”عقاب کی سرزمین“ میں خوشخبری
”عقاب کی سرزمین۔“ البانیہ کے لوگوں نے اپنے ملک کو یہ نام دے رکھا ہے۔ یہ ملک یونان اور سابقہ یوگوسلاویہ کے بیچ واقع ہے۔ البانیوں کے آباواجداد کون ہیں، اِس بات پر لوگ مختلف نظریے رکھتے ہیں۔ لیکن زیادہتر تاریخدانوں کا کہنا ہے کہ البانی لوگ اور اُنکی زبان پُرانے زمانے کے اُلرِکم کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اِنکی تہذیب تقریباً ۴،۰۰۰ سال پُرانی ہے۔
البانیہ کے شمال میں اُونچے اُونچے پہاڑوں سے لے کر اُس کے جنوبی ساحل تک خوبصورت اور دلکش نظارے دیکھنے کو آتے ہیں۔ لیکن اِس ملک کی اصل خوبصورتی اِس کے باشندے ہیں۔ یہ لوگ مہماننواز ہونے کیساتھ ساتھ پُرجوش اور ذہین ہیں۔ وہ بڑے جذبے کیساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا پسند کرتے ہیں۔
ایک مشنری کی آمد
کئی صدیاں پہلے ایک نامور مسافر البانیہ کے خوبصورت ملک اور اِس میں رہنے والے دلکش لوگوں سے بہت متاثر ہوا تھا۔ یہ مسافر پولس رسول تھا۔ اُس نے سن ۵۶ عیسوی میں لکھا کہ ”مَیں نے . . . اُلرِکم تک مسیح کی خوشخبری کی پوری پوری مُنادی کی۔“ (رومیوں ۱۵:۱۹) آج کا شمالی اور وسطیٰ البانیہ قدیم زمانے میں اُلرِکم کے جنوبی حصے میں شامل تھا۔ جب پولس رسول نے لکھا کہ اُس نے ”اُلرِکم تک“ منادی کی تھی تو وہ اُلرِکم کی سرحد تک یا سرحد کے پار تک گیا تھا۔ اِسکا مطلب ہے کہ پولس رسول نے البانیہ میں منادی کی تھی۔ اِسلئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ البانیہ میں منادی کے کام کی بنیاد پولس رسول نے ہی ڈالی تھی۔
صدیاں گزرتی گئیں، ایک سلطنت کے بعد دوسری سلطنت آئی اور ختم ہو گئی۔ اس دوران غیر حکمرانوں نے بھی البانیہ پر حکومت کی۔ پھر آخرکار سن ۱۹۱۲ میں اِس ملک کو آزادی ملی۔ اسکے تقریباً دس سال بعد بادشاہت کی خوشخبری اس ملک میں دوبارہ سے سنائی جانے لگی۔
البانیہ میں یہوواہ کے گواہوں کی شروعات
سن ۱۹۲۰ کے کچھ عرصہ بعد امریکہ میں بسنے والے البانی لوگوں میں سے چند نے یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کا علم حاصل کرنا شروع کر دیا۔ پھر وہ واپس اپنے ملک البانیہ جا کر دوسروں کو بائبل کی سچائیاں سکھانے لگے۔ اِن میں سے ایک آدمی کا نام ناشو اِدریسی تھا۔ کئی لوگ خوشخبری میں دلچسپی لینے لگے۔ اِسکا نتیجہ یہ نکلا کہ سن ۱۹۲۴ میں رومانیہ کے یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر نے البانیہ میں بھی منادی کے کام کی نگرانی کرنا شروع کر دی۔
اِس عرصے کے دوران تھاناس ڈولی نامی ایک شخص نے بھی البانیہ میں یہوواہ خدا کے بارے میں سیکھا۔ وہ کہتا ہے: ”سن ۱۹۲۵ تک البانیہ میں تین کلیسیائیں وجود میں آ چکی تھیں۔ اِنکے علاوہ دُوردراز علاقوں میں بھی اِکادُکا یہوواہ کے گواہ اور خدا کے کلام میں دلچسپی لینے والے لوگ موجود تھے۔ اِن میں دوسرے لوگوں کے برعکس بہت پیار پایا جاتا۔“
اُس زمانے میں کچی سڑکوں کی وجہ سے سفر کرنا نہایت مشکل تھا لیکن پھر بھی بہنبھائیوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اِسکی ایک مثال البانیہ کے جنوبی شہر ولورے میں رہنے والی آراتے پینا کی ہے۔ وہ ۱۸ سال کی تھیں جب اُنہوں نے سن ۱۹۲۸ میں بپتسمہ لیا۔ بہن آراتے ہاتھ میں بائبل لئے، پہاڑی راستوں پر سے گزرتی ہوئیں، لوگوں میں تبلیغ کرنے جاتیں۔
سن ۱۹۳۰ میں البانیہ میں منادی کے کام کی نگرانی یونان کا برانچ دفتر کر رہا تھا۔ سن ۱۹۳۲ میں البانیہ کے بھائیوں کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے یونان سے ایک سفری نگہبان وہاں بھیجا گیا۔ اُس زمانے میں زیادہتر یہوواہ کے گواہ آسمانی اُمید رکھتے تھے۔ اُنکے اُونچے اخلاقی معیاروں کی وجہ سے ہر جگہ لوگ اِنکی عزت کرنے لگے۔ اِن ایماندار بھائیوں نے منادی میں جیتوڑ محنت کی اور واقعی اِنکی یہ محنت خوب رنگ لائی۔ سن ۱۹۳۵ تا ۱۹۳۶ تک البانیہ میں تقریباً ۱۳،۰۰۰ بائبلیں، کتابیں اور رسالے وغیرہ تقسیم کئے گئے۔
ایک دن بھائی ناشو اِدریسی نے شہر ولورے کے مرکزی علاقے میں گراموفون پر جوزف ایف. رتھرفورڈ کی ایک تقریر پیش کی۔ لوگ اپنی اپنی دُکانیں بند کرکے تقریر کو سننے آئے جسکا ترجمہ بھائی اِدریسی نے البانی زبان میں کِیا۔ بھائی اِدریسی کی طرح بہت سے دوسرے بھائیوں نے بھی بڑے جوش سے منادی کے کام میں حصہ لیا۔ اِسکے نتیجے میں سن ۱۹۴۰ تک البانیہ میں ۵۰ لوگ یہوواہ کے گواہ بن چکے تھے۔
ظالم حکومتیں
سن ۱۹۳۹ میں اِٹلی کی ظالمانہ حکومت نے البانیہ پر قبضہ کر لیا۔ اِس حکومت نے یہوواہ کے گواہوں کے کام پر پابندی لگا دی۔ اسکے کچھ عرصہ بعد جرمن فوج نے البانیہ پر حملہ کرکے اس پر قبضہ جما لیا۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہوتے ہی انور خوجہ نامی ایک جنرل نے الیکشن جیت لیا اور البانیہ کا وزیرِاعظم بن گیا۔ جہاں آنے والا زمانہ ملک کیلئے آزادی اور سکون کا پیغام لا رہا تھا وہاں وہ یہوواہ کے خادموں کیلئے اذیتوں اور آزمائشوں کا پیغام لا رہا تھا۔
آہستہ آہستہ اِس نئی حکومت کو تمام مذاہب گوارا نہ گزرے۔ یہوواہ کے گواہ فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے ہیں۔ (یسعیاہ ۲:۲-۴؛ یوحنا ۱۵:۱۷-۱۹) اِسلئے بہتیروں کو قید کر دیا گیا جہاں اُنہیں نہ تو کھانا اور نہ ہی دوسری ضروری چیزیں دی جاتیں۔ کلیسیا کی بہنیں اکثر اِن قیدیوں کیلئے کھانا بھیجتیں اور اُنکے کپڑے بھی دھوتیں۔
اذیت کے باوجود بھی وفادار
سن ۱۹۴۰ کے کچھ عرصہ بعد ایک نوجوان لڑکی فروسینا خدا کے کلام میں دلچسپی لینے لگی۔ اُسکے بڑے بھائی اُس وقت ناشو ڈوری نامی ایک یہوواہ کے گواہ سے خدا کے بارے میں سیکھ رہے تھے اور اِسطرح فروسینا بھی اِن باتوں میں دلچسپی لینے لگی۔ اُس زمانے میں حکومت یہوواہ کے گواہوں کیساتھ سختی سے پیش آ رہی تھی لیکن اِسکے باوجود فروسینا اپنے ایمان پر قائم رہی۔ فروسینا کے والدین کو اُسکا اجلاسوں پر جانا ناگوار تھا۔ فروسینا بتاتی ہے: ”میرے والدین نہیں چاہتے تھے کہ مَیں اجلاسوں پر جاؤں اِسلئے وہ میرے جُوتے چھپا دیتے تھے۔ جب مَیں اجلاس سے واپس آتی تو مجھے مار پٹتی۔ وہ میری شادی ایک ایسے شخص سے کروانا چاہتے تھے جو یہوواہ کا ایک گواہ نہیں تھا۔ جب مَیں نے اُس سے شادی کرنے سے صاف انکار کر دیا تو میرے والدین نے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اُس دِن برف پڑ رہی تھی اور سخت سردی تھی۔ بھائی ناشو ڈوری نے میرے رہنے کا انتظام بھائی گولا اور اُسکے خاندان کیساتھ کر دیا۔ اُس وقت میرے بھائی قید میں تھے کیونکہ اُنہوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ دو سال بعد جب میرے بھائی رِہا ہوئے تو مَیں اُنکے ساتھ ولورے چلی گئی۔“
فروسینا آگے بتاتی ہے: ”پولیس والے مجھے سیاسی کارروائیوں میں حصہ لینے پر مجبور کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن وہ مجھے گرفتار کرکے ایک کمرے میں لے گئے جہاں تمام افسروں نے مجھے گھیر لیا۔ ایک افسر نے مجھے دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’کیا تُو جانتی نہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘ مَیں نے جواب دیا ’آپ صرف وہی کر سکتے ہیں جس بات کی یہوواہ خدا اجازت دے۔‘ افسر غصے میں آ کر کہنے لگا: ’تُم بالکل پاگل ہو، نکل جاؤ یہاں سے۔‘“
اُن سالوں کے دوران البانیہ میں فروسینا کی طرح زیادہتر بہنبھائی یہوواہ خدا کے وفادار رہے۔ سن ۱۹۵۷ تک ۷۵ یہوواہ کے گواہ اِس ملک میں منادی کر رہے تھے۔ تقریباً چار سال بعد امریکہ کے یہوواہ کے گواہوں کے برانچ دفتر نے جان مارک کو البانیہ بھیجنے کا فیصلہ کِیا تاکہ وہ وہاں کے بھائیوں کی مدد کر سکے۔ بھائی جان مارک بھی البانی تھے لیکن وہ امریکہ کے رہنے والے تھے۔a اسکے کچھ عرصہ بعد کئی ذمہدار بھائیوں کو بیگار کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔
اندھیرے کے بعد اُجالا
سن ۱۹۶۷ تک البانیہ میں مذہب کو ناپسندیدگی کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ لیکن اسکے بعد تمام مذاہب پر پابندی لگا دی گئی۔ ملک میں کسی قسم کی مذہبی رسموں کو انجام دینے کی اجازت نہیں رہی۔ عبادتگاہوں کو یا تو بند کروا دیا گیا یا پھر انہیں جمخانوں، عجائب گھروں اور دُکانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ کسی شخص کو یہ بھی کہنے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ خدا کے وجود کو مانتا ہے۔
بھائیوں کیلئے عبادت کیلئے جمع ہونا اور تبلیغ کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ بہنبھائیوں کیلئے ایک دوسرے سے تعلق رکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔ اسکے باوجود اِن بہنبھائیوں نے یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کی پوری کوشش کی۔ کئی سال تک البانیہ میں صرف مٹھیبھر کے برابر یہوواہ کے گواہ تھے لیکن پھربھی یہ گواہ اپنے ایمان پر مضبوط رہے۔
سن ۱۹۸۵ کے بعد البانیہ کی حکومت میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں آنے لگیں۔ لوگ خوراک اور کپڑوں کی کمی کی وجہ سے تنگ آ گئے تھے۔ مشرقی یورپ میں سیاسی تبدیلیاں ہونے لگیں جنکا اثر ۱۹۹۰ کے بعد البانیہ تک پہنچا۔ تقریباً ۴۵ سال تک ایک ایسی حکومت نے البانیہ پر حکمرانی کی تھی جس نے لوگوں کو جکڑ کر رکھا تھا۔ اب ایک نئی حکومت کا دور شروع ہوا تھا اور اِسکے ساتھ ہی مذاہب پر سے پابندیاں ہٹا دیں گئیں۔
یہوواہ کے گواہوں کی گورننگ باڈی نے آسٹریا اور یونان کے برانچ دفتروں کے بھائیوں کو البانیہ کے بھائیوں سے رابطہ کرنے کی ہدایت دی۔ یونان کے کچھ بھائی البانی زبان جانتے تھے۔ وہ البانی بھائیوں کیلئے بائبل پر مبنی ایسی کتابیں اور رسالے لے کر گئے جنکا حال ہی میں البانی زبان میں ترجمہ کِیا گیا تھا۔ البانیہ کے بھائیوں کے دِل خوشی سے کھل اُٹھے جب وہ اتنے عرصہ بعد اپنے پردیسی بھائیوں سے مل سکے۔
پُرجوش کُلوقتی مُناد
سن ۱۹۹۲ میں گورننگ باڈی نے ایک مشنری جوڑے، مائیکل اور لنڈا ڈیگریگوریو کو البانیہ بھیجا۔ دونوں ہی پیدائشی طور پر البانی تھے۔ مائیکل اور لنڈا نے ان بہنبھائیوں سے رابطہ کِیا جنہیں حکومت کی پابندیوں کی وجہ سے کئی سالوں تک اکیلے میں یہوواہ کی خدمت کرنی پڑی تھی۔ اُنہوں نے ان عمررسیدہ بہنبھائیوں کی مدد کی تاکہ وہ پھر سے ہمارے بھائیچارے کا حصہ بن جائیں۔ نومبر کے مہینے میں اِٹلی سے ۱۶ اور یونان سے ۴ کُلوقتی مُناد البانیہ آئے۔ انکو البانی زبان سکھانے کیلئے ایک کورس کا انتظام بھی کِیا گیا۔
اِن پردیسی کُلوقتی مُنادوں کیلئے روزمرہ زندگی بہت کٹھن تھی۔ بجلی کبھی ہوتی تو کبھی بند ہو جاتی۔ موسمِسرما کے دوران سخت سردی پڑتی اور ہوا میں نمی رہتی۔ خوراک اور دوسری ضروری چیزوں کیلئے لوگوں کو گھنٹوں تک قطاروں میں انتظار کرنا پڑتا۔ لیکن بھائیوں کیلئے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ اتنے لوگ سچائی میں دلچسپی لے رہے تھے کہ اجلاس منعقد کرنے کیلئے اُنہیں بڑی عمارتوں کی ضرورت تھی۔ اور ایسی بڑی عمارتیں ڈھونڈنا بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا!
وہ کُلوقتی مُناد جو البانی زبان سیکھ رہے تھے اُنہوں نے جان لیا کہ لوگوں کیساتھ باتچیت کرنے کیلئے ضروری نہیں کہ ہم اُنکی زبان مکمل طور پر سیکھ جائیں۔ ایک بزرگ نے اِن کُلوقتی مُنادوں سے کہا: ”ہمیں مسکرانے اور اپنے بھائیوں کو گلے لگانے کیلئے الفاظ رٹنے کی ضرورت نہیں۔ آپ لوگ فکر نہ کریں۔ البانی لوگ یہ نہیں دیکھیں گے کہ آپ اُنکی زبان کے صحیح قواعد استعمال کر رہے ہیں یا نہیں، بلکہ وہ آپکا پیار محسوس کرتے ہوئے خودبہخود آپکی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔“
جب کُلوقتی مُنادوں نے البانی زبان سیکھنے کا پہلا کورس ختم کر لیا تھا تو اُنہیں مختلف شہروں میں بھیج دیا گیا۔ بہت جلد اِن شہروں میں کلیسیائیں قائم کی گئیں۔ آراتے پینا اُس وقت بھی ولورے میں رہ رہی تھیں۔ اُنکی عمر ۸۰ سال کی ہو گئی تھی اور اُنکی صحت بھی خراب تھی۔ منادی میں اُنکی مدد کرنے کیلئے دو کُلوقتی مُنادوں کو وہاں بھیجا گیا۔ پردیسیوں کو اپنی زبان بولتے سُن کر لوگ حیران ہو کر کہتے: ”جب ہم دوسرے مذہبوں کے مشنریوں سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں انگریزی یا اطالوی زبان سیکھنی پڑتی ہے۔ لیکن آپ نے تو ہماری زبان سیکھ لی ہے۔ واقعی، آپ ہم سے بہت پیار کرتے ہیں اور ہمیں بہت ہی اہم پیغام سنانا چاہتے ہیں۔“ بہن آراتے جو آسمانی اُمید رکھتی تھیں، اُنہوں نے جنوری ۱۹۹۴ میں وفات پائی۔ اپنی زندگی کے آخری مہینے تک وہ مُنادی میں حصہ لیتی رہیں۔ بہن آراتے اور اُنکے ساتھ کام کرنے والے کُلوقتی مُنادوں نے بڑے جوش کیساتھ منادی کی۔ اِسکے نتیجے میں ولورے میں ۱۹۹۵ میں پھر سے ایک کلیسیا قائم کی گئی۔ آج وہاں تین کلیسیائیں موجود ہیں۔
البانیہ میں لوگ روحانی باتوں کے پیاسے تھے۔ جب لوگ یہوواہ کے گواہوں سے کتابیں اور رسالے وغیرہ لیتے تو وہ اُنہیں فوراً پڑھتے۔ کئی نوجوان خدا کے کلام کا مطالعہ کرکے جلد ترقی کرنے لگے۔
البانیہ میں آج ۹۰ کلیسیائیں اور کئی گروہ ”ایمان میں مضبوط اور شمار میں روزبروز زیادہ“ ہوتے جا رہے ہیں۔ (اعمال ۱۶:۵) البانیہ کے ۳،۵۱۳ یہوواہ کے گواہوں کیلئے ابھی بہت کام کرنے کے لئے باقی ہے۔ مارچ ۲۰۰۵ میں یسوع کی موت کی یادگار کو منانے کیلئے ۱۰،۱۴۴ لوگ اکٹھے ہوئے تھے۔ البانیہ کے مہماننواز لوگوں کیساتھ خدا کے کلام پر باتچیت کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ۶،۰۰۰ لوگ باقاعدگی سے بائبل کے بارے میں سیکھ رہے ہیں۔ حال ہی میں بائبل کا نیو ورلڈ ٹرانسلیشن ترجمہ البانی زبان میں شائع ہوا ہے۔ اُمید ہے کہ اس ترجمے سے ہزاروں لوگ فائدہ حاصل کریں گے۔ واقعی، یہوواہ خدا کا کلام ”عقاب کی سرزمین“ میں نئی بلندیوں تک پہنچ رہا ہے۔
[فٹنوٹ]
a جان مارک کی بیوی ہیلن کی کہانی جنوری ۱، ۲۰۰۲ کے مینارِنگہبانی میں شائع ہوئی ہے۔
[صفحہ ۲۰ پر بکس]
کوسوو میں نسلی تعصب کا حل
سن ۱۹۹۹ میں ہر کسی کی زبان پر کوسوو کا نام تھا۔ اُس علاقے میں نسلی تعصب اِس حد تک بڑھ گیا تھا کہ جنگ چھڑ گئی۔ غیرملکوں کی مداخلت سے ہی اِن حالات پر قابو پایا گیا۔
اِس جنگ کے دوران بہتیرے یہوواہ کے گواہوں کو پڑوسی ممالک میں پناہ لینی پڑی۔ جنگ نے دم لیا تو گواہوں کا ایک گروہ کوسوو واپس لوٹ آیا۔ اِس علاقے کے ۲۳،۵۰،۰۰۰ باشندوں کو تبلیغ کرنے کیلئے البانی اور اطالوی کُلوقتی مُنادوں نے بھی کوسوو آکر بھائیوں کی مدد کی۔ اب یہاں ۴ کلیسیائیں اور ۶ گروہوں میں کُل ۱۳۰ افراد یہوواہ خدا کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔
سن ۲۰۰۳ میں شہر پرِشتینا میں یہوواہ کے گواہوں کی ایک روزہ اسمبلی پر ۲۵۲ لوگ حاضر ہوئے۔ اِن میں البانی، جرمن، اطالوی، سربی اور جپسی لوگ شامل تھے۔ بپتسمہ کی تقریر کے بعد مقرر نے بپتسمے کے سوال پوچھے۔ اِن سوالوں کا جواب دینے کیلئے ایک البانی مرد، ایک جپسی مرد اور ایک سربی عورت کھڑے ہو گئے۔
اِن تینوں نے اپنی اپنی زبان میں بپتسمے کے سوال کا ”ہاں“ میں جواب دے کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ اِس پر ہر طرف تالیاں گونجنے لگیں۔ جیہاں، اِن تینوں نے اُس نسلی تعصب کا حل ڈھونڈ لیا جو اُنکے ملک میں عذاب ڈھا رہا تھا۔
[صفحہ ۱۷ پر نقشہ]
(تصویر کے لئے چھپے ہوئے صفحے کو دیکھیں)
بحیرۂروم
اِٹلی
البانیہ
یونان
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
نوجوان بڑوں کے جوش کی نقل کرتے ہیں
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
بہن آراتے پینا نے ۱۹۲۸ سے لے کر اپنی وفات تک خدا کی خدمت کی
[صفحہ ۱۹ پر تصویر]
یہ وہ پہلے پردیسی کُلوقتی مُناد ہیں جنہوں نے البانی زبان سیکھنے کا کورس کِیا
[صفحہ ۱۶ پر تصویر کا حوالہ]
Eagle: © Brian K. Wheeler/VIREO