ہر کوئی آزاد ہوگا
”میری دانست میں اس زمانہ کے دکھ درد اس لائق نہیں کہ اُس جلال کے مقابل ہو سکیں جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے۔ کیونکہ مخلوقات کمال آرزو سے خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ دیکھتی ہے۔ اسلئے کہ مخلوقات بطالت کے اختیار میں کر دی گئی تھی۔ نہ اپنی خوشی سے بلکہ اُس کے باعث سے جس نے اُس کو اس اُمید پر بطالت کے اختیار میں کر دیا کہ مخلوقات بھی فنا کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہو جائیگی۔ کیونکہ ہم کو معلوم ہے کہ ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزِہ میں پڑی تڑپتی ہے۔“—رومیوں ۸:۱۸-۲۲۔
روم کے مسیحیوں کے نام اپنے خط کے اس حصے میں، پولس اس بات کا شاندار خاکہ پیش کرتا ہے کہ زندگی میں حقیقی آزادی کا فقدان اور اکثر محرومیت کا شدید احساس اور دُکھدرد کیوں ہوتا ہے۔ وہ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ ہم حقیقی آزادی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
”اس زمانہ کے دُکھدرد“
پولس یہ کہہ کر کہ ”اس زمانہ کے دُکھدرد اس لائق نہیں کہ اُس جلال کے مقابل ہو سکیں جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے،“ اِن کی شدت کو کم نہیں کرتا۔ پولس اور اُس کے بعد کے زمانہ میں، انسانی حقوق کی پرواہ نہ کرنے والے رومی حکام کی سختگیر مطلقالعنان حکومت کے تحت مسیحیوں نے بہت دکھ اُٹھائے۔ ایک دَور میں تو روم یہ سمجھنے لگا تھا کہ مسیحی ملک دشمن ہیں جسکی وجہ سے حکومت نے اُنہیں وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا۔ مؤرخ جے. ایم. رابرٹس بیان کرتا ہے: ”دارالحکومت [روم] میں بہتیرے مسیحی ارینا [مدور اکھاڑے] میں خوفناک موت مرے یا پھر زندہ جلا دئے گئے۔“ (شارٹر ہسٹری آف دی ورلڈ) نیرو کے ہاتھوں اذیت کا نشانہ بننے والے ان لوگوں کی بابت ایک اَور رپورٹ بیان کرتی ہے: ”بعض کو صلیب پر لٹکا دیا جاتا، بعض کو جانوروں کی کھالوں میں سی دیا جاتا اور اُن پر کتے چھوڑ دئے جاتے، بعض کے اُوپر تارکول ڈال کر آگ لگا دی جاتی تاکہ جب اندھیرا ہو تو وہ جیتیجاگتی مشعلوں کا کام دیں۔“—نیو ٹسٹامنٹ ہسٹری از ایف. ایف. بروس۔
وہ ابتدائی مسیحی ایسے ظلم سے آزادی تو چاہتے ہونگے مگر وہ اسے حاصل کرنے کی خاطر یسوع مسیح کی تعلیمات سے انحراف نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مثال کے طور پر، وہ رومی اربابِاختیار اور زیلوتیس یعنی یہودی حریتپسندوں کے مابین آویزش میں بالکل غیرجانبدار رہے۔ (یوحنا ۱۷:۱۶؛ ۱۸:۳۶) زیلوتیس کے نزدیک ”خدا کے مقررہ وقت کا انتظار کرنا موجودہ بحران کا حل نہیں تھا۔“ وہ کہتے تھے کہ ”دشمن،“ روم کے ”خلاف متشدّد کارروائی“ کی ضرورت ہے۔ (نیو ٹسٹامنٹ ہسٹری) تاہم، ابتدائی مسیحیوں کی سوچ فرق تھی۔ اُن کے خیال میں ”خدا کے مقررہ وقت کا انتظار کرنا“ واحد حقیقتپسندانہ انتخاب تھا۔ اُنہیں یقین تھا کہ صرف الہٰی مداخلت ہی ”اس زمانہ کے دُکھدرد“ کو مستقل طور پر ختم کر کے حقیقی، دائمی آزادی لائیگی۔ (میکاہ ۷:۷؛ حبقوق ۲:۳) البتہ، اس سے پہلے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگا، آئیے اس بات کا جائزہ لیں کہ کیوں ”مخلوقات بطالت کے اختیار میں“ کر دی گئی تھی۔
”بطالت کے اختیار میں“
بنجیمن وِلسن دی ایمفیٹک ڈایاگلوٹ میں بیان کرتا ہے کہ بعض کے خیال کے مطابق یہاں لفظ ”مخلوقات“ کا مطلب ”بےشعور، بےجان مخلوقات“ نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس، اس سے مُراد ”تمام نوعِانسان“ ہیں۔ (مقابلہ کریں کلسیوں ۱:۲۳۔) یہ تمام انسانی خاندان کی طرف اشارہ کرتا ہے—ہم سب جو آزادی کے آرزومند ہیں۔ ہم اپنے پہلے والدین کے اعمال کی وجہ سے ”بطالت کے اختیار“ میں کر دئے گئے تھے۔ یہ ”نہ [ہماری] اپنی مرضی سے“ اور نہ ہی ہمارے ذاتی انتخاب کی وجہ سے ہوا تھا۔ ہم نے اِس حالت کو ورثے میں پایا تھا۔ صحیفائی نقطۂنظر سے، رُوسو کا یہ نظریہ غلط تھا کہ ”انسان آزاد پیدا ہوا تھا۔“ ہم سب گناہ اور ناکاملیت کی غلامی، گویا مایوسی اور بطالت سے پُر ایک نظام کی غلامی میں پیدا ہوئے تھے۔—رومیوں ۳:۲۳۔
ایسا کیوں ہوا تھا؟ اس لئے کہ ہمارے پہلے والدین، آدم اور حوّا ”خدا کی مانند“ مکمل خودمختاری کے ساتھ اپنے لئے نیکوبد کا فیصلہ کرنے والے بننا چاہتے تھے۔ (پیدایش ۳:۵) وہ آزادی کے ایک اہم پہلو کو بھول گئے۔ صرف خالق ہی مطلق آزادی کا مالک ہو سکتا ہے۔ وہ کائنات کا حاکمِاعلیٰ ہے۔ (یسعیاہ ۳۳:۲۲؛ مکاشفہ ۴:۱۱) انسانی آزادی کا مطلب محدود آزادی ہے۔ اسی لئے شاگرد یعقوب نے اپنے زمانے کے مسیحیوں کی ”آزادی کی کامل شریعت“ کے زیرِاثر رہنے کے لئے حوصلہافزائی کی تھی۔—یعقوب ۱:۲۵۔
یہوواہ نے آدم اور حوا کو حقوانصاف کی رُو سے اپنے عالمگیر خاندان میں سے نکال دیا جس کے نتیجے میں وہ مر گئے۔ (پیدایش ۳:۱۹) تاہم اُنکی اولاد کی بابت کیا ہے؟ اگرچہ وہ اب محض ناکاملیت، گناہ اور موت ہی منتقل کر سکتے تھے توبھی یہوواہ نے رحم کِیا اور اُنہیں اولاد پیدا کرنے کی اجازت دے دی۔ لہٰذا ”موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔“ (رومیوں ۵:۱۲) اس مفہوم میں خدا نے ”[مخلوقات کو] بطالت کے اختیار“ میں کر دیا۔
”خدا کے بیٹوں [کا] ظاہر“ ہونا
یہوواہ نے مخلوقات کو ”اس اُمید پر“ بطالت کے اختیار میں کر دیا کہ ”خدا کے بیٹوں“ کی کارگزاریوں کے ذریعے ایک دن انسانی خاندان کی آزادی بحال کر دی جائیگی۔ یہ ”خدا کے بیٹے“ کون ہیں؟ یہ یسوع مسیح کے شاگرد ہیں جو باقی ”[انسانی] مخلوقات“ کی طرح گناہ اور ناکاملیت کی غلامی میں پیدا ہوئے ہیں۔ پیدائشی طور پر تو اُنکا خدا کے پاک، کامل عالمگیر خاندان میں کوئی جائز مقام نہیں ہے۔ تاہم یہوواہ اُن کی خاطر ایک حیرانکُن کام سرانجام دیتا ہے۔ یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی کے وسیلے، وہ اُنہیں موروثی گناہ کی غلامی سے چھڑا کر ”راستباز“ یا روحانی طور پر پاک ٹھہراتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۱) لہٰذا وہ اُنہیں اپنے عالمگیر خاندان میں واپس لاتے ہوئے ”خدا کے بیٹوں“ کی حیثیت سے لےپالک بنا لیتا ہے۔—رومیوں ۸:۱۴-۱۷۔
یہوواہ کے لےپالک بیٹوں کے طور پر، اُنہیں جلالی استحقاق حاصل ہوگا۔ وہ ”ہمارے خدا کے لئے . . . کاہن“ ہونگے اور خدا کی آسمانی بادشاہت یا حکومت کے حصے کے طور پر یسوع مسیح کے شانہبشانہ ”زمین پر بادشاہی“ کرینگے۔ (مکاشفہ ۵:۹، ۱۰؛ ۱۴:۱-۴) یہ حکومت جبروتشدد کی بجائے آزادی اور انصاف کے اصولوں پر استوار ہے۔ (یسعیاہ ۹:۶، ۷؛ ۶۱:۱-۴) پولس رسول کہتا ہے کہ خدا کے یہ بیٹے، ’ابرہام کی نسل‘ جسکا طویل مدت سے وعدہ کِیا گیا تھا یعنی یسوع کے رفیق ہیں۔ (گلتیوں ۳:۱۶، ۲۶، ۲۹) لہٰذا، خدا نے اپنے دوست ابرہام کیساتھ جو وعدہ کِیا تھا اُسے پورا کرنے میں وہ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وعدے کا ایک حصہ یہ ہے کہ ابرہام کی نسل کے وسیلے سے ”زمین کی سب قومیں برکت پائینگی۔“—پیدایش ۲۲:۱۸۔
وہ نوعِانسان کیلئے کونسی برکت کا سبب بنتے ہیں؟ خدا کے بیٹے تمام انسانی خاندان کو آدم کے گناہ کے ہولناک نتائج سے چھڑانے اور نوعِانسان کو کاملیت تک پہنچانے کے کام میں شریک ہوتے ہیں۔ ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت“ کے لوگ یسوع مسیح کے فدیے کی قربانی پر ایمان ظاہر کرنے اور اُسکی فیضرساں بادشاہتی حکمرانی کی اطاعت کرنے سے برکت حاصل کر سکتے ہیں۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴-۱۷؛ ۲۱:۱-۴؛ ۲۲:۱، ۲؛ متی ۲۰:۲۸؛ یوحنا ۳:۱۶) اس طرح ”تمام مخلوقات“ ایک بار پھر ”خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ سے لطفاندوز ہوگی۔ یہ کوئی محدود اور عارضی مدت کی سیاسی آزادی نہیں ہوگی بلکہ یہ ہر اُس چیز سے آزادی ہوگی جو آدم اور حوّا کے خدائی حاکمیت کو رد کرنے کے وقت سے لیکر انسانی خاندان کیلئے دُکھ تکلیف کا باعث بنی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ پولس رسول کہہ سکتا تھا کہ ”اس زمانہ کے دُکھ درد اس لائق نہیں“ کہ اُس جلالی خدمت کے مقابل ہو سکیں جو وفادار لوگ انجام دینگے!
”خدا کے بیٹوں [کا] ظاہر“ ہونا کب شروع ہوتا ہے؟ اب بہت ہی جلد، جب یہوواہ سب پر واضح کرتا ہے کہ خدا کے بیٹے کون ہیں۔ یہ اُس وقت ہوگا جب روحانی عملداری میں یہ قیامتیافتہ ”بیٹے“ خدا کی جنگ یعنی ہرمجدون پر اس زمین کو بُرائی اور ظلم سے پاکصاف کرنے کے لئے یسوع مسیح کے ساتھ شریک ہونگے۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ ۷:۱۳، ۱۴، ۲۷؛ مکاشفہ ۲:۲۶، ۲۷؛ ۱۶:۱۶؛ ۱۷:۱۴؛ ۱۹:۱۱-۲۱) ہم اپنے اِردگِرد اس بات کا واضح ثبوت پاتے ہیں کہ ہم ”اخیر زمانہ“ میں بہت آگے نکل آئے ہیں جب بغاوت اور اسکے نتیجے میں واقع ہونے والی بدکاری کیلئے خدا کی برداشت ختم ہونے والی ہے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵؛ متی ۲۴:۳-۳۱۔
جیہاں، پولس کے بیان کے مطابق یہ بات درست ہے کہ ”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزہ میں پڑی تڑپتی ہے“—لیکن زیادہ دیر تک ایسا نہیں رہیگا۔ لاکھوں لوگ جو اب زندہ ہیں اس بات کے شاہد ہونگے کہ ”وہ سب چیزیں بحال“ کر دی جائینگی ”جنکا ذکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کِیا ہے جو دُنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں،“ اس میں تمام انسانی خاندان کیلئے امن، آزادی اور انصاف کی بحالی بھی شامل ہوگی۔—اعمال ۳:۲۱۔
بالآخر حقیقی آزادی
”خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ سے لطفاندوز ہونے کیلئے آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ یسوع مسیح نے کہا: ”اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔“ (یوحنا ۸:۳۱، ۳۲) آزادی کی کُنجی یہی ہے—مسیح کے احکام اور تعلیمات کی بابت سیکھنا اور پھر اُن پر عمل کرنا۔ ایسا کرنے سے اب بھی کسی حد تک آزادی حاصل ہوتی ہے۔ مستقبل قریب میں، یہ مسیح یسوع کی حکمرانی کے تحت مکمل آزادی کا باعث بنیگا۔ پس دانشمندانہ روش یہ ہے کہ بائبل مطالعہ کے ذریعے یسوع کے ”کلام“ سے واقف ہوں۔ (یوحنا ۱۷:۳) ابتدائی مسیحیوں کی طرح، مسیح کے سچے شاگردوں کی کلیسیا کیساتھ سرگرمی سے رفاقت رکھیں۔ ایسا کرنے سے، آپ آزاد کرنے والی ایسی سچائیوں سے مستفید ہو سکتے ہیں جو یہوواہ آجکل اپنی تنظیم کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔—عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵۔
”خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کی راہ [دیکھتے]“ ہوئے، آپ بھی مسیح کی حفاظت اور کفالت پر پولس رسول جیسا اعتماد رکھ سکتے ہیں، حتیٰکہ اُس وقت بھی جب تکالیف اور ناانصافیاں ناقابلِبرداشت دکھائی دیں۔ خدا کے بیٹوں کے ظاہر ہونے کا ذکر کرنے کے بعد پولس نے استفسار کِیا: ”کون ہم کو مسیح کی محبت سے جدا کریگا؟ مصیبت یا تنگی یا ظلم یا کال یا ننگاپن یا خطرہ یا تلوار؟“ (رومیوں ۸:۳۵) بِلاشُبہ، پولس کے زمانہ کے مسیحی رُوسو کے الفاظ کے مطابق ابھی تک طرح طرح کی ظالم قوتوں کی ”زنجیروں میں“ جکڑے ہوئے تھے۔ وہ ”ذبح ہونے والی بھیڑوں“ کی طرح ”دنبھر جان سے مارے جاتے“ تھے۔ (رومیوں ۸:۳۶) کیا وہ اس سے مغلوب ہوئے؟
پولس لکھتا ہے: ”مگر اُن سب حالتوں میں اُسکے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ہم کو فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔“ (رومیوں ۸:۳۷) تمام مشکلات برداشت کرنے کے باوجود ابتدائی مسیحی فتحمند ثابت ہوئے؟ کیسے؟ وہ جواب دیتا ہے: ”مجھ کو یقین ہے کہ خدا کی جو محبت ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں ہے اُس سے ہم کو نہ موت جدا کر سکے گی نہ زندگی۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ استقبال کی چیزیں۔ نہ قدرتیں نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق۔“ (رومیوں ۸:۳۸، ۳۹) اس دوران آپ خواہ کیسی بھی ”مصیبت یا تنگی یا ظلم“ کا سامنا کریں، آپ ’فتح‘ پا سکتے ہیں۔ خدا کی محبت اسکی یقینی ضمانت دیتی ہے کہ بہت جلد—اب تو بہت ہی جلد—ہم ”[ہر طرح کے] قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی“ حاصل کرینگے۔
[صفحہ 6 پر تصویریں]
”ساری مخلوقات مل کر اب تک کراہتی ہے اور دردِزِہ میں پڑی تڑپتی ہے“
[صفحہ 7 پر تصویر]
’مخلوقات ہر طرح کے قبضہ سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی حاصل کریگی‘