دنیا کے نور کی پیروی کریں
”جو میری پیروی کریگا ... زندگی کا نور پائیگا۔“—یوحنا ۸:۱۲۔
۱. روشنی کتنی ضروری ہے؟
روشنی کے بغیر ہم کیا کرینگے؟ سال کے ہر روز ۲۴ گھنٹوں کی تاریکی میں جاگنے کا تصور کریں۔ ایک بےرنگ دنیا کا تصور کریں، کیونکہ روشنی کے بغیر کوئی رنگ ہے ہی نہیں۔ یقیناً، اگر روشنی موجود نہ ہوتی تو ہم بھی نہ ہوتے! کیوں نہیں؟ کیونکہ، فوٹوسینتھیسز [ضیائی تالیف] کے عمل میں سبز پودے خوراک تیار کرنے کیلئے روشنی کو استعمال کرتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں—اناج، سبزیاں، اور پھل۔ درست ہے کہ ہم بعض اوقات جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ لیکن وہ جانور پودوں کو یا دوسرے جانوروں کو کھاتے ہیں جو پودوں کو کھا کر زندہ رہتے ہیں۔ یوں، ہماری جسمانی زندگیوں کا انحصار مکمل طور پر روشنی پر ہے۔
۲. روشنی کے طاقتور ماخذ کیا ہیں، اور یہ ہمیں یہوواہ کی بابت کیا بتاتا ہے؟
۲ ہماری روشنی سورج سے آتی ہے، جو ایک ستارہ ہے۔ جبکہ ہمارا سورج روشنی کی ایک مہیب مقدار دیتا ہے، پھر بھی یہ صرف ایک میڈیم سائز کا ستارہ ہے۔ بہتیرے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ اور ستاروں کی گروہبندی جس میں ہم رہتے ہیں یعنی ملکیوے کہکشاں، ایک سو بلین سے زائد ستارے رکھتی ہے۔ اسکے علاوہ، کائنات میں لاتعداد بلین کہکشائیں موجود ہیں۔ ستاروں کی کتنی مہیب صفبندی! ان میں سے روشنی کی کیا ہی بڑی مقداریں نکلتی ہیں! یہوواہ روشنی کا کیا ہی پرزور منبع ہے، جس نے یہ سب کچھ خلق کیا! یسعیاہ ۴۰:۲۶ بیان کرتی ہے: ”اپنی آنکھیں اوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔ وہی جو انکے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے اور ان سب کو نامبنام بلاتا ہے۔ اسکی قدرت کی عظمت اور اسکے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا۔“
ایک دوسری قسم کی روشنی
۳. یہوواہ کی طرف سے روحانی روشنی کتنی اہم ہے؟
۳ یہوواہ ایک دوسری قسم کی روشنی کا منبع بھی ہے، جو ہمیں روحانی فراست، روحانی روشنخیالی حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ ایک ڈکشنری ”روشن خیالی“ کی تعریف اس طریقے سے کرتی ہے: ”علم مہیا کرنے کیلئے، ہدایت، روحانی بصیرت دینے کیلئے۔“ یہ ”روشنخیال ہونے“ کی تعریف ایسے کرتی ہے جیسے! جہالت اور غلط علم سے آزاد ہو جانا۔ یہوواہ کی طرف سے روحانی روشنخیالی اسکے کلام، بائبل، کے صحیح علم کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ یہی ہمیں یہ جاننے کے قابل بناتا ہے کہ خدا کون ہے اور اسکے مقاصد کیا ہیں۔ ”خدا ہی ہے جس نے فرمایا کہ تاریکی میں سے نور چمکے اور وہی ہمارے دلوں میں چمکا تاکہ خدا کے جلال کی پہچان کا نور یسوع مسیح کے چہرے سے جلوہگر ہو۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۶) لہذا، خدا کے کلام کی سچائیاں ہمیں جہالت اور غلط علم سے آزاد کرتی ہیں۔ یسوع نے کہا: ”سچائی سے واقف ہوگے اور سچائی تم کو آزاد کریگی۔“—یوحنا ۸:۳۲۔
۴، ۵. یہوواہ کی طرف سے علم ہماری زندگیوں میں روشنی کے طور پر کیسے کام کرتا ہے؟
۴ حقیقی روحانی روشنخیالی کا منبع یہوواہ، ”علم میں کامل ہے۔“ (ایوب ۳۷:۱۶) زبور ۱۱۹:۱۰۵ بھی خدا کی بابت بیان کرتی ہے: ”تیرا کلام میرے قدموں کیلئے چراغ اور میری راہ کیلئے روشنی ہے۔“ پس وہ نہ صرف ہماری زندگیوں کے اگلے قدم کو بلکہ آگے راہ کو بھی روشن کر سکتا ہے۔ اسکے بغیر زندگی ایک اندھیری رات میں ایک چکردار پہاڑی سڑک پر یا کسی اور جگہ پر کار کی بتیوں کے بغیر کار چلانے کی مانند ہوگا۔ خدا کی طرف سے روحانی روشنی کا موازنہ کار کی ہیڈ لائٹس کے ذریعے فراہمکردہ روشنی سے کیا جا سکتا ہے۔ روشنی راہ کو روشن کرتی ہے تاکہ ہم بالکل ٹھیک دیکھ سکیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔
۵ یسعیاہ ۲:۲-۵ کی پیشینگوئی ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے زمانے میں خدا تمام اقوام سے ان لوگوں کو جمع کر رہا ہے جو روحانی روشنخیالی چاہتے ہیں تاکہ وہ سچی پرستش سے واقف ہو سکیں اور اسے عمل میں لا سکیں۔ ۳ آیت کہتی ہے: ”وہ اپنی راہیں ہم کو بتائیگا اور ہم اسکے راستوں پر چلینگے۔“ ۵ آیت سچائی کے متلاشیوں کو دعوت دیتی ہے: ”آؤ ہم خداوند کی روشنی میں چلیں۔“
۶. یہوواہ کی طرف سے روشنی بالآخر ہمیں کہاں لے جائیگی؟
۶ پس، یہوواہ زندگی کے لئے نہایت اہم دو قسم کی روشنی کا منبع ہے: جسمانی اور روحانی۔ جسمانی روشنی ہمارے جسمانی بدنوں کو اب زندہ رہنے کیلئے مدد دیتی ہے، شاید کوئی ۷۰ یا ۸۰ سال یا زیادہ۔ لیکن روحانی روشنی فردوسی زمین پر ہمیشہ کی زندگی کا سبب بنتی ہے۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے یسوع نے خدا سے دعا میں کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایواحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جانیں۔“—یوحنا ۱۷:۳۔
دنیا روحانی تاریکی میں
۷. ہمیں پہلے کی نسبت اب روحانی روشنخیالی کی ضرورت کیوں ہے؟
۷ آجکل ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ روحانی روشنی کی ضرورت ہے۔ متی ۲۴ باب اور ۲-تیمتھیس ۳ باب کی طرح کی پیشینگوئیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ہم اس نظام کے خاتمے کے قریب ہیں۔ ان اور دیگر پیشینگوئیوں نے پہلے سے دہشتناک باتوں کا ذکر کیا جو ہمارے زمانے میں رونما ہوئی ہیں، جو ہم پر واضح کرتی ہیں کہ ہم ”اخیر زمانہ“ میں ہیں۔ ان پیشینگوئیوں کی صداقت میں، اس صدی نے مصیبت پر مصیبت کا تجربہ کیا ہے۔ جرم اور تشدد خوفناک تناسبوں تک بڑھ گئے ہیں۔ جنگوں نے ایک سو ملین سے زیادہ کی زندگیاں لے لی ہیں۔ ایڈز جیسی ہولناک بیماریوں نے لاکھوں کو شکار کر لیا ہے، صرف ریاستہائے متحدہ ہی میں کوئی ۱۶۰،۰۰۰ لوگ پہلے ہی ایڈز کی وجہ سے مر گئے ہیں۔ خاندانی زندگی زوالپذیر ہو گئی ہے اور جنسی اخلاقیات کو دقیانوسی خیال کیا جاتا ہے۔
۸. اب نسلانسانی کو کس صورتحال کا سامنا ہے، اور کیوں؟
۸ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل حوئیر پیریز ڈی کوئیار نے کہا: ”دنیا کی حالت بہت بڑی شہادت پیش کرتی ہے کہ غربت معاشروں کے اتصال کی اندر ہی اندر جڑیں کاٹ رہی ہے۔“ اس نے نوٹ کیا کہ ”ایک بلین سے زیادہ لوگ اب قطعی غربت میں زندگی بسر کرتے ہیں“ اور یہ کہ ”اس نے پرتشدد جھگڑے کے اسباب کو مزید خراب کیا ہے۔“ اس نے کہا یہ ”سنگین مصیبتیں ان تدابیر کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتی ہیں جو حکومتیں کر سکتی ہیں۔“ اور ایک بااثر تنظیم کے سربراہ نے باضابطہ اعلان کیا: ”معاشرے کو جو اہم مسئلہ درپیش ہے وہ ہے کہ یہ ناقابل حکومت بن گیا ہے۔“ زبور ۱۴۶:۳ کے الفاظ کتنے سچے ہیں: ”نہ امرا پر بھروسا کرو نہ آدمزاد پر۔ وہ بچا نہیں سکتا۔“
۹. نوعانسان کو گھیر لینے والی تاریکی کے زیادہ ذمہدار کون ہیں، اور ہمیں اس اثر سے کون نجات دلا سکتا ہے؟
۹ آجکل کی حالت ویسی ہی ہے جیسے یسعیاہ ۶۰:۲ نے پیشینگوئی کی: ”دیکھ تاریکی زمین پر چھا جائیگی اور تیرگی امتوں پر۔“ زمین پر رہنے والوں کی بڑی اکثریت پر چھا جانے والی یہ تاریکی انکے یہوواہ کی طرف سے روحانی روشنی کو حاصل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ اور روحانی تاریکی کا بنیادی سبب روشنی کے خدا کے بڑے دشمن شیطان ابلیس اور اسکے شیاطین ہیں۔ وہ ”اس دنیا کی تاریکی کے [حاکم]“ ہیں۔ (افسیوں ۶:۱۲) جیسے کہ ۲-کرنتھیوں ۴:۴ کہتی ہے کہ ابلیس ”اس جہان [کا] خدا“ ہے جس نے ”بےایمانوں ... کی عقلوں کو ... اندھا کر دیا ہے تاکہ مسیح جو خدا کی صورت ہے اسکے جلال کی خوشخبری کی روشنی ان پر نہ پڑے۔“ کوئی انسانی حکمرانی دنیا کو شیطان کے اثر سے نجات نہیں دلا سکتی صرف خدا ہی دلا سکتا ہے۔
”ایک بڑی روشنی“
۱۰. یسعیاہ نے کیسے پہلے سے بتا دیا کہ ہمارے زمانے میں نوعانسان پر روشنی چمکے گی؟
۱۰ تاہم، اگرچہ زیادہتر نوعانسانی پر گہری تاریکی چھائی ہوئی ہے تو بھی خدا کے کلام نے یسعیاہ ۶۰:۲، ۳ میں پیشینگوئی کی ہے: ”خداوند تجھ پر طالع ہوگا اور اسکا جلال تجھ پر نمایاں ہوگا۔ اور قومیں تیری روشنی کی طرف آئینگی۔“ یہ یسعیاہ ۲ باب کی مطابقت میں ہے، جس نے وعدہ کیا کہ یہوواہ کی روشنخیال، سچی پرستش آخری دنوں میں قائم کی جائیگی اور جیسا کہ ۲ اور ۳ آیات کہتی ہیں، ”سب قومیں وہاں پہنچیں گی بلکہ بہت سی امتیں آئینگی اور کہینگی آؤ خداوند کے پہاڑ پر چڑھیں،“ یعنی، اسکی سربلند سچی پرستش کی طرف۔ پس دنیا اگرچہ شیطان کے قبضے میں ہے تو بھی خدا کی طرف سے روشنی پھیل رہی ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد کو تاریکی سے آزاد کر رہی ہے۔
۱۱. یہوواہ کی روشنی کو منعکس کرنے میں کون زیادہ ممتاز ہوگا، اور شمعون اسکی شناخت کیسے کرتا ہے؟
۱۱ یسعیاہ ۹:۲ کی پیشینگوئی نے پہلے سے بتا دیا کہ خدا کسی کو دنیا میں بھیجیگا تاکہ وہ اسکی روشنی کو منعکس کرے۔ وہ بیان کرتی ہے: ”جو لوگ تاریکی میں چلتے تھے انہوں نے بڑی روشنی دیکھی۔ جو موت کے سایہ کے ملک میں رہتے تھے ان پر نور چمکا۔“ یہ ”بڑی روشنی“ یہوواہ کا نمائندہ، یسوع مسیح ہے۔ یسوع نے کہا: ”دنیا کا نور میں ہوں۔ جو میری پیروی کریگا وہ اندھیرے میں نہ چلیگا بلکہ زندگی کا نور پائیگا۔“ (یوحنا ۸:۱۲) اس چیز کا بعض کو تو اس وقت بھی علم تھا جبکہ یسوع چھوٹا بچہ ہی تھا۔ لوقا ۲:۲۵ کہتی ہے کہ شمعون نام ایک آدمی تھا جو ”راستباز اور خداترس“ تھا اور یہ کہ ”روحالقدس اس پر تھا۔“ جب شمعون نے چھوٹے بچے یسوع کو دیکھا تو اس نے دعا میں خدا سے کہا: ”میری آنکھوں نے تیری نجات دیکھ لی ہے جو تو نے سب امتوں کے روبرو تیار کی ہے، [غیرقوموں پر پڑے ہوئے پردے کو ہٹانے کیلئے ایک روشنی، NW۔]“—لوقا ۲:۳۰-۳۲۔
۱۲. لوگوں پر پڑے ہوئے تاریکی کے پردے کو یسوع نے کب اور کیسے ہٹانا شروع کیا؟
۱۲ یسوع نے اپنے بپتسمے کے تھوڑی دیر بعد نوعانسانی سے تاریکی کے پردے کو ہٹانا شروع کر دیا۔ متی ۴:۱۲-۱۶ ہمیں بتاتی ہیں کہ اس نے یسعیاہ ۹:۱، ۲ کو پورا کیا جس نے ”بڑی روشنی“ کا ذکر کیا جو روحانی تاریکی میں چلنے والے لوگوں پر چمکے گی۔ متی ۴:۱۷ کہتی ہے: ”اس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کیا کہ توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے۔“ خدا کی بادشاہی کی خوشخبری کی بابت منادی کرنے سے، یسوع نے لوگوں کو خدا کے مقاصد سے روشناس کرایا۔ اس نے ”زندگی اور بقا کو ... خوشخبری کے وسیلے سے روشن کر دیا۔“—۲-تیمتھیس ۱:۱۰۔
۱۳. یسوع نے اپنا ذکر کسطرح کیا، اور وہ اتنے یقین کیساتھ کیونکر ایسا کر سکتا تھا؟
۱۳ یسوع نے وفاداری سے خدا کی روشنی کو منعکس کیا۔ اس نے کہا: ”میں نور ہو کر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے اندھیرے میں نہ رہے۔ ... میں نے کچھ اپنی طرف سے نہیں کہا بلکہ باپ جس نے مجھے بھیجا اسی نے مجھ کو حکم دیا ہے کہ کیا کہوں اور کیا بولوں۔ اور میں جانتا ہوں کہ اسکا حکم ہمیشہ کی زندگی ہے۔“—یوحنا ۱۲:۴۴-۵۰۔
”زندگی اسکے وسیلے سے تھی“(NW)
۱۴. یوحنا ۱:۱، ۲ میں یسوع کی شناخت کیسے کی گئی ہے؟
۱۴ جیہاں، یہوواہ نے لوگوں کو ابدی زندگی کی راہ دکھانے کی خاطر ایک روشنی ہونے کیلئے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجا۔ غور کریں کہ اسے یوحنا ۱:۱-۱۶ میں کیسے پیش کیا گیا ہے۔ ۱ اور ۲ آیات یوں پڑھی جاتی ہیں: ”ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔“ یہاں پر یوحنا انسان بننے سے پہلے یسوع کو ”کلام“ کے لقب سے پکارتا ہے۔ یہ اس فرضمنصبی کی نشاندہی کرتا ہے جو اس نے یہوواہ خدا کے نمائندے کے طور پر ادا کیا۔ اور جب یوحنا یہ بیان کرتا ہے کہ ”ابتدا میں کلام تھا،“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کلام یہوواہ کے تخلیقی کاموں کی ابتدا تھا، ”خدا کی خلقت کا مبدا۔“ (مکاشفہ ۳:۱۴) خدا کی مخلوقات میں اسکی ممتاز حیثیت اسے ”خدا،“ ایک قادر ہونے کی حقیقی بنیاد دیتا ہے۔ یسعیاہ ۹:۶ اسے ”خدایقادر“ کہتی ہے اگرچہ خدائے قادرمطلق نہیں۔
۱۵. یوحنا ۱:۳-۵ ہمیں یسوع کی بابت کونسی مزید معلومات دیتی ہیں؟
۱۵ یوحنا ۱:۳ بیان کرتی ہے: ”سب چیزیں اسکے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اسکے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔“ کلسیوں ۱:۱۶ کہتی ہے کہ ”سب چیزیں اسی کے وسیلے سے پیدا کی گئیں، آسمان کی ہوں یا زمین کی۔“ (NW) یوحنا ۱:۴ کہتی ہے کہ ”اسکے وسیلے سے زندگی تھی اور زندگی آدمیوں کا نور تھی۔“ (NW) پس کلام کے وسیلے سے زندگی کی دیگر تمام اقسام کو خلق کیا گیا تھا، اور اپنے بیٹے کے وسیلے سے خدا گنہگار، مرنے والی نسلانسانی کیلئے ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے کو بھی ممکن بناتا ہے۔ یقینی طور پر یسوع قدرت والا ہے جسے یسعیاہ ۹:۲ ”ایک بڑی روشنی“ کہتی ہے۔ اور یوحنا ۱:۵ کہتی ہے: ”نور تاریکی میں چمکتا ہے، [لیکن تاریکی نے اسے زیر نہ کیا، NW]۔“ تاریکی کے برعکس جو خطا اور ناراستی کی علامت ہے، روشنی سچائی اور راستبازی کی نمائندگی کرتی ہے۔ پس یوحنا ظاہر کرتا ہے کہ تاریکی روشنی پر غالب نہ آئیگی۔
۱۶. یوحنا اصطباغی نے یسوع کے کام کی وسعت کی طرف کیسے توجہ دلائی؟
۱۶ یوحنا اب ۶ تا ۹ آیات پر بحث کرتا ہے: ”ایک آدمی یوحنا [اصطباغی] نام آ موجود ہوا جو خدا کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ یہ گواہی کیلئے آیا کہ نور کی گواہی دے تاکہ سب اسکے وسیلہ سے ایمان لائیں۔ وہ [یوحنا] خود تو نور نہ تھا مگر نور [یسوع] کی گواہی دینے کو آیا تھا۔ حقیقی نور جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے دنیا میں آنے کو تھا۔“ یوحنا نے آنے والے مسیحا کی طرف اشارہ کیا اور اپنے پیروکاروں کی اسکی طرف توجہ دلائی۔ وقت آنے پر، تمام طرح کے لوگوں کو روشنی قبول کرنے کیلئے موقع دیا گیا تھا۔ لہذا یسوع صرف یہودیوں کے فائدے کیلئے ہی نہیں آیا تھا بلکہ امیر یا غریب، قطعنظر نسل کے—تمام نسلانسانی کے فائدے کی خاطر۔
۱۷. یوحنا ۱:۱۰، ۱۱ یسوع کے زمانے کے یہودیوں کی روحانی حالت کی بابت ہمیں کیا بتاتی ہیں؟
۱۷ ۱۰ اور ۱۱ آیات جاری رہتی ہیں! ”وہ دنیا میں تھا اور دنیا اسکے وسیلہ سے پیدا ہوئی اور دنیا نے اسے نہ پہچانا۔ وہ اپنے گھر آیا اور اسکے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا۔“ یسوع اپنے انسانی وجود سے پیشتر، وہ شخص رہ چکا تھا جس کے وسیلے سے نوعانسانی کی دنیا کو خلق کیا گیا۔ زمین پر رہتے وقت، اگرچہ اسکے اپنے لوگوں، یہودیوں کی اکثریت نے اسے رد کر دیا وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بدکاری اور ریاکاری بےنقاب ہو۔ انہوں نے روشنی کی بجائے تاریکی کو ترجیح دی۔
۱۸. یوحنا ۱:۱۲، ۱۳ کیسے ظاہر کرتی ہیں کہ بعض خاص میراث کے ساتھ خدا کے فرزند بن سکتے ہیں؟
۱۸ یوحنا ۱۲ اور ۱۳ آیات میں کہتا ہے: ”لیکن جتنوں نے اسے قبول کیا اس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی انہیں جو اسکے نام پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے نہ انسان کے ارادہ سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔“ یہ آیات ظاہر کرتی ہیں کہ شروع میں یسوع کے پیروکار خدا کے فرزند نہ تھے۔ مسیح کے زمین پر آنے سے پیشتر، نہ تو ایسی فرزندگی اور نہ ہی آسمانی امید انسانوں کیلئے کھولی گئی تھی۔ لیکن مسیح کے فدیے کی قربانی کی خوبی کے ذریعے سے جس پر انہوں نے ایمان ظاہر کیا، بعض انسانوں کو فرزندگی میں لے لیا گیا تھا وہ خدا کی آسمانی بادشاہت میں مسیح کیساتھ بادشاہوں کے طور زندگی کی امید رکھنے کے قابل تھے۔
۱۹. جیسے کہ یوحنا ۱:۱۴ میں ظاہر کیا گیا ہے خدا کی روشنی کو منعکس کرنے کیلئے یسوع بہترین حالت میں کیوں ہے؟
۱۹ ۱۴ آیت استدلال کرتی ہے: ”اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہوکر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اسکا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال۔“ زمین پر یسوع نے خدا کا جلال ظاہر کیا جسے صرف خدا کا پہلوٹھا بیٹا ہی ظاہر کر سکتا تھا۔ پس ایک بےمثال طریقے سے، وہ لوگوں پر خدا اور اسکے مقاصد کو ظاہر کرنے کیلئے بہترین لیاقت رکھتا تھا۔
۲۰. جیسے کہ یوحنا ۱:۱۵ میں درج ہے، یوحنا اصطباغی ہمیں یسوع کی بابت کیا بتاتا ہے؟
۲۰ آگے چلکر، یوحنا رسول ۱۵ آیت میں لکھتا ہے: ”یوحنا [اصطباغی] نے اسکی بابت گواہی دی اور پکار کر کہا کہ یہ وہی ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔“ یوحنا اصطباغی انسان کے طور پر یسوع کی پیدائش سے کوئی چھ ماہ پہلے پیدا ہوا تھا۔ لیکن یسوع نے یوحنا سے کہیں زیادہ کام کئے، یوں ہر لحاظ سے وہ یوحنا سے مقدم ٹھہرا تھا۔ اور یوحنا نے تسلیم کیا کہ یسوع اس سے پہلے تھا، کیونکہ یسوع انسانی زندگی سے پیشتر وجود رکھتا تھا۔
یہوواہ کی طرف سے بخششیں
۲۱. یوحنا ۱:۱۶ کیوں کہتی ہے کہ ہم نے ”فضل پر فضل“ پایا ہے؟
۲۱ یوحنا ۱:۱۶ استدلال کرتی ہے: ”اسکی معموری میں سے ہم سب نے پایا یعنی فضل پر فضل۔“ اگرچہ انسان گناہ میں پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اسے آدم سے ورثے میں پاتے ہیں، تو بھی یہوواہ اس شریر نظام کی تباہی، نئی دنیا میں لاکھوں کے بچنے، مردوں کی قیامت، اور گناہ اور موت کو ہٹانے کا مقصد ٹھہراتا ہے، جو فردوسی زمین پر ابدی زندگی پر منتج ہوتا ہے۔ یہ تمام برکات غیرمستحق، گنہگار انسانوں کے ذریعے نہ کمائی جانے والی ہیں۔ یہ مسیح کے ذریعے یہوواہ کی طرف سے بخششیں ہیں۔
۲۲. (ا) خدا کی عظیمترین بخشش کیا ممکن بناتی ہے؟ (ب) بائبل کی آخری کتاب میں ہمیں کیا دعوت دی گئی ہے؟
۲۲ وہ عظیم بخشش کیا ہے جو یہ سب کچھ ممکن بناتی ہے؟ ”خدا نے [نوع انسان کی] دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوحنا ۳:۱۶) پس خدا اور اسکے بیٹے، [”زندگی کے مالک، NW،“] کا صحیح علم انکے لئے ضروری ہے جو روحانی نور اور ہمیشہ کی زندگی چاہتے ہیں۔ (اعمال ۳:۱۵) اسی وجہ سے بائبل کی آخری کتاب ان سب کو درجذیل دعوت دیتی ہے جو سچائی سے محبت رکھتے ہیں اور زندگی چاہتے ہیں: ”آ اور سننے والا بھی کہے آ۔ اور جو پیاسا ہو وہ آئے اور جو کوئی چاہے آبحیات مُفت لے۔“—مکاشفہ ۲۲:۱۷۔
۲۳. جب بھیڑ خصلت لوگ روشنی کی طرف آئیں گے تو وہ کیا کریں گے؟
۲۳ فروتن بھیڑ خصلت، لوگ نہ صرف دنیا کے نور کے پاس آئینگے بلکہ اس نور کی پیروی کرینگے: ”بھیڑیں اسکے پیچھے پیچھے ہو لیتی ہیں کیونکہ وہ اسکی آواز [میں سچائی کی جھلک] کو پہچانتی ہیں۔“ (یوحنا ۱۰:۴) بیشک، وہ ”اسکے نقشقدم پر [چلنے]“ سے خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے کا مطلب انکے لئے ابدی زندگی ہوگا۔—۱-پطرس ۲:۲۱۔ (۸ ۴/۱ w۹۳)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ کونسی دو اقسام کی روشنی یہوواہ کی طرف سے آتی ہے؟
▫ آجکل روحانی روشنخیال اتنی اہم کیوں ہے؟
▫ کس لحاظ سے یسوع ”ایک بڑی روشنی“ تھا؟
▫ یوحنا ۱ باب ہمیں یسوع کی بابت کیا بتاتا ہے؟
▫ دنیا کے نور کی پیروی کرنے والوں کو کونسی بخششیں ملتی ہیں؟
[تصویر]
شمعون نے یسوع کو ”قوموں پر پڑے ہوئے پردے کو ہٹانے والی روشنی“ کا نام دیا