مطالعے کا مضمون نمبر 43
ہمت نہ ہاریں!
”اچھے کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔“—گل 6:9۔
گیت نمبر 68: بادشاہت کا بیج بوئیں
مضمون پر ایک نظرa
1. ہمیں کون سا اعزاز ملا ہے؟
یہ ہمارے لیے کتنی خوشی اور اعزاز کی بات ہے کہ ہم یہوواہ کے گواہ ہیں!ہم یہوواہ کے نام سے کہلاتے ہیں اور مُنادی کرنے اور تعلیم دینے سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم اُس کے گواہ ہیں۔ ہمیں اُس وقت بڑی خوشی ملتی ہے جب ہم کسی ایسے شخص کی مدد کر پاتے ہیں جو ”ہمیشہ کی زندگی کی راہ پر چلنے کی طرف مائل“ تھا۔ (اعما 13:48) ہم بھی ویسا ہی محسوس کرتے ہیں جیسا یسوع مسیح نے محسوس کِیا۔ ایک بار جب اُن کے شاگردوں نے اُنہیں آ کر بتایا کہ اُنہیں مُنادی کے دوران کتنے اچھے تجربے ہوئے تو یسوع ”پاک روح سے معمور“ ہو گئے اور بہت خوش ہوئے۔—لُو 10:1، 17، 21۔
2. ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم مُنادی کے کام کو بہت اہم خیال کرتے ہیں؟
2 ہم مُنادی کے کام کو بہت اہم خیال کرتے ہیں۔ پولُس رسول نے تیمُتھیُس کو یہ نصیحت کی: ”اپنی شخصیت اور اُس تعلیم پر دھیان دیں جو آپ دوسروں کو دیتے ہیں۔“ اُنہوں نے یہ بھی کہا: ”اِس طرح آپ خود کو اور اُن لوگوں کو بچا لیں گے جو آپ کی بات سنتے ہیں۔“ (1-تیم 4:16) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم مُنادی کرتے ہیں تو اِس سے لوگوں کی زندگی بچ سکتی ہے۔ ہم اپنی تعلیم پر اِس لیے دھیان دیتے ہیں کیونکہ ہم خدا کی بادشاہت کے شہری ہیں۔ ہم ہمیشہ ایسے کام کرنا چاہتے ہیں جن سے یہوواہ کی بڑائی ہو اور جن سے یہ ظاہر ہو کہ ہم اُس خوشخبری پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ہم دوسروں کو سناتے ہیں۔ (فل 1:27) جب ہم مُنادی کرنے سے پہلے اچھی تیاری کرتے ہیں اور دوسروں کو گواہی دینے کے لیے یہوواہ سے مدد مانگتے ہیں تو ہم ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ’اُس تعلیم پر دھیان دے رہے ہیں جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں۔‘
3. کیا ہر شخص بائبل کے پیغام میں دلچسپی لے گا؟ ایک مثال دیں۔
3 شاید ہماری بہت کوششوں کے بعد بھی ہمارے علاقے کے لوگ بادشاہت کے پیغام میں دلچسپی نہ لیں۔ ذرا اِس سلسلے میں بھائی جارج لنڈل کے تجربے پر غور کریں جنہوں نے 1929ء سے لے کر 1947ء تک اکیلے آئسلینڈ میں مُنادی کی۔ اُنہوں نے لوگوں کو ہزاروں کتابیں دیں لیکن اُن میں سے کوئی بھی یہوواہ کا گواہ نہیں بنا۔ اُنہوں نے ہماری برانچ کو ایک خط میں لکھا: ”کچھ لوگوں نے بائبل کے پیغام کی مخالفت کی لیکن زیادہتر کو اِس میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔“ جب گلئیڈ سے تربیت پانے والے بہن بھائیوں کو آئسلینڈ میں خدمت کرنے کے لیے بھیجا گیا تو اِس کے نو سال بعد ہی کچھ لوگوں نے اپنی زندگی یہوواہ کے لیے وقف کی اور بپتسمہ لیا۔
4. ہمیں اُس وقت کیسا محسوس کرنا چاہیے جب لوگ بائبل کے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے؟
4 شاید ہم اُس وقت بہت بےحوصلہ ہو جائیں جب لوگ پاک کلام کی تعلیم حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہ لیں۔ شاید ہم بھی پولُس کی طرح محسوس کریں جنہوں نے کہا: ”مَیں سخت پریشان ہوں اور میرا دل بہت دُکھی ہے۔“ اُنہوں نے ایسا اِس لیے کہا کیونکہ زیادہتر یہودیوں نے اِس بات کو ماننے سے اِنکار کر دیا کہ یسوع ہی مسیح تھے۔ (روم 9:1-3) اگر آپ کی لاکھ کوششوں اور دُعاؤں کے بعد بھی آپ کا طالبِعلم یہوواہ کی عبادت کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھاتا اور اِس وجہ سے آپ کو اُس کے ساتھ بائبل کورس بند کرنا پڑتا ہے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ یا اگر آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کو بائبل کورس نہیں کرایا جس نے بپتسمہ لے لیا تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ اِس میں آپ ہی کی غلطی ہے اور یہوواہ نے آپ کی کوششوں پر برکت نہیں ڈالی ہے؟ اِس مضمون میں ہم اِن سوالوں کے جواب حاصل کریں گے: (1) کس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم مُنادی کے کام میں کامیاب رہے ہیں؟ اور (2) جب ہم دوسروں کو گواہی دیتے ہیں تو ہمیں کس بات کی توقع کرنی چاہیے؟
مُنادی کے کام میں کامیابی کس بات سے ظاہر ہوتی ہے؟
5. ہم یہوواہ کی خدمت میں جو کچھ کرتے ہیں، کبھی کبھار اُس کا وہ نتیجہ کیوں نہیں نکلتا جس کی ہم توقع کر رہے ہوتے ہیں؟
5 بائبل میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی مرضی پر چلنے والا شخص ’جو کچھ بھی کرے گا، اُس میں وہ کامیاب ہوگا۔‘ (زبور 1:3، اُردو جیو ورشن) لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم یہوواہ کے لیے جو کچھ بھی کریں گے، اُس کا نتیجہ ویسا ہی نکلے گا جیسا ہم نے سوچا ہوگا۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ عیبدار ہونے کی وجہ سے ہماری اور سب لوگوں کی زندگی ’دُکھ سے بھری ہے۔‘ (ایو 14:1) اِس کے علاوہ کبھی کبھار ہمارے مخالف ہمارے سامنے ایسی مشکلیں کھڑی کر دیتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے لیے کُھل کر مُنادی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ (1-کُر 16:9؛ 1-تھس 2:18) تو پھر یہوواہ یہ اندازہ کیسے لگاتا ہے کہ ہم مُنادی کے کام میں کتنے کامیاب رہے ہیں؟ اِس سوال کے جواب کے لیے آئیں، بائبل سے کچھ اصولوں پر غور کریں۔
6. یہوواہ یہ اندازہ کیسے لگاتا ہے کہ ہم اُس کر خدمت میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں؟
6 یہوواہ ہماری محنت اور ثابتقدمی پر دھیان دیتا ہے۔ یہوواہ کی نظر میں ہم اُس وقت کامیاب ہوتے ہیں جب ہم محبت اور پوری لگن سے اُس کے دیے ہوئے کام کو کرتے ہیں، پھر چاہے لوگ جیسا بھی ردِعمل دِکھائیں۔ پولُس رسول نے کہا: ”خدا بےاِنصاف نہیں ہے۔ وہ اُس محنت اور محبت کو نہیں بھولے گا جو آپ نے مُقدسوں کی خدمت کر کے اُس کے نام کے لیے ظاہر کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔“ (عبر 6:10) یہوواہ اِس بات کو یاد رکھتا ہے کہ ہم نے کتنی محنت اور محبت سے اُس کا کام کِیا پھر چاہے ہم کسی شخص کی بپتسمہ لینے میں مدد کر سکے یا نہیں۔ لہٰذا پولُس کی اِس بات کو یاد رکھیں جو اُنہوں نے کُرنتھس کے مسیحیوں سے کہی: ”آپ مالک کے لیے جو خدمت کر رہے ہیں، وہ فضول نہیں ہے“ پھر چاہے آپ کو آپ کی محنت کا وہ نتیجہ نہ ملے جس کی آپ کو توقع تھی۔—1-کُر 15:58۔
7. پولُس رسول نے یہوواہ کی خدمت کرنے کے بارے میں جو کچھ کہا، اُس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟
7 پولُس رسول ایک بڑے زبردست مشنری تھے جنہوں نے بہت سے شہروں میں نئی کلیسیائیں قائم کیں۔ لیکن جب کچھ لوگوں نے اُن پر تنقید کی اور کہا کہ وہ ایک اچھے اُستاد نہیں ہیں تو پولُس نے اِس بات پر زور نہیں دیا کہ اُنہوں نے کتنے زیادہ لوگوں کی مسیح کا شاگرد بننے میں مدد کی بلکہ اُنہوں نے اِس بات کو نمایاں کِیا کہ وہ یہوواہ کی کتنی ”زیادہ خدمت“ کر رہے ہیں۔ (2-کُر 11:23) پولُس رسول کی طرح ہمیں بھی یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ کی نظر میں یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ ہم پوری لگن سے اُس کا کام کریں اور ایسا کرنے میں ہمت نہ ہاریں۔
8. ہمیں مُنادی کرتے اور شاگرد بناتے وقت کون سی بات یاد رکھنی چاہیے؟
8 یہوواہ ہمارے مُنادی کرنے اور تعلیم دینے کے کام سے خوش ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ یسوع مسیح نے اپنے 70 شاگردوں کو بادشاہت کا پیغام سنانے کے لیے بھیجا۔ مُنادی کی مہم ختم کرنے کے بعد وہ سب شاگرد ”خوشی خوشی واپس آئے۔“ اُن کی خوشی کی وجہ کیا تھی؟ اُنہوں نے کہا: ”مالک، جب ہم نے آپ کا نام اِستعمال کِیا تو بُرے فرشتوں نے بھی ہمارا حکم مانا۔“ لیکن یسوع مسیح نے اُن کی سوچ کو درست کرتے ہوئے کہا: ”اِس بات سے خوش نہ ہوں کہ بُرے فرشتے آپ کا حکم مانتے ہیں بلکہ اِس بات سے خوش ہوں کہ آپ کے نام آسمان میں لکھے گئے ہیں۔“ (لُو 10:17-20) یسوع مسیح نے اُن سے یہ بات کیوں کہی؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اُن کے پیروکاروں کو مُنادی کرتے وقت ہمیشہ اِس طرح کے شاندار تجربے نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی ہم یہ نہیں جانتے کہ جن لوگوں نے شروع شروع میں شاگردوں کے پیغام کو قبول کِیا، اُن میں سے کتنے بعد میں اُن کے ہمایمان بنے۔ اِس لیے شاگردوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت تھی کہ اُنہیں صرف اِس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں نے اُن کے پیغام کو سنا ہے بلکہ اُن کی خوشی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہونی چاہیے کہ یہوواہ اُن کی محنت سے خوش ہے۔
9. گلتیوں 6:7-9 کے مطابق اگر ہم مُنادی کرنے میں ہمت نہیں ہاریں گے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟
9 اگر ہم ہمت ہارے بغیر مُنادی کرتے رہیں گے تو ہمیں ہمیشہ کی زندگی ملے گی۔ جب ہم پوری لگن سے بادشاہت کے بیج بوتے ہیں تو دراصل ہم ”پاک روح کے مطابق“ بھی بو رہے ہوتے ہیں۔ وہ کیسے؟ کیونکہ ایسا کرنے سے ہم خدا کی پاک روح کو اپنی زندگی پر اثر ڈالنے دیتے ہیں۔ یہوواہ نے ہمیں ضمانت دی ہے کہ جب تک ”ہم ہمت نہیں ہاریں گے،“ ہمارے پاس ہمیشہ کی زندگی کی فصل کاٹنے کی اُمید رہے گی پھر چاہے کوئی شخص ہماری لاکھ کوششوں کے بعد بھی بپتسمہ نہ لے۔—گلتیوں 6:7-9 کو پڑھیں۔
دوسروں کو گواہی دیتے وقت ہمیں کس بات کی توقع کرنی چاہیے؟
10. لوگ بائبل کے پیغام کے لیے فرق فرق ردِعمل کیوں دِکھاتے ہیں؟
10 یہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ سچائی کو قبول کریں گے یا نہیں۔ یہ بات یسوع مسیح کی ایک مثال سے پتہ چلتی ہے جس میں بیج بونے والا ایک شخص فرق فرق طرح کی زمین پر بیج بوتا ہے۔ مگر صرف ایک ہی زمین پھل لاتی ہے۔ (لُو 8:5-8) یسوع مسیح نے بتایا کہ فرق فرق طرح کی زمین لوگوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے جن کا دل ’خدا کے کلام‘ کے لیے فرق فرق ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ (لُو 8:11-15) جس طرح بیج بونے والا شخص بیج کو نہیں بڑھا سکتا ہے اُسی طرح ہم بھی ایک شخص کے دل میں سچائی کا بیج نہیں بڑھا سکتے۔ یہ ہر شخص کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ہماری ذمےداری بس بادشاہت کا بیج بونا ہے۔ پولُس رسول نے کہا تھا کہ ہر شخص کو ”اپنی محنت کے مطابق اجر ملے گا“ نہ کہ محنت سے نکلنے والے نتیجے کے مطابق۔—1-کُر 3:8۔
11. حالانکہ لوگوں نے نوح کے پیغام پر کان نہیں لگایا تو بھی یہوواہ نوح سے خوش کیوں تھا؟ (سرِورق کی تصویر کو دیکھیں۔)
11 شروع سے ہی ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب بھی خدا کے بندوں نے لوگوں کو اُس کا پیغام سنایا تو زیادہتر نے اُن کی بات نہیں سنی۔ مثال کے طور پر نوح نے تقریباً 40 یا 50 سال تک لوگوں میں ”نیکی کی مُنادی“ کی۔ (2-پطر 2:5) یقیناً وہ اِس بات کی اُمید رکھتے تھے کہ لوگ اُن کے پیغام کو قبول کر لیں گے۔ لیکن یہوواہ نے اِس کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی۔ دراصل جب یہوواہ نے نوح کو کشتی بنانے کے سلسلے میں ہدایتیں دیں تو اُس نے اُن سے کہا: ”تُو کشتی میں جانا۔ تُو اور تیرے ساتھ تیرے بیٹے اور تیری بیوی اور تیرے بیٹوں کی بیویاں۔“ (پید 6:18) اِس کے علاوہ یہوواہ خدا نے نوح کو کشتی کا جو سائز بتایا تھا، اُس سے بھی غالباً اُنہیں یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ بہت سے لوگ اُن کی بات نہیں سنیں گے۔ (پید 6:15) اور آگے جو ہوا، وہ تو ہم جانتے ہی ہیں۔ ایک بھی شخص نے نوح کی بات نہیں سنی۔ (پید 7:7) کیا یہوواہ نے یہ سوچا کہ نوح نے لوگوں میں اچھی طرح سے مُنادی نہیں کی؟ بالکل نہیں۔ وہ تو اُن سے بہت خوش تھا کیونکہ نوح نے وہ سب کچھ کِیا جو یہوواہ نے اُن سے کرنے کو کہا تھا۔—پید 6:22۔
12. حالانکہ لوگوں نے یرمیاہ کا پیغام نہیں سنا اور اُن کی مخالفت کی لیکن وہ کن باتوں کی وجہ سے خوش رہ پائے؟
12 اب ذرا یرمیاہ نبی کی مثال پر بھی غور کریں۔ اُنہوں نے بھی 40 سال سے زیادہ عرصے تک ایسے لوگوں میں مُنادی کی جنہوں نے اُن کی بات پر دھیان نہیں دیا اور اُن کی مخالفت کی۔ ایک وقت آیا کہ یرمیاہ لوگوں کی ”ملامت اور ہنسی“ کی وجہ سے اِتنے بےحوصلہ ہو گئے کہ وہ یہوواہ کا کام چھوڑنے کے بارے میں سوچنے لگے۔ (یرم 20:8، 9) لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کِیا۔ وہ اپنی سوچ کو صحیح رکھنے اور خوش رہنے کے قابل کیسے ہوئے؟ اُنہوں نے اپنا دھیان دو اہم باتوں پر رکھا۔ پہلے تو یہوواہ کے اُس پیغام پر جو وہ لوگوں کو دے رہے تھے اور جس کے ذریعے اِن لوگوں کو ”نیک انجام کی اُمید“ مل سکتی تھی۔ (یرم 29:11) دوسرا اِس بات پر کہ وہ ’یہوواہ کے نام سے کہلاتے ہیں۔‘ (یرم 15:16) یرمیاہ کی طرح ہم بھی لوگوں کو اُمید کا پیغام دیتے ہیں اور یہوواہ کے نام سے کہلاتے ہیں۔ جب ہم اپنا دھیان اِن دو اہم باتوں پر رکھتے ہیں تو ہم اُس وقت بھی اپنی خوش رہ پاتے ہیں جب لوگ ہمارے پیغام کو نہیں سنتے۔
13. یسوع مسیح نے مرقس 4:26-29 میں جو مثال دی، ہم اُس سے کیا سیکھتے ہیں؟
13 لوگوں کا ایمان بڑھنے میں وقت لگتا ہے۔ یسوع مسیح نے یہ بات ایک مثال کے ذریعے سمجھائی جس میں ایک آدمی بیج بوتا ہے اور ہر رات سوتا ہے اور ہر دن اُٹھتا ہے۔ (مرقس 4:26-29 کو پڑھیں۔) اِس دوران بیج آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں۔ وہ اِن بیجوں کو جلدی جلدی بڑھانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔ جس طرح بیج بونے والے آدمی کو اپنی محنت کے نتائج فوراً دِکھائی نہیں دیتے اُسی طرح ہو سکتا ہے کہ جس شخص کو آپ بائبل کورس کرا رہے ہیں، وہ فوراً پاک کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل نہ کرے۔ جس طرح یہ کسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا کہ فصل اُس کی خواہش کے مطابق فوراً بڑھ جائے اُسی طرح یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتا کہ ایک طالبِعلم کے دل میں ایمان ہماری خواہش کے مطابق فوراً بڑھ جائے۔ لہٰذا ہمت نے ہاریں۔ جس طرح فصل کے بڑھنے تک ایک کسان کو صبر سے کام لینا پڑتا ہے اُسی طرح دوسروں کے دل میں سچائی کا بیج بڑھنے تک ہمیں صبر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔—یعقو 5:7، 8۔
14. کس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ مُنادی کے اچھے نتیجے نکلنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے؟
14 کچھ علاقوں میں لوگوں کو بائبل کے پیغام کو قبول کرنے اور بپتسمہ لینے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں ذرا دو سگی بہنوں کی مثال پر غور کریں جن کے نام گلیڈیس ایلن اور روبی ایلن ہیں۔ اِن دونوں بہنوں کو 1959ء میں کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں پہلکاروں کے طور پر بھیجا گیا۔b وہاں لوگوں نے اِس لیے بادشاہت کا پیغام نہیں سنا کیونکہ اُنہیں اِس بات کا ڈر تھا کہ اگر وہ یہوواہ کے گواہوں سے بات کریں گے تو اُن کے پڑوسی اور پادری اُن کے بارے میں بُرا سوچیں گے اور اُن کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے۔ بہن گلیڈیس نے بتایا: ”ہم دو سالوں تک ہر دن آٹھ آٹھ گھنٹے گھر گھر مُنادی کرتی رہیں۔ لیکن کسی نے بھی اپنا دروازہ نہیں کھولا۔ لوگ بس یہ دیکھنے کے لیے دروازے تک آتے تھے کہ کون آیا ہے اور جب وہ ہمیں دیکھتے تھے تو واپس مُڑ جاتے تھے۔ لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری۔“ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کا رویہ بدلنے لگا اور اِن میں سے کچھ بائبل کا پیغام سننے لگے۔ اب اُس شہر میں گواہوں کی تین کلیسیائیں ہیں۔—یسع 60:22۔
15. ہم 1-کُرنتھیوں 3:6، 7 سے شاگرد بنانے کے کام کے حوالے سے کون سی بات سیکھتے ہیں؟
15 کسی کو مسیح کا شاگرد بنانے کے لیے بہت سے لوگوں کی محنت لگتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی شخص کو بپتسمے کے لائق بنانے میں پوری کلیسیا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ (1-کُرنتھیوں 3:6، 7 کو پڑھیں۔) مثال کے طور پر ایک بھائی بائبل کے پیغام میں دلچسپی دِکھانے والے شخص کو ہمارا کوئی پرچہ یا رسالہ دیتا ہے۔ بعد میں وہ بھائی دیکھتا ہے کہ اُس کے لیے اُس شخص سے اُس وقت ملنا ممکن نہیں ہے جب وہ شخص چاہتا ہے۔ لہٰذا وہ بھائی کسی اَور بھائی کو اُس سے واپسی ملاقات کرنے کو کہتا ہے۔ اور پھر وہ بھائی اُس شخص کو بائبل کورس کرانے لگتا ہے۔ یہ بھائی فرق فرق بہن بھائیوں کو اپنے ساتھ اُس شخص کو کورس کرانے کے لیے لے جاتا ہے۔ ہر بہن اور بھائی فرق فرق طریقے سے اُس شخص کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔ جو جو بہن بھائی اُس طالبِعلم سے ملتے ہیں، وہ سبھی اُس کے دل میں سچائی کے بیج کو پانی دیتے ہیں۔ پھر جب وہ طالبِعلم بپتسمہ لے لیتا ہے تو یسوع مسیح کی بات کے مطابق بیج ”بونے والا اور کاٹنے والا مل کر خوشی“ مناتے ہیں۔—یوح 4:35-38۔
16. اگر آپ صحت کے کسی مسئلے کی وجہ سے اب مُنادی اور تعلیم دینے کے کام میں پہلے جتنا حصہ نہیں لے سکتے تو آپ تب بھی خوش کیسے رہ سکتے ہیں؟
16 اگر آپ صحت کے کسی مسئلے کی وجہ سے اب مُنادی اور تعلیم دینے کے کام میں پہلے جتنا حصہ نہیں لے سکتے تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ آپ ابھی بھی اِس کام میں حصہ لینے کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ذرا بادشاہ داؤد کی زندگی کے اُس واقعے پر غور کریں جب اُنہوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے اپنے گھر والوں اور سازوسامان کو عمالیقیوں کے قبضے سے چھڑایا۔ داؤد کے 200 ساتھی اِتنے تھک گئے کہ اُن میں لڑنے کی طاقت نہیں رہی۔ اِس لیے داؤد نے اُن سے کہا کہ وہ پیچھے رُک کر اُن کے سامان کی دیکھبھال کریں۔ جب داؤد اور اُن کے ساتھی جنگ جیت کر واپس آئے تو اُن کے پاس دُشمنوں کا بہت سا قیمتی سامان تھا۔ داؤد نے حکم دیا کہ جو آدمی جنگ میں لڑے تھے اور جو آدمی سامان کی دیکھبھال کرنے کے لیے پیچھے رُکے تھے، وہ سب لُوٹا ہوا مال آپس میں برابر بانٹ لیں۔ (1-سمو 30:21-25) اِس واقعے سے ہم شاگرد بنانے کے کام کے حوالے سے ایک بات سیکھتے ہیں۔ سچ ہے کہ اب شاید آپ مُنادی اور تعلیم دینے کے کام میں اُتنا حصہ نہیں لے سکتے جتنا پہلے لیا کرتے تھے۔ لیکن اگر آپ اپنی صحت اور حالات کے مطابق اِس کام میں اپنی طرف سے پورا حصہ لیں گے تو آپ کو بھی اُس وقت بہت خوشی ملے گی جب کوئی شخص یہوواہ کے بارے میں سیکھے گا اور بپتسمہ لے گا۔
17. ہم کس بات کے لیے یہوواہ کے بڑے شکرگزار ہیں؟
17 ہم یہوواہ کے بڑے شکرگزار ہیں کہ ہم مُنادی اور تعلیم دینے کے کام میں جتنی بھی محنت کرتے ہیں، وہ اُس کی قدر کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ لوگ ہمارے پیغام کو سنیں گے یا نہیں۔ وہ اِس بات پر دھیان دیتا ہے کہ ہم اُس کی خدمت کرنے کے لیے کتنی محنت کر رہے ہیں اور اُس سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ وہ اِس کے لیے ہمیں اجر دیتا ہے۔ وہ ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہم فصل کی کٹائی کے لیے جو کچھ بھی کر رہے ہیں، ہم اُس سے خوشی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔ (یوح 14:12) لہٰذا ہم اِس بات کا پکا یقین رکھ سکتے ہیں کہ اگر ہم ہمت ہارے بغیر یہوواہ کی خدمت کرتے رہیں گے تو وہ ہم سے بہت خوش ہوگا۔
گیت نمبر 67: ”خدا کے کلام کی مُنادی کریں“
a جب لوگ خوشخبری کو قبول کرتے ہیں تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن جب وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کسی شخص کو بائبل کورس کرا رہے ہیں اور وہ روحانی لحاظ سے آگے نہیں بڑھ رہا تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ یا اگر آپ نے کبھی کسی ایسے شخص کو بائبل کورس نہیں کرایا جس نے بپتسمہ لے لیا تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا اِن باتوں کی وجہ سے آپ کو یہ سوچ لینا چاہیے کہ آپ شاگرد بنانے کے کام میں ناکام ہو گئے ہیں؟ اِس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ جب لوگ ہمارے پیغام میں دلچسپی نہیں لیتے تو ہم تب بھی شاگرد بنانے کے کام میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں اور خوش کیسے رہ سکتے ہیں۔
b مینارِنگہبانی، 1 ستمبر 2002ء میں بہن گلیڈیس ایلن کی آپبیتی ”مَیں کوئی تبدیلی نہیں چاہونگی!“ کو پڑھیں۔