”آپس میں محبت رکھو“
”اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اِس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“—یوحنا ۱۳:۳۵۔
۱. اپنی موت سے پہلے یسوع نے کس خوبی پر زور دیا تھا؟
یسوع نے اپنی موت سے ایک رات پہلے اپنے رسولوں کو ”اَے بچو“ کہہ کر مخاطب کِیا تھا۔ (یوحنا ۱۳:۳۳) اُس خاص رات کو یسوع نے اپنے پیروکاروں کیلئے ان الفاظ سے اپنی گہری محبت کا اظہار کِیا۔ اس سے پہلے ہمیں یسوع کے اِیسے مشفقانہ اظہار کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اِسی موقع پر یسوع نے تقریباً ۳۰ مرتبہ محبت کی خوبی کا ذکر کِیا۔ یسوع نے اِس خوبی پر کیوں زور دیا؟
۲. مسیحیوں کیلئے محبت دکھانا کیوں ضروری ہے؟
۲ یسوع نے واضح کِیا کہ محبت کیوں اتنی ضروری ہے۔ اُس نے کہا: ”اگر آپس میں محبت رکھو گے تو اس سے سب جانینگے کہ تم میرے شاگرد ہو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۵؛ یوحنا ۱۵:۱۲، ۱۷) یسوع کے پیروکار ہونے اور برادرانہ محبت کا چولیدامن کا ساتھ ہے۔ سچے مسیحی خاص کپڑوں یا کسی رسمورواج سے نہیں بلکہ اُس محبت سے پہچانے جاتے ہیں جو وہ ایک دوسرے کیلئے دکھاتے ہیں۔ پچھلے مضمون کے شروع میں ہم نے یسوع کے شاگرد بننے کے تین بنیادی تقاضوں کا ذکر کِیا تھا۔ اس مضمون میں ہم دوسرے تقاضے یعنی محبت پر بات کرینگے۔ اس تقاضے کو پورا کرنے اور جاری رکھنے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کریگی؟
”ترقی کرتے جاؤ“
۳. پولس رسول محبت کے بارے میں کونسی نصیحت کرتا ہے؟
۳ پہلی صدی میں تھسلنیکیوں کی کلیسیا کے مسیحیوں کو خط لکھتے ہوئے پولس نے یوں کہا: ”برادرانہ محبت کی بابت تمہیں کچھ لکھنے کی حاجت نہیں کیونکہ تم آپس میں محبت کرنے کی خدا سے تعلیم پا چکے ہو۔ اور . . . سب بھائیوں کے ساتھ ایسا ہی کرتے ہو۔“ پولس مزید اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ”ترقی کرتے جاؤ۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۳:۱۲؛ ۴:۹، ۱۰) آجکل مسیحیوں میں بھی ایسی ہی محبت پائی جاتی ہے جیسی پہلی صدی کے مسیحیوں میں تھی۔ اِسلئے ہمیں بھی پولس کی نصیحت کو دل سے قبول کرنا چاہئے اور ایک دوسرے کے لئے محبت ظاہر کرتے ہوئے اِس میں ”ترقی کرتے“ رہنا چاہئے۔
۴. پولس اور یسوع کے مطابق کون خاص توجہ کے مستحق ہیں؟
۴ اپنے اس خط میں پولس تھسلنیکے کی کلیسیا کی حوصلہافزائی کرتا ہے کہ وہ ’کم ہمتوں کو دلاسا دیں‘ اور ’کمزوروں کو سنبھالیں۔‘ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) ایک دوسرے موقع پر وہ مسیحیوں کو یاددہانی کراتا ہے کہ ”زورآوروں کو چاہئے کہ ناتوانوں کی کمزوریوں کی رعایت کریں۔“ (رومیوں ۱۵:۱) یسوع نے بھی روحانی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کرنے کی ہدایت کی تھی۔ جس رات یسوع گرفتار ہوا پطرس اُسے اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس لئے اُس نے پطرس سے کہا: ”جب تو رجوع کرے تو اپنے بھائیوں کو مضبوط کرنا۔“ کیوں؟ اِس لئے کہ اُنہیں بھی یسوع سے جُدا ہونے کی وجہ سے مدد کی ضرورت تھی۔ (لوقا ۲۲:۳۲؛ یوحنا ۲۱:۱۵-۱۷) پس خدا کا کلام ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ ہم اُن لوگوں کے ساتھ محبت بڑھائیں جو روحانی طور پر کمزور ہیں اور جنکا کلیسیا سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ (عبرانیوں ۱۲:۱۲) ہمیں ایسا کیوں کرنا چاہئے؟ یسوع نے دو تمثیلوں کی مدد سے اِسکا جواب دیا۔
کھوئی ہوئی بھیڑ اور کھویا ہوا درہم
۵، ۶. (ا) یسوع نے کونسی دو تمثیلیں بیان کیں؟ (ب) یہ تمثیلیں یہوواہ کے متعلق کیا ظاہر کرتی ہیں؟
۵ اپنے سامعین کو بھٹکے ہوؤں کے سلسلے میں یہوواہ کے نقطۂنظر کی بابت تعلیم دینے کیلئے یسوع نے دو مختصر سی تمثیلیں بیان کیں۔ یسوع نے ایک تمثیل میں چرواہے کی بابت بیان کرتے ہوئے کہا: ”تم میں کون ایسا آدمی ہے جسکے پاس سو بھیڑیں ہوں اور اُن میں سے ایک کھو جائے تو ننانوے کو بیابان میں چھوڑ کر اُس کھوئی ہوئی کو جب تک مِل نہ جائے ڈھونڈتا نہ رہے؟ پھر جب مل جاتی ہے تو وہ خوش ہو کر اُسے کندھے پر اُٹھا لیتا ہے۔ اور گھر پہنچ کر دوستوں اور پڑوسیوں کو بلاتا اور کہتا ہے میرے ساتھ خوشی کرو کیونکہ میری کھوئی ہوئی بھیڑ مل گئی۔ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح ننانوے راستبازوں کی نسبت جو توبہ کی حاجت نہیں رکھتے ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہوگی۔“—لوقا ۱۵:۴-۷۔
۶ دوسری تمثیل میں ایک عورت کی بابت بتاتے ہوئے یسوع نے بیان کِیا: ”کون ایسی عورت ہے جسکے پاس دس درہم ہوں اور ایک کھو جائے تو وہ چراغ جلا کر گھر میں جھاڑو نہ دے اور جب تک مل نہ جائے کوشش سے ڈھونڈتی نہ رہے؟ اور جب مل جائے تو اپنی دوستوں اور پڑوسنوں کو بلا کر نہ کہے کہ میرے ساتھ خوشی کرو کیونکہ میرا کھویا ہوا درہم مل گیا۔ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث خدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے۔“—لوقا ۱۵:۸-۱۰۔
۷. ہم کھو جانے والی بھیڑ اور درہم کی تمثیلوں سے کونسے دو سبق سیکھتے ہیں؟
۷ ہم اِن مختصر سی تمثیلوں سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟ ہم یہ سیکھتے ہیں کہ (۱) ہمیں روحانی طور پر کمزور پڑ جانے والے لوگوں کی بابت کیسا محسوس کرنا چاہئے اور (۲) ہمیں اُن کی مدد کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ آئیے اِن نکات پر غور کرتے ہیں۔
کھویا ہوا لیکن بہت قیمتی
۸. (ا) چرواہے اور عورت نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کیلئے کیسا ردِعمل دکھایا؟ (ب) اُنہوں نے اِسے کیسا خیال کِیا؟
۸ دونوں تمثیلوں میں کچھ کھو گیا تھا۔ لیکن چرواہے اور عورت کے ردِعمل پر غور کریں۔ چرواہے نے یہ نہیں کہا کہ ’کیا ہوا اگر میری ایک بھیڑ کھو گئی ہے میرے پاس ننانوے بھیڑیں تو ہیں۔ میرا اُس بھیڑ کے بغیر بھی گزارا ہو سکتا ہے۔‘ اِسی طرح عورت نے بھی یہ نہیں کہا کہ ’کیا ہوا اگر میرا ایک درہم کھو گیا ہے میرے پاس نو باقی ہیں میں اُن کے ساتھ گزارا کر لوں گی۔‘ اِس کی بجائے چرواہے اور عورت نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو ایسے ڈھونڈا جیسے اُن کے پاس ایک ہی تھی۔ اِن دونوں معاملوں میں چرواہے اور عورت نے اپنی کھوئی ہوئی چیز کو بہت قیمتی خیال کِیا۔ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۹. چرواہے اور عورت کی فکرمندی سے یہوواہ کے بارے میں کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۹ یسوع نے دونوں تمثیلوں کے اختتام پر یوں بیان کِیا: ”ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث آسمان پر زیادہ خوشی ہوگی“ اور ”مَیں تم سے کہتا ہوں کہ اِسی طرح ایک توبہ کرنے والے گنہگار کے باعث خدا کے فرشتوں کے سامنے خوشی ہوتی ہے۔“ چرواہے اور عورت کی فکرمندی سے یہوواہ اور اُسکی آسمانی مخلوقات کے احساسات کی عکاسی ہوتی ہے۔ جس طرح چرواہے کی نظر میں بھیڑ اور عورت کی نظر میں درہم بہت قیمتی تھا اُسی طرح ایسے لوگ جو بھٹک گئے ہیں اور جنکا خدا کے لوگوں کیساتھ رابطہ ٹوٹ گیا ہے وہ بھی یہوواہ کی نظروں میں بہت قیمتی ہیں۔ (یرمیاہ ۳۱:۳) ایسے لوگ روحانی طور پر کمزور تو ہیں لیکن شاید وہ باغی نہیں ہوئے۔ اپنی کمزور حالت کے باوجود شاید وہ یہوواہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (زبور ۱۱۹:۱۷۶؛ اعمال ۱۵:۲۹) یہوواہ ایسے لوگوں کو ”اپنے حضور سے دُور“ کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔—۲-سلاطین ۱۳:۲۳۔
۱۰، ۱۱. (ا) ہمیں روحانی طور پر کمزور اشخاص کو کیسا خیال کرنا چاہئے؟ (ب) یسوع کی دو تمثیلوں کی مطابقت میں ہم اُن کیلئے کسطرح فکرمندی دِکھا سکتے ہیں؟
۱۰ یہوواہ اور یسوع کی طرح ہم بھی اُنکی گہری فکر رکھتے ہیں جو روحانی طور پر کمزور اور کلیسیا سے غیرحاضر رہتے ہیں۔ (حزقیایل ۳۴:۱۶؛ لوقا ۱۹:۱۰) ہم روحانی طور پر کمزور لوگوں کے بارے میں ایسا نہیں سوچتے کہ ’اُس ایک کے بارے میں کیوں فکرمند ہوں؟ کلیسیا کو اُس کی غیرموجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘ اِسکی بجائے یہوواہ کی طرح ہم اُسکو ایک ایسے شخص کی طرح خیال کرتے ہیں جو بھٹکا ہوا ہے لیکن واپس آ سکتا ہے اور بہت قیمتی ہے۔
۱۱ ہم ایسے لوگوں کیلئے فکرمندی کے احساسات کیسے دکھا سکتے ہیں؟ یسوع کی دو تمثیلیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہمیں (۱) پہل کرنے (۲) شفقت دکھانے (۳) دل سے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیے اِن پہلوؤں پر ایک ایک کرکے غور کرتے ہیں۔
پہل کرنا
۱۲. چرواہا کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈنے کیلئے کیسا رُجحان ظاہر کرتا ہے؟
۱۲ اپنی پہلی تمثیل میں یسوع بیان کرتا ہے کہ چرواہا ’کھوئی ہوئی بھیڑ کو ڈھونڈتا ہے۔‘ چرواہا پہلا قدم اُٹھاتے ہوئے بھیڑ کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ مشکلات، خطرات، طویل راستہ اُسکی راہ نہیں روکتے۔ اِسکے برعکس، چرواہا اُس وقت تک بھیڑ کو ڈھونڈتا رہتا ہے ’جبتک وہ مل نہ جائے‘۔—لوقا ۱۵:۴۔
۱۳. قدیم زمانے کے وفادار لوگوں نے کس طرح روحانی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کی اور ہم اِن بائبل مثالوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۱۳ اسی طرح، جب کسی شخص کو حوصلہافزائی کی ضرورت ہوتی ہے تو روحانی طور پر مضبوط شخص اُس کی مدد کرنے کیلئے پہل کر سکتا ہے۔ قدیم وقتوں میں وفادار اشخاص نے ایسا ہی کِیا تھا۔ جب ساؤل کے بیٹے یونتن کو یہ پتہ چلا کہ اُسکا دوست داؤد مشکل میں ہے اور اُسے مدد کی ضرورت ہے تو ”یونتنؔ اُٹھ کر داؔؤد کے پاس بِن میں گیا اور خدا میں اُسکا ہاتھ مضبوط کِیا۔“ (۱-سموئیل ۲۳:۱۵، ۱۶) بہت سالوں بعد، جب نحمیاہ کو پتہ چلا کہ کچھ یہودی بےحوصلہ ہو گئے تھے تو وہ فوراً ”اُٹھا“ اور اُنہیں ’خداوند کو یاد کرنے‘ کی حوصلہافزائی کی۔ (نحمیاہ ۴:۱۴) ہم بھی آجکل پہل کرتے ہوئے روحانی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کرینگے۔ لیکن کلیسیا میں کون ایسا کر سکتے ہیں؟
۱۴. کلیسیا میں روحانی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کیلئے کن کو جانا چاہئے؟
۱۴ کلیسیائی بزرگوں کی یہ ذمہداری ہے کہ وہ ”کمزور ہاتھوں کو زور اور ناتوان گھٹنوں کو توانائی“ دیں اور ”اُنکو جو کچدلے ہیں“ کہیں کہ ”ہمت باندھو مت ڈرو۔“ (یسعیاہ ۳۵:۳، ۴؛ ۱-پطرس ۵:۱، ۲) تاہم، غور کریں کہ ”کم ہمتوں کو دلاسا دو“ اور ”کمزوروں کو سنبھالو“ کے سلسلے میں پولس کی نصیحت صرف کلیسیائی بزرگوں کو نہیں دی گئی تھی۔ اسکی بجائے پولس کا خط ”تھسلنیکیوں کی کلیسیا“ کے تمام لوگوں کے نام تھا۔ (۱-تھسلنیکیوں ۱:۱؛ ۵:۱۴) روحانی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کرنا تمام مسیحیوں کی ذمہداری ہے۔ تمثیل کے چرواہے کی طرح ہر مسیحی کو ’کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنا‘ چاہئے۔ بِلاشُبہ، ایسا کرنے میں بزرگ آپکی مدد کر سکتے ہیں۔ کیا آپ اپنی کلیسیا میں کمزور لوگوں کی مدد کرنے کیلئے تیار ہیں؟
شفقت کیساتھ
۱۵. چرواہے نے بھیڑ کو کندھے پر کیوں اُٹھایا تھا؟
۱۵ جب چرواہا بھیڑ کو ڈھونڈ لیتا ہے تو وہ کیا کرتا ہے؟ وہ ”اُسے کندھے پر اُٹھا لیتا ہے۔“ (لوقا ۱۵:۵) کیا ہی اثرآفرین اور پُرزور سرگزشت! شاید بھیڑ کسی اجنبی علاقے میں کئی دنرات بھٹکتی رہی ہو یا شیروں کے چنگل سے بچ کر آئی ہو۔ (ایوب ۳۸:۳۹، ۴۰) بِلاشُبہ بھیڑ خوراک کی کمی کی وجہ سے کمزور ہو گئی ہے۔ اس لئے اپنی قوت کے زور پر واپس آنا اُس کے لئے بہت مشکل ہے۔ اس لئے چرواہا نیچے جھک کر بھیڑ کو کندھے پر اُٹھا لیتا اور واپس گلّے کی طرف لے آتا ہے۔ ہم بھی چرواہے کی طرح شفقت کیسے دِکھا سکتے ہیں؟
۱۶. ہمیں بھی چرواہے کی طرح بھٹکی ہوئی بھیڑ کیلئے کیوں شفقت دکھانی چاہئے؟
۱۶ ایک شخص جسکا رابطہ کلیسیا سے منقطع ہو گیا ہے وہ بھی روحانی طور پر بہت تھکا ہوا محسوس کر سکتا ہے۔ جس طرح بھیڑ چرواہے سے جُدا ہو گئی تھی اُسی طرح ایک شخص کلیسیا کی طرف سے راہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے بھٹک کر دُنیا کی بےرحمی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اِس طرح وہ باڑے کے تحفظ کے بغیر ابلیس کے حملوں کا نشانہ بن سکتا ہے جو ”گرجنے والے شیرببر کی طرح ڈھونڈتا پھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔“ (۱-پطرس ۵:۸) نیز وہ روحانی خوراک کی کمی کے باعث بہت کمزور ہو گیا ہے۔ اِسلئے کلیسیا میں خود واپس آنا اُس کیلئے مشکل ہو سکتا ہے۔ اِسلئے ہمیں چرواہے کی طرح نیچے جھک کر شفقت کیساتھ روحانی طور پر کمزور شخص کو واپس لانا چاہئے۔ (گلتیوں ۶:۲) ہم ایسا کس طرح کر سکتے ہیں؟
۱۷. روحانی طور پر کمزور اشخاص سے ملاقات کرتے وقت ہمیں کیسا رُجحان ظاہر کرنا چاہئے؟
۱۷ پولس رسول نے کہا ’کمزوروں کیلئے مَیں کمزور بنا۔‘ (۱-کرنتھیوں ۹:۲۲؛ ۲-کرنتھیوں ۱۱:۲۹) پولس کمزوروں کے لئے بہت رحم دکھاتا تھا۔ ہمیں بھی کمزوروں کے لئے ایسی ہمدردی دکھانی چاہئے۔ جب ہم روحانی طور پر کمزور اشخاص سے ملاقات کیلئے جاتے ہیں تو اُنہیں یہ یقیندہانی کرانی چاہئے کہ یہوواہ کی نظر میں اُن کی بہت قدر ہے اور تمام گواہ بہن بھائی بھی اُنہیں یاد کرتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۲:۱۷) اُسے یہ باور کرائیں کہ ’بھائی مصیبت کے دن مدد کرنے کیلئے پیدا ہوا ہے‘ اور ہم بھی اُنکی ہر ممکن مدد کرنے کیلئے حاضر ہیں۔ (امثال ۱۷:۱۷؛ زبور ۳۴:۱۸) ہمارا ایسا نرم رُجحان اُنکی واپس آنے میں حوصلہافزائی کریگا۔ اسکے بعد ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ عورت اور درہم کی تمثیل ہماری اس بات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔
پُرخلوص ہوں
۱۸. (ا) عورت کیوں نااُمید نہیں ہوتی؟ (ب) عورت نے کیا کوشش کی اور اِسکا کیا نتیجہ نکلا؟
۱۸ عورت کو یہ پتہ تھا کہ درہم کو ڈھونڈنا مشکل تو ہے لیکن ناممکن نہیں۔ وہ یہ جانتی تھی کہ درہم گھر کے کسی کونے میں ہی گرا ہے کسی دریا یا جھاڑیوں میں نہیں۔ اِسلئے اُس نے بھرپور کوشش کرکے اِسکو ڈھونڈنا شروع کِیا۔ (لوقا ۱۵:۸) سب سے پہلے اُس نے گھر میں روشنی کرنے کیلئے چراغ جلایا پھر فرش پر جھاڑو دینا شروع کِیا تاکہ جب جھاڑو درہم سے ٹکرائے تو وہ اُسکی آواز سُن سکے۔ آخرکار اُس نے چراغ لیکر گھر کے ہر کونے میں دیکھا تاکہ درہم اُسے چمکتا ہوا نظر آئے۔ اِس عورت کی بھرپور کوشش کے باعث اُسے درہم مل گیا!
۱۹. تمثیل میں درہم کھو دینے والی عورت سے ہم روحانی طور پر کمزور شخص کی مدد کرنے کے سلسلے میں کونسا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۱۹ اس تمثیل کے مطابق کسی کمزور شخص کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے اور یہ ہمارے لئے ناممکن بھی نہیں ہے۔ ہم نے یہ جان لیا ہے کہ ایسا کرنے میں کوشش درکار ہے۔ اسلئے پولس رسول نے افسیوں کے بزرگوں کو کہا: ”اس طرح محنت کرکے کمزوروں کو سنبھالنا۔“ (اعمال ۲۰:۳۵الف) اِس بات کو ذہن میں رکھیں کہ عورت کو درہم بغیر کوشش کے نہیں ملتا بلکہ اُس نے بڑی احتیاط کیساتھ اُس وقت تک تلاش کِیا ’جبتک وہ اُسے مل نہ گیا۔‘ اِس کوشش کی وجہ سے اُسے کامیابی حاصل ہوئی۔ اِسی طرح جب ہم روحانی طور پر کسی کمزور شخص کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں پوری لگن کیساتھ ایسا کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۲۰. کمزور اشخاص کی مدد کیلئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟
۲۰ ہم روحانی طور پر کمزور شخص کے ایمان کو دوبارہ مضبوط کرنے کیلئے کیا کوشش کر سکتے ہیں؟ ایسے شخص کیساتھ بائبل مطالعہ شروع کِیا جا سکتا ہے۔ خدمتی نگہبان اِس بات کا فیصلہ کریگا کہ کون اُس کیساتھ مطالعہ کریگا۔ وہ ایسے شخص کیساتھ مطالعہ کرنے کیلئے فائدہمند مواد بھی چن سکتا ہے۔ جس طرح تمثیل میں عورت نے درہم کو ڈھونڈنے کیلئے مختلف طریقوں کا استعمال کِیا، اِسی طرح آجکل ہمارے پاس بھی ایسے ہی ذرائع موجود ہیں جنکو استعمال کرکے ہم روحانی طور پر کمزور اشخاص کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہمارے دو ہتھیار یا اشاعتیں اس سلسلے میں اُنکی مدد کر سکتی ہیں۔ یہ ورشپ دی اونلی ٹرو گاڈ اور یہوواہ کے نزدیک جائیں کتابیں ہیں۔a
۲۱. کمزور اشخاص کی مدد کرنا سب کیلئے برکات کا باعث کیسے ہے؟
۲۱ کمزور اشخاص کی مدد کرنا سب کیلئے برکات کا باعث بنتا ہے۔ جس بھائی یا بہن کی مدد کی جاتی ہے وہ دوبارہ پُرمحبت دوستوں کیساتھ مل کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اُسکی مدد کرکے ہم بھی دینے کے احساس سے دلی خوشی محسوس کر سکتے ہیں۔ (لوقا ۱۵:۶، ۹؛ اعمال ۲۰:۳۵ب) اگر کلیسیا کے سب افراد ایک دوسرے کیلئے پُرمحبت فکر رکھتے ہیں تو کلیسیا محبت میں بڑھے گی۔ سب سے زیادہ ہمارے عظیم چرواہے یہوواہ اور یسوع کی بڑائی ہوگی اسلئے کہ اُنکی خواہش ہے کہ زمین پر اُنکے خادموں کی مدد کی جائے۔ (زبور ۷۲:۱۲-۱۴؛ متی ۱۱:۲۸-۳۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۱:۱؛ افسیوں ۵:۱) ہمارے پاس ’آپس میں محبت رکھنے‘ کی کیا ہی عمدہ وجہ ہے!
[فٹنوٹ]
a یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں؟
• ہمارے لئے سب کیلئے محبت ظاہر کرنا کیوں ضروری ہے؟
• روحانی طور پر کمزور اشخاص کیلئے ہمیں اپنی محبت کو کیوں بڑھانا چاہئے؟
• کھوئی ہوئی بھیڑ اور کھوئے ہوئے درہم کی تمثیل سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟
• روحانی طور پر کمزور اشخاص کی مدد کرنے کیلئے ہم کونسے عملی اقدام اُٹھا سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۷ ،۱۶ پر تصویریں]
روحانی طور پر کمزور اشخاص کی مدد کرنے کیلئے ہمیں پہل کرتے ہوئے شفقت اور پورے دل سے کوشش کرنی چاہئے
[صفحہ ۱۷ ،۱۶ پر تصویر]
کمزور اشخاص کی مدد کرنا سب کیلئے برکات کا باعث بنتا ہے