کیا آپ میں ”مسیح کی عقل“ ہے؟
”دُعا ہے کہ برداشت اور تسلی بخشنے والا خدا تمہیں مسیح یسوؔع جیسا ذہنی رُجحان رکھنے کی توفیق عطا کرے۔“—رومیوں ۱۵:۵، اینڈبلیو۔
۱. دُنیائےمسیحیت کی بہتیری تصاویر میں یسوع کی کیسے تصویرکشی کی جاتی ہے اور یہ یسوع کی درست تصویرکشی کیوں نہیں ہے؟
”اُسے کبھی بھی ہنستے نہیں دیکھا گیا۔“ ایک دستاویز نے یسوع کی یوں تصویرکشی کی ہے جو ایک قدیمی رومی اہلکار کی تصنیف ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرتی ہے۔ یہ دستاویز جو تقریباً ۱۱ویں صدی سے اسی حالت میں محفوظ ہے، اِسکی بابت کہا گیا ہے کہ اِس نے بہتیرے مُصوّروں کو متاثر کِیا ہے۔a کئی تصاویر میں یسوع ایسا سنجیدہ دکھائی دیتا ہے جو شاید ہی کبھی مسکرایا ہو۔ لیکن اس سے یسوع کی درست تصویرکشی نہیں ہوتی جسے اناجیل ایک پُرتپاک، نرمدل انسان کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
۲. ہم ”مسیح یسوع جیسا ذہنی رُجحان“ کس طرح پیدا کر سکتے ہیں اور یہ ہمیں کیا کرنے کیلئے لیس کریگا؟
۲ بِلاشُبہ، حقیقی یسوع کو جاننے کیلئے ہمیں اپنے دلودماغ کو صحیح سمجھ عطا کرنی چاہئے کہ زمینی زندگی کے دوران یسوع درحقیقت کیسا شخص تھا۔ پس ہمیں چند انجیلی بیانات کا جائزہ لینا چاہئے جو ہمیں ”مسیح کی عقل“—اسکے احساسات، اسکی ادراکی قوتوں، اسکے خیالات اور اسکی سوچکی بابت بصیرت عطا کر سکتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶) جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم ”مسیح یسوع جیسا ذہنی رُجحان“ کیسے پیدا کر سکتے ہیں۔ (رومیوں ۱۵:۵) یوں، ہم اپنی زندگیوں اور دوسروں کیساتھ اپنے تعلقات میں اسکے قائمکردہ نمونے کی بہتر طور پر پیروی کر سکیں گے جو اُس نے ہمارے لئے قائم کِیا ہے۔—یوحنا ۱۳:۱۵۔
قابلِرسائی
۳، ۴. (ا)مرقس ۱۰:۱۳-۱۶ میں درج بیان کا پسمنظر کیا ہے؟ (ب) جب شاگردوں نے بچوں کو یسوع کے پاس آنے سے روکا تو اس کا کیا ردِعمل تھا؟
۳ لوگ یسوع کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ کئی مواقع پر، ہر عمر اور پسمنظر کے لوگ بِلاروکٹوک اُسکے پاس آتے تھے۔ مرقس ۱۰:۱۳-۱۶ میں درج واقعہ پر غور کریں۔ یہ واقعہ اس کی خدمتگزاری کے آخر میں پیش آیا جب وہ اذیتناک موت کا سامنا کرنے کیلئے آخری مرتبہ یروشلیم جا رہا تھا۔—مرقس ۱۰:۳۲-۳۴۔
۴ اُس منظر کا تصور کریں۔ لوگ بچوں اور شیرخواروں کو یسوع کے پاس لانے لگے کہ وہ انہیں برکت دے۔b تاہم، شاگرد بچوں کو یسوع کے پاس آنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید شاگرد محسوس کرتے ہیں کہ یسوع ان تشویشناک ہفتوں کے دوران نہیں چاہتا کہ بچے اُسے تنگ کریں۔ لیکن اُنکی سوچ غلط تھی۔ جب یسوع کو یہ پتا چلا کہ شاگرد کیا کر رہے ہیں تو وہ اس سے خوش نہ ہؤا۔ یسوع یہ کہتے ہوئے بچوں کو اپنے پاس بلاتا ہے: ”بچوں کو میرے پاس آنے دو۔ انکو منع نہ کرو۔“ (مرقس ۱۰:۱۴) اس کے بعد وہ اُسکی حقیقی شفقت اور محبت کو ظاہر کرنے والا کام کرتا ہے۔ سرگزشت یوں بیان کرتی ہے: ”اُس نے انہیں اپنی گود میں لیا اور ان پر ہاتھ رکھ کر انکو برکت دی۔“ (مرقس ۱۰:۱۶) جب یسوع انہیں اپنی بانہوں میں لیتا ہے تو بچے یقیناً پُرسکون محسوس کرتے ہیں۔
۵. مرقس ۱۰:۱۳-۱۶ کا بیان ہمیں یسوع کی شخصیت کی بابت کیا بتاتا ہے؟
۵ یہ مختصر سا بیان ہمیں یسوع کی شخصیت کی بابت بہت کچھ بتاتا ہے۔ غور کریں کہ وہ قابلِرسائی تھا۔ اگرچہ وہ آسمان میں ایک اعلیٰ مرتبہ رکھتا تھا توبھی وہ ناکامل انسانوں کو ڈرانے دھمکانے یا حقیر جاننے والا نہیں تھا۔ (یوحنا ۱۷:۵) کیا یہ بات اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ بچے بھی اس کے ساتھ پُرسکون محسوس کرتے تھے؟ یقیناً، وہ کبھی بھی ایک سردمہر اور افسردہ شخص کے پاس نہیں آتے ہونگے جو کبھی بھی مسکراتا یا خوش نہ ہوتا ہو! تمام عمر کے لوگ یسوع کے پاس آتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وہ ایک پُرتپاک، فکر رکھنے والا شخص ہے اور انہیں یہ اعتماد تھا کہ وہ انہیں کبھی بھی نہیں دُھتکارے گا۔
۶. بزرگ اپنے آپ کو زیادہ قابلِرسائی کیسے بنا سکتے ہیں؟
۶ اس بیان پر غور کرنے سے ہم خود سے پوچھ سکتے ہیں، ’کیا مجھ میں مسیح کی عقل ہے؟ کیا مَیں قابلِرسائی ہوں؟‘ ان تشویشناک ایّام میں خدا کی بھیڑوں کو قابلِرسائی چرواہوں کی ضرورت ہے، ایسے آدمی جو ”طوفان سے چھپنے کی جگہ“ ہوں۔ (یسعیاہ ۳۲:۱، ۲؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱) اگر بزرگ اپنے بھائیوں میں گہری دلچسپی لیتے ہیں اور انکی خاطر خود کو وقف کر دینے کیلئے تیار ہیں تو وہ اُن کی فکرمندی کو بھانپ لیں گے۔ وہ آپ کے چہرے کے تاثرات سے یہ دیکھ لیں گے، آپ کی آواز سے اسے محسوس کر لینگے اور آپ کے مشفقانہ انداز سے اسے سمجھ لینگے۔ ایسا حقیقی تپاک اور فکرمندی قابلِبھروسا فضا کو پیدا کر سکتے ہیں جسکی بدولت بچوں سمیت دوسرے لوگ بھی آپکے پاس آنا آسان پائینگے۔ ایک مسیحی خاتون وضاحت کرتی ہے کہ وہ ایک بزرگ سے کھل کر بات کرنے کے قابل کیوں تھی: ”اُس نے میرے ساتھ مشفقانہ اور دردمندانہ انداز میں بات کی تھی۔ ورنہ مَیں تو غالباً ایک لفظ بھی کہہ نہ پاتی۔ اس نے مجھے تحفظ کا احساس دلایا۔“
دوسروں کیلئے پاسولحاظ دکھانے والا
۷. (ا)یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ وہ دوسروں کیلئے پاسولحاظ رکھتا تھا؟ (ب) یسوع نے نابینا آدمی کی بینائی بتدریج کیوں بحال کی؟
۷ یسوع پاسولحاظ دکھانے والا تھا۔ اسے دوسروں کے جذبات کا احساس تھا۔ وہ مصیبتزدہ لوگوں کی تکلیف سے متاثر ہوکر فوراً اُنکی تکلیف دُور کرنے کیلئے تیار ہو جاتا تھا۔ (متی ۱۴:۱۴) وہ دوسروں کی حدود اور ضروریات کا بھی خیال رکھتا تھا۔ (یوحنا ۱۶:۱۲) ایک مرتبہ لوگ ایک اندھے شخص کو یسوع کے پاس لائے اور اسے تندرست کرنے کے لئے اس کی منت کی۔ یسوع نے اس آدمی کی بینائی بحال کر دی لیکن اُس نے بتدریج ایسا کِیا۔ سب سے پہلے تو اس آدمی کو لوگوں کی غیرواضح صورتیں دکھائی دیں جو ”چلتے ہوئے ایسے دکھائی دیتے ہیں جیسے درخت۔“ اس کے بعد، یسوع نے اس کی بینائی مکمل طور پر بحال کر دی۔ اس نے اس آدمی کو بتدریج شفا کیوں دی؟ اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ آدمی تاریکی کا عادی تھا اور یکدم سورج کی روشنی اور دُنیا کو دیکھنے سے اسکے اعصابی نظام پر شدید دباؤ پڑ سکتا تھا لہٰذا، اُسے اس حالت سے بچانے کیلئے یسوع نے ایسا کِیا۔—مرقس ۸:۲۲-۲۶۔
۸، ۹. (ا)یسوع اور اس کے شاگردوں کے دِکپُلِس کے علاقے میں داخل ہونے کے فوراً بعد کیا واقع ہوا؟ (ب) یسوع کے بہرے آدمی کو شفا دینے کی بابت بیان کریں۔
۸ ذرا اس واقعہ پر بھی غور کریں جو ۳۲ س.ع. کی فسح کے بعد رُونما ہؤا۔ یسوع اور اس کے شاگرد گلیل کی جھیل کے مشرقی علاقے دِکپُلِس میں داخل ہو چکے تھے۔ وہاں، جلد ہی ایک بہت بڑی بِھیڑ نے انہیں ڈھونڈ لیا اور یسوع کے پاس بہت سے بیماروں اور معذوروں کو لائے اور اس نے انہیں اچھا کر دیا۔ (متی ۱۵:۲۹، ۳۰) دلچسپی کی بات ہے کہ یسوع ان میں سے ایک آدمی کو الگ لے گیا جو خاص توجہ کا مستحق تھا۔ انجیل نویس مرقس ہی اس واقعہ کو تحریر کر کے بیان کرتا ہے کہ کیا واقع ہؤا۔—مرقس ۷:۳۱-۳۵۔
۹ یہ آدمی بہرا اور ہکلا تھا۔ یسوع نے اس آدمی کی گھبراہٹ یا پریشانی کو شاید محسوس کر لیا تھا۔ یسوع نے اس کے بعد ایک غیرمعمولی کام کِیا۔ وہ اس آدمی کو بِھیڑ سے الگ، تنہائی کی جگہ پر لے گیا۔ اس کے بعد یسوع نے اس آدمی کو سمجھانے کیلئے کچھ اشارے کئے کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ اس نے ”اپنی انگلیاں اُسکے کانوں میں ڈالیں اور تھوک کر اُسکی زبان چُھوئی۔“ (مرقس ۷:۳۳) اس کے بعد، یسوع نے آسمان کی طرف دیکھا اور ایک پُرخلوص التجا کی۔ ایسے اشاروں نے اُس آدمی پر یہ ضرور واضح کر دیا ہوگا کہ ’مَیں خدا کی قدرت سے تمہارے لئے کچھ کرنے والا ہوں۔‘ آخر میں یسوع نے کہا: ”کھل جا۔“ (مرقس ۷:۳۴) اس پر آدمی کی قوتِسماعت بحال ہو گئی اور وہ عام آدمی کی طرح بولنے لگا۔
۱۰، ۱۱. ہم کلیسیا اور خاندان میں دوسروں کے جذبات کیلئے کیسے پاسولحاظ دکھا سکتے ہیں؟
۱۰ یسوع نے دوسروں کیلئے کیسا پاسولحاظ دکھایا! اسے ان کے جذبات کا احساس تھا اور اسی ہمدردانہ رویے نے اُسے اُنکے جذبات کا پاسولحاظ رکھتے ہوئے کچھ کرنے کی تحریک دی۔ مسیحیوں کے طور پر، اس سلسلے میں مسیح کی عقل کو پیدا کرنا اور اس کا مظاہرہ کرنا ہمارے لئے اچھا ہوگا۔ بائبل ہمیں نصیحت کرتی ہے: ”سب کے سب یکدل اور ہمدرد رہو۔ برادرانہ محبت رکھو۔ نرم دل اور فروتن بنو۔“ (۱-پطرس ۳:۸) یہ بات یقیناً ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اپنے قولوفعل میں ایسے طریقے اختیار کریں جن سے دوسروں کے احساسات اور جذبات کیلئے پاسولحاظ ظاہر ہو۔
۱۱ ہم کلیسیا میں دوسروں کی عزت کرنے سے یعنی ان کیساتھ ویسا ہی سلوک کرنے سے جیسا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کِیا جائے، انکے جذبات کیلئے پاسولحاظ دکھا سکتے ہیں۔ (متی ۷:۱۲) اس میں ہماری گفتگو اور طرزِگفتگو میں احتیاط برتنا شامل ہے۔ (کلسیوں ۴:۶) یاد رکھیں کہ ’بےتامل باتیں تلوار کی طرح چھید سکتی ہیں۔‘ (امثال ۱۲:۱۸) خاندانی حلقے کی بابت کیا ہے؟ حقیقت میں ایک دوسرے سے محبت رکھنے والے شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں۔ (افسیوں ۵:۳۳) وہ تلخ کلامی، سخت تنقید اور طعنآمیز باتوں سے گریز کرتے ہیں—جو ایسے گہرے جذباتی گھاؤ لگانے کا سبب بن سکتی ہیں جو آسانی سے نہیں بھرتے۔ بچوں کے بھی جذبات ہوتے ہیں اور شفیق والدین ان کا بھی پاسولحاظ رکھتے ہیں۔ جب اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے تو ایسے والدین اپنے بچوں کے عزتِنفس کا احترام کرتے ہوئے اُنہیں غیرضروری احساسِندامت سے محفوظ رکھتے ہیں۔c (کلسیوں ۳:۲۱) جب ہم اس طرح سے دوسروں کیلئے پاسولحاظ دکھاتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم میں مسیح کی عقل ہے۔
دوسروں پر اعتماد کرنے کیلئے تیار
۱۲. یسوع اپنے شاگردوں کی بابت کونسا متوازن اور حقیقتپسندانہ نظریہ رکھتا تھا؟
۱۲ یسوع اپنے شاگردوں کی بابت ایک متوازن، حقیقتپسندانہ نظریہ رکھتا تھا۔ وہ خوب جانتا تھا کہ وہ کامل نہیں ہیں۔ تاہم وہ انسانی دلوں کو پڑھ سکتا تھا۔ (یوحنا ۲:۲۴، ۲۵) پھر بھی، اس نے نہ صرف انکی ناکاملیتوں پر بلکہ انکی خوبیوں پر بھی توجہ کی۔ اس نے ان آدمیوں میں چھپی ہوئی فطری صلاحیتوں کو دیکھا جنہیں یہوواہ نے کھینچ لیا تھا۔ (یوحنا ۶:۴۴) اپنے شاگردوں کی بابت یسوع کا مثبت نظریہ ان کیساتھ اسکے سلوک اور برتاؤ سے نمایاں تھا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اس نے ان پر اعتماد کرنے میں رضامندی دکھائی۔
۱۳. یسوع نے کس طرح ظاہر کِیا کہ وہ اپنے شاگردوں پر اعتماد رکھتا تھا؟
۱۳ یسوع نے اس اعتماد کو کس طرح ظاہر کِیا؟ اس نے زمین پر سے جاتے وقت ایک بھاری ذمہداری اپنے ممسوح شاگردوں کے سپرد کی۔ اس نے اپنی بادشاہت کے عالمگیر مفادات کی نگہداشت کی ذمہداری انکے سپرد کی۔ (متی ۲۵:۱۴، ۱۵؛ لوقا ۱۲:۴۲-۴۴) اپنی خدمتگزاری کے دوران، اس نے چھوٹے، ضمنی طریقوں سے ظاہر کِیا کہ وہ ان پر اعتماد کرتا ہے۔ جب اس نے بِھیڑ کو کھانا کھلانے کیلئے معجزانہ طور پر باافراط خوراک فراہم کی تو اس نے خوراک کو تقسیم کرنے کی ذمہداری اپنے شاگردوں کو سونپی۔—متی ۱۴:۱۵-۲۱؛ ۱۵:۳۲-۳۷۔
۱۴. آپ مرقس ۴:۳۵-۴۱ میں درج بیان کی کیسے تلخیص کریں گے؟
۱۴ مرقس ۴:۳۵-۴۱ میں درج بیان پر بھی غور کریں۔ اس موقع پر یسوع اور اس کے شاگردوں نے کشتی لی اور گلیل کی جھیل کے پار مشرق کی طرف سفر شروع کِیا۔ ساحل سے کشتی کو دھکیلنے کے تھوڑی دیر بعد، یسوع کشتی کے پچھلے حصے میں جا کر گہری نیند سو گیا۔ تاہم، جلد ہی ایک ”بڑی آندھی چلی۔“ ایسی آندھیاں گلیل کی جھیل کیلئے غیرمعمولی نہیں تھیں۔ جھیل کے سطحسمندر سے ۷۰۰ فٹ نیچے ہونے کی وجہ سے آس پاس کے علاقوں کی نسبت یہاں ہوا زیادہ گرم ہوتی ہے جسکی وجہ سے اچانک موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ علاوہازیں، تند ہوائیں شمال میں واقع کوہِحرمون سے یردن کی وادی میں آتی ہیں۔ یوں ایک لمحے کی پُرسکون فضا یکایک شدید آندھی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ذرا اس کی بابت سوچیں: یسوع بِلاشُبہ ان عام طوفانوں کی بابت جانتا تھا کیونکہ اس نے گلیل میں ہی پرورش پائی تھی۔ تاہم، وہ ماہیگیروں کے طور پر اپنے بعض شاگردوں کی مہارتوں پر اعتماد کی وجہ سے سکون سے سویا رہا۔—متی ۴:۱۸، ۱۹۔
۱۵. اپنے شاگردوں پر اعتماد رکھنے کے سلسلے میں یسوع کی رضامندی کی ہم کیسے نقل کر سکتے ہیں؟
۱۵ کیا ہم یسوع کی اپنے شاگردوں پر اعتماد کرنے کی رضامندی کی نقل کر سکتے ہیں؟ بعض اشخاص دوسروں کو ذمہداری دینا مشکل پاتے ہیں۔ گویا ہر کام ہمیشہ اُنہی کے قابو میں رہنا چاہئے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ’اگر کوئی کام درست طریقے سے کرنا ہے تو مجھے خود ہی کرنا چاہئے!‘ لیکن اگر ہمیں خود ہی ہر کام کرنا پڑے تو شاید ہم اپنے خاندان سے غیرضروری وقت چھیننے اور تھک ٹوٹ جانے کے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر ہم دوسروں کو مناسب فرائض اور ذمہداریاں نہیں سونپتے تو ہم انہیں ضروری تجربے اور تربیت سے محروم کر سکتے ہیں۔ لہٰذا دوسروں پر اعتماد کرنا سیکھنا اور اُنہیں ذمہداریاں سونپنا دانشمندانہ بات ہوگی۔ ہم دیانتداری سے خود سے یہ پوچھ کر اچھا کرتے ہیں کہ ’کیا اس معاملے میں میرے اندر مسیح کی عقل ہے؟ کیا مَیں یہ اعتماد کرتے ہوئے خوشی سے دوسروں کو ذمہداریاں سونپتا ہوں کہ وہ اپنی پوری کوشش کریں گے؟‘
اس نے اپنے شاگردوں پر یقین کا اظہار کِیا
۱۶، ۱۷. اگرچہ یسوع جانتا تھا کہ اس کے شاگرد اسکا ساتھ چھوڑ دیں گے تو بھی اپنی زمینی زندگی کی آخری رات اس نے انہیں کونسی یقیندہانی کرائی؟
۱۶ یسوع نے ایک اَور طریقے سے اپنے شاگردوں کی بابت مثبت نظریے کا مظاہرہ کِیا۔ اس نے انہیں بتایا کہ اُسے ان پر بھروسہ ہے۔ یہ بات ان ہمتافزا الفاظ سے بالکل عیاں تھی جو اس نے اپنی زمینی زندگی کی آخری رات اپنے رسولوں سے کہے تھے۔ غور کریں کہ کیا واقع ہؤا۔
۱۷ یہ یسوع کیلئے مصروفترین شام تھی۔ اس نے اپنے رسولوں کے پاؤں دھونے سے اُنہیں فروتنی کا معروضی سبق سکھایا تھا۔ اِسکے بعد، اس نے اُس عشائیے کو رائج کِیا جو اس کی موت کی یادگار ہو گا۔ بعدازاں، رسولوں نے ایک مرتبہ پھر سخت تکرار شروع کر دی کہ ان میں بڑا کون ہے۔ ہمیشہ صبر سے کام لینے والے یسوع نے انہیں ڈانٹنے کی بجائے انکے ساتھ استدلال کِیا۔ اس نے انہیں بتایا کہ آگے کیا ہونے والا ہے: ”تم سب اسی رات میری بابت ٹھوکر کھاؤ گے کیونکہ لکھا ہے کہ مَیں چرواہے کو مارونگا اور گلّہ کی بھیڑیں پراگندہ ہو جائینگی۔“ (متی ۲۶:۳۱؛ زکریاہ ۱۳:۷) وہ جانتا تھا کہ اس کے قریبی ساتھی ضرورت کے وقت اسکا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ پھربھی، اس نے انہیں رَدّ نہیں کِیا۔ اس کے برعکس، اس نے انہیں بتایا: ”لیکن مَیں اپنے جی اٹھنے کے بعد تم سے پہلے گلیل کو جاؤنگا۔“ (متی ۲۶:۳۲) مزیدبرآں، اس نے انہیں یقین دلایا کہ اگرچہ وہ اسے چھوڑ دیں گے توبھی وہ ان کا ساتھ نہیں چھوڑیگا۔ جب یہ تکلیفدہ آزمائش گزر جائے گی تو وہ ان سے دوبارہ ملے گا۔
۱۸. گلیل میں، یسوع نے کونسی اہم ذمہداری اپنے شاگردوں کے سپرد کی اور رسولوں نے اس کی مطابقت میں کیسے عمل کِیا؟
۱۸ یسوع اپنے قول کا پکا تھا۔ بعدازاں، قیامتیافتہ یسوع ۱۱ رسولوں پر ظاہر ہؤا جو بدیہی طور پر کئی دوسرے لوگوں کیساتھ وہاں جمع تھے۔ (متی ۲۸:۱۶، ۱۷؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۶) وہاں یسوع نے ایک بھاری ذمہداری اُنکے سپرد کی: ”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور انکو باپ اور بیٹے اور رُوحاُلقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور انکو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تمکو حکم دیا۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) اعمال کی کتاب ہمیں واضح شہادت دیتی ہے کہ رسولوں نے اس ذمہداری کو پورا کِیا تھا۔ انہوں نے پہلی صدی میں خوشخبری کی منادی کے کام میں وفاداری سے پیشوائی کی۔—اعمال ۲:۴۱، ۴۲؛ ۴:۳۳؛ ۵:۲۷-۳۲۔
۱۹. یسوع کی قیامت کے بعد اس کے کام مسیح کی عقل کی بابت ہمیں کیا سکھاتے ہیں؟
۱۹ یہ فہمافزا سرگزشت ہمیں مسیح کی عقل کی بابت کیا سکھاتی ہے؟ یسوع اپنے رسولوں کی بدترین حالت دیکھ چکا تھا پھر بھی وہ ان سے ”آخر تک محبت رکھتا رہا۔“ (یوحنا ۱۳:۱) ان کی تقصیروں کے باوجود، اس نے ان پر واضح کِیا کہ اسے ان پر یقین ہے۔ غور کریں کہ یسوع کا اعتماد غلط نہیں تھا۔ اس نے جس اعتماد اور یقین کا اظہار کِیا تھا اس نے بِلاشُبہ انہیں تقویت دی کہ جس کام کو انجام دینے کا حکم اس نے انہیں دیا وہ اسے پورا کرنے کیلئے اپنے دلوں میں پُرعزم ہوں۔
۲۰، ۲۱. اپنے ساتھی مسیحیوں کی بابت ہم کیسے مثبت نظریہ ظاہر کر سکتے ہیں؟
۲۰ اس سلسلے میں ہم مسیح کی عقل کیسے ظاہر کر سکتے ہیں؟ ساتھی مسیحیوں کی بابت قنوطی نہ بنیں۔ اگر آپ صرف خامیوں پر ہی نگاہ رکھتے ہیں تو پھر آپکے اقوال اور افعال انہی کو نمایاں کرینگے۔ (لوقا ۶:۴۵) تاہم، بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ محبت ”سب کچھ یقین کرتی ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۷) محبت مثبت ہے، منفی نہیں۔ یہ نفاق ڈالنے کی بجائے اتحاد کو فروغ دیتی ہے۔ لوگ ڈانٹڈپٹ کی نسبت محبت اور حوصلہافزائی کیلئے زیادہ خوشی سے جوابیعمل دکھاتے ہیں۔ ہم ان پر اعتماد ظاہر کرنے سے ان کی ہمتافزائی اور حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۱) مسیح کی مانند، اگر ہم اپنے بھائیوں کی بابت مثبت نظریہ رکھیں تو ہم ایسے طریقوں سے ان کیساتھ پیش آئیں گے جو ان کی ہمت بڑھائے گا اور انکی عمدہ خوبیوں کو سامنے لائے گا۔
۲۱ مسیح کی عقل کو فروغ دینا اور اُسے ظاہر کرنا یسوع کے مخصوص کاموں کی نقل کرنے سے زیادہ مطلب رکھتا ہے۔ جیسا کہ پچھلے مضمون میں بیان کِیا گیا ہے اگر ہم واقعی یسوع کی طرح عمل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں مختلف معاملات کی بابت اُسکا نقطۂنظر اپنانا ہوگا۔ اناجیل ہمیں اس کی شخصیت کے ایک اَور پہلو یعنی اس کے تفویضکردہ کام کی بابت اس کے خیالات اور احساسات کو سمجھنے کے قابل بناتی ہیں، جس پر اگلے مضمون میں گفتگو کی جائیگی۔
[فٹنوٹ]
a اس دستاویز میں یسوع کی مبیّنہ جسمانی وضعقطع بیان کرتے ہوئے جعلساز اس کے بالوں، داڑھی اور آنکھوں کا رنگ بھی بتاتا ہے۔ بائبل مترجم ایڈگر جے. گڈسپیڈ واضح کرتا ہے کہ یہ جھوٹی دستاویز ”یسوع کی ذاتی وضعقطع کی بابت مُصوّروں کی دستی کُتب میں پائے جانے والے بیانات کو فروغ دینے کیلئے تیار کی گئی تھی۔“
b بظاہر، بچوں کی عمریں مختلف تھیں۔ جس لفظ کا ترجمہ یہاں ”بچوں“ کِیا گیا ہے وہ یائیر کی ۱۲سالہ بیٹی کیلئے بھی استعمال ہؤا ہے۔ (مرقس ۵:۳۹، ۴۲؛ ۱۰:۱۳) تاہم، اس کے متوازی بیان میں لوقا ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جو شیرخواروں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔—لوقا ۱:۴۱؛ ۲:۱۲؛ ۱۸:۱۵۔
c دی واچٹاور، اپریل ۱، ۱۹۹۸ کے شمارے میں مضمون دیکھیں ”کیا آپ انکے وقار کا احترام کرتے ہیں؟“
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• جب شاگردوں نے بچوں کو اس کے پاس آنے سے روکنے کی کوشش کی تو یسوع نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
• کن طریقوں سے یسوع نے دوسروں کیلئے پاسولحاظ دکھایا؟
• اپنے شاگردوں پر اعتماد کرنے کے سلسلے میں یسوع کی رضامندی کی ہم کیسے نقل کر سکتے ہیں؟
• ہم رسولوں پر یسوع کے اعتماد کی نقل کیسے کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
بچے یسوع کیساتھ پُرسکون محسوس کرتے تھے
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
یسوع دوسروں کیساتھ شفقت سے پیش آتا تھا
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
قابلِرسائی بزرگ ایک برکت ہیں