ساتھی مسیحیوں کو رقم ادھار دینا
پیڈرو اور کارلوس اچھے دوست تھے۔a وہ ساتھی مسیحی تھے، اور دونوں کے خاندان اکثر ایک دوسرے کے ساتھ اچھی رفاقت سے لطفاندوز ہوتے تھے۔ پس جب کارلوس کو اپنے کاروبار کے لیے کچھ رقم کی ضرورت پڑی تو پیڈرو نے بلاجھجک اسے ادھار دینے کی پیشکش کر دی۔ ”چونکہ ہم اچھے دوست تھے،“ پیڈرو نے وضاحت کی، ”اس لیے میں نے کوئی پرواہ نہ کی۔“
تاہم، صرف دو ہی ماہ بعد، کارلوس کا کاروبار فیل ہو گیا، اور رقم کی واپس ادائیگی رک گئی۔ پیڈرو کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ کارلوس نے جو رقم ادھار لی تھی اس میں سے زیادہتر غیرکاروباری قرضے اتارنے اور حد سے متجاوز طرززندگی کے اخراجات میں صرف کر دی گئی تھی۔ ایک سال تک بار بار چکر لگانے اور خطوط لکھنے کے باوجود بھی پیڈرو تسلیبخش طور پر معاملے کو حل نہ کر سکا۔ احساسمحرومی کے باعث، پیڈرو اختیار والوں کے پاس گیا اور کارلوس اپنے دوست اور مسیحی بھائی کو جیل میں ڈلوا دیا۔b کیا یہ اقدام اٹھانا مناسب تھا؟ ہم اس پر غور کریں گے۔
رقم ادھار دینے کے سلسلے میں نااتفاقیاں اور غلط فہمیاں عام طور پر دنیا بھر کے لوگوں میں دوستی کی بربادی کا باعث ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار شاید یہ ساتھی مسیحیوں کے اندر بھی تفرقے کا باعث ہو۔ بہت سے ملکوں میں بینک سے قرضے حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے، پس ضرورتمند لوگوں کے لیے رقم حاصل کرنے کی خاطر دوستوں اور رشتہداروں تک رسائی کرنا ایک عام سی بات ہے۔ تاہم، پیڈرو اور کارلوس کا افسوسناک تجربہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اگر قرض لینے یا قرض دینے والے دونوں بائبل کے اصولوں پر بڑے احتیاط سے عمل نہیں کر تے، تو شاید سنگین مسائل اٹھ کھڑے ہوں۔ تو پھر، ساتھی مسیحی کی طرف سے کی گئی قرضے کی استدعا پر غور کرنے کا مناسب طریقہ کیا ہے؟
رقم ادھار لینے کی قیمت کا حساب لگانا
بائبل غیرضروری قرضے لینے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ پولس رسول نصیحت کرتا ہے، ”آپس کی محبت کے سوا کسی چیز میں کسی کے قرضدار نہ ہو۔“ (رومیوں ۱۳:۸) پس قرض لینے سے پہلے، ایسا کرنے کی قیمت کا اندازہ لگا لیں۔ (مقابلہ کریں لوقا ۱۴:۲۸۔) کیا رقم ادھار لینے کی واقعی ضرورت ہے؟ کیا یہ ذریعہآمدنی کو برقرار رکھنے کا معاملہ ہے تاکہ آپ اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں؟ (۱۔تیمتھیس ۵:۸) یا کیا اس میں کسی حد تک لالچ شامل ہے شاید اور زیادہ عیشپسند زندگی گذارنے کی خواہش؟ ۱۔تیمتھیس ۶:۹، ۱۰۔
ایک اور قابلغور پہلو یہ ہے کہ آیا قرض اٹھانا آپ کو زیادہ دیر تک کام کرنے، اور شاید اجلاسوں اور میدانی خدمت سے غفلت کرنے کے لیے مجبور کرے گا۔ اس کے علاوہ، کیا آپ درحقیقت کسی دوسرے کی رقم کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ لے سکتے ہیں؟ اس وقت کیا ہو اگر کاروبار یا کام فیل ہو جاتا ہے؟ یاد رکھیں، ”شریر قرض لیتا ہے اور ادا نہیں کرتا۔“ زبور ۳۷:۲۱۔
ادھار دینے والوں کے ساتھ ”سچ بولنا“
ایسے پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد بھی، شاید آپ یہ محسوس کریں کہ کاروبار کے لیے قرض لینا نہایت ضروری ہے۔ اگر یہ دنیاوی ذرائع سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، تو ایک ساتھی مسیحی تک رسائی لازماً غلط نہیں، کیونکہ مشکل کے وقت دوستوں کے پاس جانا ایک عام سی بات ہے، جیسے کہ یسوع نے لوقا ۱۱:۵ میں ذکر کیا۔ تاہم ایک شخص کو ”سچ بولنے کے لیے“ کوشش کرنی چاہیے۔ (افسیوں ۴:۲۵) دیانتداری سے تمام حقائق بیان کر دیں جس میں خطرات بھی شامل ہوں، اگرچہ شاید ان کا بہت کم امکان ہو۔ اور اس وقت ناراض نہ ہوں اگر قرض دینے والا اس کی بابت بہت سے خاص سوالات کرتا ہے تاکہ اسے یہ یقین ہو جائے کہ وہ حقیقت سے واقف ہے۔c
کیا یہ سچ بولنا ہو گا کہ آپ قرض لیتے تو کسی ایک کام کیلیے ہیںاور پھر استعمال اسے دوسرے کاموں میں کر لیتے ہیں؟ بمشکل۔ ایک لاطینی امریکہ کا بینکر بیان کرتا ہے: ”ایک بینک آپکی جمعشدہ تمام رقم ضبط کر لے گا، اگر آپ فوراً اپنا قرض ادا نہیں کرتے تو وہ عدالت سے آپکی جائداد کو ضبط کرنے کا اختیارنامہ حاصل کر لیں گے۔“ اگر رقم اس بنا پر ادھار دی گئی ہے کہ وہ کاروبار کے نفع میں اضافہ ہوگا تو پھر اسے کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا درحقیقت قرض دینے والے کے اس اعتماد کو ختم کر دے گا کہ قرض واپس مل سکتا ہے۔ یہ سچ ہے، کہ ساتھی مسیحی سے قرض لیتے ہوئے شاید آپ کو قانونی کارروائی کا خوف نہ ہو۔ تاہم، ”قرض لینے والا قرض دینے والے کا نوکر ہے،“ اور یوں اس کے ساتھ دیانتدار ہونا آپ کی ذمہداری ہے۔امثال ۲۲:۷۔
کاروبار میں سنہری اصول کا اطلاق کرنا
یسوع نے کہا: ”پس جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کرو۔“ (متی ۷:۱۲) یہ کتنا ضروری ہے کہ جب ہم ایک ساتھی ایماندار کے ساتھ کاروبار کر رہے ہوں تو اس اصول پر عمل کیا جائے! مثال کے طور پر، آپ کو کیسا محسوس ہو گا اگر ایک بھائی قرض کے لیے آپکی استدعا کو قبول نہیں کرتا؟ کیا آپ یہ محسوس کریں گے کہ اس نے آپکی دوستی کا حق پورا نہیں کیا؟ یا کیا آپ یہ خیال کرتے ہوئے اسکے آپ کی پیشکش کو مسترد کر دینے کے حق کا احترام کریں گے کہ شاید اسے بھی اس رقم کی ضرورت ہو یا شاید وہ ان خطرات کوآپ سے زیادہ سنگین سمجھتا ہو؟ شاید وہ دیانتداری سے رقم کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کی آپکی قابلیت کی بابت بھی سوال کرے۔ ایسی صورت میں، اس کا انکار شاید نہایت ہی عملی اور مہربانہ ہو۔امثال ۲۷:۶۔
اگر ایک دوست آپ کو کچھ رقم ادھار دینے کے لیے رضامند ہو جاتا ہے تو تمام تفصیلات تحریر میں ہونی چاہییں، جس میں یہ بھی شامل ہو کہ کتنا قرضہ لیا گیا ہ، رقم کس استعمال میں لائی جائے گی، قرض کے لیے تحفظ کے طور پر واجبالوصول کیا چیزیں ہوں گی، اور اس کی واپس ادائیگی کب اور کیسے ہو گی۔ بعض حالتوں میں یہ بھی دانشمندی کی بات ہو گی کہ ایک وکیل معاہدہ کو تحریرکرے یا اس پر نظرثانی کرے اور پھر یہ تحریر ارباباختیار کے پاس محفوظ کروا دی جائے۔ کسی بھی قیمت پر، جب ایک بار معاہدے پر دستخط ہو جائیں تو پھر ”آپ کے لفظ ہاں کا مطلب ہاں اور نہیں کا مطلب نہیں ہو۔“ (متی ۵:۳۷، NW) رقم کی ادائیگی کی ذمہداری کو اتنا سنجیدہ نہ سمجھتے ہوئے جتنا کہ آپ بینک کو ادا کرتے ہوئے سمجھتے، اپنے دوست کی خیرخواہی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔
محتاط ادھار دینے والے
اس وقت کیا ہو اگر کوئی آپ کے پاس ادھار لینے کو آ ئے؟ زیادہ انحصار تو حالات پر ہی ہو گا۔ مثال کے طور پر، ایک مسیحی بھائی شاید، بغیر کسی ذاتی غلطی کے، مالی بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اس قابل ہیں کہ کچھ کر سکیں تو، مسیحی محبت آپ کو تحریک دے گی کہ ”جو چیزیں تن کے لیے درکار ہیں وہ اسے دیں۔“ یعقوب ۲:۱۵، ۱۶۔
ایسی حالت میں بھائی کی مشکلات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے سود مانگنا کتنا نامہربانہ قدم ہو گا! یسوع نے تاکید کی: ”اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بلاسود اوربلامعاوضہ قرض دو۔“ لوقا ۶:۳۵، NW مقابلہ کریں احبار ۲۵:۳۵۔۳۸۔
تاہم، اس وقت کیا ہو، اگر آپ سے یہ درخواست کی جاتی ہے کہ ایک کاروباری کام میں رقم لگائیں یا اس کے لیے قرض لیں؟ عموماً ایسے معاملات کو فائیننشل انویسٹمنٹ والوں کے طور پر حل کیا جائے تو اچھا ہوتا ہے۔ بائبل واضح طور پر یہ نصیحت کرتے ہوئے، احتیاط کی تاکید کرتی ہے: ”تو ان میں شامل نہ ہو جو ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں اور نہ ان میں جو قرض کے ضامن ہوتے ہیں۔“ امثال ۲۲:۲۶۔
ایسی حالت میں، آپکو سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا آپ واقعی انویسٹمنٹ کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اگر کاروبار ناکام ہو جاتا ہے یا قرض لینے والا وقت پر قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا تو کیا آپکو مالی مشکلات کا سامنا تو نہیں ہوگا؟ اگر آپ قرض دینے کی استطاعت رکھتے ہیں اور نفع کمایا جانا ہے، تو آپکو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے قرض کے طور پر دی گئی رقم پر معقول سود لے کر نفع میں شریک ہوں۔ (مقابلہ کریں لوقا ۱۹:۲۲، ۲۳۔) امثال ۱۴:۱۵ آگاہ کرتی ہے: ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے لیکن ہوشیار آدمی اپنی روش کو دیکھتا بھالتا ہے۔“ بعض عام طور پر چالاک کاروباری لوگوں نے ساتھی مسیحیوں کے ساتھ کاروبار کرتے وقت اس آگاہی پر بالکل کان نہیں دھرا۔ زیادہ سود حاصل کرنے والی ادائیگی کی کشش نے بعض کو غیرمحتاط طور پر رقم لگانے کی طرف مائل کیا ہے جس میں وہ اپنی رقم اور ساتھی مسیحیوں کیساتھ اپنی دوستی دونوں کو ضائع کر بیٹھے ہیں۔
دلچسپی کی بات ہے، کہ بینک والے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کہ قرضہ کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اکثر تین اسباب پر غور کرتے ہیں: (۱) قرض کی درخواست کرنے والے شخص کا کردار، (۲) واپس ادائیگی کرنے کی اس کی اہلیت، اور (۳) اس کے کاروبار کو درپیش حالات۔ کیا اپنی محنت سے کمائی ہوئی رقم کسی کو دیتے وقت اس طرح سے معاملات کی لاگت کا حساب لگا لینا ”عملی حکمت“ کا ثبوت نہ ہو گا؟ امثال ۳:۲۱۔
مثال کے طور پر، رقم کی درخواست کرنے والے بھائی کی شہرت کیسی ہے؟ کیا وہ قابلبھروسہ اور بااعتماد سمجھا جاتا ہے یا غیرمحتاط اور غیرمستحکم؟ (مقابلہ کریں ۱۔تیمتھیس ۳:۷۔) اگر وہ اپنے کاروبار کو وسیع کرنا چاہتا ہے تو کیا ابھی تک وہ اپنے کاروبار کو کامیابی سے سنبھالے ہوئے ہے؟ (لوقا ۱۶:۱۰) اگر نہیں، تو اپنی رقم کو سنبھالنے میں اسکی مدد شاید اس کیلیے زیادہ مددگار ثابت ہو بجائے اسے رقم ادھار دینے کے جسکا کہ غلط استعمال ہو سکتا ہے۔
ایک اور عنصر رقم واپس ادا کرنے کیلیے اس بھائی کی اہلیت ہے۔ اسکی آمدنی کیا ہے؟ اس نے کتنے قرض ادا کرنے ہیں؟ یہ بالکل معقول بات ہے کہ وہ آپکے ساتھ صافگو ہو۔ تاہم، اس تمام میں مسیحی محبت کو کارفرما ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر، شاید آپ، بھائی کے قابلفروخت اثاثوں سے قرض وصول کرنا چاہیں۔ موسوی شریعت نے کسی شخص کے بنیادی اثاثوں یا ذریعہءآمدنی پر قرض وصول کرنے کی غرض سے قبضہ کرنے کی مذمت کی تھی۔ (استثنا ۲۴:۶، ۱۰۔۱۲) پس جنوبی امریکہ کا رہنے والا ایک بھائی جو کہ ایک بزنسمین ہے کہتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کے قابلفروخت اثاثوں سے وصول ہونے والی رقم کے نصف کے برابر قرض دے گا۔ ”میں اسکے فنی اوزاروں یا اسکے گھر کو قابلفروخت اثاثہ خیال نہیں کرتا،“ وہ بیان کرتا ہے۔ ”میں یقیناً یہ نہیں چاہوں گا کہ اپنی رقم واپس لینے کیلیے اپنے بھائی کو باہر سڑک پر نکال دوں اور اسکے گھر پر قبضہ کر لوں۔“
آخر میں یہ کہ آپ جہاں بھی رہتے ہیں وہاں کاروبار کی عام حالتوں کا حقیقتپسندی سے تجزیہ کریں۔ ہم ”آخریایام“ میں رہ رہے ہیں، جن میں کہ آدمی ”زردوست،... دغاباز“ ہیں۔ (۲۔تیمتھیس ۳:۱۔۴) جبکہ آپکا دوست اور مسیحی بھائی شاید دیانتدار ہو، لیکن اسکے کاروباری ساتھی، ملازم، اور گاہک شاید ایسے نہ ہوں۔ بطور ایک مسیحی کے، وہ رشوتخوری اور جھوٹ کی طرف رجوع نہیں کر سکتا ایسی چالیں جو اسکے مدمقابل شاید اپنے فائدے کیلیے استعمال کریں۔ اسکے علاوہ ”وقت اور حاد ثے“ کی تباہکاریوں کو بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ (واعظ ۹:۱۱) تجارتی مال کی قیمت اچانک گر سکتی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی افراط زر بھی کاروبار کو برباد کر سکتی یا بطور قرض دی گئی آپکی رقم کی قیمت کو کم کر سکتی ہے۔ چوری، حادثات، تہذیبسوزی، اور نقصان بھی کاروبار کی ناخوشگوار حقیقتیں ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے آپکو ان تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔
ناکامی
کبھی کبھار، تمام احتیاطوں کے باوجود، ایک مسیحی اپنا قرض ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ سنہری اصول کو اسے تحریک دینی چاہیے کہ اپنے قرضخواہ سے باقاعدہ رابطہ قائم رکھے۔ شاید کچھ عرصہ تک رقم کی تھوڑی ادائیگی کرنا ممکن ہو۔ تاہم، ایک مسیحی کو یہ کبھی نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ برا ئےنام ادائیگی اسے اپنی ذمہداری کو پورا کرنے کے لیے حقیقی قربانیاں کرنے کا عذر مہیا کرتی ہے۔ (زبور ۱۵:۴) ایک قرضخواہ جو کہ ایک مسیحی ہے اس کا بھی یہ فرض ہے کہ محبت کا اظہار کرے۔ اگر وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے دھوکا دیا گیا ہے تو، وہ متی ۱۸:۱۵۔۱۷ کی مشورت پر عمل کر سکتا ہے۔
جیسے کہ شروع میں بیانکردہ پیڈرو کے معاملے میں واقع ہوا، دنیاوی اختیار والوں کو ملوث کرنا شاید ہی دانشمندی کی بات ہو۔ پولس رسول کہتا ہے: ”کیا تم میں سے کسی کو یہ جرأت ہے کہ جب دوسرے کے ساتھ مقدمہ ہو تو فیصلہ کے لیے بےدینوں کے پاس جائے اور مقدسوں کے پاس نہ جائے؟... کیا واقعی تم میں ایک بھی دانا نہیں ملتا جو اپنے بھائیوں کا فیصلہ کر سکے بلکہ بھائی بھائیوں میں مقدمہ ہوتا ہے اور وہ بھی بےدینوں کے آگے؟ لیکن دراصل تم میں بڑا نقص یہ ہے کہ آپس میں مقدمہبازی کرتے ہو۔ ظلم اٹھانا کیوں نہیں بہتر جانتے؟ اپنا نقصان کیوں نہیں قبول کرتے؟“ ۱۔کرنتھیوں ۶:۱۔۷۔
شاید بعض حالتیں ایسی ہوں جیسے کہ بےایمان شرکا، دنیاوی سپلائرز، یا انشورنس کے معاملات جو یہ تقاضا کرتے معلوم دیتے ہیں کہ دنیاوی عدالت یا کسی سرکاری ایجنسی کے ذریعے معاملات طے کرائیں۔ لیکن زیادہتر حالتوں میں، ایک مسیحی اپنا نقصان برداشت کرنا پسند کرے گا بجائے اس کے کہ کلیسیا کو اس شرمندگی کا نشانہ بنائے جو کہ قرض ادا نہ کرنے والے بھائی پر مقدمہ چلانے سے آتی ہے۔
زیادہتر حالتوں میں ایسے سنگین نتائج سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ کیسے؟ ایک بھائی کو قرض دینے یا لینے سے پہلے، ممکنہ خطرات کی بابت واقفیت حاصل کریں۔ احتیاط اور حکمت کو استعمال کریں۔ سب سے بڑھ کر، ”جو کچھ کرتے ہو“ بشمول کاروباری معاملات کے، ”محبت سے کرو۔“ ۱۔کرنتھیوں ۱۶:۱۴۔ (۲۵ ۱۰/۱۵ w۹۱)
[فٹنوٹ]
a نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
b بعض ممالک میں دیوالیہپن اور قرضوں کے ادا نہ کیے جانے کے نتیجے میں قید ابھی تک بڑی عام ہے۔
c بعض نے بہتیرے قرض دینے والوں سے تھوڑی تھوڑی رقم ادھار لی ہے۔ ہر قرض دینے والا، پوری حالت کی بابت تمام حقائق جانے بغیر ہی، شاید یہ تصور کر لیتا ہے کہ ادھار لینے والا آسانی سے اسے واپس ادا کرنے کے قابل ہو گا۔