”ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہونگی؟“
”میں نئی باتیں بتاتا ہوں۔ اس سے پیشتر کہ واقع ہوں میں تم سے بیان کرتا ہوں۔“—یسعیاہ ۴۲:۹۔
۱، ۲. (ا) یسوع کے شاگردوں نے مستقبل کی بابت کیا پوچھا تھا؟ (ب) مرکب نشان کی بابت یسوع کے جواب کی تکمیل کیسے ہوئی ہے؟
الہی تعلیم کا سرچشمہ یہوواہ خدا ہے، ”جو ابتدا ہی سے انجام کی خبر دیتا ہے۔“ (یسعیاہ ۴۶:۱۰) جیسے کہ اس سے پہلے کے مضمون نے ظاہر کیا، رسول یسوع سے یہ پوچھتے ہوئے اس سے ایسی تعلیم حاصل کرنے کے طالب ہوئے: ”ہمیں بتا کہ یہ باتیں کب ہونگی؟ اور جب یہ سب باتیں پوری ہونے کو ہوں اس وقت کا کیا نشان ہے؟“—مرقس ۱۳:۴۔
۲ جواب میں، یسوع نے ایک مرکب ”نشان“ بیان کیا جو اس شہادت پر مشتمل تھا جس نے یہ ثابت کرنا تھا کہ یہودی نظام بہت جلد ختم ہونے کو تھا۔ یہ ۷۰ س۔ع۔ میں یروشلیم کی بربادی کیساتھ پورا ہو گیا۔ لیکن یسوع کی پیشینگوئی کو وقت کے دھارے میں بہت آگے چل کر ایک بڑے پیمانے پر پورا ہونا تھا۔ ۱۹۱۴ میں ”غیرقوموں کی میعاد“ ختم ہونے پر یہ ظاہر کرنے والا ایک نشان وسیع پیمانے پر دستیاب ہوگا کہ جلد ہی موجودہ بدکار نظام ”بڑی مصیبت“ میں ختم ہو جائیگا۔a (لوقا ۲۱:۲۴) لاکھوں جو آج زندہ ہیں اس کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ یہ نشان عالمی جنگوں اور ۲۰ویں صدی کے دیگر نہایت اہم واقعات میں پورا ہو چکا ہے۔ یہ یسوع کی پیشینگوئی کی بڑی تکمیل کی بھی نشاندہی کرتے ہیں، ۳۳ سے ۷۰ س۔ع۔ تک جو کچھ واقع ہوا ہے، یہ جدید تکمیل اسکی مثال ٹھہری ہے۔
۳. ایک اور نشان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے، یسوع نے کن اضافی واقعات کی پیشینگوئی کی؟
۳ لوقا کے غیرقوموں کی میعاد کا ذکر کرنے کے بعد، متی، مرقس اور لوقا کے مماثل بیانات واقعات کے ایک مزید سلسلے کو بیان کرتے ہیں جس میں ”دنیا کے آخر ہونے“ کے مرکب نشان کے علاوہ ایک اضافی نشان بھی شامل ہے۔ (متی ۲۴:۳) (صفحہ ۱۵ پر درج بیان میں اس نقطے کو دوہری لکیر سے واضح کیا گیا ہے۔) متی بیان کرتا ہے: ”اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائیگا اور چاند اپنی روشنی نہ دیگا اور ستارے آسمان سے گرینگے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائینگی۔ اور اس وقت (تب) ابنآدم کا نشان آسمان پر دکھائی دیگا اور اس وقت (تب) زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹینگی اور ابنآدم کو بڑی قدرت اور جلال کیساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھینگی۔ اور وہ نرسنگے کی بڑی آواز کیساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجیگا اور وہ اسکے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کرینگے۔“—متی ۲۴:۲۹-۳۱۔
مصیبت اور آسمانی مظاہر
۴. جن آسمانی مظاہر کا یسوع نے ذکر کیا انکی بابت کونسے سوالات اٹھتے ہیں؟
۴ اسکی تکمیل کب ہوگی؟ تینوں اناجیل کے بیانات جس کا ذکر کرتے ہیں، ہم اسے آسمانی مظاہر—سورج اور چاند کا تاریک ہونا اور ستاروں کا گرنا—کہہ سکتے ہیں۔ یسوع نے فرمایا کہ یہ ”مصیبت“ کے بعد واقع ہونگے۔ کیا یسوع کے ذہن میں وہ مصیبت تھی جو ۷۰ س۔ع۔ میں اپنے عروج کو پہنچی، یا کیا وہ اس بڑی مصیبت کی بات کر رہا تھا جو ہمارے جدید زمانہ میں ابھی تک مستقبل کی بات ہے؟—متی ۲۴:۲۹، مرقس ۱۳:۲۴۔
۵. جدید زمانے میں مصیبت کی بابت پہلے کیا نظریہ پایا جاتا تھا؟
۵ جب سے ۱۹۱۴ میں غیرقوموں کی میعاد ختم ہوئی ہے، خدا کے لوگ ”بڑی مصیبت“ میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) سالوں تک وہ یہی خیال کرتے رہے کہ جدید زمانے کی بڑی مصیبت کا ابتدائی حصہ پہلی عالمی جنگ کے وقت کے مماثل ہے، اسکے بعد سلسلہ منقطع کرنے والا وقفہ اور پھر آخر میں، اختتامی حصہ یعنی ”قادرمطلق کے روزعظیم کی لڑائی۔“ اگر یہ ایسے ہی ہونا تھا تو پھر ”دنیا کے آخر“ کے درمیانی دہوں کے دوران کیا واقع ہوگا؟—مکاشفہ ۱۶:۱۴، متی ۱۳:۳۹، ۲۴:۳، ۲۸:۲۰۔
۶. کس چیز کیلئے خیال کیا جاتا تھا کہ وہ آسمانی مظاہر کی بابت یسوع کی پیشینگوئی کو پورا کریگی؟
۶ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس وقفے کے دوران مرکب نشان دیکھا جائیگا، جس میں خدا کے جمعشدہ لوگوں کے ذریعے کیا جانے والا منادی کا کام بھی شامل ہے۔ ایسا بھی معلوم دیتا تھا کہ جن آسمانی مظاہر کی پیشینگوئی کی گئی تھی ان کی توقع ۱۹۱۴-۱۹۱۸ کے ابتدائی دور کے بعد کے وقفہ کے دوران کی جا سکتی ہے۔ (متی ۲۴:۲۹، مرقس ۱۳:۲۴، ۲۵، لوقا ۲۱:۲۵) توجہ آسمانوں میں ظاہری چیزوں—خلا سے معلومات بھیجنے کیلئے استعمال ہونے والے آلات، راکٹوں، فضائی یا گاما شعاعوں اور چاند پر فرودگاہوں یا مراکز—پر مرتکز کی گئی ہے۔
۷. بڑی مصیبت کی بابت کونسی ہمآہنگ کی ہوئی سمجھ فراہم کی گئی ہے؟
۷ تاہم، جنوری ۱۵، ۱۹۷۰ کے مینارنگہبانی (انگریزی) نے یسوع کی پیشینگوئی کی دوبارہ جانچ کی، بالخصوص آنے والی بڑی مصیبت کی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جدید مصیبت کا ابتدائی حصہ ۱۹۱۴-۱۹۱۸ میں واقع ہو، کئی دہوں کا طویل وقفہ ہو اور بعدازاں پھر سے آغاز ہو۔ اس رسالے نے یہ نتیجہ اخذ کیا: ”ایسی ”بڑی مصیبت“ جو پھر کبھی نہ ہوگی ابھی اور آگے ہے، کیونکہ اسکا مطلب جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت (بشمول مسیحی دنیا) کی بربادی ہے جس کے بعد ہرمجدون پر ”قادرمطلق خدا کے روزعظیم کی لڑائی ہوگی۔“
۸. جدید مصیبت کے ہمآہنگ کئے ہوئے نظریے کی وجہ سے، متی ۲۴:۲۹ کی کیسے وضاحت کی گئی ہے؟
۸ لیکن متی ۲۴:۲۹ کہتی ہے کہ آسمانی مظاہر ”فوراً ... مصیبت کے بعد“ واقع ہوتے ہیں۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ یکم مئی، ۱۹۷۵ کے مینارنگہبانی (انگریزی) نے ظاہر کیا کہ یہاں ”مصیبت“ سے مراد وہ ہے جو پیچھے ۷۰ س۔ع۔ میں نقطۂعروج کو پہنچی۔ لیکن کس مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے وقت کے آسمانی مظاہر ۷۰ س۔ع۔ کے واقعہ کے ”فوراً“ بعد رونما ہو رہے تھے؟ یہ دلیل دی گئی تھی کہ خدا کی نظر میں درمیانی صدیاں بہت مختصر ہونگی۔ (رومیوں ۱۶:۲۰، ۲-پطرس ۳:۸) تاہم، اس پیشینگوئی کا زیادہ بغور جائزہ، بالخصوص متی ۲۴:۲۹-۳۱ کا، ایک بالکل مختلف تشریح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ واضح کرتا ہے کہ کیسے روشنی ”دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔“ (امثال ۴:۱۸)b آئیے ہم غور کریں کہ کیوں ایک نئی یا تبدیلشدہ وضاحت موزوں ہے۔
۹. عبرانی صحائف آسمانوں میں واقعات کی بابت یسوع کے الفاظ کیلئے کس طرح پسمنظر فراہم کرتے ہیں؟
۹ اپنے چار رسولوں کو یسوع نے ”سورج کے تاریک ہو جانے، چاند کے روشنی نہ دینے، اور ستاروں کے گرنے“ کی پیشینگوئی دی۔ بطور یہودیوں کے، وہ ایسے اندازبیان کو عبرانی پاک صحیفوں سے ہی پہچان سکتے تھے، جہاں مثال کے طور پر، صفنیاہ ۱:۱۵ میں خدا کی عدالت کے وقت کو ”ویرانی اور خرابی کا دن۔ تاریکی اور اداسی کا دن۔ ابر اور تیرگی کا دن“ کہا گیا تھا۔ مختلف عبرانی نبیوں نے بھی سورج کے تاریک ہو جانے، چاند کے نہ چمکنے اور ستاروں کے روشنی نہ دینے کو بیان کیا ہے۔ آپ بابل، ادوم، مصر اور اسرائیل کی شمالی سلطنت کے خلاف الہی پیغامات میں ایسا اندازبیان پائینگے۔—یسعیاہ ۱۳:۹، ۱۰، ۳۴:۴، ۵، یرمیاہ ۴:۲۸، حزقیایل ۳۲:۲، ۶-۸، عاموس ۵:۲۰، ۸:۲، ۹۔
۱۰، ۱۱. (ا) آسمانوں میں واقعات کی بابت یوایل نے کیا نبوت کی؟ (ب) یوایل کی پیشینگوئی کے کونسے پہلو ۳۳ س۔ع۔ میں پورے ہوئے اور کونسے پورے نہ ہوئے؟
۱۰ جب انہوں نے سنا کہ یسوع نے کیا کہا تو پطرس اور دیگر تینوں کو غالباً یوایل ۲:۲۸-۳۱ اور ۳:۱۵ میں درج یوایل کی پیشینگوئی یاد آ گئی تھی: ”میں ہر فردبشر پر اپنی روح نازل کرونگا اور تمہارے بیٹے بیٹیاں نبوت کرینگے۔ ... میں زمینوآسمان میں عجائب ظاہر کرونگا یعنی خون اور آگ اور دھوئیں کے ستون۔ اس سے پیشتر کہ خداوند کا خوفناک روزعظیم آئے آفتاب تاریک اور مہتاب خون ہو جائیگا۔“ ”سورج اور چاند تاریک ہو جائینگے اور ستاروں کا چمکنا بند ہو جائیگا۔“
۱۱ جیسے کہ اعمال ۲:۱-۴ اور ۱۴-۲۱ میں بیان کیا گیا ہے، ۳۳ س۔ع۔ کے پنتکست پر، خدا نے ۱۲۰ شاگردوں، مردوں اور عورتوں دونوں پر روحالقدس نازل کی۔ پطرس رسول نے یہ سمجھایا کہ یہ وہی کچھ ہے جسکی بابت یوایل نے نبوت کی تھی۔ تاہم، یوایل کے ان الفاظ کی بابت کیا ہے کہ ”آفتاب تاریک اور مہتاب خون ہو جائیگا اور ستارے چمکنا بند کر دینگے“؟ کوئی بھی چیز اسکی نشاندہی نہیں کرتی کہ یہ الفاظ ۳۳ س۔ع۔ میں یا ۳۰ سالوں پر مشتمل یہودی دستورالعمل کے خاتمہ کے طویل عرصے کے دوران پورے ہوئے۔
۱۲، ۱۳. جن آسمانی مظاہر کی نبوت یوایل نے کی وہ کیسے تکمیلپذیر ہوئے؟
۱۲ واضح طور پر یوایل کی پیشینگوئی کے آخری حصے کا زیادہ گہرا تعلق ”خداوند [کے] خوفناک روزعظیم [کے آنے]“—یروشلیم کی بربادی—کیساتھ تھا۔ ۷۰ س۔ع۔ میں یروشلیم پر جو مصیبت آئی اسکی بابت نومبر ۱۵، ۱۹۶۶ کے مینارنگہبانی (انگریزی) نے کہا: ”یروشلیم اور اسکے بچوں کے سلسلے میں وہ یقیناً ”خداوند کا دن“ تھا۔ اور جہاں تک اس دن کا تعلق ہے ”خون اور آگ اور دھوئیں کی کہر“ بہت زیادہ تھی، دن کے وقت سورج شہر کے اندھیرے کو روشن نہیں کر رہا تھا اور چاند رات کی پرسکون نقرئی چاندنی کا نہیں بلکہ بہے ہوئے خون کا خیال پیش کرتا تھا۔“c
۱۳ جیہاں، جیسا کہ ان دیگر پیشینگوئیوں کے بارے میں تھا جن پر ہم نے پہلے غور کیا، آسمانی مظاہر نے جنکی نبوت یوایل نے کی اس وقت تکمیل پانی تھی جب یہوواہ نے سزا دی۔ یہودی دستورالعمل کے خاتمہ کے پورے وقت کا احاطہ کرنے کی بجائے، سورج، چاند اور ستاروں کا تاریک ہونا اس وقت وقوعپذیر ہوا جب عدالتی سزا صادر کرنے والی فوجیں یروشلیم کے خلاف چڑھ آئی تھیں۔ منطقی طور سے، ہم یوایل کی پیشینگوئی کے اس حصے کی وسیع تکمیل کی توقع اس وقت کر سکتے ہیں جب خدا کی طرف سے موجودہ دستورالعمل پر سزا آنا شروع ہوتی ہے۔
آسمانی مظاہر سے پہلے کونسی مصیبت؟
۱۴، ۱۵. یوایل کی پیشینگوئی متی ۲۴:۲۹ کی بابت ہماری سمجھ پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟
۱۴ یوایل کی پیشینگوئی (ویسا ہی اندازبیان استعمال کرنے والی دوسری پیشینگوئیوں کی مطابقت میں) کی تکمیل ہمیں متی ۲۴:۲۹ کے الفاظ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ واضح طور پر، یسوع نے ”سورج کے تاریک ہو جانے، چاند کے روشنی نہ دینے اور ستاروں کے گرنے“ کی بابت جو کچھ کہا وہ ان چیزوں کیطرف اشارہ نہیں کرتا جو موجودہ نظام کے خاتمہ کے کئی دہوں کے دوران واقع ہو رہی ہیں، جیسے خلا میں راکٹوں کا چھوڑا جانا، انسان کا چاند پر اترنا، اور اسی قسم کی دیگر چیزیں۔ نہیں، وہ ان چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا جو ”خداوند [کے] خوفناک روزعظیم“ یعنی آئندہ آنے والی تباہی سے تعلق رکھتی ہیں۔
۱۵ یہ بات ہماری سمجھ سے تعلق رکھتی ہے کہ کس طرح آسمانی مظاہر ”فوراً ... مصیبت کے بعد ہونگے۔ یسوع اس مصیبت کی طرف اشارہ نہیں کر رہا تھا جو ۷۰ س۔ع۔ میں اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ اسکی بجائے وہ اس بڑی مصیبت کے شروع ہونے کی نشاندہی کر رہا تھا جو اسکی موعودہ ”موجودگی“ کو نقطۂعروج تک پہنچاتے ہوئے، مستقبل قریب میں دنیا کے نظام پر آ پڑیگی۔ (متی ۲۴:۳) وہ مصیبت ہنوز ہم پر آنے والی ہے۔
۱۶. مرقس ۱۳:۲۴ کس مصیبت کی طرف اشارہ کر رہی تھی، اور ایسا کیوں؟
۱۶ مرقس ۱۳:۲۴ کے الفاظ کی بابت کیا ہے: ”مگر ان دنوں میں، اس مصیبت کے بعد، سورج تاریک ہو جائیگا اور چاند اپنی روشنی نہ دیگا“؟ یہاں ”ان“ اور ”اس“ دونوں یونانی لفظ اکیناس کی قسمیں ہیں، جو کہ دور کے وقت کی کسی چیز کی نشاندہی کرنے والا اسماشارہ ہے۔ اکیناس کو کسی گزشتہ دور (یا پہلے ذکرشدہ) چیز کیلئے یا پھر مستقبل بعید میں کسی چیز کی نشاندہی کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (متی ۳:۱، ۷:۲۲، ۱۰:۱۹، ۲۴:۳۸، مرقس ۱۳:۱۱، ۱۷، ۳۲، ۱۴:۲۵، لوقا ۱۰:۱۲، ۲-تھسلنیکیوں ۱:۱۰) پس مرقس ۱۳:۲۴ کی ”اس مصیبت“ کا اشارہ رومیوں کے ذریعے بھڑکائی ہوئی مصیبت کی طرف نہیں بلکہ موجودہ نظام کے خاتمہ پر یہوواہ کی قدرت کے کام کی طرف ہے۔
۱۷، ۱۸. بڑی مصیبت جسطرح بتدریج تکمیل کو پہنچے گی اس پر مکاشفہ کیا روشنی ڈالتا ہے؟
۱۷ مکاشفہ کے ۱۷ تا ۱۹ ابواب، متی ۲۴:۲۹-۳۱، مرقس ۱۳:۲۴-۲۷، اور لوقا ۲۱:۲۵-۲۸ کی اس ہمآہنگ کی ہوئی سمجھ کے ساتھ میل کھاتے اور اسکی تصدیق کرتے ہیں۔ کس طریقے سے؟ اناجیل ظاہر کرتی ہیں کہ یہ مصیبت اچانک ہی شروع اور ختم نہیں ہو جائیگی، اس کے شروع ہونے کے بعد بھی نافرمان نوعانسانی میں سے بعض لوگ ”ابنآدم کا نشان“ دیکھنے اور اسکے لئے ردعمل دکھانے—چھاتی پیٹنے اور، جیسا کہ لوقا ۲۱:۲۶ میں بیان کیا گیا ہے: ”ڈر کے مارے اور زمین پر آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے ... جان میں جان نہ [رکھنے]“—کیلئے ہنوز زندہ ہونگے۔ وہ حد سے زیادہ خوف ان کے اس ”نشان“ کو دیکھنے کی وجہ سے ہے جو کہ انکی سر پر کھڑی بربادی کی علامت ہے۔
۱۸ مکاشفہ کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل کی بڑی مصیبت اس وقت شروع ہوگی جب بینالاقوامی ”حیوان“ کے عسکری ”سینگ“ ”بڑی کسبی“ یعنی بڑے بابل پر حملہ کرتے ہیں۔d (مکاشفہ ۱۷:۱، ۱۰-۱۶) لیکن بہتیرے لوگ موجود رہینگے، کیونکہ بادشاہ، سوداگر، جہاز کے کپتان اور دوسرے لوگ جھوٹے مذہب کے خاتمے پر ماتم کرتے ہیں۔ غالباً بہتیروں کو یہ احساس ہو جائیگا کہ اسکے بعد ان کو سزا ملے گی۔—مکاشفہ ۱۸:۹-۱۹۔
آگے کیا ہونے والا ہے؟
۱۹. جب بڑی مصیبت شروع ہوتی ہے تو ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟
۱۹ متی، مرقس، اور لوقا کی اناجیل کے اقتباسات مکاشفہ ۱۷-۱۹ ابواب کے ساتھ ملکر جو کچھ جلد واقع ہونے والا ہے اس پر کافی زیادہ روشنی ڈالتے ہیں۔ خدا کے مقررہ وقت پر، جھوٹے مذہب کی عالمی مملکت (بڑے بابل) کے خلاف حملے کیساتھ بڑی مصیبت شروع ہو جائیگی۔ یہ خاص طور پر مسیحی دنیا کے خلاف شدید ہوگی، جو کہ بےوفا یروشلیم کی مماثل ہے۔ مصیبت کے اس دور کے ”فوراً ... بعد“ یہ ہوگا کہ ”سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہونگے اور زمین پر قوموں کو [بےمثال] تکلیف ہوگی۔“—متی ۲۴:۲۹، لوقا ۲۱:۲۵۔
۲۰. ابھی تک ہم کن آسمانی مظاہر کی توقع کر سکتے ہیں؟
۲۰ کس مفہوم میں ”سورج تاریک ہو جائیگا چاند اپنی روشنی نہ دیگا ستارے آسمان سے گرینگے اور آسمان کی قوتیں ہلائی جائینگی“؟ بلاشبہ، بڑی مصیبت کے اوائلی حصے میں ہی بہت سے نیر—مذہبی دنیا کے ممتاز پادری—مکاشفہ ۱۷:۱۶ میں مذکور ”دس سینگوں“ کے ذریعے بےنقاب اور ہلاک کئے جا چکے ہونگے۔ بیشک سیاسی طاقتیں بھی ہلائی جا چکی ہونگی۔ لیکن کیا طبیعاتی آسمانوں میں بھی خوفناک واقعات ہو سکتے ہیں؟ بالکل اغلب ہے، اور ان سے کہیں زیادہ ہیبتناک جنہیں جوزیفس نے یہودی دستور کے خاتمہ کے قریب واقع ہوتے بیان کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم ماضی میں بھی خدا نے ایسے طوفانی اثرات کو وقوعپذیر کرنے کی اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا، اور وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔—خروج ۱۰:۲۱-۲۳، یشوع ۱۰:۱۲-۱۴، قضاۃ ۵:۲۰، لوقا ۲۳:۴۴، ۴۵۔
۲۱. مستقبل کا ”نشان“ کیسے واقع ہوگا؟
۲۱ اس مقام پر تینوں اناجیل کے لکھنے والے اگلے واقعے کو متعارف کرانے کیلئے توتے (تب) کا استعمال کرتے ہیں۔ ”اسوقت (تب) ابنآدم کا نشان آسمان پر دکھائی دیگا۔“ (متی ۲۴:۳۰، مرقس ۱۳:۲۶، لوقا ۲۱:۲۷) پہلی عالمی جنگ سے لیکر، یسوع کے سچے شاگردوں نے اس کی نادیدنی موجودگی کے مرکب نشان کو پہچان لیا ہے، جبکہ زیادہتر لوگوں نے اسے نہیں پہچانا۔ لیکن متی ۲۴:۳۰ آگے ایک مزید ”نشان“ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مستقبل میں ظاہر ہوگا، جو کہ ”ابنآدم“ کا ہے اور سب قوموں کو مجبوراً اسے دیکھنا پڑیگا۔ جب یسوع نادیدنی بادلوں کیساتھ آئیگا تو اسکے اپنی شاہی قوت کے مافوقالفطرت مظاہرے کے باعث پوری دنیا میں مخالف لوگوں کو اس ”آمد“ (یونانی، ارخومینان) کو تسلیم کرنا پڑیگا۔—مکاشفہ ۱:۷۔
۲۲. متی ۲۴:۳۰ کے ”نشان“ کو دیکھنے کا کیا اثر ہوگا؟
۲۲ جو کچھ آگے واقع ہونے کو ہے اسے متعارف کرانے کیلئے متی ۲۴:۳۰ ایک بار پھر توتے کو استعمال کرتی ہے۔ تب قومیں اپنی صورتحال کے انجام کو محسوس کرکے چھاتی پیٹینگی اور ماتم کرینگی، شاید یہ پہچانتے ہوئے کہ انکی ہلاکت بالکل قریب ہے۔ خدا کے خادموں کے متعلق کسقدر مختلف ہے، کیونکہ ہم یہ جانتے ہوئے کہ مخلصی نزدیک ہے، اپنے سروں کو اوپر اٹھانے کے قابل ہونگے! (لوقا ۲۱:۲۸) مکاشفہ ۱۹:۱-۶ سچے پرستاروں کو بڑی کسبی کے خاتمے پر آسمان میں اور زمین پر خوشی مناتے بھی پیش کرتا ہے۔
۲۳. (ا) برگزیدوں کی خاطر یسوع کیا کارروائی کریگا؟ (ب) بقیہ کے آسمان پر اٹھائے جانے کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟
۲۳ یسوع کی پیشینگوئی مرقس ۱۳:۲۷ میں مزید کہتی ہے: ”اس وقت [توتے] وہ فرشتوں کو بھیج کر اپنے برگزیدوں کو زمین کی انتہا سے آسمان کی انتہا تک چاروں طرف سے جمع کریگا۔“ یہاں یسوع ۱،۴۴،۰۰۰ ”برگزیدوں“ کے اس بقیہ کیطرف اشارہ کرتا ہے جو ابھی تک زمین پر زندہ ہونگے۔ اس دستورالعمل کے خاتمہ کے ابتدائی دور میں یسوع کے ان ممسوح شاگردوں کو تھیوکریٹک اتحاد میں لایا گیا تھا۔ تاہم، جس ترتیب کو استعمال کیا گیا ہے اسکے مطابق، مرقس ۱۳:۲۷ اور متی ۲۴:۳۱ کچھ اور بھی بیان کرتے ہیں۔ ”نرسنگے کی بڑی آواز کیساتھ،“ باقی ”برگزیدوں“ کو زمین کی انتہا سے جمع کیا جائیگا۔ انہیں کیسے جمع کیا جائیگا؟ بلاشبہ، یہوواہ کی طرف سے ان پر ”مہر“ کی جائیگی اور ”بلائے ہوئے اور برگزیدہ اور وفادار“ اشخاص کے حصے کے طور پر انکی واضح شناخت کرائی جائیگی۔ اور خدا کے مقررہ وقت پر، انہیں بادشاہ اور کاہن ہونے کیلئے اوپر آسمان میں جمع کیا جائیگا۔e یہ انکے لئے اور انکے وفادار ساتھیوں، ”بڑی بھیڑ“ کیلئے بھی خوشی کا باعث ہوگا جن پر کہ بذاتخود زمینی فردوس میں برکتوں سے مستفید ہونے کی خاطر بڑی مصیبت سے نکل آنے کیلئے“ نشان لگایا جائیگا۔—متی ۲۴:۲۲، مکاشفہ ۷:۳، ۴، ۹-۱۷، ۱۷:۱۴، ۲۰:۶، حزقیایل ۹:۴، ۶۔
۲۴. آنے والے واقعات کی بابت متی ۲۴:۲۹-۳۱ کس سلسلے کو آشکارا کرتی ہیں؟
۲۴ جب رسولوں نے کہا، ”ہمیں بتا ...،“ تو یسوع کے جواب میں اس سے کہیں زیادہ کچھ شامل تھا جسے وہ سمجھ سکتے تھے۔ تاہم، وہ اپنی زندگیوں میں اس پیشینگوئی کی امتیازی تکمیل کو دیکھ کر خوش ہوئے تھے۔ یسوع کے جواب کا ہمارا مطالعہ اسکی پیشینگوئی کے اس حصے پر مرتکز رہا ہے جو مستقبلقریب میں تکمیلپذیر ہوگا۔ (متی ۲۴:۲۹-۳۱، مرقس ۱۳:۲۴-۲۷، لوقا ۲۱:۲۵-۲۸) ہم پہلے ہی سے دیکھ سکتے ہیں کہ ہماری مخلصی نزدیکتر آتی جا رہی ہے۔ ہم ابھی سے بڑی مصیبت کے شروع ہونے، تب (پھر) ابنآدم کے نشان، اور تب (پھر) خدا کے برگزیدوں کے جمع کئے جانے کی امید رکھ سکتے ہیں۔ انجامکار، ہرمجدون پر، بطور یہوواہ کے سزا دینے والے کے، ہمارا جنگجو بادشاہ، تختنشین یسوع، ”اپنی فتح مکمل“ کریگا۔ (مکاشفہ ۶:۲ اینڈبلیو) یہوواہ کا وہ دن جب وہ انتقامی کارروائی کرتا ہے، اس دستورالعمل کے خاتمہ کے شاندار انجام کے طور پر ہوگا جس نے ۱۹۱۴ سے لیکر خداوند یسوع کے دن کی نشاندہی کی ہے۔
۲۵. لوقا ۲۱:۲۸ کی ہنوز مستقبل میں ہونے والی تکمیل میں ہم کیسے حصہ لے سکتے ہیں؟
۲۵ دعا ہے کہ آپ خود کو الہی تعلیم سے مستفید ہونے دیتے رہیں، تاکہ یسوع کے ان الفاظ کیلئے جوابی عمل دکھا سکیں جو کہ ابھی مستقبل میں پورے ہونگے: ”جب یہ سب باتیں ہونے لگیں تو سیدھے ہو کر سر اوپر اٹھانا اسلئے کہ تمہاری مخلصی نزدیک ہوگی۔“ (لوقا ۲۱:۲۸) برگزیدوں اور بڑی بھیڑ کے آگے کیا ہی مستقبل ہے، جبکہ یہوواہ اپنے پاک نام کی تقدیس کیلئے کارروائی کرتا ہے! (۱۷ ۲/۱۵ w۹۴)
[فٹنوٹ]
a یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ ہمارے زمانے کے طبیعی حقائق کس طرح بائبل پیشینگوئی کو پورا کرتے ہیں، یہوواہ کے گواہ اس کا ثبوت فراہم کرکے خوش ہیں۔
b اضافی مواد جسے ۱۹۷۳ میں واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیویارک انکارپوریٹڈ نے شائع کیا تھا، خدا کی ہزار سالہ بادشاہی آ پہنچی ہے، (انگریزی) کے صفحات ۲۹۶-۳۲۳ پر، اور ستمبر ۱۵، ۱۹۸۲ کے مینارنگہبانی (انگریزی) کے صفحات ۱۷-۲۲ پر پیش کیا گیا ہے۔
c جوزیفس یروشلیم پر رومیوں کے پہلے حملے (۶۶ س۔ع۔) اور اسکی بربادی کے درمیان کے واقعات کی بابت لکھتا ہے: ”رات کے دوران ایک تباہکن طوفان آیا، بہت زوروں کا طوفانبادوباراں، موسلادھار بارش ہوئی، بجلی مسلسل چمکتی رہی، بجلی کی کڑک ہولناک تھی، زمین گرج کے شور سے کانپ اٹھی تھی۔ پورے نظامالعمل کی اس مکمل بربادی نے نسلانسانی پر آنے والی مصیبت کی نشاندہی کی تھی، اور کوئی بھی اس میں شک نہیں کر سکتا کہ ان غیرمعمولی واقعات نے ایک بیمثال تباہی سے قبلازوقت آگاہ کیا تھا۔“
d جس چیز کو یسوع نے ”بڑی مصیبت“ اور ”مصیبت“ کے طور پر بیان کیا اپنے اولین اطلاق میں وہ یہودی نظام کی بربادی تھی۔ لیکن ان آیات میں جنکا اطلاق صرف ہمارے زمانے پر ہوتا ہے، اس نے ”ایسی یا اس مصیبت“ کہتے ہوئے حروفتعریف ”ایسی یا اس“ کو استعمال کیا۔ (متی ۲۴:۲۱، ۲۹، مرقس ۱۳:۱۹، ۲۴) مکاشفہ ۷:۱۴ نے مستقبل کے اس واقعہ کو ”اس بڑی مصیبت“ یعنی لفظی طور پر ایسی مصیبت جو بڑی ہے کا نام دیا۔
e دیکھیں اگست ۱۵، ۱۹۹۰ کے مینارنگہبانی (انگریزی) میں ”سوالات از قارئین۔“
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ پہلی صدی میں یوایل ۲:۲۸-۳۱ اور ۳:۱۵ کے پہلوؤں کی تکمیل کیسے ہوئی؟
▫ متی ۲۴:۲۹ کس مصیبت کا حوالہ دیتا ہے اور ہم اس سے یہ نتیجہ کیوں اخذ کرتے ہیں؟
▫ متی ۲۴:۲۹ کن آسمانی مظاہر کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور یہ کیسے مصیبت کے فوراً بعد ہو سکتا ہے؟
▫ لوقا ۲۱:۲۶، ۲۸ مستقبل میں کیسے تکمیلپذیر ہوں گی؟
[تصویر]
ہیکل کا علاقہ
[تصویر کا حوالہ]
.Pictorial Archive )Near Eastern History( Est