اٹھارھواں باب
’وہ دُنیا کے نہیں ہیں‘
۱. (ا) اپنی موت سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے لئے کون سی درخواست کی تھی؟ (ب) مسیحیوں کے لئے یہ اتنا اہم کیوں ہے کہ وہ دُنیا کے نہ ہوں؟
اپنی موت سے پہلے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کے لئے دُعا کی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ شیطان اُن پر بہت زیادہ دباؤ ڈالے گا اس لئے اُس نے یہوواہ خدا سے یوں دُعا کی: ”مَیں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تُو اُنہیں دُنیا سے اُٹھا لے بلکہ یہ کہ اُس شریر سے اُن کی حفاظت کر۔ جس طرح مَیں دُنیا کا نہیں وہ بھی دُنیا کے نہیں۔“ (یوحنا ۱۷:۱۵، ۱۶) یہ اتنا اہم کیوں ہے کہ ہم دُنیا کے نہ ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان اس دُنیا کا حاکم ہے اور مسیحی ایک ایسی دُنیا کے نہیں ہونا چاہتے جو شیطان کے قبضے میں ہے۔—لوقا ۴:۵-۸؛ یوحنا ۱۴:۳۰؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹۔
۲. یسوع کس لحاظ سے دُنیا کا نہیں تھا؟
۲ یسوع دُنیا کا نہیں تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ دوسروں کے لئے محبت نہیں رکھتا تھا۔ یسوع نے محبت ظاہر کرتے ہوئے بیماروں کو شفا بخشی، مُردوں کو زندہ کِیا اور لوگوں کو خدا کی بادشاہت کے بارے میں سکھایا۔ یہاں تک کہ یسوع نے تمام انسانوں کے لئے اپنی جان قربان کر دی۔ لیکن یسوع کو ایسے لوگوں کی سوچ اور اعمال سے نفرت تھی جنہوں نے شیطان کی سوچ کو اپنا رکھا تھا۔ اسی لئے یسوع نے خبردار کِیا کہ ہمیں زِنا کرنے اور مالودولت اور شہرت حاصل کرنے کے لالچ سے پرہیز کرنا چاہئے۔ (متی ۵:۲۷، ۲۸؛ ۶:۱۹-۲۱؛ لوقا ۲۰:۴۶، ۴۷) یسوع نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا تھا۔ یہودی ہونے کے باوجود وہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان ہونے والی سیاسی تکرار میں شامل نہیں ہوا تھا۔
”میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں“
۳. (ا) یہودی مذہبی رہنماؤں نے یسوع پر کون سا الزام لگایا اور اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ (ب) کس بات سے ظاہر ہوا کہ یسوع انسانوں کے ہاتھ بادشاہ کا عہدہ نہیں چاہتا تھا؟
۳ غور کریں کہ اُس وقت کیا واقع ہوا جب یہودی مذہبی رہنماؤں نے یسوع کو گرفتار کرکے اُسے رومی صوبہدار پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے پیش کِیا تھا۔ اُنہوں نے اس لئے ایسا کِیا کیونکہ یسوع نے اُن کی ریاکاری کو بےنقاب کر دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ رومی صوبہدار یسوع کے خلاف کارروائی کرے اس لئے اُنہوں نے یسوع پر یہ الزام لگایا کہ ”اِسے ہم نے اپنی قوم کو بہکاتے اور قیصرؔ کو خراج دینے سے منع کرتے اور اپنے آپ کو مسیح بادشاہ کہتے پایا۔“ (لوقا ۲۳:۲) یہ الزام بالکل جھوٹا تھا۔ ایک سال پہلے جب لوگوں نے یسوع کو بادشاہ بنانا چاہا تھا تو اُس نے صاف انکار کر دیا تھا۔ (یوحنا ۶:۱۵) یسوع جانتا تھا کہ مستقبل میں اُسے آسمان پر بادشاہ بننا ہے۔ (لوقا ۱۹:۱۱، ۱۲) وہ یہ بھی جانتا تھا کہ انسان نہیں بلکہ یہوواہ خدا اُسے تختنشین کرے گا۔
۴. خراج ادا کرنے کے معاملے میں یسوع نے کیا کہا؟
۴ یسوع کے گرفتار ہونے سے تین دن پہلے فریسیوں نے اُسے پھنسانے کے لئے خراج (یعنی ٹیکس) ادا کرنے کے معاملے میں سوال پوچھا۔ اس پر یسوع نے کہا: ”ایک دینار [یعنی رومی سکہ] مجھے دکھاؤ۔ اُس پر کس کی صورت اور نام ہے؟“ جب فریسیوں نے جواب دیا: ”قیصرؔ کا“ تو یسوع نے کہا: ”پس جو قیصرؔ کا ہے قیصرؔ کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو۔“—لوقا ۲۰:۲۰-۲۵۔
۵. (ا) گرفتار ہوتے وقت یسوع نے اپنے شاگردوں کو کون سا سبق سکھایا؟ (ب) یسوع نے ان واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے پیلاطُس سے کیا کہا؟ (پ) یسوع کے خلاف مقدمے کا کیا نتیجہ نکلا؟
۵ یسوع نے یہ نہیں سکھایا کہ ہمیں حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنی چاہئے۔ غور کریں کہ جب لوگ یسوع کو گرفتار کرنے کے لئے پہنچے تھے تو پطرس نے اپنی تلوار سے اُن میں سے ایک کو زخمی کر دیا تھا۔ لیکن یسوع نے کہا: ”اپنی تلوار کو میان میں کر لے کیونکہ جو تلوار کھینچتے ہیں وہ سب تلوار سے ہلاک کئے جائیں گے۔“ (متی ۲۶:۵۱، ۵۲) اگلے ہی دن یسوع نے پُنطیُس پیلاطُس کے سامنے ان واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ”میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں۔ اگر میری بادشاہی دُنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ مَیں یہودیوں کے حوالہ نہ کِیا جاتا۔ مگر اب میری بادشاہی یہاں کی نہیں۔“ (یوحنا ۱۸:۳۶) پیلاطُس نے یہودیوں کے سامنے تسلیم کِیا کہ ’جن باتوں کا الزام تُم اُس پر لگاتے ہو اُن کی نسبت مَیں نے اُس میں کچھ قصور نہ پایا۔‘ لیکن بھیڑ کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس نے یسوع کو مصلوب ہونے کے لئے سپاہیوں کے حوالے کر دیا۔—لوقا ۲۳:۱۳-۱۵؛ یوحنا ۱۹:۱۲-۱۶۔
وہ یسوع کے نقشِقدم پر چلے
۶. (ا) پہلی صدی کے مسیحیوں نے یہ بات کیسے ظاہر کی کہ وہ دُنیا کی سوچ سے کنارہ کرتے تھے؟ (ب) اُنہوں نے لوگوں کے لئے محبت کیسے ظاہر کی؟
۶ یسوع کے شاگردوں کو معلوم تھا کہ دُنیا کے نہ ہونے کا مطلب کیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں دُنیا کی سوچ اور اعمال سے کنارہ کرنا ہے۔ اِس میں رومیوں کی پُرتشدد اور بیہودہ تفریح بھی شامل تھی۔ چونکہ وہ اس قسم کی تفریح میں شامل نہیں ہوتے تھے اس لئے یسوع کے شاگردوں کے بارے میں کہا جاتا کہ اُن کو دوسرے انسانوں سے نفرت ہے۔ لیکن یسوع کے شاگرد لوگوں سے نفرت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ بڑی محنت اور لگن سے دوسروں کو خدا کے بارے میں سکھاتے اور اُنہیں یہ بھی بتاتے کہ وہ نجات کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔
۷. (ا) چونکہ پہلی صدی کے مسیحی اس دُنیا کے نہیں تھے اس لئے اُنہیں کیا سہنا پڑا؟ (ب) مسیحی خراج کی ادائیگی اور حکمرانوں کو کیسا خیال کرتے تھے؟
۷ یسوع کی طرح اُس کے شاگردوں کو بھی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اذیت زیادہتر ایسے سرکاری اہلکاروں کی طرف سے آتی جو مسیحیوں کے بارے میں غلطفہمی کا شکار تھے۔ اس کے باوجود پولس رسول نے ۵۶ عیسوی میں روم کے مسیحیوں کے نام ایک خط میں یہ ہدایت دی: ”ہر شخص اعلےٰ حکومتوں کا تابعدار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو۔“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا انسانی حکومتوں کو مقرر کرتا ہے بلکہ جب تک اُس کی بادشاہت زمین پر حکمرانی شروع نہیں کر دیتی خدا انسانوں کو حکمرانی کرنے دیتا ہے۔ اس لئے پولس رسول نے مسیحیوں کو نصیحت دی کہ وہ حکمرانوں کی عزت کریں اور خراج ادا کرتے رہیں۔—رومیوں ۱۳:۱-۷؛ ططس ۳:۱، ۲۔
۸. (ا) مسیحی کس حد تک حکمرانوں کی تابعداری کرتے ہیں؟ (ب) پہلی صدی کے مسیحی یسوع کے نقشِقدم پر کیسے چلے؟
۸ مسیحی صرف ایک حد تک حکمرانوں کی تابعداری کرتے ہیں۔ جب خدا کے حکموں اور انسان کے حکموں میں اختلاف پایا جاتا ہے تو یہوواہ کے خادم اُس کے حکموں کے مطابق چلتے ہیں۔ غور کریں کہ ایک تاریخی کتاب میں پہلی صدی کے مسیحیوں کے بارے میں یوں لکھا ہے: ”رومی شہریوں کے کچھ ایسے فرائض تھے جن کو انجام دینے سے مسیحی انکار کرتے تھے۔ وہ . . . فوج میں بھرتی ہونے کو اپنے مذہبی عقیدوں کی خلافورزی سمجھتے تھے۔ وہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے تھے اور نہ ہی شہنشاہ کی پوجا کرتے تھے۔“ جب یہودی عدالت نے یسوع کے شاگردوں کو تبلیغی کام بند کرنے کی ”سخت تاکید“ کی تو اُنہوں نے جواب دیا: ”ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے۔“—اعمال ۵:۲۷-۲۹۔
۹. (ا) سن ۶۶ عیسوی میں مسیحیوں نے کیا کِیا اور اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟ (ب) ہمارے لئے اُنہوں نے کونسی اچھی مثال قائم کی؟
۹ یسوع کے شاگرد نہ تو سیاسی معاملوں میں کسی کی طرفداری کرتے تھے اور نہ ہی فوجی کارروائیوں میں حصہ لیتے تھے۔ سن ۶۶ عیسوی میں یہودیہ میں رہنے والے یہودیوں نے رومی قیصر کے خلاف بغاوت کی۔ جلد ہی رومی فوج نے یروشلیم کو گھیرے میں لے لیا۔ تب اُس شہر میں رہنے والے مسیحیوں نے کیا کِیا؟ اُنہیں یسوع کی ہدایت یاد تھی کہ اُس وقت اُنہیں شہر سے بھاگنا ہوگا۔ لہٰذا جب رومی فوج کچھ عرصہ کے لئے وہاں سے چلی گئی تو مسیحی موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دریائےیردن کے اُس پار ایک پہاڑی علاقے میں جا بسے۔ (لوقا ۲۱:۲۰-۲۴) ان مسیحیوں نے دُنیا کے معاملوں میں نہ تو دخل دیا اور نہ ہی کسی کی طرفداری کی۔ اس طرح انہوں نے ہمارے لئے بہترین مثال قائم کی۔
آج بھی مسیحی دُنیا کے نہیں ہیں
۱۰. (ا) یہوواہ کے گواہ کس کام میں مصروف رہتے ہیں اور کیوں؟ (ب) مسیحی کن معاملوں میں کسی کا ساتھ نہیں دیتے؟
۱۰ کیا آج بھی ایسے مسیحی ہیں جو پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح دُنیا کے معاملوں میں کسی کی طرفداری نہیں کرتے ہیں؟ جیہاں، یہ بات یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں سچ ہے۔ وہ بہت عرصے سے خدا کی بادشاہت کی منادی کرتے آ رہے ہیں اور لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ صرف خدا کی بادشاہت کے ذریعے ہی دُنیا میں حقیقی خوشی، امن اور خوشحالی ممکن ہوگی۔ (متی ۲۴:۱۴) البتہ دُنیا میں ہونے والے جھگڑوں میں وہ کسی کا ساتھ نہیں دیتے۔
۱۱. (ا) یہوواہ کے گواہوں کے برعکس اس دُنیا کے مذہبی رہنما سیاسی معاملوں کے سلسلے میں کیا کرتے ہیں؟ (ب) اگر دوسرے اشخاص سیاست میں حصہ لینا چاہیں تو یہوواہ کے گواہوں کا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟
۱۱ یہوواہ کے گواہوں کے برعکس اس دُنیا کے مذہبی رہنماؤں نے سیاسی معاملوں میں بڑھچڑھ کر حصہ لیا ہے۔ کچھ ممالک میں ان مذہبی رہنماؤں نے تو سیاسی عہدے کے اُمیدواروں کا کُھل کر ساتھ دیا ہے۔ کئی مذہبی رہنما خود ایک سیاسی عہدے پر فائز ہیں۔ اور کئی پادری تو سیاستدانوں کو اپنے پسندیدہ منصوبوں پر عمل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن یہوواہ کے گواہ سیاسی معاملوں میں دخل نہیں دیتے۔ اگر دوسرے اشخاص سیاست میں حصہ لینا چاہیں یا ووٹ ڈالنا چاہیں تو یہوواہ کے خادم انہیں نہیں روکتے۔ یسوع نے کہا تھا کہ اُس کے پیروکار دُنیا کے نہیں ہیں اس لئے یہوواہ کے گواہ سیاست میں حصہ نہیں لیتے۔
۱۲. جب مذہبی رہنما کسی ایک قوم کی حمایت کرتے ہیں تو اکثر اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟
۱۲ جیسا کہ یسوع نے پیشینگوئی کی تھی قومیں ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرتی آ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ کبھیکبھار ایک ہی قوم کے لوگ آپس میں جنگ لڑتے ہیں۔ (متی ۲۴:۳، ۶، ۷) مذہبی رہنماؤں نے تقریباً ہمیشہ ہی جنگ کے دوران کسی ایک قوم یا گروہ کی حمایت کی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ایک ہی مذہب کے لوگ ایک دوسرے کو ہلاک کرتے ہیں محض اس لئے کہ وہ ایک فرق قوم یا قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسا کرنا خدا کی مرضی کی خلافورزی ہے۔—۱-یوحنا ۳:۱۰-۱۲؛ ۴:۸، ۲۰۔
۱۳. سیاسی معاملوں کے سلسلے میں یہوواہ کے گواہوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟
۱۳ یہوواہ کے گواہوں نے کبھی کسی جنگ یا جھگڑے میں حصہ نہیں لیا ہے۔ نومبر ۱، ۱۹۳۹ کے واچٹاور میں یوں بیان کِیا گیا تھا: ”یسوع مسیح کی حمایت کرنے والے اشخاص قوموں کے جھگڑوں میں کسی کی طرفداری نہیں کریں گے۔“ چاہے وہ کسی بھی قوم سے تعلق رکھتے ہوں یا اُنہیں کسی بھی صورتحال کا سامنا ہو یہوواہ کے گواہ اس ہدایت کے مطابق چلتے ہیں۔ اس دُنیا کی سیاست اور جنگیں اُن کے اتحاد کو تباہ نہیں کر سکتیں۔ اُنہوں نے اپنی ’تلواروں کو توڑ کر پھالیں اور اپنے بھالوں کو ہنسوئے بنا ڈالا ہے۔‘ وہ کسی کی طرفداری نہیں کرتے اور اس لئے وہ جنگوں میں بھی حصہ نہیں لیتے۔—یسعیاہ ۲:۳، ۴؛ ۲-کرنتھیوں ۱۰:۳، ۴۔
۱۴. چونکہ یہوواہ کے گواہ دُنیا کے نہیں ہیں اس لئے اُنہیں کیا کچھ سہنا پڑا ہے؟
۱۴ یہوواہ کے گواہوں کے لئے دُنیا کے نہ ہونے کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ یسوع نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا: ”چُونکہ تُم دُنیا کے نہیں . . . اِس واسطے دُنیا تُم سے عداوت رکھتی ہے۔“ (یوحنا ۱۵:۱۹) بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کو محض اس لئے قید کِیا گیا ہے کیونکہ وہ یہوواہ خدا کی خدمت کرتے ہیں۔ پہلی صدی کے مسیحیوں کی طرح کئی یہوواہ کے گواہوں کو بھی اذیت پہنچائی گئی ہے یہاں تک کہ بعض کو مار ڈالا گیا ہے۔ اُنہیں یہ سب اذیتیں کیوں سہنی پڑیں؟ کیونکہ شیطان ’اِس جہان کا خدا ہے‘ اور وہ اُن لوگوں کی سخت مخالفت کرتا ہے جو اس دُنیا کے نہیں ہیں۔—۲-کرنتھیوں ۴:۴؛ مکاشفہ ۱۲:۱۲۔
۱۵. (ا) دُنیا کی قوموں کا کیا انجام ہوگا؟ (ب) ہمارے لئے دُنیا کا نہ ہونا اتنا اہم کیوں ہے؟
۱۵ یہوواہ کے خادم خوش ہیں کہ وہ اس دُنیا کے نہیں ہیں کیونکہ بہت جلد ہرمجدون یعنی خدا کے روزِعظیم کی لڑائی میں اس دُنیا کی قوموں کا خاتمہ ہوگا۔ (دانیایل ۲:۴۴؛ مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶؛ ۱۹:۱۱-۲۱) چونکہ ہم اس دُنیا کے نہیں ہیں اس لئے ہم اس تباہی سے بچ جائیں گے۔ دُنیابھر میں ہم ایک متحد بھائیچارے کے طور پر خدا کی بادشاہت کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ دُنیا کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ اذیتیں صرف تھوڑے عرصہ کی ہیں کیونکہ بہت جلد شیطان کی یہ دُنیا ہمیشہ کے لئے نیستونابود ہو جائے گی اور یہوواہ خدا کے خادم زمین پر اُس کی بادشاہت کی حکمرانی سے ہمیشہ کے لئے لطف اُٹھائیں گے۔—۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷۔
اِن سوالات پر تبصرہ کریں
• یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ ’دُنیا کے نہ ہونے‘ کا مطلب کیا ہے؟
• پہلی صدی کے مسیحی (ا) دُنیا کی سوچ کو (ب) حکمرانوں کو (پ) ٹیکس کی ادائیگی کو کیسا خیال کرتے تھے؟
• ہمارے زمانے میں یہوواہ کے گواہوں نے کیسے ظاہر کِیا ہے کہ وہ دُنیا کے معاملوں میں دخل نہیں دیتے ہیں؟
[صفحہ ۱۶۵ پر تصویر]
یسوع مسیح نے کہا تھا کہ وہ اور اُس کے پیروکار ”دُنیا کے نہیں“ ہیں