پانچواں باب
یہوواہ کے خادم کس لحاظ سے آزاد ہیں؟
۱، ۲. (ا) خدا نے آدم اور حوا کو کیا کرنے کی آزادی دی؟ (ب) آدم اور حوا کن قوانین اور احکام کے پابند تھے؟
یہوواہ خدا نے جب آدم اور حوا کو خلق کِیا تو اُس نے اُنہیں ایک خوبصورت فردوس میں بسایا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے صحتمند اور تندرست تھے۔ موت اُن کی تاک میں نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اُنہیں اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔ لیکن اس قسم کی آزادی سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے اُنہیں خدا کے قوانین کو قبول کرنا تھا۔
۲ اس کی ایک مثال قدرتی قوانین ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ایسے قانون کسی کتاب میں نہیں لکھے ہیں لیکن آدم اور حوا کو اس طرح خلق کِیا گیا تھا کہ ان قوانین پر عمل کرنا اُن کی فطرت میں تھا۔ مثلاً جب اُنہیں بھوک لگتی تو وہ کچھ کھا لیتے، جب اُنہیں پیاس لگتی تو وہ پانی پیتے اور جب اُنہیں نیند آتی تو وہ سو جاتے۔ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو اولاد پیدا کرنے، جانوروں پر اختیار رکھنے اور پوری زمین کو ایک فردوس بنانے کا حکم دیا تھا۔ (پیدایش ۱:۲۸؛ ۲:۱۵) اِن قوانین اور احکام پر عمل کرنے سے آدم اور حوا لطف اُٹھاتے اور بھرپور طریقے سے اپنی صلاحیتوں کو بھی استعمال میں لاتے۔ اُنہیں اس بات کا فیصلہ کرنے کی آزادی دی گئی تھی کہ وہ پوری زمین کو ایک فردوس بنانے کے حکم کو کیسے انجام دیں گے۔ بِلاشُبہ اُنہیں کسی بھی چیز کی کمی نہ تھی۔
۳. آدم اور حوا کو کیا کرنا تھا تاکہ اُن کے فیصلوں کے نتائج اچھے نکلتے؟
۳ خدا نے آدم اور حوا کو خود فیصلے کرنے کی آزادی بخشی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اُن کے ہر فیصلے کے نتائج اچھے ہی ہوتے۔ یہ تو صرف اُسی صورت میں ممکن ہوتا اگر وہ خدا کے اصولوں اور معیاروں کو مدِنظر رکھ کر فیصلے کرتے۔ وہ خدا کے اصولوں اور معیاروں کے بارے میں کیسے سیکھ سکتے تھے؟ وہ خدا کی باتوں پر کان لگانے سے اور اُس کے کاموں پر غور کرنے سے ہی ایسا کر سکتے تھے۔ خدا نے آدم اور حوا کو سمجھ سے نوازا تھا تاکہ وہ سیکھی ہوئی باتوں کو عمل میں لا سکیں۔ اور چونکہ وہ بےعیب تھے اس لئے فیصلے کرتے وقت، خدا کی خوبیوں کی عکاسی کرنا اُن کی فطرت میں تھا۔ جیہاں، اگر وہ خدا کی برکتوں کے لئے اپنی شکرگزاری دکھانا چاہتے اور اُس کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے تو فیصلے کرتے وقت اُنہیں خدا کی خوبیوں کی عکاسی کرنی تھی۔—پیدایش ۱:۲۶، ۲۷؛ یوحنا ۸:۲۹۔
۴. (ا) کیا پیدایش ۲:۱۶، ۱۷ میں درج خدا کے حکم کی وجہ سے آدم اور حوا اپنی آزادی سے محروم ہو گئے تھے؟ (ب) یہ پابندی موزوں کیوں تھی؟
۴ خدا نے آدم اور حوا کو فیصلے کرنے کی آزادی تو دی تھی لیکن اس آزادی کو وہ خدا کی دی ہوئی حدود میں ہی استعمال کر سکتے تھے۔ اس کی ایک مثال پر غور کریں۔ یہوواہ خدا نے آدم کو یہ حکم دیا: ”تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بےروکٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیکوبد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا۔“ (پیدایش ۲:۱۶، ۱۷) بعد میں جب خدا نے حوا کو خلق کِیا تو اُس کو بھی اس حکم سے آگاہ کِیا گیا تھا۔ (پیدایش ۳:۲، ۳) کیا اس حکم کی وجہ سے آدم اور حوا اپنی آزادی سے محروم ہو گئے تھے؟ بالکل نہیں۔ اُن کو دوسرے بیشمار اقسام کے پھل کھانے کی مکمل آزادی تھی۔ (پیدایش ۲:۸، ۹) ایک خاص درخت سے پھل کھانے پر پابندی اس لئے لگائی گئی تھی تاکہ وہ اس بات کو پہچانیں کہ خدا ہی زمین کا خالق اور مالک ہے۔ اور یہ بھی کہ خدا کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اور انسان کی بھلائی کے لئے قوانین عائد کرے۔—زبور ۲۴:۱، ۱۰۔
۵. (ا) آدم اور حوا نے خدا کی طرف سے دی گئی آزادی کیسے کھو دی؟ (ب) آزادی کھو کر آدم اور حوا کس کی غلامی میں آ گئے؟ (پ) آدم اور حوا کے گُناہ کا اُن کی اولاد پر کیسا اثر پڑا؟
۵ انسان کی شروعات تو اچھی تھی لیکن حالات کیوں بگڑ گئے؟ ایک خودغرض فرشتے نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے خود کو شیطان یعنی خدا کا ”مخالف“ بنا لیا۔ اُس نے حوا کو خدا کے حکم کی خلافورزی کرنے پر ورغلایا۔ (پیدایش ۳:۴، ۵) آدم نے بھی حوا کا ساتھ دے کر خدا کا حکم توڑ دیا۔ اُنہوں نے اُس درخت کا پھل کھا لیا جس سے خدا نے اُنہیں کھانے سے منع کِیا تھا۔ ایسا کرنے سے وہ خدا کی طرف سے دی گئی آزادی کھو بیٹھے اور گُناہ کے غلام بن گئے۔ اور جس طرح خدا نے اُن کو پہلے آگاہ کِیا تھا وہ موت کے شکنجے میں پھنس گئے۔ آدم اور حوا کی اولاد نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے اور اس کے نتیجے میں اُن کا رُجحان غلط کاموں کی طرف ہے۔ گُناہ کے نتیجے میں انسان بیمار پڑتے، بوڑھے ہوتے اور آخرکار مر جاتے ہیں۔ شیطان کے اثر اور انسان کی بُری روش کا انجام نفرت، جُرم، ظلم اور ایسی جنگیں ہیں جن میں اربوں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ واقعی، انسان کی شروعات میں اور آج کے حالات میں کتنا فرق پایا جاتا ہے۔—استثنا ۳۲:۴، ۵؛ ایوب ۱۴:۱، ۲؛ رومیوں ۵:۱۲؛ مکاشفہ ۱۲:۹۔
حقیقی آزادی کیسے مل سکتی ہے؟
۶. (ا) انسان کو حقیقی آزادی کیسے مل سکتی ہے؟ (ب) یسوع کس قسم کی آزادی کی بات کر رہا تھا؟
۶ لوگ دُنیا کے بُرے حالات سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن اُنہیں حقیقی آزادی کیسے مل سکتی ہے؟ یسوع نے کہا تھا: ”اگر تُم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تُم کو آزاد کرے گی۔“ (یوحنا ۸:۳۱، ۳۲) کئی لوگ اپنے ملک کی حکومت سے اُکتا کر آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ایک حکومت کو ترک کرکے کسی دوسری حکومت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یوحنا ۸:۳۱، ۳۲ میں یسوع اس طرح کی آزادی کی بات نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ انسان کو گُناہ کی غلامی سے رہائی دلانے کی بات کر رہا تھا۔ (یوحنا ۸:۲۴، ۳۴-۳۶) اگر ایک شخص یسوع کا سچا پیروکار بن جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی میں تبدیلی محسوس کرنے لگتا ہے کیونکہ اُسے ایک طرح کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔
۷. (ا) ہم آج کس لحاظ سے گُناہ سے آزاد ہو سکتے ہیں؟ (ب) ایسی آزادی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہوگا؟
۷ کیا اس کا مطلب ہے کہ سچے مسیحیوں کو بُری روش میں پڑنے کا خطرہ نہیں ہے؟ سب انسانوں نے گُناہ کا داغ ورثے میں پایا ہے اس لئے سچے مسیحیوں کو بھی اپنے بُرے رُجحانات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ (رومیوں ۷:۲۱-۲۵) لیکن اگر ایک شخص یسوع مسیح کی تعلیم کو اپنی زندگی میں لاگو کرے گا تو وہ گُناہ کا غلام نہیں رہے گا۔ اور نہ ہی اُسے ایسا لگے گا کہ گُناہ اُس کا آقا بن چکا ہے جس کے اشاروں پر وہ چل رہا ہے اور جس کی ہر بات ماننے پر وہ مجبور ہے۔ اُس کا ضمیر اُس کی ملامت نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ اُس کی زندگی بےمقصد بھی نہیں ہوگی۔ چونکہ اُس نے یسوع مسیح کی قربانی کے وسیلے سے خدا سے معافی حاصل کر لی ہوگی اس لئے اُس کا دل صاف ہو جائے گا۔ یہ سچ ہے کہ اس کے بعد بھی ایک شخص کو اپنے بُرے رُجحانات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ لیکن جب ایک شخص یسوع کی تعلیم کو اپنی زندگی میں لاگو کرنے سے گُناہ کے پھندے میں پھنسنے سے انکار کرے گا تو وہ گُناہ کا غلام نہیں رہے گا۔—رومیوں ۶:۱۲-۱۷۔
۸. (ا) سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں کس طرح کی آزادی حاصل ہے؟ (ب) انسانی حکمرانوں کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہونا چاہئے؟
۸ ذرا اس بات پر غور کریں کہ سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں کس طرح کی آزادی حاصل ہے۔ ہم جھوٹے مذہب کی تعلیم سے آزاد ہو چکے ہیں، ہم جادوٹونے کے جال سے رِہا ہو گئے ہیں اور ہم گُناہ کے شکنجے میں نہیں رہے۔ ہم مُردوں سے نہیں ڈرتے کیونکہ ہم جان گئے ہیں کہ وہ کس حالت میں ہیں اور یہ بھی کہ اُن کو زندہ کِیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہمیں مایوسی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بہت جلد خدا کی بادشاہت انسانی حکومتوں کو تباہ کرکے زمین پر حکمرانی کرنا شروع کر دے گی۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ متی ۶:۱۰) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں انسانی حکمرانوں کے ساتھ بےادبی کرنے کی کُھلی چھٹی ہے۔—ططس ۳:۱، ۲؛ ۱-پطرس ۲:۱۶، ۱۷۔
۹. (ا) خدا ہمیں آج بھی گُناہ سے آزاد رہنے میں کیسے مدد فراہم کرتا ہے؟ (ب) ہم اچھے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟
۹ یہوواہ خدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم غلط فیصلے کرنے سے معلوم کریں کہ اچھی راہ کون سی ہے۔ وہ ہمارے مزاج سے اچھی طرح سے واقف ہے۔ اس لئے وہ جانتا ہے کہ آج اور ہمیشہ تک خوش رہنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ خدا یہ بھی جانتا ہے کہ ایک شخص اپنے اعمال اور سوچ کے ذریعے اُس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ اپنی دوستی کو کھو دینے کے خطرے میں کیسے پڑ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی سے محروم بھی ہو سکتا ہے۔ یہوواہ خدا اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے ہمیں ان باتوں سے آگاہ کرتا ہے۔ (مرقس ۱۳:۱۰؛ گلتیوں ۵:۱۹-۲۳؛ ۱-تیمتھیس ۱:۱۲، ۱۳) اور پھر ہمیں خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ ہم اس آگاہی پر کیسا ردِعمل دکھائیں گے۔ بائبل پر عمل کرنے سے ہم اچھے فیصلے کر پائیں گے۔ اور اس طرح ہم ظاہر کر رہے ہوں گے کہ خدا کے ساتھ دوستی برقرار رکھنا ہی ہماری زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
غلط قسم کی آزادی
۱۰. بعض یہوواہ کے گواہ کس قسم کی آزادی چاہنے لگے ہیں؟
۱۰ کبھی کبھار یہوواہ کے گواہوں میں سے بھی کچھ افراد ایک دوسری قسم کی آزادی چاہنے لگتے ہیں۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اُنہیں دُنیا دلکش لگنے لگتی ہے۔ اور جتنا زیادہ وہ اس کے بارے میں سوچتے ہیں اتنا ہی زیادہ وہ ایسے ناپاک کام کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جو دُنیا میں مقبول ہیں۔ پہلے تو ایسے مسیحی منشیات استعمال کرنے، حد سے زیادہ شراب پینے یا پھر بداخلاقی کرنے کا نہیں سوچ رہے ہوتے۔ لیکن اگر وہ دُنیا کے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھنا شروع کر دیں گے تو وہ اُن میں مقبول بھی ہونا چاہیں گے۔ اور اس طرح شاید وہ دُنیا کے لوگوں کی باتوں اور اعمال کی بھی نقل کرنے لگیں۔—۳-یوحنا ۱۱۔
۱۱. کبھیکبھار ہمیں غلط کام کرنے پر کون اُکساتا ہے؟
۱۱ کبھیکبھار ایک ایسا شخص جو یہوواہ خدا کی عبادت کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، وہ ہمیں غلط کام کرنے پر اُکساتا ہے۔ پہلی صدی کے مسیحیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا اور آج بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اکثر یہ لوگ لطف اُٹھانے کے لئے ایسے کام کرتے ہیں جو خدا کے حکموں کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور وہ دوسروں کو بھی مزے اُڑانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ دوسروں سے تو ”آزادی کا وعدہ کرتے ہیں اور آپ خرابی کے غلام بنے ہوئے ہیں۔“—۲-پطرس ۲:۱۹۔
۱۲. خدا کے احکام اور قوانین کی خلافورزی کرنے کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟
۱۲ اس قسم کی آزادی کے پھل ہمیشہ بُرے ہی ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنسی بداخلاقی کرنے سے ایک شخص جذباتی کشمکش کا شکار ہو سکتا ہے، ناجائز بچے پیدا ہو سکتے ہیں، شادی کا بندھن ٹوٹ سکتا ہے اور ایسی خطرناک بیماریاں لگ سکتی ہیں جن کا نتیجہ موت بھی ہو سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۶:۱۸؛ ۱-تھسلنیکیوں ۴:۳-۸) منشیات لینے اور حد سے زیادہ شراب پینے سے ایک شخص کی شخصیت میں چڑچڑاپن آ سکتا ہے۔ اُسے بولنے میں دقت ہو سکتی ہے اور اُس کی نظر دھندلا سکتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اُسے چکر آنے لگیں، اُس کی سانسیں پھولنے لگیں، اُس کے ذہن میں عجیب قسم کے تصور اُبھرنے لگیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ منشیات جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔ جن لوگوں کو منشیات لینے یا حد سے زیادہ شراب پینے کی عادت پڑ جاتی ہے وہ اس عادت کو جاری رکھنے کے لئے اکثر جرائم کرنے لگتے ہیں۔ (امثال ۲۳:۲۹-۳۵) ان عادتوں کا شکار بننے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں کیونکہ اُن کے نزدیک وہ جیسا چاہتے ہیں ویسا کر سکتے ہیں۔ لیکن جب اُنہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ گُناہ کے شکنجے میں پھنس گئے ہیں تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اور گُناہ بڑی بےرحمی سے ان پر حکومت چلاتا ہے۔ اگر ہم پہلے ہی سے ایسی باتوں پر غور کریں گے تو ہم گُناہ کی غلامی میں پڑنے سے بچے رہیں گے۔—گلتیوں ۶:۷، ۸۔
انسان گُناہ میں کیسے پڑتا ہے؟
۱۳. (ا) غلط خواہش ہمارے دل میں کیسے اُبھرتی ہے؟ (ب) ’بُری صحبتوں‘ کو پہچاننے کے لئے ہمیں کس کے نظریے کو اپنانے کی ضرورت ہے؟ (پ) پیراگراف ۱۳ میں دئے گئے سوالوں کے جواب دیتے وقت یہوواہ کے نظریے پر غور کریں۔
۱۳ انسان گُناہ میں اکثر کیسے پڑ جاتا ہے؟ بائبل میں اس بات کی یوں وضاحت کی جاتی ہے: ”ہر شخص اپنی ہی خواہشوں میں کھنچ کر اور پھنس کر آزمایا جاتا ہے۔ پھر خواہش حاملہ ہو کر گُناہ کو جنتی ہے اور گُناہ جب بڑھ چکا تو موت پیدا کرتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۱۴، ۱۵) غلط خواہش ہمارے دل میں کیسے اُبھرتی ہے؟ ہم اپنے ذہن میں جو کچھ بھرتے ہیں اس کا ہماری خواہشوں پر اثر ہوتا ہے۔ یہ اکثر ایسے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھنے کا نتیجہ ہوتا ہے جو بائبل میں پائے جانے والے معیاروں کے مطابق نہیں چلتے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں ’بُری صحبتوں‘ سے کنارہ کرنا چاہئے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳) لیکن خدا کی نظر میں کس قسم کی صحبتیں بُری ہیں؟ نیچے دئے گئے سوالوں اور ساتھ میں بائبل کے حوالوں پر غور کرنے سے ہم اس سوال کا جواب دے سکیں گے۔
کیا ایک شخص کا معاشرے میں معزز ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی صحبت ہمارے لئے اچھی ہوگی؟ (پیدایش ۳۴:۱، ۲، ۱۸، ۱۹)
کیا ایک شخص کی باتچیت سے ہمیں اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس کی صحبت ہمارے لئے اچھی ہے یا نہیں؟ (افسیوں ۵:۳، ۴)
یہوواہ کیسا محسوس کرتا ہے جب ہم ایسے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھتے ہیں جو اُس سے محبت نہیں رکھتے؟ (۲-تواریخ ۱۹:۱، ۲)
حالانکہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ سکول جاتے یا ملازمت کرتے ہیں جو ہمارے ہمایمان نہیں ہیں لیکن اُن کے ساتھ میلجول رکھنے کے معاملے میں ہمیں احتیاط کیوں برتنی چاہئے؟ (۱-پطرس ۴:۳، ۴)
ٹیلیویژن اور فلمیں دیکھنے سے، انٹرنیٹ استعمال کرنے سے اور کتابیں، رسالے یا اخبار پڑھنے سے ہم پر دوسروں کی سوچ کا اثر پڑ سکتا ہے۔ ایسی چیزوں میں پائی جانے والی کن باتوں سے ہمیں خبردار رہنا چاہئے؟ (امثال ۳:۱۳؛ یسعیاہ ۸:۱۹؛ افسیوں ۴:۱۷-۱۹)
ہم جس قسم کے لوگوں کے ساتھ صحبت رکھتے ہیں اس سے یہوواہ خدا کو ہمارے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟ (زبور ۲۶:۱، ۴، ۵؛ ۹۷:۱۰)
۱۴. بائبل میں پائی جانے والی راہنمائی پر عمل کرنے والے لوگ مستقبل میں کس قسم کی آزادی سے فائدہ حاصل کر سکیں گے۔
۱۴ خدا کی نئی دُنیا بہت جلد آنے والی ہے۔ خدا کی بادشاہت فرمانبردار انسانوں کو شیطان اور اس بُری دُنیا سے آزاد کر دے گی۔ پھر انسان آہستہ آہستہ گُناہ کے داغ سے پاک ہو جائیں گے۔ اور وہ ہمیشہ تک فردوس میں رہ سکیں گے۔ اُس وقت سب لوگوں کو ایسی آزادی حاصل ہوگی جو ’یہوواہ کی روح‘ کی راہنمائی کے مطابق چلنے سے حاصل ہوتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۳:۱۷) ہمیں خبردار رہنا چاہئے کہ ہم خدا کے کلام بائبل میں پائی جانے والی راہنمائی کو نظرانداز نہ کریں تاکہ ہم اس شاندار اُمید کو کھو نہ دیں۔ آئیں مسیحیوں کے طور پر ہم فیصلے کرنے کی اپنی آزادی کو دانشمندی سے استعمال کریں۔ اور اس طرح ہم ظاہر کریں گے کہ ہم ’خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں داخل ہونا‘ چاہتے ہیں۔—رومیوں ۸:۲۱۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• آدم اور حوا کو کس قسم کی آزادی حاصل تھی؟ اس کے برعکس آج ہمیں کن حالات کا سامنا ہے؟
• سچے مسیحیوں کو کس قسم کی آزادی حاصل ہے؟ اس کے برعکس دُنیا کے لوگ کیسی آزادی چاہتے ہیں؟
• بُری صحبتوں سے کنارہ کرنا اتنا اہم کیوں ہے؟ آدم کے برعکس ہمیں کس کے نظریے کو اپنانا چاہئے؟
[صفحہ ۴۶ پر تصویر]
خدا کا کلام آگاہی دیتا ہے کہ ”فریب نہ کھاؤ۔ بُری صحبتیں اچھی عادتوں کو بگاڑ دیتی ہیں“