تخلیق کہتی ہے، ”کہ انکو کچھ عذر باقی نہیں۔“
”اسکی اندیکھی صفتیں یعنی اسکی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ انکو کچھ عذر باقی نہیں۔“—رومیوں ۱:۲۰۔
۱، ۲. (ا) ایوب نے یہوواہ سے کیا تلخ شکایت کی؟ (ب) نتیجتاً ایوب نے اپنے کونسے الفاظ کو واپس لے لیا؟
قدیم زمانے کے ایک آدمی، ایوب کو جو یہوواہ کے لئے اٹل راستی رکھتا تھا شیطان کی طرف سے ایک ہولناک آزمائش میں ڈالا گیا تھا۔ ابلیس ایوب کے تمام مادی اثاثوں کے نقصان کا سبب بنا تھا، اسکے بیٹوں اور بیٹیوں پر موت لایا تھا، اور اسکو ایک نفرتانگیز بیماری میں مبتلا کر دیا تھا۔ ایوب نے خیال کیا کہ یہ خدا تھا جو اس پر مصیبتیں لا رہا تھا، اور اس نے یہوواہ سے تلخی کیساتھ شکایت کی: ”کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے ... کہ تو میری بدکاری کو پوچھتا اور میرا گناہ ڈھونڈتا ہے گو تجھے معلوم ہے کہ میں شریر نہیں ہوں۔“—ایوب ۱:۱۲-۱۹، ۲:۵-۸، ۱۰:۳، ۶، ۷۔
۲ اسکے کچھ عرصہ بعد، خدا سے ایوب کے الفاظ نے یکسر تبدیلی کو ظاہر کیا: ”میں نے جو نہ سمجھا وہی کہا یعنی ایسی باتیں جو میرے لئے نہایت عجیب تھیں جنکو میں جانتا نہ تھا۔ میں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے اسلئے مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں۔“ (ایوب ۴۲:۳، ۵، ۶) ایوب کا رویہ بدلنے کیلئے کیا واقع ہوا تھا؟
۳. ایوب نے تخلیق کے متعلق کونسا نیا نکتہءنظر حاصل کیا؟
۳ اسی اثنا میں، یہوواہ بگولے میں سے ایوب کے ساتھ روبرو ہوا۔ (ایوب ۳۸:۱) اس نے ایوب کیلئے ہر وقت سوال تیار رکھے۔ [”تو کہاں تھا جب میں نے زمین کی بنیاد ڈالی؟ کس نے سمندر کو دروازوں سے بند کیا اور وہاں پر اسکی حدیں ٹھہرائیں جہاں پر اسکی موجیں آ سکتی تھیں؟ کیا تو بادلوں سے انکے مینہ برسانے کا سبب بن سکتا ہے؟ کیا تو گھاس اگا سکتا ہے؟ کیا تو ستاروں کے جھرمٹ کو باندھ سکتا ہے اور انکے راستوں پر انکی رہبری کر سکتا ہے؟“ ایوب کی کتاب کے ۳۸ سے ۴۱ ابواب میں یہوواہ نے ایوب سے اس طرح کے اور بہت زیادہ اپنی تخلیق کی بابت سوالوں کی بوچھاڑ کی۔ خدا کی تخلیق سے منعکس ہونے والی حکمت اور قدرت، باتیں جن کا کرنا یا سمجھنا بھی ایوب کی طاقت سے باہر تھا، ایوب کو یاد کراتے ہوئے، اس نے ایوب کو خدا اور انسان کے درمیان بڑی خلیج کو دیکھنے دیا۔ ایوب قادرمطلق خدا کی حددرجہ ناقابلیقین حکمت اور پرشکوہ قوت سے مغلوب ہوا جیسے کہ اسکی مخلوقات کے ذریعے آشکارا ہوا، وہ یہ سوچ کر خوفزدہ تھا کہ اس نے یہوواہ کے ساتھ استدلال کرنے کی جسارت کی تھی۔ اس لئے اس نے کہا: ”میں نے تیری خبر کان سے سنی تھی پر اب میری آنکھ تجھے دیکھتی ہے۔“—ایوب ۴۲:۵۔
۴. ہمیں یہوواہ کی مخلوقات سے کیا سمجھنا چاہیے، اور جو اسے سمجھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں انکی حالت کیا ہے؟
۴ بہت صدیوں بعد الہام سے ایک بائبلنویس نے تصدیق کی کہ یہوواہ کی صفات کو اسکی بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ پولس رسول نے رومیوں ۱:۱۹، ۲۰ میں لکھا: ”جو کچھ خدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ انکے باطن میں ظاہر ہے۔ اسلئے کہ خدا نے اسکو ان پر ظاہر کر دیا۔ کیونکہ اسکی اندیکھی صفتیں یعنی اسکی ازلی قدرت اور الوہیت دنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ انکو کچھ عذر باقی نہیں۔“
۵. (ا) انسان کونسی پیدائشی ضرورت رکھتے ہیں، اور بعض نے اسے کیسے غیرموزوں طور پر پورا کیا؟ (ب) اتھینے میں یونانیوں سے پولس نے کیا سفارش کی؟
۵ انسان کو ایک اعلیوبالا طاقت کی پرستش کرنے کی جبلی ضرورت کے ساتھ خلق کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر۔ کے۔ جی۔ ینگ نے اپنی کتاب دی انڈسکورڈ سلف میں اس ضرورت کا ”انسان کے ایک مخصوص جبلی رجحان، اور اسکے مظاہر“ کے طور پر حوالہ دیا، ”جسکی پوری انسانی تاریخ کے دوران پیروی کی جا سکتی ہے۔“ پولس رسول نے پرستش کرنے کی انسان کی جبلی خواہش کا ذکر کیا، جس سے واضح ہوا کہ اتھینے میں یونانیوں نے بہت سے معلوم اور نامعلوم دیوتاؤں کیلئے قربانگاہیں اور مجسّمے کیوں بنائے تھے۔ پولس نے ان کو سچے خدا کی پہچان بھی کروائی اور ظاہر کیا کہ انہیں اس پیدائشی خواہش کو سچے خدا یہوواہ کے طالب ہونے سے صحیح طور پر پورا کرنا چاہیے، ”شاید کہ ٹٹول کر اسے پائیں ہرچند وہ ہم میں سے کسی سے دور نہیں۔“ (اعمال ۱۷:۲۲-۳۰) جتنا ہم اسکی مخلوقات کے نزدیک ہیں اتنا ہی ہم اسکی خوبیوں اور صفات کو سمجھنے کے قریب ہیں۔
حیرتانگیز آبی چکر
۶. آبیچکر میں ہم یہوواہ کی کن صلاحیتیوں کو دیکھتے ہیں؟
۶ مثال کے طور پر، روئیںدار بادلوں کی ٹنوں پانی اٹھائے رکھنے کی صلاحیت سے ہم یہوواہ کی کن خوبیوں کو دیکھتے ہیں؟ ہم اسکی محبت اور حکمت کو دیکھتے ہیں کیونکہ اسطرح سے وہ زمین کو برکت سے نوازنے کیلئے بارش کی بوچھاڑ فراہم کرتا ہے۔ وہ اس کام کو واعظ ۱:۷ میں متذکرہ آبی چکر پر مشتمل حیرتافزا ترتیب سے انجام دیتا ہے۔ ”سب ندیاں سمندر میں گرتی ہیں پر سمندر بھر نہیں جاتا۔ ندیاں جہاں سے نکلتی ہیں ادھر ہی کو پھر جاتی ہیں۔“ بائبل میں ایوب کی کتاب وضاحت سے بتاتی ہے کہ یہ کیسے واقع ہوتا ہے۔
۷. پانی سمندر سے بادلوں تک کیسے پہنچتا ہے اور روئیںدار بادل ٹنوں پانی کو کیسے تھامے رہتے ہیں؟
۷ جب ندیاں سمندر میں جا گرتی ہیں تو وہاں ٹھہری نہیں رہتیں۔ یہوواہ ”پانی کے قطروں کو اوپر کھینچتا ہے جو اسی کے ابخرات سے مینہ کی صورت میں ٹپکتے ہیں۔“ چونکہ پانی آبی بخارات کی صورت میں ہے اور انجامکار نفیس ابخرات، اسلئے ”بادل اوپر توازن میں، اسکی کامل مہارت کا حیرتانگیز کام،“ ہے۔ (ایوب ۳۶:۲۷، ۳۷:۱۶ دی نیو انگلش بائبل) بادل اڑتے رہتے ہیں جبتک وہ ابخرات ہیں: ”وہ اپنے دلدار بادلوں میں پانی کو باندھ دیتا ہے اور بادل اسکے بوجھ سے پھٹتا نہیں۔“ یا جیسے کہ ایک دوسرا ترجمہ کہتا ہے: ”وہ پانیوں کو گہرے بادلوں میں باندھے ر کھتا ہے، اور بادل انکے وزن سے پھٹتے نہیں۔“—ایوب ۲۶:۸، دی جیروسلیم بائبل، اینای۔
۸. کونسے مختلف اقدام کے ذریعے ”آسمان کی مشکیں“ انڈیل دی جاتی ہیں اور آبیچکر مکمل ہوتا ہے؟
۸ زمین پر بارش برسانے کا سبب بننے کیلئے ”کون آسمان کی“ ان ”مشکوں کو انڈیل سکتا ہے؟“ (ایوب ۳۸:۳۷) وہ جسکی [”کامل مہارت، NW] انہیں پہلے وہاں لاتی ہے، جو ”ابخرات سے [ٹپکاتا ہے]“۔ اور ابخرات سے بارش کے قطروں کی صورت میں مینہ برسانے کیلئے کس چیز کی ضرورت ہے؟ ٹھوس خوردبینی مادہ ضرور ہونا چاہیے، جیسے کہ گرد یا نمک کے ذرات—چھوٹے قطروں کیلئے مرکزوں کے طور پر چوگرد کام کرنے کیلئے—ہوا کے ہر مکعب سینٹی میٹر میں انکی ہزار سے صدہا ہزار کی تعداد۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایک اوسط درجے کے بارش کے قطرے کو تشکیل دینے کیلئے بادل کے ایک ملین چھوٹے چھوٹے قطرے درکار ہیں۔ اس تمام تغیروتبدل کے بعد بادل زمین پر ندی نالوں کو تشکیل دینے کیلئے بارش برساتے ہیں جو پانی کو دوبارہ سمندر میں پہنچاتے ہیں۔ یوں آبی چکر خودبخود مکمل ہو جاتا ہے۔ اور کیا یہ سب کچھ بغیر راہنمائی کے وقوعپذیر ہوتا ہے؟ واقعی، ”ناقابل عذر“!
سلیمان کی حکمت کا ایک ماخذ
۹. سلیمان نے چیونٹی کی اقسام میں سے ایک کی بابت کونسی شاندار بات پائی؟
۹ قدیم دنیا میں، سلیمان کی حکمت بینظیر تھی۔ اس حکمت کا زیادہتر حصہ یہوواہ کی تخلیق سے متعلق ہے: ”[سلیمان] نے درختوں کا یعنی لبنان کے دیودار سے لیکر زوفا تک کا جو دیواروں پر اگتا ہے بیان کیا اور چوپایوں اور پرندوں اور رینگنے والے جانداروں اور مچھلیوں کا بھی بیان کیا۔“ (۱-سلاطین۴:۳۳) یہ سلیمان بادشاہ ہی تھا جس نے لکھا: ”اے کاہل! چیونٹی کے پاس جا۔ اسکی روشوں پر غور کر اور دانشمند بن۔ جو باوجودیکہ اسکا نہ کوئی سردار نہ ناظر نہ حاکم ہے۔ گرمی کے موسم میں اپنی خوراک مہیا کرتی ہے اور فصل کٹنے کے وقت اپنی خورش جمع کرتی ہے۔“—امثال ۶:۶-۸۔
۱۰. خوراک جمع کرنے والی چیونٹیوں کی بابت سلیمان کی تمثیل کس طرح سچی ٹھہرتی ہے؟
۱۰ چیونٹیوں کو کس نے سکھایا کہ سردیوں میں کھانے کیلئے گرمیوں میں خوراک جمع کریں؟ صدیوں تک ان چیونٹیوں کے متعلق سلیمان کے بیان کی صداقت کو مشکوک خیال کیا جاتا رہا تھا جو فصل کٹنے کے وقت خورش اکٹھی کرتیں اور سردیوں میں استعمال کیلئے رکھ چھوڑتیں۔ کسی کو بھی انکی موجودگی کا ثبوت نہیں ملا تھا۔ تاہم، ۱۸۷۱ میں، ایک برطانوی طبعی تاریخ کے ماہر نے انکی زمیندوز کوٹھیوں کو دریافت کیا، اور انکی بابت رپورٹ دینے سے بائبل کی صداقت کو سچا ٹھہرایا گیا تھا۔ لیکن ان چیونٹیوں نے گرمیوں میں یہ جاننے کی دوراندیشی کیسے حاصل کی کہ سرما کی سردی آنے والی ہے اور یہ جاننے کی حکمت کہ اسکی بابت کیا کریں؟ بائبل خود اسکی وضاحت کرتی ہے کہ یہوواہ کی بہت سی مخلوقات میں انکی بقا کیلئے انکے اندر حکمت کو ترتیب دیا گیا ہے۔ خوراک جمع کرنے والی چیونٹیاں اپنے خالق کی طرف سے اس برکت کو حاصل کرتی ہیں۔ امثال ۳۰:۲۴ اسکا ذکر کرتی ہے: ”[وہ] بہت دانا ہیں۔“ یہ کہنا کہ یہ حکمت خودبخود آ گئی غیرمعقول بات ہے، اسکے پیچھے ایک پرحکمت خالق کو دیکھنے میں ناکامی ناقابلعذر ہے۔
۱۱. (ا) دیوقامت سیکویا کا درخت اتنا پرشکوہ کیوں ہے؟ (ب) ضیائی تالیف میں پہلے کیمیاوی عمل کی بابت کونسی چیز اتنی حیرتانگیز ہے؟
۱۱ ایک دیوقامت سیکویا کے درخت کے دامن میں ایک آدمی اسکے عظیمالشان جثے سے حیرتزدہ ہوا، جس نے خود کو قابلفہم طور پر ایک چھوٹی سی چیونٹی کی طرح محسوس کیا۔ درخت کی جسامت پرشکوہ ہے: ۹۰ میٹر اونچا، ۱۱ میٹر قطر، چھال ۰.۶ میٹر موٹی، جڑیں تین سے چار ایکڑ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ تاہم، اسکی افزائش میں شامل طبیعیات اور کیمیا کہیں زیادہ پرشکوہ ہے۔ اسکے پتے جڑوں سے پانی، ہوا سے کاربنڈائیآکسائڈ، اور شکر بنانے اور آکسیجن خارج کرنے کیلئے سورج سے توانائی پاتے ہیں—ایک ایسا عمل ضیائی تالیف [فوٹوسینتھیسز] کہلاتا ہے جس میں کوئی ۷۰ کیمیاوی مادوں کا باہمی عمل شامل ہوتا ہے، ان میں سے سب کو اب تک سمجھا نہیں گیا ہے۔ حیرتانگیز طور پر، پہلا ردعمل سورج سے روشنی پر انحصار کرتا ہے یعنی کہ بالکل صحیح رنگ، صحیح موج، ورنہ ضیائی تالیف کے عمل کو شروع کرنے کیلئے پودوں کو سبز رنگ دینے والے کلوروفل کے سالمے اسکو جذب نہیں کرینگے۔
۱۲. (ا) پانی کے استعمال کے سلسلے میں سیکویا کے درخت کی بابت کیا چیز شاندار ہے؟ (ب) پودے کی افزائش کیلئے نائٹروجن کی کیوں ضرورت ہے، اور اسکا چکر کیسے مکمل ہوتا ہے؟
۱۲ یہ حقیقت بھی حیرتافزا ہے کہ درخت جڑوں سے اس ۹۰ میٹر عظیم قامت کی بلندی تک پانی کے کئی ٹینک کو کھینچ سکتا ہے۔ اس پانی سے کہیں زیادہ جو ضیائی تالیف کیلئے درکار ہے کھینچا گیا۔ اس زائد پانی کو پتوں کے ذریعے خارج کرنے کے عمل سے ہوا میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ عمل درخت کے پانی کو ٹھنڈا کرتا ہے، اسی طرح سے جیسے ہم پسینے سے ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ افزائش کی خاطر پروٹین کو تیار کرنے کیلئے، شکر، یا نشاستوں میں نائٹروجن کا اضافہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پتا ہوا سے حاصلکردہ گیسدار نائٹروجن کو استعمال نہیں کر سکتا، لیکن مٹی کے نامیاتی اجزا گیسدار نائٹروجن کو زمین کے اندر پانی میں حل ہونے والے نائٹریٹس اور نائٹرائٹس میں تبدیل کر سکتے ہیں، جو بعد میں جڑوں سے پتوں تک پہنچتے ہیں۔ جب پودے اور جانور مرتے اور گل سڑ کر تحلیل ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی پروٹین میں اس نائٹروجن کو استعمال کیا تھا تو اپنے نائٹروجن کے چکر کو مکمل کرکے نائٹروجن آزاد ہو جاتی ہے۔ اس تمام میں شامل پیچیدگی بوکھلا دینے والی ہے، ایک ایسا کام جسکا ترتیب اور رہبری کے بغیر انجام پانا ناممکن ہے۔
بولچال یا الفاظ یا آواز کے بغیر، وہ کلام کرتے ہیں!
۱۳. ستاروں بھرے آسمانوں نے داؤد پر کیا عیاں کیا، اور وہ ہم سے کیا کہتے رہتے ہیں؟
۱۳ خالق کا یہ کتنا پرشکوہ انعکاس ہے جو ستاروں بھری رات کے آسمان سے ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو تعظیم سے معمور کرتا ہے۔ زبور ۸:۳، ۴ میں داؤد نے جذبہءاحترام کا اظہار کیا جسے اس نے محسوس کیا: ”جب میں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جنکو تو نے مقرر کیا غور کرتا ہوں تو پھر انسان کیا ہے کہ تو اسے یاد رکھے اور آدمزاد کیا ہے کہ تو اسکی خبر لے؟“ جو دیکھنے کیلئے آنکھیں، سننے کیلئے کان، اور محسوس کرنے کیلئے دل رکھتے ہیں، ان سے ستاروں بھرے یہ آسمان کلام کرتے ہیں، جیسے انہوں نے داؤد سے کیا تھا: ”آسمان خدا کا جلال ظاہر [”کرتے ہیں،“ NW]۔“---زبور ۱۹:۱-۴۔
۱۴. ستاروں میں سے ایک کی اثرآفریں قوت ہمارے لئے اتنی زیادہ اہم کیوں ہے؟
۱۴ جتنا زیادہ ہم ستاروں کی بابت جانتے ہیں اتنی ہی بلند آواز سے وہ ہم سے کلام کرتے ہیں۔ یسعیاہ ۴۰:۲۶ میں ہمیں ان کی بےپناہ توانائی کا مشاہدہ کرنے کی دعوت دی گئی ہے: ”اپنی آنکھیں اوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔ وہی جو انکے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے اور ان سب کو نام بنام بلاتا ہے اسکی قدرت کی عظمت اور اسکے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا۔“ ان میں سے ایک، ہمارے سورج، کی اثرآفریں قوت اور کششثقل زمین کو اسکے مدار کی جگہ پر رکھتی، پودوں کو اگاتی، ہمیں گرم رکھتی، اور اس زمین پر تمام زندگی کو ممکن بناتی ہے۔ پولس رسول نے زیرالہام کہا: ”ستارے ستارے کے جلال میں فرق ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۴۱) سائنس ہمارے سورج کی طرح کے زرد ستاروں، اور نیلے ستاروں، سرخ دیوقامت، سفید پستقامت، نیوٹران ستاروں، اور دھماکہخیز سپرنوواس کا علم رکھتی ہے جو ناقابلفہم قوت کا اخراج کرتے ہیں۔
۱۵. بہت سے موجدوں نے تخلیق سے کیا سیکھا اور نقل کرنے کی کوشش کی ہے؟
۱۵ بہت سے موجدوں نے تخلیق سے سیکھا ہے اور زندہ مخلوقات کی صلاحیت کی نقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ایوب ۱۲:۷-۱۰) تخلیق کے چند ایک نمایاں پہلوؤں پر غور کریں۔ گلپھڑوں والے سمندری پرندے جو سمندری پانی کو نمک سے پاک صاف کرتے ہیں، مچھلی اور بام مچھلیاں جو بجلی پیدا کرتی ہیں، مچھلی، کیڑے، اور حشرات جو ٹھنڈی روشنی پیدا کرتے ہیں، چمگادڑیں اور ڈالفن مچھلیاں جو سونار (فاصلہ معلوم کرنے کا آلہ) استعمال کرتی ہیں، بھڑیں جو کاغذ بناتی ہیں، چیونٹیاں جو پل تعمیر کرتی ہیں، اودبلائیں جو بند بناتی ہیں، سانپ جو مکلف تھرمامیٹر رکھتے ہیں، جوہڑ کے کیڑے جو سنورکل (سانس لینے کی ٹیوب) اور غوطہزنی کا آلہ استعمال کرتے ہیں، ہشتنیش صدفے جو فوارےدار قوتسائقہ کو استعمال کرتے ہیں، مکڑے جو سات قسم کے جالے بنتے ہیں اور فرشی دروازے، جال، پھندے بناتے ہیں اور چھوٹے مکڑے پیدا کرتے ہیں جو بہت بلندیوں پر ہزاروں کلومیٹر کا سفر کرنے والے غبارچی ہیں، مچھلی اور خولدار جانور جو آبدوزوں کی طرح تیرے والی ٹینکیوں کا استعمال کرتے ہیں، اور پرندے، کیڑے مکوڑے، سمندری کچھوے، مچھلیاں، اور ممالیہ جو ہجرت کے حیرتانگیز کارنامے انجام دیتے ہیں—ایسی صلاحیتیں جنکی وضاحت کرنا سائنس کی دسترس سے باہر ہے۔
۱۶. اس سے ہزاروں سال پہلے کہ سائنس نے انہیں دریافت کیا بائبل نے کن سائنسی سچائیوں کو قلمبند کیا؟
۱۶ بائبل نے سائنس کے علم میں آنے سے ہزاروں سال پہلے سائنسی حقائق کو قلمبند کیا۔ موسوی شریعت (۱۶ ویں صدی ق۔س۔ع۔) نے پاسچر سے ہزاروں سال پہلے بیماری کے جراثیموں سے آگاہی کا اظہار کیا۔ (احبار ۱۳، ۱۴ ابواب) ۱۵ ویں صدی ق۔س۔ع۔ میں ایوب نے بیان کیا: ”وہ ... زمین کو خلا میں لٹکاتا ہے۔“ (ایوب ۲۶:۷) مسیح سے ایک ہزار سال پہلے، سلیمان نے دورانخون کی بابت لکھا، اسکا علم حاصل کرنے کیلئے طبی سائنس کو ۱۵ ویں صدی س۔ ع۔ تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ (واعظ ۱۲:۶) اس سے پہلے، زبور ۱۳۹:۱۶ نے علم توالدوتناسل کا اظہار کیا: ”تیری آنکھوں نے میرے بےترتیب مادے کو دیکھا اور جو ایام میرے لئے مقرر تھے وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے۔ جبکہ ایک بھی وجود میں نہ آیا تھا۔“ ۷ ویں صدی ق۔س۔ع۔ میں، اس سے پہلے کہ طبعی تاریخ کے ماہر ہجرت کی بابت سمجھتے، یرمیاہ نے لکھا جیسے کہ یرمیاہ ۸:۷ میں قلمبند ہے: ”ہوائی لقلق ہجرت کرنے کے وقت کو جانتا ہے قمری اور ابابیل اور کلنگ واپسی کے موسم سے واقف ہیں۔“—اینای۔
ارتقا کے حامی جس ”خالق“ کا انتخاب کر رہے ہیں
۱۷. (ا) رومیوں ۱:۲۱-۲۳ بعض ایسے لوگوں کی بابت کیا کہتی ہے جو تخلیقکردہ حیرتانگیز کاموں کے پیچھے ایک ذیشعور خالق کو دیکھنے سے انکار کرتے ہیں؟ (ب) ایک لحاظ سے، ارتقا کے حامی اپنے ”خالق“ کے طور پر کس کا انتخاب کر رہے ہیں؟
۱۷ ایک صحیفہ بعض ایسے لوگوں کی بابت کہتا ہے جو خلق کئے گئے عجائب کے پیچھے ایک ذیشعور خالق کو ماننے سے انکار کرتے ہیں: ”[وہ] باطل خیالات میں پڑ گئے اور انکے بےسمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا۔ وہ اپنے آپکو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔ اور غیرفانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔“ ”انہوں نے خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا اور مخلوقات کی زیادہ پرستش اور عبادت کی بہنسبت اس خالق کے۔“ (رومیوں ۱:۲۱-۲۳، ۲۵) ارتقائی سائنسدانوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، جو عملاً کیڑوں۔ مچھلی۔ جلتھلیے جانوروں۔ رنگینے والے جانوروں۔ ممالیہ۔ ”بوزنوں“ کے پروٹوزوآ [مادۂحیات] کے تصوراتی منبع کے سلسلے کی اپنے ”خالق“ کے طور پر تمجید کرتے ہیں۔ تاہم، وہ جانتے ہیں کہ اس سلسلے کو شروع کرنے کے لئے کوئی حقیقی یکخلیہ سادہ نامیاتی جسم موجود نہیں ہے۔ سادہترین معلوم نامیاتی جسم بھی ایک سو بلین ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے، جس کے اندر بیکوقت ہزاروں باہمی کیمیاوی عمل رونما ہوتے رہتے ہیں۔
۱۸، ۱۹. (ا) زندگی کو شروع کرنے کی نیکنامی کا صحیح حقدار کون ہے؟ (ب) ہم یہوواہ کی تخلیق میں سے کتنی کو دیکھ سکتے ہیں؟
۱۸ زندگی کا خالق یہوواہ خدا ہے۔ (زبور ۳۶:۹) وہ سب سے پہلا سبب ہے۔ اسکے نام، یہوواہ کا مطلب، ”مسبب الاسباب“ ہے۔ اسکی مخلوقات ہمارے شمار سے باہر ہے۔ یقیناً جن سے انسان واقف ہے ان سے کئی ملین اور زیادہ ہیں۔ زبور ۱۰۴:۲۴، ۲۵ اسکا اشارہ دیتی ہے: ”اے خداوند! تیری صنعتیں کیسی بیشمار ہیں! تو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا ہے۔“ ایوب ۲۶:۱۴ اس معاملے میں زیادہ واضح ہے: ”دیکھو! یہ تو اسکی راہوں کے فقط کنارے ہیں اور اسکی کیسی دھیمی آواز ہم سنتے ہیں! پر کون اسکی قدرت کی گرج کو سمجھ سکتا ہے؟“ ہم صرف چند کنارے دیکھتے ہیں، ہم صرف چند دھیمی آوازوں کو سنتے ہیں، لیکن اسکی قدرت کی گرج کے پورے مفہوم کو سمجھنا ہماری دسترس سے باہر ہے۔
۱۹ تاہم، اسے جاننے کیلئے طبیعیاتی تخلیق سے بہتر ذریعہ ہمارے پاس ہے۔ وہ بہتر ذریعہ اسکا کلام، بائبل ہے۔ اب اس ذریعے کی بابت ہم اگلے مضمون میں توجہ دینگے۔ (۸ ۶/۱۵ w۹۳)
کیا آپ کو یاد ہے؟
▫ جب یہوواہ نے ایوب سے بگولے میں سے کلام کیا تو اس نے کیا سیکھا؟
▫ پولس نے کیوں کہا کہ بعض کو کوئی عذر باقی نہ تھا؟
▫ آبیچکر کس طرح کام کرتا ہے؟
▫ سورج کی روشنی ہمارے لئے کونسے اہم کام انجام دیتی ہے؟
▫ بائبل نے کونسی سائنسی سچائیوں کو آشکارا کیا اس سے پہلے کہ سائنس نے انہیں دریافت کیا؟