”بہت سا پھل لاؤ“
”بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔“—یوحنا ۱۵:۸۔
۱. (ا) شاگردوں کے طور پر قائم رہنے کیلئے یسوع نے کس تقاضے کو بیان کِیا؟ (ب) ہمیں خود سے کیا سوال پوچھنا چاہئے؟
اپنی موت سے پہلے کی رات یسوع اپنے شاگردوں کو بڑی شفقت کیساتھ حوصلہافزائی کرتا رہا۔ آدھی رات گزر چکی تھی۔ یسوع اُن کیساتھ محبت سے گفتگو جاری رکھے ہوئے تھا۔ اپنی گفتگو کے دوران یسوع نے اُنہیں شاگردوں کے طور پر قائم رہنے کیلئے ایک اَور ضروری تقاضے کی طرف توجہ دلائی تھی: ”میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔“ (یوحنا ۱۵:۸) کیا آجکل ہم شاگردی کے اِس تقاضے کو پورا کرتے ہیں؟ ”بہت سا پھل لاؤ“ سے کیا مُراد ہے؟ اِس بات کو سمجھنے کیلئے آئیے اُسی رات کی گفتگو پر غور کرتے ہیں۔
۲. اپنی موت سے پہلے یسوع نے پھل پیدا کرنے کے بارے میں کونسی تمثیل بیان کی؟
۲ اُس رات یسوع نے اپنے شاگردوں کو ایک تمثیل بتائی جس میں اُس نے پھل پیدا کرنے کی نصیحت کی۔ اُس نے کہا: ”انگور کا حقیقی درخت مَیں ہوں اور میرا باپ باغبان ہے۔ جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اُسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اُسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔ اب تم اُس کلام کے سبب سے جو مَیں نے تم سے کِیا پاک ہو۔ تم مجھ میں قائم رہو اور مَیں تم میں۔ جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے تو اپنے آپ سے پھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تم بھی اگر مجھ میں قائم نہ رہو تو پھل نہیں لا سکتے۔ مَیں انگور کا درخت ہوں تم ڈالیاں ہو۔ . . . میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ جیسے باپ نے مجھ سے محبت رکھی ویسے ہی مَیں نے تم سے محبت رکھی۔ تم میری محبت میں قائم رہو۔ اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے۔“—یوحنا ۱۵:۱-۱۰۔
۳. یسوع کے پیروکاروں کو پھل پیدا کرنے کیلئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۳ اس تمثیل کے مطابق یہوواہ باغبان ہے اور یسوع انگور کا درخت اور وہ رسول جن سے یسوع مخاطب تھا ڈالیاں ہیں۔ جبتک رسول ’یسوع میں قائم رہنے‘ کے لئے کوشاں رہینگے وہ پھلدار ثابت ہونگے۔ اِسکے بعد یسوع نے وضاحت کی کہ رسول کس طرح اس میں متحد ہو کر قائم رہ سکتے ہیں: ”اگر تم میرے حکموں پر عمل کرو گے تو میری محبت میں قائم رہو گے۔“ یوحنا رسول نے بھی بعد میں اپنے ساتھی مسیحیوں کو اِسی طرح لکھا: ”جو [مسیح] کے حکموں پر عمل کرتا ہے وہ اِس میں . . . قائم رہتا ہے۔“a (۱-یوحنا ۲:۲۴؛ ۳:۲۴) یسوع کے حکموں کی پابندی کرنے سے اُسکے پیروکار اُس میں متحد ہو کر قائم رہ سکتے ہیں اور پھل پیدا کر سکتے ہیں۔ ہمیں کس قسم کے پھل پیدا کرنے کی ضرورت ہے؟
پھل پیدا کرنے کا موقع
۴. ہم اس بات سے کیا سیکھتے ہیں کہ یہوواہ ہر اُس ڈالی کو ’کاٹ دیگا‘ جو پھل پیدا نہیں کرتی؟
۴ انگور کے درخت کی تمثیل میں یہوواہ پھل نہ لانے والی ڈالیوں کو ”کاٹ ڈالتا“ ہے۔ یہ بات کیا ظاہر کرتی ہے؟ یہ تمثیل واضح کرتی ہے کہ تمام شاگرد اپنے حالات سے قطعنظر پھل پیدا کر سکتے ہیں اور اُنکو ایسا کرنا بھی چاہئے۔ بیشک یہوواہ محبت کرنے والا خدا ہے لہٰذا اگر کوئی شخص حقیقت میں اپنی استطاعت سے زیادہ کچھ نہیں کر پاتا تو یہوواہ اُسے ہمیشہ کی زندگی کا وارث بننے سے خارج نہیں کریگا۔—زبور ۱۰۳:۱۴؛ کلسیوں ۳:۲۳؛ ۱-یوحنا ۵:۳۔
۵. (ا) یسوع کی تمثیل سے کیسے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پھل پیدا کرنے میں ترقی کرتے رہنا چاہئے؟ (ب) ہم کونسے دو قسم کے پھلوں پر غور کرینگے؟
۵ یسوع کی تمثیل یہ بھی بتاتی ہے کہ شاگردوں کے طور پر ہمیں اپنی زندگی میں مسلسل ترقی کرنی چاہئے۔ یسوع کے بیان پر غور کریں: ”جو ڈالی مجھ میں ہے اور پھل نہیں لاتی اسے وہ کاٹ ڈالتا ہے اور جو پھل لاتی ہے اسے چھانٹتا ہے تاکہ زیادہ پھل لائے۔“ (یوحنا ۱۵:۲) یسوع اپنی تمثیل کے آخر میں اپنے پیروکاروں کو دوبارہ ”بہت سا پھل“ لانے کی نصیحت کرتا ہے۔ (آیت ۸) یہاں ہمارے لئے کونسا سبق موجود ہے؟ شاگردوں کے طور پر ہمیں اپنی کارکردگی سے مطمئن اور بےفکر نہیں ہونا چاہئے۔ (مکاشفہ ۳:۱۴، ۱۵، ۱۹) اِسکی بجائے ہمیں مزید پھل پیدا کرنے کے طریقوں کی تلاش میں رہنا چاہئے۔ ہمیں کس قسم کا پھل افراط کیساتھ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے؟ (۱) ”روح کا پھل“ اور (۲) بادشاہت کا پھل۔—گلتیوں ۵:۲۲، ۲؛ متی ۲۴:۱۴۔
مسیحی خوبیوں کا پھل
۶. یسوع نے روح کے پہلے پھل کی اہمیت پر کیسے زور دیا؟
۶ پہلا ”روح کا پھل“ محبت ہے۔ خدا کی پاک روح مسیحیوں میں محبت کی خوبی پیدا کرتی ہیں کیونکہ وہ انگور کی تمثیل پیش کرنے سے پہلے یسوع کی طرف سے دئے جانے والے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔ اُس نے اپنے رسولوں کو کہا:”مَیں تمہیں ایک نیا حکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو۔“ (یوحنا ۱۳:۳۴) درحقیقت، اپنی زمینی زندگی کی آخری رات یسوع رسولوں پر محبت کی خوبی پیدا کرنے پر باربار زور دیتا رہا۔—یوحنا ۱۴:۱۵، ۲۱، ۲۳، ۲۴؛ ۱۵:۱۲، ۱۳، ۱۷۔
۷. پطرس رسول نے یہ کس طرح ظاہر کِیا کہ پھل پیدا کرنا مسیحی خوبیاں ظاہر کرنے سے تعلق رکھتا ہے؟
۷ پطرس بھی اُس رات وہاں موجود تھا۔ وہ یہ بات سمجھ گیا تھا کہ مسیح کے سچے شاگردوں کو مسیح جیسی محبت اور اِس سے وابستہ دیگر خوبیاں ظاہر کرنا ہونگی۔ کچھ سالوں بعد، پطرس نے مسیحیوں کو پرہیزگاری، برادرانہالفت اور محبت کی خوبیاں پیدا کرنے کی نصیحت کی۔ وہ اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ خوبیاں ہمیں ”بیکار اور بےپھل نہ ہونے دینگی۔“ (۲-پطرس ۱:۵-۸) اپنے حالات سے قطعنظر روح کے پھل ظاہر کرنا ہمارے لئے ممکن ہے۔دُعا ہے کہ ہم محبت، مہربانی، حلم اور مسیح جیسی دیگر خوبیوں کو پیدا کریں کیونکہ ”ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں۔“ (گلتیوں ۵:۲۳) بہرکیف، ہمیں ”زیادہ پھل“ لانا چاہئے۔
بادشاہتی پھل پیدا کرنا
۸. (ا) روح کے پھل اور بادشاہتی پھل کے درمیان کیا تعلق ہے؟ (ب) کونسا سوال ہماری توجہ کا مستحق ہے؟
۸ رنگبرنگے اور رسیلے پھل پودے کی خوبصورتی ہوتے ہیں۔ لیکن پھل کی اہمیت اُس کی خوبصورتی سے زیادہ مطلب رکھتی ہے۔ پھل بیجدار ہونے کی وجہ سے پودے کی نسل میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ اِسی طرح روح کا پھل ہماری مسیحی شخصیت کو سنوارنے کے علاوہ بہت کچھ کرتا ہے۔ محبت اور ایمانداری جیسی خوبیاں ہمیں تحریک دیتی ہیں کہ ہم خدا کے کلام میں پائے جانے والے بادشاہتی پیغام کو پھیلا سکیں۔ غور کریں کہ پولس ان دو مختلف پھلوں کے تعلق کو کس طرح واضح کرتا ہے: ”ہم بھی ایمان [روح کے پھل کا ایک جُز] لائے اور اسی لئے بولتے ہیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۴:۱۳) پھر پولس مزید بیان کرتا ہے کہ ’ہم خدا کے لئے حمد کی قربانی یعنی ہونٹوں کا پھل ہر وقت چڑھاتے ہیں‘ جو روح کے پھلوں میں سے دوسرا ہے جسے ہمیں ظاہر کرنا چاہئے۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) بادشاہتی مُناد ہوتے ہوئے کیا ہماری زندگی میں خدا کی بادشاہت کیلئے ”بہت سا پھل“ پیدا کرنے کی گنجائش ہے؟
۹. کیا پھل پیدا کرنے سے مُراد شاگرد بنانا ہے؟ وضاحت کریں۔
۹ اِس سوال کا درست جواب دینے کے لئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بادشاہتی پھل کیا ہے۔ کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ پھل پیدا کرنے سے مُراد شاگرد بنانا ہے؟ (متی ۲۸:۱۹) کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی شخص کو بپتسمہ دلانے میں مدد کریں؟ جینہیں۔ اگر ایسی بات ہوتی تو یہ اُن قابلِاحترام بہن بھائیوں کے لئے حوصلہشکنی کا باعث ہوتا جو بہت عرصے سے ایک ایسے علاقے میں بادشاہتی پیغام پھیلا رہے ہیں جہاں لوگ زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے۔ اگر بادشاہتی پھل پیدا کرنے سے مُراد نئے شاگرد بنانا ہے تو ایسے محنتی گواہ پھل نہ لانے والی اُن ڈالیوں کی طرح ہوں گے جن کا ذکر یسوع نے اپنی تمثیل میں کِیا تھا جنکو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے! درحقیقت، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پھر بادشاہتی پھل کیا ہے؟
بادشاہتی بیج کو پھیلانا
۱۰. یسوع کی تمثیل کس طرح واضح کرتی ہے کہ بادشاہتی پھل کیا ہے اور کیا نہیں ہے؟
۱۰ ہمیں اس سوال کا جواب یسوع کی تمثیل سے ملتا ہے جس میں وہ بونے والے کے بارے میں بیان کرتا ہے جو بیج کو مختلف قسم کی زمین میں بوتا ہے۔ یہ جواب اُن بھائیوں کی حوصلہافزائی کرتا ہے جو ایسے علاقے میں کام کرتے ہیں جہاں لوگ کم دلچسپی دکھاتے ہیں۔ یسوع نے کہا کہ بیج خدا کے کلام کا پیغام ہے اور زمین انسان کے علامتی دل کی نمائندگی کرتی ہے۔ اِن میں سے کچھ بیج ’اچھی زمین پر گرے اور اُگ کر پھل لائے۔‘ (لوقا ۸:۸) یہ کس قسم کا پھل ہے؟ جب ایک گندم کا پودا بڑھتا ہے تو اسکا پھل نئے پودے نہیں بلکہ گندم کے بیج ہوتے ہیں۔ اِسی طرح جب ایک مسیحی پھل پیدا کرتا ہے تو یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ ایک نیا شاگرد بناتا ہے بلکہ وہ نیا بادشاہتی بیج پیدا کرتا ہے۔
۱۱. بادشاہتی پھل کو کیسے واضح کِیا جا سکتا ہے؟
۱۱ پس پھل پیدا کرنے سے مُراد نہ تو نئے شاگرد بنانا ہے اور نہ ہی عمدہ مسیحی خوبیاں ہیں۔ پس جب بویا جانے والا بیج بادشاہت کا کلام ہے تو اِسکا پھل اپنے اندر بہت سا بیج رکھنا ہے۔ اِسی طرح جب بادشاہتی کلام کو بویا جاتا ہے تو اُسکا پھل بادشاہت کی بابت اظہارِخیال کرنا ہوتا ہے۔ (متی ۲۴:۱۴) خواہ ہمارے حالات کیسے بھی ہوں کیا ایسے بادشاہتی پھل پیدا کرنا یعنی خوشخبری کی منادی کرنا ہمارے لئے ممکن ہے؟ جیہاں، ہم ایسا کر سکتے ہیں! یسوع اِسی تمثیل میں وضاحت کرتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے۔
خدا کے جلال کیلئے اپنی بہترین چیزیں پیش کرنا
۱۲. کیا تمام مسیحی بادشاہتی پھل پیدا کر سکتے ہیں؟ واضح کریں۔
۱۲ یسوع نے بیان کِیا کہ ”جو اچھی زمین میں بویا گیا . . . کوئی سو گُنا پھلتا ہے کوئی ساٹھ گُنا کوئی تیس گُنا۔“ (متی ۱۳:۲۳) جب گندم کے دانے کھیت میں بوئے جاتے ہیں تو اُن میں سے حالات کے پیشِنظر کچھ زیادہ اور کچھ کم پھل لاتے ہیں۔ اِسی طرح جب ہمارے حالات کے مطابق ہماری بادشاہتی کلام کی منادی مختلف ہوتی ہے تو یسوع ظاہر کرتا ہے کہ وہ اِس حقیقت کو سمجھتا ہے۔ کچھ لوگوں کے پاس زیادہ مواقع ہیں اور دوسروں کے پاس اچھی صحت اور زیادہ طاقت ہے۔ پس ہم جوکچھ کرنے کے قابل ہیں وہ دوسروں کے مقابلے میں کم یا زیادہ ہو سکتا ہے، تاہم اگر اس سے ہماری بہترین کوشش کی نمائندگی ہوتی ہے تو یہوواہ اس سے بہت خوش ہوتا ہے۔ (گلتیوں ۶:۴) اگر بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے منادی کے کام میں ہماری کارکردگی محدود بھی ہو جاتی ہے توبھی ہمارا مہربان خدا یہوواہ ہمیں بِلاشُبہ ”بہت سا پھل“ لانے والا ہی سمجھے گا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم ’اپنے پاس سے سب کچھ اُسے دے دیتے ہیں‘ یعنی پورے دلوجان سے اُس کی خدمت کرتے ہیں۔b—مرقس ۱۲:۴۳، ۴۴؛ لوقا ۱۰:۲۷۔
۱۳. (ا) ہمارے لئے ہمیشہ بادشاہتی پھل لانے کی سب سے اہم وجہ کیا ہے؟ (ب) کونسے تجربات ہماری مدد کرینگے کہ ہم اُن علاقوں میں پھل پیدا کرتے رہیں جہاں لوگ کم دلچسپی دکھاتے ہیں؟ (صفحہ ۲۱ پر بکس دیکھیں۔)
۱۳ جب ہم اس بات کو ذہننشین رکھتے ہیں کہ ہم کیوں ایسا کر رہے ہیں تو یہ ہمیں ”پھل“ لانے کی تحریک ملیگی۔ (یوحنا ۱۵:۱۶) یسوع نے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے کہا: ”میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔“ (یوحنا ۱۵:۸) جیہاں، اِسی مقصد کیلئے ہم بادشاہتی پھل لاتے ہیں کیونکہ منادی کے کام کی بدولت ہی ہم تمام انسانوں کے سامنے یہوواہ کے نام کی بڑائی کرتے ہیں۔ (زبور ۱۰۹:۳۰) تقریباً ۷۵ سال کی ایک وفادار بہنآنر یوں کہتی ہے: ”حالانکہ لوگ بادشاہتی پیغام میں دلچسپی نہیں دکھاتے لیکن مَیں قادرِمطلق خدا کے بارے میں بات کرنے کو ایک شرف سمجھتی ہوں۔“ کلوڈیو ۱۹۷۴ سے ایک سرگرم گواہ ہے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں ایک ایسے علاقے میں منادی کر رہا ہے جہاں لوگ دلچسپی نہیں دکھاتے تو اُس نے یوحنا ۴:۳۴ کا حوالہ دیا جہاں ہم یسوع کے الفاظ کو پڑھتے ہیں: ”میرا کھانا یہ ہے کہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں اور اسکا کام پورا کروں۔“ کلوڈیو اضافہ کرتے ہوئے کہتا ہے: ”یسوع کی طرح، مَیں نہ صرف ایک سرگرم گواہ کے طور پر اپنا کام شروع کرنا بلکہ اسے مکمل بھی کرنا چاہتا ہوں۔“ (یوحنا ۱۷:۴) پوری دُنیا میں یہوواہ کے گواہ اس بات سے متفق ہیں۔—صفحہ ۲۱ پر ” ’صبر سے پھل‘ کیسے لائیں“ بکس کو دیکھیں۔
منادی کرنا اور تعلیم دینا
۱۴. (ا) یوحنا بپتسمہ دینے والے اور یسوع کے کام کے کونسے دو مقاصد تھے؟ (ب) آجکل مسیحیوں کے کام میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۴ اناجیل پہلے بادشاہتی مُناد کے طور پر یوحنا بپتسمہ دینے والے کا ذکر کرتی ہیں۔ (متی ۳:۱، ۲؛ لوقا ۳:۱۸) اُسکا مقصد ”گواہی“ دینا تھا اور ایسا اُس نے گہرے ایمان اور اِس اُمید سے کِیا ”تاکہ سب اُس کے وسیلہ سے ایمان لائیں۔“ (یوحنا ۱:۶، ۷) اِن میں سے کچھ لوگ جنکو یوحنا نے منادی کی یسوع کے شاگرد بنے۔ (یوحنا ۱:۳۵-۳۷) پس یوحنا منادی کرنے کے علاوہ شاگرد بھی بناتا تھا۔ اِسی طرح یسوع بھی مُناد اور مُعلم تھا۔ (متی ۴:۲۳؛ ۱۱:۱) یسوع نے اپنے پیروکاروں کو بھی یہی حکم دیا کہ وہ بادشاہتی پیغام کی منادی کرنے کے علاوہ پیغام کو قبول کرنے والوں کی مدد کریں تاکہ اُسکے شاگرد بن جائیں۔ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) آجکل ہمارا کام بھی منادی اور تعلیم دینے پر مشتمل ہے۔
۱۵. پہلی صدی اور آجکل منادی کے کام میں کونسی مشابہت پائی جاتی ہے؟
۱۵ جنہوں نے پہلی صدی س.ع میں پولس کو منادی کرتے اور تعلیم دیتے سنا اُن میں سے ”بعض نے اُسکی باتوں کو مان لیا اور بعض نے نہ مانا۔“ (اعمال ۲۸:۲۴) آجکل ہم بھی لوگوں میں ایسا ہی رُجحان دیکھ سکتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ بہت سے بادشاہتی بیج ایسی زمین پر گرتے ہیں جو پھل پیدا نہیں کرتی۔ لیکن یسوع کے مطابق کئی بیج ایسے بھی ہے جو اچھی زمین پر گِر کر جڑ پکڑتے اور بڑھتے ہیں۔ درحقیقت، پوری دُنیا میں ہر ہفتے ۵،۰۰۰ لوگ مسیح کے پیروکار بن رہے ہیں!اگرچہ بیشتر پیغام کو قبول تو نہیں کرتے توبھی اِن نئے شاگردوں نے ”باتوں کو مان لیا“ ہے۔ کس بات نے بادشاہتی پیغام کو قبول کرنے میں اُنکی مدد کی؟ اکثر گواہوں کی طرف سے لوگوں کیلئے ذاتی دلچسپی دکھانا—علامتی طور پر تازہ بوئے گئے بیج کو پانی دینا—فائدہمند ثابت ہوا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۳:۶) ہم دو مثالوں پر غور کرتے ہیں۔
ذاتی دلچسپی دکھانا فائدہمند ثابت ہوتا ہے
۱۶، ۱۷. منادی کے دوران ہم جن لوگوں سے ملتے ہیں اُن میں ذاتی دلچسپی دکھانا کیوں ضروری ہے؟
۱۶ بیلجیئم میں ایک جوان بہن کیرولین منادی کے دوران ایک عمررسیدہ خاتون سے ملی جس نے بادشاہتی پیغام میں دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔ اُس عورت کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ کیرولین اور اُسکے ساتھ دوسری بہن نے اُسکی مدد کرنا چاہی لیکن اُس نے صاف انکار کر دیا۔ دو دن کے بعد دونوں بہنیں اُس خاتون کے گھر اُسکا حال پوچھنے کیلئے گئیں۔ کیرولین نے کہا، ”وہ اِس بات کو جان کر بہت خوش ہوئی کہ ہم اُس میں ذاتی دلچسپی دکھا رہی ہیں۔ اُس نے ہمیں گھر کے اندر آنے کی دعوت دی اور اس طرح ایک بائبل مطالعہ شروع ہو گیا۔“
۱۷ ریاستہائےمتحدہ کی ایک بہن سینڈی بھی جن لوگوں کو منادی کرتی ہے اُن میں ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وہ مقامی اخبار میں نومولود بچوں کی فہرست دیکھتی ہے اور پھر اُنکے والدین سے ملنے جاتی ہے۔ اُس وقت ماں گھر ہی پر ہوتی ہے اور آنے والوں کو بڑی خوشی کیساتھ اپنا بچہ دکھاتی ہے اور اِس طرح گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ ”مَیں والدین کو بتاتی ہوں کہ وہ بچے کو اُونچی آواز میں پڑھ کر سنانے سے اُس کیساتھ ایک قریبی رشتہ بنا سکتے ہیں۔“ پھر وہ اُنکو بائبل کہانیوں کی میری کتابc دیتی ہے۔ سینڈی وضاحت کرتی ہے کہ ”اسکے بعد مَیں آجکل کے بُرے حالات میں بچوں کی پرورش کرنے کے مسائل پر بات کرتی ہوں۔“ حال ہی میں ایک ایسی ملاقات کی وجہ سے ایک ماں اور اُسکے چھ بچوں نے یہوواہ کی خدمت شروع کر دی ہے۔ اگر ہم بھی منادی کے کام میں ایسے ہی خوشگوار نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں میں ذاتی دلچسپی دکھانے کی ضرورت ہے۔
۱۸. (ا) ہم سب ”بہت سا پھل“ پیدا کرنے کے تقاضے کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں؟ (ب) ہمیں یوحنا کی انجیل میں شاگرد بننے کے کونسے تین تقاضوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۸ ہمیں یہ جان کر بہت حوصلہافزائی ملتی ہے کہ ہم سب ”بہت سا پھل“ پیدا کرنے کے تقاضے کو پورا کر سکتے ہیں! ہم خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، ہماری صحت اچھی ہو یا بُری، خواہ لوگ ہمارے پیغام کو سنیں یا نہ سنیں ہم سب بہت پھل پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ کیسے؟ ہم پوری طرح روح کے پھل ظاہر کرنے اور خدا کے بادشاہتی کلام کو پھیلانے کی پوری کوشش کرنے سے ایسا کر سکتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں ’یسوع کے کلام پر قائم‘ رہنا اور ’آپس میں محبت رکھنی‘ چاہئے۔ جیہاں، یوحنا کی انجیل میں شاگرد بننے کے تین اہم تقاضوں کو پورا کرنے سے ہم یہ ثابت کریں گے کہ ’ہم حقیقت میں [مسیح] کے شاگرد‘ ہیں۔—یوحنا ۸:۳۱؛ ۱۳:۳۵۔
[فٹنوٹ]
a یسوع کی تمثیل میں انگور کی ڈالیوں سے مُراد اُسکے رسول اور وہ لوگ ہیں جو خدا کی آسمانی بادشاہت کی اُمید رکھتے ہیں لیکن اِس تمثیل کی سچائیوں سے آجکل مسیح کے باقی تمام پیروکار بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔—یوحنا ۳:۱۶؛ ۱۰:۱۶۔
b ایسے بہن بھائی جو بڑھاپے یا کسی بیماری کی وجہ سے گھر تک ہی محدود ہیں وہ شاید خط کے ذریعے یا ممکن ہو تو ٹیلیفون کے ذریعے یا اپنے ملاقاتیوں کو خوشخبری سنا سکتے ہیں۔
c یہوواہ کے گواہوں کی شائعکردہ۔
اعادے کیلئے سوالات
•ہمیں کونسا پھل کثرت سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے؟
•”بہت سا پھل“ پیدا کرنا ہماری پہنچ میں کیوں ہے؟
•ہم نے یوحنا کی انجیل میں شاگرد بننے کے کونسے تین تقاضوں کے بارے میں سیکھا ہے؟
[صفحہ ۲۱ پر بکس/تصویر]
”صبر سے پھل“ کیسے لائیں
ایسے علاقوں میں جہاں لوگ کم دلچسپی دکھاتے ہیں کونسی چیز وفاداری کیساتھ بادشاہتی پیغام سنانے میں آپکی مدد کرتی ہے؟ اس سوال کے کچھ جوابات درجذیل ہیں۔
”جب مَیں منادی پر جاتا ہوں تو مَیں یہ جانتا ہوں کہ یسوع میری مدد کر رہا ہے۔ اِسلئے مجھے اپنی کامیابی پر پورا یقین ہوتا ہے۔ خواہ لوگ سنیں یا نہ سنیں مَیں منادی کے کام کو جاری رکھونگا۔“—ہیری، عمر ۷۲ سال؛ بپتسمہ ۱۹۴۶۔
”مجھے ۲۔کرنتھیوں ۲:۱۷ کے صحیفے سے ہمیشہ حوصلہافزائی ملتی ہے جہاں لکھا ہے کہ جب ہم خدمتگزاری میں حصہ لیتے ہیں تو ہم ’خدا کو حاضر جان کر مسیح میں بولتے ہیں۔‘ اِسلئے مَیں منادی میں اپنے دوستوں—خدا اور یسوع—کی رفاقت سے مستفید ہوتا ہوں۔“—کلوڈیو، عمر ۴۳ سال؛ بپتسمہ ۱۹۷۴۔
”سچی بات تو یہ ہے کہ منادی میرے لئے مشقتطلب کام ہے لیکن جب مَیں جاتا ہوں تو مجھے زبور ۱۸:۲۹ سے کافی حوصلہافزائی ملتی ہے جہاں لکھا ہے کہ ’مَیں اپنے خدا کی بدولت دیوار پھاند سکتا ہوں۔‘ “—جیراڈ، عمر ۷۹ سال؛ بپتسمہ ۱۹۵۵۔
”اگر مَیں منادی میں کسی کو ایک صحیفہ بھی پڑھ کر سنا دوں تو اس سے مجھے بہت خوشی ملتی ہے کہ کسی ایک کا دل تو بائبل کے ذریعہ پرکھا گیا۔“—ایلینور، عمر ۲۶ سال؛ بپتسمہ ۱۹۸۹۔
”مَیں منادی میں پیشکشوں کے مختلف طریقوں کو استعمال کرتا ہوں اور یہ اتنے زیادہ ہیں کہ مَیں اپنی زندگی کے باقی سالوں میں بھی اِنکو ختم نہیں کر سکتا۔“—پال، عمر ۷۹ سال؛ بپتسمہ ۱۹۴۰۔
”منادی کے دوران مَیں لوگوں کی مخالفت کا بُرا نہیں مناتا بلکہ مَیں اُن کیساتھ دوستانہ ماحول قائم کرنے کی کوشش کرتا اور اُنکے نقطۂنظر کو غور سے سنتا ہوں۔“—ڈینئل، عمر ۷۵ سال؛ بپتسمہ ۱۹۴۶۔
”جب مَیںنئے بپتسمہ لینے والوں سے ملتی ہوں تو وہ مجھے بتاتے ہیں کہ اُنکے گواہ بننے میں میرا بھی حصہ ہے۔ بعد میں کسی اَور نے اُن کیساتھ بائبل کا مطالعہ کِیا جسکی وجہ سے وہ سچائی میں آئے ہیں۔ یہ بات جان کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے منادی کے کام میں سب کی کوششیں شامل ہیں۔“—جَون، عمر ۶۶ سال؛ بپتسمہ ۱۹۵۴۔
کس چیز نے آپکی ”صبر سے پھل“ لانے میں مدد کی؟—لوقا ۸:۱۵۔
[صفحہ ۲۰ پر تصویریں]
روح کے پھل ظاہر کرنے اور بادشاہتی پیغام کو پھیلانے سے ہم بہت سا پھل پیدا کرتے ہیں
[صفحہ ۲۳ پر تصویر]
جب یسوع نے اپنے رسولوں سے کہا کہ ”بہت سا پھل لاؤ“ تو اِس سے اُسکا کیا مطلب تھا؟