خود ایثاری کے جذبے کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنا
”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی [”دکھ کی سولی، اٹھائے اور میرے پیچھے [چلتا رہے،“ NW]۔“—متی ۱۶:۲۴۔
۱. یسوع نے قریب آتی ہوئی اپنی موت کی بابت اپنے شاگردوں کو کیسے بتایا؟
برفپوش کوہ حرمون کے گردوپیش میں یسوع مسیح اپنی زندگی کے ایک بڑے سنگمیل پر پہنچتا ہے۔ اسکے پاس زندہ رہنے کیلئے ایک سال سے کم عرصہ ہے۔ وہ اس کی بابت جانتا ہے، لیکن اسکے شاگرد نہیں جانتے۔ لیکن اب انکے جاننے کا وقت آ گیا ہے۔ سچ ہے کہ اس سے پہلے بھی یسوع نے قریب آتی ہوئی اپنی موت کا اشارہ دیا لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ وہ اسکی بابت بالکل واضح کرتا ہے۔ (متی ۹:۱۵، ۱۲:۴۰) متی کا بیان یوں پڑھا جاتا ہے: ”اس وقت سے یسوع اپنے شاگردوں پر ظاہر کرنے لگا کہ اسے ضرور ہے کہ یروشلیم کو جائے اور بزرگوں اور سردار کاہنوں اور فقیہوں کی طرف سے بہت دکھ اٹھائے اور قتل کیا جائے اور تیسرے دن جی اٹھے۔“—متی ۱۶:۲۱، مرقس ۸:۳۱، ۳۲۔
۲. اپنی آئندہ تکلیف کی بابت یسوع کے الفاظ پر پطرس کا ردعمل کیا تھا، اور یسوع نے اسکے لئے کیا جوابی عمل دکھایا؟
۲ یسوع کی موت کا وقت قریب ہے۔ اگرچہ پطرس تو بظاہر ایسے ناخوشگوار خیال ہی سے برہم ہو جاتا ہے۔ وہ یہ مان ہی نہیں سکتا کہ مسیحا کو واقعی قتل کر دیا جائیگا۔ اسلئے پطرس اپنے خداوند کو ملامت کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ خیرخواہی کے جذبات سے تحریک پا کر، وہ اندھادھند تاکید کرتا ہے: ”اے خداوند خدا نہ کرے۔ یہ تجھ پر ہرگز نہیں آنے کا۔“ لیکن یسوع فوری طور پر پطرس کی غلط مہربانی کو رد کرتا ہے، ایسے ہی جیسے کوئی زہریلے سانپ کے سر کو قطعی طور پر کچل دیتا ہے۔ ”اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو۔ تو میرے لئے ٹھوکر کا باعث ہے کیونکہ تو خدا کی باتوں کا نہیں بلکہ آدمیوں کی باتوں کا خیال رکھتا ہے۔“—متی ۱۶:۲۲، ۲۳۔
۳. (ا) پطرس نے نادانستہ طور پر خود کو شیطان کا ایجنٹ کیسے بنایا؟ (ب) خودایثاری کی روش کیلئے پطرس ٹھوکر کا باعث کیسے تھا؟
۳ پطرس نے خود کو نادانستہ طور پر شیطان کا کارکن بنا لیا ہے۔ یسوع کا مُنہتوڑ جواب ایسا فیصلہ ہے جیسا کہ اس نے بیابان میں شیطان کو دیا۔ وہاں پر ابلیس نے یسوع کو آرامطلب زندگی، تکلیف کے بغیر بادشاہی، سے آزمانے کی کوشش کی۔ (متی ۴:۱-۱۰) اب پطرس اسے اپنے ساتھ سختگیر نہ ہونے کی حوصلہافزائی دیتا ہے۔ یسوع جانتا ہے کہ یہ اسکے باپ کی مرضی نہیں ہے۔ ضرور ہے کہ اسکی زندگی خود کو تسکین دینے والی نہ ہو بلکہ خودایثاری والی ہو۔ (متی ۲۰:۲۸) پطرس ایسی روش کیلئے ٹھوکر بنتا ہے، نیکنیتی پر مبنی اسکی ہمدردی ایک پھندا بنتی ہے۔a گویا یسوع صاف طور پر سمجھتا ہے کہ اگر وہ قربانی کے بغیر زندگی کے تصور کو ذہن میں آنے دیتا ہے تو وہ شیطانی پھندے کی موت کی گرفت میں پکڑے جانے سے خدا کی مقبولیت سے دور ہو جائیگا۔
۴. خودپروری کی آسائش والی زندگی یسوع اور اسکے پیروکاروں کیلئے کیوں نہ تھی؟
۴ پس پطرس کو سوچ بدلنے کی ضرورت تھی۔ یسوع سے اسکی باتوں نے خدا کے خیالوں کی نہیں بلکہ انسان کے خیالوں کی نمائندگی کی۔ ایک خودپرور پرآسائش زندگی، تکلیف سے بچنے کا آسان طریقہ، یسوع کیلئے نہیں تھا، اور نہ ہی ایسی زندگی اسکے پیروکاروں کیلئے ہونی تھی، کیونکہ اسکے بعد یسوع پطرس سے اور باقی شاگردوں سے کہتا ہے: ”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا انکار کرے اور اپنی [”دکھ کی سولی، اٹھائے اور میرے پیچھے [چلتا رہے،“ NW]“—متی ۱۶:۲۴۔
۵. (ا) مسیحی زندگی گزارنے کا چیلنج کیا ہے؟ (ب) ایک مسیحی کو کونسی تین ضروری چیزوں کیلئے تیار ہونا چاہیے؟
۵ یسوع بار بار اس کلیدی موضوع پر آتا ہے: مسیحی زندگی گزارنے کا چیلنج۔ یسوع کے پیروکار ہونے کی خاطر، مسیحیوں کو، اپنے ہادی کی طرح، یہوواہ کی خودایثاری کے جذبے کے ساتھ خدمت کرنی چاہیے۔ (متی ۱۰:۳۷-۳۹) لہذا، وہ تین ضروری چیزوں کی فہرست دیتا ہے جن پر ایک مسیحی کو عمل کرنے کیلئے تیار ہونا چاہیے: (۱) اپنی خودی کا انکار کرے، (۲) اپنی دکھ کی سولی اٹھائے، اور (۳) اسکے پیچھے چلتا رہے۔
”اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے“
۶. (ا) ایک شخص اپنی خودی کا انکار کیسے کرتا ہے؟ (ب) اپنی ذات سے بڑھکر ہمیں کس کو خوش کرنا چاہیے؟
۶ اپنی خودی کا انکار کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اسکا مطلب ہے کہ ایک شخص کو کلی طور پر اپنا انکار کرنے کی ضرورت ہے، ایک قسم کی نفسکشی۔ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”انکار کرے،“ کیا گیا ہے، اسکا بنیادی مطلب ”مکمل طور پر نہ کہنا ہے۔“ اسلئے، اگر آپ مسیحی زندگی کے چیلنج کو قبول کرتے ہیں تو آپ خوشی سے اپنی ذاتی آرزوؤں، آسائش، خواہشات، خوشی اور عیشوعشرت سے دستبردار ہوتے ہیں۔ اصل میں، آپ ہمیشہ کیلئے اپنی زندگی اور اس سے وابستہ ہر چیز کو یہوواہ خدا کیلئے دے دیتے ہیں۔ اپنی خودی کا انکار کرنے کا مطلب کبھی کبھی بعض خوشیوں سے خود کو باز رکھنے سے زیادہ ہے۔ اسکی بجائے، اسکا مطلب ہے کہ ایک شخص کو اپنی ذات کی ملکیت کو یہوواہ کے حق میں چھوڑ دینا چاہیے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۹، ۲۰) ایک شخص جس نے اپنی خودی کا انکار کر دیا ہے وہ خود کو نہیں بلکہ خدا کو خوش کرنے کیلئے زندہ رہتا ہے۔ (رومیوں ۱۴:۸، ۱۵:۳) اسکا مطلب ہے کہ اپنی زندگی کے ہر لمحے وہ اپنی خودغرضانہ خواہشات کو نہ کہتا ہے اور یہوواہ کو ہاں کہتا ہے۔
۷. ایک مسیحی کی دکھ کی سولی کیا ہے، اور وہ اسے کیسے اٹھاتا ہے؟
۷ اسلئے، اپنی دکھ کی سولی اٹھانے کے سنجیدہ معانی ہیں۔ سولی اٹھانا ایک بوجھ اور موت کی علامت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو ایک مسیحی تکلیف اٹھانے، شرمندگی یا دکھ اٹھانے اور یہاں تک کہ یسوع مسیح کا شاگرد ہونے کے ناطے موت کے گھاٹ اتارے جانے کیلئے رضامند ہے۔ یسوع نے کہا: ”جو کوئی اپنی [”دکھ کی سولی،“ NW] نہ اٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔“ (متی ۱۰:۳۸) وہ سب جو تکلیف اٹھاتے ہیں دکھ کی سولی اٹھائے ہوئے نہیں ہیں۔ شریر پر بہت سی ”مصیبتیں“ ہیں لیکن دکھ کی سولی نہیں۔ (زبور ۳۲:۱۰) تاہم، ایک مسیحی کی زندگی یہوواہ کیلئے قربانی جیسی خدمت والی دکھ کی سولی اٹھانا ہے۔
۸. یسوع نے اپنے پیروکاروں کیلئے زندگی کا کونسا نمونہ قائم کیا؟
۸ آخری شرط جسکا ذکر یسوع نے کیا یہ ہے کہ ہم اسکے پیچھے چلتے رہیں۔ یسوع صرف یہ تقاضا نہیں کرتا کہ جو کچھ اس نے سکھایا ہم اسکو قبول کریں اور مانیں بلکہ یہ بھی کہ اسکے قائم کئے ہوئے نمونے پر اپنی پوری زندگی چلتے رہیں۔ اور اسکی زندگی کے نمونے سے نظر آنے والی بعض امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟ جب اس نے اپنے پیروکاروں کو انکا آخری کام سونپا تو اس نے کہا: ”پس تم جا کر ... شاگرد بناؤ ... اور انکو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا میں نے تم کو حکم دیا۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) یسوع نے بادشاہت کی خوشخبری منادی کی اور تعلیم دی۔ اور اسکے قریبترین شاگردوں نے اور یقیناً ابتدائی مسیحیوں کی پوری کلیسیا نے بھی ایسا ہی کیا۔ انکے دنیا کا حصہ نہ ہونے کے علاوہ یہ گرمجوش کارگزاری بھی ان پر دنیا کی مخالفت اور نفرت لائی جو انکی دکھ کی سولی کا سبب بنی جو اٹھانے کیلئے بھی مزید بھاری ہو۔—یوحنا ۱۵:۱۹، ۲۰، اعمال ۸:۴۔
۹. یسوع دوسرے لوگوں کے ساتھ کیسے پیش آیا؟
۹ جس طریقے سے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آیا کیا وہ ایک اور امتیازی نمونہ تھا جو یسوع کی زندگی سے نظر آیا۔ وہ مہربان، ”حلیم اور دل کا فروتن“ تھا۔ یوں اسکے سامعین نے اپنے اندر نئی روح محسوس کی اور اسکی موجودگی سے حوصلہافزائی پائی تھی۔ (متی ۱۱:۲۹) اس نے انہیں اپنی پیروی کرنے کیلئے دھمکایا یا ضابطے پر ضابطہ نہ بنایا کہ انہیں یہ کسطرح کرنا تھا، نہ ہی اس نے انہیں جرم کے احساسات پر آمادہ کیا کہ ان کو اپنے شاگرد ہونے کیلئے مجبور کرے۔ اپنی خودایثاری کی زندگی کے باوجود، وہ حقیقی خوشی سے منور ہوئے۔ ان لوگوں سے کتنا فرق جو خودپروری کی دنیاوی روح رکھتے ہیں جو ”اخیر زمانہ“ کی نشاندہی کرتی ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۴۔
یسوع والے خودایثاری کے جذبے کو پیدا کریں اور اسے قائم رکھیں
۱۰. فلپیوں ۲:۵-۸ کے مطابق یسوع نے اپنی خودی کا انکار کیسے کیا؟ (ب) اگر ہم مسیح کے پیروکار ہیں تو ہمیں کیسا مزاج ظاہر کرنا چاہیے؟
۱۰ یسوع نے خودی کے انکار کا نمونہ قائم کیا۔ اس نے اپنی دکھ کی سولی اٹھائی اور اپنے باپ کی مرضی بجا لانے سے اسے مسلسل اٹھائے رکھا۔ پولس نے فلپی کے مسیحیوں کو لکھا: ”ویسا ہی مزاج رکھو جیسا مسیح یسوع کا بھی تھا۔ اس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دیا اور خادم کی صورت اختیار کی اور انسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ [”دکھ کی سولی پر،“ NW] موت گوارا کی۔“ (فلپیوں ۲:۵-۸) اس سے زیادہ مکمل طور پر کون اپنی خودی سے انکار کر سکتا ہے؟ اگر آپ یسوع مسیح کے ہیں اور آپ اسکے پیروکاروں میں سے ایک ہیں تو آپ کو ایسا ہی مزاج رکھنا چاہیے۔
۱۱. خودایثاری والی زندگی بسر کرنے کا مطلب کس کی مرضی کیلئے زندہ رہنا ہے؟
۱۱ ایک دوسرا رسول، پطرس، ہمیں بتاتا ہے کہ جب یسوع نے ہماری خاطر تکلیف اٹھائی اور مرا تو مسیحیوں کو لازم ہے کہ خوب لیس سپاہیوں کی طرح اسی جذبے سے خود کو مسلح کریں جو مسیح رکھتا تھا۔ وہ لکھتا ہے: ”پس جبکہ مسیح نے جسم کے اعتبار سے دکھ اٹھایا تو تم بھی ایسا ہی مزاج اختیار کرکے ہتھیاربند بنو کیونکہ جس نے جسم کے اعتبار سے دکھ اٹھایا اس نے گناہ سے فراغت پائی۔ تاکہ آیندہ کو اپنی باقی جسمانی زندگی آدمیوں کی خواہشوں کے مطابق نہ گزارے بلکہ خدا کی مرضی کے مطابق۔“ (۱-پطرس ۳:۱۸، ۴:۱، ۲) یسوع کی خودایثارانہ روش نے صاف طور پر ظاہر کیا کہ اس نے اسکی بابت کیسا محسوس کیا۔ وہ اپنی عقیدت میں یکسو تھا، اس نے ہمیشہ اپنے باپ کی مرضی کو اپنی مرضی پر ایک شرمناک موت کی حد تک فوقیت دی۔—متی ۶:۱۰، لوقا ۲۲:۴۲۔
۱۲. کیا خودایثاری والی زندگی یسوع کیلئے ناخوشگوار تھی؟ وضاحت کریں.
۱۲ اگرچہ یسوع کی خودایثاری کی زندگی مشقتطلب اور اسکے لئے ایسی روش اختیار کرنا چیلنج تھا تو بھی اس نے اسے ناخوشگوار نہ پایا۔ بلکہ یسوع نے خود کو الہٰی مرضی کے تابع کرنے میں خوشی حاصل کی۔ اسکے لئے اپنے باپ کا کام کرنا کھانے کی مانند تھا۔ اس نے اس سے حقیقی اطمینان حاصل کیا، جیسے کوئی ایک اچھے کھانے سے حاصل کریگا۔ (متی ۴:۴، یوحنا ۴:۳۴) پس، اگر آپ اپنی زندگی میں واقعی مطمئن ہونا چاہتے ہیں تو یسوع کی طرح کے مزاج کو پیدا کرکے اسکے نمونے کی پیروی کرنے سے بہتر آپ کچھ نہیں کر سکتے۔
۱۳. کس طرح سے محبت خودایثاری جذبے کے پیچھے متحرک قوت ہے؟
۱۳ حقیقت میں، خودایثاری کے جذبے کے پیچھے کونسی متحرک قوت ہے؟ ایک لفظ میں، محبت۔ یسوع نے کہا: ”خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ۔ بڑا اور پہلا حکم یہی ہے۔ اور دوسرا اسکی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ۔“ (متی ۲۲:۳۷-۳۹) ایک مسیحی بیک وقت ان الفاظ کی فرمانبرداری اور مفادپرستی نہیں کر سکتا۔ اسکی اپنی خوشی اور دلچسپی، پہلے اور اولین طور پر یہوواہ کیلئے اسکی محبت اور پھر پڑوسی کیلئے اسکی محبت سے متاثر ہونی چاہیے۔ یسوع نے اسی طرح سے زندگی گزاری اور اسی بات کی وہ اپنے پیروکاروں سے توقع کرتا ہے۔
۱۴. (ا) عبرانیوں ۱۳:۱۵، ۱۶ میں کن ذمہداریوں کی وضاحت کی گئی ہے؟ (ب) گرمجوشی کے ساتھ خوشخبری کی منادی کرنے کیلئے کونسی چیز ہمیں تحریک دیتی ہے؟
۱۴ پولس رسول نے محبت کی اس شرع کو سمجھ لیا تھا۔ اس نے لکھا: ”پس ہم اسکے وسیلہ سے حمد کی قربانی یعنی ان ہونٹوں کا پھل جو اسکے نام کا اقرار کرتے ہیں خدا کیلئے ہر وقت چڑھایا کریں۔ اور بھلائی اور سخاوت کرنا نہ بھولو اسلئے کہ خدا ایسی قربانیوں سے خوش ہوتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۳:۱۵، ۱۶) مسیحی یہوواہ کیلئے جانوروں کی قربانیاں اور اسی طرح کی چیزیں پیش نہیں کرتے، لہذا، انہیں مادی ہیکل میں انکی پرستش میں فرائض انجام دینے کیلئے انسانی کاہنوں کی ضرورت نہیں۔ یہ مسیح یسوع کے ذریعے ہے کہ ہماری حمد کی قربانی پیش ہوتی ہے۔ اور زیادہتر حمد کی اس قربانی، یعنی اسکے نام کے اعلانیہ اظہار کے ذریعے ہم خدا کی محبت ظاہر کرتے ہیں۔ بالخصوص محبت پر قائم ہمارا بےغرض جذبہ گرمجوشی کے ساتھ خوشخبری کی منادی کرنے، خدا کیلئے اپنے ہونٹوں کا پھل پیش کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہنے کی کوشش کرنے کی ہم کو تحریک دیتا ہے۔ اس طریقے سے ہم پڑوسی کیلئے محبت بھی ظاہر کرتے ہیں۔
خودایثاری کثیر برکات لاتی ہے
۱۵. ہم خودایثاری کے سلسلے میں غوروخوض کرنے والے کونسے سوالات خود سے پوچھ سکتے ہیں؟
۱۵ تھوڑی دیر کیلئے رکیں اور ذیلی سوالات پر غور کریں: کیا میرا موجودہ طرززندگی خودایثاری کی روش کو ظاہر کرتا ہے؟ کیا میری منازل ایسی زندگی کی طرف اشارہ کرتی ہیں؟ کیا میرے خاندان کے تمام ممبران میرے نمونے سے روحانی فائدوں کی فصل کاٹ رہے ہیں؟ (مقابلہ کریں ۱-تیمتھیس ۵:۸۔) یتیموں اور بیواؤں کی بابت کیا ہے؟ کیا وہ بھی میرے خودایثاری کے جذبے سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ (یعقوب ۱:۲۷) کیا میں اس وقت کو بڑھا سکتا ہوں جو میں حمد کی اعلانیہ قربانی میں صرف کرتا ہوں؟ کیا میں پائنیر، بیتایل، یا مشنری خدمت کے شرف کیلئے آگے بڑھنے کے لائق ہوں، یا کیا میں کسی ایسے علاقے میں خدمت کرنے کیلئے منتقل ہو سکتا ہوں جہاں پر کہ بادشاہتی منادوں کی ضرورت زیادہ ہے؟
۱۶. خوشتدبیری خودایثاری والی زندگی گزارنے کیلئے ہماری مدد کیسے کر سکتی ہے؟
۱۶ بعض اوقات خودایثاری کے جذبے کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنے میں اپنی پوری صلاحیت تک پہنچنے کیلئے تھوڑی سی خوشتدبیری کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، ایکواڈور میں ایک ریگولر پائنیر، جینٹ، کلوقتی ملازمت کرتی تھی۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ اسکے کام نے ایک مسرور جذبے کے ساتھ ریگولر پائنیر کے گھنٹوں کے تقاضے کو پورا کرنے کو اسکے لئے مشکل بنا دیا۔ اس نے اپنے مسئلے کو اپنے آجر کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا اور کام کے اوقات میں کمی کرنے کی درخواست کی۔ چونکہ وہ اسکے کام کے اوقات میں کمی کرنے کیلئے تیار نہ تھا اسلئے وہ پھر اپنے ساتھ ماریا کو لے گئی جو جزووقتی کام کی تلاش میں تھی تاکہ وہ پائنیر خدمت کر سکے۔ ان میں سے ہر ایک نے پورے دن کے کام میں حصہدار بننے کیلئے آدھا دن کام کرنے کی پیشکش کی۔ آجر نے تجویز منظور کر لی۔ اب دونوں بہنیں ریگولر پائنیر ہیں۔ اس شاندار نتیجے کو دیکھنے پر قافا جو اسی کمپنی کیلئے کلوقتی کام کرنے اور اپنی پائنیر خدمت کے وقت کو پورا کرنے کیلئے سخت محنت کرنے سے تھک چکی تھی، اپنے ساتھ ماگالی کو لے گئی اور وہی پیشکش کی۔ اسے بھی قبول کر لیا گیا تھا۔ یوں ان دو کی بجائے چار بہنیں پائنیر خدمت کا کام کرنے کے قابل تھیں جو کلوقتی خدمت کو چھوڑنے کے مقام پر تھیں۔ خوشتدبیری اور پیشقدمی سے مفید نتائج حاصل ہوئے تھے۔
۱۷-۲۱. ایک بیاہتا جوڑے نے زندگی میں اپنے مقصد کا پھر سے اندازہ کیسے لگایا، اور کس نتیجے کے ساتھ؟
۱۷ اسکے علاوہ، خودایثاری کی اس روش پر غور کریں جس پر ایون گذشتہ دس سالوں کے دوران چلتی رہی۔ اس نے مئی ۱۹۹۱ میں واچٹاور سوسائٹی کو درجذیل خط لکھا:
۱۸ ”اکتوبر ۱۹۸۲ میں، میرے خاندان اور میں نے بروکلن بیتایل کا دورہ کیا۔ اسے دیکھکر میرے اندر خواہش پیدا ہوئی کہ وہاں کام کرنے کیلئے رضاکارانہ خدمت پیش کروں۔ میں نے ایک درخواست کو پڑھا اور اس میں ایک قابلغور سوال تھا، گزشتہ چھ ماہ کیلئے میدانی خدمت میں آپکے گھنٹوں کی اوسط کیا ہے؟ اگر اوسط دس گھنٹوں سے کم ہے تو وضاحت کریں کہ کیوں۔ اسکے لئے میں کسی جائز وجہ کی بابت نہ سوچ سکی، لہذا میں نے ایک نشانہ قائم کیا اور پانچ مہینوں کیلئے اسے حاصل کیا۔
۱۹ ”اگرچہ پائنیر خدمت نہ کرنے کی بابت میں چند ایک بہانے سوچ سکی، لیکن جب میں نے ۱۹۸۳ ائیر بک آف جہوواز وٹنسز پڑھی تو میں قائل ہو گئی کہ دوسرے لوگ پائنیر خدمت کرنے کی خاطر میری نسبت زیادہ بڑی رکاوٹوں پر قابو پا چکے تھے۔ پس یکم اپریل، ۱۹۸۳ کو میں نے اپنی زیادہ تنخواہ والی نوکری چھوڑ دی اور امدادی پائنیر بن گئی، اور میں یکم ستمبر، ۱۹۸۳ کو ریگولر پائنیروں کی صفوں میں داخل ہو گئی۔
۲۰ ”اپریل ۱۹۸۵ میں ایک بہترین خدمتگزار خادم سے شادی کرنا میری خوشی تھی۔ تین سال بعد، ایک ڈسٹرکٹ کنونشن پر پائنیر کرنے کی بابت تقریر نے میرے خاوند کو سرگوشی میں مجھ سے کچھ کہنے کی تحریک دی اور پوچھا: کیا آپ کوئی وجہ جانتی ہیں کہ کیوں مجھے یکم ستمبر سے پائنیر خدمت نہیں شروع کرنی چاہیے؟ اگلے دو سال کیلئے وہ اس کام میں میرے ساتھ شریک ہو گیا۔
۲۱ ”میرے خاوند نے بروکلن بیتایل میں دو ہفتوں کیلئے تعمیری کام کرنے کیلئے بھی رضاکارانہ خدمت کی اور انٹرنیشنل کنسٹرکشن پروگرام کیلئے درخواست دی۔ اس طرح ہم مئی ۱۹۸۹ میں برانچ کی تعمیر کے کام میں مدد کیلئے ایک مہینے کیلئے نائجیریا گئے۔ کل ہم جرمنی جا رہے ہیں جہاں پر پولینڈ میں داخلے کیلئے ہمارے ویزوں کا بندوبست کیا جائیگا۔ ایک ایسے تاریخساز بلڈنگ پراجیکٹ میں حصہ لینے اور اس نئی قسم کے کلوقتی کام میں شریک ہونے کیلئے ہم جوش سے بھر گئے ہیں۔“
۲۲. (ا) پطرس کی طرح ہم نادانستہ طور پر کیسے ٹھوکر کا باعث بنتے ہیں؟ (ب) خودایثاری کے جذبے کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنا کس بات پر موقوف نہیں ہے؟
۲۲ اگر آپ خود پائنیر خدمت کرنے کے قابل نہیں ہیں تو کیا آپ انکی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں جو کلوقتی خدمت میں ہیں کہ اپنے استحقاق کو قائم رکھیں اور ممکنہ طور پر ایسا کرنے کیلئے انکی مدد بھی کریں؟ یا کیا آپ بعض نیکنیت خاندانی افراد یا دوستوں کی مانند ہونگے جو پطرس کی طرح یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ یہ ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے کلوقتی خادم کو بتا سکتے ہیں کہ زیادہ محنت نہ کریں، اور اپنی ذات کے ساتھ مہربانی سے پیش آئیں؟ درست ہے کہ اگر ایک پائنیر کی صحت سنگین خطرے میں ہے یا اگر وہ اپنی مسیحی ذمہداریوں کو نظرانداز کر رہا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے وقتی طور پر کلوقتی خدمت کو چھوڑنا پڑے۔ خودایثاری کے جذبے کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنا کسی لیبل پر موقوف نہیں ہے، جیسے کہ پائنیر، بیتایل کارکن، یا کوئی اور۔ بلکہ اسکا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم بطور اشخاص کیا ہیں—ہم کیسے سوچتے ہیں، ہم کیا کرتے ہیں، دوسروں کے ساتھ ہم کیسے پیش آتے ہیں، ہم اپنی زندگی کیسے گزارتے ہیں۔
۲۳. (ا) ہم خدا کے ساتھ ساتھی کارندہ ہونے کی مسلسل خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ (ب) عبرانیوں ۶:۱۰-۱۲ سے ہم کیا اعتماد حاصل کرتے ہیں؟
۲۳ اگر ہم واقعی خودایثاری کا جذبہ رکھتے ہیں تو ہمیں خدا کے ساتھ کام کرنے والا ہونے کی خوشی حاصل ہوگی۔ (۱-کرنتھیوں ۳:۹) ہم کو یہ جاننے کا اطمینان حاصل ہوگا کہ ہم یہوواہ کے دل کو شاد کر رہے ہیں۔ (امثال ۲۷:۱۱) اور ہمیں یہ اعتماد حاصل ہے کہ جبتک ہم یہوواہ کے ساتھ وفادار رہتے ہیں وہ ہمیں کبھی نہ بھولے گا اور نہ چھوڑیگا۔—عبرانیوں ۶:۱۰-۱۲۔ (۸ ۶/۱ W۹۳)
[فٹنوٹ]
a یونانی میں ”ٹھوکر،“ (سکانڈالون) شروع میں ”پھندے کے اس حصے کا نام تھا جسکے ساتھ پھانسنے کیلئے چارہ لگایا جاتا تھا، پس جال یا بذاتخود پھندا۔“—وائنز ایکسپوزیٹری ڈکشنری آف اولڈ اینڈ نیو ٹسٹامنٹ ورڈز۔
آپکے خیالات کیا ہیں؟
▫ پطرس نادانستہ طور پر خودایثاری کی روش کیلئے ٹھوکر کا باعث کیسے بن گیا؟
▫ اپنی خودی کا انکار کرنے کا مطلب کیا ہے؟
▫ ایک مسیحی اپنی دکھ کی سولی کیسے اٹھاتا ہے؟
▫ ہم کیسے خودایثاری کے جذبے کو پیدا کرتے اور قائم رکھتے ہیں؟
▫ خودایثاری کے جذبے کی پُشت پر کونسی متحرک قوت ہے؟
[تصویر]
کیا آپ اپنی خودی کا انکار کرنے، اپنی دکھ کی سولی اٹھانے، اور یسوع کے پیچھے چلتے رہنے کیلئے رضامند ہیں؟