لُوقا
20 ایک دن جب یسوع ہیکل* میں لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے اور خوشخبری سنا رہے تھے تو اعلیٰ کاہن، شریعت کے عالم اور بزرگ آئے 2 اور کہنے لگے: ”بتاؤ، تمہارے پاس یہ سب کام کرنے کا اِختیار کہاں سے آیا؟ تمہیں کس نے یہ اِختیار دیا؟“ 3 یسوع نے جواب دیا: ”پہلے مَیں آپ سے ایک بات پوچھوں گا۔ مجھے بتائیں کہ 4 یوحنا کو بپتسمہ دینے کا اِختیار کس نے دیا تھا؟ خدا* نے یا اِنسانوں نے؟“ 5 وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ”اگر ہم کہیں گے: ”خدا نے“ تو یہ کہے گا: ”تو پھر آپ اُس پر ایمان کیوں نہیں لائے؟“ 6 لیکن اگر ہم کہیں گے: ”اِنسانوں نے“ تو لوگ ہمیں سنگسار کریں گے کیونکہ وہ یوحنا کو نبی مانتے ہیں۔“ 7 اِس لیے اُنہوں نے جواب دیا: ”ہمیں نہیں پتہ کہ اُسے کس نے اِختیار دیا تھا۔“ 8 اِس پر یسوع نے اُن سے کہا: ”تو پھر مَیں بھی آپ کو نہیں بتاؤں گا کہ مجھے یہ کام کرنے کا اِختیار کس نے دیا ہے۔“
9 پھر یسوع نے لوگوں کو یہ مثال دی: ”ایک آدمی نے انگوروں کا باغ لگایا اور اِسے کاشتکاروں کو کرائے پر دے دیا۔ پھر وہ کافی عرصے کے لیے پردیس چلا گیا۔ 10 جب انگوروں کا موسم آیا تو اُس نے ایک غلام کو کاشتکاروں کے پاس بھیجا تاکہ وہ باغ سے کچھ پھل لے آئے۔ مگر کاشتکاروں نے اُس کو ماراپیٹا اور خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔ 11 اُس آدمی نے ایک اَور غلام کو اُن کے پاس بھیجا مگر اُنہوں نے اُس کو بھی مارا پیٹا، بےعزت کِیا اور خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔ 12 پھر اُس آدمی نے ایک اَور غلام کو بھیجا۔ لیکن اُنہوں نے اُسے بھی زخمی کر دیا اور باغ سے باہر پھینک دیا۔ 13 اِس پر باغ کے مالک نے سوچا: ”اب مَیں کیا کروں؟ ایسا کرتا ہوں کہ اپنے پیارے بیٹے کو بھیجتا ہوں۔ وہ اُس کا تو لحاظ کریں گے۔“ 14 جب کاشتکاروں نے بیٹے کو دیکھا تو وہ اُس کے خلاف سازش کرنے لگے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے: ”یہی تو باغ کا وارث ہے۔ آؤ، اِس کو قتل کر دیں تاکہ باغ* ہمیں مل جائے۔“ 15 لہٰذا وہ اُس کو گھسیٹ کر باغ سے باہر لے گئے اور اُسے مار ڈالا۔ اب باغ کا مالک اُن کے ساتھ کیا کرے گا؟ 16 وہ آ کر اُن کو ہلاک کرے گا اور باغ دوسرے کاشتکاروں کو دے دے گا۔“
یہ سُن کر اُنہوں نے کہا: ”خدا نہ کرے کہ ایسا ہو!“ 17 لیکن یسوع نے اُن کی طرف دیکھ کر کہا: ”تو پھر اِس صحیفے کا کیا مطلب ہے: ”جس پتھر کو مزدوروں نے ٹھکرا دیا، وہ کونے کا سب سے اہم پتھر* بن گیا“؟ 18 جو بھی شخص اِس پتھر پر گِرے گا، وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا اور جس پر یہ پتھر گِرے گا، وہ کچلا جائے گا۔“
19 جب شریعت کے عالموں اور اعلیٰ کاہنوں نے یہ مثال سنی تو وہ سمجھ گئے کہ یسوع اُن کی بات کر رہے ہیں۔ وہ اُن کو اُسی وقت گِرفتار کرنا چاہتے تھے لیکن لوگوں سے ڈرتے تھے۔ 20 لہٰذا وہ موقع ڈھونڈنے لگے کہ کسی نہ کسی طرح یسوع کو پھنسائیں تاکہ اُنہیں اعلیٰ افسروں اور حاکم کے حوالے کر سکیں۔ اِس لیے اُنہوں نے کچھ آدمیوں کو خفیہ طور پر پیسے دیے تاکہ وہ یسوع کے پاس جا کر خود کو دیندار ظاہر کریں اور اُنہیں اُن کی اپنی ہی باتوں میں پھنسانے کی کوشش کریں۔ 21 اُن آدمیوں نے یسوع سے کہا: ”اُستاد، ہم جانتے ہیں کہ آپ کی باتیں اور تعلیم صحیح ہے اور آپ کسی کی طرفداری نہیں کرتے بلکہ خدا کی راہ کی سچی تعلیم دیتے ہیں۔ 22 کیا قیصر کو ٹیکس دینا جائز ہے یا نہیں؟“ 23 لیکن یسوع نے اُن کی چالاکی بھانپ لی اور کہا: 24 ”مجھے ایک دینار دِکھائیں۔ اِس پر کس کی تصویر اور نام نظر آ رہا ہے؟“ اُنہوں نے جواب دیا: ”قیصر کا۔“ 25 اِس پر یسوع نے کہا: ”لہٰذا جو چیزیں قیصر کی ہیں، قیصر کو دیں لیکن جو چیزیں خدا کی ہیں، خدا کو دیں۔“ 26 بہرحال وہ لوگوں کے سامنے یسوع کو اُن کی اپنی باتوں میں نہیں پھنسا سکے بلکہ اُن کے جواب پر دنگ رہ گئے اور خاموش ہو گئے۔
27 وہاں صدوقی بھی تھے جو اِس بات کو نہیں مانتے کہ مُردے زندہ ہوں گے۔ اُن میں سے کچھ نے یسوع کے پاس آ کر پوچھا: 28 ”اُستاد، موسیٰ نے لکھا تھا کہ ”اگر کسی آدمی کا بھائی بےاولاد مر جائے تو وہ اپنے بھائی کی بیوی سے شادی کر لے اور اُس کے لیے اولاد پیدا کرے۔“ 29 اب سات بھائی تھے؛ پہلے نے ایک عورت سے شادی کی لیکن بےاولاد مر گیا۔ 30 اِسی طرح دوسرے نے 31 اور پھر تیسرے نے یہاں تک کہ ساتوں نے اُس عورت سے شادی کی لیکن وہ سب بےاولاد مر گئے۔ 32 سب سے آخر میں وہ عورت بھی مر گئی۔ 33 اب سوال یہ ہے کہ جب مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا تو وہ عورت کس کی بیوی ہوگی کیونکہ ساتوں بھائیوں نے اُس سے شادی کی تھی؟“
34 یسوع نے اُنہیں جواب دیا: ”اِس زمانے کے لوگ شادی کرتے ہیں اور اُن کی شادی کروائی جاتی ہے۔ 35 لیکن جو لوگ اُس زمانے میں رہنے اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے لائق ٹھہرائے جاتے ہیں، وہ نہ تو شادی کریں گے اور نہ ہی اُن کی شادی کروائی جائے گی۔ 36 دراصل وہ پھر سے نہیں مر سکیں گے کیونکہ وہ فرشتوں کی طرح ہوں گے اور چونکہ اُنہیں مُردوں میں سے زندہ کِیا جائے گا اِس لیے وہ خدا کے بچے کہلائیں گے۔ 37 مگر مُردے ضرور زندہ کیے جائیں گے کیونکہ موسیٰ نے بھی جلتی ہوئی جھاڑی والے واقعے میں کہا کہ یہوواہ* ”ابراہام کا خدا، اِضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا“ ہے۔ 38 وہ مُردوں کا نہیں بلکہ زندوں کا خدا ہے کیونکہ اُس کی نظر میں وہ سب زندہ ہیں۔“ 39 اِس پر شریعت کے کچھ عالموں نے کہا: ”اُستاد، آپ نے بالکل صحیح کہا!“ 40 کیونکہ اب اُن میں یسوع سے کوئی اَور سوال پوچھنے کی جُرأت نہیں رہی تھی۔
41 پھر یسوع نے اُن سے پوچھا: ”لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ مسیح داؤد کا بیٹا ہے؟ 42 داؤد نے تو زبور کی کتاب میں خود کہا تھا: ”یہوواہ* نے میرے مالک سے کہا کہ ”میری دائیں طرف بیٹھو 43 جب تک کہ مَیں تمہارے دُشمنوں کو تمہارے پاؤں کی چوکی کی طرح نہ کر دوں۔“ “ 44 اگر داؤد اُسے مالک کہتے ہیں تو وہ اُن کا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟“
45 اب سب لوگ یسوع کی باتیں سُن رہے تھے اور یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا: 46 ”شریعت کے عالموں سے خبردار رہیں۔ اُنہیں لمبے لمبے چوغے پہن کر پھرنے کا بڑا شوق ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ بازاروں میں لوگ اُنہیں سلام کریں۔ وہ عبادتگاہوں میں اگلی* کُرسیوں اور دعوتوں میں سب سے اہم جگہوں پر بیٹھنا پسند کرتے ہیں۔ 47 وہ بیواؤں کی جائیداد کو ہڑپ کر جاتے ہیں اور دِکھاوے کے لیے لمبی لمبی دُعائیں کرتے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ سخت سزا پائیں گے۔“