خدا کی بادشاہت—کیا آپ اسکی سمجھ حاصل کر رہے ہیں؟
”جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے۔“—متی ۱۳:۲۳۔
۱. ’آسمان کی بادشاہت‘ کے سلسلے میں بعض عام اعتقادات کیا ہیں؟
کیا آپ نے اسکا ’مفہوم سمجھ‘ لیا ہے کہ خدا کی بادشاہت کیا ہے؟ صدیوں کے دوران ’آسمانوں کی بادشاہت‘ کی بابت نظریات میں کافی حد تک تضاد رہا ہے۔ آجکل چرچ کے بعض ارکان کے درمیان عام عقیدہ یہ ہے کہ بادشاہت کوئی ایسی چیز ہے جسے خدا تبدیلئمذہب کے وقت کسی شخص کے دل میں ڈال دیتا ہے۔ دیگر محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں نیک لوگ مرنے کے بعد ابدی برکت سے لطفاندوز ہونے کیلئے چلے جاتے ہیں۔ کچھ اَور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا نے اسے انسانوں کے ہاتھ میں سونپ دیا ہے کہ سماجی اور حکومتی امور میں مسیحی تعلیمات اور دستورات کو جاگزین کرنے کے اپنے عمل کے ذریعے زمین پر بادشاہت کو قائم کریں۔
۲. بائبل خدا کی بادشاہت کی کیا وضاحت کرتی ہے، اور یہ کیا سرانجام دیگی؟
۲ تاہم، بائبل واضح طور پر بیان کرتی ہے کہ خدا کی بادشاہت زمین پر کوئی اِدارہ نہیں ہے۔ یہ نہ تو کوئی دِلی کیفیت ہے نہ ہی انسانی معاشرے کو مسیحی بنانا ہے۔ سچ ہے کہ یہ بادشاہت جوکچھ ہے اُسکی بابت صحیح سمجھ اُن لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے جو اس پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔ البتہ بادشاہت، گناہ اور موت کے اثرات کو ختم کرنے والی اور زمین پر راست حالتوں کو بحال کرنے والی، خود الہٰی طور پر قائمکردہ آسمانی حکومت ہے جو خدا کی مرضی بجا لاتی ہے۔ یہ بادشاہت پہلے ہی سے آسمانوں میں اختیار سنبھال چکی ہے، اور جلد ہی ”وہ ان تمام [انسانی] مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کریگی اور وہی ابد تک قائم رہیگی۔“—دانیایل ۲:۴۴؛ مکاشفہ ۱۱:۱۵؛ ۱۲:۱۰۔
۳. جب یسوؔع نے اپنی خدمتگزاری کا آغاز کِیا تو انسانوں کیلئے کیا موقع کھول دیا گیا تھا؟
۳ مؤرخ ایچ.جی.ویلزؔ نے لکھا: ”آسمان کی بادشاہت کا یہ عقیدہ، جو یسوؔع کی سب سے اہم تعلیم تھا، اور جو مسیحی عقائد میں بہت کم کردار ادا کرتا ہے، واقعی اُن نہایت انقلابی عقائد میں سے ایک ہے جنہوں نے کبھی انسانی سوچ کو اُبھارا اور بدل دیا ہو۔“ شروع ہی سے یسوؔع کی خدمتگزاری کا موضوع تھا: ”توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔“ (متی ۴:۱۷) وہ ممسوح بادشاہ کے طور پر منظرِعالم پر موجود تھا، اور سب سے بڑی خوشی کی بات یہ تھی کہ اب نہ صرف انسانوں کیلئے اُس بادشاہت کی برکات میں شریک ہونے کی بلکہ اُس بادشاہت میں یسوؔع کے ساتھ ساتھی حکمران اور کاہن بننے کی راہ بھی کھولی جا رہی تھی!—لوقا ۲۲:۲۸-۳۰؛ مکاشفہ ۱:۶؛ ۵:۱۰۔
۴. پہلی صدی میں، لوگوں کی اکثریت نے کس عدالتی سزا کا موجب بنتے ہوئے، ”بادشاہی کی خوشخبری“ کیلئے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۴ اگرچہ ازدحام ہیجانخیز ”بادشاہی کی خوشخبری“ کو سنتے، لیکن صرف چند ہی ایمان لائے۔ کسی حد تک یہ اسلئے تھا کیونکہ مذہبی پیشواؤں نے ”آسمان کی بادشاہی لوگوں پر بند“ کر دی تھی۔ اُنہوں نے اپنی جھوٹی تعلیمات کے ذریعے ”معرفت کی کُنجی چھین لی۔“ چونکہ اکثر لوگوں نے یسوؔع کو مسیحا اور خدا کی بادشاہت کے ممسوح بادشاہ کے طور پر رد کر دیا تھا، اسلئے یسوؔع نے اُن سے کہا: ”خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی اور اُس قوم کو جو اُسکے پھل لائے دیدی جائیگی۔“—متی ۴:۲۳؛ ۲۱:۴۳؛ ۲۳:۱۳؛ لوقا ۱۱:۵۲۔
۵. جن لوگوں نے یسوؔع کی تمثیلوں کو سنا اُن میں سے اکثر نے کیسے ظاہر کِیا کہ اُنہوں نے سمجھ کیساتھ نہیں سنا تھا؟
۵ ایک موقع پر بِھیڑ کو تعلیم دیتے وقت، حسبِدستور، یسوؔع نے بِھیڑ کا جائزہ لینے اور بادشاہت میں محض سطحی دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو علیٰحدہ کرنے کیلئے تمثیلوں کو استعمال کِیا۔ پہلی تمثیل ایک بیج بونے والے کی تھی جو چار اقسام کی زمین میں بیج بوتا ہے۔ پہلی تین اقسام پودے اُگانے کیلئے ناموافق تھیں، جبکہ آخری قسم ”اچھی زمین“ تھی جس نے خوب پھل پیدا کِیا۔ مختصر سی تمثیل اس فہمائش کیساتھ ختم ہوتی ہے: ”جسکے کان ہوں وہ سن لے۔“ (متی ۱۳:۱-۹) حاضرین میں سے زیادہتر نے اُسکی بات سنی مگر اُنہوں نے غور سے نہ ”سنا۔“ اُن کے پاس کوئی محرک نہیں تھا، اس بات کو جاننے میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں تھی کہ کیسے مختلف حالتوں کے تحت بوئے گئے بیج آسمانوں کی بادشاہت کی مانند تھے۔ وہ اپنی روزمرّہ زندگی کی مصروفیات کیلئے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، غالباً یہ سوچتے ہوئے کہ یسوؔع کی تمثیلیں اخلاقی موضوعات پر مبنی اچھی کہانیوں سے زیادہ کچھ نہیں تھیں۔ حکمت کی کیا ہی دولت اور کیا ہی عظیم استحقاقات اور مواقع اُنہوں نے کھو دئیے کیونکہ اُنکے دل غیراثرپذیر تھے!
۶. ”بادشاہی کے پاک بھیدوں“ کی سمجھ صرف یسوؔع کے شاگردوں کو ہی کیوں عطا کی گئی تھی؟
۶ یسوؔع نے اپنے شاگردوں کو بتایا: ”تم کو آسمان کی بادشاہی کے بھیدوں کی سمجھ دی گئی ہے مگر اُنکو نہیں دی گئی۔“ یسعیاؔہ کا حوالہ دیتے ہوئے، اُس نے مزید کہا: ”کیونکہ اس اُمت کے دل پر چربی چھا گئی ہے اور وہ کانوں سے اُونچا سنتے ہیں اور اُنہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں تا ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے معلوم کریں اور کانوں سے سنیں اور دل سے سمجھیں اور رجوع لائیں اور مَیں اُنکو شفا بخشوں۔ لیکن مبارک ہیں تمہاری آنکھیں اسلئے کہ وہ دیکھتی ہیں اور تمہارے کان اسلئے کہ وہ سنتے ہیں۔“—متی ۱۳:۱۰-۱۶؛ مرقس ۴:۱۱-۱۳۔
بادشاہت کی ”سمجھ“ حاصل کرنا
۷. بادشاہت کی ”سمجھ“ حاصل کرنا کیوں اہم ہے؟
۷ یسوؔع نے مسئلے کی نشاندہی کی۔ اسکا تعلق بادشاہتی پیغام کو ”سمجھنے“ سے تھا۔ اُس نے علیٰحدگی میں اپنے شاگردوں سے کہا: ”پس بونے والے کی تمثیل سنو۔ جب کوئی بادشاہی کا کلام سنتا ہے اور سمجھتا نہیں تو جو اُسکے دل میں بویا گیا تھا اُسے وہ شریر آکر چھین لے جاتا ہے۔“ اُس نے مزید وضاحت کی کہ چار اقسام کی زمینوں نے دل کی مختلف حالتوں کی نمائندگی کی جن میں ”بادشاہی کا کلام“ بویا جاتا ہے۔—متی ۱۳:۱۸-۲۳؛ لوقا ۸:۹-۱۵۔
۸. کس چیز نے پہلی تین اقسام کی زمین میں بوئے گئے ”بیج“ کو پھل پیدا کرنے سے روکا؟
۸ ہر معاملے میں ”بیج“ تو اچھا تھا، لیکن پھل کا انحصار زمین کی حالت پر تھا۔ اگر دل کی زمین ایک مصروف، پُرہجوم سڑک کی مانند، بہتیری غیرروحانی کارگزاریوں کی وجہ سے سخت تھی تو بادشاہتی پیغام کو سننے والوں کیلئے یہ کہتے ہوئے خود کو دستیاب نہ رکھنا بہت آسان ہوگا کہ بادشاہت کیلئے کوئی وقت نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ یہ جڑ پکڑتا نظرانداز کِیا ہوا بیج آسانی سے چھین لیا جا سکتا تھا۔ لیکن اگر بیج پتھریلی زمین کی طرح کے دل میں بویا گیا ہو تو کیا ہوتا ہے؟ شاید بیج پھوٹ نکلے، لیکن اسے غذائیت اور قائم رہنے کیلئے اپنی جڑیں نیچے گہری زمین میں بھیجنے کیلئے مشکل ہوگی۔ خدا کا فرمانبردار خادم ہونے کا امکان، بالخصوص سخت اذیت کے وقت، ایک ناقابلِبرداشت چیلنج پیش کر سکتا ہے، اور وہ شخص ٹھوکر کھا سکتا ہے۔ اور پھر، اگر دل کی زمین کانٹوں جیسی فکروں یا دولت کیلئے مادہپرستانہ خواہش سے بھری ہوئی ہو تو بادشاہت کا نازک سا پودا مُرجھا جائیگا۔ زندگی میں ان تین مثالی حالتوں کے تحت، کوئی بھی بادشاہتی پھل پیدا نہیں ہوگا۔
۹. اچھی زمین میں بویا گیا بیج اچھا پھل پیدا کرنے کے قابل کیوں تھا؟
۹ تاہم، اچھی زمین میں بوئے گئے بادشاہتی بیج کی بابت کیا ہے؟ یسوؔع جواب دیتا ہے: ”جو اچھی زمین میں بویا گیا یہ وہ ہے جو کلام کو سنتا اور سمجھتا ہے اور پھل بھی لاتا ہے۔ کوئی سو گُنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گُنا کوئی تیس گُنا۔“ (متی ۱۳:۲۳) بادشاہت کو ”سمجھنے“ میں، وہ اپنے انفرادی حالات کے مطابق اچھا پھل پیدا کرینگے۔
سمجھ کیساتھ ذمہداری آتی ہے
۱۰. (ا) یسوؔع نے کیسے ظاہر کِیا کہ بادشاہت کو ”سمجھنا“ برکات اور ذمہداری دونوں لاتا ہے؟ (ب) کیا یسوؔع کے حکم جاؤ اور شاگرد بناؤ کا اطلاق صرف پہلی صدی کے شاگردوں پر ہوتا ہے؟
۱۰ بادشاہت کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کرنے کیلئے، مزید چھ تمثیلیں پیش کرنے کے بعد، یسوؔع نے اپنے شاگردوں سے پوچھا: ”کیا تم یہ سب باتیں سمجھ گئے؟“ جب اُنہوں نے جواب دیا ”ہاں“ تو اُس نے کہا: ”اسلئے ہر فقیہ جو آسمان کی بادشاہی کا شاگرد بنا ہے اُس گھر کے مالک کی مانند ہے جو اپنے خزانہ میں سے نئی اور پُرانی چیزیں نکالتا ہے۔“ یسوؔع کی فراہمکردہ تعلیمات اور تربیت نے اُس کے شاگردوں کو ایسے پُختہ مسیحی بنایا جو اپنے ’ذخیرے‘ میں سے کثیر روحانی غذا کی غیرمختتم رسد بہم پہنچا سکتے تھے۔ اس میں سے زیادہتر کا تعلق خدا کی بادشاہت سے تھا۔ یسوؔع نے واضح کِیا کہ بادشاہت کو ”سمجھنا“ صرف برکات ہی نہیں بلکہ ذمہداری بھی لائے گا۔ اُس نے حکم دیا: ”تم جاکر سب قوموں کو شاگرد بناؤ . . . انکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“—متی ۱۳:۵۱، ۵۲؛ ۲۸:۱۹، ۲۰۔
۱۱. جب ۱۹۱۴ آیا تو بادشاہت سے متعلق کونسے واقعات رونما ہوئے؟
۱۱ وعدے کے مطابق، یسوؔع صدیوں سے لیکر آج تک اپنے سچے شاگردوں کے ساتھ رہا ہے۔ ان آخری ایّام میں، اُس نے اُنہیں بتدریج سمجھ عطا کی ہے، اور اُس نے اُنہیں سچائی کی بڑھتی ہوئی روشنی کے استعمال کیلئے ذمہدار ٹھہرایا ہے۔ (لوقا ۱۹:۱۱-۱۵، ۲۶) ۱۹۱۴ میں، بادشاہتی واقعات فوراً اور ڈرامائی انداز میں آشکارا ہونے شروع ہو گئے۔ اُس سال کے دوران، نہ صرف اُس بادشاہت کا ”جنم“ ہوا جسکی برسوں سے اُمید تھی بلکہ ”دُنیا کا آخر“ بھی شروع ہو گیا۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۵؛ ۱۲:۵، ۱۰؛ مکاشفہ ۷:۱۳، ۱۴، ۲۷) حالیہ واقعات کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے، سچے مسیحیوں نے بادشاہتی منادی اور تعلیم کی تاریخ میں عظیم کارگزاری کا بندوبست کِیا ہے۔ یسوؔع نے یہ کہتے ہوئے اسکی پیشینگوئی کی: ”بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“—متی ۲۴:۱۴۔
۱۲. (ا) دورِحاضر کی وسیع بادشاہتی گواہی کا کیا نتیجہ رہا ہے؟ (ب) اس مُتشکِک دُنیا میں، مسیحیوں کیلئے کونسا خطرہ ہے؟
۱۲ بادشاہت کی یہ وسیع گواہی ۲۳۰ سے زائد ممالک تک پہنچ گئی ہے۔ پہلے ہی، پانچ ملین سے زیادہ سچے شاگرد اس کام میں حصہ لے رہے ہیں، اور ابھی دیگر جمع کئے جا رہے ہیں۔ اگر ہم شاگردوں کی تعداد کا زمین کے ۶.۵ بلین باشندوں کے ساتھ مقابلہ کریں تو یہ ظاہر ہے کہ یسوؔع کے زمانہ کی طرح، نوعِانسان کی اکثریت بادشاہت کو نہیں ”سمجھتی۔“ پیشینگوئی کے مطابق بہتیرے، تمسخر اُڑاتے اور کہتے ہیں: ”اُسکے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟“ (۲-پطرس ۳:۳، ۴) مسیحیوں کے طور پر ہمارے لئے یہ خطرہ ہے کہ اُنکا لاپرواہ، مُتشکِک، مادہپرستانہ میلان بادشاہتی استحقاقات کی بابت ہمارے نظریے کو بتدریج متاثر کر سکتا ہے۔ اس دُنیا کے لوگوں کے درمیان، ہم اُنکے رجحانات اور عادات میں سے بعض کو بآسانی اختیار کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ یہ کسقدر اہم ہے کہ ہم خدا کی بادشاہت کو ”سمجھیں“ اور اسے پکڑے رہیں!
بادشاہت کے سلسلے میں اپنی جانچ کرنا
۱۳. جہاں تک بادشاہتی خوشخبری کی منادی کرنے کے حکم کا تعلق ہے، ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ آیا ہم سمجھ کیساتھ مسلسل ’سن‘ رہے ہیں؟
۱۳ یسوؔع نے کٹائی کے اس وقت کا ذکر کِیا جس میں ہم رہتے ہیں: ”ابنِآدم اپنے فرشتوں کو بھیجیگا اور وہ سب ٹھوکر کھلانے والی چیزوں اور بدکاروں کو اُسکی بادشاہی میں سے جمع کرینگے۔ . . . اُس وقت راستباز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے۔ جسکے کان ہوں وہ سن لے۔“ (متی ۱۳:۴۱، ۴۳) کیا آپ بادشاہت کی منادی کرنے اور شاگرد بنانے کے حکم کو اطاعتشعار اثرپذیری کیساتھ مسلسل ’سن‘ رہے ہیں؟ یاد رکھیں، جو ”اچھی زمین میں بویا گیا“ اُس نے ’کلام کو سنا اور اُسکے مفہوم کو سمجھا‘ اور اچھا پھل پیدا کِیا۔—متی ۱۳:۲۳۔
۱۴. جب کوئی مشورت دی جاتی ہے تو ہم کیسے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم پیشکردہ مشورت کو ”سمجھتے“ ہیں؟
۱۴ ذاتی مطالعہ کرتے اور مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوتے وقت، ہمیں ’فہم سے دل لگانا‘ پڑتا ہے۔ (امثال ۲:۱-۴) جب چالچلن، لباس، موسیقی، اور تفریح کے سلسلے میں مشورت دی جاتی ہے تو ہمیں اسے اپنے دلوں کی گہرائی تک پہنچنے اور ضروری تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے ہمیں تحریک دینے کا موقع دینا چاہئے۔ کبھی بھی پُرفریب توجیہ نہ کریں، بہانے نہ بنائیں، یا بصورتِدیگر جوابیعمل دکھانے میں ناکام نہ ہوں۔ اگر بادشاہت ہماری زندگیوں میں حقیقی ہے تو ہم اسکے معیاروں کے مطابق زندگی بسر کرینگے اور گرمجوشی سے دوسروں کے سامنے اسکا اعلان کرینگے۔ یسوؔع نے کہا: ”جو مجھ سے اَے خداوند اَے خداوند! کہتے ہیں اُن میں سے ہر ایک آسمان کی بادشاہی میں داخل نہ ہوگا مگر وہی جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتا ہے۔“—متی ۷:۲۱-۲۳۔
۱۵. ’پہلے بادشاہت اور خدا کی راستبازی کی تلاش کرنا‘ اتنا اہم کیوں ہے؟
۱۵ ضروری خوراک، لباس، اور رہائش کی بابت فکرمند ہونا انسانی میلان ہے، لیکن یسوؔع نے کہا: ”بلکہ تم پہلے . . . بادشاہی اور اُس کی [خدا کی] راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تمکو مل جائینگی۔“ (متی ۶:۳۳، ۳۴) اوّلیتوں کا تعیّن کرتے وقت، بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دیں۔ اپنی زندگیوں کو شاید یہ پُرفریب توجیہ کرتے ہوئے غیرضروری کارگزاریوں اور حاصلات سے بھر لینا احمقانہ بات ہوگی کہ ایسا کرنا قابلِقبول ہے کیونکہ یہ کام ضروری طور پر بذاتِخود بُرے نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہو سکتا ہے، ایسی غیرضروری اشیاء کو حاصل کرنا اور استعمال کرنا ہمارے ذاتی مطالعے کو جدوَل دینے، مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہونے، اور منادی کے کام میں شریک ہونے کے ساتھ کیا کریگا؟ یسوؔع نے کہا کہ بادشاہت ایسے سوداگر کی مانند ہے جسے ”ایک بیشقیمت موتی ملا [اور] اُس نے جاکر جوکچھ اُسکا تھا سب بیچ ڈالا اور اُسے مول لے لیا۔“ (متی ۱۳:۴۵، ۴۶) ہمیں بھی خدا کی بادشاہت کی بابت ایسا ہی خیال کرنا چاہئے۔ ہمیں پولسؔ کی نقل کرنی چاہئے نہ کہ دیماؔس کی جس نے ”اس موجودہ جہان کو پسند کرکے“ خدمتگزاری کو چھوڑ دیا۔—۲-تیمتھیس ۴:۱۰، ۱۸؛ متی ۱۹:۲۳، ۲۴؛ فلپیوں ۳:۷، ۸، ۱۳، ۱۴؛ ۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰، ۱۷-۱۹۔
”بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے“
۱۶. خدا کی بادشاہت کو ”سمجھنا“ کیسے غلط چالچلن سے گریز کرنے میں ہماری مدد کریگا؟
۱۶ جب کرنتھیوں کی کلیسیا بداخلاقی سے درگزر کر رہی تھی تو پولسؔ نے صاف طور پر کہا: ”کیا تم نہیں جانتے کہ بدکار خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے؟ فریب نہ کھاؤ۔ نہ حرامکار خدا کی بادشاہی کے وارث ہونگے نہ بُتپرست نہ زناکار نہ عیاش۔ نہ لونڈےباز۔ نہ چور۔ نہ لالچی نہ شرابی۔ نہ گالیاں بکنے والے نہ ظالم۔“ (۱-کرنتھیوں ۶:۹، ۱۰) اگر ہم خدا کی بادشاہت کو ”سمجھتے“ ہیں تو ہم خود کو ایسی سوچ میں مبتلا کرکے دھوکا نہیں دینگے کہ جب تک یہوؔواہ ہمیں مسیحی خدمت میں مصروف دیکھتا ہے وہ بداخلاقی کی کسی نہ کسی قسم کو برداشت کرتا رہیگا۔ ناپاکی کا ہم میں ذکر تک نہیں ہونا چاہئے۔ (افسیوں ۵:۳-۵) کیا آپ یہ جان لیتے ہیں کہ اس دُنیا کی نفرتانگیز سوچ یا عادات میں سے کچھ آہستہ آہستہ آپ کی زندگی میں داخل ہونا شروع ہو رہی ہیں؟ اُنہیں فوراً اپنی زندگی میں سے نکال ڈالیں! بادشاہت اتنی گرانقدر ہے کہ ایسی چیزوں کیلئے اسے کھویا نہیں جا سکتا۔—مرقس ۹:۴۷۔
۱۷. کن طریقوں سے خدا کی بادشاہت کیلئے قدردانی فروتنی کو بڑھاتی ہے اور ٹھوکر کھلانے کی وجوہات کو دُور کرتی ہے؟
۱۷ یسوؔع کے شاگردوں نے پوچھا: ”آسمان کی بادشاہی میں بڑا کون ہے؟“ یسوؔع نے ایک چھوٹے بچے کو اُن کے درمیان کھڑا کرکے اور یہ کہہ کر جواب دیا: ”مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم توبہ نہ کرو اور بچوں کی مانند نہ بنو تو آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہوگے۔ پس جو کوئی اپنے آپ کو اس بچے کی مانند چھوٹا بنائے گا وہی آسمان کی بادشاہی میں بڑا ہوگا۔“ (متی ۱۸:۱-۶) مغرور، متقاضی، لاپرواہ، اور قانونشکن خدا کی بادشاہت میں نہیں ہونگے، نہ ہی وہ بادشاہت کی رعایا ہونگے۔ کیا اپنے بھائیوں کیلئے آپ کی محبت، آپ کی فروتنی، آپ کا خدائی خوف، آپ کو اپنے چالچلن سے دوسروں کو ٹھوکر کھلانے سے گریز کرنے کیلئے تحریک دیتا ہے؟ یا کیا آپ اپنے ”حقوق“ پر اصرار کرتے ہیں اس سے قطعنظر کہ ایسا رویہ اور چالچلن دوسروں کو کیسے متاثر کر سکتا ہے؟—رومیوں ۱۴:۱۳، ۱۷۔
۱۸. جب خدا کی بادشاہت اُسکی مرضی کو ”جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی“ پورا ہونے کا باعث بنے گی تو فرمانبردار نوعِانسان کیلئے کیا نتیجہ نکلے گا؟
۱۸ ہمارا آسمانی باپ، یہوؔواہ بہت جلد اس پُرجوش دُعا کا بھرپور جواب دے گا: ”تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو۔“ بہت جلد حکمران بادشاہ، یسوؔع مسیح، عدالت کرنے کیلئے، ”بھیڑوں“ کو ”بکریوں“ سے جدا کرنے کیلئے اپنے تخت پر بیٹھے گا۔ اُس مقررہ وقت پر، ”بادشاہ اپنے دہنی طرف والوں سے کہیگا آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِعالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔“ بکرینما ”ہمیشہ کی سزا پائینگے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی۔“ (متی ۶:۱۰؛ ۲۵:۳۱-۳۴، ۴۶) ”بڑی مصیبت“ پُرانے نظام کو اور اُن لوگوں کو جو بادشاہت کو ”سمجھنے“ سے انکار کرتے ہیں ختم کر دیگی۔ لیکن ”بڑی مصیبت“ سے بچنے والے لاکھوں لوگ اور قیامت کی صورت میں زندہ ہونے والے لاکھوںلاکھ بحالشُدہ زمینی فردوس میں غیرمختتم بادشاہتی برکات کی میراث پائینگے۔ (مکاشفہ ۷:۱۴) بادشاہت آسمان سے حکمرانی کرنے والی نئی زمینی حکومت ہے۔ یہ زمین اور نوعِانسان کیلئے یہوؔواہ کے مقصد کو پایۂتکمیل تک پہنچائیگی، سب کچھ اُسکے نہایت پاک نام کی خاطر۔ کیا یہ ایسی میراث نہیں جسکے لئے کام کرنا، قربانی دینا، اور انتظار کرنا بیشقیمت ہے؟ ہمارے لئے بادشاہت کو ”سمجھنے“ کا مطلب یہی ہونا چاہئے! (۱۶ ۰۲/۰۱ w۹۶)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ خدا کی بادشاہت کیا ہے؟
▫ یسوؔع کے اکثر سامعین نے بادشاہت کو کیوں نہ ”سمجھا“؟
▫ کیسے بادشاہت کو ”سمجھنا“ دونوں برکات اور ذمہداری لاتا ہے؟
▫ منادی کے سلسلے میں، کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ آیا ہم بادشاہت کے ’مفہوم کو سمجھ‘ چکے ہیں؟
▫ ہم کیسے اپنے چالچلن سے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم پیشکردہ مشورت کے ’مفہوم کو سمجھ‘ چکے ہیں؟
[تصویریں]
یسوؔع کے شاگردوں نے بادشاہت کے ’مفہوم کو سمجھا‘ اور اچھا پھل پیدا کِیا