”دُعا کے سننے والے“ تک رسائی حاصل کریں
”اے دُعا کے سننے والے! سب بشر تیرے پاس آئیں گے۔“—زبور ۶۵:۲۔
۱. انسان اور زمین کی باقی مخلوقات میں کونسا فرق پایا جاتا ہے اور انسان کو کونسا شرف حاصل ہے؟
زمین کی تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو شعور ہے کہ اُسے اپنے خالق کی عبادت کرنی چاہئے۔ صرف انسان ایسا کرنے کی خواہش بھی رکھتا ہے۔ انسان ہی کو اپنے خالق سے دوستی قائم کرنے کا شرف حاصل ہے۔
۲. گُناہ کی وجہ سے انسان اور خالق کے تعلق پر کیا اثر پڑا؟
۲ انسان کو خدا سے رابطہ کرنے کی قابلیت کے ساتھ بنایا گیا تھا۔ خدا نے آدم اور حوا کو گُناہ کے داغ سے پاک خلق کِیا تھا۔ وہ خدا سے اس طرح باتچیت کر سکتے تھے جیسے بچے اپنے باپ سے باتچیت کرتے ہیں۔ لیکن آدم اور حوا نے خدا کے حکم کی نافرمانی کی اور وہ گنہگار بن گئے۔ اس وجہ سے وہ اُس بےتکلفی کو کھو بیٹھے جو انہیں پہلے حاصل تھی اور وہ خدا سے دُور ہو گئے۔ (پیدایش ۳:۸-۱۳، ۱۷-۲۴) آدم اور حوا کی اولاد نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ اُنہیں خدا تک رسائی حاصل نہیں ہے؟ جینہیں۔ یہوواہ خدا نے انسان کو دُعا کے ذریعے اُس تک رسائی کرنے کی اجازت دی ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے انسان کو چند شرطوں پر پورا اُترنا پڑتا ہے۔ یہ کس قسم کی شرطیں ہیں؟
دُعا کی شرطیں
۳. خدا کے نزدیک جانے کے لئے گنہگار انسانوں کو کن شرطوں پر پورا اُترنا ہے اور یہ کس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے؟
۳ آئیے ہم آدم کے دو بیٹوں کے ساتھ ہونے والے ایک واقعہ پر غور کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خدا گنہگار لوگوں کو کن شرطوں پر اپنے نزدیک آنے دیتا ہے۔ قائن اور ہابل دونوں نے خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہدیے پیش کئے۔ خدا نے ہابل کا ہدیہ تو قبول کِیا لیکن اُس نے قائن کے ہدیے کو قبول نہیں کِیا۔ (پیدایش ۴:۳-۵) اس کی وجہ عبرانیوں ۱۱:۴ میں یوں بتائی گئی ہے: ”ایمان ہی سے ہابلؔ نے قائنؔ سے افضل قربانی خدا کے لئے گذرانی اور اُسی کے سبب سے اُس کے راستباز ہونے کی گواہی دی گئی۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خدا کی قربت حاصل کرنے کی ایک شرط یہ ہے کہ ہم اُس پر ایمان لائیں۔ ایک اَور شرط کا ذکر خدا نے قائن سے یوں کِیا تھا: ”اگر تُو بھلا کرے تو کیا تُو مقبول نہ ہوگا؟“ اگر قائن نیک کام کرتا تو خدا اُس کے ہدیے کو قبول کرتا۔ لیکن قائن نے خدا کی نہ سنی اور اپنے بھائی کو قتل کر دیا۔ اِس پر اُسے اپنے خاندان سے جُدا ہو کر زندگی کاٹنی پڑی۔ (پیدایش ۴:۷-۱۲) اس طرح خدا نے انسانی تاریخ کے شروع میں ہی واضح کر دیا تھا کہ اُس کے نزدیک آنے کے لئے لوگوں کو ایمان لانے اور اچھے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
۴. خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہمیں کس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا؟
۴ خدا کی قربت حاصل کرنے کے لئے ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم گنہگار ہیں۔ تمام انسانوں نے گُناہ ورثے میں پایا ہے۔ دراصل گُناہ خدا کے قریب جانے میں رُکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ بنیاسرائیل کے بارے میں یرمیاہ نبی نے یوں لکھا: ”ہم نے خطا اور بغاوت کی ہے۔ . . . تُو نے اپنے آپ کو بادل سے ڈھانپا ہے تاکہ ہماری دُعا تجھ تک نہ پہنچ سکے۔“ (نوحہ ۳:۴۲، ۴۴، کیتھولک ترجمہ) حالانکہ تمام انسان گنہگار ہیں پھر بھی انسانی تاریخ کے دوران خدا ایسے خلوصدل لوگوں کی دُعاؤں کو قبول کرنے پر راضی رہا ہے جو اُس پر ایمان لائے اور اُس کے احکام پر عمل کرتے رہے۔ (زبور ۱۱۹:۱۴۵) اِن میں سے چند کی دُعاؤں سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۵، ۶. ہم ابرہام کی دُعاؤں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۵ ابرہام ایک خلوصدل شخص تھا۔ خدا نے اُسے ”دوست“ کہا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُسے خدا کی قربت حاصل تھی۔ (یسعیاہ ۴۱:۸) ہم ابرہام کی دُعاؤں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ ابرہام نے خدا سے یہ کہہ کر اولاد کی فریاد کی: ”اَے [یہوواہ] خدا تُو مجھے کیا دے گا؟ کیونکہ مَیں تو بےاولاد جاتا ہوں؟“ (پیدایش ۱۵:۲، ۳؛ ۱۷:۱۸) جب خدا سدوم اور عمورہ کے بُرے باشندوں پر عذاب لانے والا تھا تو ابرہام کو یہ فکر تھی کہ کہیں خدا اچھے لوگوں کو بھی ختم نہ کر دے اور اُس نے اس سلسلے میں خدا سے دُعا کی۔ (پیدایش ۱۸:۲۳-۳۳) ابرہام دوسرے لوگوں کے لئے بھی دُعا کرتا تھا۔ (پیدایش ۲۰:۷، ۱۷) اور ہابل کی طرح ابرہام بھی دُعا کرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا کے نام قربانیاں چڑھاتا تھا۔—پیدایش ۲۲:۹-۱۴۔
۶ ان تمام موقعوں پر ابرہام نے بڑی بےتکلفی سے خدا سے دُعا کی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اُس نے عاجزی بھی ظاہر کی۔ ذرا غور کریں کہ پیدایش ۱۸:۲۷ میں ابرہام کتنے احترام سے خدا سے مخاطب ہوتا ہے۔ اُس نے کہا: ”دیکھئے! مَیں نے [یہوواہ] سے بات کرنے کی جُرأت کی اگرچہ مَیں خاک اور راکھ ہوں۔“ واقعی ابرہام نے ہمارے لئے بہت اچھی مثال قائم کی۔
۷. خدا کے خادموں نے کن باتوں کے بارے میں دُعا کی؟
۷ ماضی میں خدا کے خادموں نے بہت سی مختلف باتوں کے بارے میں دُعا کی اور خدا نے اُن کی دُعاؤں کو قبول بھی کِیا۔ مثال کے طور پر یعقوب نے خدا سے مدد کی فریاد کی اور پھر یہ منت مانی کہ ”جو کچھ تُو مجھے دے اُس کا دسواں حصہ ضرور ہی تجھے دیا کروں گا۔“ (پیدایش ۲۸:۲۰-۲۲) جب اُس کا بھائی اُس سے ملاقات کرنے کے لئے آ رہا تھا تو یعقوب نے خدا سے یوں التجا کی: ”مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ مجھے میرے بھائی عیسوؔ کے ہاتھ سے بچا لے کیونکہ مَیں اُس سے ڈرتا ہوں۔“ (پیدایش ۳۲:۹-۱۲) اب ایوب کی مثال لیجئے جس نے اپنے خاندان کی خاطر یہوواہ خدا سے دُعا کی اور قربانیاں بھی چڑھائیں۔ جب ایوب کے تین ساتھیوں نے خدا کے بارے میں غلطبیانی کی تو ایوب نے اُن کے لئے دُعا کی اور ”[یہوواہ] نے اؔیوب کو قبول کِیا۔“ (ایوب ۱:۵؛ ۴۲:۷-۹) ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم کن باتوں کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی جان لیتے ہیں کہ یہوواہ صحیح انداز میں دُعا کرنے والوں کی سنتا ہے۔
شریعت میں دُعا کی شرطیں
۸. شریعت کے مطابق لوگ خدا تک رسائی کیسے حاصل کر سکتے تھے؟
۸ بنیاسرائیل کو مصر سے رِہائی دلانے کے بعد یہوواہ خدا نے اُن کو شریعت دی۔ شریعت کے مطابق لاوی کے قبیلے میں سے بعض کو کاہنوں کے طور پر مقرر کِیا گیا۔ لوگ ان کاہنوں کے ذریعے خدا تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ اس کے علاوہ کبھیکبھار بادشاہ یا پھر ایک نبی پوری قوم کے لئے خدا سے دُعا کرتا تھا۔ (۱-سموئیل ۸:۲۱، ۲۲؛ ۱۴:۳۶-۴۱؛ یرمیاہ ۴۲:۱-۳) مثال کے طور پر جب ہیکل کو خدا کی عبادت کے لئے مخصوص کِیا گیا تو بادشاہ سلیمان نے یہوواہ خدا سے دلی دُعا مانگی۔ دُعا ختم ہوتے ہی یہوواہ کا جلال اُس گھر پر چھا گیا اور یہوواہ نے کہا: ”اب سے جو دُعا اس جگہ کی جائے گی اُس پر میری آنکھیں کُھلی اور میرے کان لگے رہیں گے۔“—۲-تواریخ ۶:۱۲–۷:۳؛ ۷:۱۵۔
۹. اگر کاہن چاہتے کہ یہوواہ اُن کی خدمت کو قبول کرے تو اُنہیں کیا کرنا تھا؟
۹ شریعت کے مطابق یہوواہ خدا کاہنوں کی دُعاؤں کو اس شرط پر قبول کرنے کو تیار تھا کہ وہ مقدِس میں ہر صبح اور ہر شام جانوروں کی قربانیاں لانے کے ساتھ ساتھ خوشبودار بخور بھی جلایا کریں۔ شروع میں یہ کام سردار کاہن کے ذمے پڑتا تھا لیکن بعد میں دوسرے کاہن بھی یہ کام کرنے لگے۔ بخور جلانے سے کاہن یہوواہ خدا کے لئے احترام ظاہر کرتے۔ اگر کاہن یہ رسم ادا نہ کرتے تو یہوواہ خدا اُن کی خدمت سے خوش نہ ہوتا۔—خروج ۳۰:۷، ۸؛ ۲-تواریخ ۱۳:۱۱۔
۱۰، ۱۱. ہم کیسے جانتے ہیں کہ اسرائیلی یہوواہ خدا سے براہِراست دُعا کر سکتے تھے؟
۱۰ کیا اسرائیلیوں کو صرف اپنے بادشاہ ،کاہنوں یا نبیوں کے ذریعے خدا تک رسائی حاصل تھی؟ جینہیں۔ اسرائیلی خود بھی یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے تھے۔ جب سلیمان بادشاہ نے ہیکل کو مخصوص کِیا تو اُس نے خدا سے یہ درخواست کی کہ ”جو دُعا اور مناجات کسی ایک شخص یا تیری ساری قوم اؔسرائیل کی طرف سے ہو . . . تُو آسمان پر سے جو تیری سکونتگاہ ہے سُن۔“ (۲-تواریخ ۶:۲۹، ۳۰) جب یوحنا بپتسمہ دینے والے کا باپ زکریاہ مقدِس میں خوشبودار بخور جلا رہا تھا تو لوگوں کی ساری جماعت بھی ”باہر دُعا کر رہی تھی۔“ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں لوگ مقدِس کے باہر اُس وقت دُعا کرنے کو آتے جب بخور جلایا جاتا تھا۔—لوقا ۱:۸-۱۰۔
۱۱ لہٰذا یہوواہ خدا اُن لوگوں کی دُعاؤں کو قبول کرتا تھا جو اُس کی شرطوں کے مطابق اُس تک رسائی کرتے۔ وہ ایسی دُعائیں سنتا جو ایک شخص ساری قوم کے نام میں پیش کرتا اور وہ ہر ایک شخص کی ذاتی درخواستوں پر بھی کان لگاتا۔ ہم آج شریعت کے پابند نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہم بنیاسرائیل کے دُعا کرنے کے انداز سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
مسیحیوں کی دُعائیں
۱۲. مسیحی کس بندوبست کے ذریعے یہوواہ خدا سے دُعا کر سکتے ہیں؟
۱۲ آج زمین پر کوئی ایسی ہیکل نہیں رہی جہاں کاہن خدا کے بندوں کے لئے دُعا کر سکیں یا پھر جس کا رُخ کرکے ہم خدا سے دُعا کر سکیں۔ لیکن یہوواہ خدا نے ۲۹ عیسوی میں ایک نیا بندوبست قائم کِیا جس کے ذریعے مسیحی اُس سے دُعا کر سکتے ہیں۔ اُس وقت یسوع کو سردار کاہن کے طور پر مسح کِیا گیا اور یوں ایک روحانی ہیکل وجود میں آئی۔a روحانی ہیکل وہ بندوبست ہے جس کے تحت لوگ یسوع مسیح کی قربانی کے ذریعے خدا سے دُعا کر سکتے ہیں۔—عبرانیوں ۹:۱۱، ۱۲۔
۱۳. دُعا کے سلسلے میں یروشلیم کی ہیکل اور روحانی ہیکل میں کونسی مشابہت پائی جاتی ہے؟
۱۳ یروشلیم کی ہیکل اور روحانی ہیکل میں بہت سی مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ (عبرانیوں ۹:۱-۱۰) اِن میں سے کئی دُعا سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی ایک مثال لیجئے۔ وہ خوشبودار بخور جسے صبح شام ہیکل کے پاک مکان میں جلایا جاتا تھا کس بات کی نشاندہی کرتا تھا؟ مکاشفہ کی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ”عود“ یعنی بخور ’مُقدسوں کی دُعاؤں‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔ (مکاشفہ ۵:۸؛ ۸:۳، ۴) داؤد نے خدا کے الہام سے لکھا کہ ”میری دُعا تیرے حضور بخور کی مانند ہو۔“ (زبور ۱۴۱:۲) اس سے ہم جان جاتے ہیں کہ روحانی ہیکل کے بندوبست میں جب مسیحی دُعا کرتے اور یہوواہ کی ستائش کرتے ہیں تو یہ اُس بخور کی مانند ہے جو یروشلیم کی ہیکل میں جلایا جاتا تھا۔—۱-تھسلنیکیوں ۳:۱۰۔
۱۴، ۱۵. (ا) دُعا کرنے کے سلسلے میں ہم ممسوح مسیحیوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ (ب) دُعا کرنے کے سلسلے میں ہم ’دوسری بھیڑوں‘ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
۱۴ روحانی ہیکل میں کن لوگوں کو خدا کی عبادت کرنے کا شرف حاصل ہے؟ یروشلیم کی ہیکل کے اندرونی صحن میں لاوی اور کاہن دونوں کو خدمت کرنے کا شرف حاصل تھا۔ البتہ پاک مکان میں صرف کاہن داخل ہو سکتے تھے۔ روحانی ہیکل کا اندرونی صحن اور پاک مکان اس قریبی رشتے کی نشاندہی کرتے ہیں جو یہوواہ خدا اور ممسوح مسیحیوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ یہ مسیحی اس خاص رشتے کی بِنا پر دُعائیں ادا کرتے ہیں۔
۱۵ کیا یہوواہ خدا زمینی اُمید رکھنے والی ’دوسری بھیڑوں‘ کی دُعاؤں کو بھی سنتا ہے؟ (یوحنا ۱۰:۱۶) یسعیاہ نبی نے نبوت کی کہ ”آخری دنوں میں“ بہت سی اُمتوں میں سے لوگ یہوواہ خدا کی عبادت کرنے آئیں گے۔ (یسعیاہ ۲:۲، ۳) یسعیاہ نے یہ بھی کہا کہ ”بیگانہ کی اولاد“ یعنی پردیسی یہوواہ کی عبادت کریں گے۔ یہوواہ اُن کی عبادت کو قبول کرے گا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ”مَیں . . . اپنی عبادتگاہ میں اُن کو شادمان کروں گا۔“ (یسعیاہ ۵۶:۶، ۷) مکاشفہ ۷:۹-۱۵ میں ہم ”ہر ایک قوم“ میں سے ایک ایسی ”بڑی بِھیڑ“ کے بارے میں پڑھتے ہیں جو روحانی ہیکل کے بیرونی صحن میں کھڑے ”رات دن“ یہوواہ خدا کی عبادت کرتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ کے تمام خادم چاہے وہ آسمان پر یا پھر زمین پر زندہ رہنے کی اُمید رکھتے ہوں اُس سے دُعا کر سکتے ہیں اور وہ اُن کی سنتا ہے۔ یہ جاننا ہمارے لئے کتنا ہی تسلیبخش ہے۔
خدا کیسی دُعاؤں کو قبول کرتا ہے؟
۱۶. ہم ابتدائی مسیحیوں سے دُعا کے سلسلے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۶ ابتدائی مسیحیوں کی زندگی میں دُعا ایک بہت اہم کردار ادا کرتی تھی۔ وہ کن باتوں کے بارے میں دُعا کرتے تھے؟ جب کلیسیا کے بزرگ ایسے آدمیوں کو مقرر کرنا چاہتے تھے جنہیں ذمہداریاں سونپی جانی تھیں تو وہ خدا سے راہنمائی کی درخواست کرتے۔ (اعمال ۱:۲۴، ۲۵؛ ۶:۵، ۶) اِپفراس نے اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے لئے دُعا کی۔ (کلسیوں ۴:۱۲) جب پطرس رسول کو قید کِیا گیا تو کلیسیا کے افراد نے اُس کے لئے دُعا کی۔ (اعمال ۱۲:۵) اذیت کا سامنا کرتے وقت مسیحی خدا سے یوں دُعا کرتے: ”اَے [یہوواہ]! اُن کی دھمکیوں کو دیکھ اور اپنے بندوں کو یہ توفیق دے کہ وہ تیرا کلام کمال دلیری کے ساتھ سنائیں۔“ (اعمال ۴:۲۳-۳۰) یعقوب نے مسیحیوں کو ہدایت دی کہ آزمائش کا سامنا کرتے وقت اُنہیں خدا سے حکمت کی درخواست کرنی چاہئے۔ (یعقوب ۱:۵) کیا آپ بھی یہوواہ خدا سے ایسی باتوں کے بارے میں دُعا کرتے ہیں؟
۱۷. یہوواہ خدا کن لوگوں کی دُعا قبول کرتا ہے؟
۱۷ یاد رکھیں کہ خدا تمام دُعاؤں کو قبول نہیں کرتا۔ تو پھر وہ کن لوگوں کی سنتا ہے؟ قدیم زمانے میں خدا ایسے لوگوں کی دُعاؤں کو قبول کرتا تھا جو خلوصدلی سے اور پاک نیت سے دُعا کرتے تھے۔ یہ لوگ خدا میں ایمان رکھتے اور اس ایمان کو اچھے کام کرنے سے ظاہر کرتے تھے۔ ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے پھر یہوواہ خدا ہماری ضرور سنے گا۔
۱۸. مسیحیوں کی دُعاؤں کو قبول کرنے کے سلسلے میں خدا نے کونسی شرط رکھی ہے؟
۱۸ دُعاؤں کو قبول کرنے کے سلسلے میں خدا نے ایک اَور شرط بھی رکھی ہے۔ پولس رسول نے اس کی یوں وضاحت کی: ”اُسی کے وسیلہ سے . . . ایک ہی روح میں باپ کے پاس [ہماری] رسائی ہوتی ہے۔“ جب پولس نے کہا کہ ”اُسی کے وسیلہ سے“ ہماری دُعائیں قبول ہوتی ہیں تو وہ یسوع مسیح کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ (افسیوں ۲:۱۳، ۱۸) جیہاں، ہم صرف یسوع کے وسیلے سے یہوواہ خدا تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔—یوحنا ۱۴:۶؛ ۱۵:۱۶؛ ۱۶:۲۳، ۲۴۔
۱۹. (ا) یہوواہ کو کس صورتحال میں اُس بخور سے نفرت ہوتی جو اُس کے لئے جلائی جاتی؟ (ب) ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہماری دُعائیں خدا کے نزدیک خوشبودار بخور کی طرح ہوں؟
۱۹ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے جب اسرائیل کے کاہن بخور جلاتے تھے تو اِس سے خدا کے خادموں کی مناسب دُعاؤں کی نشاندہی ہوتی تھی۔ لیکن کبھیکبھار خدا کو اُس بخور سے نفرت ہوتی جو اُس کے لئے جلائی جاتی تھی۔ یہ اُس وقت ہوتا جب اسرائیلی مقدِس میں یہوواہ کیلئے بخور جلانے کے ساتھ ساتھ بُتوں کی پوجا بھی کرتے۔ (حزقیایل ۸:۱۰، ۱۱) اسی طرح یہوواہ خدا کو آج بھی ایسے لوگوں کی دُعاؤں سے نفرت ہے جو اُسکی خدمت کرنے کے ساتھ ساتھ اُسکے احکام کی خلافورزی کرتے ہیں۔ (امثال ۱۵:۸) ہمیں اپنے چالچلن میں ہر لحاظ سے پاک صاف ہونے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہماری دُعائیں خدا کے نزدیک خوشبودار بخور کی طرح ہوں۔ یہوواہ ایسے لوگوں کی دُعاؤں سے خوش ہوتا ہے جو اُسکے احکام پر چلتے ہیں۔ (یوحنا ۹:۳۱) لیکن ہمیں کس انداز اور وضع میں دُعا کرنی چاہئے؟ ہم کن موضوعات کے بارے میں دُعا کر سکتے ہیں؟ اور خدا ہماری دُعاؤں کا جواب کیسے دیتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب اگلے مضمون میں دئے جائینگے۔
[فٹنوٹ]
a مینارِنگہبانی مئی ۱۵، ۲۰۰۱، صفحہ ۲۷ کو دیکھیں۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• گنہگار انسانوں کو کیسے دُعا کرنی چاہئے تاکہ خدا اُن کی سُن لے؟
• دُعا کرنے کے سلسلے میں ہم ابرہام، یعقوب اور ایوب سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• ہم ابتدائی مسیحیوں کی دُعاؤں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
• ہمیں کیا کرنا چاہئے تاکہ ہماری دُعائیں خدا کے نزدیک خوشبودار بخور کی طرح ہوں؟
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
خدا نے ہابل کے ہدیے کو کیوں قبول کِیا جبکہ اُس نے قائن کے ہدیے کو قبول نہ کِیا؟
[صفحہ ۲۴ پر تصویر]
”مَیں خاک اور راکھ ہوں“
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
’مَیں دسواں حصہ ضرور ہی تجھے دیا کروں گا‘
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
کیا آپ کی دُعائیں یہوواہ خدا کے نزدیک خوشبودار بخور کی طرح ہیں؟