”ان باتوں کا واقع ہونا ضرور ہے“
”یسوؔع نے . . . اُن سے کہا . . . ان باتوں کا واقع ہونا ضرور ہے لیکن اس وقت خاتمہ نہ ہوگا۔“—متی ۲۴:۴-۶۔
۱. کونسا موضوع ہماری دلچسپی کا حامل ہے؟
بِلاشُبہ آپ اپنی زندگی اور اپنے مستقبل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو آپ کو اُس موضوع میں بھی دلچسپی لینی چاہئے جو ۱۸۷۷ میں سی. ٹی. رسل کی توجہ کا مرکز بنا۔ رسل جس نے بعدازاں واچ ٹاور سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، اُس نے دی آبجیکٹ اینڈ مینر آف آور لارڈز ریٹرن (ہمارے خداوند کی واپسی کا مقصد اور طریقہ) کتابچہ تصنیف کِیا۔ اس ۶۴ صفحے کے کتابچے میں یسوع کی واپسی یا آئندہ آمد کی بابت بتایا گیا تھا۔ (یوحنا ۱۴:۳) ایک موقع پر زیتون کے پہاڑ پر، رسولوں نے اسی واپسی کی بابت پوچھا تھا: ”یہ باتیں کب ہونگی؟ اور تیرے آنے [”موجودگی،“ اینڈبلیو] اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“—متی ۲۴:۳۔
۲. یسوع کی پیشینگوئی کی بابت اتنا اختلافِرائے کیوں ہے؟
۲ کیا آپ یسوع کے جواب کو جانتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تین اناجیل میں ملتا ہے۔ پروفیسر ڈی. اے. کارسن بیان کرتا ہے: ”متی ۲۴ اور اسکے مماثل مرقس ۱۳ اور لوقا ۲۱ کی نسبت بائبل کے دیگر ابواب مبصرین میں اتنے زیادہ اختلافِرائے کا باعث نہیں بنے ہیں۔“ اسکے بعد وہ اپنی رائے پیش کرتا ہے—یہ بھی متضاد انسانی نظریات میں سے ایک ہے۔ گزشتہ صدی ہی میں، ایسے بہتیرے نظریات نے ایمان کی کمی کی عکاسی کی تھی۔ ان نظریات کو پیش کرنے والے رائےزنی کرتے ہیں کہ یسوع نے اناجیل میں درج یہ باتیں کبھی کہیں ہی نہیں تھیں یا پھر اُس کی باتوں میں بعدازاں تحریف کر دی گئی تھی یا اُس کی پیشینگوئی تکمیلپذیر نہ ہوئی—یہ نقادوں کے نظریات ہیں۔ ایک مبصر نے تو مرقس کی انجیل کا مطالعہ ’ماہیانہ-بدھسٹ فلسفے کی روشنی‘ میں کِیا!
۳. یہوواہ کے گواہ یسوع کی پیشینگوئی کو کیسا خیال کرتے ہیں؟
۳ اس کے برعکس، یہوواہ کے گواہ بائبل کو مستند اور قابلِاعتماد خیال کرتے ہیں جس میں یسوع کی وہ باتیں بھی شامل ہیں جو اُس نے اپنے اُن چار رسولوں سے کہیں جو اُس کی موت سے تین روز قبل اُس کے ساتھ زیتون کے پہاڑ پر تھے۔ سی. ٹی. رسل کے زمانے سے لیکر، خدا کے لوگوں نے اُس پیشینگوئی کی تدریجاً واضح سمجھ حاصل کی ہے جو یسوع نے وہاں پیش کی تھی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران، مینارِنگہبانی نے اس پیشینگوئی کے سلسلے میں اُن کے نظریے کی مزید وضاحت کی ہے۔ کیا آپ نے اپنی زندگی پر اس کے اثر کو محسوس کرتے ہوئے تمام معلومات کو قبول کر لیا ہے؟a آئیے ان پر نظرثانی کریں۔
مستقبل قریب میں ایک المناک تکمیل
۴. رسولوں نے یسوع سے مستقبل کی بابت کیوں پوچھا ہوگا؟
۴ رسول جانتے تھے کہ یسوع مسیحا ہے۔ لہٰذا جب اُنہوں نے اُسے اپنی موت، قیامت اور واپسی کا ذکر کرتے ہوئے سنا تو اُن کے ذہن میں یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ ’اگر یسوع وفات پا جاتا ہے اور چلا جاتا ہے تو وہ اُن کاموں کو کیسے کر سکتا ہے جو مسیحا کو کرنے ہیں؟‘ مزیدبرآں، یسوع نے یروشلیم اور اُس کی ہیکل کے خاتمے کا بھی ذکر کِیا تھا۔ رسولوں نے شاید سوچا ہو کہ ’یہ کب اور کیسے ہوگا؟‘ ان باتوں کو سمجھنے کی غرض سے رسولوں نے پوچھا: ”یہ باتیں کب ہونگی؟ اور جب یہ سب باتیں پوری ہونے کو ہوں اُس وقت کا کیا نشان ہے؟“—مرقس ۱۳:۴؛ متی ۱۶:۲۱، ۲۷، ۲۸؛ ۲۳:۳۷–۲۴:۲۔
۵. یسوع کے جواب کی تکمیل پہلی صدی میں کیسے ہوئی تھی؟
۵ یسوع نے پیشینگوئی کی کہ جنگیں ہوں گی، کال پڑیں گے، وبائیں پھیلیں گی، بھونچال آئیں گے، مسیحی نفرت اور اذیت کا نشانہ بنیں گے، جھوٹے مسیحا اُٹھ کھڑے ہونگے اور وسیع پیمانے پر بادشاہی کی خوشخبری کی منادی ہوگی۔ پھر خاتمہ ہوگا۔ (متی ۲۴:۴-۱۴؛ مرقس ۱۳:۵-۱۳؛ لوقا ۲۱:۸-۱۹) یسوع نے یہ باتیں ۳۳ س.ع. کے اوائل میں کہی تھیں۔ آئندہ عشروں کے دوران، اُس کے مستعد شاگرد پہچان سکتے تھے کہ پیشینگوئی کی باتیں دراصل صریحاً واقع ہو رہی تھیں۔ مزیدبرآں، تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُس وقت اس نشان کی واقعی تکمیل ہوئی تھی جو ۶۶-۷۰ س.ع. میں رومیوں کے ہاتھوں یہودی نظامالعمل کے خاتمے پر منتج ہوا۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟
۶. رومیوں اور یہودیوں کے مابین ۶۶ س.ع. میں کیا حالت پیدا ہوگئی تھی؟
۶ یہودی زیلوتیس نے ۶۶ س.ع. میں یہودیہ کے موسمِگرما کے دوران یروشلیم میں ہیکل کے قریب ایک قلعے کے اندر رومی سپاہیوں پر دھاوا بول دیا جس سے ملک میں ہر طرف تشدد کی آگ بھڑک اُٹھی۔ ہسٹری آف دی جیوز نامی کتاب میں، پروفیسر ہنرک گرٹس بیان کرتا ہے: ”سوریہ کے گورنر سیسٹیئس گیلس کا یہ فرض تھا کہ وہ رومی اقتدار کے وقار کو بلند رکھے . . . لہٰذا وہ اپنے اردگرد بڑھنے والی بغاوت کو مزید گوارا نہیں کر سکتا تھا، اسی وجہ سے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے اُس کی طرف سے کارروائی ضروری ہو گئی تھی۔ اُس نے اپنے لشکروں کو اکٹھا کِیا اور پڑوسی شہزادوں نے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی فوجیں بھیج دیں۔“ اس ۳۰،۰۰۰ کی فوج نے یروشلیم کا محاصرہ کر لیا۔ کچھ دیر کی محاذآرائی کے بعد، یہودی ہیکل کے قریب دیواروں کے پیچھے جا چھپے۔ ”رومی پانچ دن تک لگاتار دیواروں پر حملہ کرتے رہے مگر ہر بار یہودیہ کے باشندوں کے تیر اُنہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے۔ تاہم چھٹے دن وہ ہیکل کے سامنے والی شمالی دیوار میں رخنہ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے۔“
۷. بیشتر یہودیوں کی نسبت یسوع کے شاگرد معاملات کو مختلف نظریے سے کیوں دیکھ سکتے تھے؟
۷ ذرا یہودیوں کی پریشانی کا تصور کریں کیونکہ مدت سے وہ یہ ایمان رکھتے تھے کہ خدا اُن کی اور اُن کے مُقدس شہر کی حفاظت کرے گا! تاہم، یسوع کے شاگردوں کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ یروشلیم پر آفت آنے والی ہے۔ یسوع پیشینگوئی کر چکا تھا: ”وہ دن تجھ پر آئیں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے۔ اور تجھ کو اور تیرے بچوں کو جو تجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے اور تجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ چھوڑینگے۔“ (لوقا ۱۹:۴۳، ۴۴) تاہم کیا ۶۶ س.ع. میں یروشلیم کے اندر رہنے والے مسیحیوں کے لئے اس کا مطلب موت ہوگا؟
۸. یسوع نے کس المیے کی پیشینگوئی کی اور وہ ”برگزیدے“ کون ہیں جنکی خاطر دن گھٹائے جائینگے؟
۸ زیتون کے پہاڑ پر رسولوں کو جواب دیتے وقت، یسوع نے پیشگوئی کی: ”وہ دن ایسی مصیبت کے ہونگے کہ خلقت کے شروع سے جسے خدا نے خلق کِیا نہ اب تک ہوئی ہے نہ کبھی ہوگی۔ اور اگر خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] اُن دنوں کو نہ گھٹاتا تو کوئی بشر نہ بچتا مگر اُن برگزیدوں کی خاطر جن کو اُس نے چنا اُن دنوں کو گھٹایا۔“ (مرقس ۱۳:۱۹، ۲۰؛ متی ۲۴:۲۱، ۲۲) پس ”برگزیدوں“ کو بچانے کی خاطر دن گھٹائے جائیں گے۔ وہ کون تھے؟ باغی یہودی تو بالکل نہیں ہو سکتے جو یہوواہ کی پرستش کرنے کا دعویٰ تو کرتے تھے مگر اُنہوں نے اُس کے بیٹے کو رد کر دیا تھا۔ (یوحنا ۱۹:۱-۷؛ اعمال ۲:۲۲، ۲۳، ۳۶) اُس وقت اصلی برگزیدہ وہ یہودی اور غیریہودی تھے جو یسوع پر مسیحا اور نجاتدہندہ کے طور پر ایمان رکھتے تھے۔ خدا نے ایسے لوگوں کو چنا تھا اور پنتِکُست ۳۳ س.ع. پر اُس نے اُنہیں ایک نئی روحانی قوم، ”خدا کے اؔسرائیل“ کے طور پر تشکیل دیا تھا۔—گلتیوں ۶:۱۶؛ لوقا ۱۸:۷؛ اعمال ۱۰:۳۴-۴۵؛ ۱-پطرس ۲:۹۔
۹، ۱۰. رومی حملے کے دن کیسے ”گھٹائے“ گئے تھے اور اسکا کیا نتیجہ نکلا تھا؟
۹ کیا دن واقعی ”گھٹائے“ گئے تھے اور یروشلیم میں ممسوح برگزیدہ بچ گئے تھے؟ پروفیسر گرٹس بیان کرتا ہے: ”[سیسٹیئس گیلس] کے خیال میں ایسے موسم میں اُن جیالوں کے خلاف جنگ کی طویل مہم کو جاری رکھنا قرینِمصلحت نہیں تھا جبکہ جلد ہی خزاں کی بارشیں شروع ہونے والی تھیں . . . جو فوج کی غذائی رسد میں رکاوٹ ڈال سکتی تھیں۔ غالباً اسی وجہ سے اُس نے واپس چلے جانے کو زیادہ دانشمندی کی بات سمجھا۔“ سیسٹیئس گیلس کی سوچ خواہ کچھ بھی تھی، رومی فوج شہر سے پیچھے ہٹ گئی جس کی وجہ سے اُنہیں تعاقب کرنے والے یہودیوں کی طرف سے بھاری نقصان اُٹھانا پڑا۔
۱۰ رومیوں کی حیرانکُن پسپائی سے ”بشر“—یروشلیم کے اندر خطرے میں گھرے ہوئے یسوع کے شاگردوں—کو بچ نکلنے کا موقع مل گیا۔ تاریخ بیان کرتی ہے کہ مسیحی جونہی موقع ملا اُس علاقے سے بھاگ گئے۔ مستقبل کو پیشازوقت جاننے اور اپنے پرستاروں کے بچاؤ کو یقینی بنانے کی خدائی لیاقت کا کیا ہی شاندار اظہار! تاہم، یروشلیم اور یہودیہ میں پیچھے رہ جانے والے بےایمان یہودیوں کی بابت کیا ہے؟
ہمعصر اسے دیکھینگے
۱۱. یسوع نے ”یہ نسل“ کی بابت کیا کہا تھا؟
۱۱ بہتیرے یہودیوں کا خیال تھا کہ ہیکل پر مُرتکز اُنکا نظامِپرستش ہمیشہ چلتا رہے گا۔ تاہم یسوع نے کہا: ”اب انجیر کے درخت سے . . . سیکھو۔ جونہی اس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ گرمی نزدیک ہے۔ اسی طرح جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک ہے بلکہ دروازہ پر ہے۔ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں یہ نسل ہرگز تمام نہ ہوگی۔ آسمان اور زمین ٹل جائیں گے لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلینگی۔“—متی ۲۴:۳۲-۳۵۔
۱۲، ۱۳. ”یہ نسل“ کے سلسلے میں یسوع کے بیان کی بابت شاگردوں نے کیا سمجھا ہوگا؟
۱۲ مسیحیوں نے ۶۶ س.ع. سے پہلے کے سالوں میں، مرکب نشان کے بہتیرے بنیادی پہلوؤں—جنگوں، کالوں اور وسیع پیمانے پر بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کو بھی—تکمیل پاتے دیکھا ہوگا۔ (اعمال ۱۱:۲۸؛ کلسیوں ۱:۲۳) تاہم، خاتمہ کب آئے گا؟ یسوع کی اس سے کیا مُراد تھی جب اُس نے کہا: ’یہ نسل [یونانی، جینیا] تمام نہ ہوگی‘؟ یسوع نے اکثر اپنے ہمعصر مخالف یہودیوں کے گروہ کو جس میں مذہبی پیشوا بھی شامل تھے ’بُری اور زناکار نسل‘ کہا تھا۔ (متی ۱۱:۱۶؛ ۱۲:۳۹، ۴۵؛ ۱۶:۴؛ ۱۷:۱۷؛ ۲۳:۳۶) لہٰذا، زیتون کے پہاڑ پر اُس نے پھر اسی ”نسل“ کا ذکر کِیا، اُس کی مُراد ساری تاریخ کے دوران یہودیوں کی تمام پُشت سے نہیں تھی؛ نہ ہی اُس کی مُراد اپنے پیروکاروں سے تھی، حالانکہ وہ ”برگزیدہ نسل“ تھے۔ (۱-پطرس ۲:۹) یسوع یہ بھی نہیں کہہ رہا تھا کہ ”یہ نسل“ کوئی وقتی مدت ہے۔
۱۳ اس کے برعکس، یسوع کے ذہن میں اُس وقت کے مخالف یہودی تھے جو اُس کے دئے ہوئے نشان کی تکمیل کا تجربہ کریں گے۔ لوقا ۲۱:۳۲ میں ”یہ نسل“ کی اصطلاح کے حوالے سے پروفیسر جوئیل بی. گرین بیان کرتا ہے: ”تیسری انجیل میں اصطلاح ’یہ نسل‘ (اور متعلقہ اصطلاحوں) کو لوگوں کے ایسے طبقے کے مفہوم میں باقاعدگی سے استعمال کِیا گیا ہے جو خدا کے مقصد کی مزاحمت کرتے ہیں۔ . . . [یہ] اُن لوگوں کی طرف [اشارہ] کرتا ہے جو ہٹدھرمی سے الہٰی مقصد سے مُنہ پھیر لیتے ہیں۔“b
۱۴. اُس ”نسل“ کو کیا تجربہ پیش آیا لیکن مسیحیوں کیلئے فرق نتیجہ کیوں تھا؟
۱۴ نشان کی تکمیل کا مشاہدہ کرنے والے یہودی مخالفین کی بدکار نسل بھی خاتمے کا تجربہ کرے گی۔ (متی ۲۴:۶، ۱۳، ۱۴) چنانچہ اُنہوں نے اس کا تجربہ بھی کِیا! رومی فوج شہنشاہ وسپاسین کے بیٹے ططس کی زیرِکمان ۷۰ س.ع. میں واپس آئی۔ شہر میں پھر پھنس جانے والے یہودیوں کی تکلیف ناقابلِیقین ہے۔c عینی شاہد فلاویس یوسیفس بیان کرتا ہے کہ رومیوں کے شہر کو مسمار کرنے تک تقریباً ۱۱،۰۰،۰۰۰ یہودی مر چکے تھے اور کوئی ۱،۰۰،۰۰۰ اسیر ہو گئے تھے جن میں سے بیشتر جلد ہی فاقے سے یا رومی تھیئٹروں میں خوفناک موت مرے۔ واقعی، ۶۶-۷۰ س.ع. کی مصیبت یروشلیم اور یہودی نظام کے لئے بہت بڑی تھی جس کا نہ کبھی پہلے تجربہ ہوا اور نہ کبھی ہوگا۔ اُن مسیحیوں کا انجام کسقدر فرق تھا جنہوں نے یسوع کی نبوّتی آگاہی پر دھیان دیا اور ۶۶ س.ع. میں رومی فوجوں کی واپسی کے بعد یروشلیم کو چھوڑ دیا تھا! ”برگزیدہ“ ممسوح مسیحی ۷۰ س.ع. میں ”بچ“ گئے یا محفوظ رکھے گئے۔—متی ۲۴:۱۶، ۲۲۔
وقوع میں آنے والی ایک اَور تکمیل
۱۵. ہم کیسے یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوع کی پیشینگوئی کی ۷۰ س.ع. کے بعد ایک بڑی تکمیل ہوگی؟
۱۵ تاہم، یہی آخر نہیں تھا۔ یسوع پہلے نشاندہی کر چکا تھا کہ شہر کے تباہ ہو جانے کے بعد وہ یہوواہ کے نام سے آئے گا۔ (متی ۲۳:۳۸، ۳۹؛ ۲۴:۲) اِسکے بعد اُس نے زیتون کے پہاڑ پر پیشینگوئی میں اسکی وضاحت کی۔ ”بڑی مصیبت“ کا ذکر کرتے ہوئے اُس نے بیان کِیا کہ بعدازاں جھوٹے مسیح ظاہر ہونگے اور غیرقومیں یروشلیم کو طویل مدت تک پامال کرتی رہیں گی۔ (متی ۲۴:۲۱، ۲۳-۲۸؛ لوقا ۲۱:۲۴) کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک اَور بڑی تکمیل ہونے والی تھی؟ حقائق کا جواب ہاں ہے۔ جب ہم مکاشفہ ۶:۲-۸ کا (یروشلیم پر ۷۰ س.ع. کی مصیبت کے بعد لکھی گئی) متی ۲۴:۶-۸ اور لوقا ۲۱:۱۰، ۱۱ سے موازنہ کرتے ہیں تو ہم جنگ، غذائی قلّت اور وبا کو وسیع پیمانے پر اپنے سامنے دیکھتے ہیں۔ یسوع کے الفاظ کی یہ بڑی تکمیل ۱۹۱۴ میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ کے وقت سے وقوعپذیر ہے۔
۱۶-۱۸. ہمیں اَور کس چیز کے وقوعپذیر ہونے کی توقع ہے؟
۱۶ اب کئی عشروں سے، یہوواہ کے گواہ تعلیم دیتے رہے ہیں کہ نشان کی حالیہ تکمیل ثابت کرتی ہے کہ ”بڑی مصیبت“ ابھی آنے والی ہے۔ موجودہ بدکار ”نسل“ اس مصیبت کو دیکھے گی۔ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ۶۶ س.ع. میں گیلس کے حملے سے یروشلیم پر مصیبت کی ابتدا ہوئی تھی، ویسا ہی ایک ابتدائی مرحلہ (تمام جھوٹے مذہب پر حملہ) دوبارہ شروع ہوگا۔d پھر، ایک غیرمُعیّنہ مدت کے بعد، خاتمہ—۷۰ س.ع. کے مماثل، عالمی پیمانے پر تباہی—آئیگا۔
۱۷ آنے والی مصیبت کا ذکر کرتے ہوئے، یسوع نے بیان کِیا: ”فوراً ان دنوں کی مصیبت [جھوٹے مذہب کی تباہی] کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی۔ اس وقت ابنِآدؔم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا۔ اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابنِآدؔم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھینگی۔“—متی ۲۴:۲۹، ۳۰۔
۱۸ پس یسوع خود فرماتا ہے کہ ”اُن دنوں کی مصیبت کے بعد“ کچھ فلکی مظاہر رُونما ہونگے۔ (مقابلہ کریں یوایل ۲:۲۸-۳۲؛ ۳:۱۵۔) اس سے نافرمان انسان اسقدر حواسباختہ ہو جائینگے کہ وہ ”چھاتی پیٹیں“ گے۔ ”ڈر کے مارے اور زمین پر آنے والی بلاؤں کی راہ دیکھتے دیکھتے“ بہتیرے لوگوں کی ”جان میں جان نہ رہیگی۔“ تاہم سچے مسیحیوں کیساتھ ایسا نہیں ہوگا! وہ ’اپنے سر اُوپر اُٹھائینگے کیونکہ اُنکی مخلصی نزدیک ہوگی۔‘—لوقا ۲۱:۲۵، ۲۶، ۲۸۔
آئندہ عدالت!
۱۹. ہم کیسے تعیّن کر سکتے ہیں کہ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کب پوری ہوگی؟
۱۹ غور فرمائیں کہ متی ۲۴:۲۹-۳۱ پیشینگوئی کرتی ہیں کہ (۱) ابنِآدم آتا ہے، (۲) یہ آمد بڑے جلال کے ساتھ ہوگی، (۳) فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہونگے اور (۴) زمین کے سب قبیلے اُسے دیکھیں گے۔ یسوع بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں ان پہلوؤں کو دہراتا ہے۔ (متی ۲۵:۳۱-۴۶) پس، ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس تمثیل کا تعلق مصیبت کی ابتدا کے بعد کے وقت سے ہے جب یسوع اپنے فرشتوں کے ساتھ آئے گا اور عدالت کے لئے اپنے تخت پر بیٹھے گا۔ (یوحنا ۵:۲۲؛ اعمال ۱۷:۳۱؛ مقابلہ کریں ۱-سلاطین ۷:۷؛ دانیایل ۷:۱۰، ۱۳، ۱۴، ۲۲، ۲۶؛ متی ۱۹:۲۸۔) کن کی عدالت ہوگی اور کیا نتیجہ نکلے گا؟ تمثیل بیان کرتی ہے کہ یسوع سب قوموں پر توجہ کرے گا گویا وہ اُس کے آسمانی تخت کے آگے جمع ہوں۔
۲۰، ۲۱. (ا) یسوع کی تمثیل کی بھیڑوں کیساتھ کیا واقع ہوگا؟ (ب) بکریوں کو مستقبل میں کیا تجربہ ہوگا؟
۲۰ بھیڑخصلت مردوں اور عورتوں کو یسوع کی خوشنودی میں اُس کی دہنی طرف جمع کِیا جائے گا۔ کیوں؟ اس لئےکہ اُنہوں نے اُس کے بھائیوں—مسیح کی آسمانی بادشاہت میں شریک ہونے والے ممسوح مسیحیوں—کے ساتھ نیکی کرنے کے مواقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ (دانیایل ۷:۲۷؛ عبرانیوں ۲:۹–۳:۱) تمثیل کی مطابقت میں، لاکھوں بھیڑخصلت مسیحیوں نے یسوع کے روحانی بھائیوں کو پہچان لیا ہے اور اُن کی حمایت میں کام کر رہے ہیں۔ نتیجتاً، یہ بڑی بِھیڑ ”بڑی مصیبت“ سے بچنے اور فردوس، خدا کی بادشاہت کی زمینی عملداری میں ہمیشہ تک زندہ رہنے کی بائبل پر مبنی اُمید رکھتی ہے۔—مکاشفہ ۷:۹، ۱۴؛ ۲۱:۳، ۴؛ یوحنا ۱۰:۱۶۔
۲۱ بکریوں کا انجام کتنا فرق ہوگا! متی ۲۴:۳۰ میں اُنہیں یسوع کے آنے پر ’غم کیساتھ چھاتی پیٹتے‘ بتایا گیا ہے۔ اُن کا ایسا کرنا بجا ہے کیونکہ وہ بادشاہتی خوشخبری کو رد کرنے، یسوع کے شاگردوں کی مخالفت کرنے اور مٹنے والی دُنیا کو ترجیح دینے کا ثبوت دے چکے ہونگے۔ (متی ۱۰:۱۶-۱۸؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) اس بات کا تعیّن اُس کے زمینی شاگردوں کی بجائے خود یسوع کرتا ہے کہ بکریاں کون ہیں۔ اُن کی بابت وہ کہتا ہے: ”یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے۔“—متی ۲۵:۴۶۔
۲۲. یسوع کی پیشینگوئی کا کونسا حصہ ہماری طرف سے مزید توجہ چاہتا ہے؟
۲۲ متی ۲۴ اور ۲۵ ابواب کی پیشینگوئی کی سمجھ میں بہتری نہایت ہیجانخیز ثابت ہوئی ہے۔ تاہم، یسوع کی پیشینگوئی کا ایک ایسا حصہ بھی ہے—’اُجاڑنے والی مکروہ چیز کا مُقدس مقام میں کھڑا ہونا‘ جو ہماری مزید توجہ کا مستحق ہے۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو تاکید کی تھی کہ اس کی بابت پڑھتے وقت فہم استعمال کریں اور موزوں کارروائی کرنے کے لئے تیار رہیں۔ (متی ۲۴:۱۵، ۱۶) یہ ”مکروہ چیز“ کیا ہے؟ یہ مُقدس مقام میں کب کھڑی ہوتی ہے؟ نیز اس میں ہماری موجودہ اور آئندہ زندگی کے امکانات کیسے شامل ہیں؟ اگلے مضمون میں اس پر بحث کی جائے گی۔
[فٹنوٹ]
a مینارِنگہبانی کے مئی ۱۹۹۴؛ دسمبر ۱۹۹۵؛ اور اکتوبر ۱۹۹۶ کے شماروں میں مطالعے کے مضامین کو دیکھیں۔
b برطانوی سکالر جی. آر. بیزلے مرے بیان کرتا ہے: ”’یہ نسل‘ کے اظہار کو مترجمین کیلئے کسی مشکل کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ اگرچہ یہ تسلیم کِیا جا سکتا ہے کہ ابتدائی یونانی میں جینیا کا مطلب پیدائش، آلاولاد اور پُشت ہے، . . . [یونانی سپتواُجنتا] میں اسے اکثر عبرانی اصطلاح دَور کا ترجمہ کرنے کیلئے استعمال کِیا گیا ہے جسکا مطلب زمانہ، نوعِانسان کی عمر یا نسل بمعنی معاصرین ہے۔ . . . یسوع سے منسوب کہاوتوں میں یہ اصطلاح دہرا مفہوم رکھتی ہے: ایک طرف تو یہ ہمیشہ اُسکے معاصرین کا اور دوسری طرف ہمیشہ تنقید کا مفہوم دیتی ہے۔“
c پروفیسر گرٹس ہسٹری آف دی جیوز میں بیان کرتا ہے کہ بعضاوقات تو رومیوں نے ایک دن میں ۵۰۰ قیدیوں کو سولی پر لٹکایا۔ دیگر اسیر یہودیوں کے ہاتھ کاٹ کر اُنہیں واپس شہر میں بھیج دیا گیا۔ وہاں حالتیں کیسی تھیں؟ ”پیسے کی قدر اتنی گِر گئی تھی کہ اس سے روٹی بھی نہیں خریدی جا سکتی تھی۔ لوگ گھٹیا سے گھٹیا اور غلیظ کھانے کی چیز، مٹھی بھر اناج، نہ گلنے والے گوشت کے ایک سخت ٹکڑے یا کتوں کے سامنے پھینکے جانے والے چھیچھڑوں کیلئے بھی گلیوں میں لڑ پڑتے تھے۔ . . . غیرمدفون لاشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے موسمِگرما کی گرممرطوب ہوا وبائی بن گئی، ان حالات میں لوگ بیماری، قحط اور تلوار کا لقمہ ہو گئے۔“
d اگلا مضمون آئندہ مصیبت کے اس پہلو پر گفتگو کرتا ہے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
◻پہلی صدی میں متی ۲۴:۴-۱۴ کی کونسی تکمیل ہوئی تھی؟
◻رسولوں کے زمانہ میں، متی ۲۴:۲۱، ۲۲ کی پیشینگوئی کے مطابق، بشر کو بچانے کیلئے دن کیسے گھٹائے گئے تھے؟
◻متی ۲۴:۳۴ میں مذکورہ ”نسل“ کا خاصہ کیا ہے؟
◻ہم کیسے جانتے ہیں کہ زیتون کے پہاڑ پر پیش کی گئی پیشینگوئی کی ایک اَور بڑی تکمیل ہوگی؟
◻بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کب اور کیسے پوری ہوگی؟
[صفحہ 12 پر تصویر]
روم میں محرابِططس کی تفصیلات میں یروشلیم کی تباہی سے حاصل ہونے والا مالِغنیمت دکھایا گیا ہے
[تصویر کا حوالہ]
Soprintendenza Archeologica di Roma