”مسیحی زندگی اور خدمت والے اِجلاس کا قاعدہ“ کے حوالے
6-12 اگست
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 17، 18
”دوسروں کا شکریہ ادا کریں“
(لُوقا 17:11-14) جب یسوع یروشلیم جا رہے تھے تو وہ سامریہ اور گلیل کے بیچ سے گزرے۔ 12 اور جب وہ ایک گاؤں میں داخل ہوئے تو دس کوڑھیوں نے اُنہیں دیکھا۔ لیکن وہ کوڑھی کچھ فاصلے پر کھڑے رہے 13 اور اُونچی آواز میں کہنے لگے: ”یسوع! اُستاد! ہم پر رحم کریں۔“ 14 یسوع نے اُنہیں دیکھ کر کہا: ”جائیں، اپنے آپ کو کاہن کو دِکھائیں۔“ اِس پر وہ چل پڑے۔ ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ وہ ٹھیک ہو گئے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 17:12، 14 پر اِضافی معلومات
دس کوڑھیوں: ایسا لگتا ہے کہ قدیم زمانے میں کوڑھی گروپوں کی شکل میں یا اِکٹھے رہتے تھے تاکہ ایک دوسرے کی مدد کر سکیں۔ (2-سلا 7:3-5) شریعت کے مطابق کوڑھیوں سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ دوسروں سے الگ تھلگ رہیں۔ اُنہیں دوسروں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنے کے لیے چلّا چلّا کر یہ کہنا پڑتا تھا: ”ناپاک ناپاک۔“ (احبا 13:45، 46) شریعت میں کوڑھیوں کے لیے جو ہدایات موجود تھیں، اُن پر عمل کرتے ہوئے یہ کوڑھی یسوع مسیح سے کچھ فاصلے پر کھڑے رہے۔—”ترجمہ نئی دُنیا“ میں الفاظ کی وضاحت میں ”کوڑھ؛ کوڑھی“ کو دیکھیں۔
اپنے آپ کو کاہن کو دِکھائیں: جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو وہ شریعت کے تحت تھے۔ اِس لیے اُنہوں نے کاہنوں کے اِختیار کو تسلیم کرتے ہوئے شفا پانے والے کوڑھیوں کو کاہن کے پاس جانے کی ہدایت کی۔ (متی 8:4؛ مر 1:44) موسیٰ کی شریعت کے مطابق کاہن کو اِس بات کی تصدیق کرنی ہوتی تھی کہ ایک کوڑھی ٹھیک ہو گیا ہے۔ پھر شفا پانے والا کوڑھی ہیکل میں جاتا تھا اور قربانی چڑھانے کے لیے دو زندہ پاک پرندے، دیودار کی لکڑی، سُرخ کپڑا اور زوفا لے جاتا تھا۔—احبا 14:2-32۔
(لُوقا 17:15، 16) جب اُن میں سے ایک نے دیکھا کہ وہ ٹھیک ہو گیا ہے تو وہ اُونچی آواز میں خدا کی بڑائی کرتا ہوا واپس آیا 16 اور یسوع کو دیکھتے ہی مُنہ کے بل اُن کے قدموں میں گِر گیا اور اُن کا شکریہ ادا کرنے لگا۔ وہ آدمی سامری تھا۔
(لُوقا 17:17، 18) یسوع نے کہا: ”کیا دس کوڑھی ٹھیک نہیں ہوئے؟ تو پھر باقی نو کہاں ہیں؟ 18 کیا اِس غیریہودی کے علاوہ کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ واپس آ کر خدا کی بڑائی کرے؟“
ڈبلیو08 1/8 ص. 14، 15 پ. 8، 9
شکریہ ادا کرنا کیوں ضروری ہے؟
کیا یسوع مسیح نے اِس بات کو نظرانداز کر دیا کہ باقی کوڑھیوں نے اُن کا شکریہ ادا نہیں کِیا؟ اِس بیان میں آگے چل کر بتایا گیا ہے کہ ”یسوؔع نے جواب میں کہا کیا دسوں پاک صاف نہ ہوئے؟ پھر وہ نو کہاں ہیں؟ کیا اِس پردیسی کے سوا اَور نہ نکلے جو لوٹ کر خدا کی تمجید کرتے؟“—لو 17:17، 18۔
باقی نو کوڑھی بُرے نہیں تھے۔ پہلے اُنہوں نے یسوع مسیح پر اپنے ایمان کا اِظہار کِیا تھا اور خوشی سے اُس کی ہدایات پر عمل کِیا تھا جس میں یروشلیم جا کر کاہنوں کو یہ دِکھانا بھی شامل تھا کہ وہ شفایاب ہو گئے ہیں۔ بےشک وہ یسوع مسیح کی اِس مہربانی کے لیے دل سے شکرگزار ہوں گے لیکن اُنہوں نے اِس بات کا اِظہار نہیں کِیا۔ اُن کے اِس ردِعمل کی وجہ سے یسوع کو دُکھ ہوا۔ جب کوئی ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے تو کیا ہم فوراً اُسے شکریہ کہتے ہیں اور جب مناسب ہو تو اُسے شکریہ کہنے کے لیے خط یا کارڈ بھیجتے ہیں؟
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 17:7-10) فرض کریں کہ آپ کا غلام کھیت میں ہل چلا رہا ہے یا گلّے کی رکھوالی کر رہا ہے۔ جب وہ گھر واپس آئے گا تو کیا آپ اُس سے کہیں گے کہ ”فٹافٹ آؤ اور کھانا کھانے کے لیے میز پر بیٹھ جاؤ“؟ 8 یا پھر کیا آپ اُس سے کہیں گے کہ ”کپڑے بدلو اور میرے لیے شام کا کھانا تیار کرو اور تب تک میری خدمت کرو جب تک مَیں کھانا نہ کھا لوں اور بعد میں تُم کھانا کھانا“؟ 9 آپ غلام کے شکرگزار تو نہیں ہوں گے نا کہ اُس نے اپنی ذمےداری پوری کی؟ 10 لہٰذا جب آپ وہ کام کر لیں جو آپ کو دیا گیا ہے تو کہیں: ”ہم نکمّے غلام ہیں۔ ہم نے تو بس اپنا فرض پورا کِیا ہے۔““
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 17:10 پر اِضافی معلومات
نکمّے: یونانی میں: ”بےکار؛ فضول۔“ اِس مثال میں یسوع مسیح یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ غلاموں یعنی اُن کے شاگردوں کو خود کو بےکار یا فضول سمجھنا چاہیے۔ سیاقوسباق کے مطابق یہاں اِصطلاح ”نکمّے“ سے یہ خیال پیش کِیا گیا ہے کہ غلاموں کو خود کو اہم نہیں سمجھنا چاہیے یعنی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اُنہیں کوئی خاص اعزاز ملنا چاہیے یا اُن کی بڑائی ہونی چاہیے۔ کچھ عالموں کا خیال ہے کہ یہاں اِس اِصطلاح کا مطلب ہے: ”ہم تو محض غلام ہیں جو کسی خاص توجہ کے لائق نہیں ہیں۔“
(لُوقا 18:8) مَیں آپ سے کہتا ہوں کہ وہ اُن کو جلد اِنصاف دِلائے گا۔ لیکن جب اِنسان کا بیٹا آئے گا تو کیا وہ زمین پر اِس طرح کا ایمان پائے گا؟“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 18:8 پر اِضافی معلومات
اِس طرح کا ایمان: یا ”یہ ایمان۔“ یونانی میں: ”ایمان۔“ یہاں یونانی زبان میں ایمان کے لیے جو لفظ اِستعمال ہوا ہے، اُس سے پتہ چلتا ہے کہ یسوع مسیح عام ایمان کی طرف نہیں بلکہ ایک خاص طرح کے ایمان کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جیسا اُس بیوہ کا تھا جس کی اُنہوں نے مثال دی۔ (لُو 18:1-8) اِس میں اِس بات پر ایمان رکھنا شامل ہے کہ دُعا میں بڑی طاقت ہے اور خدا اپنے چُنے ہوئے لوگوں کو اِنصاف دِلائے گا۔ یسوع مسیح نے اِس سوال کا جواب غالباً اِس لیے نہیں دیا تاکہ اُن کے شاگرد اِس بات پر غور کریں کہ اُن کا اپنا ایمان کس طرح کا ہے۔ دُعا اور ایمان کے بارے میں یسوع نے جو مثال دی، وہ خاصی مناسب تھی کیونکہ اُنہوں نے ابھی ابھی اُن آزمائشوں کے بارے میں بتایا تھا جن کا اُن کے شاگردوں کو سامنا ہوگا۔—لُو 17:22-37۔
13-19 اگست
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 19، 20
”دس پاؤ چاندی کی مثال سے سبق“
(لُوقا 19:12، 13) اُنہوں نے کہا: ”ایک نواب بادشاہت حاصل کرنے کے لیے ایک دُوردراز ملک میں گیا۔ 13 جانے سے پہلے اُس نے اپنے دس غلاموں کو بلایا، اُن کو ایک ایک پاؤ چاندی دی اور اُن سے کہا: ”میرے آنے تک اِس سے کاروبار کرو۔“
جےوائے ص. 232 پ. 2-4
دس پاؤ چاندی کی مثال
اُنہوں نے کہا: ”ایک نواب بادشاہت حاصل کرنے کے لیے ایک دُوردراز ملک میں گیا۔“ (لُوقا 19:12) ظاہری بات ہے کہ ایسے سفر میں کافی وقت لگتا تھا۔ یسوع مسیح وہ ”نواب“ تھے جس نے ”ایک دُوردراز ملک“ یعنی آسمان کا سفر کِیا جہاں اُن کے باپ نے اُنہیں بادشاہت دی۔
سفر پر جانے سے پہلے نواب نے اپنے دس غلاموں کو بلایا، اُن کو ایک ایک پاؤ چاندی دی اور اُن سے کہا: ”میرے آنے تک اِس سے کاروبار کرو۔“ (لُوقا 19:13) ایک پاؤ چاندی (یونانی میں ایک مینا) بہت بڑی رقم تھی۔ اِتنی رقم کمانے کے لیے ایک مزدور کو تین مہینے سے زیادہ عرصے تک کام کرنا پڑتا تھا۔
ہو سکتا ہے کہ شاگرد سمجھ گئے تھے کہ وہی وہ دس غلام تھے جن کا ذکر مثال میں ہوا تھا کیونکہ اِس سے پہلے بھی یسوع مسیح نے اُنہیں ایسے مزدوروں سے تشبیہ دی تھی جو فصل کی کٹائی میں حصہ لیتے ہیں۔ (متی 9:35-38) ظاہری بات ہے کہ یسوع مسیح نے اُنہیں اناج کی فصل کاٹنے کو نہیں کہا تھا۔ اِس کی بجائے شاگردوں کو ایسے اَور بھی لوگوں کو جمع کرنا تھا جو خدا کی بادشاہت کے وارث ہوں گے۔ ایسا کرنے کے لیے اُنہیں اپنے اثاثے اِستعمال کرنے تھے۔
(لُوقا 19:16-19) جب پہلا غلام حاضر ہوا تو اُس نے کہا: ”مالک! آپ کی ایک پاؤ چاندی سے مَیں نے دس پاؤ اَور کمائی۔“ 17 یہ سُن کر نواب نے اُس سے کہا: ”شاباش، اچھے غلام! تُم ایک بہت ہی معمولی معاملے میں وفادار ثابت ہوئے اِس لیے مَیں تمہیں دس شہروں پر اِختیار دیتا ہوں۔“ 18 اب دوسرا غلام حاضر ہوا اور کہنے لگا: ”مالک! آپ کی ایک پاؤ چاندی سے مَیں نے پانچ پاؤ اَور کمائی۔“ 19 نواب نے اُس سے بھی کہا: ”مَیں تمہیں پانچ شہروں پر اِختیار دیتا ہوں۔“
جےوائے ص. 232 پ. 7
دس پاؤ چاندی کی مثال
یسوع مسیح کے شاگرد سمجھ گئے ہوں گے کہ اگر وہ شاگرد بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے تو وہ اِن محنتی غلاموں کی طرح ہوں گے۔ اِس مثال سے اُنہیں یقین دِلایا گیا کہ یسوع اُن سے خوش ہوں گے اور اُنہیں اُن کی محنت کا اِنعام دیں گے۔ ظاہری بات ہے کہ یسوع کے پیروکاروں کے حالات اور لیاقتیں ایک دوسرے سے فرق ہیں۔ اِس کے باوجود اگر وہ وفاداری سے شاگرد بنانے کے کام میں لگے رہیں گے تو اُن کے بادشاہ یسوع مسیح اُنہیں برکتیں دیں گے۔—متی 28:19، 20۔
(لُوقا 19:20-24) پھر ایک اَور غلام نے آ کر کہا: ”مالک، یہ رہی آپ کی چاندی۔ مَیں نے اِسے کپڑے میں لپیٹا اور سنبھال کر رکھا۔ 21 دراصل مَیں آپ سے ڈرتا ہوں کیونکہ آپ سخت آدمی ہیں۔ آپ وہاں سے رقم نکالتے ہیں جہاں آپ نے جمع نہیں کرائی ہوتی اور وہاں سے فصل کاٹتے ہیں جہاں آپ نے بیج نہیں بویا ہوتا۔“ 22 نواب نے اُس سے کہا: ”بُرے غلام! تمہاری اپنی ہی بات تمہیں غلط ثابت کر رہی ہے۔ اگر تُم جانتے تھے کہ مَیں وہاں سے رقم نکالتا ہوں جہاں مَیں نے جمع نہیں کرائی ہوتی اور وہاں سے فصل کاٹتا ہوں جہاں مَیں نے بیج نہیں بویا ہوتا 23 تو تُم نے میری چاندی کی سرمایہکاری کیوں نہیں کی؟ اِس طرح واپسی پر مجھے منافع تو ملتا۔“ 24 پھر اُس نے وہاں کھڑے لوگوں کو حکم دیا: ”اِس سے چاندی لے لو اور اُسے دے دو جس کے پاس دس پاؤ چاندی ہے۔“
جےوائے ص. 233 پ. 1
دس پاؤ چاندی کی مثال
اِس بُرے غلام کو اِس لیے نقصان اُٹھانا پڑا کیونکہ اُس نے مالک کے لیے منافع کمانے کی کوشش نہیں کی۔ رسول جانتے تھے کہ یسوع مسیح خدا کی بادشاہت میں بادشاہ کے طور پر حکمرانی کریں گے۔ لہٰذا اُنہوں نے اُس بُرے غلام کی مثال سے سمجھ لیا ہوگا کہ اگر وہ شاگرد بنانے کی بھرپور کوشش نہیں کریں گے تو اُنہیں بادشاہت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 19:43) کیونکہ وہ وقت آنے والا ہے جب تیرے دُشمن تیرے گِرد نوکیلی لکڑیوں کی باڑ کھڑی کریں گے اور تجھے چاروں طرف سے گھیر لیں گے اور گھیرا تنگ کرتے جائیں گے۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 19:43 پر اِضافی معلومات
نوکیلی لکڑیوں کی باڑ: یونانی لفظ ”کیراکس“ کا ترجمہ۔ یہ لفظ کتابِمُقدس کے یونانی صحیفوں میں صرف اِسی آیت میں اِستعمال ہوا ہے۔ یہ ایسی نوکیلی لکڑیوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے جو ”کسی علاقے میں باڑ بنانے کے لیے اِستعمال کی جاتی تھیں“ یا ”جنہیں اِستعمال کر کے فوجی اپنے مورچے کھڑے کرتے تھے۔“ یسوع مسیح کی یہ بات 70ء میں پوری ہوئی جب رومی فوج نے جنرل ٹائٹس کے حکم پر یروشلیم کا محاصرہ کر کے اِس کے گِرد ایک باڑ یا دیوار کھڑی کی۔ اِس کے پیچھے جنرل ٹائٹس کے تین مقصد تھے: ایک تو یہ کہ یہودیوں کو شہر سے فرار ہونے سے روکا جا سکے، دوسرا یہ کہ اُنہیں ہتھیار ڈالنے پر اُکسایا جا سکے اور تیسرا یہ کہ شہریوں کو فاقے کرنے پر مجبور کر دیا جائے تاکہ وہ حکومت کے تابع ہو جائیں۔ رومی فوج نے دیہاتوں سے درختوں کا صفایا کر کے یروشلیم کے گِرد یہ باڑ بنائی۔
(لُوقا 20:38) وہ مُردوں کا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے کیونکہ اُس کی نظر میں وہ سب زندہ ہیں۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 20:38 پر اِضافی معلومات
اُس کی نظر میں وہ سب زندہ ہیں: یا ”اُس کے لیے وہ سب زندہ ہیں۔“ پاک کلام سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ زندہ ہیں لیکن خدا سے دُور ہیں، وہ اُس کی نظر میں مُردہ ہیں۔ (اِفس 2:1؛ 1-تیم 5:6) اِسی طرح جن لوگوں کو یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل ہے، چاہے وہ مر بھی جائیں، وہ یہوواہ کی نظر میں زندہ رہتے ہیں کیونکہ وہ اُن کو زندہ کرنے کا اپنا مقصد ضرور پورا کرے گا۔—روم 4:16، 17۔
20-26 اگست
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 21، 22
”آپ کی نجات کا وقت نزدیک ہے“
(لُوقا 21:25) اور سورج، چاند اور ستاروں پر نشانیاں نظر آئیں گی اور زمین پر قومیں سخت پریشان ہوں گی کیونکہ سمندر کے شور اور طوفانی لہروں کی وجہ سے اُن کو سمجھ نہیں آئے گا کہ کیا کریں۔
کےآر ص. 226 پ. 9
خدا کی بادشاہت دُشمنوں کو ختم کرے گی
9 آسمان پر نشانیاں: یسوع مسیح نے پیشگوئی کی: ”سورج تاریک ہو جائے گا، چاند کی روشنی ختم ہو جائے گی، ستارے آسمان سے گِر جائیں گے۔“ لوگ روشنی حاصل کرنے کے لیے مذہبی رہنماؤں کے پاس نہیں جائیں گے یعنی وہ اُنہیں روشنی حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں سمجھیں گے۔ لیکن کیا یسوع مسیح اِس بات کا اِشارہ بھی دے رہے تھے کہ آسمان پر حیرانکُن مناظر دِکھائی دیں گے؟ شاید۔ (یسع 13:9-11؛ یوایل 2:1، 30، 31) لوگ اِن مناظر کو دیکھ کر کیسا ردِعمل ظاہر کریں گے؟ وہ ”سخت پریشان“ ہوں گے کیونکہ ”اُن کو سمجھ نہیں آئے گا کہ کیا کریں۔“ (لُو 21:25؛ صفن 1:17) خدا کی بادشاہت کے دُشمن، بادشاہوں سے لے کر غلاموں تک سب ”اندیشے اور ڈر کے مارے چکرا جائیں گے“ اور پناہ حاصل کرنے کے لیے بھاگیں گے۔ لیکن اُنہیں بادشاہ کے غضب سے بچنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔—لُو 21:26؛ 23:30؛ مکا 6:15-17۔
(لُوقا 21:26) لوگ اُن باتوں کے بارے میں سوچ سوچ کر جو زمین پر آنے والی ہیں، اندیشے اور ڈر کے مارے چکرا جائیں گے کیونکہ آسمان کا نظام ہلا دیا جائے گا۔
(لُوقا 21:27، 28) اور پھر وہ اِنسان کے بیٹے کو اِختیار اور بڑی شان کے ساتھ ایک بادل میں آتا دیکھیں گے۔ 28 لیکن جیسے ہی یہ ساری باتیں ہونے لگیں تو سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اپنے سر اُٹھائیں کیونکہ آپ کی نجات کا وقت نزدیک ہے۔
ایک دوسرے سے بہن بھائیوں کی طرح پیار کرنے کا عزم کریں
17 ’دلیری کے ساتھ کہیں کہ یہوواہ میرا مددگار ہے۔‘ (عبرانیوں 13:6 کو پڑھیں۔) ہم یہوواہ خدا پر بھروسا رکھتے ہیں اِس لیے ہم ہر صورتحال کا دلیری سے سامنا کرتے ہیں۔ اِس دلیری کی وجہ سے ہماری سوچ مثبت رہتی ہے۔ بہن بھائیوں کے لیے ہماری محبت اور مثبت سوچ ہمیں ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ (1-تھس 5:14، 15) دُنیا تو بڑی مصیبت کے وقت مایوسی کے عالم میں ہوگی لیکن ہم ’سیدھے ہو کر اپنے سر اُوپر اُٹھائیں گے کیونکہ ہماری مخلصی نزدیک ہوگی۔‘—لُو 21:25-28۔
م15 15/7 ص. 17 پ. 13
”تمہاری مخلصی نزدیک“ ہے!
13 جب بکریوں کو پتہ چلے گا کہ اُنہیں ”ہمیشہ کی سزا“ دی جائے گی تو وہ کیا کریں گی؟ وہ اپنی ”چھاتی پیٹیں گی۔“ (متی 24:30) لیکن اُس وقت ممسوح مسیحی اور اُن کے ساتھی کیا کریں گے؟ وہ یہوواہ خدا اور اُس کے بیٹے پر پورا بھروسا ظاہر کریں گے اور یسوع کے اِس حکم پر عمل کریں گے: ”جب یہ باتیں ہونے لگیں تو سیدھے ہو کر سر اُوپر اُٹھانا اِس لئے کہ تمہاری مخلصی نزدیک ہوگی۔“ (لُو 21:28) ہمیں اِس بات کی بےپناہ خوشی ہوگی کہ ہماری نجات نزدیک ہے!
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 21:33) چاہے آسمان اور زمین مٹ جائیں، میری باتیں ہرگز نہیں مٹیں گی۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 21:33 پر اِضافی معلومات
آسمان اور زمین مٹ جائیں: بائبل کی دوسری آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آسمان اور زمین ہمیشہ قائم رہیں گے۔ (پید 9:16؛ زبور 104:5؛ واعظ 1:4) اِس لیے یسوع مسیح کی اِس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر آسمان اور زمین مٹ جائیں یعنی ایک ناممکن بات ممکن ہو جائے تو بھی یسوع مسیح کی باتیں پوری ہوں گی۔ (متی 5:18 پر غور کریں۔) لیکن شاید یہاں اُن آسمان اور زمین کی طرف اِشارہ کِیا گیا ہے جنہیں مکاشفہ 21:1 میں ”پہلا آسمان اور پہلی زمین“ کہا گیا ہے۔
میری باتیں ہرگز نہیں مٹیں گی: یونانی زبان میں یہاں فعل کے ساتھ دو بار منفی کا صیغہ اِستعمال ہوا ہے۔ اور ایسا اُس وقت کِیا جاتا ہے جب اِس بات پر زور دیا جا رہا ہو کہ کوئی بات پتھر پر لکیر ہے۔ لہٰذا یہاں اِس بات کو واضح کِیا گیا ہے کہ یسوع مسیح کی باتیں ہمیشہ قائم رہیں گی۔
(لُوقا 22:28-30) آپ نے میری آزمائشوں میں میرا ساتھ دیا ہے۔ 29 لہٰذا جس طرح میرے باپ نے ایک بادشاہت کے سلسلے میں میرے ساتھ عہد باندھا ہے اُسی طرح مَیں آپ کے ساتھ عہد باندھتا ہوں 30 کہ آپ میری بادشاہت میں میری میز پر کھائیں گے اور پئیں گے اور تختوں پر بیٹھ کر اِسرائیل کے 12 قبیلوں کا اِنصاف کریں گے۔
تُم ”کاہنوں کی ایک مملکت“ ہو گے
15 یادگاری تقریب رائج کرنے کے بعد یسوع مسیح نے اپنے وفادار شاگردوں کے ساتھ ایک عہد باندھا جسے بادشاہت کا عہد کہتے ہیں۔ (لوقا 22:28-30 کو فٹنوٹ سے پڑھیں۔) یہ عہد باقی عہدوں سے فرق ہے۔ باقی عہدوں میں ایک فریق یہوواہ خدا ہے جبکہ بادشاہت کا عہد صرف یسوع مسیح اور ممسوح مسیحیوں کے درمیان ہے۔ جب یسوع مسیح نے کہا کہ ”جس طرح میرے باپ نے . . . میرے ساتھ عہد باندھا ہے“ تو شاید وہ ”ملکِصدق کے طور پر ابد تک کاہن“ ہونے کے عہد کی طرف اِشارہ کر رہے تھے جو یہوواہ خدا نے اُن کے ساتھ باندھا تھا۔—عبر 5:5، 6۔
16 یسوع مسیح کے 11 وفادار رسولوں نے ’اُن کی آزمائشوں میں اُن کا ساتھ دیا تھا۔‘ بادشاہت کا عہد اِس بات کی ضمانت تھا کہ یہ رسول آسمان پر تختوں پر بیٹھیں گے، یسوع مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے اور کاہنوں کے طور خدمت کریں گے۔ لیکن یسوع مسیح نے صرف 11 رسولوں کو ہی یہ موقع نہیں دیا تھا۔ اُنہوں نے ایک رویا میں یوحنا رسول سے کہا: ”جو غالب آئے مَیں اُسے اپنے ساتھ اپنے تخت پر بٹھاؤں گا۔ جس طرح مَیں غالب آ کر اپنے باپ کے ساتھ اُس کے تخت پر بیٹھ گیا۔“ (مکا 3:21) لہٰذا یسوع مسیح نے بادشاہت کا عہد تمام ممسوح مسیحیوں کے ساتھ باندھا ہے۔ (مکا 5:9، 10؛ 7:4) اِس عہد کی بِنا پر 1 لاکھ 44 ہزار ممسوح مسیحیوں کو یہ قانونی حق ملا کہ وہ یسوع مسیح کے ساتھ آسمان پر حکمرانی کریں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی شہزادی کی شادی کسی بادشاہ سے ہوتی ہے اور یوں اُسے بادشاہ کے ساتھ مل کر حکمرانی کرنے کا حق مل جاتا ہے۔ بائبل میں ممسوح مسیحیوں کو مسیح کی ”دُلہن“ اور ”پاک دامن کنواری“ کہا گیا ہے جس کی مسیح سے شادی ہوگی۔—مکا 19:7، 8؛ 21:9؛ 2-کر 11:2۔
27 اگست–2 ستمبر
پاک کلام سے سنہری باتیں | لُوقا 23، 24
”دوسروں کو معاف کرنے کے لیے تیار رہیں“
(لُوقا 23:34) لیکن یسوع دُعا کر رہے تھے کہ ”باپ، اُن کو معاف کر دے کیونکہ اُن کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔“ پھر سپاہیوں نے یسوع کے کپڑے آپس میں تقسیم کرنے کے لیے قُرعہ ڈالا۔
سیایل ص. 297 پ. 16
”مسیح کی محبت کو جان لیں“
16 یسوع مسیح نے ایک اَور اہم طریقے سے اپنے باپ جیسی محبت ظاہر کی۔ وہ دوسروں کو ”معاف کرنے کو تیار“ تھے۔ (زبور 86:5) یہ بات اُس وقت بھی ظاہر ہوئی جب وہ سُولی پر تھے۔ اُنہیں ایک ذِلتآمیز موت کی سزا سنائی گئی تھی اور اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں کیل ٹھونکے گئے تھے لیکن اُس وقت بھی اُنہوں نے کیا کِیا؟ کیا اُنہوں نے یہوواہ خدا سے کہا کہ وہ اُن لوگوں کو سزا دے جنہوں نے اُنہیں سُولی پر چڑھایا ہے؟ بالکل نہیں۔ اِس کے برعکس اُن کے آخری الفاظ میں یہ بات شامل تھی: ”باپ، اُن کو معاف کر دے کیونکہ اُن کو پتہ نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔“—لُوقا 23:34۔
(لُوقا 23:43) اِس پر یسوع نے اُس سے کہا: ”مَیں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ فردوس میں ہوں گے۔“
جی 2/08 ص. 11 پ. 5، 6
کیا خدا سنگین گُناہوں کو بھی معاف کر دیتا ہے؟
یہوواہ خدا صرف یہ نہیں دیکھتا کہ ایک شخص نے کیا گُناہ کِیا ہے بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اُس کا رویہ کیسا ہے۔ (یسعیاہ 1:16-19) اِس سلسلے میں اُن دو مُجرموں پر غور کریں جنہیں یسوع مسیح کے ساتھ سُولی دی گئی تھی۔ اُنہوں نے سنگین گُناہ کیے تھے کیونکہ اُن میں سے ایک آدمی نے یہ تسلیم کِیا کہ ”ہماری سزا تو واجبی ہے کیونکہ اپنے کاموں کا بدلہ پا رہے ہیں لیکن اِس [یسوع] نے کوئی بےجا کام نہیں کِیا۔“ اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مُجرم، یسوع مسیح سے واقف تھا۔ اور شاید اِسی وجہ سے اُس کے رویے میں تبدیلی آئی تھی۔ یہ بات اُس کی اُس اِلتجا سے ظاہر ہوتی ہے جو اُس نے یسوع مسیح سے کی۔ اُس نے کہا: ”جب تُو اپنی بادشاہی میں آئے تو مجھے یاد کرنا۔“ یسوع مسیح نے اُس کی اِس اِلتجا پر کیسا ردِعمل ظاہر کِیا؟ اُنہوں نے کہا: ”مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ . . . تُو میرے ساتھ فردوس میں ہوگا۔“—لوقا 23:41-43۔
ذرا غور کریں کہ یسوع مسیح نے اپنے آخری الفاظ میں ایک ایسے شخص کے لیے رحم ظاہر کِیا جس نے یہ تسلیم کِیا تھا کہ وہ سزائےموت کے لائق ہے۔ یہ جان کر ہمیں کتنا حوصلہ ملتا ہے! لہٰذا ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح اور یہوواہ خدا اُن سب لوگوں پر رحم کریں گے جو سچے دل سے توبہ کرتے ہیں، چاہے اُنہوں نے ماضی میں جیسے بھی کام کیے ہوں۔—رومیوں 4:7۔
(لُوقا 24:34) جنہوں نے کہا: ”بےشک ہمارے مالک زندہ ہو گئے ہیں۔ وہ شمعون کو دِکھائی دیے ہیں۔“
سیایل ص. 297، 298 پ. 17، 18
”مسیح کی محبت کو جان لیں“
17 یسوع مسیح نے دوسروں کو معاف کرنے کے سلسلے میں اِس سے بھی عمدہ مثال اُس وقت قائم کی جب اُنہوں نے پطرس رسول کو معاف کر دیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پطرس یسوع مسیح سے بہت پیار کرتے تھے۔ زمین پر یسوع مسیح کی آخری رات یعنی 14 نیسان کو پطرس نے یسوع مسیح سے کہا: ”مالک، مَیں آپ کے ساتھ قید ہونے اور مرنے کو بھی تیار ہوں۔“ لیکن اِس کے کچھ ہی گھنٹے بعد پطرس نے تین بار یسوع مسیح کو جاننے سے اِنکار کر دیا۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ جب پطرس نے تیسری بار یسوع مسیح کو جاننے سے اِنکار کِیا تو کیا ہوا؟ اِس میں لکھا ہے کہ ”ہمارے مالک نے مُڑ کر پطرس کی طرف دیکھا۔“ پطرس کو اپنے گُناہ کا اِتنی شدت سے احساس ہوا کہ وہ ”باہر جا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔“ اُس دن یسوع مسیح کی موت کے بعد شاید پطرس نے یہ سوچا ہو کہ ”کیا میرے مالک نے مجھے معاف کر دیا ہے؟“—لُوقا 22:33، 61، 62۔
18 پطرس کو اِس سوال کا جواب جاننے کے لیے زیادہ اِنتظار نہیں کرنا پڑا۔ یسوع مسیح 16 نیسان کی صبح مُردوں میں سے جی اُٹھے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اُسی دن پطرس سے ملے۔ (لُوقا 24:34؛ 1-کُرنتھیوں 15:4-8) یسوع مسیح نے ایک ایسے رسول کو اِتنی اہمیت کیوں دی جنہوں نے اِتنی شدت سے اُن کا اِنکار کِیا؟ چونکہ پطرس نے اپنے گُناہ سے توبہ کر لی تھی اِس لیے ہو سکتا ہے کہ یسوع مسیح اُنہیں یہ یقین دِلانا چاہتے تھے کہ وہ اب بھی اُن سے پیار کرتے ہیں اور اُن کی قدر کرتے ہیں۔ لیکن یسوع مسیح نے اُنہیں یقین دِلانے کے لیے اِس سے بھی بڑھ کر کچھ کِیا۔
سنہری باتوں کی تلاش
(لُوقا 23:31) اگر وہ اب یہ کام کر رہے ہیں جبکہ درخت ہرا ہے تو اُس وقت کیا ہوگا جب وہ سُوکھ جائے گا؟“
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں لُوقا 23:31 پر اِضافی معلومات
جبکہ درخت ہرا ہے . . . جب وہ سُوکھ جائے گا: یہاں یسوع مسیح غالباً یہودی قوم کی طرف اِشارہ کر رہے تھے۔ یہودی قوم ایک ایسے درخت کی طرح تھی جو سُوکھ رہا ہو لیکن اُس میں کچھ ہرے پتے باقی ہوں کیونکہ یسوع مسیح ابھی زمین پر موجود تھے اور کچھ یہودی بھی اُن پر ایمان لے آئے تھے۔ لیکن بہت جلد یسوع مسیح کو سُولی پر چڑھایا جانا تھا اور وفادار یہودیوں کو پاک روح سے مسح کِیا جانا تھا جنہوں نے روحانی اِسرائیل کا حصہ بن جانا تھا۔ (روم 2:28، 29؛ گل 6:16) اور اُس وقت بنیاِسرائیل نے اِس درخت کی طرح بالکل سُوکھ جانا تھا یعنی روحانی طور پر مُردہ ہو جانا تھا۔—متی 21:43۔
(لُوقا 23:33) جب وہ اُس جگہ پہنچے جسے کھوپڑی کہتے ہیں تو اُنہوں نے یسوع کو کیلوں کے ساتھ سُولی پر لٹکا دیا اور اُن کی دائیں اور بائیں طرف دونوں مُجرموں کو بھی سُولیوں پر لٹکا دیا۔
”ترجمہ نئی دُنیا“ کے آنلائن مطالعے کے ایڈیشن میں تصویریں اور ویڈیوز
ایڑی کی ہڈی میں ایک کیل
یہ تصویر اِنسان کی ایڑی کی ہڈی کے ایک ماڈل کی ہے جس میں لوہے کا ایک کیل ٹھونکا گیا تھا جو 5.11 سینٹیمیٹر (5.4 اِنچ) لمبا تھا۔ یہ ہڈی 1968ء میں شمالی یروشلیم کی کھدائی کے دوران دریافت ہوئی اور اِس کا تعلق رومی حکومت کے دَور سے ہے۔ آثارِقدیمہ کی اِس دریافت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ غالباً اُس زمانے میں لوگوں کو لکڑی کی سُولی پر لٹکانے کے لیے اُن کے ہاتھ اور پاؤں کیلوں سے سُولی پر ٹھونک دیے جاتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کیل اُن کیلوں جیسا ہو جن کے ساتھ رومی سپاہیوں نے یسوع مسیح کو سُولی پر لٹکایا تھا۔ عام طور پر لاش کے گل سڑ جانے کے بعد اُس کی ہڈیاں پتھر کے ایک صندوق میں رکھی جاتی تھیں۔ یہ ہڈی بھی ایک ایسے ہی صندوق سے ملی تھی۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس شخص کو سُولی پر لٹکایا جاتا تھا، اُسے دفن بھی کِیا جا سکتا تھا۔