مسیح کی شریعت
”مَیں . . . مسیح کی شریعت کے تابع [ہوں]۔“—۱-کرنتھیوں ۹:۲۱۔
۱، ۲. (ا) نوعِانسان کی بہتیری غلطیوں کو کیسے روکا جا سکتا تھا؟ (ب) مسیحی دُنیا یہودیت کی تاریخ سے کیا سبق سیکھنے میں ناکام ہو گئی؟
”اقوام اور حکومتوں نے تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا، یا اس سے اخذ ہونے والے اصولوں پر عمل نہیں کِیا۔“ ۱۹ویں صدی کے ایک جرمن فلاسفر نے یوں بیان کِیا۔ بیشک، انسانی تاریخ کے سفر کو ”سلسلۂحماقت،“ ناگوار غلطیوں اور بحرانوں کے سلسلے کے طور پر بیان کِیا گیا ہے، جن میں سے بہتوں پر قابو پایا جا سکتا تھا اگر نوعِانسان محض ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے قابل ہوتے۔
۲ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے سے ایسے ہی انکار کو الہٰی شریعت کی بابت اس مباحثے میں نمایاں کِیا گیا ہے۔ یہوواہ خدا نے موسوی شریعت کو اس سے بہتر مسیح کی شریعت—سے بدل دیا۔ تاہم، مسیحی دُنیا کے پیشوا، جو اس شریعت کی تعلیم دینے اور اسکے مطابق زندگی بسر کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ فریسیوں کی انتہائی حماقت سے سبق سیکھنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ لہٰذا جس طرح یہودیت نے موسیٰ کی شریعت کیساتھ کِیا ویسے ہی مسیحی دُنیا نے مسیح کی شریعت کو مسخ کر دیا اور غلط استعمال کِیا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پہلے، آئیے خود اس شریعت پر باتچیت کریں—یہ کیا ہے، یہ کن پر اختیار رکھتی ہے اور کیسے، اور کیا چیز اسے موسوی شریعت سے فرق کرتی ہے۔ پھر ہم جائزہ لینگے کہ مسیحی دُنیا نے اسے کیسے غلط استعمال کِیا ہے۔ اس طرح ہم تاریخ سے کچھ سیکھ سکتے اور اس سے مستفید ہو سکتے ہیں!
نیا عہد
۳. یہوواہ نے نئے عہد کے سلسلے میں کونسا وعدہ کِیا تھا؟
۳ یہوواہ خدا کے سوا کون ایک کامل شریعت کی اصلاح کر سکتا تھا؟ موسیٰ کا شریعتی عہد کامل تھا۔ (زبور ۱۹:۷) اسکے باوجود، یہوواہ نے وعدہ فرمایا: ”دیکھ وہ دن آتے ہیں . . . مَیں اسرائیل کے گھرانے اور یہوداہ کے گھرانے کے ساتھ نیا عہد باندھونگا۔ اُس عہد کے مطابق نہیں جو مَیں نے اُنکے باپدادا سے کِیا۔“ موسوی شریعت کا مرکز—احکامِعشرہ—پتھر کی لوحوں پر لکھے گئے تھے۔ لیکن نئے عہد کی بابت یہوواہ نے فرمایا: ”مَیں اپنی شریعت اُنکے باطن میں رکھونگا اور اُنکے دل پر اُسے لکھونگا۔“—یرمیاہ ۳۱:۳۱-۳۴۔
۴. (ا) کونسا اسرائیل نئے عہد میں شامل ہے؟ (ب) روحانی اسرائیل کے علاوہ اَور کون مسیح کی شریعت کے تابع ہے؟
۴ اس نئے عہد میں کون شامل کِیا جائے گا؟ اصلی حقیقی ”اسرائیل کے گھرانے“ کو ہرگز نہیں، جس نے اس عہد کے درمیانی کورد کِیا۔ (عبرانیوں ۹:۱۵) نہیں، یہ نیا ”اسرائیل“ روحانی اسرائیلیوں کی ایک اُمت ”خدا کا اسرائیل“ ہوگا۔ (گلتیوں ۶:۱۶؛ رومیوں ۲:۲۸، ۲۹) بعدازاں اس چھوٹے، روح سے مسحشُدہ مسیحیوں کے گروہ کیساتھ تمام قوموں میں سے ”ایک بڑی بِھیڑ“ شامل ہو جائیگی وہ بھی یہوواہ کی پرستش کرنے کی خواہاں ہوگی۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۰؛ زکریاہ ۸:۲۳) نئے عہد میں شامل نہ ہونے کے باوجود بھی، یہ شریعت کے تابع ہونگے۔ (مقابلہ کریں احبار ۲۴:۲۲؛ گنتی ۱۵:۱۵۔) ”ایک ہی گلّے“ کے طور پر ”ایک ہی چرواہے“ کے زیرِنگرانی تمام ”مسیح کی شریعت کے تابع“ ہونگے، جیسےکہ پولس رسول نے قلمبند کِیا۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ ۱-کرنتھیوں ۹:۲۱) پولس نے اس نئے عہد کو ایک ”بہتر عہد“ کا نام دیا۔ کیوں؟ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ آئندہ چیزوں کے عکس کی بجائے تکمیلشُدہ وعدوں پر مبنی ہے۔—عبرانیوں ۸:۶؛ ۹:۱۱-۱۴۔
۵. نئے عہد کا کیا مقصد ہے، اور یہ کیوں کامیاب ہوگا؟
۵ اس عہد کا مقصد کیا ہے؟ یہ تمام نوعِانسان کو برکت دینے کی خاطر بادشاہوں اور کاہنوں کی ایک اُمت کو وجود میں لانے کیلئے ہے۔ (خروج ۱۹:۶؛ ۱-پطرس ۲:۹؛ مکاشفہ ۵:۱۰) موسوی شریعتی عہد نے کبھی بھی مکمل مفہوم میں اس اُمت کو پیدا نہیں کِیا کیونکہ مجموعی طور پر اسرائیل نے بغاوت کی اور اپنا استحقاق کھو بیٹھے۔ (مقابلہ کریں رومیوں ۱۱:۱۷-۲۱۔) تاہم، نئے عہد کا کامیاب ہونا یقینی ہے اسلئے کہ اسکا تعلق ایک بالکل فرق قسم کی شریعت سے ہے۔ کن طریقوں سے فرق؟
آزادی کی شریعت
۶، ۷. مسیح کی شریعت موسوی شریعت کے مقابلے میں کیسے زیادہ آزادی پیش کرتی ہے؟
۶ مسیح کی شریعت کو بارہا آزادی سے منسوب کِیا گیا ہے۔ (یوحنا ۸:۳۱، ۳۲) اسکا ”آزاد لوگوں کی شریعت“ اور ”آزادی کی کامل شریعت“ کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ (یعقوب ۱:۲۵؛ ۲:۱۲، اینڈبلیو۔) یقیناً، انسانوں کے درمیان تمامتر آزادی نسبتی ہے۔ پھربھی، یہ شریعت اپنی پیشرو، موسوی شریعت سے کہیں زیادہ آزادی پیش کرتی ہے۔ وہ کیسے؟
۷ مثال کے طور پر، کوئی بھی شخص مسیح کی شریعت کے تابع پیدا نہیں ہوا۔ نسل اور جائےپیدائش جیسے عناصر غیر متعلق ہیں۔ سچے مسیحی اپنے دلوں میں اس شریعت کی فرمانبرداری کرنے کے جؤے کو قبول کرنے کا آزادی سے انتخاب کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے، وہ دیکھتے ہیں کہ یہ ایک ملائم جؤا، ایک ہلکا بوجھ ہے۔ (متی ۱۱:۲۸-۳۰) بہرکیف، موسوی شریعت کو بھی انسان کو یہ سکھانے کیلئے مرتب کِیا گیا تھا کہ وہ گنہگار ہے اور اسے نجات کیلئے فدیہ کی قربانی کی اشد ضرورت ہے۔ (گلتیوں ۳:۱۹) مسیح کی شریعت سکھاتی ہے کہ مسیحا آ چکا ہے، اپنی زندگی سے فدیے کی قیمت ادا کر چکا ہے، اور ہمارے واسطے گناہ اور موت کے دہشتناک ظلموستم سے چھٹکارہ پانے کی راہ کھول چکا ہے! (رومیوں ۵:۲۰، ۲۱) مستفید ہونے کیلئے، ہمیں اس قربانی پر ’ایمان لانے‘ کی ضرورت ہے۔—یوحنا۳:۱۶۔
۸. مسیح کی شریعت میں کیا کچھ شامل ہے، لیکن اسکے مطابق زندگی بسر کرنا کیوں سینکڑوں قانونی ضوابط کو زبانی یاد کرنے کا تقاضا نہیں کرتا؟
۸ ”ایمان لانے“ میں مسیح کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنا شامل ہے۔ اس میں مسیح کے تمام احکام کی تابعداری کرنا شامل ہے۔ کیا اسکا مطلب سینکڑوں قوانین اور ضوابط کو زبانی یاد کر لینا ہے؟ نہیں۔ اگرچہ عہدِعتیق کے درمیانی، موسیٰ نے، موسوی شریعت کو تحریر کِیا، نئے عہد کے درمیانی، یسوع نے ایک بھی قانون تحریر نہیں کِیا تھا۔ اسکی بجائے، اُس نے اس شریعت کے مطابق زندگی بسر کی۔ اپنی زندگی کی کامل روش کے ذریعے، اُس نے تمام لوگوں کیلئے پیروی کرنے کا ایک نمونہ قائم کر دیا۔ (۱-پطرس ۲:۲۱) شاید اسی وجہ سے ابتدائی مسیحیوں کی پرستش کا ایک ”طریق“ کے طور پر حوالہ دیا گیا۔ (اعمال ۹:۲؛ ۱۹:۹، ۲۳؛ ۲۲:۴؛ ۲۴:۲۲) اُنکے نزدیک، مسیح کی شریعت کو مسیح کی زندگی کے نمونے سے ثابت کِیا گیا تھا۔ یسوع کی تقلید کرنے کا مطلب اس شریعت کی فرمانبرداری کرنا تھا۔ اُس کیلئے اُنکی شدید محبت کا مطلب تھا کہ پیشینگوئی کے مطابق، یہ شریعت واقعی اُنکے دلوں پر لکھی ہوئی تھی۔ (یرمیاہ ۳۱:۳۳؛ ۱-پطرس ۴:۸) اور وہ جو محبت کی وجہ سے فرمانبردار ہے کبھی بھی بوجھ تلے دبا ہوا محسوس نہیں کرتا—ایک اَور وجہ کہ کیوں مسیح کی شریعت کو ”آزاد لوگوں کی شریعت“ کہا جا سکتا ہے۔
۹. مسیح کی شریعت کا جزوِلازم کیا ہے، اور کس طریقے سے اس شریعت میں ایک نیا حکم شامل ہے؟
۹ اگر موسوی شریعت میں محبت اہم تھی تو یہ مسیحی شریعت کا جزوِلازم ہے۔ لہٰذا مسیح کی شریعت میں ایک نیا حکم شامل ہے—مسیحیوں کو ایک دوسرے کیلئے خودایثارانہ محبت رکھنی چاہیے۔ اُنہیں یسوع کی مانند محبت کرنا ہے؛ اُس نے خوشی سے اپنے دوستوں کے کیلئے اپنی جان قربان کر دی۔ (یوحنا ۱۳:۳۴، ۳۵؛ ۱۵:۱۳) پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسیح کی شریعت موسیٰ کی شریعت سے تھیوکریسی کا اس سے کہیں بلندتر اظہار ہے۔ جیسےکہ یہ جریدہ پہلے سے واضح کر چکا ہے: ”تھیوکریسی خدا کے ذریعے حکمرانی ہے؛ خدا محبت ہے؛ اسلئے تھیوکریسی محبت کے ذریعے حکمرانی ہے۔“
یسوع اور فریسی
۱۰. یسوع کی تعلیم فریسیوں کی تعلیم سے کیسے فرق تھی؟
۱۰ تاہم، یہ حیرانی کی بات نہیں کہ یسوع کی اپنے زمانے کے یہودی مذہبی پیشواؤں کیساتھ مڈبھیڑ ہو گئی۔ ”آزادی کی کامل شریعت“ فقیہوں اور فریسیوں کے ذہنوں سے کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں کوسوں دُور تھی۔ اُنہوں نے انسانساختہ ضابطوں سے لوگوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ اُنکی تعلیم استبدادی، قابلِمذمت، منفی بن گئی تھی۔ اسکے بالکل برعکس، یسوع کی تعلیم انتہائی تقویتبخش اور مثبت تھی! وہ عملی تھا اور لوگوں کی حقیقی ضروریات اور تفکرات کیلئے محبت ظاہر کرتا تھا۔ اُس نے روزمرّہ زندگی سے تمثیلیں استعمال کرتے ہوئے اور خدا کے کلام کے اختیار کو عمل میں لاتے ہوئے، بڑی سادگی اور حقیقی احساس کیساتھ تعلیم دی۔ لہٰذا، ”بِھیڑ اُسکی تعلیم سے حیران ہوئی۔“ (متی ۷:۲۸) جیہاں، یسوع کی تعلیم اُنکے دلوں تک پہنچی!
۱۱. یسوع نے کیسے ظاہر کِیا کہ موسوی شریعت کا اطلاق معقولپسندی اور رحم سے کِیا جانا چاہیے تھا؟
۱۱ موسوی شریعت میں مزید ضابطوں کا اضافہ کرنے کی بجائے، یسوع نے ظاہر کِیا کہ یہودیوں کو کس طرح—معقول پسندی اور رحم کیساتھ شریعت کا اطلاق کرتے رہنا چاہیے تھا۔ مثال کے طور پر، اُس موقع کو یاد کریں جب جریانِخون کے مرض میں مبتلا ایک عورت اُسکے پاس آئی۔ موسوی شریعت کے مطابق، جس کسی کو بھی وہ چُھوئیگی وہ ناپاک ہو جائیگا، اسلئے یقیناً وہ لوگوں کی بِھیڑ میں شامل نہیں ہو سکتی تھی! (احبار ۱۵:۲۵-۲۷) لیکن وہ شفا پانے کیلئے اسقدر بیتاب تھی کہ اُس نے بِھیڑ میں سے اپنے لئے راستہ بنایا اور یسوع کی پوشاک کو جا چُھوا۔ فوراً خون بہنا بند ہو گیا۔ کیا اُس نے اُسے شریعت کی خلافورزی کرنے کیلئے ڈانٹا؟ نہیں؛ اسکی بجائے، اُس نے اُسکی مایوسکُن حالت کو سمجھا اور شریعت کے اعلیٰترین اصول—محبت—کا مظاہرہ کِیا۔ اُس نے بڑی دردمندی سے اُسے بتایا: ”بیٹی تیرے ایمان سے تجھے شفا ملی۔ سلامت جا اور اپنی اس بیماری سے بچی رہ۔“—مرقس ۵:۲۵-۳۴۔
کیا مسیح کی شریعت روادار ہے؟
۱۲. (ا) ہمیں کیوں یہ فرض نہیں کر لینا چاہیے کہ مسیح روادار ہے؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ بہت سے قوانین وضع کرنا بہت سی خامیوں کو پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے؟
۱۲ پس، کیا ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ چونکہ مسیح کی شریعت ”آزادی کی“ ہے اسلئے یہ روادار ہے، جبکہ فریسیوں نے، اپنی تمام زبانی روایات کیساتھ، کسی بھی معاملے میں لوگوں کے طرزِعمل کو سخت محدود کر رکھا تھا؟ نہیں۔ آجکل کے قانونی نظام ظاہر کرتے ہیں کہ اکثر جتنے زیادہ قوانین ہوتے ہیں لوگ اُن میں اتنی ہی خامیاں نکالتے ہیں۔a یسوع کے زمانے میں فریسی اصولوں کی زیادتی نے خامیاں ڈھونڈنے، محبت کے بغیر بےتوجہی سے کام انجام دینے، اور باطنی بگاڑ کو چھپانے کیلئے اپنے آپ میں راستباز ہونے کا لبادہ اُوڑھنے کی حوصلہافزائی کی۔—متی ۲۳:۲۳، ۲۴۔
۱۳. کیوں مسیح کی شریعت کسی بھی تحریری قانونی مجموعے کے مقابلے میں زیادہ اعلیٰ معیار پر منتج ہے؟
۱۳ اس کے برعکس، مسیح کی شریعت ایسے رویوں کی حوصلہافزائی نہیں کرتی۔ دراصل، ایک ایسی شریعت کی فرمانبرداری کرنا جو یہوواہ کی محبت پر مبنی ہے اور جسکی فرمانبرداری دوسروں کیلئے مسیح کی خودایثارانہ محبت کی تقلید کرنے سے کی جاتی ہے ایک رسمی قانونی ضابطے کی پیروی کرنے کے مقابلے میں طرزِعمل سے کہیں زیادہ اعلیٰ معیار پر منتج ہوتا ہے۔ محبت خامیاں نہیں ڈھونڈتی؛ یہ ہمیں ایسے نقصاندہ کام کرنے سے روکتی ہے جو ایک قانونی ضابطہ شاید صریحاً منع نہ کرتا ہو۔ (دیکھیں متی ۵:۲۷، ۲۸۔) پس، مسیح کی شریعت ہمیں دوسروں کیلئے ایسے طریقوں سے کام کرنے—فیاضی، مہمانوازی، اور محبت دکھانے—کی تحریک دیگی جو ایک روایتی قانون ہم سے نہیں کرا سکتا۔—اعمال ۲۰:۳۵؛ ۲-کرنتھیوں ۹:۷؛ عبرانیوں ۱۳:۱۶۔
۱۴. مسیح کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کا پہلی صدی کی مسیحی کلیسیا پر کیا اثر ہوا تھا؟
۱۴ اُسکے ارکان نے جس حد تک مسیح کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کی، ابتدائی مسیحی کلیسیا نے اُس وقت کے عبادتخانوں میں رائج سخت، نکتہچیں، اور ریاکارانہ رحجانات سے نسبتاً پاک، ایک پُرتپاک، پُرمحبت فضا سے لطف اُٹھایا۔ ان نئی کلیسیاؤں کے ارکان نے واقعی محسوس کر لیا ہوگا کہ وہ ”آزاد لوگوں کی شریعت“ کے مطابق زندگی گزار رہے تھے!
۱۵. مسیحی کلیسیا کو بگاڑنے کیلئے شیطان کی چند ایک ابتدائی کوششیں کیا تھیں؟
۱۵ تاہم، شیطان مسیحی کلیسیا کو اندرونی طور پر خراب کرنے کا مشتاق تھا، جیسے اُس نے اسرائیل کی قوم کو خراب کر دیا تھا۔ پولس رسول نے ایسے بھیڑیےنما لوگوں کی بابت آگاہ کِیا جو ”اُلٹی اُلٹی باتیں کہینگے“ اور خدا کے گلّہ پر ظلم ڈھائینگے۔ (اعمال ۲۰:۲۹، ۳۰) اُسے موسوی شریعت کے حامی یہودی مسیحیوں سے نپٹنا پڑا تھا جنہوں نے موسوی شریعت کی غلامی کو جو مسیح میں تکمیل پا چکی تھی مسیح کی شریعت کی نسبتی آزادی سے بدل دینا چاہا۔ (متی ۵:۱۷؛ اعمال ۱۵:۱؛ رومیوں ۱۰:۴) رسولوں میں سے آخری رسول کی وفات کے بعد، ایسی برگشتگی کیخلاف پھر کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لہٰذا بدعنوانی ہر طرف پھیل گئی۔—۲-تھسلنیکیوں ۲:۶، ۷۔
مسیحی دُنیا مسیح کی شریعت کو آلودہ کرتی ہے
۱۶، ۱۷. (ا) بدعنوانی نے مسیحی دُنیا میں کونسی اقسام اختیار کر لی تھیں؟ (ب) کیتھولک چرچ کے قوانین نے جنس کی بابت بگڑے ہوئے نظریے کو کیسے فروغ دیا؟
۱۶ جیساکہ یہودیت کے ساتھ تھا، مسیحی دُنیا میں بھی بدعنوانی نے ایک سے زیادہ اقسام اختیار کر لیں۔ وہ بھی جھوٹے عقائد اور اخلاقسوز آدابواطوار کا شکار ہو گئی۔ اور اپنے گلّے کو بیرونی اثرات کیخلاف محفوظ رکھنے کیلئے اُسکی کاوشیں اکثر سچی پرستش کے باقیماندہ عناصر کو چٹ کر جانے والی ثابت ہوئی ہیں۔ سخت اور غیرصحیفائی قوانین میں اضافہ ہوا ہے۔
۱۷ کیتھولک چرچ کلیسیائی قانون کے وسیع مجموعوں کو وضع کرنے میں سرِفہرست رہا ہے۔ ان قوانین نے بالخصوص جنس سے متعلق معاملات کو بگاڑ دیا تھا۔ کتاب سیکچوئیلٹی اینڈ کیتھولکازم کے مطابق، چرچ نے ستوئیکیت کے یونانی فلسفے کو جذب کر لیا جو شہوت کی تمام اقسام کی بابت مشتبہ تھا۔ چرچ یہ تعلیم دینے لگا کہ عام ازدواجی تعلقات سمیت، تمام طرح کی جنسی شہوت، گنہگارانہ تھی۔ (موازنہ کریں امثال ۵:۱۸، ۱۹۔) جنس کا مقصد صرف افزائشِنسل تھا، اَور کچھ نہیں۔ یوں بعضاوقات کفارے کے متعدد سالوں کا تقاضا کرتے ہوئے، چرچ کے قانون نے دانستہ ہر طرح کے مانع حمل کو ایک نہایت سنگین گناہ کے طور پر مسترد کر دیا۔ مزیدبرآں، پادری طبقے کو شادی کرنے کی اجازت نہیں تھی، ایک ایسا حکم جس نے بچوں کیساتھ جنسی بدسلوکی سمیت، کافی زیادہ ناجائز جنسی تعلقات کو فروغ دیا ہے۔—۱-تیمتھیس ۴:۱-۳۔
۱۸. چرچ قوانین کے اضافے کا کیا نتیجہ نکلا؟
۱۸ جیسےجیسے چرچ کے قوانین میں اضافہ ہوا اُنہیں کتابوں کی شکل میں یکجا کر دیا گیا۔ انہوں نے بائبل پر سبقت حاصل کرنا اور اسکی جگہ لینی شروع کر دی۔ (مقابلہ کریں متی ۱۵:۳، ۹۔) یہودیت کی طرح، کیتھولکازم نے دُنیاوی تحریر پر عدمِاعتماد کا اظہار کِیا اور اس میں سے زیادہتر کو ایک خطرہ سمجھا۔ اس معاملے میں جلد ہی یہ نظریہ بائبل کی واضح آگاہی سے کہیں آگے بڑھ گیا۔ (واعظ ۱۲:۱۲؛ کلسیوں ۲:۸) چوتھی صدی س.ع. کا ایک چرچ رائٹر، جیروم، پکار اُٹھا: ”اَے خداوند، اگر مَیں کبھی دُنیاوی کُتب اپنے پاس رکھوں یا اُنہیں پڑھوں تو مَیں تیرا منکر ٹھہروں۔“ ایک وقت آیا کہ چرچ نے کتابوں—حتیٰکہ غیرمذہبی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں—کے احتساب کا کام سنبھال لیا۔ لہٰذا ۱۷ویں صدی میں ماہرِفلکیات گلیلیو کی یہ لکھنے پر مذمت کی گئی کہ زمین سورج کے گِرد گھومتی ہے۔ ہر چیز—حتیٰکہ علمِہیئت کی بابت سوالات پر بھی—حتمی سند ہونے کیلئے چرچ کا سخت اصرار بالآخر بائبل پر ایمان کو کمزور کرنے کا باعث بنیگا۔
۱۹. خانقاہوں نے سخت آمریت کو کیسے فروغ دیا؟
۱۹ چرچ کے اصول وضع کرنے کے عمل نے خانقاہوں میں فروغ پایا جہاں راہبوں نے نفسکُشی کی زندگی بسر کرنے کیلئے خود کو دُنیا سے علیٰحدہ کر لیا تھا۔ زیادہتر کیتھولک خانقاہیں ”مُقدس بیناڈِکٹ کے قاعدے“ کی پیروی کرتی تھیں۔ ایبٹ (”فادر“ کیلئے ارامی لفظ سے مشتق ایک اصطلاح) مطلق اختیار کے ساتھ حکمرانی کرتا تھا۔ (مقابلہ کریں متی ۲۳:۹۔) اگر ایک راہب کو اپنے والدین سے کوئی تحفہ ملتا تو ایبٹ یہ فیصلہ کرتا کہ آیا اُس راہب یا کسی اَور شخص کو اسے حاصل کرنا چاہیے۔ اخلاقسوز کاموں کی مذمت کرنے کے علاوہ، ایک اصول نے یہ بیان کرتے ہوئے تمام گپبازی اور ہنسیمذاق سے منع کِیا کہ ”کوئی بھی شاگرد ایسی باتیں نہیں کہے گا۔“
۲۰. کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ پروٹسٹنٹازم بھی غیرصحیفائی آمریت کے سلسلے میں ماہر ثابت ہوا؟
۲۰ پروٹسٹنٹازم، جس نے کیتھولکازم کی غیرصحیفائی زیادتیوں کی اصلاح کرنی چاہی، جلد ہی مسیح کی شریعت میں بےبنیاد آمرانہ اصول بنانے میں یکساں ماہر ہو گیا۔ مثال کے طور پر، ممتاز ریفارمر جان کیلون ”بحالشُدہ چرچ کا قانونساز“ مقرر ہوا۔ اُس نے جنیوا میں پروٹسٹنٹ چرچ پر سخت اصولوں کی کثیر تعداد کیساتھ حکمرانی کی جنہیں ایسے ”ایلڈروں“ نے عائد کِیا جنکا ”کام،“ جیسےکہ کیلون نے بیان کِیا، ”ہر شخص کی زندگی پر کڑی نظر رکھنا ہے۔“ (موازنہ کریں ۲-کرنتھیوں ۱:۲۴۔) چرچ شرابخانوں پر اختیار رکھتا تھا اور ضابطے مقرر کرتا تھا کہ گفتگو کے کونسے موضوعات روا تھے۔ شوخ نغمے گانے یا ڈانس کرنے جیسی غلطیوں کیلئے سخت سزائیں تھیں۔b
مسیحی دُنیا کی غلطیوں سے سبق سیکھنا
۲۱. مسیحی دُنیا کے ’لکھی ہوئی باتوں سے تجاوز‘ کرنے کے میلان کے مجموعی اثرات کیا رہے ہیں؟
۲۱ کیا ان تمام اصولوں اور قوانین نے مسیحی دُنیا کو بدعنوانی سے محفوظ رکھنے کا کام انجام دیا ہے؟ اسکے بالکل برعکس! آجکل مسیحی دُنیا بیحد سخت سے لیکر انتہائی روادار ہونے تک، سینکڑوں فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ انسانی سوچ کو گلّے پر حکمرانی کرنے اور الہٰی قانون میں مداخلت کرنے کی اجازت دیتے ہوئے، وہ سب، کسی نہ کسی طریقے سے، ’لکھی ہوئی باتوں سے تجاوز‘ کر گئے ہیں۔—۱-کرنتھیوں ۴:۶۔
۲۲. مسیحی دُنیا کی رُوگردانی کا مطلب مسیح کی شریعت کا خاتمہ کیوں نہیں ہے؟
۲۲ تاہم، مسیح کی شریعت کی تاریخ کا انجام المناک نہیں ہے۔ یہوواہ خدا کبھی بھی انسانوں کو الہٰی قانون مٹا ڈالنے کی اجازت نہیں دیگا۔ مسیحی شریعت آجکل سچے مسیحیوں کے درمیان پوری طرح کارفرما ہے، اور انہیں اسکے مطابق زندگی بسر کرنے کا عظیم شرف حاصل ہے۔ لیکن جوکچھ یہودیت اور مسیحیت نے الہٰی قانون کیساتھ کِیا ہے اُسکا جائزہ لینے کے بعد، ہم موزوں طور پر پوچھ سکتے ہیں، ’انسانی استدلال اور الہٰی قانون کے حقیقی مفہوم کو کمزور کرنے والے اصولوں کیساتھ خدا کے کلام کو آلودہ کرنے کے پھندے سے بچنے کے ساتھ ساتھ ہم مسیح کی شریعت کے مطابق کیسے زندگی بسر کرتے ہیں؟ مسیح کی شریعت کو آجکل ہمارے اندر کس متوازن نظریے کو جاگزیں کرنا چاہیے؟‘ اگلا مضمون ان سوالات پر گفتگو کریگا۔ (۱۴ ۰۹/۰۱ w۹۶)
[فٹنوٹ]
a فریسی اس قسم کی یہودیت کے زیادہ ذمہدار تھے جو آجکل موجود ہے، اسلئے یہ حیرانی کی بات نہیں کہ یہودیت ابھی تک اپنی سبت کی اضافی پابندیوں میں خامیاں ڈھونڈتی ہے۔ مثال کے طور پر، سبت کے دن کسی یہودی آرتھوڈکس ہسپتال آنے والا شخص یہ چاہے گا کہ خودبخود ہر منزل پر لفٹ رُکے تاکہ مسافر لفٹ کے بٹن کو دبانے کے گنہگارانہ ”کام“ سے بچ سکیں۔ بعض آرتھوڈکس ڈاکٹر ایسی سیاہی سے نسخہ لکھتے ہیں جو چند دنوں میں مٹ جائیگی۔ کیوں؟ مِشنہ لکھائی کو ایک ”کام“ کے طور پر شمار کرتی ہے لیکن یہ بیان کرتی ہے کہ وہ ”لکھائی“ جو ایک دائمی نقش چھوڑنے والی ہو۔
b سرویٹس کو، جس نے کیلون کے بعض مذہبی نظریات پر اعتراض کِیا، ایک کافر کی طرح کھمبے سے باندھ کر جلا دیا گیا۔
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ مسیح کی شریعت کا جزوِلازم کِیا ہے؟
▫ یسوع کا تعلیم دینے کا طریقہ فریسیوں سے کیسے مختلف تھا؟
▫ شیطان نے مسیحی دُنیا کو بگاڑنے کیلئے سخت، اصول وضع کرنے کے رجحان کو کیسے استعمال کِیا؟
▫ مسیح کی شریعت کے مطابق زندگی بسر کرنے کے بعض مثبت اثرات کیا ہیں؟
[تصویر]
یسوع نے معقول طور پر اور رحمدلی سے موسوی شریعت کا اطلاق کِیا