یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کتنی پکی ہے؟
”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔“—یعقو 4:8۔
1. ہم سب کو خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھنے کی ضرورت کیوں ہے؟
کیا آپ نے اپنی زندگی یہوواہ خدا کے لیے وقف کر دی ہے اور بپتسمہ لے لیا ہے؟ تو پھر آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ یہوواہ خدا کے دوست ہیں۔ لیکن شیطان کی دُنیا اور ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہم سب کو خبردار رہنا پڑتا ہے تاکہ ہم خدا کی دوستی سے محروم نہ ہو جائیں۔ اِس لیے ہم سب کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط رکھیں۔
2. آپ خدا کے ساتھ اپنی دوستی اَور بھی مضبوط کیسے بنا سکتے ہیں؟
2 یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی کتنی گہری ہے؟ کیا آپ اِسے اَور بھی مضبوط بنانا چاہتے ہیں؟ یعقوب 4:8 میں بتایا گیا ہے کہ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اِس میں لکھا ہے: ”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئے گا۔“ لہٰذا اگر ہم خدا کے نزدیک جانے کے لیے قدم اُٹھاتے ہیں تو وہ بھی ہمارے نزدیک آتا ہے۔ اور جتنا زیادہ ہم اُس کے قریب جانے کی کوشش کرتے ہیں اُتنا ہی اُس کے ساتھ ہماری دوستی گہری ہو جاتی ہے اور ہم یسوع مسیح کی طرح محسوس کرتے ہیں جنہوں نے کہا: ”جس نے مجھے بھیجا ہے وہ سچا ہے۔ ... مَیں اُسے جانتا ہوں۔“ (یوح 7:28، 29) لیکن خدا کے نزدیک جانے کے لیے آپ کون سے قدم اُٹھا سکتے ہیں؟
3. یہوواہ خدا کے ساتھ ہمارا رابطہ کیسے قائم رہتا ہے؟
3 یہوواہ خدا کے نزدیک جانے کے لیے لازمی ہے کہ ہم باقاعدگی سے اُس سے بات کریں۔ لیکن آپ یہوواہ خدا کے ساتھ بات کیسے کر سکتے ہیں؟ ذرا سوچیں، اگر آپ کا کوئی دوست آپ سے کافی دُور رہتا ہے تو آپ اُس کے ساتھ رابطہ کیسے رکھتے ہیں؟ آپ یا تو ایک دوسرے کو فون کرتے ہیں یا خط لکھتے ہیں۔ اِسی طرح جب آپ دُعا کرتے ہیں تو آپ خدا سے بات کر رہے ہوتے ہیں۔ (زبور 142:2 کو پڑھیں۔) اور جب آپ خدا کا کلام پڑھتے ہیں اور اِس پر سوچ بچار کرتے ہیں تو دراصل یہوواہ خدا آپ سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ (یسعیاہ 30:20، 21 کو پڑھیں۔) آئیں، دیکھتے ہیں کہ اگر یہوواہ خدا اور آپ کے درمیان رابطہ قائم رہتا ہے تو اُس کے ساتھ آپ کی دوستی کیسے مضبوط ہوتی ہے۔
بائبل کا مطالعہ کرنے سے یہوواہ کی بات سنیں
4، 5. خدا اپنے کلام کے ذریعے آپ سے ذاتی طور پر کیسے بات کرتا ہے؟ ایک مثال دیں۔
4 ہم جانتے ہیں کہ بائبل میں سب اِنسانوں کے لیے خدا کا پیغام درج ہے۔ لیکن کیا خدا اِس کے ذریعے آپ سے ذاتی طور پر بھی بات کرتا ہے؟ جی ہاں۔ وہ کیسے؟ جب آپ باقاعدگی سے بائبل کو پڑھتے ہیں اور اِس کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھیں کہ آپ اِس میں لکھی ہوئی باتوں پر کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ غور کریں کہ آپ ذاتی طور پر اِن باتوں پر کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ اِس طرح آپ یہوواہ خدا کو موقع دیتے ہیں کہ وہ آپ سے بات کرے۔ یوں اُس کے ساتھ آپ کی دوستی اَور بھی پکی ہو جاتی ہے۔—عبر 4:12؛ یعقو 1:23-25۔
5 اِس سلسلے میں ایک مثال پر غور کریں۔ جب آپ یسوع مسیح کے یہ الفاظ پڑھتے ہیں کہ ”اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو“ تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اگر آپ ابھی بھی خدا کی بادشاہت کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دے رہے ہیں تو آپ کو لگے گا کہ یہوواہ خدا آپ کو شاباش دے رہا ہے۔ لیکن اگر آپ کو اپنی زندگی سادہ بنانے اور بادشاہت کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے تو دراصل یہوواہ خدا اِس آیت کے ذریعے آپ کی اِصلاح کرتا ہے۔ اگر آپ اِسے قبول کریں گے تو آپ اُس کے اَور زیادہ قریب ہو جائیں گے۔—متی 6:19، 20۔
6، 7. (الف) بائبل کا مطالعہ کرنے سے یہوواہ خدا کے لیے ہماری محبت پر کیا اثر پڑے گا اور اِس کے بدلے میں یہوواہ کیا کرے گا؟ (ب) بائبل کا مطالعہ کرتے وقت ہمارا مقصد کیا ہونا چاہیے؟
6 بائبل کا مطالعہ کرنے کا صرف یہی فائدہ نہیں کہ ہم اپنی کمزوریوں سے واقف ہو جاتے ہیں بلکہ ہم یہوواہ خدا کی خوبیوں سے بھی بہتر طور پر واقف ہو جاتے ہیں۔ یوں اُس کے لیے ہماری محبت بڑھ جاتی ہے۔ جب ہم اُس سے زیادہ پیار کرتے ہیں تو وہ بھی ہم سے زیادہ پیار کرے گا اور اُس کے ساتھ ہماری دوستی اَور بھی پکی ہو جائے گی۔—1-کرنتھیوں 8:3 کو پڑھیں۔
7 ہم صرف اُس صورت میں خدا کی قربت حاصل کر سکتے ہیں جب ہم صحیح مقصد سے اُس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یوحنا 17:3 میں لکھا ہے: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ لہٰذا ہمیں صرف علم حاصل کرنے کے لیے بائبل کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم یہوواہ خدا کو بہتر طور پر جانیں۔—خروج 33:13 کو پڑھیں؛ زبور 25:4۔
8. (الف) یہوواہ خدا نے بادشاہ عزریاہ کے ساتھ جو کِیا، اِس پر کیا اِعتراض اُٹھایا جا سکتا ہے؟ (ب) اگر ہم یہوواہ خدا کو اچھی طرح سے جانتے ہیں تو ہم اُس کے فیصلوں کو کیسا خیال کریں گے؟
8 جب ہم یہوواہ خدا کو اَور اچھی طرح جاننے لگتے ہیں تو ہم اِس بات سے پریشان نہیں ہوں گے کہ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خدا نے فلاں کام کیوں کِیا ہے۔ مثال کے طور پر یہوداہ کے بادشاہ عزریاہ کے ساتھ ہونے والے واقعے پر غور کریں۔ (2-سلا 15:1-5) اُن کے زمانے میں لوگ ”اُونچے مقاموں پر قربانی کرتے اور بخور جلاتے تھے۔“ لیکن عزریاہ نے ”وہ کام کِیا جو [یہوواہ] کی نظر میں بھلا تھا۔“ اِس کے باوجود بائبل میں لکھا ہے کہ ”بادشاہ پر [یہوواہ] کی ایسی مار پڑی کہ وہ اپنے مرنے کے دن تک کوڑھی رہا۔“ لیکن اِس کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ کیا ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ شاید خدا نے عزریاہ کو بِلاوجہ سزا دی؟ اگر ہم یہوواہ خدا کو اچھی طرح سے جانتے ہیں تو ہم ایسا نہیں سوچیں گے۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کو صرف ”مناسب حد تک ... تنبیہ“ کرتا ہے۔ (یرم 30:11، اُردو جیو ورشن) اِس سے ہمیں یہ تسلی ملتی ہے کہ یہوواہ خدا ہمیشہ اِنصاف سے فیصلہ کرتا ہے۔ لہٰذا اگر اُس نے عزریاہ کو سزا دی تو اِس کی کوئی ٹھوس وجہ ضرور رہی ہوگی، چاہے ہم یہ وجہ جانتے ہوں یا نہیں۔
9. ہم کن معلومات کی بِنا پر جان سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا نے بادشاہ عزریاہ کو سزا کیوں دی؟
9 البتہ بائبل میں خدا کے اِس فیصلے کے بارے میں مزید معلومات دی گئی ہیں۔ بادشاہ عزریاہ، عزُیاہ کے نام سے بھی جانے جاتے تھے۔ (2-سلا 15:7، 32) اُن کے بارے میں 2-تواریخ 26:3-5، 16-21 میں مزید معلومات دی گئی ہیں۔ اُنہوں نے کچھ عرصے تک تو وہ کام کیے جو خدا کو پسند تھے۔ لیکن اِن آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بعد میں ”اُس کا دل اِس قدر پھول گیا کہ وہ خراب ہو گیا۔“ غرور میں آ کر اُنہوں نے ایسے کام کرنے کی کوشش کی جو صرف کاہنوں کو کرنے کی اِجازت تھی۔ اگرچہ 81 کاہنوں نے اُن کو روکنے کی کوشش کی لیکن بادشاہ اِتنے مغرور ہو گئے تھے کہ وہ اُن کاہنوں پر غصہ ہوئے۔ اِس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ یہوواہ خدا نے اُنہیں کوڑھ کی بیماری میں مبتلا کر دیا۔
10. (الف) ہمیں یہوواہ خدا کے ہر فیصلے کی وجہ جاننے کی ضرورت کیوں نہیں ہے؟ (ب) ہم اپنے اِس اِعتماد کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمیشہ اِنصاف سے فیصلہ کرتا ہے؟
10 ہم اِس مثال سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ عزریاہ کے سلسلے میں تو بائبل میں اِتنی معلومات دی گئی ہیں جتنی یہوواہ کے فیصلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن فرض کریں کہ بائبل میں اِس فیصلے کی وجہ نہیں بتائی گئی ہوتی۔ اِس صورت میں کیا آپ خدا کے فیصلے پر شک کرتے؟ یا پھر کیا آپ یہ سوچتے کہ ”جو کچھ مَیں نے بائبل میں یہوواہ خدا کے بارے میں پڑھا ہے، اِس سے مَیں جانتا ہوں کہ وہ ہمیشہ اِنصاف سے فیصلہ کرتا ہے اور اِس لیے مجھے پورا یقین ہے کہ اُس کے اِس فیصلے کے پیچھے بھی کوئی ٹھوس وجہ ضرور تھی“؟ (است 32:4) جیسے جیسے ہم یہوواہ خدا کو بہتر طور پر جاننے لگتے ہیں، ہمارے دل میں اُس کے لیے محبت بڑھ جاتی ہے اور ہم اُس پر اِس قدر بھروسا کرنے لگتے ہیں کہ ہمیں اُس کے ہر فیصلے کی وجہ جاننے کی ضرورت نہیں رہتی۔ جتنا زیادہ آپ خدا کے کلام کا مطالعہ کریں گے اور اِس پر سوچ بچار کریں گے اُتنا ہی زیادہ آپ اُس کی شاندار خوبیوں سے واقف ہو جائیں گے۔ (زبور 77:12، 13) اِس کے نتیجے میں یہوواہ خدا کے ساتھ آپ کی دوستی اَور بھی گہری ہو جائے گی۔
دُعا کرنے سے یہوواہ کے ساتھ بات کریں
11-13. ہم کیوں یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہماری دُعاؤں کو سنتا ہے؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔)
11 ہم دُعا کے ذریعے یہوواہ خدا کے نزدیک جاتے ہیں۔ ہم اُس کی بڑائی کرتے ہیں، اُس کا شکر ادا کرتے ہیں اور اُس سے رہنمائی مانگتے ہیں۔ (زبور 32:8) لیکن یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی تبھی مضبوط ہوگی جب ہم پورا یقین رکھتے ہیں کہ وہ واقعی ہماری سنتا ہے۔
12 کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ حالانکہ خدا دُعاؤں کو نہیں سنتا پھر بھی دُعا کرنے کے فائدے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دُعا کے دوران ایک شخص اپنے مسئلے کے بارے میں گہرائی سے سوچتا ہے اور یوں اُسے اِس کا حل نظر آنے لگتا ہے۔ سچ ہے کہ دُعا کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے۔ لیکن آپ یہ یقین کیوں رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا واقعی آپ کی دُعاؤں کو سنتا ہے؟
13 غور کریں کہ زمین پر آنے سے پہلے یسوع مسیح نے دیکھا تھا کہ یہوواہ خدا اپنے بندوں کی دُعاؤں پر کیسا ردِعمل دِکھاتا ہے۔ پھر جب وہ زمین پر تھے تو اُنہوں نے دُعا کے ذریعے اپنے آسمانی باپ کو اپنے احساسات کے بارے میں بتایا۔ ایک دفعہ تو اُنہوں نے پوری رات دُعا کرتے ہوئے گزاری۔ (لو 6:12؛ 22:40-46) اگر یسوع مسیح یہ سمجھتے کہ یہوواہ خدا دُعاؤں کو نہیں سنتا تو بھلا وہ خود دُعا کرتے؟ اور کیا وہ اپنے شاگردوں کو دُعا کرنا سکھاتے؟ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع مسیح کو یقین تھا کہ یہوواہ خدا دُعاؤں کو سنتا ہے۔ ایک بار اُنہوں نے کہا: ”باپ مَیں تیرا شکر کرتا ہوں کہ تُو نے میری سُن لی اور مجھے تو معلوم تھا کہ تُو ہمیشہ میری سنتا ہے۔“ ہم بھی اِس بات پر پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا ’دُعا کا سننے والا‘ ہے۔—یوح 11:41، 42؛ زبور 65:2۔
14، 15. (الف) جب ہم دُعا میں یہوواہ خدا کو تفصیل سے اپنی درخواست کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ (ب) ایک بہن دُعا کے ذریعے یہوواہ خدا کے زیادہ قریب کیسے ہو گئی؟
14 جب آپ دُعا میں یہوواہ خدا کو تفصیل سے اپنی درخواست کے بارے میں بتاتے ہیں تو آپ زیادہ واضح طور پر دیکھ سکیں گے کہ وہ واقعی آپ کی دُعا کا جواب دیتا ہے۔ اِس طرح آپ یہوواہ خدا کے اَور بھی قریب محسوس کریں گے۔ اِس کے علاوہ اگر آپ یہوواہ خدا کو اپنے دلی خیالات اور پریشانیاں بتاتے ہیں تو وہ بھی آپ کے زیادہ قریب آئے گا۔
15 ذرا کیتھی کی مثال پر غور کریں۔a وہ باقاعدگی سے مُنادی کے کام میں حصہ تو لیتی تھیں لیکن اِسے شوق سے نہیں کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں: ”مُنادی کا کام مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ جب مَیں ریٹائر ہو گئی تو ایک بزرگ نے میری حوصلہافزائی کی کہ مَیں پہلکار بنوں۔ اُنہوں نے مجھے درخواست کا فارم بھی دیا۔ مَیں نے پہلکار کے طور پر خدمت کرنا شروع کی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ مَیں ہر روز یہوواہ خدا سے دُعا کرنے لگی کہ وہ میرے دل میں مُنادی کے کام کے لیے شوق پیدا کرے۔“ کیا یہوواہ خدا نے اُن کی دُعا سنی؟ کیتھی کہتی ہیں: ”پہلکار کے طور پر خدمت کرتے ہوئے مجھے دو سال ہو گئے ہیں۔ چونکہ مَیں مُنادی کے کام میں زیادہ وقت صرف کرتی ہوں اور دوسری بہنوں سے بھی بہت کچھ سیکھتی ہوں اِس لیے مَیں نے گواہی دینے کے کام میں اَور بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔ اب مَیں مُنادی کا کام اِتنے شوق سے کرتی ہوں کہ مَیں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی۔ اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہوواہ خدا کے ساتھ میری دوستی اَور بھی پکی ہو گئی ہے۔“ یہ دیکھ کر کہ یہوواہ خدا نے اُن کی دُعاؤں کا جواب دیا، کیتھی اُس کے زیادہ قریب ہو گئی ہیں۔
یہوواہ کے ساتھ اپنی دوستی کو مضبوط کرتے رہیں
16، 17. (الف) خدا کے ساتھ اپنی دوستی کو اَور بھی مضبوط بنانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس موضوع پر بات کریں گے؟
16 خدا کے ساتھ دوستی کو مضبوط بنانے کا عمل زندگی بھر جاری رہتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہوواہ خدا ہمارے زیادہ نزدیک آئے تو ہمیں اُس کے اَور بھی نزدیک جانے کے لیے قدم اُٹھانے چاہئیں۔ لہٰذا بائبل کا مطالعہ کرنے سے خدا کی سنتے رہیں اور دُعا کرنے سے اُس سے بات کرتے رہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہوواہ خدا کے ساتھ ہماری دوستی اَور بھی پکی ہو جائے گی اور ہم اُس کی مدد سے ہر مشکل کا سامنا کر سکیں گے۔
17 لیکن اگر ہماری لاکھ دُعاؤں کے باوجود ہماری کوئی مشکل ختم نہیں ہوتی تو ہو سکتا ہے کہ خدا پر ہمارا بھروسا ڈگمگا جائے۔ شاید ہمیں لگے کہ خدا ہماری نہیں سنتا یا پھر ہمیں اپنا دوست خیال نہیں کرتا۔ اگر آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اگلے مضمون میں اِس موضوع پر بات کی جائے گی۔
a فرضی نام اِستعمال کِیا گیا ہے۔