”تُم بھی اپنے سارے چالچلن میں پاک بنو“
”جس طرح تمہارا بلانے والا پاک ہے اُسی طرح تم بھی اپنے سارے چالچلن میں پاک بنو۔ کیونکہ لکھا ہے کہ پاک ہو اسلئے کہ مَیں پاک ہوں۔“—۱-پطرس ۱:۱۵، ۱۶۔
۱. پطرؔس نے مسیحیوں کی پاک بننے کیلئے کیوں حوصلہافزائی کی تھی؟
پطرؔس رسول نے مندرجہبالا مشورت کیوں دی تھی؟ اسلئے کہ اُس نے ہر مسیحی کیلئے اپنے خیالات اور افعال کو یہوؔواہ کی پاکیزگی کی مطابقت میں رکھنے کیلئے اُنکی حفاظت کرنے کی ضرورت کو پہچان لیا تھا۔ لہٰذا، اُس نے مندرجہبالا الفاظ سے پہلے یہ کہا: ”اپنی عقل کی کمر باندھ کر اور ہوشیار ہوکر . . . فرمانبردار فرزند ہوکر اپنی جہالت کے زمانہ کی پُرانی خواہشوں کے تابع نہ بنو۔“—۱-پطرس ۱:۱۳، ۱۴۔
۲. ہمارے سچائی سیکھنے سے پیشتر ہماری خواہشات ناپاک کیوں تھیں؟
۲ ہماری پُرانی خواہشات ناپاک تھیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ مسیحی سچائی کو ہمارے قبول کرنے سے پہلے ہم میں سے بہتیرے دُنیاوی طرزِعمل کی پیروی کرتے تھے۔ پطرؔس اس بات سے واقف تھا جب اُس نے صاف الفاظ میں لکھا: ”اس واسطے کہ غیرقوموں کی مرضی کے موافق کام کرنے اور شہوتپرستی۔ بُری خواہشوں۔ مےخواری۔ ناچرنگ۔ نشہبازی اور مکروہ بُتپرستی میں جس قدر ہم نے پہلے وقت گذارا وہی بہت ہے۔“ بلاشُبہ، پطرؔس نے ہمارے جدید زمانے کے لئے مخصوص ناپاک کاموں کی فہرست نہیں بتائی کیونکہ وہ اُسوقت غیرمعروف تھے۔—۱-پطرس ۴:۳، ۴۔
۳، ۴. (ا) ہم غلط خواہشات کا دفعیہ کیسے کر سکتے ہیں؟ (ب) کیا مسیحیوں کو جذبات سے عاری ہونا ہے؟ وضاحت کریں۔
۳ کیا آپ نے غور کِیا کہ یہ وہ خواہشات ہیں جو جسم، حواس، اور جذبات کو دلکش معلوم ہوتی ہیں؟ جب ہم اِنہیں غلبہ پانے کا موقع دیتے ہیں تو پھر ہمارے خیالات اور افعال بآسانی ناپاک ہو جاتے ہیں۔ یہ بات قوتِاستدلال کو ہمارے افعال کی نگرانی کرنے کی ضرورت کو واضح کرتی ہے۔ پولسؔ نے اسے اس طرح سے بیان کِیا: ”پس اَے بھائیو۔ مَیں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔“—رومیوں ۱۲:۱، ۲۔
۴ خدا کے حضور پاک قربانی پیش کرنے کیلئے، ہمیں جذبات کو نہیں بلکہ قوتِاستدلال کو غالب آنے دینا چاہئے۔ کتنے زیادہ لوگ بداخلاقی کے مُرتکب ہوئے ہیں کیونکہ اُنہوں نے اپنے احساسات کو اپنے چالچلن پر غلبہ پانے کی اجازت دے دی ہے! اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے جذبات کو دبا دیا جانا چاہئے؛ ورنہ، ہم یہوؔواہ کی خدمت میں خوشی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟ تاہم، اگر ہم جسم کے کاموں کی بجائے روح کے پھل پیدا کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے ذہنوں کو مسیح کے طرزِفکر کے مطابق ڈھالنا چاہئے۔—گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳؛ فلپیوں ۲:۵۔
پاک زندگی، پاک قیمت
۵. پطرؔس پاکیزگی کی ضرورت کی بابت فکرمند کیوں تھا؟
۵ پولسؔ مسیحی پاکیزگی کی ضرورت کیلئے اسقدر فکرمند کیوں تھا؟ اسلئے کہ وہ اُس پاک قیمت سے بخوبی واقف تھا جو فرمانبردار نوعِانسان کو چھڑانے کیلئے ادا کی گئی تھی۔ اُس نے لکھا: ”تم جانتے ہو کہ تمہارا نکما چالچلن جو باپ دادا سے چلا آتا تھا اُس سے تمہاری خلاصی فانی چیزوں یعنی سونے چاندی کے ذریعہ سے نہیں ہوئی۔ بلکہ ایک بےعیب اور بےداغ برّے یعنی مسیح کے بیشقیمت خون سے۔“ (۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹) جیہاں، پاکیزگی کے ماخذ، یہوؔواہ خدا، نے اپنے اکلوتے بیٹے، ”قدوس،“ کو زمین پر فدیہ دینے کیلئے بھیجا تھا جو لوگوں کو خدا کیساتھ ایک اچھا رشتہ رکھنے کا موقع دیگا۔—یوحنا ۳:۱۶؛ ۶:۶۹؛ خروج ۲۸:۳۶؛ متی ۲۰:۲۸۔
۶. (ا) ہمارے لئے پاک چالچلن کی جستجو کرنا آسان کیوں نہیں ہے؟ (ب) اپنے چالچلن کو پاک رکھنے کیلئے کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
۶ تاہم، ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ شیطان کی بگڑی ہوئی دُنیا کے اندر رہتے ہوئے پاک زندگی بسر کرنا آسان نہیں ہے۔ وہ سچے مسیحیوں کیلئے پھندے لگاتا ہے جو اُس کے نظامالعمل میں سے بچ نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (افسیوں ۶:۱۲؛ ۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰) دُنیاوی کام کے، خاندانی مخالفت کے، سکول میں تمسخر اُڑائے جانے کے دباؤ اور ہمسروں کا دباؤ ایک شخص کے لئے پاکیزگی کا دامن تھامے رہنے کے لئے مضبوط روحانیت کو لازمی بنا دیتا ہے۔ یہ ہمارے ذاتی مطالعے اور مسیحی اجلاسوں پر ہماری باقاعدہ حاضری کے نہایت اہم کردار پر زور دیتا ہے۔ پولسؔ نے تیمتھیسؔ کو نصیحت کی: ”جو صحیح باتیں تُو نے مجھ سے سنیں اُس ایمان اور محبت کے ساتھ جو مسیح یسوؔع میں ہے اُنکا خاکہ یاد رکھ۔“ (۲-تیمتھیس ۱:۱۳) ہم ان صحتبخش باتوں کو اپنے کنگڈم ہال میں سنتے ہیں اور بائبل کے اپنے ذاتی مطالعے میں پڑھتے ہیں۔ وہ بہتیرے مختلف پسِمنظروں میں روزمرّہ بنیاد پر اپنے چالچلن میں پاک بننے کے لئے ہماری مدد کر سکتی ہیں۔
خاندان میں پاک چالچلن
۷. پاکیزگی کو ہماری خاندانی زندگی پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟
۷ جب پطرؔس نے احبار ۱۱:۴۴ کا حوالہ دیا تو اُس نے یونانی لفظ آئیوس استعمال کِیا جس کا مطلب ”گناہ سے علیٰحدہ کِیا ہوا اور اسلئے خدا کیلئے وقف، مُقدس“ ہے۔ (این ایکسپوزٹری ڈکشنری آف نیو ٹسٹامنٹ ورڈز، از ڈبلیو. ای. وائن) اسے ہماری مسیحی خاندانی زندگی پر کیسے اثرانداز ہونا چاہئے؟ اسکا یقیناً یہ مطلب ہونا چاہئے کہ ہماری خاندانی زندگی کو محبت پر مبنی ہونا چاہئے، کیونکہ ”خدا محبت ہے۔“ (۱-یوحنا ۴:۸) خودایثارانہ محبت ایسا تیل ہے جو شرکاءحیات کے درمیان اور والدین اور بچوں کے درمیان رشتوں کو رواںدواں رکھتا ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۸؛ افسیوں ۵:۲۸، ۲۹، ۳۳؛ ۶:۴؛ کلسیوں ۳:۱۸، ۲۱۔
۸، ۹. (ا) بعضاوقات مسیحی گھرانے میں کونسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے؟ (ب) اس سلسلے میں بائبل کونسی پُختہ مشورت پیش کرتی ہے؟
۸ شاید ہم سوچیں کہ ایسی محبت ظاہر کرنا مسیحی خاندان میں ایک خودکار عمل ہوگا۔ تاہم، یہ ماننا پڑیگا کہ بعض مسیحی گھرانوں میں محبت ہمیشہ اس حد تک اثر نہیں کرتی جس حد تک کہ اسے کرنا چاہئے۔ کنگڈم ہال میں شاید یہ ایسا کرتی ہوئی دکھائی دے لیکن گھریلو ماحول میں ہماری پاکیزگی بآسانی ختم ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم اچانک بھول سکتے ہیں کہ بیوی پھربھی ہماری روحانی بہن ہے یا یہ کہ شوہر پھربھی ہمارا وہی بھائی ہے (اور شاید ایک خدمتگزار خادم یا ایک بزرگ) جسکی کنگڈم ہال میں عزت کی جاتی تھی۔ جذبات بھڑک اُٹھتے ہیں اور بحثوتکرار شروع ہو سکتی ہے۔ ایک دوہرا معیار بھی چپکے سے ہماری زندگیوں میں شامل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ مسیح جیسا شوہر اور بیوی کا رشتہ نہیں رہتا بلکہ محض فساد میں الجھے ہوئے عورت اور مرد کا رشتہ رہ جاتا ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ گھر میں ایک پاک ماحول ہونا چاہئے۔ شاید وہ دُنیاوی لوگوں کی مانند بولنے لگتے ہیں۔ پھر کتنی آسانی سے ایک بیہودہ، طنزآمیز بیان مُنہ سے نکل سکتا ہے!—امثال ۱۲:۱۸؛ مقابلہ کریں اعمال ۱۵:۳۷-۳۹۔
۹ تاہم، پولسؔ نصیحت کرتا ہے: ”کوئی گندی بات [یونانی، لوگوس سپاروس، ”آلودہ کرنے والی گفتگو،“ یعنی ناپاک] تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو تاکہ اُس سے سننے والوں پر فضل ہو۔“ اور یہ بچوں سمیت، گھر میں تمام سامعین کی طرف اشارہ کرتا ہے۔—افسیوں ۴:۲۹؛ یعقوب ۳:۸-۱۰۔
۱۰. پاکیزگی کی بابت مشورت کا اطلاق بچوں پر کیسے ہوتا ہے؟
۱۰ اب پاکیزگی کے سلسلے میں اس راہنمائی کا اطلاق مسیحی خاندان میں بچوں پر بھی یکساں طور پر ہوتا ہے۔ اُن کیلئے سکول سے گھر واپس لوٹ کر اپنے دُنیاوی ہمسروں کی باغیانہ اور غیرمہذب گفتگو کی نقل کرنا کسقدر آسان ہے! بچو! اُن بےادب لڑکوں کے ظاہرکردہ رویوں کی طرف مائل نہ ہوں جنہوں نے یہوؔواہ کے نبی کی توہین کی اور جو آجکل اپنے بدزبان، گستاخانہ مماثل رکھتے ہیں۔ (۲-سلاطین ۲:۲۳، ۲۴) آپ کی گفتگو کو مہذب الفاظ استعمال کرنے میں نہایت سُست یا بےحس لوگوں کی نازیبا بازاری زبان سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے۔ مسیحیوں کے طور پر، ہماری باتچیت پاک، خوشگوار، تقویتبخش، رحمدلانہ، اور ”نمکین“ ہونی چاہئے۔ اسے ہمیں دوسرے لوگوں سے بالکل فرق ہونے والوں کے طور پر نمایاں کرنا چاہئے۔—کلسیوں ۳:۸-۱۰؛ ۴:۶۔
پاکیزگی اور ہمارے بےایمان خاندانی افراد
۱۱. پاک ہونے سے مُراد نیکوکار ہونا کیوں نہیں ہے؟
۱۱ اگرچہ ہم اصولی طور پر پاکیزگی کو عمل میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، توبھی ہمیں بالخصوص بےایمان خاندانی افراد کیساتھ اپنے برتاؤ میں افضل اور نیکوکار ہونے کا دکھاوا نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے رحمدلانہ مسیحی چالچلن کو کمازکم اُنکی یہ دیکھنے میں مدد کرنی چاہئے کہ ہم مثبت انداز میں فرق ہیں، یہ کہ یسوؔع کی تمثیل کے نیک سامری کی طرح ہم بھی ویسے ہی محبت اور رحم دکھانا جانتے ہیں۔—لوقا ۱۰:۳۰-۳۷۔
۱۲. مسیحی شرکاءحیات سچائی کو اپنے بیاہتا ساتھیوں کیلئے دلکش کیسے بنا سکتے ہیں؟
۱۲ پطرؔس نے ہمارے بےایمان خاندانی افراد کیلئے ایک موزوں رویے کی اہمیت پر زور دیا جب اُس نے مسیحی بیویوں کو لکھا: ”اَے بیویو! تم بھی اپنے اپنے شوہر کے تابع رہو۔ اسلئے کہ اگر بعض اُن میں سے کلام کو نہ مانتے ہوں تو بھی تمہارے پاکیزہ چالچلن اور خوف کو دیکھ کر بغیر کلام کے اپنی اپنی بیوی کے چالچلن سے خدا کی طرف کھنچ جائیں۔“ ایک مسیحی بیوی (یا اسی لحاظ سے شوہر بھی) ایک بےایمان بیاہتا ساتھی کیلئے سچائی کو زیادہ دلکش بنا سکتی ہے اگر اُس کا چالچلن پاکیزہ، بامروّت، اور مہذب ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ تھیوکریٹک جدوَل میں لچک ہونی چاہئے تاکہ بےایمان شریکِحیات کو مسترد یا نظرانداز نہ کِیا جائے۔a—۱-پطرس ۳:۱، ۲۔
۱۳. بعضاوقات بزرگ اور خدمتگزار خادم سچائی کو سمجھنے کیلئے بےایمان شوہروں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۳ بزرگ اور خدمتگزار خادم بعضاوقات ملنسار ہوتے ہوئے بےایمان شوہر سے سماجی میلجول پیدا کرنے سے مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح سے وہ سمجھ سکے گا کہ گواہ بائبل کے علاوہ دیگر موضوعات سمیت کئی قسم کی دلچسپیاں رکھنے والے نارمل اور مہذب لوگ ہیں۔ ایک معاملے میں، ایک بزرگ نے شوہر کے ماہیگیری کے مشغلے میں دلچسپی کا اظہار کِیا۔ باتچیت شروع کرنے کیلئے یہ کافی تھا۔ بالآخر وہ شوہر بپتسمہیافتہ بھائی بن گیا۔ ایک دوسرے معاملے میں، ایک بےایمان شوہر زرد رنگ کی فاختاؤں میں بڑی دلچسپی رکھتا تھا۔ بزرگوں نے بھی ہمت نہ ہاری۔ اُن میں سے ایک نے اس موضوع پر تحقیق کی تاکہ اگلی مرتبہ جب وہ اُس شخص سے ملے تو وہ اُس شوہر کے پسندیدہ موضوع پر گفتگو کا آغاز کر سکے! اسلئے، پاک ہونے کا مطلب بےلوچ ہونا یا تنگنظر ہونا نہیں ہے۔—۱-کرنتھیوں ۹:۲۰-۲۳۔
ہم کلیسیا میں کیسے پاک رہ سکتے ہیں؟
۱۴. (ا) کلیسیا کو نقصان پہنچانے کیلئے شیطان کے طریقوں میں سے ایک کیا ہے؟ (ب) ہم شیطان کے پھندے کی مزاحمت کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۴ شیطان ابلیس تہمتی ہے، کیونکہ ابلیس کیلئے یونانی نام، ڈیابولوس، کا مطلب ”الزام لگانے والا“ یا ”تہمت لگانے والا“ ہے۔ تہمت اُسکی امتیازی خصوصیات میں سے ایک ہے، اور وہ اسے کلیسیا میں استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اُسکا پسندیدہ طریقہ فضولگوئی ہے۔ کیا ہم اس ناپاک چالچلن میں خود کو اُسکے فریب کا شکار ہونے کا موقع دیتے ہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اسے شروع کرنے، اسے دوہرانے، یا اسے سننے سے۔ پُرحکمت مثل بیان کرتی ہے: ”کجرو آدمی فتنہانگیز ہے اور غیبت کرنے والا دوستوں میں جُدائی ڈالتا ہے۔“ (امثال ۱۶:۲۸) فضولگوئی اور تہمت کا تریاق کیا ہے؟ ہمیں یقین کر لینا چاہئے کہ ہماری گفتگو ہمیشہ حوصلہافزا اور محبت پر مبنی ہے۔ اگر ہم اپنے بھائیوں کی مبیّنہ بُرائیوں کی بجائے اچھائیوں کی تلاش کرتے ہیں تو ہماری گفتگو ہمیشہ خوشگوار اور روحانی ہوگی۔ یاد رکھیں کہ تنقید کرنا آسان ہے۔ اور جو شخص آپکے سامنے دوسروں کی بابت فضولگوئی کرتا ہے وہ دوسروں کے سامنے آپکی بابت بھی فضولگوئی کر سکتا ہے!—۱-تیمتھیس ۵:۱۳؛ ططس ۲:۳۔
۱۵. مسیح جیسی کونسی خوبیاں کلیسیا میں تمام لوگوں کو پاک رکھنے کیلئے مدد دینگی؟
۱۵ کلیسیا کو پاک رکھنے کی غرض سے، ہم سب کو مسیح کی عقل رکھنے کی ضرورت ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ اُسکی نمایاں خوبی محبت ہے۔ لہٰذا، پولسؔ نے کُلسّےؔ کے لوگوں کو مسیح کی طرح رحمدل ہونے کا مشورہ دیا: ”پس خدا کے برگزیدوں کی طرح جو پاک اور عزیز ہیں دردمندی اور مہربانی اور فروتنی اور حلم اور تحمل کا لباس پہنو۔ . . . ایک دوسرے [کو] معاف . . . کرو۔ اور ان سب کے اُوپر محبت کو جو کمال کا پٹکا ہے باندھ لو۔“ پھر اُس نے مزید کہا: ”مسیح کا اطمینان . . . تمہارے دلوں پر حکومت کرے۔“ یقیناً معاف کرنے والے اس جذبے کیساتھ، ہم کلیسیا کے اتحاد اور پاکیزگی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔—کلسیوں ۳:۱۲-۱۵۔
کیا ہماری پاکیزگی ہمارے آسپڑوس میں ظاہر ہوتی ہے؟
۱۶. ہماری پاک پرستش کو خوشآئند پرستش کیوں ہونا چاہئے؟
۱۶ ہمارے پڑوسیوں کی بابت کیا ہے؟ وہ ہمیں کیسا خیال کرتے ہیں؟ کیا ہم سچائی کی خوشی کو منعکس کرتے ہیں یا کیا ہم اسے ایک بوجھ کی طرح ظاہر کرتے ہیں؟ اگر ہم پاک ہیں جیسے یہوؔواہ پاک ہے تو اسے ہماری گفتگو میں اور ہمارے چالچلن سے عیاں ہونا چاہئے۔ یہ صاف نظر آنا چاہئے کہ ہماری پاک پرستش خوشآئند پرستش ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ یہوؔواہ ہمارا خدا مبارک خدا ہے، جو چاہتا ہے کہ اُسکے پرستار بھی شادمان ہوں۔ لہٰذا، زبورنویس قدیم وقتوں میں یہوؔواہ کے لوگوں کی بابت کہہ سکتا تھا: ”مبارک ہے وہ قوم جسکا خدا خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] ہے۔“ کیا ہم ایسی ہی خوشی کو منعکس کرتے ہیں؟ کیا ہمارے بچے بھی کنگڈم ہال میں اور اسمبلیوں پر یہوؔواہ کے لوگوں کے درمیان ہونے سے اطمینان کا اظہار کرتے ہیں؟—زبور ۸۹:۱۵، ۱۶؛ ۱۴۴:۱۵ب۔
۱۷. متوازن پاکیزگی ظاہر کرنے کیلئے ہم عملی طور پر کیا کر سکتے ہیں؟
۱۷ ہم اپنے تعاون اور ہمسایہپرور مشفقانہ جذبے کے ذریعے بھی اپنی متوازن پاکیزگی ظاہر کر سکتے ہیں۔ بعضاوقات ہمسایوں کیساتھ تعاون کرنا ضروری ہوتا ہے، شاید گِردونواح کی صفائی کرنے یا جیساکہ بعض ممالک میں ہوتا ہے، شاہراؤں اور سڑکوں کو بہتر بنانے میں مدد دینے سے۔ اس سلسلے میں، ہمارے اپنے باغیچوں، احاطوں، یا دیگر املاک کی دیکھبھال کرنے کے طریقے سے بھی ہماری پاکیزگی عیاں ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اِدھراُدھر کوڑاکرکٹ پڑا رہنے دیتے ہیں یا احاطہ گندہ یا بےڈھنگا رکھتے ہیں جس میں سب کی نظروں میں آنے والی پُرانی ٹوٹیپھوٹی گاڑیاں کھڑی ہیں تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے پڑوسیوں کیساتھ عزت سے پیش آ رہے ہیں؟—مکاشفہ ۱۱:۱۸۔
جائےملازمت پر اور سکول میں پاکیزگی
۱۸. (ا) آجکل مسیحیوں کے لئے ناگوار صورتحال کیا ہے؟ (ب) ہم کیسے دُنیا سے فرق ہو سکتے ہیں؟
۱۸ پولسؔ رسول نے کرنتھسؔ کے ناپاک شہر کے مسیحیوں کو لکھا: ”مَیں نے اپنے خط میں تم کو یہ لکھا تھا کہ حرامکاروں سے صحبت نہ رکھنا۔ یہ تو نہیں کہ بالکل دُنیا کے حرامکاروں یا لالچیوں یا ظالموں یا بُتپرستوں سے ملنا ہی نہیں کیونکہ اس صورت میں تو تم کو دُنیا ہی سے نکل جانا پڑتا۔“ (۱-کرنتھیوں ۵:۹، ۱۰) یہ ایسے مسیحیوں کیلئے ناگوار صورتحال ہے جنہیں روزانہ بداخلاق یا بےاخلاق لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ یہ راستی کا بہت بڑا امتحان ہے، بالخصوص اُن ثقافتوں میں جہاں جنسی حملے، بدعنوانی، اور بددیانتی کی حوصلہافزائی کی جاتی یا ان سے غفلت برتی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں، ہم اپنے معیاروں کو اتنا پست کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے کہ اپنے اِردگِرد کے لوگوں کو ”نارمل“ دکھائی دینے لگیں۔ اسکی بجائے، ہمارے مہربانہ مگر مختلف مسیحی چالچلن کو ہمیں صاحبِادراک لوگوں کی یعنی اُنکی نظروں میں ممتاز کرنا چاہئے جو اپنی روحانی ضرورت کو پہچانتے ہیں اور جو کسی بہتر چیز کی تلاش میں ہیں۔—متی ۵:۳؛ ۱-پطرس ۳:۱۶، ۱۷۔
۱۹. (ا) آپ بچوں کو سکول میں کن آزمائشوں کا سامنا ہے؟ (ب) اپنے بچوں اور اُنکے پاک چالچلن کی حمایت کرنے کیلئے والدین کیا کر سکتے ہیں؟
۱۹ اسی طرح، سکول میں ہمارے بچوں کو بہتیری آزمائشوں کا سامنا ہے۔ اَے اولاد والو! کیا آپ اُس سکول میں ملاقات کیلئے جاتے ہیں جہاں آپ کا بچہ پڑھتا ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہاں کس قسم کا ماحول عام ہے؟ کیا آپ اساتذہ کیساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں؟ یہ سوالات کیوں اہم ہیں؟ کیونکہ دُنیا کے بہت سے شہری علاقوں میں سکول تشدد، منشیات، اور جنس کے جنگل بن گئے ہیں۔ بچے کیسے اپنی راستی کو قائم اور چالچلن کو پاک رکھ سکتے ہیں اگر اُنہیں اپنے والدین کی بھرپور ہمدردانہ حمایت حاصل نہیں ہوتی؟ پولسؔ نے بجا طور پر والدین کو مشورہ دیا: ”اَے اولاد والو! اپنے فرزندوں کو دِق نہ کرو تاکہ وہ بیدل نہ ہو جائیں۔“ (کلسیوں ۳:۲۱) بچوں کو اشتعالانگیز کرنے کا ایک طریقہ اُنکی روزمرّہ کی مشکلات اور آزمائشوں کو سمجھنے میں قاصر رہنا ہے۔ سکول کی آزمائشوں کیلئے تیاری کی ابتدا ایک مسیحی گھر کے روحانی ماحول سے شروع ہوتی ہے۔—استثنا ۶:۶-۹؛ امثال ۲۲:۶۔
۲۰. پاکیزگی ہم سب کیلئے کیوں ضروری ہے؟
۲۰ آخر میں، پاکیزگی ہم سب کیلئے کیوں ضروری ہے؟ اسلئے کہ یہ شیطان کی دُنیا اور سوچ کے اچانک حملے کے خلاف تحفظ کا کام دیتی ہے۔ یہ اب بھی ایک برکت ہے اور مستقبل میں بھی ہوگی۔ یہ ایک ایسی زندگی کی ضمانت دینے میں ہماری مدد کرتی ہے جو راستبازی والی نئی دُنیا میں حقیقی زندگی ہوگی۔ یہ ہمیں متوازن، قابلِرسائی، خوشگفتار مسیحی بننے کے قابل بناتی ہے—بےلوچ متعصّب نہیں۔ مختصراً، یہ ہمیں مسیح کی مانند بناتی ہے۔—۱-تیمتھیس ۶:۱۹۔ (۱۵ ۰۸/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a بےایمان بیاہتا ساتھیوں کیساتھ موقعشناس تعلقات کے سلسلے میں مزید معلومات کیلئے، دیکھیں اگست ۱۵، ۱۹۹۰ کا واچٹاور، ”اپنے بیاہتا ساتھی کو نظرانداز نہ کریں!“ صفحات ۲۰-۲۲ اور نومبر ۱، ۱۹۸۸، صفحات ۲۴-۲۵، پیراگراف ۲۰-۲۲۔
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ پطرؔس نے پاکیزگی کے معاملے میں مسیحیوں کو نصیحت کرنا کیوں ضروری سمجھا؟
▫ پاک زندگی بسر کرنا آسان کیوں نہیں ہے؟
▫ خاندان میں پاکیزگی کو بہتر بنانے کیلئے ہم سب کیا کر سکتے ہیں؟
▫ کلیسیا کو پاک رکھنے کیلئے، ہمیں کس ناپاک چالچلن سے گریز کرنا چاہئے؟
▫ ہم جائےملازمت پر اور سکول میں کیسے پاک رہ سکتے ہیں؟
[تصویریں]
یہوؔواہ کے گواہوں کے طور پر، ہمیں خدا کی خدمت کرنے اور دیگر کارگزاریوں سے شادمان ہونا چاہئے