نجات کیلئے علانیہ اقرار کریں
”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“—رومیوں ۱۰:۱۳۔
۱. پوری تاریخ کے دوران، کیا آگاہیاں دی گئی ہیں؟
تاریخ ’یہوواہ کے،‘ کئی ’دنوں‘ کا ذکر کرتی ہے۔ زمانۂنوح کا طوفان، سدوم اور عمورہ کی تباہی اور ۶۰۷ ق.س.ع. اور ۷۰ س.ع. میں یروشلیم کی بربادیاں، یہوواہ کے عظیم اور خوفناک دن تھے۔ وہ یہوواہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کیلئے انصاف کے دن تھے۔ (ملاکی ۴:۵؛ لوقا ۲۱:۲۲) اُن دنوں کے دوران، بہتیرے اپنی بدکرداری کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ لیکن بعض بچ گئے۔ بدکرداروں کیلئے آنے والی تباہی کی نشاندہی اور راستدلوں کو نجات حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے، یہوواہ نے آگاہیاں دیں۔
۲، ۳. (ا) پنتِکُست پر کس نبوّتی آگاہی کا حوالہ دیا گیا تھا؟ (ب) پنتِکُست ۳۳ س.ع. سے لیکر، یہوواہ کا نام لینے میں کس چیز کا تقاضا کِیا گیا تھا؟
۲ سن ۷۰ میں یروشلیم کی تباہی اسکی ایک نمایاں مثال ہے۔ کوئی ۹۰۰ سال قبل اس واقعہ کی پیشینگوئی کرتے ہوئے، یوایل نبی نے لکھا: ”مَیں زمینوآسمان میں عجائب ظاہر کرونگا یعنی خون اور آگ اور دُھوئیں کے ستون۔ اس سے پیشتر کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا خوفناک روزِعظیم آئے آفتاب تاریک اور مہتاب خون ہو جائیگا۔“ ایسے دہشتناک وقت سے کوئی کیسے بچ سکتا تھا؟ یوایل نے زیرِالہام تحریر کِیا: ”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا کیونکہ کوہِصیوؔن اور یرؔوشلیم میں جیسا خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] نے فرمایا ہے بچ نکلنے والے ہونگے اور باقی لوگوں میں وہ جنکو خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] بلاتا ہے۔“—یوایل ۲:۳۰-۳۲۔
۳ سن ۳۳ کے پنتِکُست پر، پطرس رسول نے یروشلیم میں یہودیوں اور نومُریدوں کی بِھیڑ سے خطاب کِیا اور یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اُسکے سامعین اپنے ہی زمانے میں اسکی تکمیل کی توقع کر سکتے ہیں یوایل کی اس پیشینگوئی کا حوالہ دیا: ”مَیں اُوپر آسمان پر عجیب کام اور نیچے زمین پر نشانیاں یعنی خون اور آگ اور دُھوئیں کا بادل دکھاؤنگا۔ سورج تاریک اور چاند خون ہو جائیگا۔ پیشتر اس سے کہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا عظیم اور جلیل دن آئے۔ اور یوں ہوگا کہ جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو]کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ (اعمال ۲:۱۶-۲۱) بِھیڑ جو پطرس کی باتیں سن رہی تھی اس میں شامل تمام لوگ موسوی شریعت کے ماتحت تھے اور اسلئے یہوواہ کے نام سے واقف تھے۔ پطرس نے وضاحت کی کہ اب سے یہوواہ کا نام لینے میں زیادہ کچھ شامل ہوگا۔ نمایاں طور پر، اس میں یسوع کے نام سے بپتسمہ لینا شامل تھا جسے قتل کر دیا گیا تھا اور پھر غیرفانی زندگی کیلئے زندہ کِیا گیا تھا۔—اعمال ۲:۳۷، ۳۸۔
۴. مسیحیوں نے دُوردراز تک کونسا پیغام سنایا؟
۴ پنتِکُست کے دن سے، مسیحیوں نے قیامتیافتہ یسوع کی بابت پیغام سنانا شروع کر دیا۔ (۱-کرنتھیوں ۱:۲۳) اُنہوں اس بات کا چرچا کِیا کہ انسان یہوواہ خدا کے روحانی فرزندوں کے طور پر لےپالک اور ’دُوردراز تک یہوواہ کی خوبیوں کو ظاہر‘ کرنے والی روحانی اُمت، ”خدا کے“ نئے ”اسرائیل“ کا حصہ بن سکتے تھے۔ (گلتیوں ۶:۱۶؛ ۱-پطرس ۲:۹) موت تک وفادار رہنے والے یسوع کے ساتھ اُس کی آسمانی بادشاہت میں ہممیراثوں کے طور پر غیرفانی آسمانی زندگی کی میراث پائینگے۔ (متی ۲۴:۱۳؛ رومیوں ۸:۱۵، ۱۶؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۰-۵۴) علاوہازیں، ان مسیحیوں کو یہوواہ کے عظیم اور خوفناک دن کے آنے کا بھی اعلان کرنا تھا۔ اُنہیں یہودی معاشرے کو آگاہ کرنا تھا کہ ایک ایسی مصیبت اُسکے تجربہ میں آئیگی جو اُس وقت تک یروشلیم اور خدا کی نامنہاد قوم پر آنے والی کسی بھی مصیبت کے مقابلے میں کہیں بڑی ہوگی۔ تاہم، کچھ بچنے والے بھی ہونگے۔ کون؟ وہ جو یہوواہ کا نام لیتے ہیں۔
”اخیر زمانہ میں“
۵. آجکل پیشینگوئی کی کونسی تکمیلیں واقع ہوئی ہیں؟
۵ کئی طریقوں سے، اُس وقت کی حالتوں نے آجکل کی حالتوں کا عکس پیش کِیا۔ نوعِانسان ۱۹۱۴ سے لیکر، ایک خاص دَور میں رہ رہے ہیں جسے بائبل میں ”آخری زمانہ،“ ”دُنیا کا آخر“ اور ”اخیر زمانہ“ کے طور پر بیان کِیا گیا ہے۔ (دانیایل ۱۲:۱، ۴؛ متی ۲۴:۳-۸؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱-۵، ۱۳) ہماری صدی میں، ہلاکتخیز جنگوں، بےلگام تشدد اور معاشرے اور ماحول کی تباہی سے بائبل پیشینگوئی کی غیرمعمولی تکمیل ہوتی ہے۔ یہ ساری باتیں اُس نشان کا حصہ ہیں جسکی یسوع نے یہ ظاہر کرتے ہوئے پیشینگوئی کی تھی کہ نوعِانسان کو حتمی، فیصلہکُن یہوواہ کے خوفناک دن کا تجربہ ہونے والا ہے۔ اسکی انتہا ہرمجِدّون کی جنگ ہوگی، ایک ”ایسی بڑی مصیبت“ کا نقطۂعروج جو ”دُنیا کے شروع سے نہ اب تک ہوئی نہ کبھی ہوگی۔“—متی ۲۴:۲۱؛ مکاشفہ ۱۶:۱۶۔
۶. (ا) یہوواہ حلیم لوگوں کو بچانے کیلئے کیسے سرگرمِعمل رہا ہے؟ (ب) بچنے کے سلسلے میں ہم پولس کی مشورت کہاں پاتے ہیں؟
۶ جُوںجُوں بربادی کا دن قریب آتا ہے، یہوواہ حلیم لوگوں کی نجات کیلئے سرگرمِعمل ہے۔ اس ”آخری زمانہ“ کے دوران، اُس نے خدا کے روحانی اسرائیل کے بقیے کو اکٹھا کر لیا ہے اور ۱۹۳۰ کے دہے سے لیکر اپنے زمینی خادموں کی طرف متوجہ ہوا ہے تاکہ ”ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت اور اہلِزبان کی ایک ایسی بڑی بِھیڑ جسے کوئی شمار نہیں کر سکتا“ جمع کر لے۔ ایک گروہ کے طور پر، یہ ”بڑی مصیبت میں سے“ زندہ ”نکل کر آئے ہیں۔“ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) لیکن ہر فردِواحد اپنے بچاؤ کو کیسے یقینی بنا سکتا ہے؟ پولس رسول اس سوال کا جواب دیتا ہے۔ رومیوں ۱۰ باب میں، وہ بچنے کیلئے عمدہ مشورت پیش کرتا ہے—ایسی مشورت جسکا اطلاق اُسکے زمانے میں بھی ہوا اور اب ہمارے زمانے میں بھی ہوتا ہے۔
نجات کیلئے دُعا
۷. (ا) رومیوں ۱۰:۱، ۲ میں کس اُمید کو ظاہر کِیا گیا ہے؟ (ب) یہوواہ اب زیادہ وسیع پیمانے پر ”خوشخبری“ کی منادی کیوں کرا سکتا ہے؟
۷ جب پولس نے رومیوں کی کتاب لکھی تو اس وقت تک یہوواہ اسرائیل کو ایک قوم کے طور پر پہلے ہی سے رد کر چکا تھا۔ پھربھی، رسول نے وثوق سے کہا: ”میرے دل کی آرزو اور اُنکے لئے خدا سے میری دُعا یہ ہے کہ وہ نجات پائیں۔“ اسے اُمید تھی کہ شاید انفرادی طور پر یہودی خدا کی مرضی کا صحیح علم حاصل کر لیں جو اُنکے بچائے جانے پر منتج ہوگا۔ (رومیوں ۱۰:۱، ۲) علاوہازیں، جیساکہ یوحنا ۳:۱۶ میں درج ہے، یہوواہ نوعِانسان کی دُنیا میں ایسے تمام لوگوں کیلئے نجات کا خواہاں ہوگا جو ایمان کا مظاہرہ کرتے ہیں: ”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخشدیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ یسوع کی فدیے کی قربانی نے ایسی عظیمالشان نجات کی راہ کھول دی۔ جیساکہ نوح کے زمانے اور اسکے بعد وقوعپذیر ہونے والے عدالتی دنوں کے دوران ہوا، یہوواہ نے راہِنجات کی نشاندہی کرتے ہوئے، ”خوشخبری“ کی منادی کرائی ہے۔—مرقس ۱۳:۱۰، ۱۹، ۲۰۔
۸. پولس کے نمونے کی پیروی میں، سچے مسیحی آجکل کن کیلئے خیرخواہی دکھاتے ہیں اور کیسے؟
۸ یہودی اور غیریہودی دونوں کیلئے اپنی خیرخواہی کے اظہار میں، پولس نے ہر موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے منادی کی۔ وہ ”یہودیوں اور یونانیوں کو قائل کرتا تھا۔“ اُس نے افسس کے بزرگوں کو بتایا: ”جو جو باتیں تمہارے فائدہ کی تھیں اُنکے بیان کرنے اور علانیہ اور گھرگھر سکھانے سے کبھی نہ جھجکا۔ بلکہ یہودیوں اور یونانیوں کے رُوبُرو گواہی دیتا رہا کہ خدا کے سامنے توبہ کرنا اور ہمارے خداوند یسوع مسیح پر ایمان لانا چاہئے۔“ (اعمال ۱۸:۴؛ ۲۰:۲۰، ۲۱) اسی طرح، آجکل یہوواہ کے گواہ نہ صرف اقبالی مسیحیوں کو بلکہ تمام لوگوں کو، حتیٰکہ ”زمین کی انتہا تک“ منادی کرنے کیلئے اپنا سب کچھ دے ڈالتے ہیں۔—اعمال ۱:۸؛ ۱۸:۵۔
”ایمان کے کلام“ کا اقرار کرنا
۹. (ا) رومیوں ۱۰:۸، ۹ کس قسم کے ایمان کیلئے حوصلہافزائی کرتی ہیں؟ (ب) ہمیں کب اور کیسے اپنے ایمان کا اقرار کرنا چاہئے؟
۹ نجات کیلئے پُختہ ایمان درکار ہے۔ استثنا ۳۰:۱۴ کا حوالہ دیتے ہوئے، پولس نے کہا: ”کلام تیرے نزدیک ہے بلکہ تیرے مُنہ اور تیرے دل میں ہے۔ یہ وہی ایمان کا کلام ہے جسکی ہم منادی کرتے ہیں۔“ (رومیوں ۱۰:۸) جب ہم اسی ”ایمان کے کلام“ کی منادی کرتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں میں اَور زیادہ نقش ہو جاتا ہے۔ پولس کیساتھ بالکل ایسا ہی تھا اور اُسکے اگلے الفاظ دوسروں کو اس ایمان میں شریک کرنے کے سلسلے میں اُسکی مانند بننے کے ہمارے عزم کو مضبوط کر سکتے ہیں: ”اگر تُو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اُسے مُردوں میں سے جلایا تو نجات پائیگا۔“ (رومیوں ۱۰:۹) دوسروں کے سامنے یہ اقرار محض بپتسمے کے وقت ہی نہیں کِیا جانا چاہئے بلکہ اسے ایک مستقل اقرار، سچائی کے تمام شاندار پہلوؤں کی بابت پُرجوش عوامی شہادت ہونا چاہئے۔ ایسی سچائی کُل کائنات کے حاکمِاعلیٰ یہوواہ کے گراںبہا نام؛ ہمارے مسیحائی بادشاہ اور فدیہ دینے والے، خداوند یسوع مسیح؛ اور شاندار بادشاہتی وعدوں پر مُرتکز ہے۔
۱۰. رومیوں ۱۰:۱۰، ۱۱ کے مطابق، ہمیں اس ”ایمان کے کلام“ کو کیسے استعمال کرنا چاہئے؟
۱۰ جو اس ”ایمان کے کلام“ کو قبول نہیں کرتا اور اسکا اطلاق نہیں کرتا اُس کیلئے نجات نہیں ہے کیونکہ رسول مزید بیان کرتا ہے: ”راستبازی کے لئے ایمان لانا دل سے ہوتا ہے اور نجات کے لئے اقرار مُنہ سے کِیا جاتا ہے۔ چنانچہ کتابِمُقدس یہ کہتی ہے کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائیگا وہ شرمندہ نہ ہوگا۔“ (رومیوں ۱۰:۱۰، ۱۱) ہمیں اس ”ایمان کے کلام“ کا صحیح علم حاصل کرنا اور اسے اپنے دلوں میں بڑھاتے رہنا چاہئے تاکہ ہم اسے دوسروں کو بتانے کی تحریک پائیں۔ یسوع خود ہمیں یاددہانی کراتا ہے: ”کیونکہ جو کوئی اُس زناکار اور خطاکار قوم میں مجھ سے اور میری باتوں سے شرمائیگا ابنِآدم بھی جب اپنے باپ کے جلال میں پاک فرشتوں کے ساتھ آئیگا تو اُس سے شرمائیگا۔“—مرقس ۸:۳۸۔
۱۱. خوشخبری کی منادی کسقدر وسیع پیمانے پر کی جانی چاہئے اور کیوں؟
۱۱ بادشاہتی گواہی کے زمین کی انتہا تک پھیلنے کیساتھ ساتھ، دانیایل نبی کی پیشینگوئی کے مطابق، اس آخری زمانہ میں ”اہلِدانش نُورِفلک کی مانند“ چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اُنکے باعث ”بہتیرے صادق ہو گئے“ ہیں اور حقیقی علم بھی بِلاشُبہ باافراط ہے کیونکہ یہوواہ اس آخری زمانہ سے متعلق پیشینگوئیوں پر پہلے سے کہیں زیادہ روشنی ڈال رہا ہے۔ (دانیایل ۱۲:۳، ۴) اس میں نجات کا پیغام پایا جاتا ہے جو سچائی اور راستبازی سے محبت رکھنے والے تمام لوگوں کے بچاؤ کیلئے نہایت اہم ہے۔
۱۲. مکاشفہ ۱۴:۶ میں بیانکردہ فرشتے کی تفویض کے ساتھ رومیوں ۱۰:۱۲ کا کیا تعلق ہے؟
۱۲ پولس رسول بیان جاری رکھتا ہے: ”یہودیوں اور یونانیوں میں کچھ فرق نہیں اسلئےکہ وہی سب کا خداوند ہے اور اپنے سب دُعا کرنے والوں کے لئے فیاض ہے۔“ (رومیوں ۱۰:۱۲) آج پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر—تمام لوگوں میں، زمین کی انتہا تک ”خوشخبری“ کی منادی کی جانی چاہئے۔ مکاشفہ ۱۴:۶ کا فرشتہ ”زمین کے رہنے والوں کی ہر قوم اور قبیلہ اور اہلِزبان اور اُمت کے سنانے کے لئے ابدی خوشخبری“ ہمارے سپرد کرتے ہوئے آسمان کے بیچ محوپرواز ہے۔ اثرپذیر ہونے والے لوگوں کو یہ کیسے فائدہ پہنچائیگا؟
یہوواہ کا نام لینا
۱۳. (ا) ہماری ۱۹۹۸ کی سالانہ آیت کیا ہے؟ (ب) یہ سالانہ آیت آجکل اتنی موزوں کیوں ہے؟
۱۳ یوایل ۲:۳۲ کا حوالہ دیتے ہوئے، پولس بیان کرتا ہے: ”جو کوئی خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔“ (رومیوں ۱۰:۱۳) یہ کسقدر موزوں ہے کہ یہ الفاظ ۱۹۹۸ کیلئے یہوواہ کے گواہوں کی سالانہ آیت کیلئے منتخب کئے گئے ہیں! اُسکے نام اور جن شاندار مقاصد کی یہ علامت ہے اُنکا چرچا کرتے ہوئے، یہوواہ پر توکل کیساتھ آگے بڑھنا کبھی بھی اسقدر اہمیت کا حامل نہیں رہا ہے! پہلی صدی کی طرح، موجودہ بدکار نظامالعمل کے آخری ایّام میں بھی یہ زوردار پکار سنائی دیتی ہے: ”اپنے آپ کو اس ٹیڑھی قوم سے بچاؤ۔“ (اعمال ۲:۴۰) یہ پوری دُنیا کے تمام خداترس لوگوں کو اس بات کیلئے تُرئی پر دی جانے والی دعوت کی مانند ہے کہ وہ یہوواہ کو پکاریں تاکہ وہ اُنہیں اور اُنکے خوشخبری کے برملا اعلان کو سننے والے لوگوں کو نجات بخشے۔—۱-تیمتھیس ۴:۱۶۔
۱۴. ہمیں نجات کیلئے کس چٹان پر آس لگانی چاہئے؟
۱۴ اس زمین پر یہوواہ کے روزِعظیم کے آغاز کے وقت کیا ہوگا؟ بہتیرے نجات کیلئے یہوواہ پر آس نہیں لگائینگے۔ نوعِانسان عمومی طور پر ”پہاڑوں اور چٹانوں سے کہنے“ لگیں گے کہ ”ہم پر گِر پڑو اور ہمیں اُسکی نظر سے جو تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور برّہ کے غضب سے چھپا لو۔“ (مکاشفہ ۶:۱۵، ۱۶) اُن کی اُمید اس نظامالعمل کی پہاڑنما تنظیموں اور اداروں پر ہوگی۔ البتہ اگر وہ سب سے بڑی چٹان، یہوواہ خدا پر بھروسہ رکھیں تو کتنا اچھا ہوگا! (استثنا ۳۲:۳، ۴) اُسکی بابت بادشاہ داؤد نے کہا: ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] میری چٹان اور میرا قلعہ اور میرا چھڑانے والا ہے۔“ یہوواہ ہماری ”نجات کی چٹان“ ہے۔ (زبور ۱۸:۲؛ ۹۵:۱) اُس کا نام ”محکم بُرج“ ہے، واحد ”بُرج“ جو آنے والے بحران میں ہماری حفاظت کرنے کیلئے کافی مضبوط ہے۔ (امثال ۱۸:۱۰) لہٰذا، یہ نہایت اہم ہے کہ آج جو تقریباً چھ بلین انسان زندہ ہیں ان میں سے ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ کو یہ سکھایا جائے کہ وہ وفاداری اور خلوصدلی سے یہوواہ کا نام لیں۔
۱۵. ایمان کے حوالے سے رومیوں ۱۰:۱۴ کیا ظاہر کرتی ہے؟
۱۵ موزوں طور پر، پولس رسول آگے سوال پوچھتا ہے: ”مگر جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیونکر دُعا کریں؟“ (رومیوں ۱۰:۱۴) نجات کے لئے یہوواہ کو پکارنے کی غرض سے، ابھی بیشمار ایسے لوگ موجود ہیں جن کی ”ایمان کے کلام“ کو اپنانے میں مدد کی جا سکتی ہے۔ ایمان نہایت اہم ہے۔ پولس ایک دوسرے خط میں بیان کرتا ہے: ”بغیر ایمان کے [خدا] کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اس لئے کہ خدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۶) تاہم، لاکھوں لوگ خدا پر ایمان کیسے لائیں گے؟ رومیوں کے نام خط میں پولس استفسار کرتا ہے: ”جس کا ذکر اُنہوں نے سنا نہیں اُس پر ایمان کیونکر لائیں؟“ (رومیوں ۱۰:۱۴) کیا یہوواہ اُن کے لئے سننے کا ذریعہ فراہم کرتا ہے؟ یقیناً وہ کرتا ہے! پولس کے اگلے الفاظ پر غور کریں: ”بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟“
۱۶. الہٰی انتظام میں مناد کیوں ضروری ہیں؟
۱۶ پولس کے استدلال سے یہ بات واضح ہے کہ منادوں کی ضرورت ہے۔ یسوع نے ظاہر کِیا کہ ”دُنیا کے آخر تک“ ایسا ہی ہوگا۔ (متی ۲۴:۱۴؛ ۲۸:۱۸-۲۰) منادی بچ نکلنے کی خاطر یہوواہ کا نام لینے کے لئے لوگوں کی مدد کرنے کے الہٰی انتظام کا جُزوِلازم ہے۔ مسیحی دُنیا میں تو اکثریت خدا کے گراںبہا نام کے جلال کیلئے کچھ نہیں کرتی۔ افسوس کی بات ہے کہ بہتیروں نے یہوواہ کو ناقابلِوضاحت عقیدۂتثلیث میں دیگر دو اقانیم کیساتھ خلطملط کر دیا ہے۔ نیز، بہتیروں کا شمار زبور ۱۴:۱ اور ۵۳:۱ میں بیانکردہ لوگوں میں ہوتا ہے: ”احمق نے اپنے دل میں کہا ہے کہ کوئی خدا [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] نہیں۔“ اُنہیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہوواہ زندہ خدا ہے اور اگر اُنہیں آنے والی بڑی مصیبت سے بچنا ہے تو اُنہیں اُس کے نام کے مکمل مفہوم کو بھی سمجھنا چاہئے۔
منادوں کے ’خوشنما قدم‘
۱۷. (ا) پولس کیلئے بحالی کی پیشینگوئی کا حوالہ دینا کیوں موزوں ہے؟ (ب) ’خوشنما قدم‘ رکھنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
۱۷ پولس رسول کے پاس ایک اَور اہم سوال ہے: ”جب تک وہ بھیجے نہ جائیں منادی کیونکر کریں؟ چنانچہ لکھا ہے کہ کیا ہی خوشنما ہیں اُن کے قدم جو اچھی چیزوں کی خوشخبری دیتے ہیں۔“ (رومیوں ۱۰:۱۵) پولس یہاں یسعیاہ ۵۲:۷ کا حوالہ دیتا ہے جو بحالی کی پیشینگوئی کا حصہ ہے جسکا اطلاق ۱۹۱۹ سے ہوا ہے۔ آجکل، یہوواہ ایک مرتبہ پھر اُسے بھیجتا ہے جو ”خوشخبری لاتا ہے اور سلامتی کی منادی کرتا ہے اور خیریت کی خبر اور نجات کا اشتہار دیتا ہے۔“ فرمانبرداری سے، خدا کا ممسوح ”نگہبان“ اور اُن کے ساتھی خوشی سے للکار رہے ہیں۔ (یسعیاہ ۵۲:۷، ۸) آجکل نجات کا اشتہار دینے والوں کے پاؤں ایک گھر سے دوسرے گھر تک جاتے ہوئے شاید تھک جائیں اور گردآلود بھی ہو جائیں مگر اُن کے چہرے خوشی سے کسقدر دمکتے ہیں! وہ جانتے ہیں کہ اُنہیں یہوواہ کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ امن کی خوشخبری سنائیں اور نجات کے پیشِنظر یہوواہ کا نام لینے میں غمزدہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اُنہیں تسلی دیں۔
۱۸. خوشخبری سنانے کے حتمی نتیجے کی بابت رومیوں ۱۰:۱۶-۱۸ کیا کہتی ہیں؟
۱۸ خواہ لوگ ”پیغام کا . . . یقین“ کریں یا اسکی نافرمانی کرنے کا انتخاب کریں، پولس کے الفاظ سچ ثابت ہوتے ہیں: ”کیا اُنہوں نے نہیں سنا؟ چنانچہ لکھا ہے کہ اُنکی آواز تمام رُویِزمین پر اور اُنکی باتیں دُنیا کی انتہا تک پہنچیں۔“ (رومیوں ۱۰:۱۶-۱۸) جیسے ”آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے،“ جیساکہ اُسکے تخلیقی کاموں سے عیاں ہے، ویسے ہی زمین پر اُسکے گواہوں کو ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے سالِمقبول کا اور اپنے خدا کے انتقام کے روز کا اشتہار . . . اور سب غمگینوں کو دلاسا“ دینا چاہئے۔—زبور ۱۹:۱-۴؛ یسعیاہ ۶۱:۲۔
۱۹. آجکل جو لوگ ’یہوواہ کا نام لیتے ہیں‘ اُنکا انجام کیا ہوگا؟
۱۹ یہوواہ کا عظیم اور خوفناک دن پہلے سے زیادہ قریب آتا جا رہا ہے۔ ”اُس روز پر افسوس! کیونکہ خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کا روز نزدیک ہے۔ وہ قادرِمطلق کی طرف سے بڑی ہلاکت کی مانند آئیگا۔“ (یوایل ۱:۱۵؛ ۲:۳۱) ہماری دُعا ہے کہ مزید لاکھوں لوگ یہوواہ کی تنظیم کی طرف آتے ہوئے، فوری تعمیل کے احساس کے ساتھ خوشخبری سے اثرپذیر ہوں۔ (یسعیاہ ۶۰:۸؛ حبقوق ۲:۳) یاد کریں کہ یہوواہ کے دیگر دن—نوح کے زمانے میں، لوط کے زمانے میں اور برگشتہ اسرائیل اور یہوداہ کے زمانوں میں بدکرداروں کے لئے بربادی لائے تھے۔ اب ہم سب سے بڑی مصیبت کی دہلیز پر کھڑے ہیں جب یہوواہ کی آندھی ابدی اَمن کے فردوس کی راہ صاف کرتے ہوئے، بدکرداری کو اس صفحۂہستی سے اُڑا لے جائے گی۔ کیا آپ وفاداری سے ”یہوواہ کا نام“ لینے والے ہونگے؟ اگر ایسا ہے تو شادماں ہوں! آپ کے ساتھ یہ خدا کا اپنا وعدہ ہے کہ آپ بچینگے۔—رومیوں ۱۰:۱۳۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻سن ۳۳ کے پنتِکُست کے بعد سے کن نئی چیزوں کی منادی کی گئی تھی؟
◻مسیحیوں کو ”ایمان کے ’کلام‘“ پر کیسے دھیان دینا چاہئے؟
◻’یہوواہ کا نام لینے‘ کا کیا مطلب ہے؟
◻کس مفہوم میں بادشاہتی پیامبروں کے ’پاؤں خوشنما‘ ہوتے ہیں؟
]صفحہ ۵۱ پر تصویری عبارت[
خدا کے لوگ پورٹو ریکو، سینیگال، پیرو، پاپوآ نیو گنی—جیہاں، پوری دُنیا میں اُسکی خوبیوں کو ظاہر کر رہے ہیں