اپنی ساری فکر یہوؔواہ پر ڈال دیں
”خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سربلند کرے۔ اور اپنی ساری فکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔“—۱-پطرس ۵:۶، ۷۔
۱. فکر ہم کو کیسے متاثر کر سکتی ہے اور اسکی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟
فکر ہماری زندگی کو شدت سے متاثر کر سکتی ہے۔ اسکو موسمی خرابی کے ساتھ تشبِیہ دی جا سکتی ہے جو ریڈیو پر سنائی دینے والی ایک خوبصورت دُھن کو بگاڑ دیتی ہے۔ اگر ریڈیائی لہروں میں کوئی خلل پیدا نہ ہو تو سُریلے نغمات سے لطف اُٹھایا جا سکتا ہے اور سکون کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ تاہم، موسمی خرابی کا ناگوار شور ہمارے لئے جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا باعث بنتے ہوئے ایک میٹھے سُر کو بھی بگاڑ سکتی ہے۔ فکر ہماری متانت پر ایسا ہی اثر رکھ سکتی ہے۔ یہ ہم پر اتنا زیادہ بوجھ ڈال سکتی ہے کہ ہم نہایت ہی اہم معاملات پر بھی توجہ نہیں دے سکتے۔ بیشک، ”آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے۔“—امثال ۱۲:۲۵۔
۲. یسوؔع مسیح نے ”زندگی کی فکروں“ کی بابت کیا کہا تھا؟
۲ یسوؔع مسیح نے فکر کی زیادتی سے انتشارِخیال میں پڑ جانے کے خطرے کا ذکر کِیا تھا۔ آخری ایام کی بابت اپنی پیشینگوئی میں اُس نے تاکید کی: ”پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے دل خمار اور نشہبازی اور اس زندگی کی فکروں سے سُست ہو جائیں اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آ پڑے۔ کیونکہ جتنے لوگ تمام رویِزمین پر موجود ہونگے اُن سب پر وہ اسی طرح آ پڑیگا۔ پس ہر وقت جاگتے اور دعا کرتے رہو تاکہ تم کو ان سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور ابنِآدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو۔“ (لوقا ۲۱:۳۴-۳۶) جس طرح کھانے کی زیادتی اور بلانوشی سُست ذہنی حالت کو پیدا کر سکتی ہیں اُسی طرح ”زندگی کی فکروں“ سے دب جانا ہمارے لئے المناک نتائج کے ساتھ ذہنی سوجھ بوجھ کو کھو دینے کا باعث بن سکتا ہے۔
فکر جو کچھ ہے
۳. ”فکر“ کی تشریح کیسے کی گئی ہے اور اسکے بعض اسباب کیا ہیں؟
۳ ”فکر“ کی تشریح ”عموماً کسی سر پر کھڑی یا متوقع مصیبت کی بابت ذہن کی تکلیفدہ یا پریشانکُن بیقراری“ کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ ”پُرخوف پریشانی یا فکر“ ہے اور ”پریشانی اور خوف کا ایک غیرمعمولی اور ناقابلِبرداشت احساس ہے جسکا نشان عضویاتی علامات (جیسے کہ پسینہ آنا، اعصاب کا کھنچ جانا اور دھڑکن کا تیز ہو جانا)، خطرے کی حقیقت اور نوعیت کی بابت شُبہ اور کسی کا اس پر غالب آنے کی اپنی لیاقت کے سلسلے میں خود پر شک کرنا ہے۔“ (ویبسٹرز نائنتھ نیو کولجئیٹ ڈکشنری) لہٰذا فکر ایک پیچیدہ مسئلہ ہو سکتی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں بیماری، بڑھاپا، جرم کا خوف، نوکری کا نقصان اور اپنے خاندان کی فلاح کیلئے فکرمندی ہے۔
۴. (ا) لوگوں کی بابت اور اُنکی فکروں کی بابت کیا یاد رکھنا اچھا ہوگا؟ (ب) اگر ہم فکر کا تجربہ کر رہے ہیں تو کیا کِیا جا سکتا ہے؟
۴ ظاہر ہے کہ جیسے پریشانی کے مختلف درجے ہوتے ہیں اُسی طرح ایسی حالتیں یا حالات ہوتے ہیں جو اس کا سبب بن سکتے ہیں۔ تمام لوگ کسی صورتحال کیلئے ایک ہی جیسا ردِعمل نہیں دکھاتے۔ لہٰذا، ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگرچہ کوئی چیز ہمیں پریشان نہیں کرتی، یہ یہوؔواہ کے ہمارے ساتھی پرستاروں میں سے بعض کیلئے سخت پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے۔ اُس وقت کیا کِیا جا سکتا ہے اگر پریشانی ایسی حد تک پہنچ جاتی ہے کہ ہم خدا کے کلام کی ہمآہنگ اور راحتبخش سچائیوں پر غوروخوض نہیں کر سکتے؟ کیا ہو اگر ہم پریشانی کا اسقدر شکار ہو جاتے ہیں کہ ہم یہوؔواہ کی حاکمیت اور مسیحی راستی کے معاملات نظر کے سامنے رکھنے کے لائق نہیں رہتے؟ ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے حالات کو بدلنے کے قابل نہ ہوں۔ اسکی بجائے، ہمیں صحیفائی نکات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو زندگی کے مشکل مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والی بےجا فکر پر قابو پانے کیلئے ہماری مدد کرینگے۔
مدد دستیاب ہے
۵. ہم زبور ۵۵:۲۲ کے مطابقت میں کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
۵ جب مسیحیوں کو روحانی مدد درکار ہو اور فکروں کے بوجھ تلے دبے ہوں تو وہ خدا کے کلام سے تسلی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ قابلِبھروسہ راہنمائی فراہم کرتا ہے اور ہمیں بہت سی یقیندہانیاں کراتا ہے کہ یہوؔواہ کے وفادار خادموں کے طور پر ہم تنہا نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر، زبورنویس دؔاؤد نے یہ گیت گایا: ”اپنا بوجھ خداوند پر ڈالدے۔ وہ تجھے سنبھالیگا۔ وہ صادق کو کبھی جنبش نہ کھانے دیگا۔“ (زبور ۵۵:۲۲) ہم طرح ان الفاظ کی مطابقت میں کیسے عمل کر سکتے ہیں؟ اپنی تمام فکروں، پریشانیوں، خدشات اور مایوسیوں کو اپنے پُرمحبت آسمانی باپ پر ڈال دینے سے۔ یہ ہمیں احساسِتحفظ اور دلی اطمینان بخشنے کیلئے کارآمد ہوگا۔
۶. فلپیوں ۴:۶، ۷ کے مطابق دعا ہمارے لئے کیا کر سکتی ہے؟
۶ اگر ہمیں اپنا بوجھ بشمول اپنی تمامتر فکر کے یہوؔواہ پر ڈالنا ہے تو باقاعدہ دلی دعا لازمی ہے۔ یہ ہمارے لئے باطنی اطمینان کا باعث بنے گی کیونکہ پولسؔ رسول نے لکھا تھا: ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگذاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع میں محفوظ رکھیگا۔“ (فلپیوں ۴:۶، ۷) ”خدا کا“ بےنظیر ”اطمینان“ ایک ایسا غیرمعمولی سکون ہے جس سے یہوؔواہ کے مخصوصشدہ خادم نہایت صبرآزما حالتوں میں بھی لطفاندوز ہوتے ہیں۔ یہ خدا کے ساتھ ہمارے قریبی ذاتی رشتے سے حاصل ہوتا ہے۔ جب ہم روحالقدس کیلئے دعا کرتے ہیں اور اسے خود کو متحرک کرنے دیتے ہیں تو ہم زندگی کے تمام مسائل سے آزاد نہیں ہو جاتے لیکن ہم روح کے پھل اطمینان سے ضرور استفادہ کرتے ہیں۔ (لوقا ۱۱:۱۳؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) ہم فکر سے مغلوب نہیں ہوتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہوؔواہ اپنے تمام لوگوں کو ”سلامتی سے لیٹاتا“ ہے اور کوئی بھی ایسی بات نہیں ہونے دیگا جو ہمارے مستقل نقصان کا باعث بنے گی۔—زبور ۴:۸۔
۷. فکر پر قابو پانے میں مسیحی بزرگ ہماری مدد کرنے کے لئے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
۷ تاہم کیا ہو اگرچہ ہم صحائف پر غور کرتے اور دعا میں مشغول رہتے ہیں تو بھی ہماری فکر قائم رہتی ہے؟ (رومیوں ۱۲:۱۲) کلیسیا میں مقررکردہ بزرگ بھی روحانی طور پر ہماری مدد کرنے کیلئے یہوؔواہ کی بخشش ہیں۔ وہ خدا کے کلام کو استعمال کرنے سے اور ہمارے ساتھ ملکر اور ہمارے واسطے دعا کرنے سے ہمیں تسلی اور مدد دے سکتے ہیں۔ (یعقوب ۵:۱۳-۱۶) پطرؔس رسول نے اپنے ساتھی بزرگوں کو تاکید کی کہ خدا کے گلّہ کی گلّہبانی رضامندی یعنی اشتیاق کیساتھ اور ایک تقلیدی انداز سے کریں۔ (۱-پطرس ۵:۱-۴) ان آدمیوں کے دلوں میں ہمارے بہترین مفادات ہیں اور مددگار ثابت ہونا چاہتے ہیں۔ یقیناً، بزرگوں کی مدد سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کیلئے اور کلیسیا میں روحانی طور پر خوب آسودہ ہونے کیلئے ہم سب کو پطرؔس کی مشورت کا اطلاق کرنے کی ضرورت ہے: ”اَے جوانو! تم بھی بزرگوں کے تابع رہو بلکہ سب کے سب ایک دوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمربستہ رہو اسلئے کہ خدا مغرورں کا مقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو توفیق بخشتا ہے۔“—۱-پطرس ۵:۵۔
۸، ۹. پہلا پطرس ۵:۶-۱۱ سے کیا تسلی حاصل کی جا سکتی ہے؟
۸ پطرؔس نے اضافہ کیا: ”پس خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سربلند کرے۔ اور اپنی ساری فکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فکر ہے۔ تم ہوشیار اور بیدار رہو۔ تمہارا مخالف ابلیس گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔ تم ایمان میں مضبوط ہوکر اور یہ جان کر اُسکا مقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دنیا میں ہیں ایسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔ اب خدا جو ہر طرح کے فضل کا چشمہ ہے۔ جس نے تم کو مسیح میں اپنے ابدی جلال کے لئے بلایا تمہارے تھوڑی مدت تک دُکھ اُٹھانے کے بعد آپ ہی تمہیں کامل اور قائم اور مضبوط کریگا۔ ابدالآباد اُسی کی سلطنت رہے۔ آمین۔“—۱-پطرس ۵:۶-۱۱۔
۹ یہ جان لینا کتنا تسلیبخش ہے کہ ہم ’اپنی ساری فکر خدا پر ڈال‘ سکتے ہیں ’کیونکہ وہ ہماری پرواہ کرتا ہے‘! اور اگر ہماری پریشانی ہم پر اذیت یا دیگر مصیبتیں لانے سے یہوؔواہ کے ساتھ ہمارے رشتے کو برباد کرنے کے لئے ابلیس کی کوششوں کا نتیجہ ہے تو کیا یہ جاننا شاندار بات نہیں کہ راستی برقرار رکھنے والوں کے لئے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا؟ جیہاں، ہمارے تھوڑی مدت تک مصیبت اُٹھا لینے کے بعد، تمام غیرمستحق فضل کا خدا ہماری تربیت کو ختم کر دیگا اور ہمیں مضبوط اور طاقتور بنا دے گا۔
۱۰. پہلا پطرس ۵:۶، ۷ کن تین خوبیوں کا اشارہ دیتی ہیں جو فکر کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہیں؟
۱۰ پہلا پطرس ۵:۶، ۷ تین خوبیوں کا اشارہ دیتی ہیں جو فکر پر قابو پانے میں ہماری مدد کر سکتی ہیں۔ ایک ہے عاجزی یا ”فروتنی۔“ آیت ۶ اس اظہار کے ساتھ ختم ہوتی ہے ”وقت پر،“ جو صبر کی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ آیت ۷ ظاہر کرتی ہے کہ ہم اعتماد کے ساتھ ساری فکر خدا پر ڈال سکتے ہیں ’کیونکہ وہ ہماری پرواہ کرتا ہے‘ اور یہ الفاظ یہوؔواہ پر مکمل بھروسے کی حوصلہافزائی کرتے ہیں۔ لہٰذا آئیں دیکھیں کہ کس طرح فروتنی، صبر اور خدا پر مکمل بھروسہ پریشانی کو ختم کرنے کے لئے مدد کر سکتے ہیں۔
جسطرح فروتنی مدد کر سکتی ہے
۱۱. فکر کا مقابلہ کرنے کیلئے فروتنی کسطرح ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۱۱ اگر ہم فروتن ہیں تو ہم یہ تسلیم کرینگے کہ خدا کے خیالات ہمارے خیالات سے کہیں زیادہ برتر ہیں۔ (یسعیاہ ۵۵:۸، ۹) یہوؔواہ کے تمام حلقوں کا احاطہ کرنے والے پسمنظر کے مقابلے میں اپنی محدود ذہنی وسعت کو پہچاننے کیلئے فروتنی ہماری مدد کرتی ہے۔ وہ اُن باتوں کو بھی دیکھ لیتا ہے جن کو ہم نہیں سمجھتے جیسا کہ راستباز آدمی اؔیوب کے معاملے میں ظاہر کِیا گیا ہے۔ (ایوب ۱:۷-۱۲؛ ۲:۱-۶) ”خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے“ خود کو فروتن بنانے سے ہم اعلیٰوبالا حاکم کے سامنے اپنی کمتر حیثیت کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔ اسکے بعد، یہ اُن حالات پر قابو پانے میں ہماری مدد کرتا ہے جسکی وہ اجازت دیتا ہے۔ ہمارے دل فوری آرام کی آرزو کر سکتے ہیں لیکن یہوؔواہ کی خوبیاں بالکل متوازن ہیں اسلئے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ہماری خاطر کب اور کیسے کارروائی کرنی ہے۔ تو پھر چھوٹے بچوں کی مانند آئیے فروتنی کے ساتھ یہوؔواہ کے قوی ہاتھ پر توکل کریں اور یہ یقین رکھیں کہ وہ اپنی فکروں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری مدد کریگا۔—یسعیاہ ۴۱:۸-۱۳۔
۱۲. اگر ہم فروتنی کیساتھ عبرانیوں ۱۳:۵ کے الفاظ کا اطلاق کرتے ہیں تو مادی تحفظ کی بابت فکر پر کیا اثر پڑ سکتا ہے؟
۱۲ فروتنی میں خدا کے کلام سے مشورت کا خوشی کے ساتھ اطلاق کرنا شامل ہے جو اکثر فکر کو کم کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہماری فکر مادی حاصلات میں زیادہ الجھاؤ کے باعث پیدا ہوئی ہے تو ہمارے لئے پولسؔ کی مشورت پر دھیان دینا اچھا ہوگا: ”زر کی دوستی سے خالی رہو اور جو تمہارے پاس ہے اُسی پر قناعت کرو کیونکہ [خدا] نے خود فرمایا ہے کہ میں تجھ سے ہرگز دستبردار نہ ہونگا اور کبھی تجھے نہ چھوڑونگا۔“ (عبرانیوں ۱۳:۵) فروتنی کے ساتھ ایسی مشورت کا اطلاق کرکے بہتوں نے خود کو مادی تحفظ کی بابت بڑی فکر سے آزاد کر لیا ہے۔ اگرچہ اُنکی مالی حالت تو بہتر نہ ہوئی ہو، یہ اُنکی روحانی تباہی کی حد تک اُنکے خیالات کو مغلوب نہیں کرتی۔
صبر کا کردار
۱۳، ۱۴. (ا) متحمل برداشت کے سلسلے میں بندے اؔیوب نے کیا نمونہ فراہم کِیا؟ (ب) صبر کے ساتھ یہوؔواہ کا منتظر رہنا ہمارے لئے کیا کر سکتا ہے؟
۱۳ پہلا پطرس ۵:۶ میں یہ اظہار ”وقت پر“ متحمل برداشت کی ضرورت کو بیان کرتا ہے۔ بعضاوقات کوئی مسئلہ دیر تک قائم رہتا ہے اور وہ فکر کو بڑھا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت ہمیں معاملات کو یہوؔواہ کے ہاتھوں میں چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ شاگرد یعقوؔب نے لکھا: ”صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں تم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور خداوند کی طرف سے جو اسکا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے خداوند کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۵:۱۱) اؔیوب کو معاشی نقصان کا تجربہ ہوا، موت کے باعث دس بچے کھو بیٹھا، نفرتانگیز بیماری میں مبتلا ہو گیا اور جھوٹے تسلی دینے والوں کی طرف سے غلط طور پر رد کیا گیا۔ ایسے حالات میں تھوڑی بہت فکر تو معمولی بات ہے۔
۱۴ بہرصورت، اؔیوب متحمل برداشت میں قابلِ نمونہ تھا۔ اگر ہم ایمان کی کڑی آزمائش میں سے گزر رہے ہیں تو ہمیں بھی شاید اُسکی مانند تسکین کے لئے انتظار کرنا پڑے۔ لیکن خدا نے انجامکار اؔیوب کو اُسکی مصیبت سے چھٹکارا دلا کر اور اُسے بکثرت اجر دیکر، اُسکے حق میں کارروائی ضرور کی تھی۔ (ایوب ۴۲:۱۰-۱۷) صبر سے یہوؔواہ کا منتظر رہنا ہماری برداشت کو بڑھاتا ہے اور اُس کیلئے ہماری عقیدت کی گہرائی کو آشکارا کرتا ہے۔—یعقوب ۱:۲-۴۔
یہوؔواہ پر توکل
۱۵. ہمیں مکمل طور پر یہوؔواہ پر بھروسہ کیوں رکھنا چاہئے؟
۱۵ پطرؔس نے ساتھی ایمانداروں کو تاکید کی کہ ’اپنی تمام فکر خدا پر ڈال دیں کیونکہ وہ اُنکی پرواہ کرتا ہے۔‘ (۱-پطرس ۵:۷) پس ہم یہوؔواہ پر مکمل توکل رکھ سکتے ہیں اور رکھنا چاہئے۔ امثال ۳:۵، ۶ کہتی ہیں: ”سارے دل سے خداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنمائی کریگا۔“ گزشتہ تجربات کی وجہ سے بعض وہ لوگ جو فکر کے مارے ہوئے ہیں دیگر انسانوں پر اعتماد کرنا مشکل پاتے ہیں۔ لیکن ہم اپنے خالق پر توکل کرنے کی ہر وجہ رکھتے ہیں جو زندگی کا عین سرچشمہ اور قائم رکھنے والا ہے۔ اگرچہ ہم کسی خاص معاملے میں اپنے ذاتی ردِعمل پر اعتماد نہیں بھی کرتے مگر ہمیں ہماری مصیبتوں سے باہر نکالنے کیلئے ہم ہمیشہ یہوؔواہ پر توکل کر سکتے ہیں۔—زبور ۳۴:۱۸، ۱۹؛ ۳۶:۹؛ ۵۶:۳، ۴۔
۱۶. مادی چیزوں کیلئے فکر کی بابت یسوؔع مسیح نے کیا کہا تھا؟
۱۶ خدا پر توکل کرنے میں اُسکے بیٹے، یسوؔع مسیح کی فرمانبرداری کرنا بھی شامل ہے جس نے وہی کچھ سکھایا جو اُس نے اپنے باپ سے سیکھا تھا۔ (یوحنا ۷:۱۶) یسوؔع نے اپنے شاگردوں کو یہوؔواہ کی خدمت کرنے سے ’آسمان میں خزانے جمع کرنے‘ کی تاکید کی۔ لیکن مادی ضروریات کی بابت کیا ہے جن میں خوراک، لباس اور رہائش شامل ہیں؟ ”فکر نہ کرنا“ یسوؔع نے مشورہ دیا۔ اُس نے واضح کِیا کہ خدا پرندوں کو خوراک مہیا کرتا ہے۔ وہ خوبصورتی سے پھولوں کو ملبوس کرتا ہے۔ کیا خدا کے انسانی خادموں کی قدر ان سے زیادہ نہیں ہے؟ یقیناً اُنکی قدر زیادہ ہے۔ لہٰذا یسوؔع نے تاکید کی: ”بلکہ تم پہلے اُسکی بادشاہی اور [خدا] کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مِل جائینگی۔“ یسوؔع نے بیان جاری رکھا: ”پس کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لیگا۔“ (متی ۶:۲۰، ۲۵-۳۴) جیہاں، ہمیں خوراک، پانی، لباس اور رہائش کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم یہوؔواہ پر توکل کرتے ہیں تو پھر ہم ان چیزوں کی بابت حد سے زیادہ فکرمند نہیں ہونگے۔
۱۷. پہلے بادشاہت کی تلاش کرنے کی ضرورت کو ہم کیسے سمجھا سکتے ہیں؟
۱۷ بادشاہت کی پہلے تلاش کرنے کے لئے ضرور ہے کہ ہم خدا پر بھروسہ رکھیں اور اپنی اولیتوں کو مناسب ترتیب میں رکھیں۔ ایک غوطہخور ایک ایسی سیپ کی تلاش میں جس کے اندر موتی ہو پانی کی سطح سے نیچے سامانِتنفّس کے بغیر چھلانگ لگا سکتا ہے۔ یہ اپنے خاندان کی مالی ضرورت کو پورا کرنے کا اُس کا ذریعہ ہے۔ بلاشُبہ، بڑی اوّلیت! لیکن زیادہ اہم کیا چیز ہے؟ ہوا! اُس کو اپنے پھیپھڑوں کو دوبارہ بھرنے کے لئے باقاعدگی سے پانی کی سطح پر آنا چاہئے۔ ہوا زیادہ بڑی اوّلیت ہے۔ اسی طرح، شاید ہمیں ضروریاتِزندگی حاصل کرنے کی غرض سے کسی نہ کسی طریقے سے اس نظام میں اُلجھنا پڑتا ہے۔ تاہم، روحانی معاملات کو پہلے درجے پر ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے خاندان کی زندگی ہی کا انحصار انہی چیزوں پر ہے۔ مادی ضروریات کی بابت بیجا فکر سے بچنے کیلئے ہمیں خدا پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہئے۔ مزیدبرآں، ’خداوند کے کام میں افزائش کرنے کیلئے بہت کچھ ہونا‘ بھی فکر کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے کیونکہ ”خداوند کی شادمانی“ ہماری پناہگاہ ثابت ہوتی ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸؛ نحمیاہ ۸:۱۰۔
یہوؔواہ پر اپنی فکر ڈالتے رہیں
۱۸. اس بات کی کیا شہادت ہے کہ اپنی ساری فکر یہوؔواہ پر ڈال دینا واقعی ہماری مدد کر سکتا ہے؟
۱۸ روحانی باتوں پر توجہ مرکوز رکھنے کیلئے ہمیں اپنی تمام فکر یہوؔواہ پر ڈالتے رہنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہ واقعی اپنے خادموں کی پرواہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر: اپنے لئے اپنے شوہر کی بےوفائی کی وجہ سے ایک مسیحی عورت کی فکر اس حد تک بڑھ گئی کہ اُسکا سونا ناممکن ہو گیا۔ (مقابلہ کریں زبور ۱۱۹:۲۸۔) تاہم، بستر پر اُس نے اپنی ساری فکر یہوؔواہ پر ڈالدی۔ اُس نے خدا کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا اور اُسے اُس درد کی بابت بتایا جسے وہ اور اُسکی دو چھوٹی بیٹیاں برداشت کر رہی تھیں۔ اُسکے پُرجوش دعا میں خلاصی کیلئے پکارنے کے بعد وہ ہمیشہ سونے کے قابل ہوتی تھی کیونکہ اُسکا توکل تھا کہ یہوؔواہ اُسکی اور اُسکے بچوں کی دیکھبھال کریگا۔ صحیفائی طور پر یہ طلاقشدہ عورت اب خوشوخرمی سے ایک بزرگ کے ساتھ بیاہی گئی ہے۔
۱۹، ۲۰. (ا) بعض طریقے کونسے ہیں جن سے ہم فکر کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں اپنی ساری فکر کے ساتھ کیا کرتے رہنا چاہئے؟
۱۹ یہوؔواہ کے لوگوں کے طور پر ہمارے پاس فکر پر قابو پانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ خدا کے کلام کا اطلاق کرنا خاص طور پر مفید ہے۔ ہمارے پاس ”عقلمند اور دیانتدار نوکر“ کے ذریعے خدا کی طرف سے فراہم ہونے والی روحانی غذا کی فراوانی بھی ہے جس میں مینارِنگہبانی اور جاگو! میں شائع ہونے والے مفید اور تازگیبخش مضامین شامل ہیں۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) ہمیں خدا کی روحالقدس کی مدد بھی حاصل ہے۔ باقاعدہ اور پُرجوش دعا ہمیں بہت زیادہ فائدہ پہنچاتی ہے۔ مقررشدہ مسیحی بزرگ روحانی مدد اور تسلی فراہم کرنے کیلئے تیار اور رضامند ہیں۔
۲۰ ہماری اپنی فروتنی اور صبر فکرمندی کا مقابلہ کرنے میں بہت کارآمد ہیں جو ہمیں گھیر سکتی ہے۔ یہوؔواہ پر مکمل بھروسہ خاص طور پر ضروری ہے کیونکہ جب ہم اُسکی مدد اور راہنمائی کا تجربہ کرتے ہیں تو اُس وقت ہمارا ایمان مستحکم ہوتا ہے۔ پھر، خدا پر ایمان ہمیں غیرضروری طور پر پریشان ہونے سے بچاتا ہے۔ (یوحنا ۱۴:۱) ایمان ہمیں پہلے بادشاہت کی تلاش کرنے اور خداوند کے مبارک کام میں مشغول رہنے کی تحریک دیتا ہے جو فکر پر غالب آنے کیلئے ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ایسی کارگزاری اُن لوگوں کے درمیان ہمیں احساسِتحفظ دیتی ہے جو ابد تک خدا کی حمد کے گیت گائیں گے۔ (زبور ۱۰۴:۳۳) پس آئیں اپنی ساری فکر یہوؔواہ پر ڈالتے رہیں۔ (۲۱ ۱۱/۱۵ w۹۴)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ فکر کی تشریح کیسے کی جا سکتی ہے؟
▫ بعض طریقے کیا ہیں جن سے ہم فکر کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟
▫ فکر کو کم کرنے میں فروتنی اور صبر کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
▫ فکر پر غالب آنے میں یہوؔواہ پر مکمل توکل رکھنا کیوں نہایت اہم ہے؟
▫ ہمیں یہوؔواہ پر اپنی ساری فکر کیوں ڈالتے رہنا چاہئے؟
[تصویر]
کیا آپ جانتے ہیں کہ یسوؔع نے کیوں کہا کہ ”فکر نہ کرنا“؟