آسمانی بلاہٹ دراصل کسے حاصل ہے؟
یہوواہ نسلانسانی سے محبت رکھتا ہے۔ جیہاں، یہ محبت اتنی عظیم ہے کہ اس نے اپنے بیٹے، یسوع مسیح کو فدیہ کے طور پر دے دیا تاکہ جو کچھ ہمارے جدامجد آدم نے کھو دیا اسے واپس دلائے! اور وہ کیا تھا؟ ابدی کامل انسانی زندگی بشمول اپنے تمام حقوق اور امکانات کے۔ (یوحنا ۳:۱۶) یہ فدیہ نوعانسانی کے لیے یسوع کی محبت کا بھی اظہار تھا۔ متی ۲۰:۲۸۔
الہیٰ محبت یسوع کی فدیہ کی قربانی پر مبنی دو خداداد امیدوں کا اظہار کرنے میں دکھائی جا چکی ہے۔ (۱-یوحنا ۲:۲،۱) یسوع کے بطور انسان مرنے سے پہلے واحد امید جو الہیٰ خوشنودی حاصل کرنے والوں کے لیے کھلی تھی وہ زمینی فردوس میں زندگی کی تھی۔ (لوقا ۲۳:۴۳) تاہم، ۳۳ س۔ع۔ کے پنتکست کے بعد یہوواہ نے ایک ”چھوٹے گلے“ کو آسمانی امید عطا کی۔ (لوقا ۱۲:۳۲) لیکن حالیہ وقتوں میں کیا واقع ہوا ہے؟ ۱۹۳۱ سے لے کر بادشاہتی پیغام نے زیادہ توجہ ”دوسری بھیڑوں“ پر مرکوز کی ہے اور ۱۹۳۵ کے بعد سے خدا مسیح کے وسیلہ سے ایسے بھیڑخصلت لوگوں کی ”ایک بڑی بھیڑ“ کو اپنی طرف لا رہا ہے۔ (یوحنا۱۰:۱۶، مکاشفہ ۷:۹) ان کے دل میں، خدا نے زمینی فردوس میں ابدی زندگی کی امید ڈال دی ہے۔ وہ کامل خوراک کھانے، جانوروں پر مشفقانہ اختیار رکھنے، اور راستباز ساتھی انسانوں کے ساتھ رفاقت کا ابد تک لطف اٹھانے کے خواہشمند ہیں۔
ہمدرد کاہن اور بادشاہ
چونکہ محبت نے یسوع کو فدیہ کے طور پر زندگی دینے پر آمادہ کیا تھا، اسلئے وہ یقینی طور پر ایک ہمدرد آسمانی بادشاہ ہو گا۔ تاہم یسوع اپنی ہزار سالہ حکومت کے دوران نوعانسانی کو بحال کرنے میں اکیلا ہی نہیں ہو گا۔ یہوواہ نے آسمان میں دیگر ہمدرد بادشاہوں کا بھی بندوبست کیا ہے۔ جیہاں، ”وہ خدا اور مسیح کے کاہن ہوں گے اور اسکے ساتھ ہزار برس تک بادشاہی کرینگے۔“ مکاشفہ ۲۰:۱-۶۔
مسیح کے ساتھ کتنے ساتھی حکمران ہونگے اور وہ ایسے پرجلال استحقاق کے لیے کیسے چنے گئے ہیں؟ یوحنا رسول نے ۱۴۴،۰۰۰ کو برہ یسوع مسیح کیساتھ آسمانی کوہصیون پر دیکھا تھا۔ ”آدمیوں میں سے خرید لیے گئے“ ہونے کے سبب سے انہیں یہ معلوم ہو گا کہ آزمایشیں سہنا، ناکاملیت کے بوجھ اٹھانا، تکلیف اٹھانا، اور انسانوں کے طور پر مرنا کیا مطلب رکھتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۴:۱-۵، ایوب ۱۴:۱) پس وہ کیا ہی ہمدرد بادشاہکاہن ہوں گے!
روح کی گواہی ان ۱۴۴،۰۰۰ کو یہوواہ ”قدوس کی طرف سے مسح کیا گیا ہے۔“ (۱-یوحنا ۲:۲۰) یہ مسح کیا جانا آسمانی امید کے لیے ہے۔ خدا نے ”ان پر مہر کر دی ہے، اور آئندہ جو کچھ آنیوالا ہے اس کا بیعانہ یعنی روح ان کے دلوں میں دے دی ہے۔“ ۲-کرنتھیوں ۱:۲۱، ۲۲، NW۔
جیہاں، آسمانی بلاہٹ والوں کو اسکی بابت خدا کی روح کی گواہی حاصل ہے۔ اس سلسلہ میں پولس نے رومیوں ۸:۱۵-۱۷ میں لکھا تھا: ”تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ لےپالک ہونے کی روح ملی جس سے ہم ”ابا یعنی اے باپ“ کہہ کر پکارتے ہیں! روح خود ہماری روح کے ساتھ ملکر گواہی [دیتی] ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔ اور اگر فرزند ہیں تو وارث بھی ہیں یعنی خدا کے وارث اور مسیح کے ہممیراث بشرطیکہ ہم اس کے ساتھ دکھ اٹھائیں تاکہ اس کے ساتھ جلال بھی پائیں۔“ یہ خدا کی روح یا سرگرم قوت کے وسیلہ ہی سے ہے کہ ممسوح ”ابا، یعنی اے باپ“ پکارتے ہیں!
اس چیز کا بڑا ثبوت کہ کوئی شخص آسمانی بلاہٹ کے لیے مسح کر دیا گیا ہے، فرزندی کی روح یا نمایاں احساس ہے۔ (گلتیوں ۴:۶، ۷) ایسا شخص قطعی یقین رکھتا ہے کہ وہ آسمانی بادشاہت کے ۱۴۴،۰۰۰ ہممیراثوں میں سے ایک کے طور پر روحانی فرزندی کے لیے خدا سے پیدا ہو چکا ہے۔ وہ شہادت دے سکتا ہے کہ اس کی آسمانی امید اسکی اپنی پیداکردہ خواہش یا اس کا تصور نہیں ہے بلکہ یہ اس کے لیے خدا کی روح کے عمل کے نتیجہ کے طور پر یہوواہ کی طرف سے ہے۔ ۱-پطرس ۱:۳، ۴۔
خدا کی روحالقدس کے زیراثر ممسوحوں کا نمایاں رویہ، یا روح قوتمحرکہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ ان کو آسمانی امید کی بابت خدا کا کلام جو کچھ فرماتا ہے اس کا مثبت جواب دینے کی ترغیب دیتی ہے۔ روحالقدس کے ذریعے ان کے ساتھ یہوواہ کے برتاؤ کا بھی وہ مثبت طریقہ سے جواب دیتے ہیں۔ یوں، وہ اسکا پورا یقینرکھتے ہیں کہ وہ خدا کے روحانی فرزند اور وارث ہیں۔
جب ممسوح یہ پڑھتے ہیں کہ خدا کا کلام اس کے روحانی بیٹوں اور آسمانی امید کی بابت کیا کہتا ہے تو وہ فوراً یہ کہنے کی طرف راغب ہوتے ہیں کہ ”اسکا مطلب ہے میں!“ جیہاں، جب ان کے آسمانی باپ کا کلام آسمانی اجر کا وعدہ فرماتا ہے تو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ جب وہ پڑھتے ہیں: ”عزیزو! ہم اس وقت خدا کے فرزند ہیں۔“ تو وہ کہتے ہیں ”اس کا مطلب ہے میں!“ (۱-یوحنا ۳:۲) اور جب ممسوح پڑھتے ہیں کہ خدا نے لوگوں کو ”اپنی مخلوقات میں سے ایک طرح کے پہلے پھل ہو نے“ کے لیے پیدا کیا ہے تو ان کی ذہنی رغبت یوں ہونے لگتی ہے، ”جیہاں، اس نے مجھے اس مقصد کے لیے پیدا کیا تھا۔“ (یعقوب ۱:۱۸) وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ”مسیح یسوع میں اور اسکی موت میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا ہوا ہے۔“ (رومیوں ۶:۳) پس وہ مسیح کے روحانی بدن کا حصہ ہونے کا پکا یقین رکھتے ہیں اور اس کی طرح کی موت کا تجربہ کرنے اور آسمانی زندگی کے لیے زندہ کیے جانے کی امید کو عزیز رکھتے ہیں۔
آسمانی بادشاہت کو ورثہ میں پانے کے لیے ممسوحوں کو لازم ہے کہ ”اپنے بلاوے اور برگزیدگی کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کریں۔“ (۲-پطرس ۱:۵-۱۱، NW) وہ ایمان سے چلتے اور روحانی طور پر ترقی کرتے جاتے ہیں جیسا کہ زمینی امیدوں والے کرتے ہیں۔ پس روح کی گواہی میں اور کیا کچھ شامل ہے؟
ان کے کھانے پینے میں شریک ہونے کی وجہ
ممسوح مسیحی اس لیے آسمان پر نہیں جانا چاہتے کہ وہ موجودہ زمینی زندگی سے بیزار ہیں۔ (مقابلہ کریں یہوداہ ۳، ۴، ۱۶۔) بلکہ روحالقدس ان کی روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتی ہے کہ وہ خدا کے فرزند ہیں۔ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ نئے عہد میں لیے جا چکے ہیں۔ اس عہد کے فریقین یہوواہ خدا اور روحانیاسرائیل ہیں۔ (یرمیاہ ۳۱:۳۱-۳۴، گلتیوں ۶:۱۵، ۱۶، عبرانیوں ۱۲:۲۲-۲۴) یسوع کے بہائے گئے خون سے جاریکردہ یہ عہد یہوواہ کے نام کی ایک امت منتخب کر لیتا ہے اور ان ممسوح مسیحیوں کو ابرہام کی ”نسل“ بناتا ہے۔ (گلتیوں ۳:۲۶-۲۹، اعمال ۱۵:۱۴) نیا عہد اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ تمام روحانی اسرائیل آسمان میں غیرفانی زندگی کے لیے زندہ نہیں کر دیے جاتے۔
مزیدبرآں، جو واقعی آسمانی بلاہٹ رکھتے ہیں انہیں کوئی شبہ نہیں کہ وہ آسمانی بادشاہت کے لیے عہد میں بھی شریک ہیں۔ یسوع نے اپنے اور اپنے پیروکاروں کے درمیان اس عہد کا حوالہ یہ کہتے ہوئے دیا: ”تم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔ اور جیسے میرے باپ نے میرے لیے ایک بادشاہت مقرر کی ہے میں بھی تمہارے لیے مقرر کرتا ہوں تاکہ میری بادشاہت میں میری میز پر کھاؤ پیو بلکہ تم تختوں پر بیٹھ کر اسرائیل کے بارہ قبیلوں کا انصاف کرو گے۔“ (لوقا ۲۲:۲۸-۳۰) یہ عہد یسوع کے ۳۳ س۔ع۔ کے پنتکست کے دن پر انکے روحالقدس سے مسح کیے جانے سے باضابطہ طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ مسیح اور اس کے ساتھی بادشاہوں کے درمیان ابد تک جاری رہتا ہے۔ مکاشفہ ۲۲:۵۔
آسمانی بلاہٹ رکھنے والوں کو کامل یقین ہے کہ وہ نئے عہد اور بادشاہت کے لیے عہد میں شریک ہیں۔ لہذا، وہ خداوند کے عشائیے کی سالانہ یادگاروں یا یسوع مسیح کی موت کی یادگار منانے کے موقع پر واجب طور پر روٹی اور مے میں سے لے کر کھاتے اور پیتے ہیں۔ یہ بےخمیری روٹی یسوع کے گناہ سے پاک انسانی بدن کو اور مے اسکے کامل خون کو ظاہر کرتی ہے جو موت کے وقت اور نئے عہد کو جائز قرار دینے کے لیے بہایا گیا تھا۔ ۱-کرنتھیوں ۱۱:۲۳-۲۶۔
”اگر یہوواہ نے آپکے اندر آسمانی زندگی کی ناقابلانکار امید پیدا کی ہے تو آپ اس کی توقع کر رہے ہیں۔ آپ اس امید کے اظہار میں دعائیں پیش کرتے ہیں۔ یہ آپکی تمامتر توجہ جذب کر لیتی ہے اور آپ اسے اپنی ذات سے الگ نہیں کر سکتے۔ آپ مکمل روحانی آرزوئیں رکھتے ہیں۔ لیکن اگر آپ متفق اور مطمئن نہیں ہیں تو آپکو خداوند کی عشائیہ کی علامتوں میں سے نہیں کھانا پینا چاہیے۔
غلط مفروضات کیوں؟
بعض لوگ شاید اس لیے یادگاری علامتوں میں سے ناجائز طور پر کھاتے پیتے ہیں کہ وہ دراصل تسلیم نہیں کرتے کہ مسح ”نہ ارادہ کرنے والے پرمنحصر ہے اور نہ دوڑ دھوپ کرنے والے پر بلکہ خدا پر۔“ (رومیوں ۹:۱۶) یہ فیصلہ کرنا کسی آدمی اور عورت پر منحصر نہیں کہ آیا وہ نئے عہد میں شامل ہونا اور آسمانی بادشاہت میں مسیح کے ساتھ ہممیراث بننا پسند کریں گے۔ معاملہ یہوواہ کی پسند کا ہے۔ قدیم اسرائیل میں خدا نے ان لوگوں کو چنا تھا جو اس کے کاہنوں کے طور پر خدمت کریں گے اور اس نے قورح کو تکبر سے کہانت کے طالب ہونے کی وجہ سے ہلاک کر دیا تھا جو خدا نے ہارون کے خاندان کے لیے مقرر کی تھی۔ (خروج ۲۸:۱، گنتی ۱۶:۴-۱۱، ۳۱-۳۵، ۲-تواریخ ۲۶:۱۸، عبرانیوں ۵:۴، ۵) اسی طرح سے، اگر ایک شخص اپنے آپکو بلائے ہوئے کے طور پر آسمانی بادشاہوں اور کاہنوں کے درمیان ہونے والا پیش کرتا ہے جبکہ خدا نے اسے ایسی بلاہٹ نہیں دی تو یہ یہوواہ کو ناگوار لگے گا۔ مقابلہ کریں ۱-تیمتھیس ۵:۲۴، ۲۵۔
ہو سکتا ہے ایک شخص شدید مسائل سے پیدا ہونے والی زبردست جذباتیت کے زیراثر غلطی سے فرض کر لیتا ہے کہ اسے آسمانی بلاہٹ حاصل ہے۔ ممکن ہے کہ بیاہتا ساتھی کی موت یا کوئی اور المیہ کسی شخص کے زمین پر زندگی میں دلچسپی کھو دینے کا سبب بن جائے۔ یا شاید کسی کا بہت قریبی ساتھی شاید یہ دعویٰ کرے کہ وہ ممسوحوں میں سے ہے اور وہ شخص بھی اپنے لیے اسی منزل کی خواہش کرے۔ ممکن ہے ایسے اسباب سے وہ محسوس کرنے لگے کہ اس کے لیے زندگی آسمان میں ہے۔ لیکن کسی کو فرزندی کی روح دینے کا یہ خدائی طریقہ نہیں ہے۔ اگر کوئی زمینی زندگی سے وابستہ ناپسندیدہ حالتوں یا جذباتی اذیت کے سبب سے آسمان میں جانے کی خواہش کرتا ہے تو یہ زمین کی بابت خدا کے مقصد کے لیے احسانمندی کی کمی کو ظاہر کرے گا۔
سابقہ مذہبی نظریات بھی ایک شخص کے لیے غلط طور پر یہ فیصلہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں کہ اسے آسمانی بلاہٹ حاصل ہے۔ شاید وہ پہلے کبھی ایک جھوٹے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جس نے ایمانداروں کے لیے آسمانی زندگی ہی واحد امید کے طور پر سامنے رکھی تھی۔ لہذا ایک مسیحی کو اس بات کی ضرورت ہے کہ جذباتیت اور گزشتہ غلط نظریات سے متاثر ہونے سے بچا رہے۔
محتاط جائزہ نہایت اہم
پولس رسول نے ایک نہایت ہی اہم بات بتائی جب اس نے یہ لکھا تھا: ”جو کوئی نامناسب طور پر خداوند کی روٹی کھائے یا اس کے پیالے میں سے پئے وہ خداوند کے بدن اور خون کے بارے میں قصوروار ہو گا۔ پس آدمی اپنے آپ کو آزما لے اور اسی طرح اس روٹی میں سے کھائے اور اس پیالے میں سے پئے۔ کیونکہ جو کوئی کھاتے پیتے وقت خداوند کے بدن کو نہ پہچانے وہ اس کھانے پینے سے سزا پائے گا۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۲۷-۲۹) پس، ایک بپتسمہیافتہ مسیحی جس نے حالیہ برسوں میں یہ سوچنا شروع کیا ہے کہ اسے آسمانی بلاہٹ حاصل ہے اسے اس معاملے کی بابت نہایت محتاط اور دعاگو ہو کر سوچنا چاہیے۔
ایسا شخص خود سے بھی یہ پوچھ سکتا ہے: ”کیا دوسروں نے مجھے متاثر کیا ہے کہ آسمانی زندگی کے خیال کو دل میں جگہ دوں؟“ یہ بات نامناسب ہو گی کیونکہ خدا نے ایسے شرف کے لیے دوسروں کو بھرتی کرنے کا کام کسی کو نہیں سونپا ہے۔ تصورات کی جانب میلان خدا کی طرف سے مسح کا اظہار نہیں ہوگا، اور نہ ہی وہ بادشاہت کے وارثوں کو اسطرح سے مسح کرتا ہے کہ انہیں اس کے متعلق پیغامات کی آوازیں سنائی دیں۔
کچھ لوگ اپنے آپ سے یہ پوچھ سکتے ہیں: ”مسیحی بننے سے پہلے کیا میں منشیات کے ناجائز استعمال میں ملوث تھا؟ کیا میں ایسی ادویات استعمال کر رہا ہوں جو جذبات کو متاثر کرتی ہیں؟ کیا میں نے ذہنی یا جذباتی دشواریوں کا علاج کرایا ہے؟“ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ جسے انہوں نے آسمانی امید خیال کیا تھا پہلے وہ اسی کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ اوروں نے یہ کہا ہے کہ کچھ عرصہ کے لیے خدا نے ان کی زمینی امید چھین لی اور آخرکار انہیں آسمانی امید دے دی۔ لیکن ایسا طریقہکار خدائی برتاؤ کے برعکس ہے۔ علاوہازیں، ایمان غیریقینی نہیں، بلکہ یقینی ہوتا ہے۔ عبرانیوں ۱۱:۶۔
ایک شخص اپنے آپ سے یہ بھی پوچھ سکتا ہے: ”کیا میں شہرت چاہتا ہوں؟ کیا میں اس وقت یا بادشاہوں اور کاہنوں میں سے ایک کے طور پر مسیح کے ساتھ اقتدار کا خواہشمند ہوں؟“ پہلی صدی س۔ع۔ میں جب آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کی عام دعوت دی جا رہی تھی تو تمام ممسوح مسیحی گورننگ باڈی کے ممبروں یا بزرگوں یا خدمتگزار خادموں کے طور پر ذمہدارانہ مراتب نہیں رکھتے تھے۔ بہتیری تو عورتیں تھیں اور وہ کوئی خاص مرتبے نہیں رکھتی تھیں اور نہ ہی روح سے مسح ہونا خدا کے کلام کی غیرمعمولی سمجھ بخشتا ہے، کیونکہ پولس رسول نے یہ ضروری جانا کہ کچھ ممسوحوں کو ہدایت اور مشورت دے۔ (۱-کرنتھیوں ۳:۱-۳، عبرانیوں ۵:۱۱-۱۴) آسمانی بلاہٹ والے اپنے آپکو ممتاز افراد خیال نہیں کرتے اور وہ اپنے ممسوح ہونے کی طرف توجہ مبذول نہیں کرواتے۔ بلکہ وہ فروتنی کا اظہار کرتے ہیں جس کی ”مسیح کی عقل“ رکھنے والوں سے واجب طور پر توقع کی جاتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۶) وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تمام مسیحیوں کو خدا کے راست تقاضوں کو پورا کرنا لازم ہے، خواہ ان کی امید آسمانی ہے یا زمینی۔
آسمانی بلاہٹ کا دعویٰ کرنا کسی شخص کو خصوصی مکاشفے نہیں بخشتا۔ رابطے کے لیے خدا کا ایک ذریعہ ہے جس کے وسیلہ سے وہ اپنی زمینی تنظیم کے لیے روحانی خوراک فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴: ۴۵-۴۷) پس کسی کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ممسوح مسیحی ہونا اسے زمینی امید والی ”بڑی بھیڑ“ سے اعلیٰ حکمت عنایت کرتا ہے۔ (مکاشفہ ۷:۹) روح سے مسح ہونے کا اظہار گواہی دینے میں مہارت، صحیفائی سوالات کا جواب دینے، یا بائبل پر مبنی تقاریر پیش کرنے، سے نہیں ہوتا، کیونکہ زمینی امید رکھنے والے مسیحی بھی ان معاملات میں بہت اچھے ہیں۔ ممسوحوں کی طرح، وہ بھی قابلنمونہ مسیحی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں، سمسون اور مسیحی زمانے سے پیشتر کے دیگر لوگوں کے ساتھ خدا کی روح تھی اور وہ جوش اور سمجھداری سے معمور تھے۔ تاہم، اس ”گواہوں کے بڑے بادل“ میں سے کوئی بھی آسمانی امید نہیں رکھتا تھا۔ عبرانیوں ۱۱:۳۲-۳۸، ۱۲:۱، خروج ۳۵:۳۰، ۳۱، قضاہ ۱۴:۶، ۱۹، ۱۵:۱۴، ۱-سموئیل ۱۶:۱۳، حزقیایل ۲:۲۔
یاد رکھیں کون انتخاب کرتا ہے
اگر ایک ساتھی ایماندار آسمانی بلاہٹ کی بابت پوچھتا ہے تو ایک مقررہشدہ بزرگ یا پختہ ایماندار مسیحی اسکے ساتھ اس معاملے پر گفتگو کر سکتا ہے۔ مگر ایک شخص دوسرے کے لیے اسکا فیصلہ نہیں کر سکتا، اور یہ یہوواہ ہے جو آسمانی امید کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک شخص جسے واقعی آسمانی بلاہٹ ہوتی ہے اسے ساتھی مسیحیوں سے کبھی یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ آیا اسے ایسی امید حاصل ہے۔ ممسوح لوگ ”فانی تخم سے نہیں بلکہ غیرفانی تخم سے، زندہ اور ابدی خدا کے کلام کے وسیلہ سے، نئے سرے سے پیدا ہوئے ہیں۔“ (۱-پطرس ۱:۲۳، NW) خدا اپنی روح اور کلام سے ”تخم“ بوتا ہے جو اس شخص کو آسمانی امید کے ساتھ ”ایک نئی مخلوق“ بنا دیتا ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۷) جیہاں، انتخاب یہوواہ کرتا ہے۔
اس لیے، نئے لوگوں کے ساتھ بائبل مطالعہ کرتے وقت، یہ تجویز کرنا ٹھیک نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کریں کہ آیا وہ آسمانی بلاہٹ رکھتے ہیں۔ لیکن اس وقت کیا ہو اگر ایک ممسوح مسیحی بےوفا ثابت ہوتا ہے اور اس کی جگہ کسی اور کی ضرورت پڑتی ہے؟ تب یہ نتیجہ اخذ کرنا معقول ہو گا کہ خدا آسمانی بلاہٹ کسی ایسے شخص کو دے گا جو بہت سالوں سے ہمارے آسمانی باپ کی وفادارانہ خدمت کرنے میں قابلنمونہ رہا ہے۔
آج کل خدا کے پیغام کا زیادہ زور اس بات پر نہیں کہ لوگ مسیح کی آسمانی دلہن کے ممبر بنیں۔ بلکہ ”روح اور دلہن کہتی ہیں: آ۔“ یہ زمینی فردوس میں زندگی کے لیے دعوت ہے۔ (مکاشفہ ۲۲:۱، ۲، ۱۷) جبکہ ممسوح لوگ اس کارگزاری میں پیشوائی کرتے ہیں وہ ”کمال فروتنی“ دکھاتے ہیں اور”اپنے بلاوے اور برگزیدگی کو یقینی“ بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ افسیوں ۴:۱-۳، ۲-پطرس ۱:۵-۱۱۔ (۱۹ ۳/۱۵ w۹۱)