ہوشیار رہیں—خاتمہ قریب ہے
”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ پس ہوشیار رہو اور دعا کرنے کیلئے تیار۔“—۱-پطرس ۴:۷۔
۱. (ا) ایک مذہبی لیڈر اور اسکے پیروکاروں کو کس مایوسی کا تجربہ ہوا؟ (ب) چونکہ بعض توقعات پوری نہیں ہوئی ہیں تو کونسے سوالات پوچھے جا سکتے ہیں؟
”مجھے آج رات کی آخری دعا کے دوران خدا کی طرف سے بلاوا آیا۔ اس نے کہا کہ ۱،۱۶،۰۰۰ اشخاص آسمان پر اٹھائے جائینگے اور ۳.۷ ملین مرے ہوئے ایمانداروں کی قبروں کے مُنہ آسمان کی طرف کھل جائینگے۔“ مشن فار دی کمنگ ڈیز (آنیوالے دنوں کے مشن) کے ایک لیڈر نے اکتوبر ۲۸، ۱۹۹۲ کی شام کو اپنے پیشینگوئیکردہ یومحساب والے دن پر یوں کہا۔ تاہم، جب اکتوبر ۲۹ آ گیا تو ایک بھی شخص آسمان پر نہیں اٹھایا گیا تھا اور نہ ہی مردوں کی کوئی قبریں کھلی تھیں۔ بلکہ تیزی سے آسمانی وجد میں اوپر اٹھائے جانے کی بجائے کوریا میں ان یومآخرت کو ماننے والوں نے ایک اور دن کی سحر کو دیکھا۔ یومآخرت کی آخری تاریخیں آئیں اور چلی گئیں، لیکن یومآخرت کے دعویدار مایوس نہ ہوئے۔ مسیحیوں کو کیا کرنا ہے؟ کیا انہیں یہ ایمان رکھنا چھوڑ دینا چاہئے کہ خاتمہ جلد آ رہا ہے؟
۲. عدالت کے آنے والے دن کی بابت رسولوں سے کس نے کلام کیا، اور کن حالات کے تحت انہوں نے اسکی بابت سیکھا تھا؟
۲ اس کا جواب دینے کیلئے، آئیے ہم اس وقت کو یاد کریں جب یسوع اپنے شاگردوں کیساتھ نجی گفتگو میں مصروف تھا۔ قیصریہ فلپی کے علاقہ میں، گلیل کی جھیل کے شمال مشرق میں پرشکوہ کوہحرمون ایک ڈرامائی پسمنظر فراہم کرتا ہے، وہاں انہوں نے اسے صافگوئی کے ساتھ کہتے سنا کہ اسے قتل کیا جائیگا۔ (متی ۱۶:۲۱) دیگر سنجیدہ باتیں اسکے بعد کی جانی تھیں۔ ان پر یہ وضاحت کرنے کے بعد کہ شاگردی کا مطلب مسلسل خودایثاری والی زندگی گزارنا ہے یسوع نے آگاہ کیا: ”کیونکہ ابنآدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آئیگا۔ اس وقت ہر ایک کو اسکے کاموں کے مطابق بدلہ دیگا۔“ (متی ۱۶:۲۷) یسوع نے آئندہ آمد کا ذکر کیا۔ تاہم، اس موقع پر، وہ ایک منصف ہوگا۔ اس وقت ہر چیز کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا وہ افراد کو وفاداری کے ساتھ اپنی پیروی کرتے ہوئے پائیگا یا نہیں۔ یسوع کی عدالت کا انحصار رویے پر ہوگا اس سے قطعنظر کہ اس شخص کے پاس کتنی دنیاوی چیزیں موجود ہو سکتی ہیں یا نہیں ہو سکتیں۔ اسکے شاگردوں کو اس حقیقت کو پُختہ طور پر ذہن میں رکھنا تھا۔ (متی ۱۶:۲۵، ۲۶) پس یسوع مسیح خود ہی اپنے پیروکاروں کو بتاتا ہے کہ اسکی پرجلال آمد کے ساتھ، اسکی عدالت کے منتظر رہیں۔
۳. یسوع نے اپنی آئندہ آمد کے یقینی ہونے کو کیسے مثال دیکر سمجھایا؟
۳ جو کچھ یسوع آگے کہتا ہے وہ اسکی آئندہ آمد کے یقینی ہونے کی وضاحت کرتا ہے۔ بااختیار طور پر وہ بیان کرتا ہے: ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو یہاں کھڑے ہیں ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ جب تک ابنآدم کو اسکی بادشاہی میں آتے ہوئے نہ دیکھ لینگے موت کا مزہ ہرگز نہ چکھینگے۔“ (متی ۱۶:۲۸) یہ الفاظ چھ دن بعد تکمیل پاتے ہیں۔ یسوع کی بدلی ہوئی شکل کی ایک تابناک رویا اسکے قریبی شاگردوں کو دنگ کر دیتی ہے۔ وہ حقیقت میں یسوع کے چہرے کو آفتاب کی مانند چمکتے اور اسکی چندھیا دینے والی سفید پوشاک کو دیکھتے ہیں۔ بدلی ہوئی شکل مسیح کے جلال اور بادشاہت کا پیشگی نظارہ تھا۔ بادشاہتی پیشینگوئیوں کی کیا ہی تقویتبخش تصدیق! شاگردوں کیلئے ہوشیار رہنے کیلئے کیا ہی پرزور محرک!—۲-پطرس ۱:۱۶-۱۹۔
کیوں ہوشیار رہنا اشد ضروری ہے
۴. مسیحیوں کو اسکی آمد کیلئے روحانی طور پر چوکس کیوں ہونا چاہیے؟
۴ ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد، ہم یسوع کو پھر سے اپنے شاگردوں کے ساتھ کوہزیتون پر بیٹھے ہوئے نجی بات چیت کرتے پاتے ہیں۔ جب وہ یروشلیم کے شہر کو بغور دیکھتے ہیں تو وہ وضاحت کرتا ہے کہ اسکی آئندہ موجودگی کا نشان کیا ہوگا اور پھر آگاہ کرتا ہے: ”پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا خداوند کس دن آئیگا۔“ اسکے پیروکاروں کو ہمیشہ چوکس رہنا چاہیے کیونکہ اسکی آمد کا وقت نامعلوم ہے۔ انہیں اس کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔—متی ۲۴:۴۲۔
۵. چوکس ہونے کی ضرورت کو کیسے مثال دیکر سمجھایا جا سکتا ہے؟
۵ اپنی آمد کے طورطریقے میں، خداوند چور کے مشابہ ہے۔ وہ آگے کہتا ہے: ”لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئیگا تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا۔“ (متی ۲۴:۴۳) ایک نقبزن صاحبخانہ کو مطلع کرنے کیلئے اعلان نہیں کرتا کہ وہ کب آئیگا، بلکہ اسکا بڑا ہتھیار بےخبری ہے۔ اسلئے صاحبخانہ کو ہمیشہ چوکس رہنا چاہیے۔ تاہم، وفادار مسیحی کیلئے، انتھک چوکسی کسی خوفناک اندیشے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسکی بجائے یہ امن کے ہزار سالہ دور میں داخل ہونے کیلئے جلال میں مسیح کی آمد کی سرگرم توقع سے تحریک پاتی ہے۔
۶. ہمیں ہوشیار کیوں رہنا چاہیے؟
۶ اس تمام جاگنے کے باوجود، کوئی بھی کبھی پہلے سے صحیح دن کا اندازہ نہیں لگا سکیگا کہ وہ کب آنے والا ہے۔ یسوع کہتا ہے: ”اسلئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تم کو گمان بھی نہیں ہوگا ابنآدم آ جائیگا۔“ (متی ۲۴:۴۴) لہذا، ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک مسیحی سوچتا ہے کہ کسی خاص دن پر مسیح نہیں آئے گا تو شاید وہی دن ہوگا جب وہ آ جاتا ہے! بلاشبہ، ماضی میں نیکنیت وفادار مسیحیوں نے پورے خلوص سے پیشبینی کرنے کی کوشش کی کہ خاتمہ کب آئیگا۔ پھر بھی، یسوع کی آگاہی بار بار سچی ثابت ہو چکی ہے: ”لیکن اس دن اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا۔ نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ۔“—متی ۲۴:۳۶۔
۷. مسیح کے پیروکار ہونے کیلئے، ہمیں اپنی زندگیوں کو کیسے بسر کرنا چاہیے؟
۷ پھر، ہمیں کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہیے؟ مسیح کے پیروکار ہونے کیلئے ہمیں ہمیشہ یہ یقین رکھتے ہوئے زندہ رہنا ہے کہ شریر نظام کا خاتمہ بالکل قریب ہے۔
۸. مسیحیت کے ابتدائی وقتوں سے لیکر مسیحیوں کا امتیازی نشان کیا رہا ہے؟
۸ ایسا رویہ ہمیشہ مسیحیوں کا امتیازی نشان رہا ہے، جیسے کہ دنیاوی تاریخدان اور بائبل عالم تسلیم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، دی ٹرانسلیٹرز نیو ٹسٹامنٹ کے ایڈیٹر لفظ ”ڈے“ (دن) کے تحت اپنی فرہنگ میں بیان کرتے ہیں: ”نئے عہدنامے کے زمانے کے مسیحی اس دن (اس وقت) کی توقع میں زندہ رہے جب موجودہ دنیا کو اپنی تمام بدکاری اور شرارت کے ساتھ خاتمے کو پہنچایا جائیگا اور یسوع تمام نوعانسان کی عدالت کرنے کیلئے زمین پر واپس آئیگا، جب وہ امن کے ایک نئے دور کا آغاز کریگا اور تمام دنیا پر اپنی حکومت کو شروع کریگا۔“ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا بیان کرتا ہے: ”مسیحیت کی بےمثال عالمی توسیع کا براہراست تعلق فوراً آ جانے والی مسیح کی واپسی کی توقع کی صورت میں خاتمے کے وقت کی بابت مسیحی توقع سے ہے۔ خاتمے کے وقت کی بابت مسیحی توقع کبھی بھی خدا کی بادشاہت کے آنے کی انفعالی آرزو پر مشتمل نہیں ہوئی۔“
ہوشیار ہونے کا جو مطلب ہے
۹. اگرچہ مسیحا کی بابت پطرس کی بعض توقعات غلط تھیں تو بھی وہ پراعتماد کیوں رہ سکتا تھا؟
۹ پطرس رسول، گہری دوستانہ باتوں کے کوئی ۳۰ سال بعد، جو یسوع نے اپنے نہایت ہی قریبی شاگردوں کے ساتھ کی تھیں، خاتمے کے آنے کا انتظار کرنے سے تھکا نہیں تھا۔ اگرچہ مسیحا کی بابت اسکی اور اسکے ساتھی شاگردوں کی ابتدائی توقعات صحیح نہ تھیں تو بھی وہ پراعتماد رہا کہ یہوواہ کی محبت اور قوت نے انکی امید کے برآنے کی ضمانت دی ہے۔ (لوقا ۱۹:۱۱، ۲۴:۲۱، اعمال ۱:۶، ۲-پطرس ۳:۹، ۱۰) وہ ایک نکتے کا ذکر کرتا ہے جسے پورے یونانی صحائف میں ہم آہنگی کے ساتھ سنا گیا ہے جب وہ کہتا ہے: ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔“ اسکے بعد وہ ساتھی مسیحیوں کو تلقین کرتا ہے: ”پس ہوشیار رہو اور دعا کرنے کیلئے تیار۔“—۱-پطرس ۴:۷۔
۱۰. (ا) ہوشیار ہونے کا مطلب کیا ہے؟ (ب) معاملات کو خدا کی مرضی کے ساتھ انکے صحیح تعلق سے دیکھنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۰ دنیاوی نقطہءنگاہ سے ”ہوشیار رہنے“ کا مطلب چستوچالاک ہونا نہیں ہے۔ یہوواہ کہتا ہے: ”میں حکیموں کی حکمت کو نیست اور عقلمندوں کی عقل کو رد کرونگا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱:۱۹) جس لفظ کو پطرس استعمال کرتا ہے اسکا مطلب ”متین ذہن والا ہونا“ ہو سکتا ہے۔ اس روحانی متانت کا تعلق ہماری پرستش سے ہے۔ پس ذہنی طور پر متوازن ہونے سے، ہم چیزوں کو یہوواہ کی مرضی کے مطابق اسکے صحیح تعلق میں دیکھتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ کونسی چیزیں ضروری ہیں اور کونسی نہیں ہیں۔ (متی ۶:۳۳، ۳۴) اگرچہ خاتمہ نزدیک ہے تو بھی ہم مضطرب طرززندگی میں الجھ کر دور نہیں نکل جاتے، اور نہ ہی وقت کے اس دور سے ہم بےپرواہ ہیں جس کے اندر ہم رہتے ہیں۔ (مقابلہ کریں متی ۲۴:۳۷-۳۹۔) بلکہ، ہم اعتدالپسندی کے اصول کے تحت چلتے ہیں اور خیال، رجحان، اور چالچلن میں متوازن ہیں جسکا پہلے خدا کی جانب (”دعا کرنے کیلئے تیار“) اور بعد میں اپنے پڑوسی کی جانب (”آپس میں بڑی محبت رکھو“) اظہار کیا گیا ہے۔—۱-پطرس ۴:۷، ۸۔
۱۱. (ا) ”اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ“ کا مطلب کیا ہے؟ (ب) ایک نئی ذہنی قوت اچھے فیصلے کرنے میں ہماری مدد کیسے کرتی ہے؟
۱۱ ہوشیار رہنے میں ہمارا ”اپنی عقل کی روحانی حالت میں نئے بنتے“ جانا شامل ہے۔ (افسیوں ۴:۲۳) نئے کیوں بنتے جائیں؟ چونکہ ہم نے ناکاملیت ورثے میں پائی ہے اور گنہگارانہ ماحول میں رہتے ہیں، اسلئے ہمارے ذہن پر ایسی رغبت مسلّط ہے جو روحانیت کی مخالف ہے۔ وہ قوت ہمیشہ خیالات اور ارادوں کو ایک مادہپرستانہ، خودغرضانہ سمت کی طرف دھکیلتی رہتی ہے۔ لہذا، جب کوئی مسیحی بنتا ہے تو اسے ایک نئی قوت، یا مسلّط ذہنی رجحان کی ضرورت ہے جو اسکے خیالات کو صحیح سمت، روحانی سمت، خودایثاری کیلئے آمادگی کی جانب دھکیلے گی۔ پس جب ایک انتخاب کی پیشکش کی جاتی ہے، مثال کے طور پر، تعلیم، پیشے، ملازمت، کھیلتماشے، تفریحطبع، لباس، اسٹائل میں یا جو کچھ بھی ہو تو اسکی پہلی خواہش یہ ہوگی کہ معاملے پر جسمانی، خودغرضانہ نقطہءنظر کی بجائے روحانی نقطہءنظر سے غور کرے۔ یہ نیا ذہنی رجحان معاملات کا ہوشیاری سے اور اس آگاہی کے ساتھ فیصلہ کرنے کو زیادہ آسان بنا دیتا ہے کہ خاتمہ نزدیک ہے۔
۱۲. ہم ایمان [”میں صحتمند،“ NW] کیسے رہ سکتے ہیں؟
۱۲ ہوشیار ہونے میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ ہم اچھی روحانی صحت رکھتے ہیں۔ ہم ایمان [”میں صحتمند،“ NW] کیسے رہ سکتے ہیں؟ (ططس ۲:۲) ہمیں اپنے ذہن کو صحیح قسم کی خوراک دینی چاہیے۔ (یرمیاہ ۳:۱۵) خدا کی روحالقدس کی تحریک کی حمایت سے، اس کے سچائی کے کلام کی متوازن غذا ہمیں اپنے روحانی توازن کو برقرار رکھنے میں مدد دے گی۔ اسلئے، ذاتی مطالعے، اور میدانی خدمت، دعا، اور مسیحی رفاقت میں باقاعدگی نہایت اہم ہے۔
ہوشیاری جسطرح ہماری حفاظت کرتی ہے
۱۳. ہوشیاری احمقانہ غلطیاں کرنے سے ہماری حفاظت کیسے کرتی ہے؟
۱۳ ہوشیاری کوئی ایسی احمقانہ غلطی کرنے سے ہماری حفاظت کر سکتی ہے جو ہم سے ہماری ہمیشہ کی زندگی کھو دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ پولس رسول ”عقل کی شریعت“ کا ذکر کرتا ہے۔ ایمان میں صحتمند شخص کیلئے عقل کی وہ شریعت کسی ایسی چیز سے اثرپزیر ہوتی ہے جس میں وہ خوشی حاصل کرتا ہے، یعنی ”خدا کی شریعت۔“ درست ہے کہ ”گناہ کی شریعت“ عقل کی شریعت کے ساتھ جنگ کرتی ہے۔ تاہم، مسیحی یہوواہ کی مدد کے ساتھ فاتح بن سکتے ہیں۔—رومیوں ۷:۲۱-۲۵۔
۱۴، ۱۵. (ا) کونسے دو اثرات ذہن کو قابو میں رکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں؟ (ب) ہم ذہن کی لڑائی کو کیسے جیت سکتے ہیں؟
۱۴ پولس اس ذہن میں جس پر گنہگارانہ جسم کا تسلط ہوتا ہے، جسکا مرکز خودپروری کی زندگی ہے اور اس ذہن میں نمایاں فرق کو بیان کرتے ہوئے بیان کو جاری رکھتا ہے جو روح کے زیرتسلط ہوتا ہے اور جسکا مرکز یہوواہ کی خدمت کرنے میں خودایثاری والی زندگی ہوتا ہے۔ رومیوں ۸:۵-۷ میں پولس لکھتا ہے: ”کیونکہ جو جسمانی ہیں وہ جسمانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں لیکن جو روحانی ہیں وہ روحانی باتوں کے خیال میں رہتے ہیں۔ اور جسمانی نیت موت ہے مگر روحانی نیت زندگی اور اطمینان ہے۔ اسلئے کہ جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے نہ ہو سکتی ہے۔“
۱۵ پھر، پولس ۱۱ آیت میں وضاحت کرتا ہے کہ کسطرح ذہن جو روحالقدس کے ساتھ تعاون کرتا ہے وہ لڑائی جیتتا ہے: ”اور اگر اسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اس روح کے وسیلہ سے زندہ کریگا جو تم میں بسا ہوا ہے۔“
۱۶. ہوشیاری کن دلفریبیوں سے ہماری حفاظت کرتی ہے؟
۱۶ اس لئے ہوشیار رہنے سے، ہم ہر جگہ پائی جانے والی اس دنیا کی دلفریبیوں کے ذریعے بہکاوے میں نہیں آئینگے، جس کا خاصہ ہر طرح کی عیشوعشرت میں بےحد خودپروری، مادی چیزوں اور جنسی بدچلنی سے ظاہر ہوا ہے۔ ہماری ہوشیاری ہمیں ”حرامکاری سے [بھاگنے]“ اور اسکے تباہکن نتائج سے بچنے کیلئے کہے گی۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۸) ہمارا پُختہ ذہنی رجحان ہمیں بادشاہتی مفادات کو مقدم رکھنے پر آمادہ کریگا اور جب ہم دنیاوی پیشے کی پیشکشوں سے آزمائے جاتے ہیں جو یہوواہ کے ساتھ ہمارے رشتے کو کمزور کر سکتی ہیں تو یہ ہماری سوچ کو محفوظ رکھیگا۔
۱۷. ایک پائنیر بہن نے ہوشیاری کو کیسے ظاہر کیا جب اسے مالی ذمہداریوں کا سامنا تھا؟
۱۷ مثال کے طور پر، جنوب مشرقی ایشیا کے ایک گرم مرطوب ملک میں، ایک جوان بہن ہے، جس نے بادشاہتی مفادات کو ذہن میں پہلے رکھا۔ وہ کلوقتی خدمت کیلئے محبت کو پیدا کر چکی تھی۔ اس ملک میں زیادہتر ملازمتیں چھ یا سات دن پورے وقت کے کام کا تقاضا کرتی ہیں۔ یونیورسٹی سے اسکے فارغالتحصیل ہونے کے بعد، اسکے باپ نے، جو یہوواہ کا گواہ نہ تھا، اس سے توقع کی کہ خاندان کیلئے بہت سا پیسہ کمائے۔ لیکن چونکہ وہ پائنیرنگ کرنے کی شدید خواہش رکھتی تھی اس نے جزوقتی ملازمت تلاش کر لی اور پائنیر خدمت شروع کر دی۔ اس سے اسکا باپ سخت ناراض ہو گیا، جس نے اسکی چیزوں کو سڑک پر پھینک دینے کی دھمکی دی۔ قماربازی کی وجہ سے، وہ قرض میں دب چکا تھا، اور اس نے اپنی بیٹی سے توقع وابستہ کی کہ اسکے قرضوں کو ادا کرے۔ اسکا چھوٹا بھائی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا، اور قرضوں کی وجہ سے اسکی ٹیوشن فیس ادا کرنے کیلئے کوئی پیسہ نہ تھا۔ چھوٹے بھائی نے وعدہ کیا کہ اگر وہ اسکی مدد کریگی تو جب اسے ملازمت ملے گی تو وہ خاندان کی دیکھ بھال کرے گا۔ اسکا دل اپنے بھائی کیلئے اسکی محبت اور پائنیر خدمت کیلئے اسکی محبت کی وجہ سے منقسم تھا۔ معاملے پر احتیاط کے ساتھ غوروفکر کرنے کے بعد، اس نے پائنیر خدمت کو جاری رکھنے اور کوئی فرق ملازمت تلاش کرنے کا پُختہ ارادہ کر لیا۔ اسکی دعاؤں کے جواب میں، اسے اچھی ملازمت مل گئی جہاں پر وہ نہ صرف اپنے خاندان اور اپنے بھائی کی مالی طور پر مدد کرنے بلکہ اپنی پہلی محبت یعنی پائنیر خدمت کو بھی جاری رکھنے کے قابل تھی۔
ہوشیاری کو قائم رکھنے میں یہوواہ کی مدد کے طالب ہوں
۱۸. (ا) بعض لوگ بےحوصلہ کیوں ہو سکتے ہیں؟ (ب) ان بےحوصلہ لوگوں کو کونسے صحائف تسلی دے سکتے ہیں؟
۱۸ ہو سکتا ہے کہ مسیح کے بعض پیروکار اپنی ہوشیاری کو قائم رکھنا مشکل پائیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا صبر ماند پڑ جائے کیونکہ یہ موجودہ شریر دستورالعمل انکی توقع سے زیادہ طویل ہوتا جا رہا ہے۔ وہ اسکی بابت بےحوصلہ ہو سکتے ہیں۔ تاہم، خاتمہ ضرور آئیگا۔ یہوواہ اسکا وعدہ کرتا ہے۔ (ططس ۱:۲) اور اسی طرح سے اسکا موعودہ زمینی فردوس بھی آئیگا۔ یہوواہ اسکی ضمانت دیتا ہے۔ (مکاشفہ ۲۱:۱-۵) جب نئی دنیا آتی ہے تو وہاں پر ان سب کیلئے ”زندگی کا درخت“ ہوگا جو اپنی ہوشیاری کو قائم رکھتے ہیں۔—امثال ۱۳:۱۲۔
۱۹. ہوشیاری کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے؟
۱۹ ہم ہوشیاری کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں؟ یہوواہ کی مدد کے طالب ہوں۔ (زبور ۵۴:۴) اسکی قربت میں رہیں۔ ہم کتنے خوش ہیں کہ یہوواہ ہماری قربت کی خواہش رکھتا ہے! ”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا،“ یعقوب شاگرد لکھتا ہے۔ (یعقوب ۴:۸) پولس کہتا ہے: ”خداوند میں ہر وقت خوش رہو۔ پھر کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تمہاری نرممزاجی سب آدمیوں پر ظاہر ہو۔ خداوند قریب ہے۔ کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگزاری کے ساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوع میں محفوظ رکھیگا۔“ (فلپیوں ۴:۴-۷) اور جب اس ختم ہوتے ہوئے دستورالعمل کے بوجھ مزید برداشت کیلئے بہت بھاری معلوم ہوں تو انہیں یہوواہ پر ڈال دیں، اور وہ خود آپکو سنبھالیگا۔—زبور ۵۵:۲۲۔
۲۰. ۱-تیمتھیس ۴:۱۰ کی مطابقت میں ہمیں کس روش پر چلتے رہنا چاہیے؟
۲۰ جیہاں، خاتمہ نزدیک ہے، اسلئے ہوشیار رہیں! ۱۹۰۰ سال پہلے یہ اچھی نصیحت تھی آجکل بھی یہ نہایت اہم نصیحت ہے۔ اپنی پُختہ ذہنی صلاحیتوں کو یہوواہ کی تمجید کرنے کیلئے استعمال کرتے رہیں جب وہ ہمیں اپنی نئی دنیا میں بحفاظت لے جانے کیلئے راہنمائی کو جاری رکھتا ہے۔—۱-تیمتھیس ۴:۱۰۔ (۱۳ ۶/۱ W۹۳)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ ہوشیاری کیا ہے؟
▫ ہوشیار رہنا اتنا اشد ضروری کیوں ہے؟
▫ ہم اپنی عقل کی حالت میں نئے کیسے بنا دئے جا سکتے ہیں؟
▫ ہمیں اپنے ذہنوں میں کس مسلسل لڑائی کو لڑتے رہنا چاہیے؟
▫ ہم ہوشیاری کو کیسے قائم رکھتے ہیں؟
[تصویر]
دعا میں خدا کے نزدیک آنا ذہنی ہوشیاری کو قائم رکھنے میں ہماری مدد کرتا ہے
[تصویر]
ہوشیار رہنے سے ہم اس دنیا کی دلفریبیوں کے بہکاوے میں نہیں آئینگے