یہوواہ کی خدمت سے اپنا دھیان ہٹنے نہ دیں
”مریم [یسوع مسیح] کے قدموں میں بیٹھ کر اُن کی باتیں سُن رہی تھیں جبکہ مارتھا کھانے کا اِنتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔“—لُو 10:39، 40، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
گیت: 40، 55
1، 2. (الف) یسوع مسیح، مارتھا سے محبت کیوں رکھتے تھے؟ (ب) کس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارتھا ہماری طرح عیبدار اِنسان تھیں؟
آپ کے خیال میں لعزر کی بہن مارتھا کیسی شخصیت کی مالک تھیں؟ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ یسوع مسیح کی بڑی اچھی دوست تھیں اور یسوع اُن سے ’محبت رکھتے تھے۔‘ یسوع مسیح، مارتھا کے علاوہ اَور بھی عورتوں کو عزیز رکھتے تھے اور اُن کی عزت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ اپنی ماں مریم کو بہت پیار کرتے تھے اور مارتھا کی بہن مریم بھی اُن کی اچھی دوست تھیں۔ (یوح 11:5؛ 19:25-27) لیکن بائبل میں یہ کیوں لکھا گیا ہے کہ یسوع مسیح، مارتھا سے ’محبت رکھتے تھے‘؟
2 یسوع مسیح اِس لیے مارتھا سے محبت رکھتے تھے کیونکہ وہ بہت مہماننواز اور محنتی تھیں۔ لیکن اِس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ یسوع مسیح کی تعلیم پر پکا ایمان رکھتی تھیں اور یہ مانتی تھیں کہ یسوع ہی مسیح ہیں۔ (یوح 11:21-27) مگر وہ ہماری طرح عیبدار اِنسان تھیں۔ اِس لیے اُن سے بھی غلطیاں ہوتی تھیں۔ مثال کے طور پر ایک بار جب یسوع مسیح اُن کے گھر آئے تو مارتھا اپنی بہن مریم سے ناراض ہو گئیں کیونکہ وہ کام میں اُن کا ہاتھ نہیں بٹا رہی تھیں۔ مارتھا نے یسوع مسیح سے کہا: ”اَے خداوند! کیا تجھے خیال نہیں کہ میری بہن نے خدمت کرنے کو مجھے اکیلا چھوڑ دیا ہے؟ پس اُسے فرما کہ میری مدد کرے۔“ (لُوقا 10:38-42 کو پڑھیں۔) مارتھا نے یہ بات کیوں کہی اور یسوع مسیح نے اُنہیں جو جواب دیا، اُس سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟
مارتھا کا دھیان بٹ گیا
3، 4. (الف) مریم نے کس لحاظ سے ”اچھا حصہ چُن لیا“؟ (ب) مارتھا نے کون سی اہم بات سیکھی؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
3 یسوع مسیح اِس بات کی قدر کرتے تھے کہ مریم اور مارتھا نے اُنہیں اپنے گھر بلایا ہے۔ اِس لیے وہ اُن دونوں کو زندگیبخش باتیں سکھانا چاہتے تھے۔ مریم تو فوراً ہی یسوع مسیح کے ’پاؤں کے پاس بیٹھ کر اُن کا کلام سننے لگیں‘ کیونکہ وہ عظیم اُستاد سے زیادہ سے زیادہ سیکھنا چاہتی تھیں۔ اگر مارتھا دوسرا کامکاج چھوڑ کر یسوع مسیح کی باتیں پوری توجہ سے سنتیں تو یقیناً یسوع مسیح اُنہیں بھی شاباش دیتے۔
4 لیکن مارتھا کا دھیان کھانا تیار کرنے اور گھر کو صاف ستھرا کرنے میں لگا ہوا تھا تاکہ یسوع مسیح جب تک اُن کے پاس رہیں، اُن کا وقت خوشگوار گزرے۔ لیکن جب مارتھا نے دیکھا کہ مریم اُن کی کوئی مدد نہیں کر رہیں تو وہ مریم پر بگڑ گئیں اور یسوع مسیح سے شکایت کی۔ یسوع مسیح جانتے تھے کہ مارتھا ضرورت سے زیادہ کام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے بڑے پیار سے کہا: ”مرؔتھا! مرؔتھا! تُو تو بہت سی چیزوں کی فکروتردد میں ہے۔“ اُنہوں نے مارتھا کو یہ تجویز بھی دی کہ وہ صرف ایک کھانا ہی تیار کر لیں۔ پھر اُنہوں نے مریم کو شاباش دی کیونکہ وہ اُن کی باتیں بڑے دھیان سے سُن رہی تھیں۔ یسوع مسیح نے کہا: ”مریمؔ نے وہ اچھا حصہ چُن لیا ہے جو اُس سے چھینا نہ جائے گا۔“ مریم غالباً جلد ہی یہ بھول گئی ہوں گی کہ اُنہوں نے اُس شام کیا کھایا تھا مگر وہ اُن باتوں کو کبھی نہیں بھولی ہوں گی جو اُنہوں نے اُس وقت یسوع مسیح سے سیکھی تھیں۔ وہ یہ بھی نہیں بھولی ہوں گی کہ یسوع مسیح نے اُنہیں اِس بات کے لیے داد دی تھی۔ اِس واقعے کے 60 سال بعد یوحنا رسول نے لکھا: ”یسوؔع مرؔتھا اور اُس کی بہن . . . سے محبت رکھتا تھا۔“ (یوح 11:5) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارتھا نے یسوع مسیح کی نصیحت کو یاد رکھا اور وہ اپنی باقی زندگی وفاداری سے یہوواہ کی خدمت کرتی رہیں۔
5. (الف) مارتھا کے زمانے اور ہمارے زمانے میں ایک فرق کیا ہے؟ (ب) اِس مضمون میں ہم کس سوال پر غور کریں؟
5 مارتھا کے زمانے کی نسبت آجکل بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو خدا کی خدمت سے ہمارا دھیان ہٹا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر آج سے 60 سال پہلے امریکہ کے ایک کالج کے طالبِعلموں سے یہ کہا گیا: ”آج کے دَور میں . . . رنگین تصویروں والے رسالے، ٹیوی اور ریڈیو وغیرہ بہت عام ہیں۔ اِن کی وجہ سے ہماری توجہ ضروری کاموں سے ہٹ جاتی ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ اِن چیزوں کے ذریعے علم اور دانش میں اِضافہ ہوگا۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ اِن کی وجہ سے ہمارا بہت سا وقت بھی ضائع ہوگا۔“ 15 ستمبر 1958ء کے مینارِنگہبانی میں بتایا گیا: ”جیسے جیسے خاتمہ نزدیک آئے گا، خدا کی خدمت سے دھیان ہٹانے والی چیزوں میں اِضافہ ہوتا جائے گا۔“ یہ بات بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ اور اِس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں تاکہ مریم کی طرح ہمارا دھیان زندگیبخش باتوں پر رہے؟
دُنیا کے ہی نہ ہو جائیں
6. یہوواہ کے بندوں نے ٹیکنالوجی کو کیسے اِستعمال کِیا ہے؟
6 یہوواہ کے بندوں نے خوشخبری کی مُنادی کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کو بڑے مؤثر طریقے سے اِستعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر پہلی عالمی جنگ سے پہلے اور اِس کے دوران اُنہوں نے کئی ملکوں میں فوٹو ڈرامہ آف کریئیشن دِکھایا۔ اِس ڈرامے میں آواز کے ساتھ رنگین سلائیڈز اور متحرک تصویریں تھیں۔ اِس کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک خوشخبری پہنچی۔ اِس ڈرامے کے آخر میں وہ پُرامن دَور دِکھایا گیا جب زمین پر یسوع مسیح حکمرانی کریں گے۔ پھر یہوواہ کے بندوں نے ریڈیو کے ذریعے کئی ملکوں میں لاکھوں لوگوں تک بادشاہت کا پیغام پہنچایا۔ آج ہم یہی پیغام اِنٹرنیٹ کے ذریعے دُنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہے ہیں۔
7. (الف) دُنیا ہی کا ہو جانا خطرے سے خالی کیوں نہیں؟ (ب) ہمیں خاص طور پر کس بات سے خبردار رہنا چاہیے؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
7 بائبل میں ہمیں خبردار کِیا گیا ہے کہ ”ہم دُنیا ہی کے نہ ہو جائیں۔“ (1-کُرنتھیوں 7:29-31 کو پڑھیں۔) دُنیا کی بہت سی چیزیں ویسے تو بُری نہیں ہیں مگر وہ ہمارا بہت سارا وقت کھا سکتی ہیں، مثلاً کتابیں پڑھنا، ٹیوی دیکھنا، دلچسپ مقامات کی سیر کرنا، خریداری کرنا اور نئے نئے موبائل وغیرہ کے بارے میں معلومات اِکٹھی کرنا۔ اِس کے علاوہ بہت سے لوگ اِنٹرنیٹ کے ذریعے باتچیت کرنے، ایمیل کرنے، پیغامات بھیجنے یا پھر حالیہ واقعات یا کھیلوں کی خبریں رکھنے میں بہت سا وقت صرف کرتے ہیں۔ بعض کو تو اِن کی لت پڑ جاتی ہے۔a (واعظ 3:1، 6) اگر ہم غیرضروری کاموں میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو ہمارا دھیان سب سے اہم کام یعنی یہوواہ کی عبادت سے ہٹ جائے گا۔—اِفسیوں 5:15-17 کو پڑھیں۔
8. یہ کیوں ضروری ہے کہ ہم دُنیا کی چیزوں سے محبت نہ رکھیں؟
8 شیطان ہمیں دُنیا کی چیزوں کی طرف کھینچنے اور خدا کی خدمت سے ہمارا دھیان ہٹانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اُس نے پہلی صدی میں ایسا کِیا اور آج تو وہ اَور بھی زیادہ کرتا ہے۔ (2-تیم 4:10) اِس لیے ہمیں اِس نصیحت پر عمل کرنا چاہیے: ”نہ دُنیا سے محبت رکھو نہ اُن چیزوں سے جو دُنیا میں ہیں۔“ ہمیں اِس بات پر غور کرتے رہنا چاہیے کہ دُنیا کی چیزوں کے بارے میں ہماری سوچ کیا ہے اور پھر اگر ضروری ہو تو ہمیں اِسے تبدیل کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے سے ہمارا دھیان خدا کی خدمت پر رہے گا اور ہمارے دل میں ”باپ کی محبت“ بڑھتی جائے گی۔ یوں ہمارے لیے خدا کی مرضی پر چلنا اَور بھی آسان ہو جائے گا اور ہم اُس کی قربت میں رہیں گے۔—1-یوح 2:15-17۔
اپنا دھیان ہٹنے نہ دیں
9. یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو کیا نصیحت کی اور اِس سلسلے میں اُنہوں نے خود کیسی مثال قائم کی؟
9 یسوع مسیح نے نہ صرف مارتھا کو بلکہ اپنے دوسرے شاگردوں کو بھی سکھایا کہ وہ اپنا دھیان دُنیا کی چیزوں پر نہ لگائیں۔ اُنہوں نے شاگردوں کو نصیحت کی کہ اُن کا دھیان یہوواہ اور اُس کی بادشاہت پر رہے۔ (متی 6:22، 33 کو پڑھیں۔) اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے خود ایک شاندار مثال قائم کی۔ اُنہوں نے مالودولت کو جمع نہیں کِیا تھا۔ اُن کے پاس نہ تو اپنا گھر تھا اور نہ ہی زمین۔—لُو 9:58؛ 19:33-35۔
10. یسوع مسیح نے مُنادی کے کام کے سلسلے میں کون سی مثال قائم کی؟
10 یسوع مسیح نے کسی بھی وجہ سے اپنی توجہ مُنادی کے کام سے ہٹنے نہیں دی تھی۔ مثال کے طور پر جب اُنہوں نے مُنادی کا کام شروع کِیا تو وہ کفرنحوم میں گئے۔ وہاں لوگوں نے اُن سے درخواست کی کہ وہ اُن کے شہر میں زیادہ دیر تک رہیں۔ لیکن یسوع مسیح نے اپنا دھیان اُس ذمےداری پر رکھا جو خدا نے اُنہیں سونپی تھی۔ اُنہوں نے کہا: ”مجھے اَور شہروں میں بھی خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنانا ضرور ہے کیونکہ مَیں اِسی لئے بھیجا گیا ہوں۔“ (لُو 4:42-44) یسوع مسیح پیدل دُوردراز علاقوں میں گئے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوشخبری سنا سکیں۔ یہ سچ ہے کہ وہ ایک بےعیب اِنسان تھے پھر بھی بہت زیادہ محنت کرنے کی وجہ سے اُنہیں تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی۔ اِس لیے اُنہیں اکثر آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔—لُو 8:23؛ یوح 4:6۔
11. (الف) یسوع مسیح نے اُس آدمی سے کیا کہا جس کا میراث کا مسئلہ چل رہا تھا؟ (ب) یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو کون سی اہم بات سکھائی؟
11 ایک موقعے پر جب یسوع مسیح اپنے شاگردوں کو یہ بتا رہے تھے کہ وہ مخالفت سے کیسے نپٹ سکتے ہیں تو ایک شخص نے اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا: ”اَے اُستاد! میرے بھائی سے کہہ کہ میراث کا میرا حصہ مجھے دے۔“ یسوع مسیح نے اُس سے کہا: ”میاں! کس نے مجھے تمہارا منصف یا بانٹنے والا مقرر کِیا ہے؟“ یوں اُنہوں نے اِس آدمی کے مسئلے میں اُلجھنے کی بجائے اپنا دھیان اپنے شاگردوں کو تعلیم دینے پر رکھا۔ دراصل اُنہوں نے اُس آدمی کی بات سے اپنے شاگردوں کو یہ سکھایا کہ اگر وہ مالودولت کی جستجو میں رہیں گے تو خدا کی خدمت سے اُن کا دھیان ہٹ جائے گا۔—لُو 12:13-15۔
12، 13. (الف) یہودی مذہب اپنانے والے بعض یونانی لوگ یسوع مسیح کے کس کام سے متاثر ہوئے؟ (ب) جب فِلپّس، یسوع مسیح کو یونانی لوگوں سے ملوانا چاہتے تھے تو یسوع مسیح نے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟
12 یسوع مسیح کی زندگی کا آخری ہفتہ بہت ہی کٹھن تھا۔ (متی 26:38؛ یوح 12:27) وہ جانتے تھے کہ اُنہیں بہت سا کام کرنا ہے اور وہ بہت سی تکلیفیں اُٹھائیں گے یہاں تک کہ اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے گا۔ ذرا غور کریں کہ 9 نیسان 33ء کو اِتوار کے دن کیا ہوا۔ پیشگوئی کے مطابق جب یسوع مسیح گدھے کے بچے پر سوار ہو کر یروشلیم میں آئے تو لوگوں نے یہ نعرے لگائے: ”مبارک ہے وہ بادشاہ جو [یہوواہ] کے نام سے آتا ہے۔“ (لُو 19:38) اِس کے اگلے دن یسوع مسیح ہیکل میں آئے اور اُن لوگوں کو وہاں سے نکالنے لگے جو مہنگے داموں چیزیں بیچ رہے تھے۔—لُو 19:45، 46۔
13 اُس وقت ہیکل میں کچھ یونانی لوگ بھی تھے جنہوں نے یہودی مذہب اپنا لیا تھا۔ جب اُنہوں نے خدا کے گھر کے لیے یسوع مسیح کی غیرت کو دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوئے۔ اُنہوں نے فِلپّس سے کہا کہ وہ اُنہیں یسوع مسیح سے ملوائیں۔ لیکن یسوع مسیح نے یہ سوچ کر اُن لوگوں سے ملنے کی کوشش نہیں کہ اگر وہ اُن میں مقبول ہو جائیں گے تو وہ لوگ اُنہیں موت سے بچا لیں گے۔ اِس کی بجائے یسوع مسیح نے اپنا دھیان یہوواہ کی مرضی پر رکھا۔ یہوواہ کی مرضی یہ تھی کہ یسوع مسیح اپنی جان قربان کریں۔ لہٰذا یسوع نے اپنے شاگردوں کو یاد دِلایا کہ جلد ہی وہ اپنی جان دیں گے۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کی پیروی کرنے والوں کو بھی اپنی جان دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جو اپنی جان کو عزیز رکھتا ہے وہ اُسے کھو دیتا ہے اور جو دُنیا میں اپنی جان سے عداوت رکھتا ہے وہ اُسے ہمیشہ کی زندگی کے لئے محفوظ رکھے گا۔“ اُنہوں نے یہ وعدہ بھی کِیا کہ یہوواہ اپنے بیٹے کے پیروکاروں کی عزت کرے گا اور اُنہیں ہمیشہ کی زندگی دے گا۔ فِلپّس یہ حوصلہافزا پیغام اُن یونانی لوگوں تک پہنچا سکتے تھے جو یسوع مسیح سے ملنے کے مشتاق تھے۔—یوح 12:20-26۔
14. کیا یسوع مسیح مُنادی کے کام کے علاوہ اَور کچھ نہیں کرتے تھے؟
14 یہ سچ ہے کہ یسوع مسیح نے کبھی بھی مُنادی کے کام سے اپنا دھیان ہٹنے نہیں دیا تھا۔ لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اِس کے علاوہ اَور کچھ کرتے ہی نہیں تھے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ کم از کم ایک شادی کی ضیافت پر گئے اور وہاں پانی کو مے بنا کر اُس موقعے کو اَور بھی خوشگوار بنا دیا۔ (یوح 2:2، 6-10) وہ اپنے دوستوں اور بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی رکھنے والوں کے گھروں میں کھانے پر جاتے تھے۔ (لُو 5:29؛ یوح 12:2) سب سے بڑھ کر وہ باقاعدگی سے دُعا کرنے، روحانی معاملات پر سوچ بچار کرنے اور آرام کرنے کے لیے وقت نکالتے تھے۔—متی 14:23؛ مر 1:35؛ 6:31، 32۔
ہر طرح کا بوجھ اُتار دیں
15. پولُس رسول نے مسیحیوں کو کیا نصیحت کی اور اِس سلسلے میں اُنہوں نے خود کیا مثال قائم کی؟
15 پولُس رسول نے کہا کہ مسیحی ایک لمبی دوڑ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کی طرح ہیں۔ اگر وہ اِس دوڑ کو مکمل کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اپنے اُوپر سے ہر طرح کا بوجھ اُتار دینا چاہیے۔ (عبرانیوں 12:1 کو پڑھیں۔) اِس سلسلے میں خود پولُس نے ایک عمدہ مثال قائم کی۔ اگر وہ چاہتے تو ایک نامور مذہبی عالم بن کر دولت کما سکتے تھے۔ مگر اُنہوں نے ایسا نہ کِیا بلکہ اپنا دھیان اُن چیزوں پر رکھا ”جو بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔“ (فل 1:10، اُردو جیو ورشن) اُنہوں نے مُنادی کا کام بڑی محنت اور لگن سے کِیا اور اِس کے لیے وہ دُوردراز علاقوں میں گئے جیسے کہ شام، ایشیائے کوچک، مقدونیہ اور یہودیہ۔ اُنہوں نے اپنی نظر اپنے اجر یعنی آسمان میں ہمیشہ کی زندگی پر رکھی۔ اُنہوں نے کہا: ”جو چیزیں پیچھے رہ گئیں اُن کو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھا ہوا نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں تاکہ . . . اِنعام کو حاصل کروں۔“ (فل 3:8، 13، 14) پولُس غیرشادیشُدہ تھے اور وہ اپنے وقت کا بہترین اِستعمال کرتے ہوئے ”خداوند کی خدمت میں بےوسوسہ مشغول“ رہے۔—1-کُر 7:32-35۔
16، 17. (الف) چاہے ہم شادیشُدہ ہیں یا نہیں، ہم پولُس کی مثال پر عمل کیسے کر سکتے ہیں؟ (ب) ایک میاں بیوی نے کیا کِیا؟
16 پولُس کی طرح آجکل بھی کچھ مسیحی غیرشادیشُدہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں تاکہ وہ خدا کی زیادہ خدمت کر سکیں۔ (متی 19:11، 12) عام طور پر شادیشُدہ لوگوں کی نسبت غیرشادیشُدہ لوگوں کی ذمےداریاں کم ہوتی ہیں۔ لیکن ہم چاہے شادیشُدہ ہوں یا نہ ہوں، ہمیں اپنے اُوپر سے ہر اُس بوجھ کو اُتار دینا چاہیے جو یہوواہ کی خدمت میں رُکاوٹ بن سکتا ہے۔ مثال کے طور پر شاید ہم غیرضروری کاموں میں حد سے زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں اپنے معمول اور عادتوں کو بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو اور ہم یہوواہ کی زیادہ خدمت کر سکیں۔
17 اِس سلسلے میں بھائی مارک اور اُن کی بیوی کلیر کی مثال پر غور کریں۔ وہ ملک ویلز کے رہنے والے ہیں۔ اُن دونوں نے اپنی اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد پہلکار کے طور پر خدمت شروع کی اور شادی کے بعد بھی اِس خدمت کو جاری رکھا۔ بھائی مارک نے بتایا: ”ہم نے اپنی زندگی کو اَور زیادہ سادہ بنانے کے لیے اپنا گھر بیچ دیا اور پارٹ ٹائم کام بھی چھوڑ دیا۔ اِس سب کا مقصد یہ تھا کہ ہم دوسرے ملکوں میں جا کر عبادتگاہوں کو تعمیر کرنے کے کام میں حصہ لے سکیں۔“ گزشتہ 20 سال کے دوران وہ دونوں افریقہ کے مختلف ملکوں میں ہماری عبادتگاہیں تعمیر کرنے میں حصہ لے چکے ہیں۔ ایک بار اُن کے پاس صرف 15 ڈالر رہ گئے مگر یہوواہ نے اُن کا خیال رکھا۔ بہن کلیر نے بتایا: ”ہر روز یہوواہ کی خدمت کرنے سے ہمیں بہت خوشی اور اِطمینان ملتا ہے۔ ہم نے اِن تمام سالوں کے دوران بہت اچھے دوست بنائے ہیں اور ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہم نے جو قربانیاں دی ہیں، وہ اُس خوشی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو کُلوقتی خدمت کرنے سے ہمیں ملی ہے۔“ بھائی مارک اور بہن کلیر کے علاوہ اَور بھی بہت سے بہن بھائی ہیں جنہیں کُلوقتی خدمت کرنے سے بہت سی برکتیں ملی ہیں۔
18. ہم خود سے کون سا سوال پوچھ سکتے ہیں؟
18 کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ کچھ کاموں یا چیزوں کی وجہ سے خدا کی خدمت پر پورا دھیان نہیں دے پا رہے؟ اگر ایسا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اِس کے لیے شاید آپ کو بائبل پڑھنے اور اِس پر سوچ بچار کرنے کے طریقے میں بہتری لانے کی ضرورت ہو۔ اگلے مضمون میں بتایا جائے گا کہ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں۔
a مضمون ”نادان ہر بات کا یقین کر لیتا ہے“ کو دیکھیں۔