نوعِانسان کی معجزانہ شفایابی قریب ہے
”ہم نے ایسا کبھی نہیں دیکھا۔“ یہ تھے وہ الفاظ جو یسوع کے ذریعے ایک مفلوج آدمی کی معجزانہ، فوری شفا کے چشمدید گواہوں نے کہے تھے۔ (مرقس ۲:۱۲) یسوع نے اندھوں، گونگوں اور لنگڑوں کو بھی شفا دی اور اُسکے پیروکاروں نے بھی ایسا ہی کِیا۔ لیکن یسوع کس طاقت سے یہ سب کچھ کرتا تھا؟ ایمان نے اس میں کیا کردار ادا کِیا؟ پہلی صدی کے یہ تجربات آجکل کی معجزانہ شفا پر کیا روشنی ڈالتے ہیں؟—متی ۱۵:۳۰، ۳۱۔
”تیرے ایمان نے تجھے اچھا کِیا ہے“
آجکل کے ایمانی شفا دینے والے یسوع کی اس بات کا حوالہ دینا پسند کرتے ہیں جو اُس نے اُس عورت سے کہی جسکے ۱۲ برس سے خون جاری تھا اور جو شفا پانے کیلئے اُس کے پاس آئی تھی: ”تیرے ایمان نے تجھے اچھا کِیا ہے۔“ (لوقا ۸:۴۳-۴۸) کیا یسوع کا بیان یہ اشارہ دیتا ہے کہ اُس عورت کی شفا کا دارومدار اُسکے ایمان پر تھا؟ کیا یہ ”ایمانی شفا“ کی ایک مثال تھی جیسےکہ آجکل عمل میں لائی جاتی ہے؟
جب ہم بائبل ریکارڈ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بیشتر مواقع پر یسوع اور اُسکے شاگردوں نے یہ تقاضا نہیں کِیا تھا کہ بیمار لوگ شفا پانے سے پہلے اپنے ایمان کا اظہار کریں۔ جس عورت کا اُوپر حوالہ دیا گیا آئی اور یسوع سے کچھ کہے بغیر چھپ کر پیچھے سے اُسکی پوشاک کو چھو لیا اور ”اُسی دم اُسکا خون بہنا بند ہو گیا۔“ ایک دوسرے موقع پر، یسوع نے ایک ایسے آدمی کو شفا دی جو اُن آدمیوں میں شامل تھا جو اُسے گرفتار کرنے کیلئے آئے تھے۔ اُس نے تو ایسے آدمی کو بھی شفا دی جو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ یسوع کون ہے؟—لوقا ۲۲:۵۰، ۵۱؛ یوحنا ۵:۵-۹، ۱۳؛ ۹:۲۴-۳۴۔
تاہم، ایمان نے کیا کردار ادا کِیا تھا؟ جب یسوع اور اُسکے شاگرد صور اور صیدا کے علاقے میں تھے تو ایک کنعانی عورت آئی اور پکار کر کہنے لگی: ”اَے خداوند ابنِداؔؤد مجھ پر رحم کر۔ ایک بدروح میری بیٹی کو بہت ستاتی ہے۔“ اُسکی مایوسی کا تصور کیجئے جب اُس نے التجا کی: ”اَے خداوند میری مدد کر۔“ یسوع نے ترس کھا کر جواب دیا: ”اَے عورت تیرا ایمان بہت بڑا ہے۔ جیسا تُو چاہتی ہے تیرے لئے ویسا ہی ہو۔“ اور اُسکی بیٹی نے ”اُسی گھڑی“ شفا پائی۔ (متی ۱۵:۲۱-۲۸) واضح طور پر، ایمان کی ضرورت تھی مگر کس کے ایمان کی؟ غور کریں کہ یہ ماں کا ایمان تھا جسکی یسوع نے تعریف کی تھی اُس بیمار بچی کا نہیں۔ اور کس چیز پر ایمان؟ یسوع کو ”خداوند ابنِداؔؤد“ کہہ کر مخاطب کرنے سے وہ عورت اعلانیہ اس بات کو تسلیم کر رہی تھی کہ یسوع موعودہ مسیحا تھا۔ یہ خدا پر ایمان یا شفا دینے والے کی طاقت پر ایمان کا کوئی عام اظہار نہیں تھا۔ جب یسوع نے یہ کہا کہ ”تیرے ایمان نے تجھے اچھا کِیا ہے“ تو اُسکا مطلب تھا کہ بطور مسیحا اُس پر ایمان لائے بغیر مصیبتزدہ لوگوں کا شفا پانے کیلئے اُسکے پاس آنا ممکن نہیں تھا۔
ان صحیفائی مثالوں سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یسوع جو شفا دیتا تھا وہ اس شفا سے بہت مختلف تھی جو آجکل دیکھنے میں آتی ہے یا جسکا دعویٰ کِیا جاتا ہے۔ بِھیڑ کی طرف سے نہایت جذباتی مظاہرہ—چیخوپکار، گیت، گریۂوزاری، بےہوش ہونا اور وغیرہوغیرہ—نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی یسوع پر کوئی ڈرامائی وجد طاری ہوتا تھا۔ اسکے علاوہ، یسوع کبھی بھی معذوروں کو شفا دینے میں ناکام نہیں ہوا تھا اور یہ بہانہ نہیں کِیا تھا کہ اُن میں ایمان کی کمی ہے یا یہ کہ اُنکے ہدیے کافی نہیں ہیں۔
خدا کی طاقت سے شفائیں
یسوع اور اُسکے شاگرد کیسے شفائیں دیتے تھے؟ بائبل جواب دیتی ہے ”خداوند کی قدرت شفا بخشنے کو اُسکے ساتھ تھی۔“ (لوقا ۵:۱۷) ایک شفا کے بعد، لوقا ۹:۴۳ بیان کرتی ہے کہ ”سب لوگ خدا کی شان [”پُرجلال طاقت،“ اینڈبلیو] کو دیکھ کر حیران ہوئے۔“ موزوں طور پر، یسوع نے شفا دینے والے کے طور پر اپنی طرف توجہ مبذول نہیں کرائی۔ ایک موقع پر اُس نے ایک آدمی سے جسے اُس نے کسی بدروح کے قبضے سے چھڑایا تھا کہا: ”اپنے لوگوں کے پاس اپنے گھر جا اور اُنکو خبر دے کہ خداوند [”یہوؔواہ،“ اینڈبلیو] نے تیرے لئے کیسے بڑے کام کئے اور تجھ پر رحم کِیا۔“—مرقس ۵:۱۹۔
چونکہ یسوع اور رسولوں نے خدا کی قدرت سے شفائیں بخشیں اسلئے یہ سمجھنا آسان ہے کہ کیوں شفائیہ عمل کیلئے شفا پانے والے کی طرف سے ہمیشہ ایمان کی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم، شفا دینے والے کا پُختہ ایمان ہونا لازمی تھا۔ لہٰذا، جب یسوع کے پیروکار غیرمعمولی طور پر طاقتور بدروح کو نکالنے میں ناکام ہو گئے تو یسوع نے اُنہیں اسکی وجہ بتائی: ”ایمان کی کمی کے سبب سے۔“—متی ۱۷:۲۰۔
معجزانہ شفا کا مقصد
اگرچہ یسوع نے اپنی زمینی خدمتگزاری کے دوران بہت سے شفائیہ کام کئے تَوبھی وہ بنیادی طور پر ’شفائیہ خدمتگزاری‘ میں ہی مشغول نہیں تھا۔ اُسکی معجزانہ شفا—جس کیلئے اُس نے لوگوں سے کبھی کوئی پیسہ وصول نہ کِیا یا چندے دینے پر اصرار نہ کِیا—اُسکی اوّلین فکر یعنی ”بادشاہی کی خوشخبری کی منادی“ کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔ (متی ۹:۳۵) ریکارڈ بیان کرتا ہے کہ ایک موقع پر ”وہ خوشی کے ساتھ اُن سے ملا اور اُن سے خدا کی بادشاہی کی باتیں کرنے لگا اور جو شفا پانے کے محتاج تھے اُنہیں شفا بخشی۔“ (لوقا ۹:۱۱) انجیلی بیانات میں، یسوع کو اکثروبیشتر ”اُستاد“ کہہ کر مخاطب کِیا گیا تھا مگر ”شفا دینے والا“ کبھی بھی نہیں کہا گیا۔
تاہم، یسوع نے معجزانہ شفائیں کیوں دیں؟ بنیادی طور پر یہ بطور موعودہ مسیحا اپنی شناخت کرانے کیلئے تھا۔ جب یوحنا بپتسمہ دینے والے کو غیرمنصفانہ طور پر قید میں ڈال دیا گیا تو وہ اس بات کی تصدیق چاہتا تھا کہ اُس نے وہ کام پورا کر دیا ہے جس کیلئے خدا نے اُسے بھیجا تھا۔ اُس نے اپنے شاگردوں کو یسوع کے پاس بھیجا اور پوچھا: ”آنے والا تُو ہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ دیکھیں؟“ غور فرمائیں کہ یسوع نے یوحنا کے شاگردوں کو کیا جواب دیا: ”جوکچھ تم دیکھتے اور سنتے ہو جا کر یوؔحنا سے بیان کر دو۔ کہ اندھے دیکھتے اور لنگڑے چلتےپھرتے ہیں۔ کوڑھی پاکصاف کئے جاتے اور بہرے سنتے ہیں اور مُردے زندہ کئے جاتے ہیں اور غریبوں کو خوشخبری سنائی جاتی ہے۔“—متی ۱۱:۲-۵۔
جیہاں، اس حقیقت نے کہ یسوع نے محض شفائیہ کام ہی نہیں کئے بلکہ اناجیل میں ریکارڈشُدہ دیگر معجزانہ کاموں نے اُسکی یقینی شناخت کرا دی کہ وہی ”آنے والا،“ موعودہ مسیحا ہے۔ کسی کو بھی ”دوسرے کی راہ“ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔
آجکل معجزانہ شفائیں؟
لہٰذا، کیا ہمیں خدا سے یہ توقع کرنی چاہئے کہ وہ آجکل شفاؤں کے ذریعے اپنی قدرت کا ثبوت دے؟ ہرگز نہیں۔ یسوع نے خدا کی قدرت سے جو معجزانہ کام انجام دئے اُن سے اُس نے بِلاشکوشُبہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہی مسیحا تھا جو خدا کے وعدہ کے مطابق آنے والا تھا۔ یسوع کے زورآور کام بائبل میں درج ہیں تاکہ سب لوگ اُنہیں پڑھ سکیں۔ خدا کو لوگوں کی ہر پُشت کے سامنے یہی کام کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دلچسپی کی بات ہے کہ شفائیں اور دیگر معجزانہ کام محض ایک خاص حد تک قائل کرنے والے تھے۔ یسوع کے معجزات کے بعض عینیشاہد بھی یہ ایمان نہیں لائے تھے کہ اُسے آسمانی باپ کی حمایت حاصل ہے۔ ”اگرچہ اُس نے اُنکے سامنے اِتنے معجزے دکھائے تَوبھی وہ اُس پر ایمان نہ لائے۔“ (یوحنا ۱۲:۳۷) اسی وجہ سے، مختلف معجزانہ نعمتوں—نبوّت کرنا، زبانیں بولنا، شفا دینا، وغیرہوغیرہ—کا ذکر کرنے کے بعد جو خدا نے پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا کے مختلف ارکان کو بخشی تھیں، پولس رسول کو یہ کہنے کا الہام بخشا گیا تھا: ”نبوّتیں ہوں تو موقوف ہو جائینگی۔ زبانیں ہوں تو جاتی رہینگی۔ علم ہو تو مِٹ جائیگا۔ کیونکہ ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوّت ناتمام۔ لیکن جب کامل آئیگا تو ناقص جاتا رہیگا۔“—۱-کرنتھیوں ۱۲:۲۸-۳۱؛ ۱۳:۸-۱۰۔
بِلاشُبہ، خدا پر ایمان رکھنا ہماری فلاح کیلئے نہایت اہم ہے۔ تاہم، شفاؤں کے جھوٹے وعدوں پر کسی کے ایمان کی بنیاد مایوسی کا باعث بنے گی۔ مزیدبرآں، آخری زمانے کے سلسلے میں یسوع نے یہ آگاہی دی: ”جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہونگے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائینگے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔“ (متی ۲۴:۲۴) جھوٹے دعوؤں اور فریبوں کے علاوہ، شیاطینی طاقت کے اظہارات بھی منظرِعام پر آئینگے۔ نتیجتاً، ہمیں ناقابلِوضاحت واقعات سے حیران نہیں ہونا چاہئے اور یقیناً یہ خدا پر خالص ایمان کی بنیاد بھی نہیں ہیں۔
چونکہ آجکل کوئی بھی شخص یسوع جیسے شفائیہ کام نہیں کرتا تو کیا ہم کسی خسارے میں ہیں؟ ہرگز نہیں۔ دراصل، جن لوگوں کو یسوع نے شفا دی وہ بالآخر پھر سے بیمار ہو سکتے تھے۔ وہ سب بوڑھے ہو گئے اور مر گئے۔ اُنہیں جو شفائیہ فوائد حاصل ہوئے وہ نسبتاً تھوڑی مدت کے تھے۔ تاہم، یسوع کی معجزانہ شفائیں دائمی مفہوم رکھتی ہے کیونکہ انہوں نے مستقبل کی برکات کا عکس پیش کِیا تھا۔
لہٰذا، خدا کے کلام، بائبل کا جائزہ لینے کے بعد الیگزینڈر اور بینےڈیتا، جنکا پہلے ذکر کِیا گیا ہے، اب جدید ایمانی شفا اور ارواحی شفاؤں پر ایمان نہیں رکھتے۔ تاہم، وہ پُختہ یقین رکھتے ہیں کہ معجزانہ شفائیں محض ماضی کی بات نہیں ہیں۔ ایسا کیوں؟ پوری دُنیا میں لاکھوں لوگوں کی طرح، وہ خدا کی بادشاہت کے تحت شفائیہ برکات کے منتظر ہیں۔—متی ۶:۱۰۔
پھر کوئی بیماری اور موت نہیں
جیسےکہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، یسوع کی خدمتگزاری کا بنیادی مقصد بیماروں کو شفا دینا اور دیگر معجزات دکھانا نہیں تھا۔ بلکہ، اُس نے خدا کی بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کو اپنا خاص کام بنا لیا تھا۔ (متی ۹:۳۵؛ لوقا ۴:۴۳؛ ۸:۱) یہ بادشاہت ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے خدا نوعِانسان کی معجزانہ شفایابی کو انجام دیگا اور اُس تمام نقصان کی تلافی کریگا جو گناہ اور موت نے انسانی خاندان کو پہنچایا ہے۔ وہ یہ کب اور کیسے کریگا؟
صدیوں بعد کے زمانے کی بابت بتاتے ہوئے، مسیح یسوع نے اپنے رسول یوحنا کو نبوّتی رویا عطا کی: ”اب ہمارے خدا کی نجات اور قدرت اور بادشاہی اور اُسکے مسیح کا اختیار ظاہر ہوا۔“ (مکاشفہ ۱۲:۱۰) تمامتر شہادت ظاہر کرتی ہے کہ ۱۹۱۴ سے لیکر خدا کا بڑا دشمن، شیطان، زمین پر پھینک دیا گیا ہے اور اب بادشاہت ایک حقیقت کے طور پر کام کر رہی ہے! یسوع کو مسیحائی بادشاہت کے بادشاہ کے طور پر مسندنشین کر دیا گیا ہے اور اب وہ زمین پر بڑی تبدیلیاں لانے ہی والا ہے۔
مستقبل قریب میں، یسوع کی آسمانی حکومت ایک نئے راستباز معاشرے یعنی ”نئی زمین“ پر حکمرانی کریگی۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) اُس وقت حالتیں کیسی ہونگی؟ اسکا شاندار پیشگی نظارہ: ”مَیں نے نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی . . . اور [خدا] اُنکی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دیگا۔ اسکے بعد نہ موت رہیگی اور نہ ماتم رہیگا۔ نہ آہونالہ نہ درد۔ پہلی چیزیں جاتی رہیں۔“—مکاشفہ ۲۱:۱، ۴۔
کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جب نوعِانسان کی معجزانہ شفایابی حقیقت بن جاتی ہے تو زندگی کیسی ہوگی؟ ”وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں اور اُنکے گناہ بخشے جائینگے۔“ جیہاں، خدا وہ کام کر دکھائے گا جو ایمانی شفا دینے والے کبھی نہیں کر سکتے۔ ”وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کریگا۔“ بیشک، ”خداوند خدا سب کے چہروں سے آنسو پونچھ ڈالیگا۔“—یسعیاہ ۲۵:۸؛ ۳۳:۲۴۔
[صفحہ 7 پر تصویر]
خدا کی بادشاہت کے تحت نوعِانسان معجزانہ شفائیں پائینگے