اپنی محبت کو کبھی ٹھنڈا نہ پڑنے دیں
”چونکہ بُرائی بہت بڑھ جائے گی اِس لیے زیادہتر لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔“—متی 24:12۔
1، 2. (الف) یسوع مسیح نے متی 24:12 میں جو پیشگوئی کی، وہ سب سے پہلے کن پر پوری ہوئی؟ (ب) اعمال کی کتاب سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ پہلی صدی کے زیادہتر مسیحیوں کی محبت ٹھنڈی نہیں پڑی؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے بتایا کہ ”دُنیا کے آخری زمانے کی نشانی کیا ہوگی۔“ اُنہوں نے جن باتوں کا ذکر کِیا، اِن میں سے ایک یہ تھی کہ ”زیادہتر لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ جائے گی۔“ (متی 24:3، 12) یہ پیشگوئی پہلے تو پہلی صدی عیسوی میں پوری ہوئی۔ اُس زمانے کے یہودی خدا کی قوم ہونے کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن اُن کے دل میں خدا کے لیے محبت ٹھنڈی پڑ گئی تھی۔
2 مگر اُس زمانے کے مسیحی اُن یہودیوں سے بالکل فرق تھے۔ وہ بڑے جوشوجذبے سے ”مسیح یسوع کے بارے میں خوشخبری“ سنا رہے تھے اور اپنے کاموں سے ظاہر کر رہے تھے کہ وہ خدا، اپنے بہن بھائیوں اور اُن لوگوں سے بھی محبت کرتے ہیں جو اُن کے ہمایمان نہیں تھے۔ (اعمال 2:44-47؛ 5:42) افسوس کی بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پہلی صدی کے کچھ مسیحیوں کی بھی محبت ٹھنڈی پڑ گئی۔
3. کچھ مسیحیوں کی محبت کیوں ٹھنڈی پڑ گئی؟
3 مثال کے طور پر یسوع مسیح نے شہر اِفسس کے مسیحیوں سے کہا: ”آپ کی محبت ویسی نہیں رہی جیسی شروع میں تھی۔“ (مکاشفہ 2:4) ہو سکتا ہے کہ اِن مسیحیوں پر اِردگِرد کے ماحول کا اثر تھا کیونکہ اِفسس ایک امیر شہر تھا اور اِس کے باشندے ”جسم کی خواہشوں کے مطابق چلتے تھے۔“ (اِفسیوں 2:2، 3) اِن لوگوں کا سارا دھیان پُرآسائش اور آرامدہ زندگی گزارنے اور سیروتفریح پر لگا تھا۔ اُنہیں اپنے سوا کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ بڑی بےشرمی سے طرح طرح کی بدکاریاں بھی کرتے تھے۔
4. (الف) ہم کیسے جانتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں لوگوں کی محبت ٹھنڈی پڑ رہی ہے؟ (ب) ہمیں کن کے لیے اپنی محبت مضبوط رکھنی چاہیے؟
4 یسوع مسیح کی پیشگوئی ہمارے زمانے میں بھی پوری ہو رہی ہے۔ لوگوں کے دل میں خدا کے لیے محبت دن بہدن ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے خدا سے مُنہ پھیر لیا ہے اور اُنہیں لگتا ہے کہ دُنیا کے مسئلوں کا حل اِنسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن سچے مسیحیوں کی محبت بھی ٹھنڈی پڑ سکتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے پہلی صدی میں شہر اِفسس کے مسیحیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ اِس لیے آئیں، دیکھیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ اِن کے لیے ہماری محبت مضبوط رہے: (1) یہوواہ خدا کے لیے، (2) بائبل کی سچائیوں کے لیے اور (3) ہمارے بہن بھائیوں کے لیے۔
یہوواہ خدا کے لیے محبت
5. ہمیں خدا سے محبت کیوں کرنی چاہیے؟
5 ہمیں کس سے سب سے زیادہ محبت کرنی چاہیے؟ یسوع مسیح نے کہا: ”یہوواہ اپنے خدا سے اپنے سارے دل، اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھو۔ یہ سب سے بڑا اور پہلا حکم ہے۔“ (متی 22:37، 38) اگر ہم خدا سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اُس کے حکموں پر عمل کرنے، ثابتقدم رہنے اور بدی سے نفرت کرنے کی ترغیب ملے گی۔ (زبور 97:10 کو پڑھیں۔) لیکن شیطان اور اُس کی دُنیا ہمارے دل سے یہوواہ کی محبت کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
6. اُن لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے جن کے دل میں خدا کے لیے محبت ختم ہو جاتی ہے؟
6 یہ دُنیا محبت کے بارے میں غلط نظریہ رکھتی ہے۔ آجکل لوگ ”خود غرض“ ہیں اور وہ خدا سے محبت کرنے کی بجائے خود سے محبت کرتے ہیں۔ (2-تیمُتھیُس 3:2) اُن کا دھیان ’جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور مالودولت کے دِکھاوے‘ پر لگا رہتا ہے۔ (1-یوحنا 2:16) لیکن پولُس رسول نے خبردار کِیا کہ ”جسمانی چیزوں پر دھیان دینے کا انجام موت ہے“ کیونکہ ایسی چیزوں پر دھیان دینے کا مطلب ”خدا سے دُشمنی ہے۔“ (رومیوں 8:6، 7) جو لوگ اپنی زندگی مالودولت جمع کرنے اور جنسی تسکین حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں، وہ آخر میں مایوسی اور افسردگی کا شکار ہوتے ہیں۔—1-کُرنتھیوں 6:18؛ 1-تیمُتھیُس 6:9، 10۔
7. مسیحیوں کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت کیسے ٹھنڈی پڑ سکتی ہے؟
7 آجکل بہت سے لوگ خدا کے وجود کو نہیں مانتے یا پھر اِس پر شک کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے نظریوں کو فروغ دیتے ہیں جن سے دوسروں کے دل میں بھی خدا کے لیے محبت مر جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ اُس کے وجود کو ہی ماننا چھوڑ دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صرف جاہل اور اَنپڑھ لوگ ہی خالق کے وجود کو مانتے ہیں۔ اِس کے علاوہ لوگ خالق کی بجائے سائنسدانوں کی زیادہ تعظیم کرتے ہیں اور اُن کی باتوں پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ (رومیوں 1:25) ایسی سوچ مسیحیوں پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں اُن کا ایمان کمزور پڑ سکتا ہے اور اُن کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت ٹھنڈی پڑ سکتی ہے۔—عبرانیوں 3:12۔
8. (الف) یہوواہ کے بندے کن وجوہات کی بِنا پر بےحوصلہ ہو سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں زبور 136 سے کیا تسلی ملتی ہے؟
8 شیطان کی دُنیا میں ہم سب کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے ہم بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ (1-یوحنا 5:19) ایسی صورت میں بھی یہوواہ کے لیے ہماری محبت ٹھنڈی پڑ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر شاید ہم بڑھاپے، خراب صحت یا مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یا ہو سکتا ہے کہ ہم احساسِکمتری کا شکار ہیں، اپنی خامیوں اور غلطیوں کی وجہ سے دلبرداشتہ ہیں یا اِس لیے مایوس ہیں کیونکہ ہماری کچھ اُمیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ چاہے ہمیں کسی بھی مشکل کا سامنا کیوں نہ ہو، ہمیں کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ یہوواہ نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں ایسی آیتوں پر غور کرنا چاہیے جن سے ہمیں یہوواہ کی بےپناہ محبت کا احساس ملے۔ مثال کے طور پر ہم زبور 136:23 پر غور کر سکتے ہیں جہاں لکھا ہے: ”[یہوواہ] نے ہماری پستی میں ہم کو یاد کِیا کہ اُس کی شفقت ابدی ہے۔“ ہم پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ ہمارا شفیق آسمانی باپ ہماری ”فریاد اور مِنت“ کو ضرور سنے گا۔—زبور 116:1؛ 136:24-26۔
9. پولُس رسول خدا کے لیے اپنی محبت کو مضبوط کیسے رکھ پائے؟
9 پولُس رسول کا ایمان اِس لیے مضبوط رہا کیونکہ وہ اِس بات پر اکثر سوچ بچار کِیا کرتے تھے کہ یہوواہ نے اُن کی کتنی مدد کی ہے۔ اُنہوں نے لکھا: ”یہوواہ میرا مددگار ہے۔ مَیں نہیں ڈروں گا۔ اِنسان میرا کیا بگاڑ سکتا ہے؟“ (عبرانیوں 13:6) چونکہ پولُس رسول کو یہوواہ خدا پر مکمل بھروسا تھا اِس لیے وہ زندگی میں آنے والی ہر مشکل سے نمٹ پائے۔ اُنہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری، یہاں تک کہ جب وہ قید میں تھے تو اُنہوں نے کلیسیاؤں کو خط لکھ کر دوسرے بہن بھائیوں کی ہمت بڑھائی۔ (اِفسیوں 4:1؛ فِلپّیوں 1:7؛ فلیمون 1) مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی پولُس رسول کے دل میں یہوواہ کے لیے محبت کم نہ ہوئی۔ اِس کی کیا وجہ تھی؟ اُنہیں اُس خدا پر اِعتماد تھا جو ”عظیم رحمتوں کا باپ ہے اور بڑی تسلی بخشتا ہے۔“ (2-کُرنتھیوں 1:3، 4) ہم پولُس رسول کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
10. ہم یہوواہ خدا کے لیے اپنی محبت کو مضبوط کیسے رکھ سکتے ہیں؟
10 ہم خدا کے لیے اپنی محبت کو مضبوط کیسے رکھ سکتے ہیں؟ پولُس رسول نے اِس کا ایک طریقہ یہ بتایا: ”ہر وقت دُعا کریں۔“ ایک اَور موقعے پر اُنہوں نے پھر سے ہدایت دی کہ ”دُعا کرنے میں لگے رہیں۔“ (1-تھسلُنیکیوں 5:17؛ رومیوں 12:12) دُعا کرنے سے ہم خدا کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہم یہوواہ سے باتچیت کرتے ہیں اور یوں اُس کے ساتھ ہماری دوستی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ (زبور 86:3) اور جب ہم وقت نکال کر ”دُعا کے سننے والے“ کو اپنے دل کا حال بتاتے ہیں تو اُس کے ساتھ ہماری قربت بڑھتی ہے۔ (زبور 65:2) پھر جب یہوواہ ہماری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے تو ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھتی ہے اور ہمیں پکا یقین ہو جاتا ہے کہ ”[یہوواہ] اُن سب کے قریب ہے جو اُس سے دُعا کرتے ہیں۔“ (زبور 145:18) اِس یقین کی بدولت ہم ہر طرح کی مشکل سے نمٹنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
بائبل کی سچائیوں کے لیے محبت
11، 12. ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ بائبل کی سچائیوں کے لیے ہماری محبت بڑھتی جائے؟
11 یہوواہ کے خادموں کے طور پر ہمیں سچائی سے لگاؤ ہے جو کہ ہمیں خدا کے کلام میں ملتی ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے آسمانی باپ سے کہا: ”تیرا کلام سچائی ہے۔“ (یوحنا 17:17) بائبل کی سچائیوں کے لیے محبت پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اِس کا ”صحیح علم حاصل“ کریں۔ (کُلسّیوں 1:10) لیکن بس اپنے ذہن کو بائبل کی سچائیوں سے بھرنا ہی کافی نہیں ہے۔ زبور 119 کے لکھنے والے نے واضح کِیا کہ خدا کے کلام کی سچائیوں سے محبت کرنے کا اصلی مطلب کیا ہے۔ (زبور 119:97-100 کو پڑھیں۔) ہمیں صرف بائبل کو پڑھنا ہی نہیں چاہیے بلکہ دن بھر اِس میں لکھی باتوں پر دھیان دینا چاہیے یعنی اِن پر سوچ بچار کرنی چاہیے۔ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ بائبل میں درج باتوں پر عمل کرنے سے ہمیں کتنا فائدہ ہوتا ہے تو بائبل کی سچائیوں کے لیے ہماری محبت بڑھتی ہے۔
12 زبور نویس نے یہ بھی کہا کہ ”تیری باتیں میرے لئے کیسی شِیرین ہیں! وہ میرے مُنہ کو شہد سے بھی میٹھی معلوم ہوتی ہیں۔“ (زبور 119:103) یہوواہ کی تنظیم ہمیں جو مطبوعات فراہم کرتی ہے، یہ واقعی مزےدار کھانوں کی طرح ہیں۔ جب ہم اپنی کوئی پسندیدہ ڈِش کھاتے ہیں تو ہم اِسے جلدی جلدی نہیں بلکہ مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔ اِسی طرح جب ہم خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اِس سے بھرپور لطف اُٹھانا چاہیے۔ یوں پاک کلام میں درج ’دلآویز باتیں‘ ہمارے ذہن پر نقش ہو جائیں گی اور ہم اِن سے خود بھی فائدہ حاصل کر سکیں گے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکیں گے۔—واعظ 12:10۔
13. یرمیاہ نبی کو خدا کے کلام سے محبت کیوں تھی؟ اور اِس کا اُن پر کیا اثر پڑا؟
13 یرمیاہ نبی کو خدا کے کلام سے بڑا لگاؤ تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”تیرا کلام ملا اور مَیں نے اُسے نوش کِیا اور تیری باتیں میرے دل کی خوشی اور خرمی تھیں کیونکہ اَے [یہوواہ] ربُالافواج! مَیں تیرے نام سے کہلاتا ہوں۔“ (یرمیاہ 15:16) یرمیاہ نے مجازی معنوں میں خدا کے کلام کو نوش کِیا یعنی اِس میں درج باتوں کو پڑھا اور اِن پر سوچ بچار کی۔ یوں وہ اِس بات کی زیادہ قدر کرنے لگے کہ خدا نے اُنہیں اپنے نمائندے کے طور پر چُنا تاکہ وہ اُس کا پیغام سنائیں۔ اگر ہمیں بھی خدا کے کلام سے لگاؤ ہے تو ہم بھی اِس بات کی قدر کریں گے کہ ہمیں یہوواہ کے نام سے کہلانے اور اِس آخری زمانے میں اُس کی بادشاہت کا اِعلان کرنے کا شرف ملا ہے۔
14. ہم اَور کیا کر سکتے ہیں تاکہ بائبل کی سچائیوں کے لیے ہماری محبت بڑھتی جائے؟
14 ہم اَور کیا کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے دل میں بائبل کی سچائیوں کے لیے محبت بڑھے؟ ہمیں باقاعدگی سے اِجلاسوں پر جانا چاہیے جہاں ہم یہوواہ کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ہر ہفتے اِجلاس پر ”مینارِنگہبانی“ کی مدد سے بائبل کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ بائبل کی سچائیوں کو سیکھنے کا ایک بنیادی ذریعہ ہے۔ لیکن اگر ہم اِس اِجلاس سے بھرپور فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے سے اُس مضمون کی تیاری کرنی چاہیے جس پر اِجلاس کے دوران غور کِیا جائے گا۔ اِس سلسلے میں ہم اُن تمام آیتوں کو پڑھ سکتے ہیں جن کا مضمون میں حوالہ دیا گیا ہے۔ آجکل ”مینارِنگہبانی“ بہت سی زبانوں میں ہماری ویبسائٹ jw.org پر اور ”جےڈبلیو لائبریری“ ایپ پر بھی دستیاب ہے اور اِسے بڑی آسانی سے فون یا ٹیبلٹ پر ڈاؤنلوڈ کِیا جا سکتا ہے۔ آپ اِسے کسی ایسے فارمیٹ میں ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں جس میں حوالہشُدہ آیتیں جلد کُھل جاتی ہیں۔ چاہے آپ ”مینارِنگہبانی“ کا مطالعہ الیکٹرانک کاپی سے کریں یا کاغذی کاپی سے، اگر آپ آیتوں کو دھیان سے پڑھیں گے اور اِن پر سوچ بچار کریں گے تو بائبل میں درج سچائیوں کے لیے آپ کی محبت بڑھے گی۔—زبور 1:2 کو پڑھیں۔
بہن بھائیوں کے لیے محبت
15، 16. (الف) یوحنا 13:34، 35 میں یسوع مسیح نے کیا حکم دیا؟ (ب) یہوواہ خدا اور اُس کے کلام سے محبت کرنے میں اور بہن بھائیوں سے محبت کرنے میں کیا تعلق ہے؟
15 اپنی موت سے ایک رات پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”مَیں آپ کو ایک نیا حکم دے رہا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت کریں۔ جیسے مَیں نے آپ سے محبت کی ہے ویسے آپ بھی ایک دوسرے سے محبت کریں۔ اگر آپ کے درمیان محبت ہوگی تو سب لوگ پہچان جائیں گے کہ آپ میرے شاگرد ہیں۔“—یوحنا 13:34، 35۔
16 بہن بھائیوں سے محبت کرنے اور یہوواہ سے محبت کرنے میں گہرا تعلق ہے۔ اگر ہم اپنے بہن بھائیوں سے محبت نہیں کریں گے تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم خدا سے بھی محبت نہیں کرتے۔ یوحنا رسول نے لکھا: ”جو شخص اپنے بھائی سے محبت نہیں کرتا جس کو وہ دیکھ سکتا ہے، وہ خدا سے بھی محبت نہیں کرتا جس کو اُس نے نہیں دیکھا۔“ (1-یوحنا 4:20) اگر ہم یہوواہ خدا اور اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرتے ہیں تو ظاہر ہوگا کہ ہم خدا کے کلام سے بھی محبت کرتے ہیں۔ اِس کی کیا وجہ ہے؟ کیونکہ پاک کلام میں ہمیں یہوواہ سے اور اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرنے کے حکم دیے گئے ہیں اور اگر ہمیں خدا کے کلام سے محبت ہے تو ہم دلوجان سے اِن حکموں پر عمل کریں گے۔—1-پطرس 1:22؛ 1-یوحنا 4:21۔
17. ہم کن طریقوں سے اپنے بہن بھائیوں کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں؟
17 پہلا تھسلُنیکیوں 4:9، 10 کو پڑھیں۔ ہم کن طریقوں سے اپنی کلیسیا میں بہن بھائیوں کے لیے محبت ظاہر کر سکتے ہیں؟ اگر ہماری کلیسیا میں بوڑھے بہن بھائی ہیں تو کیا ہم اِجلاسوں پر آنے جانے میں اُن کی مدد کر سکتے ہیں؟ یا پھر کیا ہم کسی بیوہ بہن کے گھر کی مرمت کر سکتے ہیں؟ (یعقوب 1:27) اِس کے علاوہ کیا ہم ایسے بہن بھائیوں کو توجہ اور تسلی دے سکتے ہیں جو بےحوصلہ اور افسردہ ہیں یا کسی مشکل سے گزر رہے ہیں؟ (امثال 12:25؛ کُلسّیوں 4:11) ہم اپنی باتوں اور اپنے کاموں سے ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں اُن سے محبت ہے جو ”ہمارے ہمایمان ہیں۔“—گلتیوں 6:10۔
18. جب ہماری اپنے بہن بھائیوں سے اَنبن ہو جاتی ہے تو ہم اُن سے صلح کرنے کی بھرپور کوشش کیوں کرتے ہیں؟
18 پاک کلام میں لکھا ہے کہ ”آخری زمانے میں“ لوگ خود غرض اور لالچی ہوں گے۔ (2-تیمُتھیُس 3:1، 2) ایسے ماحول میں رہتے ہوئے ہمیں اپنے دل میں یہوواہ، اُس کے کلام اور ایک دوسرے کے لیے محبت کو مضبوط رکھنے کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ یہ سچ ہے کہ کبھی کبھار ہماری اپنے بہن بھائیوں سے اَنبن ہو جاتی ہے لیکن چونکہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اِس لیے ہم اِن اِختلافات کو جلد از جلد حل کرتے ہیں۔ (اِفسیوں 4:32؛ کُلسّیوں 3:14) آئیں، اپنی محبت کو کبھی ٹھنڈا نہ پڑنے دیں بلکہ یہوواہ، اُس کے کلام اور اپنے بہن بھائیوں سے دل کی گہرائی سے محبت کرتے رہیں۔