”میری بےاعتقادی کا علاج کر“
”اس لڑکے کے باپ نے فیالفور چلا کر کہا ”میں اعتقاد رکھتا ہوں۔ تو میری بےاعتقادی کا علاج کر۔“—مرقس ۹:۲۴۔
۱. کونسی چیز ایک باپ کے لیے یہ کہہ اٹھنے کا سبب بنی تھی کہ ”تو میری بےاعتقادی کا علاج کر“؟
جس لڑکے میں بدروح تھی اسکا باپ یسوع مسیح کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ وہ آدمی کتنا آرزومند تھا کہ اسکا کمسن بچہ شفا پا ئے! بدروح کو نکالنے کے لیے یسوع کے شاگردوں میں کافی ایمان کی کمی تھی، لیکن وہ باپ پکار اٹھا تھا: ”میں اعتقاد رکھتا ہوں۔ تو میری بےاعتقادی کا علاج کر۔“ لہذا، یسوع نے خداداد قوت کے ذریعے، اس بدروح کو نکالا، بےشک یہ لڑکے کے باپ کے ایمان کے لیے تقویتبخش ہوا۔مرقس ۹:۱۴۔۲۹۔
۲. ایمان کے سلسلے میں، مسیحی کن دو طریقوں سے شرم محسوس نہیں کر تے؟
۲ اس لڑکے کے پرامید باپ کی طرح، یہوواہ کا ایک وفادار خادم یہ کہنے سے نہیں شرماتا: ”میں اعتقاد رکھتا ہوں۔“ مذہب کا تمسخراڑانے والے خدا کی قوت، اسکے کلام کی حقگوئی، اور اسکی ہستی کا انکار کر سکتے ہیں۔ مگر سچے مسیحی بلاتامل تسلیم کرتے ہیں کہ وہ یہوواہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ تاہم، دعا میں اپنے آسمانی باپ سے پوشیدگی میں بات کرتے ہو ئے، یہی اشخاص التجا کر سکتے ہیں: ”تو میری بےاعتقادی کا علاج کر“ اور وہ بغیر شرمائے ایسا کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ یسوع مسیح کے رسولوں نے بھی منت کی تھی: ”ہمارے ایمان کو بڑھا۔“ لوقا ۱۷:۵۔
۳. یوحنا نے جسطرح سے اپنی انجیل میں لفظ ”ایمان“ کا استعمال کیا ہے اسکا مفہوم کیا ہے، اور یہ کیوں موزوں تھا؟
۳ خاصطور پر مسیحی یونانی صحائف کے پاس ایمان کے متعلق کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ درحقیقت، یوحنا کی انجیل ”ایمان“ سے متعلق مختلف یونانی الفاظ کا استعمال کرتی ہے اور جتنا کہ دوسری تینوں اناجیل ملا کر کرتی ہیں ان سے ۴۰ فیصد زیادہ کثرت سے کرتی ہے۔ یوحنا نے زور دیا کہ ایمان رکھنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کا مظاہرہ کرنا نہایت اہم ہے۔ تقریباً ۹۸ س۔ع۔ میں لکھتے ہوئے، اس نے برگشتگی کی زہریلی ریشہدوانیوں کو ایمان میں کمزور مسیحیوں پر جال ڈالنے کے لیے آگے بڑھتے ہوئے دیکھا۔ (اعمال ۲۰:۲۸۔۳۰، ۲۔ پطرس ۲:۱۔۳، ۱۔یوحنا ۲:۱۸، ۱۹) پس ایمان کا مظاہرہ کرنا نہایت اہم تھا، تاکہ خدائی عقیدت کے کاموں کے ذریعے اسکا ثبوت دیا جائے۔ مشکل اوقات سر پر کھڑے تھے۔
۴. کیوں ایمان رکھنے والوں کے لیے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں؟
۴ ایمان مسیحیوں کو کسی بھی طرح کی مشکلات سے نپٹنے کے قابل بناتا ہے۔ یسوع نے اپنے شاگردوں کو بتایا تھا کہ اگر وہ ”رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان“ رکھیں، تو ان کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہو گا۔ (متی ۱۷:۲۰) اس طرح سے اس نے ایمان کی قوت، یعنی روحالقدس کے ایک پھل پر زور دیا۔ یوں یسوع نے اس پر زور نہیں دیا کہ انسان کیا کچھ کر سکتے ہیں، بلکہ اس پر کہ خدا کی روح، یا سرگرم قوت کیا کچھ کر سکتی ہے۔ جو اس سے راہنمائی پاتے ہیں وہ ٹیلہنما رکاوٹوں اور مسائل کو پہاڑ نہیں بنا د یتے۔ اس حکمت کا اطلاق جو خدا کی روح سے حاصل ہوتا ہے ان کی مدد کرتی ہے کہ معاملات کو انکے مناسب پسمنظر میں رکھیں۔ یہاں تک کہ جب سنگین مسائل کو بھی سہارا دینے والی ایمان کی قوت کے ماتحت کر دیا جاتا ہے تو وہ سمٹ جاتے ہیں۔متی ۲۱:۲۱، ۲۲، مرقس ۱۱:۲۲۔۲۴، لوقا ۱۷:۵، ۶۔
دعا کرنا کہ ایمان ناکام نہ ہو
۵-۷. (ا) جب یسوع نے موت کی یادگار کی ترویج کی تو اس نے ایمان کی بابت آ گاہی کے کونسے الفاظ کہے؟ (ب) کسطرح پطرس کے ایمان نے اسے اس قابل بنایا کہ اپنے بھائیوں کو تقویت دے؟
۵ ۳۳ س۔ع۔ میں یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ آخری بار فسح منائی۔ بعدازاں، یہوداہ اسکریوتی کو باہر بھیجنے کے بعد، اس نے یہ کہتے ہوئے موت کی یادگار کی تقریب کی ترویج کی: ”جیسے میرے باپ نے میرے ساتھ بادشاہت کے لیے ایک عہد باندھا ہے اسی طرح میں بھی تم [لوگوں] کے ساتھ ایک عہد باندھتا ہوں۔... شمعون، شمعون، دیکھ ! شیطان نے تم لوگوں کو مانگ لیا ہے تاکہ گیہوں کی طرح پھٹکے۔ لیکن میں نے تیرے لیے دعا کی ہے کہ تیرا ایمان جاتا نہ ر ہے، اور جب تو رجوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔“ لوقا ۲۲:۲۸۔۳۲، NW۔
۶ یسوع نے دعا کی کہ شمعون پطرس کا ایمان جاتا نہ ر ہے۔ اگرچہ پطرس نے حد سے زیادہ اعتماد کے ساتھ شیخی بگھاری تھی کہ وہ یسوع کا کبھی انکار نہیں کریگا، تو بھی اسکے تھوڑی ہی دیر بعد اس نے تین مرتبہ ایسا کیا۔ (لوقا ۲۲:۳۳، ۳۴، ۵۴۔۶۲) درحقیقت، پیشینگوئی کے مطابق چرواہے کی موت کے ساتھ، بھیڑیں پراگندہ ہو گئی تھیں۔ (زکریاہ ۱۳:۷، مرقس ۱۴:۲۷) تاہم، جب پطرس خوف کے پھندے میں پڑنے کے اپنے گناہ “سے رجوع لایا، تو اس نے اپنے روحانی بھائیوں کو تقویت دی۔ اس نے یہوداہ اسکریوتی کی جگہ کو پر کرنے کے معاملے کو پیش کیا۔ ۳۳ س۔ع۔ میں پنتکست کے موقع پر رسولوں کے نمائندے کے طور پر کام کرتے ہوئے، پطرس نے ان ”کنجیوں“ میں سے پہلی کو یہودیوں کے لیے بادشاہی کے رکن بننے کے لیے استعمال کیا جو اسے یسوع نے دی تھیں۔ (متی ۱۶:۱۹، اعمال ۱:۱۵۔۲:۴۱) شیطان رسولوں کو مانگ چکا تھا تاکہ انہیں گیہوں کی طرح پھٹکے، لیکن خدا نے اسکا خیال رکھا کہ انکا ایمان جاتا نہ ر ہے۔
۷ تصور کریں پطرس نے کیسا محسوس کیا ہو گا جب اس نے یسوع کو یہ کہتے سنا: ”میں نے تیرے لیے دعا کی ہے کہ تیرا ایمان جاتا نہ ر ہے۔“ ذرا سوچیں! اسکے خداوند اور مالک نے دعا کی کہ پطرس کا ایمان ناکام نہ ہو۔ اور وہ ناکام نہ ہوا، یا جاتا نہ رہا۔ درحقیقت، پنتکست کے دن پر، پطرس اور دیگر لوگ خدا کے روحانی فرزند بننے کے لیے روحالقدس سے مسح ہونے والے پہلے اشخاص بنے تھے جن کو آئندہ آسمانی جلال میں مسیح کے ہممیراث ہونا تھا۔ اپنے اوپر روحالقدس کی سرگرمی، عمل کی ایک ایسی وسعت، کے ساتھ جس کا انہیں پہلے کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا، وہ روح کے پھل بشمول ایمان ظاہر کر سکے، جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ انکی منت: ”ہمارے ایمان کو بڑھا“ کا کیا ہی شاندار جواب! لوقا ۱۷:۵، گلتیوں ۳:۲، ۲۲۔۲۶، ۵:۲۲، ۲۳۔
آئندہ آزمائشوں کا ایمان کے ساتھ سامنا کرنا
۸. ۱۔تھسلنیکیوں ۵:۳ کی تکمیل کے سلسلے میں تنظیم نے ہمیں کونسی بروقت آ گاہی دی ہے؟
۸ بائبل پیشینگوئی کی تکمیل میں ہم جلد ہی ”امن اور سلامتی“ کی پکار کو سنیں گے! (۱۔تھسلنیکیوں ۵:۳) کیا یہ ہمارے ایمان کو آزما سکتی ہے؟ جیہاں، ہم اس ظاہری کامیابی کے ذریعے اچانک پھنس جانے کے خطرے میں ہیں جو امن لانے کے سلسلے میں قوموں کو حاصل ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ امن لانے کے لیے خدا اس دنیا کی ایجنسیوں میں سے کسی کو بھی استعمال نہیں کر رہا تو ہم امن کی ایسی پکاروں کے جوشوخروش میں حصہ نہیں لیں گے۔ حقیقی امن لانے کا اسکا اپنا طریقہ ہے، اور وہ صرف یسوع مسیح کے تحت اسکی بادشاہت کے ذریعے ہے۔ لہذا، امن قائم کرنے میں قوموں کو جیسی بھی کامیابی حاصل ہو، وہ مختصر اور سطحی ہی ہوگی۔ اس سلسلے میں باخبر رکھنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے ”وفادار اور عقلمند خادم“ بروقت آ گاہیوں کی نشرواشاعت کو جاری رکھے گا تاکہ یہوواہ کے خادم اس پرانے دستورالعمل کی قوموں کے ”امن اور سلامتی“ کے آئندہ فریبدہ نعروں کے ذریعے اچانک نہیں پھنس جائیں گے۔متی ۲۴: ۴۵۔۴۷۔
۹. کیوں بڑے بابل کی تباہی ہم سے ایمان اور جرأت کا تقاضا کرے گی؟
۹ ”امن اور سلامتی“ کی پکار جھوٹے مذہب کی عالمی سلطنت، بڑے بابل پر ”اچانک تباہی“ کا اشارہ ہوگی۔ (مکاشفہ ۱۷:۱۔۶، ۱۸: ۴، ۵) یہ بھی مسیحی ایمان کو آزمائیگی۔ جھوٹے مذہب کے تباہکن خاتمے کے ساتھ، کیا یہوواہ کے گواہ ایمان پر قائم رہیں گے؟ بیشک وہ رہیں گے۔ بیشتر لوگوں کے لیے ناقابلفہم اور غیرمتوقع یہ واقعہ کسی انسان کا کام نہ ہو گا۔ تاہم لوگوں کو جاننا چاہیے کہ دراصل یہ اس نام کی تقدیس کے لیے یہوواہ کا فیصلہ ہے، جس کو جھوٹے مذہب نے لمبے عرصہ سے بدنام کیا ہے۔ لیکن لوگوں کو کیسے معلوم ہو سکتا تھا اگر کسی نے انہیں بتایا نہ ہوتا؟ اور انہیں بتانے کے لیے یہوواہ کے گواہوں کے سوا اور کن سے توقع کی جا سکتی تھی؟ مقابلہ کریں حزقیایل ۳۵:۱۴، ۱۵، رومیوں ۱۰:۱۳۔۱۵۔
۱۰. یہوواہ کے لوگوں پر جوج کا حملہ بھی کیسے ایمان کی ایک آزمائش ہو گی؟
۱۰ یہوواہ کے ممسوح گواہ اور زمینی امید رکھنے والے انکے ساتھی بڑے بابل اور شیطان کے باقیماندہ دستورالعمل کے خلاف سر پر کھڑے یہوواہ کے فیصلے کی تعمیل کے متعلق دوسروں کو بتانے کے لیے مطلوبہ حوصلہ رکھتے ہیں۔ (۲۔کرنتھیوں ۴:۴) جوج وماجوج کے طور پر اپنے کردار میں، جو اسکی موجودہ پست حالت کی دلالت کرتا ہے، شیطان اپنے زمینی لشکروں کو خدا کے لوگوں پر آخری حملہ کرنے کے لیے صفآرا کرے گا۔ یہوواہ کے گواہوں کی طرف سے محفوظ رکھنے والی الہی قوتوں پر ایمان کی آزمائش ہوگی۔ لیکن ہم ایمان رکھ سکتے ہیں کہ جیسے خدا کے کلام نے پیشینگوئی کی ہے، یہوواہ اپنے لوگوں کو ضرور چھڑائے گا۔حزقیایل ۳۸:۱۶، ۳۹:۱۸۔۲۳۔
۱۱، ۱۲. (ا)طوفان کے دوران نوح اور اسکے خاندان کی نجات کو کس چیز نے یقینی صورت بخشی؟ (ب) بڑی مصیبت کے دوران ہمیں کس چیز کی بابت پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہو گی؟
۱۱ آجکل، ہم صحیح طور سے تو یہ نہیں جانتے کہ ”بڑی مصیبت“ کے دوران یہوواہ اپنے لوگوں کو کیسے محفوظ رکھے گا، مگر اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایسا کرے گا۔ (متی ۲۴:۲۱، ۲۲) موجودہ زمانے میں خدا کے خادموں کی حالت اس طرح کی ہو گی جس میں طوفان کے دوران نوح اور اسکے خاندان نے خود کو پایا تھا۔ تباہی کے پانیوں کے منجدھار میں، کشتی میں بند، غالباً وہ الہی قوت کے اس اظہار سے خوفزدہ تھے اور انہوں نے خلوصنیت سے ضرور ہی دعا کی ہو گی۔ ایسا کوئی صحیفائی اشارہ تو نہیں ملتا کہ وہ پریشان تھے اور انہوں نے خود سے استفسار کیا ہو: ”تباہکن قوتوں سے بچنے کیلیے کیا کشتی واقعی اتنی مضبوط ہے؟ کیا ہمارے پاس اتنی خوراک ہے جو طوفان کے ختم ہونے تک چلے؟ کیا ہم طوفان کے بعد زمین پر تبدیلشدہ حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو نگے؟“ بعد کے واقعات نے ثابت کیا تھا کہ ایسی پریشانیاں بےبنیاد ہوتیں۔
۱۲ اپنی نجات کو یقینی صورت دینے کے لیے، نوح اور اسکے خاندان کو ایمان کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ اسکا مطلب خدا کی پاک روح کی ہدایات اور راہنمائیوں کی پیروی کرنا تھا۔ بڑی مصیبت کے دوران، یہ اتنا ہی اشد ضروری ہو گا کہ ہم روحالقدس کی راہنمائیوں کی پیروی کریں اور اسکی تنظیم کے ذریعے یہوواہ کی ہدایات کی فرمانبرداری کریں۔ پھر ہمارے پاس پریشان ہونے اور یہ استفسار کرنے کی کوئی وجہ نہ ہو گی: ”ہماری روحانی اور جسمانی ضروریات کیسے پوری ہونگی؟ بوڑھے اشخاص یا خاص طبی نگہداشت کے حاجتمندوں کے لیے کیا اہتمام کیا جائے گا؟ یہوواہ ہمارے لیے بچ کر نئی دنیا میں جانے کو کیسے ممکن بنائے گا؟“ پختہ ایمان کے ساتھ، یہوواہ کے تمام وفادار خادم ہر چیز کو اس کے لائق ہاتھوں میں چھوڑ دیں گے۔مقابلہ کریں متی ۶:۲۵۔۳۳۔
۱۳. جب بڑی مصیبت شروع ہو جائے گی، تو ہمیں ابراہام کی طرح کے ایمان کی ضرورت کیوں ہو گی؟
۱۳ جب بڑی مصیبت شروع ہو جائے گی تو بلاشبہ خدا پر ہمارے ایمان کو بہت تقویت ملے گی۔ آخرکار، ہم یہوواہ کو وہ کچھ کرتے دیکھیں گے جسکے لیے اس نے کہا تھا کہ وہ کریگا۔ ہم اپنی ذاتی آنکھوں سے اسکے فیصلے کی تعمیل کو دیکھیں گے! لیکن یہ یقین کرنے کے لیے کیا ہم ذاتیطور پر کافی ایمان رکھیں گے کہ خدا شریروں کو برباد کرتے وقت اپنے لوگوں کو ضرور بچائے گا؟ کیا ہم ابراہام کی مانند بنیں گے، جو یہ ایمان رکھتا تھا کہ ”تمام دنیا کا انصاف کرنے والا انصاف کریگا“ اور نیک کو بد کے ساتھ ہلاک نہیں کریگا؟ پیدایش ۱۸:۲۳، ۲۵۔
۱۴. کونسے سولات کو ہمارے لیے اپنے ایمان کا تجزیہ کرنے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے سخت محنت کرنے کا سبب بننا چاہیے؟
۱۴ اب اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہمارے لیے کتنا اہم ہے! اس شریر “ دستورالعمل کے سر پر کھڑے خاتمے کے ساتھ، آئیے ہم خدا کی روح کو خود کو ”پاک چال چلن اور [خدائی عقیدت کے کاموں]“ کی تحریک دینے دیں۔ (۲۔ پطرس ۳:۱۱۔۱۴) پھر ہم بڑی مصیبت کے دوران ایسے تشویشناک خیالات سے ہراساں نہیں ہونگے جیسے کہ یہ: ”کیا میں یہوواہ کا تحفظ حاصل کرنے کا جائز حق رکھتا ہوں؟ کیا میں اسکی خدمت میں کچھ زیادہ کر سکتا تھا؟ کیا میں نے ”نئی انسانیت پہننے“ کے لیے واقعی کافی سخت محنت کی ہے؟ کیا میں اس طرح کا شخص ہوں جسے یہوواہ نئی دنیا میں چاہتا ہے؟“ ایسے سنجیدہ سوالات کو ہمارے لیے اپنے ایمان کا تجزیہ کرنے اور عین اسی وقت اسے مضبوط بنانے کے لیے سخت کوشش کرنے کا سبب بننا چاہیے! کلسیوں ۳:۸۔۱۰۔
ہمیں شفا بخشنے والا ایمان
۱۵. یسوع نے بعض اوقات ان سے کیا کہا جنہیں اس نے شفا بخشی، لیکن یہ موجودہ زمانے کی ایمانی شفا کی حمایت کیوں نہیں کرتا؟
۱۵ یسوع نے جسمانی شفا دینے کے اپنے کاموں کو ایمان رکھنے والے لوگوں تک ہی محدود نہیں رکھا تھا۔ (یوحنا ۵:۵۔۹، ۱۳) پس اسکی کارگذاری ایمانی شفا کے غیرصحیفائی عقیدے کی کوئی حمایت نہیں کرتی۔ یہ سچ ہے کہ یسوع نے جن کو شفا دی اس نے بعضاوقات ان سے کہا: ”تیرے ایمان نے تجھے اچھا کر دیا۔“ (متی ۹:۲۲، مرقس ۵:۳۴، ۱۰:۵۲، لوقا ۸:۴۸، ۱۷:۱۹، ۱۸:۴۲) لیکن یہ کہنے سے، وہ فقط ایک واضح ایمان کا اشارہ دے رہا تھا: اگر ان بیمار اشخاص میں یسوع کی شفا دینے کی لیاقت پر ایمان کی کمی ہوتی، تووہ شفاکے لیے اسکے پاس ہی نہ آئے ہو تے۔
۱۶. آجکل یسوع شفا کے کس پروگرام کی راہنمائی کر رہا ہے؟
۱۶ آجکل، یسوع مسیح روحانی شفا کے ایک پروگرام کی راہنمائی کر رہا ہے، اور ۴،۰۰۰،۰۰۰ سے زیادہ اشخاص نے اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے خود کو تیار کر لیا ہے۔ یہوواہ کے گواہوں کے طور پر، کسی بھی طرح کی جسمانی کمزوریوں کے باوجود، جو انہیں لاحق ہیں، وہ روحانی صحت سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ ان میں شامل ممسوح مسیحی آسمانی امید رکھتے ہیں، اور وہ ”ابدی چیزوں پر نظر رکھتے ہیں جو اندیکھی ہیں۔“ (۲۔کرنتھیوں ۴:۱۶۔۱۸، ۵:۶، ۷) اور زمینی امید رکھنے والے مسیحی جسمانی شفا کے ان شاندار کاموں کے منتظر ہیں جو خدا کی نئی دنیا میں وقوعپذیر ہوں گے۔
۱۷، ۱۸. مکاشفہ ۲۲:۱، ۲ میں یہوواہ کی کس فراہمی کا بیان کیا گیا ہے، اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہم سے ایمان کا کس طرح تقاضا کیا گیا ہے؟
۱۷ یوحنا رسول نے مکاشفہ ۲۲:۱، ۲ (NW) میں ابدی زندگی کے لیے خدا کی فراہمیوں کا ان الفاظ میں حوالہ دیا: ”اس نے مجھے بلور کی طرح چمکتا ہوا آبحیات کا ایک دریا دکھایا جو خدا اور برہ کے تخت سے نکلکر اس شہر کی سڑک کے بیچ میں بہتا تھا۔ اور دریا کے وارپار زندگی کے درخت تھے، ان میں بارہ قسم کے پھل آتے تھے اور ہر مہینے اپنے پھل دیتے تھے۔ اور ان درختوں کے پتوں سے قوموں کو شفا ہوتی تھی۔“ ”آبحیات“ میں خدا کے کلام کی سچائی اور یہوواہ کی طرف سے وہ تمام فراہمیاں شامل ہیں جو یسوع کے فدیے کی قربانی کی بنا پر فرمانبردار انسانوں کو گناہ اور موت سے بچانے اورانہیں ابدی زندگی عطا کرنے کے لیے ہیں۔ (افسیوں ۵:۲۶، ۱۔یوحنا ۲:۱، ۲) یسوع کے ۱۴۴،۰۰۰ ممسوح پیروکار جب تک زمین پر ہیں، مسیح کے ذریعے خدا کی طرف سے زندگی کی فراہمیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ”صداقت کے درخت“ کہلاتے ہیں۔ (یسعیاہ ۶۱:۱۔۳، مکاشفہ ۱۴:۱۔۵) وہ زمین پر بہت سا روحانی پھل لائے ہیں۔ آسمان میں قیامت پانے والوں کے طور پر، مسیح کے ہزار سالہ دورحکومت کے دوران، وہ فدیہ کی فراہمیوں کو دوسروں میں تقسیم کرنے میں شرکت کریں گے جو کہ گناہ اور موت سے ”قوموں کی شفا“ کا کام دے گا۔
۱۸ خدا کے اس بندوبست پر ہمارا ایمان جتنا زیادہ مضبوط ہو گا، اس کی روح کی راہنمائی پر چلنے کے لیے ہماری رضامندی بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی تاکہ ان میں شرکت کر سکیں۔ جوں جوں ایک شخص مسیح پر ایمان کا اظہار کرے گا اور روحانی طور پر ترقی کرے گا تو ظاہر ہے کہ جسمانی کاملیت بھی اسے حاصل ہو جائے گی۔ اگرچہ ایک شخص معجزانہ طور پر بڑی بڑی بیماریوں سے شفا پا چکا ہو گا، لیکن جوں جوں وہ راستی پر عمل کرے گا وہ کاملیت کے قریبتر ہوتا جائے گا۔ مسیح کی قربانی کے ذریعے حاصل ہونے والی شفا کے خدائی بندوبست میں وہ باقاعدہ شرکت کرتا رہے گا۔ پس ایمان ہمارے شفا پانے اور جسمانی طور پر کامل کیے جانے پر اثرانداز ہو گا۔
”ایمان کے ذریعے بچائے گئے“
۱۹. ایمان پر قائم رہنا نہایت اہم کیوں ہے؟
۱۹ جب تک خدا کی نئی دنیا کا اجالا اس موجودہ شریر دنیا کی تاریکی کو ہمیشہ کے لیے ختم نہیں کر دیتا، یہ کتنا اہم ہے کہ خدا کے خادم ایمان میں مضبوط رہیں! ”بےایمان“ لوگ ”آگ اور گندھک سے جلنے والی جھیل“ میں ڈالے جائیں گے جو کہ دوسری موت ہے۔ انجامکار، یہ ہزار سالہ عہدحکومت کے اختتام پر آخری امتحان کے بعد واقع ہوگا۔ (مکاشفہ ۲۰:۶۔۱۰، ۲۱:۸) وہ لوگ کتنے مبارک ہیں جو ایمان کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں اور غیرمختتم مستقبل سے لطفاندوز ہونے کے لیے بچ جاتے ہیں!
۲۰. مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے اختتام پر ۱۔کرنتھیوں ۱۳:۱۳ کسطرح سے خاص اہمیت کی حامل بن جائے گی؟
۲۰ تب ۱۔کرنتھیوں ۱۳:۱۳ میں درج پولس کے یہ الفاظ خاص اہمیت کے حامل ہو جائیں گے: ”غرض ایمان، امید، محبت، یہ تینوں دائمی ہیں، مگر افضل ان میں محبت ہے۔“ پھر ہمیں اس بات پر ایمان کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ پیدایش ۳:۱۵ کا نبوتی وعدہ ایک حقیقت بن جائے گا یا یہ امید کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ یہ پورا ہو جائے گا۔ یہ پورا ہو چکا ہوگا۔ راستی برقرار رکھنے والوں کے طور پر، ہم یہوواہ پر مسلسل امید رکھیں گے، اس پر اور اس کے بیٹے پر ایمان رکھیں گے اور اس پیشینگوئی کی تکمیل کرنے والوں کے طور پر ان سے محبت کرتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں، گہری محبت اور اپنی نجات کے لیے دلی تشکر ہمیں خدا کے ساتھ اٹوٹ عقیدت میں ہمیشہ کے لیے پیوست کر دے گا۔۱۔ پطرس ۱:۸، ۹۔
۲۱. ”ایمان کے وسیلہ سے نجات پانے کے لیے“ ہمیں آجکل کیا کرنا چاہیے؟
۲۱ اپنی دیدنی تنظیم کے ذر یعے، یہوواہ نے ہمارے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے شاندار اہتمام کیے ہیں۔ ان تمام سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ خدا کے لوگوں کے اجلاسوں میں باقاعدہ حاضر ہوں اور شرکت کریں۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اس کے کلام اور مسیحی اشاعتوں کا مستعدی سے مطالعہ کریں۔ یہوواہ سے اس کی روحالقدس کے لیے التجا کریں۔ (لوقا ۱۱:۱۳) ان کے ایمان کی تقلید کریں جو فروتنی کے ساتھ کلیسیا میں پیشوائی کر رہے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۳:۷) دنیاوی آزمائشوں کا مقابلہ کریں۔ (متی ۶:۹، ۱۳) جی ہاں، اور ہر ممکنہ طریقے سے یہوواہ کے ساتھ اپنے ذاتی رشتے کو مضبوط کریں۔ سب سے بڑھ کر، ایمان کا مظاہرہ کرتے رہیں۔ تب آپ ان لوگوں میں سے ہو سکتے ہیں جو یہوواہ کو خوش کرتے اور نجات پاتے ہیں، کیونکہ پولس نے بیان کیا: ”کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملی ہے اور یہ تمہاری طرف سے نہیں خدا کی بخشش ہے۔“ افسیوں ۲:۸۔ (۱۴ ۹/۱۵ w۹۱)
آپ کے جوابات کیا ہیں؟
▫ ایمان کی کونسی آزمائشیں بالکل ہمارے سامنے ہیں؟
▫ کن دو طریقوں سے ہمارا ایمان ہمیں شفا دے سکتا ہے؟
▫ ۱-پطرس ۱:۹ کے مطابق کتنی دیر تک ہمیں اپنے ایمان پر ضرور قائم رہنا چاہیے؟
▫ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے پاس کونسی فراہمیاں ہیں؟
[تصویر]
اس باپ کی طرح جس کے بیٹے کو یسوع نے شفا دی تھی، کیا آپ مزید ایمان کے لیے ذاتی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں؟
[تصویر]
”بڑی مصیبت“ سے بچ نکلنے کے لیے نوح اور اسکے خاندان کی طرح کے ایمان کی ضرورت ہوگی