اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہیں!
”[موسیٰ] اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہا۔“—عبرانیوں ۱۱:۲۷۔
۱. یسوع نے اپنے پہاڑی وعظ میں خدا کی بابت کونسی حیرتانگیز بات کہی تھی؟
یہوواہ نادیدہ ہستی ہے۔ جب موسیٰ نے یہوواہ سے اُسکا جلال دیکھنے کی درخواست کی تو اُس نے کہا: ”تُو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہیں رہیگا۔“ (خروج ۳۳:۲۰) علاوہازیں، یوحنا رسول نے لکھا: ”خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔“ (یوحنا ۱:۱۸) جب یسوع مسیح بطور انسان زمین پر تھا تو وہ بھی خدا کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تاہم، اپنے پہاڑی وعظ میں، یسوع نے کہا: ”مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھینگے۔“ (متی ۵:۸) یسوع کی اس سے کیا مُراد تھی؟
۲. ہم اپنی انسانی آنکھوں سے خدا کو کیوں نہیں دیکھ سکتے؟
۲ صحائف بیان کرتے ہیں کہ یہوواہ ایک روح ہے جسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ (یوحنا ۴:۲۴؛ کلسیوں ۱:۱۵؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۷) لہٰذا، یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ہم دراصل یہوواہ کو اپنی انسانی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ سچ ہے کہ ممسوح مسیحی روحانی مخلوقات کے طور پر قیامت پانے کے بعد آسمان میں یہوواہ خدا کو ضرور دیکھیں گے۔ لیکن زمین پر ہمیشہ تک زندہ رہنے کی اُمید رکھنے والے ”پاک دل“ انسان بھی خدا کو ’دیکھنے‘ کے قابل ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
۳. انسان خدا کی بعض صفات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
۳ ہم یہوواہ کی تخلیق کا مشاہدہ کرنے سے اس کی بابت سیکھتے ہیں۔ یوں ہم شاید اُس کی طاقت کے گرویدہ ہو جائیں اور اُسے اپنا خالق اور خدا تسلیم کرنے کی تحریک پائیں۔ (عبرانیوں ۱۱:۳؛ مکاشفہ ۴:۱۱) اس سلسلے میں، پولس رسول نے لکھا: ”[خدا] کی اَندیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔“ (رومیوں ۱:۲۰) پس یہوواہ کو دیکھنے کی بابت یسوع کے الفاظ یہوواہ کی بعض صفات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کی دلالت کرتے ہیں۔ اس طرح سے دیکھنے کے لئے صحیح علم کے علاوہ ’دل کی آنکھوں‘ سے بھی کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ (افسیوں ۱:۱۸) یسوع کی باتیں اور کام بھی خدا کی بابت بہت کچھ آشکارا کرتے ہیں۔ اسی لئے یسوع نے کہا تھا: ”جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا۔“ (یوحنا ۱۴:۹) یسوع یہوواہ کا کامل پرتَو تھا۔ چنانچہ، یسوع کی زندگی اور تعلیمات سے واقفیت ہمیں خدا کی بعض صفات کو دیکھنے اور سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے۔
روحانیت نہایت ضروری ہے
۴. آجکل بہتیرے لوگ روحانیت کی کمی کا مظاہرہ کیسے کرتے ہیں؟
۴ آجکل ایمان اور حقیقی روحانیت شاذونادر ہی نظر آتے ہیں۔ پولس نے کہا کہ ”سب میں ایمان نہیں“ ہے۔ (۲-تھسلنیکیوں ۳:۲) بہتیرے اشخاص اپنے ذاتی معاملات میں اسقدر اُلجھ گئے ہیں کہ وہ خدا پر بالکل بھی ایمان نہیں رکھتے۔ گنہگارانہ طرزِعمل اور روحانیت کے فقدان کی وجہ سے وہ اُسے فہم کی آنکھوں سے دیکھ نہیں پاتے کیونکہ یوحنا رسول نے لکھا تھا: ”بدی کرنے والے نے خدا کو نہیں دیکھا۔“ (۳-یوحنا ۱۱) ایسے لوگ چونکہ اپنی جسمانی آنکھوں سے خدا کو نہیں دیکھتے اسلئے وہ اپنے کاموں سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ خدا اُنہیں نہیں دیکھ رہا۔ (حزقیایل ۹:۹) وہ روحانی چیزوں کی حقارت کرتے ہیں اسلئے وہ ”خدا کی معرفت“ حاصل نہیں کر سکتے۔ (امثال ۲:۵) پس، پولس نے موزوں طور پر لکھا: ”نفسانی آدمی خدا کے روح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ اُسکے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں اور نہ وہ اُنہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں۔“—۱-کرنتھیوں ۲:۱۴۔
۵. روحانی ذہنیت کے مالک لوگ کس حقیقت کا خیال رکھتے ہیں؟
۵ تاہم، اگر ہم روحانی ذہنیت کے مالک ہیں تو ہم ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں گے کہ اگرچہ یہوواہ عیبجُو خدا نہیں تو بھی وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ ہم کب بُری سوچ اور خواہشات کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ واقعی، ”انسان کی راہیں [یہوواہ] کی آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہی اُس کے سب راستوں کو ہموار بناتا ہے۔“ (امثال ۵:۲۱) اگر ہم سے کوئی گناہ ہو جائے تو ہم توبہ کرکے یہوواہ سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اُس سے محبت ہے اور ہم اُسے دُکھ دینا نہیں چاہتے۔—زبور ۷۸:۴۱؛ ۱۳۰:۳۔
کونسی چیز ہمیں ثابتقدم بناتی ہے؟
۶. ثابتقدم رہنے سے کیا مُراد ہے؟
۶ اگرچہ ہم یہوواہ کو دیکھ تو نہیں سکتے مگر ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے۔ اگر ہم اُسکی موجودگی سے باخبر ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو لوگ اُسے پکارتے ہیں وہ اُن سب کے قریب ہے تو اس سے ثابتقدم بننے یعنی اُسکے حضور غیرمتزلزل اور مستحکم وفاداری قائم رکھنے میں ہماری مدد ہوگی۔ (زبور ۱۴۵:۱۸) ہم موسیٰ کی مانند بن سکتے ہیں جسکی بابت پولس نے لکھا: ”ایمان ہی سے اُس نے بادشاہ کے قہر کا خوف نہ کرکے مصر کو چھوڑ دیا۔ اسلئےکہ وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہا۔“—عبرانیوں ۱۱:۲۷۔
۷، ۸. فرعون کے سامنے موسیٰ کی دلیری کا راز کیا تھا؟
۷ اسرائیلیوں کو مصری غلامی سے آزاد کرانے کی خداداد تفویض کو پورا کرتے ہوئے موسیٰ کو اکثراوقات مذہبی اور عسکری سرداروں سے بھرے ہوئے دربار میں ظالم فرعون کے سامنے حاضر ہونا پڑتا تھا۔ غالباً، محل کی دیواروں کیساتھ قطاردرقطار بُت نصب کئے گئے تھے۔ لیکن مصر کے بےجان معبودوں کی نمائندگی کرنے والے تمام بُتوں کے برعکس یہوواہ نادیدہ ہونے کے باوجود موسیٰ کیلئے حقیقی تھا۔ اسی لئے موسیٰ فرعون سے خوفزدہ نہیں تھا!
۸ کس چیز نے موسیٰ کو باربار فرعون کے سامنے جانے کی دلیری عطا کی تھی؟ صحائف ہمیں بتاتے ہیں کہ ”موسیٰؔ تو رُویِزمین کے سب آدمیوں سے زیادہ حلیم تھا۔“ (گنتی ۱۲:۳) واقعی، موسیٰ کی روحانی پختگی اور خدائی حمایت کے یقین نے اُسے مصر کے سنگدل بادشاہ کے سامنے ’اندیکھے خدا‘ کی نمائندگی کرنے کے لئے درکار قوت عطا کی تھی۔ اندیکھے خدا کو ’دیکھنے‘ والے لوگ آجکل کن طریقوں سے اُس پر ایمان کا اظہار کر سکتے ہیں؟
۹. ثابتقدم رہنے کا ایک طریقہ کیا ہے؟
۹ ایمان کا مظاہرہ کرنے اور اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہنے کا ایک طریقہ اذیت کے باوجود جرأتمندی سے منادی کرنا ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو آگاہ کِیا تھا: ”میرے نام کے سبب سے سب لوگ تم سے عداوت رکھینگے۔“ (لوقا ۲۱:۱۷) اُس نے اُنہیں بتایا: ”نوکر اپنے مالک سے بڑا نہیں ہوتا۔ اگر انہوں نے مجھے ستایا تو تمہیں بھی ستائینگے۔“ (یوحنا ۱۵:۲۰) یسوع کی بات کے عین مطابق، اُسکی موت کے کچھ ہی دیر بعد، اُسکے پیروکاروں کو دھمکیوں، گرفتاریوں اور مارپیٹ کی صورت میں ستایا گیا۔ (اعمال ۴:۱-۳، ۱۸-۲۱؛ ۵:۱۷، ۱۸، ۴۰) اذیت کا دَور شروع ہو جانے کے باوجود یسوع کے رسول اور دیگر شاگرد دلیری سے خوشخبری کی منادی کرتے رہے۔—اعمال ۴:۲۹-۳۱۔
۱۰. یہوواہ کی حفاظت پر اعتماد خدمتگزاری میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
۱۰ موسیٰ کی طرح یسوع کے ابتدائی پیروکار انسانی آنکھوں سے دکھائی دینے والے اپنے بہتیرے دُشمنوں سے خوفزدہ نہیں تھے۔ یسوع کے شاگرد خدا پر ایمان رکھتے تھے جس کے نتیجے میں وہ اپنے تجربے میں آنے والی سخت اذیت کو برداشت کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ جیہاں، وہ اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہے تھے۔ آجکل، ہم دلیری اور بےخوفی سے اپنا بادشاہتی منادی کا کام سرانجام دیتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ ہماری حفاظت کرتا ہے۔ خدا کا کلام بیان کرتا ہے کہ ”انسان کا ڈر پھندا ہے لیکن جو کوئی [یہوواہ] پر توکل کرتا ہے محفوظ رہے گا۔“ (امثال ۲۹:۲۵) نتیجتاً، نہ تو ہم اذیت سے ڈر کر پیچھے ہٹتے ہیں اور نہ ہی اپنی خدمتگزاری سے شرماتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہمیں پڑوسیوں، ساتھی کارکنوں، ہممکتبوں اور دیگر لوگوں کو دلیری سے گواہی دینے کی تحریک دیتا ہے۔—رومیوں ۱:۱۴-۱۶۔
اندیکھا خدا اپنے لوگوں کی راہنمائی کرتا ہے
۱۱. پطرس اور یہوداہ کے مطابق مسیحی کلیسیا سے وابستہ بعض لوگوں نے روحانیت کے فقدان کا مظاہرہ کیسے کِیا تھا؟
۱۱ ایمان یہوواہ کو اپنی زمینی تنظیم کے راہنما کے طور پر دیکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اسلئے ہم کلیسیا میں بھاری ذمہداریاں اُٹھانے والے اشخاص پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پطرس رسول اور یسوع کے سوتیلے بھائی یہوداہ نے بعض ایسے اشخاص سے خبردار کِیا جن میں روحانیت کی اسقدر کمی تھی کہ وہ مسیحی پیشواؤں پر لعنطعن کرتے تھے۔ (۲-پطرس ۲:۹-۱۲؛ یہوداہ ۸) اگر یہ نقص نکالنے والے لوگ یہوواہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے تو کیا یہ اُسکی موجودگی میں بھی اسی طرح لعنطعن کرتے؟ ہرگز نہیں! پس، یہوواہ کے دکھائی نہ دینے کی وجہ سے ہی یہ جسمانی سوچ رکھنے والے لوگ اُسکے حضور اپنی جوابدہی کو سمجھنے میں ناکام رہے تھے۔
۱۲. کلیسیا کے پیشواؤں کیلئے ہمیں کیسا رویہ دکھانا چاہئے؟
۱۲ سچ ہے کہ مسیحی کلیسیا ناکامل انسانوں پر مشتمل ہے۔ اسلئے بزرگوں سے بھی کبھیکبھار ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جن سے ہم ذاتی طور پر متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہوواہ ان اشخاص کو اپنے گلّے کے چرواہوں کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ (۱-پطرس ۵:۱، ۲) روحانی ذہنیت کے مالک مردوزن یہ سمجھتے ہیں کہ یہ یہوواہ کا اپنے لوگوں کی راہنمائی کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ چنانچہ، مسیحیوں کے طور پر ہم تنقیدی اور شکایتی رُجحان سے اجتناب کرتے ہوئے خدا کے تھیوکریٹک انتظامات کے لئے احترام دکھاتے ہیں۔ اپنے پیشواؤں کی تابعداری کرنے سے ہم یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اندیکھے کو گویا دیکھتے ہیں۔—عبرانیوں ۱۳:۱۷۔
خدا کو اپنے عظیم مُعلم کے طور پر دیکھنا
۱۳، ۱۴. یہوواہ کو عظیم مُعلم کے طور پر دیکھنا آپ کیلئے کیا مطلب رکھتا ہے؟
۱۳ ایک اَور حلقے میں بھی روحانی بصیرت کی ضرورت ہے۔ یسعیاہ نے پیشینگوئی کی تھی: ”تیرا مُعلم پھر تجھ سے روپوش نہ ہوگا بلکہ تیری آنکھیں اُس کو دیکھینگی۔“ (یسعیاہ ۳۰:۲۰) اس بات کو تسلیم کرنے کے لئے ایمان کی ضرورت ہے کہ یہوواہ ہی ہمیں اپنی زمینی تنظیم کے ذریعے تعلیم دے رہا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) خدا کو اپنے عظیم مُعلم کے طور پر دیکھنے کا مطلب مطالعے کی اچھی عادات قائم رکھنا اور مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضر ہونا ہی نہیں ہے۔ اس کا مطلب خدا کی روحانی فراہمیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا ہے۔ مثال کے طور پر، ہمیں یسوع کے ذریعے حاصل ہونے والی یہوواہ کی ہدایت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئے تاکہ ہم روحانی طور پر بہہ کر کہیں دُور نہ چلے جائیں۔—عبرانیوں ۲:۱۔
۱۴ بعضاوقات روحانی خوراک سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے خاص کوشش کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً، ہو سکتا ہے کہ ہم بائبل کے ایسے بیانات پر محض سرسری نگاہ ڈالنے کی طرف مائل ہوں جنہیں ہم سمجھنا مشکل پاتے ہیں۔ مینارِنگہبانی اور جاگو! رسالے پڑھتے وقت، شاید ہم کچھ مضامین کو صرف اسلئے چھوڑ دیں کہ اُن کے نفسِمضمون میں ہمیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ یاپھر مسیحی اجلاسوں کے دوران ہم انتشارِخیال کا شکار ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اگر ہم زیرِبحث نکات پر منطقی انداز میں سوچبچار کرتے ہیں تو ہم چوکس رہ سکتے ہیں۔ روحانی تعلیموتربیت کیلئے ہماری گہری قدردانی ظاہر کرتی ہے کہ ہم یہوواہ کو اپنا عظیم مُعلم تسلیم کرتے ہیں۔
ہمیں حساب دینا پڑیگا
۱۵. بعض نے اپنے کاموں سے یہ کیسے ظاہر کِیا ہے کہ گویا وہ یہوواہ سے پوشیدہ ہیں؟
۱۵ اس ”آخری زمانہ“ میں بدکاری کے بڑھ جانے کی وجہ سے اندیکھے خدا پر ایمان نہایت ضروری ہے۔ (دانیایل ۱۲:۴) بددیانتی اور جنسی بداخلاقی بہت عام ہے۔ بِلاشُبہ، یہ یاد رکھنا اچھا ہے کہ یہوواہ ہمارے انسانی نظروں سے اوجھل کاموں کو بھی دیکھتا ہے۔ بعض اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کی عدمموجودگی میں غیرصحیفائی چالچلن میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بعض نے انٹرنیٹ، ٹیلیویژن اور جدید ٹیکنالوجی سے ایجادکردہ دیگر چیزوں پر نقصاندہ تفریح اور گندی فلمیں اور تصاویر دیکھنے کی آزمائش کی مزاحمت نہیں کی ہے۔ ایسے کام چونکہ اکثر خلوت میں کئے جاتے ہیں اسلئے بعض یہ سوچتے ہیں کہ اُنکے کام یہوواہ سے بھی پوشیدہ ہیں۔
۱۶. یہوواہ کے بلند معیاروں کے مطابق عمل کرنے میں کونسی چیز ہماری مدد کریگی؟
۱۶ پولس رسول کے ان الفاظ کو ذہن میں رکھنا مفید ہے: ”پس ہم میں سے ہر ایک خدا کو اپنا حساب دیگا۔“ (رومیوں ۱۴:۱۲) ہمیں پتہ ہونا چاہئے کہ جب بھی ہم گناہ کرتے ہیں تو ہم دراصل یہوواہ کے خلاف گناہ کرتے ہیں۔ اس بات سے واقف ہونا اُسکے بلند معیاروں کی پابندی کرنے اور ناپاک چالچلن سے گریز کرنے میں ہماری مدد کریگا۔ بائبل ہمیں یاد دِلاتی ہے: ”اُس سے مخلوقات کی کوئی چیز چھپی نہیں بلکہ جس سے ہم کو کام ہے اُسکی نظروں میں سب چیزیں کُھلی اور بےپردہ ہیں۔“ (عبرانیوں ۴:۱۳) سچ ہے کہ ہمیں خدا کو حساب دینا پڑیگا لیکن یہوواہ سے دلی محبت ہی دراصل اُسکی مرضی بجا لانے اور اُسکے راست معیاروں کی اطاعت کرنے کی بنیادی وجہ ہے۔ پس، ہمیں تفریح اور مخالف جنس کیساتھ برتاؤ جیسے معاملات میں عقلمندی سے کام لینا چاہئے۔
۱۷. یہوواہ ہمیں کس دلچسپی کے تحت دیکھتا رہتا ہے؟
۱۷ یہوواہ ہم میں گہری دلچسپی رکھتا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب ہم غلطی کریں اور وہ ہمیں سزا دے۔ اسکے برعکس، مشفقانہ فکرمندی کیساتھ وہ ایک ایسے باپ کی طرح ہر وقت ہمیں دیکھتا رہتا ہے جو اپنے فرمانبردار بچوں کو اجر دینے کا خواہاں ہے۔ یہ جاننا کتنا تسلیبخش ہے کہ ہمارا آسمانی باپ ہمارے ایمان سے خوش ہے اور ”اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے“! (عبرانیوں ۱۱:۶) دُعا ہے کہ ہم یہوواہ پر پُختہ ایمان رکھتے ہوئے ”پورے دل“ سے اُسکی خدمت کرتے رہیں۔—۱-تواریخ ۲۸:۹۔
۱۸. یہوواہ چونکہ ہمیں اور ہماری وفاداری کو دیکھتا ہے اس لئے ہمیں صحائف سے کیا یقیندہانی حاصل ہوتی ہے؟
۱۸ امثال ۱۵:۳ بیان کرتی ہے: ”[یہوواہ] کی آنکھیں ہر جگہ ہیں اور نیکوں اور بدوں کی نگران ہیں۔“ واقعی، خدا بدکاروں کو نگاہ میں رکھتا ہے اور اُنکے اعمال کے مطابق اُنہیں بدلہ دیتا ہے۔ تاہم، اگر ہمارا شمار ”نیکوں“ میں ہوتا ہے تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ ہماری وفاداری کو نگاہ میں رکھتا ہے۔ یہ جاننا کسقدر ایمانافزا ہے کہ ’خداوند میں ہماری محنت بیفائدہ نہیں‘ اور اندیکھا خدا ’ہمارے کام اور محبت کو کبھی فراموش‘ نہیں کرے گا جو ہم نے ’اُس کے نام کے لئے ظاہر کی ہے‘!—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸؛ عبرانیوں ۶:۱۰۔
یہوواہ کو اپنی جانچ کرنے دیں
۱۹. یہوواہ پر مضبوط ایمان کے بعض فوائد کیا ہیں؟
۱۹ یہوواہ کے وفادار خادموں کے طور پر، ہم اُس کی نظر میں نہایت بیشقیمت ہیں۔ (متی ۱۰:۲۹-۳۱) نادیدہ ہونے کے باوجود وہ ہمارے لئے حقیقی ہو سکتا ہے اور ہم اُس کے ساتھ اپنے انمول رشتے کو عزیز رکھ سکتے ہیں۔ اپنے آسمانی باپ کے لئے ایسا رُجحان رکھنا متعدد فوائد کا باعث بنتا ہے۔ ہمارا مضبوط ایمان یہوواہ کے حضور پاک دل اور نیک ضمیر رکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ بےریا ایمان ہمیں دوہری زندگی گزارنے سے بھی باز رکھتا۔ (۱-تیمتھیس ۱:۵، ۱۸، ۱۹) خدا پر ہمارا غیرمتزلزل ایمان اچھا نمونہ قائم کرنے کے علاوہ ہمارے اردگرد کے لوگوں پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۴:۱۲) مزیدبرآں، ایسا ایمان خداپرستانہ چالچلن کو فروغ دیتا ہے جس سے یہوواہ کا دل شاد ہوتا ہے۔—امثال ۲۷:۱۱۔
۲۰، ۲۱. (ا) یہوواہ کا ہم پر نگاہ رکھنا کیوں مفید ہے؟ (ب) ہم زبور ۱۳۹:۲۳، ۲۴ کا اطلاق کیسے کر سکتے ہیں؟
۲۰ اگر ہم واقعی دانشمند ہیں تو ہم اس بات سے خوش ہوں گے کہ یہوواہ ہماری نگرانی کر رہا ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ نہ صرف ہم پر نگاہ رکھے بلکہ ہمارے خیالات اور اعمال کی مکمل جانچ بھی کرے۔ دُعا میں ہم یہوواہ سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہماری جانچ کرے اور دیکھے کہ آیا ہم میں غلط رُجحانات تو نہیں ہیں۔ وہ اپنے مسائل پر قابو پانے اور ضروری ردوبدل کرنے میں یقیناً ہماری مدد کر سکتا ہے۔ پس، زبورنویس کی یہ بات بالکل موزوں ہے: ”اَے خدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دل کو پہچان۔ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل۔“—زبور ۱۳۹:۲۳، ۲۴۔
۲۱ داؤد نے التجا کی کہ یہوواہ یہ دیکھنے کے لئے اُس کی جانچ کرے کہ کہیں اُس میں کوئی ”بُری روش“ تو نہیں ہے۔ زبورنویس کی طرح، کیا ہماری بھی یہ خواہش نہیں کہ خدا ہمارے دلوں کی جانچ کرکے دیکھے کہ آیا ہمارے اندر غلط محرکات تو نہیں ہیں؟ پس، آئیے پورے ایمان کیساتھ یہوواہ سے درخواست کریں کہ وہ ہماری جانچ کرے۔ لیکن اُس صورت میں کیا ہو اگر ہم کسی خطا کی وجہ سے پریشان ہیں یا کوئی باطنی خلِش محسوس کر رہے ہیں؟ ہمیں سنجیدگی کیساتھ اپنے شفیق خدا، یہوواہ سے دُعا کرتے رہنا چاہئے اور فروتنی سے اُسکی پاک روح کی ہدایت اور اُسکے کلام کی مشورت کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ ہماری کمک کو پہنچے گا اور ہمیشہ کی زندگی پر منتج ہونے والی روش اختیار کرنے میں ضرور ہماری مدد کریگا۔—زبور ۴۰:۱۱-۱۳۔
۲۲. اندیکھے خدا کی بابت ہمارا عزم کیا ہونا چاہئے؟
۲۲ اگر ہم یہوواہ کے تقاضوں پر پورا اُترتے ہیں تو وہ ہمیں ابدی زندگی سے نوازے گا۔ ہمیں اُسکی قدرت اور اختیار کو تسلیم کرنا چاہئے جیسےکہ پولس رسول نے بھی یہ بات لکھتے ہوئے اسکا اظہار کِیا: ”ازلی بادشاہ یعنی غیرفانی نادیدہ واحد خدا کی عزت اور تمجید ابدالآباد ہوتی رہے۔ آمین۔“ (۱-تیمتھیس ۱:۱۷) دُعا ہے کہ ہم بھی ہمیشہ یہوواہ کیلئے ایسی دلی تعظیم کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ پس، خواہ کچھ بھی ہو جائے، اندیکھے کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہنے کے ہمارے عزم میں کبھی لغزش نہیں آئیگی۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
• انسانوں کیلئے خدا کو دیکھنا کیسے ممکن ہے؟
• اگر یہوواہ ہمارے نزدیک حقیقی ہے تو ہم اذیت کے وقت کیسا ردِعمل دکھائینگے؟
• یہوواہ کو اپنے عظیم مُعلم کے طور پر دیکھنے کا کیا مطلب ہے؟
• ہمیں یہ خواہش کیوں رکھنی چاہئے کہ یہوواہ ہماری جانچ کرے؟
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
موسیٰ نے فرعون سے خائف ہوئے بغیر ہر کام ایسے کِیا گویا وہ اندیکھے خدا، یہوواہ کو دیکھ سکتا تھا
[صفحہ ۲۱ پر تصویر]
ہمیں کبھی بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہمارے کام یہوواہ سے پوشیدہ ہیں
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
ہم خدا کو اپنے عظیم مُعلم کے طور پر دیکھتے ہوئے خلوصدلی سے اُس کے علم کے طالب رہتے ہیں