوق سے بات کیوں کرنی چاہئے جو ابھی ”اَندیکھی“ ہیں؟ (ب) پولس رسول نے اپنے مسیحی بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کیسے کی؟
۱۶ اگر ہم اِس کٹھن دَور میں یہوواہ خدا کے وفادار رہتے ہیں تو مستقبل میں ہمیں بہت سی شاندار برکتیں ملیں گی۔ یہ برکتیں ابھی ”اَندیکھی“ ہیں۔ لیکن اگر ہم اِنہیں اپنے ذہن میں رکھتے ہیں تو ہمارا دھیان اِس دُنیا کی چیزوں پر نہیں بلکہ یہوواہ خدا کی خدمت پر رہے گا۔ (لو ۲۱:۳۴؛ ۱-تیم ۶:۱۷-۱۹) آئیں، ہم یہ عزم کریں کہ ہم اپنی خاندانی عبادت کے دوران اور کلیسیا کے بہنبھائیوں کے ساتھ باتچیت کے دوران اُن تمام برکتوں پر بات کریں گے جو ہمیں نئی دُنیا میں ملیں گی۔ اِس کے علاوہ جن لوگوں کو ہم بائبل سے تعلیم دیتے ہیں، اُنہیں بھی ہم بڑے شوق سے اپنی شاندار اُمید کے متعلق بتائیں گے۔ ایسا کرنے سے روشن مستقبل کی اُمید ہمارے دلودماغ میں تازہ رہے گی۔ پولس رسول نے بھی اپنے مسیحی بہنبھائیوں کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے اُن واقعات کے بارے میں بات کی تھی جو مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر پر ہوں گے۔ ذرا ۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۴، ۲۵، ۲۸ میں درج باتوں پر غور کریں اور سوچیں کہ یہ آپ کے لئے کیا اہمیت رکھتی ہیں۔—اِن آیتوں کو پڑھیں۔
۱۷، ۱۸. (الف) انسانی تاریخ کے آغاز میں یہوواہ خدا کس لحاظ سے ’سب میں سب کچھ تھا‘؟ (ب) یسوع مسیح کیسے خدا کے عالمگیر خاندان کو پھر سے متحد کر دیں گے؟
۱۷ مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے آخر پر جو صورتحال ہوگی، اُسے بیان کرنے کے لئے اِن سے بہتر الفاظ اَور کوئی نہیں ہو سکتے کہ ”سب میں خدا ہی سب کچھ ہو۔“ لیکن اِس کا مطلب کیا ہے؟ ذرا اُس وقت کے بارے میں سوچیں جب آدم اور حوا بےعیب تھے اور یہوواہ خدا کے عالمگیر خاندان کا حصہ تھے۔ یہوواہ خدا آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات پر براہِراست حکومت کرتا تھا۔ فرشتے اور انسان اُس سے بات کرتے تھے، اُس کی عبادت کرتے تھے اور بہت سے برکتیں حاصل کرتے تھے۔ اُس وقت ’سب میں خدا ہی سب کچھ تھا۔‘
۱۸ جب انسانوں نے شیطان کے کہنے میں آکر خدا کے خلاف بغاوت کی تو وہ خدا کی قربت سے محروم ہو گئے۔ لیکن ۱۹۱۴ء سے یسوع مسیح اور اُن کے ساتھی حکمرانوں نے ایسے اقدام اُٹھانے شروع کر دئے ہیں جن کے نتیجے میں آخرکار انسان دوبارہ سے خدا کے عالمگیر خاندان کا حصہ بن جائیں گے۔ (افس ۱:۹، ۱۰) اِس کے بعد ”آخرت“ ہوگی یعنی مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ پھر کیا ہوگا؟ اگرچہ یسوع مسیح کو ”آسمان اور زمین کا کُل اختیار“ دیا گیا ہے پھر بھی وہ یہوواہ خدا کے مرتبے اور اختیار پر قبضہ نہیں جمانا چاہتے۔ وہ عاجزی سے ”بادشاہی کو خدا یعنی باپ کے حوالہ کر“ دیں گے۔ یسوع مسیح ہمیشہ کی طرح اپنے اختیار اور مرتبے کو ”خدا . . . کے جلال“ کے لئے استعمال کریں گے۔—متی ۲۸:۱۸؛ فل ۲:۹-۱۱۔
۱۹، ۲۰. (الف) بادشاہت کی رعایا یہ کیسے ثابت کرے گی کہ آیا وہ خدا کی حکمرانی کو قبول کرتی ہے یا نہیں؟ (ب) اگر ہم خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں تو ہمیں کیا موقع ملے گا؟
۱۹ ہزار سالہ حکمرانی کے اختتام تک سب لوگ گُناہ سے بالکل پاک ہو چکے ہوں گے۔ وہ یسوع مسیح کی مثال پر عمل کریں گے اور عاجزی سے یہ تسلیم کریں گے کہ حکمرانی کرنے کا حق صرف یہوواہ خدا کا ہے۔ اُنہیں یہ موقع ملے گا کہ وہ آخری اِمتحان میں کامیاب ہو کر یہ ثابت کریں کہ وہ خدا کی حکمرانی کے تحت رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ (مکا ۲۰:۷-۱۰) اِس کے بعد تمام باغیوں کو ہلاک کر دیا جائے گا، چاہے وہ انسان ہوں یا فرشتے۔ وہ کیا ہی خوشی کا وقت ہوگا! آسمان اور زمین کی ساری مخلوق یہوواہ خدا کی تمجید کرے گی۔ اُس وقت ’سب میں خدا ہی سب کچھ ہوگا۔‘—زبور ۹۹:۱-۳ کو پڑھیں۔
۲۰ خدا کی بادشاہت میں ملنے والی شاندار برکتوں پر غور کرنے سے آپ میں کیا کرنے کی خواہش پیدا ہوتی ہے؟ کیا آپ میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ آپ خدا کی خدمت کو اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت دیں گے؟ کیا آپ اُس جھوٹی اُمید اور تسلی سے بچنے کی کوشش کریں گے جو شیطان کی دُنیا پیش کرتی ہے؟ کیا آپ اپنے اِس عزم کو اَور مضبوط کریں گے کہ آپ یہوواہ خدا کی حکمرانی کی حمایت کرتے رہیں گے؟ اپنے کاموں سے ظاہر کریں کہ آپ ایسا کرنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں۔ یوں آپ کو نہ صرف ہزار برس کے لئے بلکہ ہمیشہ تک امن اور خوشحالی سے لطفاندوز ہونے کا موقع ملے گا۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
جب یسوع مسیح بادشاہ کے طور پر اپنی ذمہداریاں پوری کر لیں گے تو وہ عاجزی سے بادشاہی کو باپ کے حوالے کر دیں گے۔