”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
2-8 جولائی
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 6، 7
”فراخدلی سے دیں“
(لُوقا 6:37) دوسروں میں نقص نکالنا چھوڑ دیں پھر آپ میں بھی کبھی نقص نہیں نکالا جائے گا اور دوسروں کو بُرا کہنا چھوڑ دیں پھر آپ کو بھی کبھی بُرا نہیں کہا جائے گا۔ دوسروں کو معاف کرتے رہیں پھر آپ کو بھی معاف کِیا جائے گا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 6:37 پر اِضافی معلومات
دوسروں کو معاف کرتے رہیں پھر آپ کو بھی معاف کِیا جائے گا: یا ”دوسروں کو رِہا کرتے رہیں پھر آپ کو بھی رِہا کِیا جائے گا۔“ جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”معاف کرنا“ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ہے: ”آزاد کرنا؛ دُور بھیجنا؛ رِہا کرنا (جیسے کہ ایک قیدی کو)۔“ اِس سیاقوسباق میں یہ اِصطلاح دوسروں میں نقص نکالنے اور اُنہیں بُرا کہنے کے ساتھ اِستعمال ہوئی ہے اور یونانی میں یہ دونوں اِصطلاحیں کسی کو قصوروار اور سزاوار ٹھہرانے کی طرف اِشارہ کرتی ہیں۔ لہٰذا یہاں دوسروں کو اُس صورت میں بھی معاف کرنے کا خیال پیش کِیا گیا ہے جب اُنہیں سزا دینا جائز ہو۔
م08 15/5 ص. 9 پ. 13، 14
دوسروں کے ساتھ بھلائی کریں
متی کی انجیل میں یسوع مسیح کے اِس بیان کو یوں درج کِیا گیا ہے: ”عیبجوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیبجوئی نہ کی جائے۔“ (متی 7:1) لوقا کی انجیل کے مطابق، یسوع مسیح نے کہا: ”عیبجوئی نہ کرو۔ تمہاری بھی عیبجوئی نہ کی جائے گی۔ مُجرم نہ ٹھہراؤ۔ تُم بھی مُجرم نہ ٹھہرائے جاؤ گے۔ خلاصی دو۔ تُم بھی خلاصی پاؤ گے۔“ (لو 6:37) پہلی صدی میں فریسی اپنی غیرصحیفائی روایات کی بِنا پر دوسروں پر نکتہچینی کرتے تھے۔ لہٰذا، یسوع کے سامعین میں سے جو لوگ عیبجوئی یا نکتہچینی کرنے کی عادت میں مبتلا تھے اُنہیں اِسے ترک کرنا تھا۔ اُنہیں دوسروں کو ”خلاصی“ دینی تھی یعنی اُن کی غلطیوں کو معاف کرنا تھا۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، پولس رسول نے بھی معاف کرنے کے بارے میں اِسی طرح کی مشورت دی تھی۔
جب یسوع کے شاگرد لوگوں کو معاف کرتے تھے تو وہ اُنہیں یہ تحریک دیتے تھے کہ وہ بھی دوسروں کو معاف کریں۔ یسوع مسیح نے کہا تھا: ”جس طرح تُم عیبجوئی کرتے ہو اُسی طرح تمہاری بھی عیبجوئی کی جائے گی اور جس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے واسطے ناپا جائے گا۔“ (متی 7:2) پس لوگوں کے ساتھ پیش آتے وقت ہم جوکچھ بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔—گل 6:7۔
(لُوقا 6:38) دیتے رہیں پھر لوگ آپ کو بھی دیں گے۔ وہ پیمانے کو دبا دبا کر اور ہلا ہلا کر اور اچھی طرح بھر کر آپ کی جھولی میں ڈالیں گے کیونکہ جس حساب سے آپ دیتے ہیں، اُسی حساب سے وہ بھی آپ کو دیں گے۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 6:38 پر اِضافی معلومات
دیتے رہیں: یہاں یونانی فعل کی جو قسم اِستعمال ہوئی ہے، وہ ایک جاری رہنے والے عمل کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور اِس کا ترجمہ ”دینا“ بھی کِیا جا سکتا ہے۔
(لُوقا 6:38) دیتے رہیں پھر لوگ آپ کو بھی دیں گے۔ وہ پیمانے کو دبا دبا کر اور ہلا ہلا کر اور اچھی طرح بھر کر آپ کی جھولی میں ڈالیں گے کیونکہ جس حساب سے آپ دیتے ہیں، اُسی حساب سے وہ بھی آپ کو دیں گے۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 6:38 پر اِضافی معلومات
آپ کی جھولی: جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”آپ کی جھولی“ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ”آپ کا سینہ“ ہے۔ لیکن اِس سیاقوسباق میں یہ غالباً اُس جھولی کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو پُرانے زمانے میں لوگ اپنی چادر سے بناتے تھے۔ دراصل اُس زمانے میں لوگ اپنی چادر کو کمربند سے اِس طرح کستے تھے کہ چادر کے اُوپر والے حصے میں بل پڑ جاتے تھے اور جب لوگ سودا خریدنے جاتے تھے تو اِس حصے کو کھینچ کر ایک جھولی سی بنا لیتے تھے۔ اِصطلاح ”جھولی میں ڈالیں گے“ شاید کچھ ایسے دُکانداروں کے دستور کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو خریداروں کی جھولی کو اُن کی خریدی ہوئی چیزوں سے اُوپر تک بھر دیتے تھے۔
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 6:12، 13) ایک دن یسوع دُعا کرنے کے لیے پہاڑ پر گئے اور ساری رات خدا سے دُعا کرتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو بلایا اور اُن میں سے 12 کو چُنا۔ اُن 12 کو اُنہوں نے رسولوں کا خطاب بھی دیا۔
ڈبلیو07 1/8 ص. 6 پ. 1
آپ روحانی طور پر مضبوط کیسے بن سکتے ہیں؟
یسوع نے اکثر کافی دیر دیر تک دُعا کی۔ (یوحنا 17:1-26) مثال کے طور پر 12 آدمیوں کو رسولوں کے طور پر چُننے سے پہلے یسوع ”پہاڑ پر دُعا کرنے کو نکلا اور خدا سے دُعا کرنے میں ساری رات گذاری۔“ (لوقا 6:12) اگرچہ یہ لازمی نہیں کہ روحانی سوچ رکھنے والے لوگ ساری رات دُعا میں گزاریں لیکن پھر بھی وہ یسوع کی مثال پر عمل کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے اہم فیصلے کرنے سے پہلے خدا سے دُعا کرنے کے لیے کافی وقت نکالتے ہیں اور اُس کی پاک روح کی رہنمائی مانگتے ہیں تاکہ وہ ایسے فیصلے کر سکیں جو روحانی طور پر مضبوط بننے میں اُن کی مدد کریں۔
(لُوقا 7:35) مگر دانشمندی اپنے کاموں سے نیک ثابت ہوتی ہے۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 7:35 پر اِضافی معلومات
اپنے کاموں: یا ”کاموں کے نتائج۔“ جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”اپنے کاموں“ یا ”اپنے کاموں کے نتائج“ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ہے: ”اپنے بچوں۔“ لہٰذا اِس آیت میں دانشمندی کو ایک ایسے شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے بچے ہوں۔ دانشمندی کے بچے یا کام یعنی یوحنا بپتسمہ دینے والے اور یسوع مسیح کے کاموں کے نتائج سے یہ ثابت ہوا کہ اُن پر لگائے گئے اِلزامات غلط تھے۔ دراصل یہاں یسوع مسیح یہ کہہ رہے تھے کہ ”ایک شخص کے نیک کاموں اور چالچلن کو دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اُس پر لگایا گیا اِلزام جھوٹا ہے۔“
9-15 جولائی
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 8، 9
”مسیح کے پیروکار بننے کے لیے کیا ضروری ہے؟“
(لُوقا 9:57، 58) جب وہ سڑک پر چل رہے تھے تو کسی نے یسوع سے کہا: ”آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے، مَیں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا۔“ 58 یسوع نے اُس کو جواب دیا: ”لومڑیوں کے بِل ہوتے ہیں اور آسمان کے پرندوں کے گھونسلے لیکن اِنسان کے بیٹے کے پاس آرام کرنے کے لیے اپنا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔“
آئیٹی-2 ص. 494
گھونسلا
جب شریعت کے ایک عالم نے یسوع مسیح سے کہا: ”اُستاد! آپ جہاں کہیں بھی جائیں گے، مَیں آپ کے پیچھے پیچھے چلوں گا“ تو یسوع نے اُسے جواب دیا: ”لومڑیوں کے بِل ہوتے ہیں اور آسمان کے پرندوں کے گھونسلے لیکن اِنسان کے بیٹے کے پاس آرام کرنے کے لیے اپنا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔“ (متی 8:19، 20؛ لُو 9:57، 58) یسوع مسیح یہاں یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی شخص اُن کا پیروکار بننا چاہتا ہے تو اُسے ایسی آسائشیں اور سہولتیں حاصل کرنے کی خواہش ترک کرنی ہوگی جن سے لوگ عموماً لطف اُٹھاتے ہیں اور اُسے اپنا پورا بھروسا یہوواہ خدا پر رکھنا ہوگا۔ اِس اصول کو اُس دُعا میں بھی نمایاں کِیا گیا ہے جو یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو سکھائی تھی جس میں لکھا ہے کہ ”ہمیں آج کی ضرورت کے مطابق روٹی دے۔“ یہ اصول یسوع مسیح کی ایک اَور بات سے بھی نمایاں ہوتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ”لہٰذا یہ جان لیں کہ آپ میں سے جو شخص اپنے سارے مال کو خدا حافظ نہیں کہتا، وہ میرا شاگرد نہیں بن سکتا۔“—متی 6:11؛ لُو 14:33۔
(لُوقا 9:59، 60) پھر یسوع نے ایک اَور آدمی سے کہا: ”میرے پیروکار بن جائیں۔“ اُس نے جواب دیا: ”مالک! مجھے اِجازت دیں کہ مَیں پہلے جا کر اپنے باپ کو دفن کروں۔“ 60 لیکن یسوع نے اُس سے کہا: ”مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دیں مگر آپ جائیں اور ہر جگہ خدا کی بادشاہت کا اِعلان کریں۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 9:59، 60 پر اِضافی معلومات
اپنے باپ کو دفن کروں: اِن الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُس شخص کا باپ ابھی ابھی فوت ہوا تھا اور وہ جنازے کا بندوبست کرنے کے لیے یسوع مسیح سے اِجازت مانگ رہا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ وہاں کھڑا ہو کر یسوع مسیح سے بات نہ کر رہا ہوتا۔ پُرانے زمانے میں مشرقِوسطیٰ میں اگر کسی خاندان میں کوئی فوت ہو جاتا تھا تو عموماً اُس کا جنازہ اُسی دن کر دیا جاتا تھا۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ اُس آدمی کا باپ بیمار یا بوڑھا ہو لیکن ابھی فوت نہ ہوا ہو۔ اور یسوع مسیح کبھی اُس سے یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے بیمار اور ضرورتمند باپ کو چھوڑ دے۔ اِس لیے اُس کے خاندان میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو اُس کے باپ کی دیکھبھال کر سکیں۔ (مر 7:9-13) دراصل وہ آدمی یہ کہہ رہا تھا کہ ”مَیں آپ کی پیروی کروں گا لیکن تب تک نہیں جب تک میرا باپ زندہ ہے۔ اُس وقت تک اِنتظار کریں جب تک میرا باپ فوت نہیں ہو جاتا اور مَیں اُسے دفنا نہیں لیتا۔“ لیکن یسوع مسیح کی نظر میں وہ شخص خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینے کا موقع گنوا رہا تھا۔—لُو 9:60، 62۔
مُردوں کو اپنے مُردے دفن کرنے دیں: جیسا کہ لُوقا 9:59 پر دی گئی اِضافی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص یسوع مسیح سے بات کر رہا تھا، اُس کا باپ غالباً بیمار یا بوڑھا تھا لیکن ابھی فوت نہیں ہوا تھا۔ اِس لیے یسوع مسیح نے اُس سے کہا کہ ”جو لوگ روحانی طور پر مُردہ ہیں، اُنہیں اپنے مُردے دفن کرنے دیں“ یعنی اُس آدمی کو چاہیے کہ وہ اُس وقت تک اپنے بیمار باپ کی دیکھبھال کی ذمےداری اپنے رشتےداروں پر چھوڑ دے جب تک اُس کا باپ فوت نہیں ہو جاتا اور اُسے دفن کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یسوع مسیح کی پیروی کرنے سے وہ آدمی ہمیشہ کی زندگی کی راہ اِختیار کر لیتا اور اُن لوگوں میں شامل نہ ہوتا جو خدا کی نظر میں روحانی طور پر مُردہ تھے۔ یسوع مسیح نے اُسے جواب دیتے ہوئے ظاہر کِیا کہ خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا اور ہر جگہ اِس کا اِعلان کرنا روحانی طور پر زندہ رہنے کے لیے لازمی ہے۔
(لُوقا 9:61، 62) ایک اَور آدمی نے کہا: ”مالک، مَیں آپ کی پیروی کروں گا لیکن مجھے اِجازت دیں کہ مَیں پہلے اپنے گھر والوں کو خدا حافظ کہہ آؤں۔“ 62 یسوع نے اُس سے کہا: ”جو شخص ہل پر ہاتھ رکھتا ہے اور پھر پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے، وہ خدا کی بادشاہت کے لائق نہیں ہے۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں تصویریں اور ویڈیوز
ہل چلانا
موسمِگرما میں گرمی کی شدت کی وجہ سے زمین بہت سخت ہو جاتی تھی۔ اِس لیے کھیتوں میں ہل عام طور پر موسمِخزاں میں چلایا جاتا تھا جب بارشوں کی وجہ سے مٹی نرم ہو چُکی ہوتی تھی۔ (”تحقیق کے لیے گائیڈ“ میں حصہ 19 کو دیکھیں۔) کچھ ہل ایسے ہوتے تھے جن میں ایک نوکیلی لکڑی لگی ہوتی تھی جس کے سرے پر شاید دھات لگی ہوتی تھی۔ یہ لکڑی ایک اَور لمبی لکڑی (شہتیر) سے جُڑی ہوتی تھی اور اِسے ایک یا زیادہ جانور کھینچتے تھے۔ ہل چلانے کے بعد بیج بویا جاتا تھا۔ کتابِمُقدس کے عبرانی صحیفوں میں اکثر ہل چلانے کے کام کا ذکر مثالوں میں کِیا گیا ہے جس سے لوگ واقف تھے۔ (قضا 14:18؛ یسع 2:4؛ یرم 4:3؛ میک 4:3) یسوع مسیح نے اکثر اہم باتیں سکھانے کے لیے کھیتیباڑی کے کام کی مثالیں دیں۔ مثال کے طور پر اُنہوں نے پورے دل سے خدا کی خدمت کرتے رہنے کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے ہل چلانے میں شامل کام کا حوالہ دیا۔ (لُو 9:62) اگر ہل چلانے والے آدمی کا دھیان بٹ جاتا تو وہ سیدھی ریگھاریاں نہیں بنا پاتا تھا۔ اِسی طرح جب مسیح کے کسی شاگرد کا دھیان اپنی ذمےداریاں پوری کرنے سے ہٹ جاتا ہے یا وہ پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہے تو وہ خدا کی بادشاہت کے لائق نہیں رہتا۔
م12 1/4 ص. 23 پ. 11-13
پورے دل سے یہوواہ خدا کی عبادت کرتے رہیں
یسوع مسیح کی اِس تمثیل سے ہم بہت اہم سبق سیکھتے ہیں۔ اِس کے بارے میں جاننے کے لئے ذرا اُس منظر کا تصور کریں جو اِس تمثیل میں پیش کِیا گیا ہے۔ ایک کسان اپنے کھیت میں ہل چلا رہا ہے۔ لیکن وہ ہل چلاتے وقت اپنے بیویبچوں، دوستوں، لذیذ کھانوں، موسیقی، گھر کی چھاؤں اور آرام کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ وہ کچھ دیر تک ہل چلاتا رہتا ہے لیکن گھر جانے کی اُس کی خواہش اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ مڑ کر ”پیچھے دیکھتا ہے۔“ اگرچہ ابھی بہت سارا کام باقی ہے لیکن اُس کا دھیان اپنے کام سے ہٹ جاتا ہے۔ اِسی وجہ سے وہ اچھی طرح کام نہیں کر پاتا۔ بِلاشُبہ اُس کسان کا مالک اِس سے خوش نہیں ہوگا۔
آجکل بعض مسیحی اِس کسان جیسی صورتحال میں ہو سکتے ہیں۔ وہ روحانی طور پر مضبوط دِکھائی دیتے ہیں لیکن شاید اُن کا دل کہیں اَور ہے۔ فرض کریں کہ ایک مسیحی اجلاسوں پر جاتا ہے اور مُنادی کے کام میں حصہ بھی لیتا ہے۔ لیکن اُسے دُنیا کے لوگوں کے کچھ کام اور دُنیا کی کچھ چیزیں بہت دلکش لگتی ہیں۔ اور وہ دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ کاش اُس کے پاس بھی یہ چیزیں ہوتیں۔ کچھ سال تک خدا کی خدمت کرنے کے بعد اُس مسیحی میں یہ چیزیں حاصل کرنے کی خواہش اِس قدر بڑھ جاتی ہے کہ وہ مڑ کر ”پیچھے دیکھتا ہے۔“ اگرچہ ابھی خوشخبری سنانے کا کام ختم نہیں ہوا ہے لیکن اِس مسیحی کا دھیان اِس کام سے ہٹ جاتا ہے۔ یقیناً ’فصل کا مالک‘ یہوواہ خدا اِس سے خوش نہیں ہوگا۔—لو 10:2۔
یسوع مسیح کی تمثیل ہم پر کیسے لاگو ہوتی ہے؟ پورے دل سے خدا کی عبادت کرنے میں صرف اجلاسوں پر جانا اور مُنادی کے کام میں حصہ لینا ہی شامل نہیں ہے۔ (2-توا 25:1، 2، 27) اگر ایک مسیحی دل ہی دل میں اُن چیزوں کو حاصل کرنے کی خواہش کرتا ہے جو وہ پیچھے چھوڑ آیا ہے تو وہ یہوواہ خدا کی خوشنودی کھو دینے کے خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ (لو 17:32) اگر ہم ”بدی سے نفرت“ کریں گے اور ”نیکی سے لپٹے“ رہیں گے تو ہی ہم ”خدا کی بادشاہی کے لائق“ ٹھہریں گے۔ (روم 12:9؛ لو 9:62) ہو سکتا ہے کہ شیطان کی دُنیا کی بعض چیزیں اچھی اور فائدہمند معلوم ہوں۔ لیکن آئیں، یہ عزم کریں کہ ہم اِن چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگیں گے بلکہ پورے دل سے خدا کی عبادت کرتے رہیں گے۔—2-کر 11:14؛ فلپیوں 3:13، 14 کو پڑھیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 8:3) ایک اَور کا نام یوانہ تھا جو خوزہ کی بیوی تھیں۔ (خوزہ، ہیرودیس کے گھر کے نگران تھے۔) اِس کے علاوہ سُوسنّاہ اور بہت سی اَور عورتیں بھی اُن کے ساتھ تھیں۔ یہ سب عورتیں اپنے مالی وسائل سے اُن کی خدمت کرتی تھیں۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 8:3 پر اِضافی معلومات
اُن کی خدمت کرتی تھیں: یا ”اُن کی مدد کرتی تھیں۔“ یونانی لفظ ”دیاکونیو“ کھانا لانے، اِسے پکانے اور اِسے دینے جیسے کاموں کے ذریعے دوسروں کی جسمانی ضرورتیں پوری کرنے کی طرف اِشارہ کر سکتا ہے۔ یہ لفظ لُوقا 10:40 (ہاتھ بٹانا)؛ لُوقا 12:37؛ 17:8 (خدمت کرنا) اور اعمال 6:2 (کھانا تقسیم کرنا) میں بھی اِسی مفہوم میں اِستعمال ہوا ہے۔ لیکن یہ اِسی طرح کے اَور کاموں کی طرف بھی اِشارہ کر سکتا ہے۔ یہاں یہ واضح کِیا گیا ہے کہ جن عورتوں کا 2 اور 3 آیت میں ذکر ہے، اُنہوں نے خدا کی طرف سے دی گئی ذمےداری کو پورا کرنے میں یسوع اور اُن کے شاگردوں کی مدد کیسے کی۔ ایسا کرنے سے اِن عورتوں نے خدا کی بڑائی کی۔ اور خدا نے بھی اِن عورتوں کی فیاضی کا اپنے کلام میں ذکر کروایا تاکہ آنے والی نسلیں اِس کے بارے میں پڑھیں۔ یوں خدا نے یہ ظاہر کِیا کہ وہ اُن عورتوں کی کتنی قدر کرتا ہے۔ (امثا 19:17؛ عبر 6:10) یہ یونانی اِصطلاح متی 27:55 اور مرقس 15:41 میں بھی عورتوں کے لیے اِستعمال کی گئی ہے۔
(لُوقا 9:49، 50) اِس پر یوحنا نے یسوع سے کہا: ”اُستاد! ہم نے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو آپ کے نام سے بُرے فرشتے نکال رہا تھا اور ہم نے اُس کو روکنے کی کوشش کی کیونکہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔“ 50 لیکن یسوع نے کہا: ”آپ لوگ اُسے روکنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ جو آپ کے خلاف نہیں ہے، وہ آپ کے ساتھ ہے۔“
م08 15/3 ص. 31 پ. 3
لوقا کی کتاب سے اہم نکات
9:49، 50—جب ایک ایسے شخص نے جو یسوع کی پیروی نہیں کر رہا تھا اُس کے نام سے بدروحیں نکالیں تو یسوع نے اُسے منع کیوں نہیں کِیا؟ اُس وقت مسیحی کلیسیا قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے یسوع پر ایمان لانے اور اُس کے نام سے بدروحیں نکالنے کے لئے یہ لازمی نہیں تھا کہ ایک شخص یسوع کے ہمراہ چلے۔—مر 9:38-40۔
16-22 جولائی
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 10، 11
”رحمدل سامری کی مثال“
(لُوقا 10:29-32) لیکن وہ آدمی خود کو نیک ثابت کرنا چاہتا تھا اِس لیے اُس نے یسوع سے پوچھا: ”پر میرا پڑوسی ہے کون؟“ 30 یسوع نے اُسے جواب دیا: ”ایک آدمی یروشلیم سے یریحو کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک ڈاکوؤں نے اُسے گھیر لیا۔ اُنہوں نے اُسے ماراپیٹا اور اُس کی ساری چیزیں چھین لیں۔ پھر وہ اُسے ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔ 31 اِتفاق سے ایک کاہن اُس راستے سے گزرا۔ لیکن جب اُس نے اُس آدمی کو دیکھا تو وہ دوسری طرف سے ہو کر چلا گیا۔ 32 پھر لاوی قبیلے کا ایک شخص وہاں سے گزرا۔ اُس نے بھی اُس آدمی کو دیکھا اور دوسری طرف سے ہو کر چلا گیا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں تصویریں اور ویڈیوز
یروشلیم سے یریحو کا راستہ
اِس ویڈیو میں جو راستہ (1) دِکھایا گیا ہے، وہ غالباً قدیم زمانے کے اُس راستے سے ملتا جلتا ہے جو یروشلیم کو یریحو سے ملاتا تھا۔ یہ راستہ 20 کلومیٹر (12 میل) سے زیادہ لمبا تھا اور یروشلیم سے یریحو کی طرف جاتے ہوئے اِس کی ڈھلوان 1 کلومیٹر (6.0 میل) تھی۔ اِس ویران اور سنسان راستے پر لُوٹمار کے واقعات اِتنے عام تھے کہ مسافروں کی حفاظت کے لیے سپاہی تعینات کیے گئے تھے۔ رومی شہر یریحو (2) اُس جگہ واقع تھا جہاں یہ راستہ یہودیہ کے ویرانے سے نکلتا تھا۔ پُرانا شہر یریحو (3) رومی شہر یریحو سے تقریباً 2 کلومیٹر (1 میل سے تھوڑا زیادہ) کے فاصلے پر واقع تھا۔
م02 1/9 ص. 16 پ. 14، 15
”بغیر تمثیل کے وہ اُن سے کچھ نہ کہتا تھا“
دوم، نیک سامری کی تمثیل یاد کریں۔ یسوع نے یہ کہنا شروع کِیا: ”ایک آدمی یرؔوشلیم سے یرؔیحو کی طرف جا رہا تھا کہ ڈاکوؤں میں گِھر گیا۔ اُنہوں نے اُسکے کپڑے اُتار لئے اور مارا بھی اور ادھمؤا چھوڑ کر چلے گئے۔“ (لوقا 10:30) یسوع نے اپنی بات واضح کرنے کے لئے ”یرؔوشلیم سے یرؔیحو“ جانے والی سڑک کا ذکر کِیا۔ جب یسوع نے یہ تمثیل بیان کی تو وہ یہودیہ میں تھا جو یروشلیم سے زیادہ دُور نہیں ہے اسلئے اُسکے سامعین کو پتہ تھا کہ وہ کس سڑک کا ذکر کر رہا ہے۔ یہ سڑک تنہا مسافر کیلئے واقعی بہت خطرناک تھی۔ اس سنسان راستے میں ایسی بہت سی جگہیں تھیں جہاں ڈاکو تاک میں بیٹھے رہتے تھے۔
”یرؔوشلیم سے یرؔیحو“ جانے والی سڑک کا ذکر کرنے میں ایک اَور بات بھی قابلِغور ہے۔ کہانی کے مطابق، پہلے ایک کاہن اور پھر ایک لاوی بھی اسی سڑک سے گزرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اُس زخمی شخص کی مدد نہیں کرتا۔ (لوقا 10:31، 32) کاہن یروشلیم کی ہیکل میں خدمت کرتے تھے اور لاوی اُنکے مددگار تھے۔ بہتیرے کاہنوں اور لاویوں کی جب ہیکل میں خدمت کی باری نہیں ہوتی تھی تو وہ یریحو میں رہتے تھے کیونکہ یریحو یروشلیم سے صرف 23 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ لہٰذا، اُن کا اس راستے سے گزر ضرور ہوتا تھا۔ یہ بھی غور کریں کہ کاہن اور لاوی ”یرؔوشلیم سے“ جانے والی راہ سے گزر رہے تھے یعنی وہ ہیکل سے جا رہے تھے۔ لہٰذا کوئی بھی بجا طور پر انکی بےحسی کا جواز پیش کرنے کے لئے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ ’اُنہوں نے اُس زخمی شخص سے اسلئے کنیکترائی تھی کہ وہ مُردہ دکھائی دیتا تھا جسے چھونے سے وہ عارضی طور پر ناپاک ہوکر ہیکل میں خدمت کرنے کے قابل نہ رہتے۔‘ (احبار 21:1؛ گنتی 19:11، 16) کیا یہ بات واضح نہیں کہ یسوع کی تمثیل میں ایسی چیزیں شامل تھیں جن سے اُسکے سامعین واقف تھے؟
(لُوقا 10:33-35) پھر ایک سامری سفر کرتا ہوا اُسی جگہ پہنچا۔ جب اُس نے اُس آدمی کی حالت دیکھی تو اُسے بڑا ترس آیا۔ 34 وہ اُس آدمی کے پاس گیا اور اُس کے زخموں پر تیل اور مے لگائی اور اُس کی مرہمپٹی کی۔ پھر اُس نے اُسے اپنے گدھے پر بٹھایا اور اُسے ایک مسافرخانے میں لے گیا اور اُس کی دیکھبھال کی۔ 35 اگلے دن اُس نے مسافرخانے کے مالک کو دو دینار دیے اور اُس سے کہا: ”اِس آدمی کا خیال رکھنا۔ اور اگر اِس کے علاوہ کوئی اَور خرچہ ہوگا تو مَیں واپسی پر ادا کر دوں گا۔“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 10:33، 34 پر اِضافی معلومات
ایک سامری: عام طور پر یہودی سامریوں کو حقیر سمجھتے تھے اور اُن سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ (یوح 4:9) کچھ یہودی تو لفظ ”سامری“ کو کسی کی حقارت اور توہین کرنے کے لیے بھی اِستعمال کرتے تھے۔ (یوح 8:48) یہودیوں کی مذہبی کتاب مِشنہ میں ایک ربّی نے کہا: ”جو شخص سامریوں کی روٹی کھاتا ہے، وہ اُس شخص کی طرح ہے جو سؤر کا گوشت کھاتا ہے۔“ (شیبتھ 8:10) بہت سے یہودی سامریوں کی گواہی کا یقین نہیں کرتے تھے اور اُن کی طرف سے کسی طرح کی مدد قبول نہیں کرتے تھے۔ یسوع مسیح جانتے تھے کہ یہودی سامریوں سے کتنی نفرت کرتے ہیں اِس لیے اُنہوں نے اِس مثال کے ذریعے ایک بہت اہم بات کو نمایاں کِیا۔ اور اِس مثال کو اکثر رحمدل سامری یا نیک سامری کی مثال کہا جاتا ہے۔
اُس کے زخموں پر تیل اور مے لگائی اور اُس کی مرہمپٹی کی: معالج لُوقا نے یسوع مسیح کی اِس مثال میں زخموں کا علاج کرنے کا جو طریقہ بتایا، وہ اُس زمانے میں عام تھا۔ تیل اور مے دونوں کو زخموں کا علاج کرنے کے لیے گھریلو ٹوٹکوں کے طور پر اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ تیل کو کبھی کبھی زخموں کو نرم کرنے کے لیے (یسعیاہ 1:6 پر غور کریں) اِستعمال کِیا جاتا تھا اور مے کو اِس کی جراثیمکُش خصوصیات کی وجہ سے زخموں پر لگایا جاتا تھا۔ لُوقا نے یہ بھی بتایا کہ زخموں کی مرہمپٹی کیسے کی جاتی تھی تاکہ زخم خراب نہ ہو۔
مسافرخانے: جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”مسافرخانے“ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ہے: ”ایک ایسی جگہ جہاں سب لوگ آ سکتے ہیں۔“ مسافر اپنے جانوروں کے ساتھ ایسی جگہوں پر رُک سکتے تھے۔ مسافرخانے کا مالک مسافروں کو بنیادی چیزیں فراہم کرتا تھا اور کبھی کبھار پیسوں کے عوض اُن لوگوں کا خیال رکھتا تھا جنہیں اُس کے پاس چھوڑا جاتا تھا۔
(لُوقا 10:36، 37) آپ کے خیال میں اِن تینوں میں سے کون اُس آدمی کا پڑوسی ثابت ہوا جسے ڈاکوؤں نے لُوٹ لیا تھا؟“ 37 شریعت کے ماہر نے جواب دیا: ”وہ جس نے اُس پر رحم کِیا تھا۔“ اِس پر یسوع نے کہا: ”جائیں اور ایسا ہی کریں۔“
ڈبلیو98 1/7 ص. 31 پ. 2
ایک سامری ایک اچھا پڑوسی ثابت ہوا
یسوع مسیح کی اِس مثال سے پتہ چلتا ہے کہ صحیح معنوں میں ایک نیک شخص وہ ہوتا ہے جو نہ صرف خدا کے حکموں پر عمل کرتا ہے بلکہ اُس جیسی خوبیاں بھی ظاہر کرتا ہے۔ (اِفسیوں 5:1) مثال کے طور پر بائبل میں لکھا ہے کہ ”خدا کسی کا طرفدار نہیں۔“ (اعمال 10:34) کیا ہم اِس حوالے سے خدا کی مثال پر عمل کرتے ہیں؟ یسوع مسیح کی اِس شاندار مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ پڑوسی سے محبت کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف اپنی قوم، ثقافت اور مذہب کے لوگوں سے محبت کریں۔ بائبل میں مسیحیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ”سب کے ساتھ نیکی کریں۔“ اِس کا مطلب ہے کہ اُنہیں سب لوگوں سے بھلائی کرنی چاہیے صرف اُن لوگوں سے نہیں جو اُن جیسی حیثیت رکھتے ہیں، اُن کی نسل یا قوم سے ہیں یا اُن کے ہمایمان ہیں۔—گلتیوں 6:10۔
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 10:18) اِس پر یسوع نے اُن سے کہا: ”مَیں دیکھ رہا ہوں کہ شیطان بجلی کی طرح آسمان سے گِر چُکا ہے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 10:18 پر اِضافی معلومات
مَیں دیکھ رہا ہوں کہ شیطان بجلی کی طرح آسمان سے گِر چُکا ہے: یہاں یسوع مسیح نبوّت کر رہے تھے اور شیطان کو آسمان سے نکالے جانے کے واقعے کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے یہ پہلے ہی ہو چُکا ہو۔ مکاشفہ 12:7-9 میں آسمان پر ہونے والی جنگ کے بارے میں بتایا گیا ہے اور شیطان کو آسمان سے گِرائے جانے کے واقعے کو مسیح کے بادشاہ بننے سے جوڑا گیا ہے۔ یسوع مسیح یہاں اِس بات کو نمایاں کر رہے تھے کہ مستقبل میں ہونے والی جنگ میں شیطان اور اُس کے بُرے فرشتوں کی ہار پکی ہے کیونکہ خدا نے ابھی ابھی 70 شاگردوں کو بُرے فرشتے نکالنے کا اِختیار دیا ہے جو محض عیبدار اِنسان ہیں۔—لُو 10:17۔
م08 15/3 ص. 31 پ. 12
لوقا کی کتاب سے اہم نکات
10:18—یسوع کے اِن الفاظ کا مطلب کیا ہے کہ ”مَیں شیطان کو بجلی کی طرح آسمان سے گِرا ہوا دیکھ رہا تھا“؟ یسوع اپنے 70 شاگردوں کو یہ نہیں بتا رہا تھا کہ شیطان کو اُس وقت آسمان سے گِرا دیا گیا تھا۔ یہ 1914 ہی میں واقع ہوا جب یسوع مسیح نے آسمان پر اپنی حکمرانی شروع کی تھی۔ (مکا 12:1-10) ہم یقین سے تو نہیں کہہ سکتے کہ یسوع کیوں مستقبل میں ہونے والے ایک واقعے کو اس طرح سے بیان کر رہا تھا جیسا کہ وہ واقع ہو چکا ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ اِس بات پر زور دینا چاہتا تھا کہ یہ ضرور واقع ہوگا۔
(لُوقا 11:5-9) پھر یسوع نے کہا: ”فرض کریں کہ آپ کا ایک دوست ہے اور آپ آدھی رات کو اُس کے پاس جا کر کہتے ہیں: ”یار، مجھے تین روٹیاں دو 6 کیونکہ میرا ایک دوست ابھیابھی سفر سے میرے پاس آیا ہے اور میرے پاس اُسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔“ 7 لیکن وہ اندر سے ہی جواب دیتا ہے: ”مجھے تنگ نہ کرو! دروازے کو تالا لگا ہوا ہے اور میرے بچے میرے ساتھ بستر میں سو رہے ہیں۔ مَیں اُٹھ کر تمہیں کچھ نہیں دے سکتا۔“ 8 مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ شاید وہ دوستی کے ناتے اُٹھ کر اُسے کچھ نہ دے لیکن اُس کے بار بار اِصرار کرنے کی وجہ سے وہ ضرور اُس کی ضرورت پوری کرے گا۔ 9 لہٰذا مَیں آپ سے کہتا ہوں: مانگتے رہیں تو آپ کو دیا جائے گا؛ ڈھونڈتے رہیں تو آپ کو مل جائے گا؛ دروازہ کھٹکھٹاتے رہیں تو آپ کے لیے کھولا جائے گا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 11:5-9 پر اِضافی معلومات
یار، مجھے تین روٹیاں دو: مشرقِوسطیٰ کی ثقافت میں مہماننوازی کو ایک فرض سمجھا جاتا ہے اور لوگ بڑی خوشی سے اِس فرض کو نبھاتے ہیں۔ اِس مثال سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ مہمان آدھی رات کو اچانک سے آ گیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس زمانے میں سفر کرنا اِتنا آسان نہیں تھا اور اِس وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ ایک شخص کب پہنچے گا۔ لیکن پھر بھی میزبان کو لگا کہ یہ اُس کی ذمےداری ہے کہ وہ اُسے کچھ کھانے کو دے، یہاں تک کہ وہ کھانا لینے کے لیے رات کے اُس پہر اپنے پڑوسی کو پریشان کرنے سے بھی نہیں ہچکچایا۔
مجھے تنگ نہ کرو: اِس مثال میں جس پڑوسی کا ذکر کِیا گیا ہے، وہ مدد کرنے سے اِس لیے نہیں ہچکچا رہا تھا کہ وہ مہربان نہیں تھا بلکہ اِس لیے کہ وہ سو رہا تھا۔ اُس زمانے میں گھر، خاص طور پر غریبوں کے گھر عموماً ایک ہی کمرے کے ہوتے تھے۔ لہٰذا اگر وہ شخص بستر سے اُٹھ کر آتا تو شاید وہ اپنے بیوی بچوں کی نیند خراب کرتا۔
بار بار اِصرار کرنے: جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”بار بار اِصرار کرنے“ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی ترجمہ یوں بھی کِیا جا سکتا ہے: ”بےشرمی“ یا ”بےحیائی۔“ لیکن اِس سیاقوسباق میں یہ بار بار اِصرار کرنے یا اَڑے رہنے کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ یسوع کی مثال والا آدمی اپنی ضرورت کی چیز مانگنے کے لیے بار بار اِصرار کرنے سے نہیں شرمایا۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ اُنہیں بھی بار بار دُعا کرنی چاہیے۔—لُو 11:9، 10۔
23-29 جولائی
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 12، 13
”آپ تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ اہم ہیں“
(لُوقا 12:6) کیا دو پیسے کی پانچ چڑیاں نہیں بکتیں؟ لیکن خدا اُن میں سے ہر ایک کو یاد رکھتا ہے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 12:6 پر اِضافی معلومات
چڑیاں: یونانی لفظ ”ستوتھیون“ کا ترجمہ۔ یہ لفظ ایسے چھوٹے پرندوں کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا جو بہت عام تھے۔ لیکن عموماً اِسے چڑیوں کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا جو اُن پرندوں میں سب سے سستی ہوتی تھیں جنہیں کھانے کے لیے خریدا جاتا تھا۔
(لُوقا 12:7) آپ تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ اہم ہیں۔ خدا کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے سر پر کتنے بال ہیں۔ اِس لیے فکر مت کریں۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 12:7 پر اِضافی معلومات
اُس کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے سر پر کتنے بال ہیں: کہا جاتا ہے کہ اِنسانوں کے سر پر اوسطاً 1 لاکھ سے زیادہ بال ہوتے ہیں۔ جب ہم اِس بات پر غور کرتے ہیں کہ یہوواہ خدا اِنسانوں کے بارے میں اِتنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی جانتا ہے تو ہمیں اِس بات کی ضمانت ملتی ہے کہ وہ ہر مسیحی میں گہری دلچسپی لیتا ہے۔
(لُوقا 12:7) آپ تو بہت سی چڑیوں سے زیادہ اہم ہیں۔ خدا کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے سر پر کتنے بال ہیں۔ اِس لیے فکر مت کریں۔
سیایل ص. 241 پ. 4، 5
کوئی بھی چیز ہمیں ’خدا کی محبت سے جُدا‘ نہیں کر سکتی
پہلی بات تو یہ ہے کہ بائبل میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ خدا اپنے ہر بندے کو بہت اہم خیال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے کہا: ”کیا دو چڑیاں ایک پیسے کی نہیں بکتیں؟ لیکن اگر اُن میں سے ایک بھی زمین پر گِر جائے تو آپ کے آسمانی باپ کو خبر ہو جاتی ہے۔ اُس کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ آپ کے سر پر کتنے بال ہیں۔ اِس لیے ڈریں مت، آپ تو اِن چڑیوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔“ (متی 10:29-31) آئیں، غور کریں کہ اِس بات کا اُن لوگوں کے لیے کیا مطلب تھا جو یسوع مسیح کی باتیں سُن رہے تھے۔
5 شاید ہم سوچیں کہ بھلا ایک شخص چڑیا کیوں خریدے گا۔ دراصل یسوع مسیح کے زمانے میں چڑیاں اُن پرندوں میں سب سے سستی ہوتی تھیں جنہیں کھانے کے لیے خریدا جاتا تھا۔ غور کریں کہ ایک شخص ایک پیسے میں دو چڑیاں خرید سکتا تھا۔ لیکن بعد میں یسوع مسیح نے کہا کہ ایک شخص دو پیسوں میں چار نہیں بلکہ پانچ چڑیاں خرید سکتا ہے۔ اصل میں پانچویں چڑیا مُفت دی جاتی تھی، گویا اِس کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔ شاید یہ چڑیاں لوگوں کی نظر میں کم اہم ہوں لیکن اِن کا خالق اِنہیں کیسا خیال کرتا تھا؟ یسوع مسیح نے کہا کہ ”خدا اُن میں سے ہر ایک کو [مُفت ملنے والی چڑیا کو بھی] یاد رکھتا ہے۔“ (لُوقا 12:6، 7) شاید اب ہم یہ سمجھ گئے ہوں کہ یسوع مسیح کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ اگر یہوواہ خدا ایک چڑیا کو اِتنا اہم خیال کرتا ہے تو وہ ایک اِنسان کو کتنا اہم خیال کرتا ہوگا! یسوع مسیح نے واضح کِیا کہ یہوواہ خدا ہمارے بارے میں چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جانتا ہے۔ لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ اُس کو یہ بھی پتہ ہے کہ ہمارے سر پر کتنے بال ہیں۔
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 13:24) ”تنگ دروازے سے داخل ہونے کی جیتوڑ کوشش کریں کیونکہ مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ بہت سے لوگ اندر جانے کی کوشش کریں گے لیکن جا نہیں سکیں گے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 13:24 پر اِضافی معلومات
جیتوڑ کوشش کریں: یسوع مسیح کی اِس نصیحت میں اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ہمیں تنگ دروازے سے داخل ہونے کے لیے جی جان سے کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ بائبل کی تشریح کرنے والی کچھ کتابوں میں اِس سیاقوسباق میں ”ہر ممکن کوشش“ اور ”پوری جان لگانے“ جیسی اِصطلاحیں اِستعمال کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ یونانی فعل ”اگونیزومائی“ یونانی اِسم ”اگون“ سے تعلق رکھتا ہے جو اکثر کھیلوں کے مقابلوں کی طرف اِشارہ کرنے کے لیے اِستعمال کِیا جاتا تھا۔ عبرانیوں 12:1 میں اِس اِسم کو مجازی معنوں میں زندگی کی اُس ”دوڑ“ کے لیے اِستعمال کِیا گیا ہے جو مسیحی دوڑ رہے ہیں۔ اِس اِسم کو وسیع معنوں میں بھی اِستعمال کِیا گیا ہے جیسے کہ ”جدوجہد“ (کُل 2:1) یا ”کُشتی“ (1-تیم 6:12؛ 2-تیم 4:7)۔ جو یونانی فعل لُوقا 13:24 میں اِستعمال ہوا ہے، اُس کی اقسام کا ترجمہ یوں کِیا گیا ہے: ”مقابلے میں حصہ“ (1-کُر 9:25)؛ ”سخت محنت“ (کُل 1:29)؛ ”پوری کوشش“ (1-تیم 4:10) اور ”کُشتی“ (1-تیم 6:12)۔ چونکہ اِس اِصطلاح کا پسمنظر کھیلوں کے مقابلوں سے جُڑا ہے اِس لیے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یسوع مسیح اِس آیت میں جو کوشش کرنے کی حوصلہافزائی کر رہے تھے، اُس کا موازنہ اُس سرتوڑ کوشش سے کِیا جا سکتا ہے جو ایک کھلاڑی اِنعام حاصل کرنے کے لیے کرتا تھا۔
(لُوقا 13:33) بہرحال مجھے آج، کل اور پرسوں اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا کیونکہ ممکن نہیں کہ ایک نبی کو یروشلیم سے باہر مار ڈالا جائے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 13:33 پر اِضافی معلومات
ممکن نہیں: یا ”ایسا ہو نہیں سکتا۔“ بائبل کی کسی پیشگوئی میں واضح طور پر یہ نہیں بتایا گیا کہ مسیح کو یروشلیم میں مار ڈالا جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ نتیجہ دانیایل 9:24-26 سے اخذ کِیا گیا ہو۔ اِس کے علاوہ اگر یہودی کسی نبی، خاص طور پر مسیح کو مار ڈالنا چاہتے تو یہ یروشلیم میں ہی ہو سکتا تھا۔ دراصل عدالتِعظمیٰ کے 71 ارکان یروشلیم میں اِکٹھے ہوتے تھے۔ اِس لیے جن لوگوں پر جھوٹے نبی ہونے کا اِلزام لگایا جاتا تھا، اُن پر مُقدمہ یروشلیم میں ہی چلایا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یسوع مسیح کے ذہن میں یہ بات بھی ہو کہ یروشلیم ہی وہ جگہ ہے جہاں خدا کے حضور قربانیاں چڑھائی جاتی ہیں اور عیدِفسح کے میمنے کو قربان کِیا جاتا ہے۔ آگے چل کر یسوع مسیح کے الفاظ بالکل سچ ثابت ہوئے۔ اُنہیں یروشلیم میں عدالتِعظمیٰ کے سامنے پیش کِیا گیا اور مُجرم قرار دیا گیا۔ اور یروشلیم میں ہی بالکل اِس کی دیواروں کے باہر یسوع مسیح نے ’عیدِفسح کے میمنے‘ کے طور پر اپنی جان قربان کی۔—1-کُر 5:7۔
30 جولائی–5 اگست
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 14-16
”بچھڑے ہوئے بیٹے کی مثال“
(لُوقا 15:11-16) پھر یسوع نے کہا: ”ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ 12 ایک دن چھوٹے بیٹے نے اُس سے کہا: ”ابو، مجھے میرے حصے کی جائیداد دے دیں۔“ اِس پر باپ نے جائیداد دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دی۔ 13 کچھ دن بعد چھوٹے بیٹے نے اپنی ساری چیزیں لیں اور ایک دُوردراز ملک میں جا کر رہنے لگا۔ وہاں اُس نے اپنی ساری دولت عیاشی میں اُڑا دی۔ 14 جب اُس نے اپنے سارے پیسے خرچ کر لیے تو اُس ملک میں سخت قحط پڑا اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔ 15 پھر وہ کام ڈھونڈتے ڈھونڈتے اُس ملک کے ایک آدمی کے پاس پہنچا جس نے اُسے میدان میں اپنے سؤروں کو چرانے بھیج دیا۔ 16 اُس جوان کا جی کرتا تھا کہ وہ اُن پھلیوں سے ہی پیٹ بھر لے جو سؤر کھا رہے تھے لیکن کسی نے اُس کو کچھ کھانے کو نہیں دیا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 15:11-16 پر اِضافی معلومات
ایک آدمی کے دو بیٹے تھے: بچھڑے ہوئے بیٹے کی مثال کے (جسے مسرف بیٹے کی مثال بھی کہا جاتا ہے) کچھ پہلو دوسری مثالوں سے منفرد ہیں۔ یہ یسوع مسیح کی دی ہوئی لمبی مثالوں میں سے ایک ہے۔ اِس مثال کا ایک شاندار پہلو یہ ہے کہ اِس میں خاندانی رشتوں کو نمایاں کِیا گیا ہے۔ یسوع مسیح نے دوسری مثالوں میں اکثر بےجان چیزوں کا ذکر کِیا جیسے کہ مٹی اور فرق فرق قسم کے بیجوں کا۔ (متی 13:18-30) اِس کے علاوہ اُنہوں نے مالک اور غلاموں کے درمیان رشتے کی طرف بھی اِشارہ کِیا۔ (متی 25:14-30؛ لُو 19:12-27) لیکن اِس مثال میں یسوع مسیح نے باپ اور بیٹوں کے قریبی رشتے پر روشنی ڈالی۔ یسوع مسیح کے اِس بیان کو سننے والے بہت سے لوگوں کے والد شاید اِتنے مہربان اور شفیق نہ ہوں۔ اِس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا آسمانی باپ اپنے زمینی بچوں سے کتنے پیار اور شفقت سے پیش آتا ہے، چاہے وہ اُس کے ساتھ رہیں یا اُس کی راہ سے بھٹکنے کے بعد واپس آ جائیں۔
چھوٹے بیٹے: موسیٰ کی شریعت کے مطابق پہلوٹھے بیٹے کو جائیداد میں سے دُگنا حصہ ملتا تھا۔ (اِست 21:17) لہٰذا اگر اِس مثال میں ذکرکردہ بڑا بیٹا پہلوٹھا بھی تھا تو اِس کا مطلب ہے کہ چھوٹے بیٹے کو جائیداد میں سے اُس سے آدھا حصہ ملا تھا۔
اُڑا دی: جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”اُڑا دی“ کِیا گیا ہے، اُس کا لفظی مطلب ”(فرق فرق سمتوں میں) تتربتر ہونا؛ بکھیرنا“ ہے۔ (لُو 1:51؛ اعما 5:37) متی 25:24، 26 میں اِس کا ترجمہ ”محنت نہیں کی ہوتی [”نہیں بکھیرا،“ اُردو ریوائزڈ ورشن]“ کِیا گیا ہے۔ یہاں یہ فضول خرچی کرنے یعنی بےوقوفی سے خرچ کرنے کا خیال پیش کرتا ہے۔
عیاشی: یا ”ایک فضول (بدچلن) زندگی۔“ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”عیاشی“ کِیا گیا ہے، اُس سے ملتا جلتا یونانی لفظ اِفسیوں 5:18؛ طِطُس 1:6 اور 1-پطرس 4:4 میں اِستعمال ہوا ہے۔ چونکہ اِس یونانی لفظ میں فضول خرچی کرنے کا معنی پایا جاتا ہے اِس لیے بائبل کے کچھ ترجموں میں اِس کا ترجمہ ”شاہ خرچی کی زندگی جینے“ بھی کِیا گیا ہے۔
سؤروں کو چرانے: شریعت کے مطابق سؤر ایک ناپاک جانور تھا اِس لیے ایک یہودی کے لیے سؤر چرانا ایک حقارتآمیز پیشہ تھا۔—احبا 11:7، 8۔
پھلیوں: یہ پھلیاں دراصل خُرنوب (جسے خُروب بھی کہا جاتا ہے) کے درخت کی پھلیاں تھیں جن کا خول چمکیلا اور چمڑے کی طرح ہوتا ہے اور اِن کا رنگ جامنی بھورا ہوتا ہے۔ اِن پھلیوں کے لیے اِستعمال ہونے والا یونانی لفظ ”کیراتیون“ ہے جس کا لفظی مطلب ”چھوٹا سینگ“ ہے اور یہ مناسب بھی ہے کیونکہ یہ پھلیاں ایک مُڑے ہوئے سینگ کی طرح لگتی ہیں۔ آج بھی بہت سے لوگ اِن پھلیوں کو گھوڑوں، مویشیوں اور سؤروں کی خوراک کے طور پر اِستعمال کرتے ہیں۔ وہ نوجوان سؤروں کا کھانا کھانے تک کو تیار تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اُس کی حالت کتنی خراب ہو چُکی تھی۔—لُوقا 15:15 پر اِضافی معلومات کو دیکھیں۔
(لُوقا 15:17-24) جب اُسے ہوش آیا تو اُس نے کہا: ”میرے باپ کے اِتنے سارے مزدوروں کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے جبکہ مَیں یہاں بھوک سے مر رہا ہوں۔ 18 مَیں واپس اپنے باپ کے پاس جاؤں گا اور کہوں گا: ”ابو، مَیں نے خدا کے خلاف اور آپ کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔ 19 مَیں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا۔ مجھے اپنے مزدوروں کے ساتھ ہی رکھ لیں۔““ 20 لہٰذا وہ اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے روانہ ہوا۔ ابھی وہ گھر سے دُور ہی تھا کہ باپ نے اُس کو دیکھ لیا۔ اُسے اپنے بیٹے پر بڑا ترس آیا۔ وہ بھاگا بھاگا گیا اور اپنے بیٹے کو گلے لگا لیا اور بڑے پیار سے چُومنے لگا۔ 21 پھر بیٹے نے کہا: ”ابو، مَیں نے خدا کے خلاف اور آپ کے خلاف گُناہ کِیا ہے۔ مَیں آپ کا بیٹا کہلانے کے لائق نہیں رہا۔“ 22 لیکن اُس کے باپ نے اپنے غلاموں سے کہا: ”جلدی سے سب سے اچھا چوغہ لاؤ اور اِسے پہناؤ اور اِس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور پاؤں میں چپل بھی پہناؤ۔ 23 موٹے تازے بچھڑے کو لاؤ اور ذبح کرو تاکہ ہم کھائیں پئیں اور خوشی منائیں 24 کیونکہ میرا بیٹا مر گیا تھا لیکن اب زندہ ہو گیا ہے؛ وہ بچھڑ گیا تھا لیکن اب واپس آ گیا ہے۔“ اور وہ سب خوشی منانے لگے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 15:17-24 پر اِضافی معلومات
آپ کے خلاف: یا ”آپ کی نظر میں۔“ یونانی حرفِربط ”اینوپیئن“ کا لفظی مطلب ”آگے؛ سامنے؛ کی نظر میں“ ہے اور یہ ”سپتواجنتا“ میں 1-سموئیل 20:1 میں اِسی مفہوم میں اِستعمال ہوا ہے۔ اِس آیت میں داؤد نے یونتن سے پوچھا: ”مَیں نے تیرے باپ کے آگے کونسی تقصیر [یعنی خطا] کی ہے؟“
مزدوروں: جب چھوٹا بیٹا گھر واپس آیا تو اُس نے سوچا کہ وہ اپنے باپ سے کہے گا کہ وہ اُسے اپنے بیٹے کے طور پر نہیں بلکہ ایک مزدور کے طور پر قبول کر لے۔ اُس زمانے میں غلام گھر کا حصہ ہوتے تھے جبکہ مزدور گھر کا حصہ نہیں ہوتے تھے۔ اُنہیں باہر سے اکثر ایک دن کے لیے دیہاڑی پر بلایا جاتا تھا۔—متی 20:1، 2، 8۔
بڑے پیار سے چُومنے لگا: جس یونانی اِصطلاح کا ترجمہ ”بڑے پیار سے چُومنے لگا“ کِیا گیا ہے، اُسے یونانی فعل ”فیلیو“ کی ایک قسم سمجھا جاتا ہے۔ کبھی کبھار اِس کا ترجمہ ”چُومنا“ کِیا گیا ہے (متی 26:48؛ مر 14:44؛ لُو 22:47) لیکن زیادہتر اِس کا ترجمہ ”پیار کرنا“ یا ”پیارا“ کِیا گیا ہے (یوح 5:20؛ 16:27؛ 11:3)۔ اِس مثال میں ذکرکردہ باپ نے جس پیار اور خوشی سے اپنے بیٹے کا خیرمقدم کِیا، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اِس بیٹے کو قبول کرنے کے لیے تیار تھا جس نے توبہ کر لی تھی۔
آپ کا بیٹا کہلانے: کچھ نسخوں میں یہ حصہ بھی شامل کِیا گیا ہے: ”مجھے اپنے مزدوروں کے ساتھ ہی رکھ لیں۔“ لیکن ”ترجمہ نئی دُنیا“ میں اِس آیت کو جس طرح سے لکھا گیا ہے، وہ کتابِمُقدس کے اِبتدائی قابلِبھروسا نسخوں کے عین مطابق ہے۔ کچھ عالموں کا خیال ہے کہ اِس آیت میں اِضافی حصہ اِس لیے شامل کِیا گیا ہے تاکہ یہ ظاہر ہو کہ اِس میں درج بات لُوقا 15:19 سے میل کھاتی ہے۔
چوغہ . . . انگوٹھی . . . چپل: یہ چوغہ کوئی عام چوغہ نہیں تھا بلکہ سب سے اچھا تھا۔ شاید یہ ایک ایسا چوغہ تھا جس پر بہت نفیس کڑھائی ہوئی تھی اور جسے مُعزز مہمانوں کو پیش کِیا جاتا تھا۔ اپنے بیٹے کے ہاتھ میں انگوٹھی پہنانے سے باپ نے ظاہر کِیا کہ اُس نے اپنے اِس بیٹے کو قبول کر لیا ہے جو لوٹ آیا ہے اور اُسے عزت اور مرتبہ دیا ہے۔ عام طور پر غلاموں کے پاس انگوٹھی اور چپل نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا باپ نے اِس بات کو واضح کِیا کہ اُس نے اپنے بیٹے کو گھرانے کے ایک فرد کے طور پر قبول کر لیا ہے۔
(لُوقا 15:25-32) اُس آدمی کا بڑا بیٹا کھیت میں تھا۔ جب وہ گھر کے قریب پہنچا تو اُسے ناچنے گانے کی آوازیں سنائی دیں۔ 26 اُس نے ایک خادم کو پاس بلا کر پوچھا: ”گھر میں اِتنا شور کیوں ہے؟“ 27 اُس نے جواب دیا: ”آپ کا بھائی واپس آ گیا ہے اور آپ کے باپ نے موٹے تازے بچھڑے کو ذبح کروایا ہے کیونکہ وہ صحیح سلامت لوٹ آیا ہے۔“ 28 یہ سُن کر بڑے بیٹے کو بہت غصہ آیا اور اُس نے اندر جانے سے اِنکار کر دیا۔ اُس کا باپ باہر آیا اور اُسے منانے لگا۔ 29 لیکن اُس نے اپنے باپ سے کہا: ”دیکھیں، مَیں اِتنے سالوں سے آپ کی خدمت کر رہا ہوں۔ مَیں نے کبھی آپ کی نافرمانی نہیں کی لیکن آپ نے مجھے کبھی ایک میمنا بھی نہیں دیا کہ مَیں اپنے دوستوں کے ساتھ کھا پی سکوں۔ 30 لیکن جونہی آپ کا یہ بیٹا واپس آیا جس نے آپ کی دولت طوائفوں پر لُٹا دی، آپ نے اِس کے لیے موٹے تازے بچھڑے کو ذبح کروایا۔“ 31 اُس کے باپ نے کہا: ”بیٹا، آپ تو ہمیشہ سے میرے ساتھ ہو اور جو کچھ میرا ہے، وہ آپ کا ہی ہے۔ 32 مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم جشن نہ مناتے اور خوش نہ ہوتے کیونکہ آپ کا بھائی مر گیا تھا لیکن اب زندہ ہو گیا ہے؛ وہ بچھڑ گیا تھا لیکن اب واپس آ گیا ہے۔““
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 14:26) ”جو شخص میرے پاس آتا ہے لیکن اپنے ماں باپ، بیوی بچوں، بہن بھائیوں یہاں تک کہ اپنے آپ سے نفرت نہیں کرتا، وہ میرا شاگرد نہیں بن سکتا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 14:26 پر اِضافی معلومات
نفرت: بائبل میں لفظ ”نفرت“ کے کئی مطلب ہیں۔ یہ دُشمنی کی طرف اِشارہ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے ایک شخص دوسروں کو نقصان پہنچانے کی طرف مائل ہو سکتا ہے۔ یا پھر یہ کسی شخص یا چیز کو سخت ناپسند کرنے کا مطلب پیش کر سکتا ہے جس کی وجہ سے اُس شخص یا چیز سے کنارہ کِیا جاتا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ لفظ کم محبت کرنے کی طرف بھی اِشارہ کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب یہ کہا گیا کہ یعقوب نے لیاہ سے ”نفرت“ کی اور راخل سے محبت کی تو اِس کا مطلب تھا کہ وہ راخل کی نسبت لیاہ سے کم محبت کرتے تھے۔ (پید 29:31) قدیم یہودی تحریروں میں بھی یہ لفظ اِنہی معنوں میں اِستعمال ہوا ہے۔ لہٰذا یسوع مسیح کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اُن کے پیروکار خود سے اور اپنے گھر والوں سے دُشمنی یا نفرت کریں کیونکہ یہ بات بائبل کے دوسرے صحیفوں سے میل نہیں کھاتی۔ (مرقس 12:29-31؛ اِفسیوں 5:28، 29، 33 پر غور کریں۔) اِس سیاقوسباق میں لفظ ”نفرت“ کا ترجمہ ”کم محبت“ کِیا جا سکتا ہے۔
(لُوقا 16:10-13) جو شخص چھوٹے معاملوں میں مالک کا وفادار ہے، وہ بڑے معاملوں میں بھی اُس کا وفادار ہے اور جو شخص چھوٹے معاملوں میں بددیانت ہے، وہ بڑے معاملوں میں بھی بددیانت ہے۔ 11 لہٰذا اگر آپ دُنیاوی دولت کے سلسلے میں اپنے آپ کو وفادار ثابت نہیں کرتے تو کیا حقیقی دولت آپ کے سپرد کی جائے گی؟ 12 اور اگر آپ دوسروں کے معاملات سنبھالنے کے سلسلے میں اپنے آپ کو وفادار ثابت نہیں کرتے تو کیا آپ کو وہ اجر ملے گا جو آپ کے لیے مقرر کِیا گیا ہے؟ 13 کوئی خادم دو مالکوں کی غلامی نہیں کر سکتا۔ یا تو وہ ایک سے محبت رکھے گا اور دوسرے سے نفرت یا پھر وہ ایک سے لپٹا رہے گا اور دوسرے کو حقیر جانے گا۔ آپ خدا اور دولت دونوں کے غلام نہیں بن سکتے۔“
حقیقی دولت کی تلاش کریں
لُوقا 16:10-13 کو پڑھیں۔ بددیانت خادم نے اپنے فائدے کے لیے دوست بنائے۔ لیکن یسوع مسیح چاہتے تھے کہ اُن کے پیروکار بےغرضی کی بِنا پر آسمان پر دوست بنائیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ وہ جس طرح سے بددیانت دُنیا کی دولت کو اِستعمال کریں گے، اُس سے ظاہر ہوگا کہ وہ خدا کے وفادار ہیں یا نہیں۔ آئیں، دیکھیں کہ ہمیں بددیانت دُنیا کی دولت کو کیسے اِستعمال کرنا چاہیے۔
اپنے پیسوں اور چیزوں کے اِستعمال سے خدا کے لیے وفاداری ظاہر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم مُنادی کے عالمگیر کام کے لیے عطیات دیں۔ (متی 24:14) اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔ بھارت میں رہنے والی ایک چھوٹی بچی ایک گلے میں سِکے جمع کرتی رہی۔ اِس کے لیے اُس نے کھلونے خریدنا بھی چھوڑ دیے۔ جب یہ گلہ بھر گیا تو اُس نے سارے پیسے مُنادی کے کام کے لیے عطیہ کر دیے۔ بھارت میں رہنے والے ایک بھائی کا ناریل کا باغ ہے۔ وہ بہت سے ناریل ملیالم زبان کے ترجمے کے دفتر کو عطیہ کرتا ہے۔ چونکہ اُس ترجمے کے دفتر میں کام کرنے والے بہن بھائیوں کو باہر سے ناریل خریدنے پڑتے ہیں اِس لیے اُس بھائی نے سوچا کہ اُنہیں پیسے دینے کی بجائے ناریل دینے سے وہ اُن کی زیادہ مدد کر سکتا ہے۔ یوں اُس بھائی نے واقعی ”عقلمندی سے کام لیا۔“ اِسی طرح یونان میں رہنے والے بہن بھائی باقاعدگی سے بیتایل میں زیتون کا تیل، پنیر اور کھانے کی دوسری چیزیں عطیہ کرتے ہیں۔