ان آخری ایّام میں اتحاد برقرار رکھیں
”تمہارا چالچلن . . . خوشخبری کے موافق رہے . . . تم ایک رُوح میں قائم ہو اور انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہوکر جانفشانی کرتے ہو۔“—فلپیوں ۱:۲۷۔
۱. یہوؔواہ کے گواہوں اور دُنیا کے درمیان کیا فرق پایا جاتا ہے؟
یہ ”اخیر زمانہ“ ہے۔ بلاشُبہ، ”بُرے دن“ آ گئے ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵) اس ”آخری زمانہ“ میں، انسانی معاشرے کے اندر اسکی ہلچل کیساتھ، یہوؔواہ کے گواہ اپنے امنو اتحاد کی وجہ سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ (دانیایل ۱۲:۴) لیکن یہوؔواہ کے پرستاروں کے عالمگیر خاندان سے تعلق رکھنے والے ہر فرد سے اس اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے جانفشانی کرنے کا تقاضا کِیا جاتا ہے۔
۲. اتحاد برقرار رکھنے کی بابت پولسؔ نے کیا کہا تھا، اور ہم کس سوال پر توجہ دینگے؟
۲ پولسؔ رسول نے ساتھی مسیحیوں کو اتحاد برقرار رکھنے کی تاکید کی تھی۔ اُس نے لکھا: ”تمہارا چالچلن مسیح کی خوشخبری کے موافق رہے تاکہ خواہ مَیں آؤں اور تمہیں دیکھوں خواہ نہ آؤں تمہارا حال سنوں کہ تم ایک رُوح میں قائم ہو اور انجیل کے ایمان کے لئے ایک جان ہوکر جانفشانی کرتے ہو۔ اور کسی بات میں مخالفوں سے دہشت نہیں کھاتے۔ یہ اُنکے لئے ہلاکت کا صاف نشان ہے لیکن تمہاری نجات کا اور یہ خدا کی طرف سے ہے۔“ (فلپیوں ۱:۲۷، ۲۸) پولسؔ کے الفاظ صاف طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں مسیحیوں کے طور پر ملکر کام کرنا چاہئے۔ پس، ایسی صورتحال میں، ان صبرآزما ایّام میں اپنے مسیحی اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے کونسی چیز ہماری مدد کریگی؟
الہٰی مرضی کی اطاعت کریں
۳. کب اور کیسے پہلے نامختون غیریہودی مسیح کے پیروکار بنے؟
۳ اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہر وقت الہٰی مرضی کی اطاعت کرنا ہے۔ یہ ہماری سوچ میں ردوبدل کا تقاضا کر سکتا ہے۔ یسوؔع مسیح کے ابتدائی یہودی شاگردوں پر غور کریں۔ جب ۳۶ س.ع. میں، پطرؔس رسول نے پہلےپہل نامختون غیریہودیوں کو منادی کی تو خدا نے ان غیرقوموں کے لوگوں پر رُوحاُلقدس نازل کی، اور اُنہیں بپتسمہ دیا گیا۔ (اعمال، باب ۱۰) اُسوقت تک، صرف یہودی، یہودیت کے نومرید، اور سامری یسوؔع مسیح کے پیروکار بنے تھے۔—اعمال ۸:۴-۸، ۲۶-۳۸۔
۴. کُرنیلیسؔ کیساتھ جوکچھ واقع ہوا اُسکی وضاحت کرنے کے بعد، پطرؔس نے کیا کہا تھا، اور اس نے یسوؔع کے یہودی شاگردوں کو کس اُلجھن میں ڈال دیا؟
۴ جب یرؔوشلیم میں رسولوں اور دیگر بھائیوں کو کُرنیلیسؔ اور دوسرے غیریہودیوں کی تبدیلئمذہب کی بابت معلوم ہوا تو وہ پطرؔس کی رپورٹ سننے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ کُرنیلیسؔ اور دوسرے ایمان لانے والے غیریہودیوں کے سلسلے میں جوکچھ واقع ہو چکا تھا اُسکی وضاحت کرنے کے بعد، رسول نے ان الفاظ کیساتھ اختتام کِیا: ”پس جب خدا نے اُنکو [ایمان لانے والے غیریہودیوں کو] بھی وہی نعمت [روحالقدس] دی جو ہمکو [یہودیوں کو] خداوند یسوؔع مسیح پر ایمان لاکر ملی تھی تو مَیں کون تھا کہ خدا کو روک سکتا؟“ (اعمال ۱۱:۱-۱۷) اس بات نے یسوؔع مسیح کے یہودی پیروکاروں کو اُلجھن میں مبتلا کر دیا۔ کیا وہ خدا کی مرضی کی اطاعت کرینگے اور ایمان لانے والے غیریہودیوں کو اپنے ساتھی پرستاروں کے طور پر قبول کرینگے؟ یا کیا یہوؔواہ کے زمینی خادموں کا اتحاد خطرے میں پڑ جائیگا؟
۵. رسولوں اور دیگر بھائیوں نے اس حقیقت کیلئے کیسے ردِعمل دکھایا کہ خدا نے غیریہودیوں کو توبہ کی توفیق بخشی تھی، اور ہم اس رویے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۵ بیان کہتا ہے: ”وہ [رسول اور دیگر بھائی] یہ سنکر چپ رہے اور خدا کی تمجید کرکے کہنے لگے کہ پھرتو بیشک خدا نے غیرقوموں کو بھی زندگی کے لئے توبہ کی توفیق دی ہے۔“ (اعمال ۱۱:۱۸) اس رویے نے یسوؔع کے پیروکاروں کے اتحاد کو محفوظ رکھا اور فروغ بخشا۔ تھوڑے ہی عرصے میں، غیریہودیوں یا غیرقوموں کے لوگوں میں منادی کا کام پھیلنے لگا اور ایسی کارگزاریوں پر یہوؔواہ کی برکت تھی۔ جب کوئی نئی کلیسیا تشکیل دینے کے سلسلے میں ہمارے تعاون کیلئے درخواست کی جاتی ہے یا جب خدا کی روحالقدس کے زیرِہدایت کوئی تھیوکریٹک ردوبدل کِیا جاتا ہے تو خود ہمیں بھی بِلاتردد مان لینا چاہئے۔ ہمارا پورے دل سے تعاون یہوؔواہ کو خوش کریگا اور ان آخری ایّام میں اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے ہماری مدد کریگا۔
سچائی سے چمٹے رہیں
۶. یہوؔواہ کے پرستاروں کے اتحاد پر سچائی کیا اثر ڈالتی ہے؟
۶ یہوؔواہ کے پرستاروں کے خاندان کے حصے کے طور پر، ہم اتحاد قائم رکھتے ہیں کیونکہ ہم سب ”خدا سے تعلیمیافتہ“ ہیں اور اُسکی منکشف سچائی کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ (یوحنا ۶:۴۵؛ زبور ۴۳:۳) چونکہ ہماری تعلیمات خدا کے کلام پر مبنی ہیں اسلئے ہم سب ہمآہنگی سے کلام کرتے ہیں۔ ہم خوشی کیساتھ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے یہوؔواہ کی طرف سے فراہمکردہ روحانی خوراک کو قبول کرتے ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) ایسی یکساں تعلیم دُنیابھر میں اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے ہماری مدد کرتی ہے۔
۷. اگر ہمیں انفرادی طور پر کسی خاص نقطے کو سمجھنے میں مشکل کا سامنا ہو تو ہمیں کیا کرنا چاہئے، اور ہمیں کیا نہیں کرنا چاہئے؟
۷ اگر ہمیں انفرادی طور پر کسی خاص نقطے کو سمجھنے یا قبول کرنے میں مشکل پیش آتی ہے تو کیا ہو؟ ہمیں حکمت کیلئے دُعا کرنی چاہئے اور صحائف اور مسیحی مطبوعات میں سے تحقیق کرنی چاہئے۔ (امثال ۲:۴، ۵؛ یعقوب ۱:۵-۸) کسی ایک بزرگ سے باتچیت مدد کر سکتی ہے۔ اگر بات پھربھی سمجھ میں نہیں آتی تو یہ بہتر ہوگا کہ معاملے کی بابت زیادہ فکرمند نہ ہوا جائے۔ شاید اس موضوع پر مزید معلومات شائع ہونگی، اور پھر ہماری سمجھ وسیع ہو جائیگی۔ تاہم، کلیسیا کے دیگر افراد کو اپنی ذاتی متضاد رائے قبول کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کرنا غلط ہوگا۔ یہ اتحاد کو محفوظ رکھنے کیلئے محنت کرنے کی بجائے ناموافقت کا بیج بونا ہوگا۔ یہ کسقدر عمدہ بات ہے کہ ”حق پر چلتے“ رہیں اور دوسروں کی بھی ایسا کرنے کیلئے حوصلہافزائی کریں!—۳-یوحنا ۴۔
۸. سچائی کیلئے کونسا رویہ درست ہے؟
۸ پہلی صدی میں، پولسؔ نے کہا: ”اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت رُوبرو دیکھینگے۔ اِس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت ایسے پورے طور پر پہچانونگا جیسے میں پہچانا گیا ہوں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۱۲) اگرچہ ابتدائی مسیحی تمام تفصیلات کو نہیں سمجھتے تھے توبھی وہ متحد رہے۔ اب ہمیں یہوؔواہ کے مقصد اور اُسکے کلامِحق کی بڑی واضح سمجھ حاصل ہے۔ پس آئیے اُس سچائی کیلئے شکرگزار ہوں جو ہمیں ’وفادار نوکر‘ سے حاصل ہوئی ہے۔ اور آئیے ممنون ہوں کہ یہوؔواہ نے اپنی تنظیم کے ذریعے ہماری راہنمائی کی ہے۔ اگرچہ ہمیں ہمیشہ اسی حد تک علم حاصل نہیں تھا، ہم روحانی اعتبار سے بھوکے یا پیاسے نہیں رہے ہیں۔ اسکی بجائے، ہمارے چرواہے، یہوؔواہ، نے ہمیں متحد رکھا ہے اور ہماری اچھی دیکھبھال کی ہے۔—زبور ۲۳:۱-۳۔
زبان کا درست استعمال کریں!
۹. اتحاد کو فروغ دینے کیلئے زبان کو کیسے استعمال کِیا جا سکتا ہے؟
۹ زبان کو دوسروں کی حوصلہافزائی کیلئے استعمال کرنا اتحاد اور اخوت کے جذبے کو فروغ دینے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ جس خط نے ختنے کے مسئلے کو حل کِیا، جسے پہلی صدی کی گورننگ باڈی نے بھیجا تھا، حوصلہافزائی کا ایک ذریعہ تھا۔ اسے پڑھنے کے بعد، اؔنطاکیہ کے غیریہودی شاگرد ”تسلیبخش مضمون سے خوش ہوئے۔“ یہوؔداہ اور سیلاؔس نے، جنہیں یرؔوشلیم سے خط دیکر بھیجا گیا تھا، ”بھائیوں کو بہت سی نصیحت کر کے مضبوط کر دیا۔“ بیشک، پولسؔ اور برؔنباس کی موجودگی نے بھی اؔنطاکیہ میں ساتھی ایمانداروں کو حوصلہافزائی اور تقویت بخشی تھی۔ (اعمال ۱۵:۱-۳، ۲۳-۳۲) جب ہم مسیحی اجلاسوں کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنی موجودگی اور تقویتبخش تبصروں سے ’ایکدوسرے کی حوصلہافزائی‘ کرتے ہیں تو ہم بھی ایسا ہی کر سکتے ہیں۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
۱۰. اگر گالیگلوچ واقع ہو جاتی ہے تو اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟
۱۰ تاہم، زبان کا غلط استعمال ہمارے اتحاد کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ”زبان بھی ایک چھوٹا سا عضو ہے اور بڑی شیخی مارتی ہے،“ شاگرد یعقوؔب نے لکھا۔ ”دیکھو۔ تھوڑی سی آگ سے کتنے بڑے جنگل میں آگ لگ جاتی ہے۔“ (یعقوب ۳:۵) یہوؔواہ نفاق ڈالنے والوں سے نفرت کرتا ہے۔ (امثال ۶:۱۶-۱۹) ایسی گفتگو تفرقے کا باعث بن سکتی ہے۔ پس، اس وقت، کیا ہو جب گالیگلوچ کی جاتی ہے یعنی کسی کے خلاف بیہودہگوئی کا انبار لگایا جاتا ہے یا اُس مرد یا عورت کو توہینآمیز گفتگو کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ بزرگ خطاکار کی مدد کرنے کی کوشش کرینگے۔ تاہم، ایک غیرتائب گالی بکنے والے کو خارج کر دینا چاہئے تاکہ کلیسیا کا امن، نظمونسق، اور اتحاد برقرار رکھا جا سکے۔ بہرحال، پولسؔ نے لکھا: ”اگر کوئی بھائی کہلا کر . . . گالی دینے والا . . . ہو تو . . . ایسے کیساتھ کھانا تک نہ کھانا۔“—۱-کرنتھیوں ۵:۱۱۔
۱۱. اگر ہم نے کوئی ایسی بات کہہ دی ہے جس نے ہمارے اور کسی ساتھی ایماندار کے درمیان کشیدگی پیدا کر دی ہے تو فروتنی کیوں اہم ہے؟
۱۱ زبان کو لگام دینا اتحاد برقرار رکھنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے۔ (یعقوب ۳:۱۰-۱۸) لیکن فرض کریں کہ ہم نے کوئی ایسی بات کہی ہے جو ہمارے اور کسی ساتھی مسیحی کے مابین کشیدگی کا باعث بنی ہے۔ تو کیا اگر ضروری ہو تو معذرت کرتے ہوئے، اپنے بھائی سے صلح کرنے میں پہل کرنا مناسب نہیں ہوگا؟ (متی ۵:۲۳، ۲۴) سچ ہے کہ یہ فروتنی یا انکساری کا تقاضا کرتا ہے، لیکن پطرؔس نے لکھا: ”ایک دوسرے . . . کیلئے فروتنی سے کمربستہ رہو اسلئے کہ خدا مغروروں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“ (۱-پطرس ۵:۵) فروتنی ہمیں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے اور موزوں معذرت کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے بھائیوں کیساتھ ’صلح کے طالب‘ ہونے کی تحریک دیتی ہے۔ یہ یہوؔواہ کے خاندان کے اتحاد کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔—۱-پطرس ۳:۱۰، ۱۱۔
۱۲. یہوؔواہ کے لوگوں کے اتحاد کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے کیلئے ہم زبان کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟
۱۲ اگر ہم اپنی زبان کا درست استعمال کرتے ہیں تو ہم یہوؔواہ کی تنظیم میں شامل لوگوں کے درمیان خاندانی جذبے کو فروغ دے سکتے ہیں۔ چونکہ پولسؔ نے ایسا ہی کِیا تھا اسلئے وہ تھسلنیکےؔ والوں کو یاد دلا سکتا تھا: ”تم جانتے ہوکہ جس طرح باپ اپنے بچوں کے ساتھ کرتا ہے اُسی طرح ہم بھی تم میں سے ہر ایک کو نصیحت کرتے اور دلاسا دیتے اور سمجھاتے رہے۔ تاکہ تمہارا چالچلن خدا کے لائق ہو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۱، ۱۲) اس سلسلے میں ایک عمدہ نمونہ قائم کرتے ہوئے، پولسؔ ساتھی مسیحیوں کو ”کمہمتوں کو دلاسا“ دینے کی تاکید کر سکتا تھا۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) ذرا سوچیں کہ اپنی زبان کو دوسروں کو تسلی، حوصلہ، اور تقویت دینے کیلئے استعمال کرنے سے ہم کتنی نیکی کر سکتے ہیں۔ جیہاں، ”باموقع بات کیا خوب ہے!“ (امثال ۱۵:۲۳) مزیدبرآں، ایسی گفتگو یہوؔواہ کے لوگوں کے اتحاد کو بڑھانے اور برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
معاف کرنے والے بنیں!
۱۳. ہمیں معاف کرنے والے کیوں ہونا چاہئے؟
۱۳ اگر ہم مسیحی اتحاد کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو خطاکار کو معاف کرنا ضروری ہے جس نے معافی مانگ لی ہے۔ اور ہمیں کتنی مرتبہ معاف کرنا چاہئے؟ یسوؔع نے پطرؔس کو بتایا تھا: ”مَیں تجھ سے یہ نہیں کہتا کہ سات بار بلکہ سات دفعہ کے ستر بار تک۔“ (متی ۱۸:۲۲) اگر ہم معاف کرنے والے نہیں ہیں تو ہم اپنے ہی مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ وہ کیسے؟ دشمنی اور کینہپروری ہم سے ذہنی سکون چھین لیگی۔ اور اگر ہم بیرحم اور معاف نہ کرنے والے اطوار کیلئے مشہور ہو جاتے ہیں تو ہم خود کو دُکھ میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ (امثال ۱۱:۱۷) کینہ رکھنا خدا کو ناخوش کرتا ہے اور سنگین گناہ کا باعث بن سکتا ہے۔ (احبار ۱۹:۱۸) یاد کریں کہ بدکار ہیرؔودیاس کے بنائے گئے منصوبے کے باعث جو اُس سے ”دُشمنی“ رکھتی تھی، یوؔحنا اصطباغی کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔—مرقس ۶:۱۹-۲۸۔
۱۴. (ا) متی ۶:۱۴، ۱۵ ہمیں معافی کی بابت کیا سکھاتی ہیں؟ (ب) کیا ضروری ہے کہ کسی کو معاف کرنے سے پہلے ہم ہمیشہ معذرت ظاہر کرنے کا انتظار کریں؟
۱۴ یسوؔع کی نمونے کی دُعا میں یہ الفاظ شامل ہیں: ”ہمارے گناہ معاف کر کیونکہ ہم بھی اپنے ہر قرضدار کو معاف کرتے ہیں۔“ (لوقا ۱۱:۴) اگر ہم معاف کرنے والے نہیں ہیں تو ہم اس خطرے میں پڑ جاتے ہیں کہ ایک دن یہوؔواہ خدا بھی ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کریگا، کیونکہ یسوؔع نے کہا تھا: ”اگر تم آدمیوں کے قصور معاف کرو گے تو تمہارا آسمانی باپ بھی تمکو معاف کریگا۔ اور اگر تم آدمیوں کے قصور معاف نہ کرو گے تو تمہارا باپ بھی تمہارے قصور معاف نہ کریگا۔“ (متی ۶:۱۴، ۱۵) لہٰذا، اگر ہم یہوؔواہ کے پرستاروں کے خاندان میں اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے واقعی اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہم معاف کرنے والے بنیں گے، شاید محض ایسی خطا کو فراموش کرتے ہوئے جو ممکن ہے کہ نادانی کے باعث سرزد ہوئی ہو اور جس میں بُرا ارادہ شامل نہ ہو۔ پولسؔ نے کہا: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے خداوند نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تم بھی کرو۔“ (کلسیوں ۳:۱۳) اگر ہم معاف کرنے والے ہیں تو ہم یہوؔواہ کی تنظیم کے بیشقیمت اتحاد کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اتحاد اور ذاتی فیصلے
۱۵. ذاتی فیصلے کرتے وقت اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے کونسی چیز یہوؔواہ کے لوگوں کی مدد کرتی ہے؟
۱۵ خدا نے ہمیں ذاتی فیصلے کرنے کے استحقاق اور ذمہداری کیساتھ آزاد مرضی کے مالک کی حیثیت سے خلق کِیا تھا۔ (استثنا ۳۰:۱۹، ۲۰؛ گلتیوں ۶:۵) لہٰذا، ہم اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کے قابل ہیں کیونکہ ہم بائبل قوانین اور اصولوں کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ ہم ذاتی فیصلے کرتے وقت اُن پر غوروفکر کرتے ہیں۔ (اعمال ۵:۲۹؛ ۱-یوحنا ۵:۳) فرض کریں کہ غیرجانبداری کے سلسلے میں کوئی مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھتے ہوئے کہ ہم ”دُنیا کے نہیں“ اور یہ کہ ہم نے ’اپنی تلواروں کو توڑ کر پھالیں بنا لیا ہے‘ ہم ایک ہوشمندانہ ذاتی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ (یوحنا ۱۷:۱۶؛ یسعیاہ ۲:۲-۴) اسی طرح، جب ہمارے لئے حکومت کیساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کوئی ذاتی فیصلہ کرنا ضروری ہے تو ہم دُنیاوی معاملات میں ”اعلیٰ حکومتوں“ کے تابع رہنے کے ساتھ ساتھ، ”جوکچھ خدا کا ہے خدا“ کو ادا کرنے کی بابت بائبل جوکچھ بیان کرتی ہے اُس کا لحاظ رکھتے ہیں۔ (لوقا ۲۰:۲۵؛ رومیوں ۱۳:۱-۷؛ ططس ۳:۱، ۲) جیہاں، ذاتی فیصلے کرتے وقت بائبل قوانین اور اصولوں کا خیال رکھنا ہمارے مسیحی اتحاد کو برقرار رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
۱۶. ایسے فیصلے کرتے وقت جو صحیفائی طور پر نہ تو صحیح ہیں نہ ہی غلط ہیں ہم اتحاد کو قائم رکھنے میں کیسے مدد دے سکتے ہیں؟ مثال دیں۔
۱۶ ہم ایسا فیصلہ کرتے وقت بھی مسیحی اتحاد کو قائم رکھ سکتے ہیں جو مکمل طور پر ذاتی نوعیت کا ہے اور صحیفائی لحاظ سے نہ تو صحیح نہ ہی غلط ہے۔ کس طرح سے؟ دوسروں کیلئے پُرمحبت فکرمندی ظاہر کرنے سے جو ہمارے فیصلے سے متاثر ہونگے۔ مثال کے طور پر: قدیم کرنتھسؔ کی کلیسیا میں بُتوں کیلئے قربان کئے جانے والے گوشت کے سلسلے میں ایک سوال اُٹھ کھڑا ہوا۔ بیشک، ایک مسیحی بُتپرستانہ تقریب میں شرکت نہیں کریگا۔ تاہم، موزوں طور پر ذبحکردہ اس طرح کا بچا ہوا گوشت کھانا گناہ نہیں تھا جسے عام بازار میں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ (اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹؛ ۱-کرنتھیوں ۱۰:۲۵) پھربھی، بعض مسیحیوں کے ضمیر اس گوشت کو کھانے کے سلسلے میں پریشانی میں مبتلا تھے۔ اسلئے پولسؔ نے دوسرے مسیحیوں کو اُنہیں ٹھوکر کھلانے سے گریز کرنے کی تاکید کی۔ دراصل، اُس نے لکھا: ”اگر کھانا میرے بھائی کو ٹھوکر کھلائے تو مَیں کبھی گوشت نہ کھاؤنگا تاکہ اپنے بھائی کے لئے ٹھوکر کا سبب نہ بنوں۔“ (۱-کرنتھیوں ۸:۱۳) لہٰذا، اگر کوئی بائبل قانون یا اصول نہ بھی الجھا ہو، توبھی ذاتی فیصلے کرتے وقت جو خدا کے خاندان کے اتحاد کو متاثر کر سکتے ہیں دوسروں کیلئے پاسولحاظ دکھانا کتنی پُرمحبت بات ہے!
۱۷. جب ہمارے لئے ذاتی فیصلے کرنا ضروری ہو تو کیا کرنا دانشمندی کی بات ہے؟
۱۷ اگر ہمیں یقین نہیں ہے کہ کونسی روش اختیار کریں تو اسطرح سے فیصلہ کرنا دانشمندی کی بات ہے جو ہمیں ایک صاف ضمیر رکھنے کی اجازت دیتا ہے، اور دوسروں کو ہمارے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔ (رومیوں ۱۴:۱۰-۱۲) یقیناً، جب ہمیں کوئی ذاتی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ہمیں دُعا میں یہوؔواہ کی راہنمائی کے خواہاں ہونا چاہئے۔ زبورنویس کی طرح، ہم اعتماد کیساتھ دُعا کر سکتے ہیں: ”اپنے کان میری طرف جھکا۔ . . . تُو ہی میری چٹان اور میرا قلعہ ہے۔ اسلئے اپنے نام کی خاطر میری رہبری اور رہنمائی کر۔“—زبور ۳۱:۲، ۳۔
ہمیشہ مسیحی اتحاد قائم رکھیں
۱۸. پولسؔ نے مسیحی کلیسیا کے اتحاد کی مثال کیسے دی تھی؟
۱۸ پولسؔ نے مسیحی کلیسیا کے اتحاد کو سمجھانے کیلئے، ۱-کرنتھیوں ۱۲ باب میں انسانی بدن کو استعمال کِیا۔ اُس نے باہمی انحصار اور ہر عضو کی اہمیت پر زور دیا۔ ”اگر وہ سب ایک ہی عضو ہوتے تو بدن کہاں ہوتا؟“ پولسؔ نے استفسار کِیا۔ ”مگر اب اعضا تو بہت سے ہیں لیکن بدن ایک ہی ہے۔ پس آنکھ ہاتھ سے نہیں کہہ سکتی کہ مَیں تیری محتاج نہیں اور نہ سر پاؤں سے کہہ سکتا ہے کہ مَیں تیرا محتاج نہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۹-۲۱) اسی طرح، یہوؔواہ کے پرستاروں کے خاندان میں ہم سب ایک ہی کام سرانجام نہیں دیتے۔ پھربھی، ہم متحد ہیں، اور ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
۱۹. ہم خدا کی روحانی فراہمیوں سے کیسے مستفید ہو سکتے ہیں، اور اس سلسلے میں ایک عمررسیدہ بھائی نے کیا کہا تھا؟
۱۹ جیسے بدن کو خوراک، نگہداشت، اور راہنمائی کی ضرورت ہے، اُسی طرح ہمیں اُن روحانی فراہمیوں کی ضرورت ہے جو خدا ہمیں اپنے کلام، روح، اور تنظیم کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ ان فراہمیوں سے فائدہ اُٹھانے کیلئے ہمیں یہوؔواہ کے زمینی خاندان کا حصہ ہونا چاہئے۔ خدا کی خدمت میں بہت سالوں کے بعد، ایک بھائی نے لکھا: ”مَیں بےحد شکرگزار ہوں کہ مَیں نے یہوؔواہ کے مقاصد کے علم میں ۱۹۱۴ سے پیشتر کے اُن ابتدائی ایّام سے لیکر جبکہ سچائی اتنی واضح نہیں تھی . . . آج دن تک جبکہ سچائی دوپہر کے سورج کی مانند چمکتی ہے زندگی بسر کی ہے۔ میرے نزدیک اگر کوئی چیز نہایت اہم رہی ہے تو وہ یہوؔواہ کی دیدنی تنظیم کی قربت میں رہنا ہے۔ میرے ابتدائی تجربے نے مجھے سکھایا کہ انسانی فہم پر بھروسہ کرنا کتنا مبالغہآمیز ہے۔ ایک دفعہ جب یہ نقطہ میرے ذہن میں آ گیا تو مَیں نے وفادار تنظیم کیساتھ وابستہ رہنے کا ارادہ کر لیا۔ کوئی شخص اَور کس طریقے سے یہوؔواہ کی حمایت اور برکت حاصل کر سکتا ہے؟“
۲۰. یہوؔواہ کے لوگوں کے طور پر اپنے اتحاد کی بابت ہمیں کیا کرنے کیلئے پُرعزم ہونا چاہئے؟
۲۰ یہوؔواہ نے اپنے لوگوں کو دُنیاوی تاریکی اور تفرقے سے بلایا ہے۔ (۱-پطرس ۲:۹) وہ ہمیں اپنے ساتھ اور ہمارے ساتھی ایمانداروں کے ساتھ بابرکت اتحاد میں لے آیا ہے۔ یہ اتحاد اُس نئے نظامالعمل میں موجود رہے گا جو اب بہت قریب ہے۔ اسلئے، ان تشویشناک آخری ایّام میں، آئیے ’خود کو محبت سے مُلبّس رکھیں‘ اور اپنے بیشقیمت اتحاد کو فروغ دینے اور برقرار رکھنے کیلئے ہم جوکچھ کر سکتے ہیں وہ سب کریں۔—کلسیوں ۳:۱۴۔ (۱۵ ۰۷/۱۵ w۹۶)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ کیوں خدا کی مرضی پوری کرنا اور سچائی سے چمٹے رہنا اتحاد کو برقرار رکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے؟
▫ اتحاد زبان کے موزوں استعمال کیساتھ کیسے وابستہ ہے؟
▫ معاف کرنے والا بننے میں کیا کچھ شامل ہے؟
▫ ذاتی فیصلے کرتے وقت ہم کیسے اتحاد برقرار رکھ سکتے ہیں؟
▫ مسیحی اتحاد کیوں قائم رکھیں؟
[تصویر]
جیسے یہ چرواہا اپنے گلّے کو اکٹھا رکھتا ہے ویسے ہی یہوؔواہ اپنے لوگوں کو متحد رکھتا ہے
[تصویریں]
جب ہم ناراضگی کا باعث بنتے ہیں تو فروتنی سے معذرت ظاہر کرنے سے، ہم اتحاد کو فروغ دیتے ہیں