باب 63
گُناہ اور گمراہی کے متعلق اہم ہدایات
متی 18:6-20 مرقس 9:38-50 لُوقا 9:49، 50
یسوع مسیح نے گمراہ کرنے اور گمراہی سے بچنے کے سلسلے میں ہدایتیں دیں
مسیحیوں کے درمیان کھڑے ہونے والے سنگین مسئلوں کو سلجھانے کا طریقہ
یسوع مسیح نے کچھ ہی دیر پہلے بتایا تھا کہ اُن کے پیروکاروں کو خود کو کیسا خیال کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے کہا کہ ”جو شخص کسی [چھوٹے] بچے کو میری خاطر قبول کرتا ہے، وہ مجھے بھی قبول کرتا ہے۔“ (متی 18:5) مسیح کے پیروکاروں کو خود کو چھوٹے بچوں کی طرح خیال کرنا چاہیے جو خاکسار ہوتے ہیں اور کوئی رُتبہ نہیں رکھتے۔
رسولوں نے حال ہی میں آپس میں بحث کی تھی کہ اُن میں سب سے بڑا کون ہے۔ اِس لیے یسوع مسیح کی اِن باتوں سے اُنہیں شاید احساس ہو گیا ہو کہ اُنہیں اپنا رویہ بدلنا چاہیے۔ اب یوحنا رسول نے ایک اَور بات کا ذکر کِیا جو حال ہی میں ہوئی تھی۔ اُنہوں نے یسوع سے کہا: ”ہم نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو آپ کے نام سے بُرے فرشتے نکال رہا تھا اور ہم نے اُس کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔“—لُوقا 9:49۔
شاید یوحنا کے نزدیک صرف رسول ہی شفا دینے اور بُرے فرشتے نکالنے کا حق رکھتے تھے۔ لیکن پھر یہ یہودی آدمی اِتنی کامیابی سے بُرے فرشتے کیسے نکال رہا تھا؟ یوحنا کو لگتا تھا کہ اِس آدمی کو معجزے نہیں کرنے چاہئیں کیونکہ وہ یسوع اور اُن کے رسولوں کے ساتھ نہیں تھا۔
مگر یوحنا، یسوع کا جواب سُن کر بڑے حیران ہوئے ہوں گے۔ یسوع نے کہا: ”اُسے روکنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ جو بھی میرے نام سے معجزے کرتا ہے، وہ آسانی سے میری بُرائی نہیں کرے گا کیونکہ جو ہمارے خلاف نہیں ہے، وہ ہمارے ساتھ ہے۔ مَیں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ جو بھی آپ کو اِس لیے ایک پیالہ پانی پلاتا ہے کیونکہ آپ مسیح کے شاگرد ہیں، اُسے اجر ضرور ملے گا۔“—مرقس 9:39-41۔
یسوع مسیح کا ساتھ دینے کے لیے اُس آدمی کو اُن کے ساتھ ساتھ رہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مسیحی کلیسیا ابھی تک قائم نہیں ہوئی تھی۔ لہٰذا اگر یہ آدمی یسوع مسیح کے ساتھ میل جول نہیں رکھ رہا تھا تو اِس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ اُن کے خلاف تھا یا کسی اَور مذہب کو فروغ دے رہا تھا۔ یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ آدمی یسوع پر ایمان لایا تھا۔ اور یسوع مسیح کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ اُس آدمی کو اجر ضرور ملے گا۔
لیکن اگر وہ آدمی رسولوں کی باتوں یا کاموں کی وجہ سے گمراہ ہو جاتا تو یہ بڑی سنگین بات ہوتی۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جو شخص اِن چھوٹوں میں سے جو ایمان لائے ہیں، کسی کو گمراہ کرے، اُس کے لیے بہتر ہوگا کہ اُس کے گلے میں ایک ایسی چکی کا پاٹ ڈالا جائے جسے گدھے کھینچتے ہیں اور پھر اُسے سمندر میں پھینک دیا جائے۔“ (مرقس 9:42) پھر یسوع مسیح نے کہا کہ اُن کے پیروکاروں کو ہر اُس چیز کو پھینک دینا چاہیے جو اُن کو گمراہ کر سکتی ہے، چاہے یہ چیز اُن کے ہاتھ، پاؤں یا آنکھ جتنی قیمتی کیوں نہ ہو۔ اُن کے لیے بہتر ہے کہ وہ اِن اعضا کے بغیر زندگی گزاریں اور بادشاہت میں داخل ہوں، بجائے اِس کے کہ وہ اِن اعضا کے ساتھ زندگی گزاریں اور ہنوم کی وادی میں پھینکے جائیں۔ رسولوں نے یروشلیم کے نزدیک واقع اِس وادی کو ضرور دیکھا ہوگا جہاں کچرے کو جلایا جاتا تھا۔ لہٰذا وہ سمجھ گئے ہوں گے کہ یسوع ابدی ہلاکت کی طرف اِشارہ کر رہے تھے۔
یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے یہ بھی کہا: ”دھیان رکھیں کہ آپ اِن چھوٹوں میں سے کسی کو کمتر خیال نہ کریں کیونکہ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ اُن کے فرشتے آسمان پر ہر وقت میرے آسمانی باپ کا چہرہ دیکھتے ہیں۔“ یسوع کے آسمانی باپ کو یہ ’چھوٹے‘ کتنے عزیز ہیں؟ اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے ایک آدمی کی مثال دی جس کی 100 بھیڑیں تھیں اور اُن میں سے ایک راستہ بھٹک گئی۔ وہ آدمی اپنی 99 بھیڑوں کو چھوڑ کر اپنی کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے گیا۔ اور جب وہ اُسے مل گئی تو اُس نے اُن 99 بھیڑوں پر اِتنی خوشی نہیں کی جتنی کہ اُس بھٹکی ہوئی بھیڑ کو پانے پر۔ پھر یسوع نے کہا: ”اِسی طرح میرا آسمانی باپ بھی نہیں چاہتا کہ اِن چھوٹوں میں سے ایک بھی ہلاک ہو جائے۔“—متی 18:10، 14۔
اِس کے بعد یسوع مسیح نے نصیحت کی کہ ”ایسے نمک کی طرح بنیں جو نمکین ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح صفائی سے رہیں۔“ (مرقس 9:50) شاید اُنہوں نے یہ نصیحت اِس لیے کی کیونکہ رسولوں نے اِس بات پر بحث کی تھی کہ اُن میں سب سے بڑا کون ہے۔ نمک کھانوں کو ذائقےدار بناتا ہے۔ اِسی طرح اگر ہم بحث کرنے کی بجائے اپنی باتوں کو نمک کی طرح ذائقےدار بنائیں گے تو یہ زیادہ آسانی سے قبول کی جائیں گی اور صلح کو فروغ دیں گی۔—کُلسّیوں 4:6۔
یسوع مسیح جانتے تھے کہ کبھی کبھار اُن کے پیروکاروں کے درمیان سنگین مسئلے کھڑے ہوں گے۔ اِس صورت کے لیے اُنہوں نے کیا ہدایت دی؟ اُنہوں نے کہا: ”اگر آپ کا بھائی آپ کے خلاف گُناہ کرتا ہے تو اکیلے میں جا کر اُسے اُس کی غلطی سے آگاہ کریں۔ اگر وہ آپ کی بات مان لیتا ہے تو آپ اپنے بھائی کو سیدھی راہ پر واپس لے آئے ہیں۔“ لیکن اگر وہ شخص بات نہیں مانتا تو پھر کیا کِیا جا سکتا ہے؟ یسوع نے آگے کہا: ”ایک دو اَور لوگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں تاکہ دو یا تین گواہوں کی گواہی سے معاملہ ثابت ہو جائے۔“ اگر مسئلہ پھر بھی نہیں سلجھتا تو ’کلیسیا سے بات کرنے‘ کی ضرورت ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ معاملہ بزرگوں کے سپرد کر دیا جائے جو اِس سلسلے میں فیصلہ کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ شخص بزرگوں کی بھی نہ سنے تو کیا کِیا جائے؟ یسوع نے کہا: ”اُس کو غیریہودی سمجھیں اور اُسے ٹیکس وصول کرنے والے کی طرح خیال کریں“ یعنی اُن لوگوں کی طرح خیال کریں جن کے ساتھ یہودی میل جول نہیں رکھتے تھے۔—متی 18:15-17۔
ایسے سنگین معاملوں کو سلجھاتے وقت بزرگوں کو خدا کے کلام کی بِنا پر فیصلہ کرنا چاہیے۔ اگر وہ اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُس شخص نے واقعی گُناہ کِیا ہے اور اُسے درستی کی ضرورت ہے تو یہ فیصلہ ”پہلے سے آسمان پر باندھا جا چُکا ہوگا۔“ لیکن اگر بزرگ اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اُس شخص نے کوئی گُناہ نہیں کِیا تو یہ فیصلہ ”آسمان پر کھولا جا چُکا ہوگا۔“ یسوع نے کہا کہ ایسے سنگین معاملوں پر فیصلہ کرتے وقت جب ”دو یا تین لوگ میرے نام سے جمع ہوتے ہیں [تو] مَیں بھی اُن کے ساتھ ہوتا ہوں۔“ (متی 18:18-20) یسوع مسیح کی یہ ہدایات اُس وقت بہت فائدہمند ثابت ہوئیں جب مسیحی کلیسیا قائم ہوئی۔