باب 98
رسولوں کی اُونچے رُتبے کی خواہش
متی 20:17-28 مرقس 10:32-45 لُوقا 18:31-34
یسوع کی موت کے متعلق دوبارہ پیشگوئی
رسولوں نے دوبارہ سے اُونچے رُتبے کی خواہش ظاہر کی
یسوع مسیح اور اُن کے شاگرد پیریہ سے گزر کر یروشلیم کی طرف جا رہے تھے۔ اب اُنہوں نے یریحو کے قریب دریائےاُردن کو پار کِیا۔ اُن کے ساتھ اَور بھی لوگ 33ء کی عیدِفسح منانے کے لیے یروشلیم کا سفر کر رہے تھے۔
یسوع مسیح شاگردوں کے آگے آگے چل رہے تھے کیونکہ وہ عیدِفسح منانے کے لیے وقت پر یروشلیم پہنچنا چاہتے تھے۔ مگر شاگرد خوفزدہ تھے۔ کچھ عرصہ پہلے جب یسوع، لعزر کی فوتگی کی وجہ سے پیریہ سے یہودیہ جا رہے تھے تو توما نے باقی رسولوں سے کہا تھا: ”آئیں، ہم بھی اُن کے ساتھ مرنے چلیں۔“ (یوحنا 11:16، 47-53) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے لیے یروشلیم جانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ خوفزدہ تھے۔
یسوع مسیح رسولوں کو آنے والے واقعات کے لیے تیار کرنا چاہتے تھے اِس لیے اُنہوں نے رسولوں کو ایک طرف لے جا کر کہا: ”ہم یروشلیم جا رہے ہیں۔ وہاں اِنسان کے بیٹے کو اعلیٰ کاہنوں اور شریعت کے عالموں کے حوالے کِیا جائے گا اور وہ اُس کو سزائےموت سنائیں گے اور اُسے غیریہودیوں کے حوالے کریں گے جو اُس کا مذاق اُڑائیں گے، اُسے کوڑے لگوائیں گے اور سُولی پر چڑھائیں گے۔ لیکن تیسرے دن اُسے زندہ کِیا جائے گا۔“—متی 20:18، 19۔
یہ تیسری بار تھا جب یسوع نے شاگردوں کو بتایا کہ اُنہیں مار ڈالا جائے گا اور پھر زندہ کِیا جائے گا۔ (متی 16:21؛ 17:22، 23) مگر اِس بار اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کو سُولی پر چڑھایا جائے گا۔ رسول یسوع کی باتیں سُن تو رہے تھے مگر سمجھ نہیں رہے تھے۔ شاید وہ اِس بات کی توقع کر رہے تھے کہ اِسرائیل کی بادشاہت جلد بحال ہو جائے گی اور اُنہیں اِس زمینی بادشاہت میں یسوع کے ساتھ اُونچا رُتبہ ملے گا۔
یعقوب اور یوحنا رسول کی ماں جو غالباً سَلومی تھیں، وہ بھی اُن لوگوں کے ساتھ یروشلیم کا سفر کر رہی تھیں۔ یہ دو رسول بڑے جذباتی تھے اور شاید اِسی لیے یسوع مسیح نے اُن کو ایک ایسا نام دیا جس کا مطلب ”گرج کے بیٹے“ تھا۔ (مرقس 3:17؛ لُوقا 9:54) کچھ عرصے سے یعقوب اور یوحنا کے دل میں مسیح کی بادشاہت میں اُونچا رُتبہ رکھنے کی خواہش پَل رہی تھی۔ اُن کی ماں بھی اُن کی اِس خواہش سے واقف تھیں۔ اِس لیے وہ اپنے بیٹوں کی طرف سے یسوع کے پاس گئیں اور جھک کر اُن کی تعظیم کرنے لگیں۔ یسوع جان گئے کہ وہ اُن سے کوئی درخواست کرنا چاہتی ہیں اِس لیے اُنہوں نے پوچھا: ”آپ کیا چاہتی ہیں؟“ اِس پر اُنہوں نے کہا: ”وعدہ کریں کہ میرے یہ بیٹے آپ کی بادشاہت میں آپ کی دائیں اور بائیں طرف بیٹھیں گے۔“—متی 20:20، 21۔
بِلاشُبہ یہ یعقوب اور یوحنا ہی کی درخواست تھی۔ یسوع مسیح نے ابھی ابھی اپنے رسولوں کو بتایا تھا کہ اُن کی بےعزتی اور توہین کی جائے گی۔ اِس لیے یسوع نے اُن دونوں بھائیوں سے کہا: ”آپ نہیں جانتے کہ آپ کیا مانگ رہے ہیں۔ کیا آپ وہ پیالہ پی سکتے ہیں جو مَیں پینے والا ہوں؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”جی، ہم پی سکتے ہیں۔“ (متی 20:22) لیکن اصل میں وہ یہ نہیں سمجھے تھے کہ اِس پیالے کو پینے میں کیا کچھ شامل تھا۔
یسوع نے اُن سے کہا: ”آپ وہ پیالہ ضرور پئیں گے جو مَیں پینے والا ہوں۔ لیکن یہ میرے ہاتھ میں نہیں کہ کون میری دائیں اور بائیں طرف بیٹھے گا بلکہ میرا باپ اِس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون کہاں بیٹھے گا۔“—متی 20:23۔
جب باقی رسولوں کو یعقوب اور یوحنا کی درخواست کے بارے میں پتہ چلا تو وہ اُن پر بہت غصہ ہوئے۔ ایک بار پہلے بھی رسولوں میں اِس بات پر بحث ہوئی تھی کہ اُن میں سب سے بڑا کون ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُس بحث میں یعقوب اور یوحنا پیش پیش تھے۔ (لُوقا 9:46-48) اُس موقعے پر یسوع مسیح نے اُن کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے آپ کو چھوٹا خیال کریں۔ مگر تمام رسولوں نے اِس ہدایت پر عمل نہیں کِیا کیونکہ وہ ابھی بھی اِس موضوع کو لے کر بحث کر رہے تھے اور اُونچے رُتبے کے خواہشمند تھے۔
اِس بحث کی وجہ سے بدمزگی پیدا ہو رہی تھی اِس لیے یسوع نے 12 رسولوں کو اپنے پاس بلا کر بڑے پیار سے سمجھایا: ”آپ جانتے ہیں کہ دُنیا کے حکمران لوگوں پر حکم چلاتے ہیں اور بڑے آدمی دوسروں پر اِختیار جتاتے ہیں۔ مگر آپ کے درمیان ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جو آپ میں بڑا بننا چاہتا ہے، وہ آپ کا خادم بنے اور جو آپ میں اوّل ہونا چاہتا ہے، وہ سب کا غلام بنے۔“—مرقس 10:42-44۔
یسوع مسیح چاہتے تھے کہ رسول اُن کی مثال پر عمل کریں۔ اِس لیے اُنہوں نے کہا: ”اِنسان کا بیٹا لوگوں سے خدمت لینے نہیں آیا بلکہ اِس لیے آیا کہ خدمت کرے اور بہت سے لوگوں کے لیے اپنی جان فدیے کے طور پر دے۔“ (متی 20:28) یسوع تقریباً تین سال سے دوسروں کی خدمت کر رہے تھے، یہاں تک کہ وہ اِنسانوں کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے والے تھے۔ رسولوں کو بھی یسوع جیسا جذبہ رکھنا چاہیے تھا۔ اُنہیں دوسروں سے خدمت لینے کی بجائے اُن کی خدمت کرنی چاہیے تھی۔ اُنہیں اُونچے رُتبے کی خواہش رکھنے کی بجائے خود کو چھوٹا خیال کرنا چاہیے تھا۔